اگر کہیں ہوتا یہ غیر اللہ کی طرف سے تو ضرور پاتے یہ اس میں -- اختلافاَ كثيراً

آپ کو تمام ثبوت فراہم کردیے گئے ہیں۔ سکون سے پڑھئیے۔ نرا فلسفہ ہی فلسفہ ہے ، ایک جگہ بھی قرآن حکیم سے کوئی دلیل نہیں‌لاسکے۔
:grin::grin::grin:واقعی آپ نے تمام ثبوت فراہم کردئے اور میں نے انکو سکون سے پڑھ بھی لیا چنانچہ میں بھی اسی نتیجے پر بہنچا ہوں جس پر آپ نے گواہی دیدی کہ 'نرا فلسفہ ہی فلسفہ ہے ایک جگہ بھی قرآن حکیم سے کوئی دلیل نہیں لاسکے':applause: بہت شکریہ آخر آپ نے تسلیم کرہی لیا:grin:۔
 
جس کو چاہے صاحب کشاف سمجھ لیجئے، زمخشری کو یا علی ھجویری کو، یا پھجا چھولے والے کو۔ بات یہ ہے کہ جب تک ان انسانوں یعنی پرکھوں‌کی پوجا نہیں‌چھوٹے گی ، یہ عقدہ نہیں‌کھلے گا کہ اللہ کا فرمان، قرآن کا پیغام ہے کیا۔
یہ بات اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں کہ کون اپنے نفس کی پُوجا باٹھ میں مشغول ہے اور کون پرکھوں میں۔
اگر اللہ سے نماز کی ہر رکعت میں یہ سوال کرنا کہ "ہم کو انکے راستے پر چلا جن پر تو نے اپنا انعام کیا" پرکھوں کی پوجا کا نام ہے تو صاحب آپ اسے جس نام سے بھی پکاریں ہم تو یہ کرتے رہیں گے۔
اور اگر جہلِ مرکب میں مبتلا نفس کے پجاری کو یہ کہا جائے کہ " ایمان لے آؤ جس طرح اور لوگ ایمان لے آئے" تو وہ ان لوگوں کی 'پھجا چھولے والا' کہہ کر تضحیک کرتے ہوئے یوں جواب دے کہ" کیا ہم گھٹیا اور کمینے لوگوں کی طرح ایمان لے آیئں؟"۔ ۔ تو اللہ نے اس کے جواب میں یہ کہ دیا ہوا ہے کہ "سن لو۔ ۔ یہی لوگ گھٹیا اور کمینے ہیں"
 
