فاروق سرور خان
محفلین
برادر من محمود احمد غزنوی، سلام علیکم
آپ نے جو وضاحت کی ہے وہ بالکل درست ہے کہ قرآن میں کوئی حکم کینسل نہیں ہوا۔ لیکن شاید الفاظ (ناسخ و منسوخ) کا انتخاب اتبا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے کسی بھی حکم کو منسوخ شدہ سمجھنا اس حکم سے انکار ہے۔ جو [ayah]2:99[/ayah] کے مطابق اللہ تعالی کی نافرمانی ہے۔ آپ سکون سے درج ذیل معلومات کو دیکھئے۔ میں نے اللہ کے فرمان ، قرآن حکیم کو ایک ترتیب سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
رسول اکرم کی زندگی سے جس مثال کو میں نے ایک حکم کی تکمیل کے ضمن میں فراہم کیا تھا وہ کسی حکم کے منسوخ ہونے کی مثال نہیںہے۔ بلکہ حکم کے تکمیل کی مثال ہے۔ مسلمانوں کے لئے قرآن حکیم کے فراہم کردہ احکامات میں کوئی حکم منسوخنہیں ہوا۔ ایک کام کرنے کا حکم دینا اور کام مکمل ہونے پر یہ بتا دینا کہ اب یہ کام مکمل ہوگیا ہے مزید اس پر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں کسی طور بھی ایک حکم کی تنسیخ یا اس کا منسوخ ہونا تصور نہیںکیا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ ساسخ و تنسیخ کی کتب میں یہ دو آیات جن کی میںنے مثال دی نہیں ملتی ہیں۔
ناسخ و تنسیخ کا فلسفہ خصوصی طور پر اس لئے ایجاد کیا کہ یہ بتایا جاسکے کہ اللہ تعالی کے فرمان، قرآن کی آیات کے احکامات ایک دوسرے کی تنسیخکرتے ہیں۔ اس تنسیخ کے عمل میں جس میں آیات و روایات دونوںشامل ہیں۔ اس کا واحد مقصد اللہ تعالی کو نعوذ باللہ ایک انسان جیسی عقل والا ثابت کرنا ہے کہ یا تو اللہ تعالی سے (نعوذ باللہ ) غلطی ہوتی رہی (معاذ اللہ) یا پھر اللہ تعالی ایک آیت نازل کرکے بھول گیا اور پھر ایک مختلف قسم کا حکم نازل کردیا (نعوذ باللہ)
اس کی مثال آپ کو دین سے اور دنیا سے دیتا ہوں:
دین سے:
اللہ تعالی نے رسول اللہ کو حکم دیا کہ اللہ تعالی کا پیغام، قرآن مجید دنیا کے ہر بندے تک پہنچادیجئے۔
آیت کے ریفرنس کے لئے یہاںکلک کیجئے: [ayah]5:67[/ayah]
اس حکم کے بعد رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام ہر شخص کو پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ---
مکل آیت کا لنک : [ayah]5:3[/ayah]
دین کی تکمیل کے حکم کے بعد کیا دین کو انسانوں کو پہنچانے کا سلسلہ ختم ہوگیا؟ یقیناً نہیں۔ گویا کسی عمل کی تکمیل کا حکم قطعاً اس حکم کی منسوخی کی دلیل نہیں ہے۔ اس کے لئے ناسخ و منسوخ کے الفاظ استعمال کرنا، (کینسل اور کینسل کرنے والا حکم) یقینی طور پر ایک ناگوار فلسفہ ہے۔
دنیا سے مثال:
زید تیل کے کنویں کھدواتا ہے۔ بکر کے پاس رگ ہے وہ کنویں کھودتا ہے۔ زید بکر کو حکم دیتا ہے کہ اس معاہدے کے مطابق اور اس رقم کے عوضتم اس جگہ 6000 فٹ تک یا تیل نکل آنے تک کنواں کھودو، بکر 5600 فیٹ پر تیل پالیتا ہے۔ زید کہتا ہے کہ تم اب رک جاؤ،
کیا یہ رک جانا اصل حکم اور معاہدے کی تنسیخہے یا پھر یہ نیا حکم اس اصل حکم یا معاہدے کی تکمیل ہے۔
کسی عمل کا مکمل ہوجانا ، اس کے احکامات کی تنسیخنہیںکرتا۔ لہذا قرآن کے احکامات کے لئے ناسخ و منسوخ کی اصطلاح ایجاد کرکے پھر روایات سے یہ ثابت کرکے کہ صاحب پوری ایک سورۃ اللہ تعالی نے بھلادی تھی یا یہ حکم اب نافذ نہیں ہوگا کہ اس کی تنسیخ ہوچکی ہے ایک درست طرز عمل یا درست سوچ نہیں ہے۔
