ایک بار پھر آپ کی باتوں میں نرا فلسفہ ہی فلسفہ ہے۔ اگر سچے ہو۔۔۔۔ تو قران حکیم سے دلیل فراہم کرنا فرض ہے۔
میری پچھلی پوسٹس کو دوبارہ سہ بارہ ٹھنڈے دل کے ساتھ پڑھ لیجئے۔ ۔ قرآن حکیم سے ہی آیات پیش کر کے دلائل دیئے ہیں۔(جنکو آپ نے فلسفہ کہہ کرجان چھڑا لی ہے
) ان دلائل پر ذرا غور و فکر کی زحمت کیجئے۔
آپ کے آئی کیو کے پیش نظر دو واضح آیات پھر پیش کر دیتا ہوں جو نسخ کی دلیل ہیں ان آیات کو ٹھنڈے دل سے پڑھئے اور میں نے جن نکات کو اٹھایا ہے اور گذشتہ مراسلوں میں جو نسخ کی مثالیں دی ہیں انکی روشنی میں واضح ہو جائے گا کہ اللہ نے اپنی حکمت کے تحت قرآن کے بعض احکامات تدریجاّ نازل کئے اور بعض احکامات کو سرکمسٹانسز کے تحت منسوخ بھی کیا اور بعض آیات کو ذہنوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محو بھی کیا۔ ۔ ۔
نسخ کی قرآنی دلیل :
مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا
ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے۔
آیت بڑی واضح ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ آیت گذشتہ کتابوں پر بھی لاگو ہوتی ہے اور قرآن حکیم پر بھی۔ ان سب کونازل کرنے والا ایک ہی ہے۔ اس آیت میں قرآن حکیم میں نسخ کا واضح اثبات ہے اور اس بات کا بھی اثبات ہے کہ کچھ آیات فراموش بھی کرا دی گئیں۔
ہماری اس بات کی کئی دلیلیں ہیں نسخ کی مثالیں ہیں جنکو آپ نے بھی تسلیم کیا کہ قرآن میں بعض احکامات ایک خاص مدت تک تھے جب انکی مدت پوری ہوگئی تو نئے احکامات کا اجراء کیا گیا۔ لیکن آپ اس عمل کو نسخ نہیں کہتے بلکہ احکامات کا تسلسل کہتے ہیں۔ لیکن ہمارا نقطہءِ نظر یہ ہے کہ جب آیت میں نسخ کا لفظ موجود ہے تو ہم اسکو کیوں نہ استعمال کریں؟ ہم نسخ کا لفظ استعمال کرنے کو عین قرآن کے مطابق سمجھتے ہیں لیکن اس نسخ کے وہی معنے لیتے ہیں جو اللہ کی بارگاہ کے لائق ہیں جسطرح قرآن میں آیا ہے کہ اللہ سنتا ہے، دیکھتا ہے، ہنستا ہے، مذاق کرتا ہے، بھول جاتا ہے، شرم بھی کرتا ہے، اسکا ایک تخت ہے جس پر وہ کھڑا ہے، اسکی ایک کرسی ہے، اسکے دو ہاتھ ہیں، اسکی پنڈلی بھی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ تو ان سب آیات کے اور اللہ کے ان افعال کو ہم بعینہ ان معنوں میں نہیں لے سکتے جن معنوں میں یہ سب صفات و افعال ہم اپنے لئے اور دوسری مخلوقات کیلئے استعمال کرتے ہوں بلکہ ہم انکو ان معنوں میں لیتے ہیں جو اللہ کی شان کے لائق ہوں اور جن سے اللہ کے متصف ہونے کی اصل کیفیت اللہ ہی جانتا ہے ہم نہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ اللہ نے اپنے متعلق جو کہا وہ حق ہے لیکن اسکی کیفیت کا علم اللہ کے پاس ہی ہے۔ اسی طرح نسخ کرنا بھی انہی افعال میں آتا ہے ۔ پس ہم ایمان لاتے ہیں کہ اللہ نسخ کرتا ہے لیکن اسکا نسخ کرنا ہم لوگوں کو نسخ کی طرح نہیں ہے۔۔ ۔ ۔ اب یہ بات جو میں نے کہی ہے اگر یہ غلط ہے اور محض فلسفہ ہے تو پھر آپ ان سباللہ کے ان افعال و صفات کو بالکل انہی معنوں اور کیفیات میں استعمال کرتے رہئیے جن میں آپ انکو اپنی ذات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
اب دوسری بات۔ ۔ ۔ ۔