ایک بار پھر آپ کی باتوں‌ میں نرا فلسفہ ہی فلسفہ ہے۔ اگر سچے ہو۔۔۔۔ تو قران حکیم سے دلیل فراہم کرنا فرض ہے۔
میری پچھلی پوسٹس کو دوبارہ سہ بارہ ٹھنڈے دل کے ساتھ پڑھ لیجئے۔ ۔ قرآن حکیم سے ہی آیات پیش کر کے دلائل دیئے ہیں۔(جنکو آپ نے فلسفہ کہہ کرجان چھڑا لی ہے:grin:) ان دلائل پر ذرا غور و فکر کی زحمت کیجئے۔
آپ کے آئی کیو کے پیش نظر دو واضح آیات پھر پیش کر دیتا ہوں جو نسخ کی دلیل ہیں ان آیات کو ٹھنڈے دل سے پڑھئے اور میں نے جن نکات کو اٹھایا ہے اور گذشتہ مراسلوں میں جو نسخ کی مثالیں دی ہیں انکی روشنی میں واضح ہو جائے گا کہ اللہ نے اپنی حکمت کے تحت قرآن کے بعض احکامات تدریجاّ نازل کئے اور بعض احکامات کو سرکمسٹانسز کے تحت منسوخ بھی کیا اور بعض آیات کو ذہنوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محو بھی کیا۔ ۔ ۔
نسخ کی قرآنی دلیل :
مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے۔
آیت بڑی واضح ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ آیت گذشتہ کتابوں پر بھی لاگو ہوتی ہے اور قرآن حکیم پر بھی۔ ان سب کونازل کرنے والا ایک ہی ہے۔ اس آیت میں قرآن حکیم میں نسخ کا واضح اثبات ہے اور اس بات کا بھی اثبات ہے کہ کچھ آیات فراموش بھی کرا دی گئیں۔
ہماری اس بات کی کئی دلیلیں ہیں نسخ کی مثالیں ہیں جنکو آپ نے بھی تسلیم کیا کہ قرآن میں بعض احکامات ایک خاص مدت تک تھے جب انکی مدت پوری ہوگئی تو نئے احکامات کا اجراء کیا گیا۔ لیکن آپ اس عمل کو نسخ نہیں کہتے بلکہ احکامات کا تسلسل کہتے ہیں۔ لیکن ہمارا نقطہءِ نظر یہ ہے کہ جب آیت میں نسخ کا لفظ موجود ہے تو ہم اسکو کیوں نہ استعمال کریں؟ ہم نسخ کا لفظ استعمال کرنے کو عین قرآن کے مطابق سمجھتے ہیں لیکن اس نسخ کے وہی معنے لیتے ہیں جو اللہ کی بارگاہ کے لائق ہیں جسطرح قرآن میں آیا ہے کہ اللہ سنتا ہے، دیکھتا ہے، ہنستا ہے، مذاق کرتا ہے، بھول جاتا ہے، شرم بھی کرتا ہے، اسکا ایک تخت ہے جس پر وہ کھڑا ہے، اسکی ایک کرسی ہے، اسکے دو ہاتھ ہیں، اسکی پنڈلی بھی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ تو ان سب آیات کے اور اللہ کے ان افعال کو ہم بعینہ ان معنوں میں نہیں لے سکتے جن معنوں میں یہ سب صفات و افعال ہم اپنے لئے اور دوسری مخلوقات کیلئے استعمال کرتے ہوں بلکہ ہم انکو ان معنوں میں لیتے ہیں جو اللہ کی شان کے لائق ہوں اور جن سے اللہ کے متصف ہونے کی اصل کیفیت اللہ ہی جانتا ہے ہم نہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ اللہ نے اپنے متعلق جو کہا وہ حق ہے لیکن اسکی کیفیت کا علم اللہ کے پاس ہی ہے۔ اسی طرح نسخ کرنا بھی انہی افعال میں آتا ہے ۔ پس ہم ایمان لاتے ہیں کہ اللہ نسخ کرتا ہے لیکن اسکا نسخ کرنا ہم لوگوں کو نسخ کی طرح نہیں ہے۔۔ ۔ ۔ اب یہ بات جو میں نے کہی ہے اگر یہ غلط ہے اور محض فلسفہ ہے تو پھر آپ ان سباللہ کے ان افعال و صفات کو بالکل انہی معنوں اور کیفیات میں استعمال کرتے رہئیے جن میں آپ انکو اپنی ذات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
اب دوسری بات۔ ۔ ۔ ۔