جس مثال کو اجاگر کرکےہ ناسخ و تنسیخ کے فلسفہ کو درست قرار دئے جانے کی کوشش کی ہے وہ ایک حکم رسول اکرم کے لئے تھا، دیگر مسلمیں کے لئے نہیںتھا۔ اس عمل کی تکمیل پر رسول اکرم کو رک جانے کا حکم دیا گیا۔ ناسخ و تنسیخ (کینسل ہونے والا اور کینسل کرنے والے ) قسم کے احکامات قرآن میں موجود نہیں ہے۔
[ayah]2:2[/ayah] [arabic]ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ [/arabic]
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے
جس کتاب میں شک موجود نہیں، اس خود اللہ تعالی کے احکامات کو منسوخ کرنے والے احکامات کہاں سے آسکتے ہیں؟
جس منسوخی اور بھلا دینے کا ذکر اللہ تعالی [arabic]2:106 [/arabic] میںکرتا ہے وہ ان آیات کے کی منسوخی اور بھلا دینے کے بارے میں ہے جن میں جعل سازی کی گئی۔ دیکھئے۔
[ayah]16:101 [/ayah][arabic]وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ[/arabic]
اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ حالانکہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازِل کرے؟ تو یہ کہتے ہیں کہ بس تم خود ہی گھڑلیتے ہو (یہ کلام)۔ دراصل اکثر لوگ ان میں سے (حقیقت سے) بے خبر ہیں۔
ہم کو باوجود ہزار کوشش کے ایک بھی آیت ایسی نہیں ملتی جو قرآن حکیم کے ایک حکم کی تردید یا منسوخی کرتی ہو۔
جبکہ اس آیت سے واضح ہے کہ کفار رسول اکرم پر یہ الزام رکھتے تھے کہ -- سابقہ کتب میں موجود آیات میں درج معلومات کی منسوخی قرآن حکیم کی آیات سے ہوتی ہے۔ ورنہ پھر آپس میں مقابلہ (کمپیئر) کرنے کے لئے مواد کیا تھا؟؟
اب مزید دیکھئے اس معلومات کی مزید وضاحت کہ یہ تنسیخ سابقہ کتب کی آیات کے لئے ہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ان دو آیات کو پڑھنے کے بعد یقینی طور پر مطمئن ہوجائیں گے۔
[ayah]13:38[/ayah] [arabic]وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ[/arabic]
اور بے شک بھیجے ہیں ہم نے بہت سے رسُول تم سے پہلے اور بنایا تھا ہم نے اُنہیں بیوی بچّوں (والا) اور نہیں ہے طاقت کسی رسُول کی کہ لا دکھائے کوئی نشانی (از خود) بغیر اللہ کے اِذن کے۔ ہر دور کے لیے ہے ایک کتاب۔
[ayah]13:39[/ayah] [arabic]يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ[/arabic]
اور مٹا دیتا ہے اللہ جو کچھ چاہتا ہے اور قائم رکھتا ہے (جو چاہتا ہے) اور اسی کے پاس ہے اصل کتاب ( ام الکتاب)۔
ان دو آیات سے ہم کو جو واضح نکات ملتے ہیںوہ یہ ہیں۔
1۔ کوئی رسول اپنی طرف سے آیت نہیںبنا کر پیش کرتا۔ یعنی کوئی نیا حکم کوئی نبی نہیںلاتا۔ تمام احکامات اللہ تعالی کی طرف سے ہیں۔
2۔ ام الکتاب، یعنی اصل کتاب اللہ تعالی کے پاس ہے، جس میں سے اللہ تعالی ہر دور میں اس دور کے لئے مناسب و ضروری احکامات فراہم کرتا رہا۔
3۔ یہ اللہ ہی کی مرضی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہ قائم رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے وہ مٹا دیتا ہے۔ ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالی پرانی کتب میں تبدیلی فرما کر نئی کتا عطا فرماتے ہیں۔