آپ کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف اور صرف پرانی کتابوں کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ جب ہم اسکی دلیل مانگتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں کہ شیطان نے پچھلی کتابوں میں اپنی طرف سے کچھ ملا دیا تھا اور خلل ڈالا تھا اللہ صرف انہی ایات کو منسوخ کرنے کی بات کر رہا ہے۔ یہ بات اس حد تک تو ہم درست مانتے ہیں کہ پچھلی کتابوں میں شیطان نے خلل ڈالا اوربعض آیات میں تحریف کردی اور اسکا تذکرہ سورہ حج کی آیت 53 میں بھی واضح طور پر ملتا ہے۔ ۔ ۔ لیکن آپ کا یہ کہنا کہ سورہ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت جو ہم نے اوپر پیش کی، اس میں انہی تحریف شدہ پرانی کتابوں کی آیات کا ذکر ہے قرآن کی آیات کا نہیں۔ ۔ ۔ تو اس سلسلے میں بھائی ہماری عرض پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں:
آیت میں اللہ نے کہا ہے کہ
ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے۔۔ ۔ ۔آیت خود ہی اپنی وضاحت آپ کررہی ہے۔ اگر یہ ان آیات کا تذکرہ ہوتا جن میں شیطان نے خلل اندازی کی اور تحریف کردی تو اللہ تعالی یہ کبھی نہ کہتے کہ "اس جیسی آیت لے آتے ہیں"۔ ۔ اس جیسی کا کیامطلب ہوتا ہے؟ اگر یہ تحریف شدہ آیت منسوخ ہو رہی ہے تو اس جیسی لانے کا کیا مطلب ہے؟ آپ کے کہنے کے مطابق اگر یہ صرف وہ آیت ہے جس میں شیطان نے تحریف کرکے غلط بات ڈال دی تو پھر اس جیسی آیت لانے کا کیا مقصد ہے؟
اگر آیت میں خالی یہ ہوتا کہ "ہم اس سے بہتر آیت لے آتے ہیں" تو پھر تو آپکی بات قابل قبول تھی۔ ۔ لیکن بھائی اس مین "اس جیسی" کا بھی ذکر ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ شیطان کی تحریف شدہ گمراہ کن آیت نہیں ہوسکتی۔ ۔۔ ۔ ۔
دوسری دلیل اسی آیت میں یہ ہے کہ اللہ نے اسی میں فرمایا کہ" ہم جب فراموش کرادیتے ہیں"۔ ۔ جب ہم نے سورہ اعلی کی آیت پڑھی جس میں اللہ نے رسول کریم کو مخاطب کرکے کہا کہ " ہم تمہیں آیات پڑھائیں گے پھر تم انکو بھولو گے نہیں سوائے اسکے جو ہم بھلا دیں"۔ ۔ اس آیت میں بھی وہی بات ہے کہ اللہ اپنے رسول کو کونسی آیات پڑھا رہا ہے قرآن کی یا انجیل و توریت و زبور کی؟؟؟اور کونسی آیات کے متعلق کہہ رہا ہے کہ تم بھولو گے نہیں۔ قرآن کی یا انجیل و توریت و زبور کی؟؟؟؟؟ لازمی بات ہے کہ قرآن کی آیات کا ذکر ہو رہا ہے۔پھر اسی آیت میں اللہ نے کہہ دیا کہ "تم بھولو گے نہیں سوائے اسکے جو ہم بھلا دیں" تو یہ جن آیات کی ایکسیپشن کرکے بھلانے کی بات ہورہی ہے یہ وہی آیات تو ہیں جو رسول کریم پر نازل ہوئیں لیکن بعد میں انہیں بھلا دیا گیا اور اسی بھلا دینے کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت جو ہم نے اوپر پیش کی ہے اس میں بھی ہے۔
پس یہ روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ یہ آیت جو ہم نے سب سے اوپر پیش کی یہی سب سے بڑی دلیل ہے قرآن میں نسخ کی۔
اسکا کوئی جواب آپ آج تک نہیں دے سکے۔ سوائے یہ کہنے کہ کہ فلسفہ ہے
اور جب ہم اس موقف کی تائید میں احادیث، صحابہ کے اقوال و آثار، تمام مفسرین کی تفسیریں، تمام علماء و فقہاء و محدثین اور محققین کا حوالہ دیتے ہیں تو وہ بھی آپ کو قابل قبول نہیں کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ" ان سب کو میرے پاس لے آئیے میں انکو یہ بات سمجھادوں گا اور وہ سمجھ جائیں گے
" نیز یہ کہ ان سب پرکھوں کا حوالہ پیش کرنا گویا انکی پوجا کرنا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون۔ سبحان اللہ۔ ۔ ۔کیسے کیسے لوگ ہمارے دل کو جلانے آجاتے ہیں
اعوذ باللہ ان اکون من الجاہلین۔ ۔ ۔