آپ کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف اور صرف پرانی کتابوں کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ جب ہم اسکی دلیل مانگتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں کہ شیطان نے پچھلی کتابوں میں اپنی طرف سے کچھ ملا دیا تھا اور خلل ڈالا تھا اللہ صرف انہی ایات کو منسوخ کرنے کی بات کر رہا ہے۔ یہ بات اس حد تک تو ہم درست مانتے ہیں کہ پچھلی کتابوں میں شیطان نے خلل ڈالا اوربعض آیات میں تحریف کردی اور اسکا تذکرہ سورہ حج کی آیت 53 میں بھی واضح طور پر ملتا ہے۔ ۔ ۔ لیکن آپ کا یہ کہنا کہ سورہ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت جو ہم نے اوپر پیش کی، اس میں انہی تحریف شدہ پرانی کتابوں کی آیات کا ذکر ہے قرآن کی آیات کا نہیں۔ ۔ ۔ تو اس سلسلے میں بھائی ہماری عرض پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں:
آیت میں اللہ نے کہا ہے کہ ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے۔۔ ۔ ۔آیت خود ہی اپنی وضاحت آپ کررہی ہے۔ اگر یہ ان آیات کا تذکرہ ہوتا جن میں شیطان نے خلل اندازی کی اور تحریف کردی تو اللہ تعالی یہ کبھی نہ کہتے کہ "اس جیسی آیت لے آتے ہیں"۔ ۔ اس جیسی کا کیامطلب ہوتا ہے؟ اگر یہ تحریف شدہ آیت منسوخ ہو رہی ہے تو اس جیسی لانے کا کیا مطلب ہے؟ آپ کے کہنے کے مطابق اگر یہ صرف وہ آیت ہے جس میں شیطان نے تحریف کرکے غلط بات ڈال دی تو پھر اس جیسی آیت لانے کا کیا مقصد ہے؟:) اگر آیت میں خالی یہ ہوتا کہ "ہم اس سے بہتر آیت لے آتے ہیں" تو پھر تو آپکی بات قابل قبول تھی۔ ۔ لیکن بھائی اس مین "اس جیسی" کا بھی ذکر ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ شیطان کی تحریف شدہ گمراہ کن آیت نہیں ہوسکتی۔ ۔۔ ۔ ۔
دوسری دلیل اسی آیت میں یہ ہے کہ اللہ نے اسی میں فرمایا کہ" ہم جب فراموش کرادیتے ہیں"۔ ۔ جب ہم نے سورہ اعلی کی آیت پڑھی جس میں اللہ نے رسول کریم کو مخاطب کرکے کہا کہ " ہم تمہیں آیات پڑھائیں گے پھر تم انکو بھولو گے نہیں سوائے اسکے جو ہم بھلا دیں"۔ ۔ اس آیت میں بھی وہی بات ہے کہ اللہ اپنے رسول کو کونسی آیات پڑھا رہا ہے قرآن کی یا انجیل و توریت و زبور کی؟؟؟اور کونسی آیات کے متعلق کہہ رہا ہے کہ تم بھولو گے نہیں۔ قرآن کی یا انجیل و توریت و زبور کی؟؟؟؟؟ لازمی بات ہے کہ قرآن کی آیات کا ذکر ہو رہا ہے۔پھر اسی آیت میں اللہ نے کہہ دیا کہ "تم بھولو گے نہیں سوائے اسکے جو ہم بھلا دیں" تو یہ جن آیات کی ایکسیپشن کرکے بھلانے کی بات ہورہی ہے یہ وہی آیات تو ہیں جو رسول کریم پر نازل ہوئیں لیکن بعد میں انہیں بھلا دیا گیا اور اسی بھلا دینے کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت جو ہم نے اوپر پیش کی ہے اس میں بھی ہے۔
پس یہ روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ یہ آیت جو ہم نے سب سے اوپر پیش کی یہی سب سے بڑی دلیل ہے قرآن میں نسخ کی۔
اسکا کوئی جواب آپ آج تک نہیں دے سکے۔ سوائے یہ کہنے کہ کہ فلسفہ ہے;)
اور جب ہم اس موقف کی تائید میں احادیث، صحابہ کے اقوال و آثار، تمام مفسرین کی تفسیریں، تمام علماء و فقہاء و محدثین اور محققین کا حوالہ دیتے ہیں تو وہ بھی آپ کو قابل قبول نہیں کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ" ان سب کو میرے پاس لے آئیے میں انکو یہ بات سمجھادوں گا اور وہ سمجھ جائیں گے:)" نیز یہ کہ ان سب پرکھوں کا حوالہ پیش کرنا گویا انکی پوجا کرنا ہے:)۔ ۔ ۔ ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون۔ سبحان اللہ۔ ۔ ۔کیسے کیسے لوگ ہمارے دل کو جلانے آجاتے ہیں:)
اعوذ باللہ ان اکون من الجاہلین۔ ۔ ۔
 