4۔ یقینی طور پر یہ کام قرآن حکیم کے نزول کے وقت ہوا۔ جس کا تذکرہ[ayah] 2:106 [/ayah] اور اس کی وضاحت [ayah]13:38 [/ayah]اور [ayah]13:39[/ayah]
بنیادی طور پر کسی بھی آیت کی تنسیخپر یقین رکھنا، منسوخ شدہ آیت کے حکم سے انکار کرنا ہے۔ کیا ہم کسی آیت کا انکار کر سکتے ہیں؟ یقینی طور پر نہیں۔ دیکھئے:
[ayah]2:99[/ayah] [arabic]وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلاَّ الْفَاسِقُونَ [/arabic]
اور بیشک ہم نے آپ کی طرف روشن آیتیں اتاری ہیں اور ان (نشانیوں) کا سوائے نافرمانوں کے کوئی انکار نہیں کر سکتا
کیا ہم ان آیت میں سے کسی کا بھی انکار کرکے اپنا شمار ، اللہ تعالی کے الفاظ میں ---- فاسقوں یعنی نافرمانوں ---- میں کروانا پسند کریں گے۔
ہم سے غلطی جب ہوتی ہے جب ہم ایک ہی آیت پر اپنا فوکس (ارتکاز) کرکے اس آیت سے ہی معانی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور روایات یعنی -- پرکھوں کی معلومات --- کو حجت بنا لیتے ہیں۔ بھائی یہ بزرگ بھی ہماری طرح انسان تھے اس سے زیادہ میں کچھ نہیںکہوںگا کہ ہم سب کو اپنے اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔
میں بھی انسان ہوں اور اپنی تمام تر احتیاط کے باجود غلطی کا پتلا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ اللہ تعالی کی آیات درست سیاق و سباق میں پیش کروں۔ آیات آپ کے سامنے ہیں۔ اس پر غور فرمائیے اور اگر مجھ سے کہیں غلطی ہوگئی ہو تو سامنے لائیے۔ یہ ہار جیت کا مقابلہ نہیں۔ ایک دوسرے کے عقائد کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں۔ یہ کوشش ہے قرآن حکیم میں موجود چمکتی دمکتی نشانیوں میں موجود معلومات کو سامنے لانے کی تاکہ ان آیات پر جو گرد پڑ گئی ہے وہ دور ہو اور ہم قرآن حکیم کے احکامات کے مطابق سوچ اور سمجھ سکیں۔
والسلام
آپ نے جو وضاحت کی ہے وہ بالکل درست ہے کہ قرآن میں کوئی حکم کینسل نہیں ہوا۔ لیکن شاید الفاظ (ناسخ و منسوخ) کا انتخاب اتبا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے کسی بھی حکم کو منسوخ شدہ سمجھنا اس حکم سے انکار ہے۔ جو [ayah]2:99[/ayah] کے مطابق اللہ تعالی کی نافرمانی ہے۔ آپ سکون سے درج ذیل معلومات کو دیکھئے۔ میں نے اللہ کے فرمان ، قرآن حکیم کو ایک ترتیب سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
رسول اکرم کی زندگی سے جس مثال کو میں نے ایک حکم کی تکمیل کے ضمن میں فراہم کیا تھا وہ کسی حکم کے منسوخ ہونے کی مثال نہیںہے۔ بلکہ حکم کے تکمیل کی مثال ہے۔ مسلمانوں کے لئے قرآن حکیم کے فراہم کردہ احکامات میں کوئی حکم منسوخنہیں ہوا۔ ایک کام کرنے کا حکم دینا اور کام مکمل ہونے پر یہ بتا دینا کہ اب یہ کام مکمل ہوگیا ہے مزید اس پر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں کسی طور بھی ایک حکم کی تنسیخ یا اس کا منسوخ ہونا تصور نہیںکیا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ ساسخ و تنسیخ کی کتب میں یہ دو آیات جن کی میںنے مثال دی نہیں ملتی ہیں۔