ًمحمود صاحب دہرا کر لکھتے ہیں کہ:
[arabic]مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[/arabic] ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے۔

اس کا جواب محمود غزنوی صاحب کو دیا گیا کہ :
یہاں‌صرف یہ بتایا گیا ہے کہ جب کوئی آیت منسوخ کی جاتی ہے یا فراموش کرادی جاتی ہے تو ایک نئی اور بہتر آہت فراہم کردی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ یہاں‌کچھ بھی نہیں ۔ یہاں‌یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ کونسی آیات کا نسخ ہوتا ہے اور نہ ہی یہ بتایا جارہا ہے کہ قرآں کی آیات کا نسخ ہوتا ہے بس صرف ی ہکہا جارہا ہے کہ جب آیات کا نسخ ہوتا ہے تو بہتر آیات فراہم کی جاتی ہیں۔


اب غزنوی ‌صاحب بضد ہیں‌کہ اس کے علاوہ کہیں بھی نسخ کا تذکرہ نہیں ہوا۔ وہ سورۃ الحج کی درج ذیل آیات کو ماننے اور پڑھنے سے انکار کرتے ہیں جو یہ بتاتی ہیں‌کہ

1۔ کیا نسخ کیا جاتا ہے اور کیوں نسخ کیا جاتا ہے ؟ ---- سابقہ کتب کی وہ آیات جن پر شیطان نے خلل ڈالا
2۔ کون لوگ اس نسخ سے آیات کو مشکوک کرنا چاہتے ہیں ؟ ---- جو لوگ صاحب جحیم ہیں
3۔ یہ کب تک ہوتا رہے گا۔ ؟ -------- ایسا قیامت تک ہوتا رہے گا۔
4۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ کیا ہے؟ ----- یہ لوگ صاحب جحیم ہیں

یہ کیوں‌نہیں مانتے ان آیات کو، ایسا کیوں‌ہے؟؟؟؟‌ اس کی وجہ ہے قرآں سے اپنی پسند کی آیات کو لے لینا اور اللہ تعالی کی حق و انصاف کی آیات کو چھپا دینا۔ آئیے ان سوالات کے جوابات دیکھتے ہیں ۔۔۔ دوبارہ، اس لئے کہ لوٹ‌پھر کر غزنوی صاحب دوبارہ یہی سوال صرف ایک ہی آیت سے دہراتے ہیں۔ چونکہ بار بار دہرانے کا کوئی فائیدہ نہیں‌لہذا میں نآطمین سے درخواست ہے کہ اب اگر غزنوٰ صاحب اسی آیت کو دوبارہ پیش کریں تو ان کا مراسلہ حذف کردیں ، اس نوٹ‌کے ساتھ کہ اس آیت کو بارہا پیش کیا جاچکا ہے اور اس کے جواب میں‌ سورۃ الج کی آیات 49 تا 57 پیش کی جاچکی ہیں۔







[ayah]22:49[/ayah] کہہ دو (اے نبی) اے لوگو! درحقیقت میں تو بس تمہیں خبردار کرنے والا ہوں واضح طور پر۔
[ayah]22:50 [/ayah]سو جو لوگ ایمان لائے اور کیے اُنہوں نے اچّھے عمل ان کے لیے ہے مغفرت اور روزی عزّت کی۔

2۔ کون لوگ اس نسخ سے آیات کو مشکوک کرنا چاہتے ہیں ؟
[ayah]22:51[/ayah] اور وہ لوگ جو کوشش کریں گے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کی ایسے ہی لوگ اہلِ دوزخ ہیں۔

1۔ کیا نسخ کیا جاتا ہے اور کیوں نسخ کیا جاتا ہے ؟
[ayah]22:52[/ayah] اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی مگر (ایسا ہوتا رہا) کہ جب اس نے تلاوت کی تو خلل اندز ہوا شیطان اُس کی تلاوت میں۔ پھر مٹا دیتا رہا اللہ اس خلل اندازی کو جو شیطان کرتا رہا پھر پختہ کردیتا رہا اللہ اپنی آیات کو اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
[ayah]22:53 [/ayah]یہ اس لیے کرتا ہے کہ بنادے اللہ شیطان کے ڈالے ہُوئے خلل کو آزمائش ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور سخت ہیں جن کے دل اور بے شک یہ ظالم مخالفت میں بہت دُور نکل گئے ہیں۔
[ayah]22:54[/ayah] اور اس لیے بھی کرتا ہے کہ جان لیں وہ لوگ جنہیں دیا گیا ہے علم کہ بے شک قرآن حق ہے تیرے رب کی طرف سے پھر وہ ایمان لے آئیں اس پر اور جھک جائیں اس کے آگے ان کے دل۔ اور یقینا اللہ ہدایت دیتا ہے ان لوگوں کو جو ایمان لائے، سیدھے راستے کی۔

3۔ یہ کب تک ہوتا رہے گا۔ ؟
[ayah]22:55 [/ayah] اور ہمیشہ پڑے رہیں گے وہ لوگ جو کافر ہیں شک میں اس کے بارے میں حتیٰ کہ آجائے گی اُن پر قیامت کی گھڑی اچانک یا آجائے گا اُن پر عذاب نامبارک دن کا۔
[ayah]22:56[/ayah] بادشاہی ہوگی اُس دن اللہ کی۔ فیصلہ کرے گا ان کے درمیان پھر جو لوگ ایمان لائے اور کیے انہوں نے نیک عمل (ہوں گے وہ) نعمت بھری جنتوں میں۔

4۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ کیا ہے؟
[ayah]22:57[/ayah] اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہوگا اور جھٹلایا ہوگا ہماری آیات کو سو ایسے ہی لوگ ہیں کہ اُن کے لیے عذاب رسواکن۔

اگر کوئی مسلمان ہے تو اس کے لئے اللہ تعالی کی گواہی سب سے اہم ہے۔

اللہ تعالی بتاتے ہیں کہ صرف ان آیات کی تنسیخ کی گئی کہ جن میں شیطان نے سابقہ نبیوں کی تلاوت کے دوران خلل ڈالا۔ رسول اللہ کی تلاوت شدہ آیات میں شیطان نے خلل نہیں ڈالا۔
اللہ تعالی بتاتے ہیں کہ ایسا قیامت تک ہوتا رہے گا کہ لوگ اللہ تعالی کی آیات کو شکوک پیدا کرنے کے لئے منسوخ قرار دیتے رہیں گے۔
اللہ تعالی بتاتے ہیں کہ ایس شکوک ڈالنے والے لوگوں کا ٹھکانہ جحیم ہوگا۔
اللہ تعالی بتاتے ہیں کہ اس کا فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا۔

ناظمین سے گذارش ہے کہ محمود غزنوی صاحب اگر پھر دہرا دہرا کر [ayah]2:106[/ayah] ایک ہی آیت پیش کریں اور اس سے بے بنیاد معانی نکالنے کی کوشش کریں تو اس کو حذف کرکے ان کی توجہ اس مراسلے کی طرف مبذول کرادی جائے۔ کہ اس کا جواب بار بار سورۃ الحج کی آیات کی مدد سے دیا جاچکا ہے۔ یہ واجح ہے کہ یہ پڑھتے نہیں ہیں دوبارہ پڑھ لیں۔

والسلام
 
:) میرا خیال ہے بہت ہوچکی ہے۔ میں‌نے بھی اپنا نقطہءِ نظر کافی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے اور آپ نے بھی شائد۔ ۔ ۔ ۔لہذا ایک دوسرے کو منوانے یا قائل کرنے کا خیالِ خام ذہن سے نکالتے ہیں اور اس بحث کو یہیں پر اب ختم کردیتے ہیں۔
پڑھنے والے جنکو اس موضوع سے دلچسپی ہوگی، انکو امید ہے اس بحث سے دونوں اطراف کے دلائل کو سمجھنے کا موقع مل گیا ہوگا۔
آخر میں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ ہم سب کو ، آپ کو بھی اور مجھے بھی اور پڑھنے والوں کو بھی ہدایت نصیب کرے اور ہم سب کو گمراہی سے بچائے۔
ربّنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ھب لنا من لّدنک رحمۃ انّک انت الوہاب۔ ۔ ۔ آمین۔
 
Top