ناسخ و تنسیخ کا فلسفہ خصوصی طور پر اس لئے ایجاد کیا کہ یہ بتایا جاسکے کہ اللہ تعالی کے فرمان، قرآن کی آیات کے احکامات ایک دوسرے کی تنسیخکرتے ہیں۔ اس تنسیخ کے عمل میں جس میں آیات و روایات دونوںشامل ہیں۔ اس کا واحد مقصد اللہ تعالی کو نعوذ باللہ ایک انسان جیسی عقل والا ثابت کرنا ہے کہ یا تو اللہ تعالی سے (نعوذ باللہ ) غلطی ہوتی رہی (معاذ اللہ) یا پھر اللہ تعالی ایک آیت نازل کرکے بھول گیا اور پھر ایک مختلف قسم کا حکم نازل کردیا (نعوذ باللہ)
اس کی مثال آپ کو دین سے اور دنیا سے دیتا ہوں:
دین سے:
اللہ تعالی نے رسول اللہ کو حکم دیا کہ اللہ تعالی کا پیغام، قرآن مجید دنیا کے ہر بندے تک پہنچادیجئے۔
آیت کے ریفرنس کے لئے یہاںکلک کیجئے: [ayah]5:67[/ayah]
اے رسُول! پہنچا دو جو کچھ نازل کیا گیا ہے تم پر تمہارے رب کی طرف سے اور اگر نہ کیا تم نے (ایسا) تو نہ ادا کیا تم نے حق اس کی پیغمبری کا اور اللہ بچالے گا تم کو لوگوں (کے شر) سے بے شک اللہ نہیں دکھاتا کامیابی کی راہ کافروں کو
اس حکم کے بعد رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام ہر شخص کو پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ---
مکل آیت کا لنک : [ayah]5:3[/ayah]
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔
دین کی تکمیل کے حکم کے بعد کیا دین کو انسانوں کو پہنچانے کا سلسلہ ختم ہوگیا؟ یقیناً نہیں۔ گویا کسی عمل کی تکمیل کا حکم قطعاً اس حکم کی منسوخی کی دلیل نہیں ہے۔ اس کے لئے ناسخ و منسوخ کے الفاظ استعمال کرنا، (کینسل اور کینسل کرنے والا حکم) یقینی طور پر ایک ناگوار فلسفہ ہے۔
دنیا سے مثال:
زید تیل کے کنویں کھدواتا ہے۔ بکر کے پاس رگ ہے وہ کنویں کھودتا ہے۔ زید بکر کو حکم دیتا ہے کہ اس معاہدے کے مطابق اور اس رقم کے عوضتم اس جگہ 6000 فٹ تک یا تیل نکل آنے تک کنواں کھودو، بکر 5600 فیٹ پر تیل پالیتا ہے۔ زید کہتا ہے کہ تم اب رک جاؤ،
کیا یہ رک جانا اصل حکم اور معاہدے کی تنسیخہے یا پھر یہ نیا حکم اس اصل حکم یا معاہدے کی تکمیل ہے۔
کسی عمل کا مکمل ہوجانا ، اس کے احکامات کی تنسیخنہیںکرتا۔ لہذا قرآن کے احکامات کے لئے ناسخ و منسوخ کی اصطلاح ایجاد کرکے پھر روایات سے یہ ثابت کرکے کہ صاحب پوری ایک سورۃ اللہ تعالی نے بھلادی تھی یا یہ حکم اب نافذ نہیں ہوگا کہ اس کی تنسیخ ہوچکی ہے ایک درست طرز عمل یا درست سوچ نہیں ہے۔
جس مثال کو اجاگر کرکےہ ناسخ و تنسیخ کے فلسفہ کو درست قرار دئے جانے کی کوشش کی ہے وہ ایک حکم رسول اکرم کے لئے تھا، دیگر مسلمیں کے لئے نہیںتھا۔ اس عمل کی تکمیل پر رسول اکرم کو رک جانے کا حکم دیا گیا۔ ناسخ و تنسیخ (کینسل ہونے والا اور کینسل کرنے والے ) قسم کے احکامات قرآن میں موجود نہیں ہے۔
[ayah]2:2[/ayah] [arabic]ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ [/arabic]
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے
جس کتاب میں شک موجود نہیں، اس خود اللہ تعالی کے احکامات کو منسوخ کرنے والے احکامات کہاں سے آسکتے ہیں؟
جس منسوخی اور بھلا دینے کا ذکر اللہ تعالی [arabic]2:106 [/arabic] میںکرتا ہے وہ ان آیات کے کی منسوخی اور بھلا دینے کے بارے میں ہے جن میں جعل سازی کی گئی۔ دیکھئے۔
[ayah]16:101 [/ayah][arabic]وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ[/arabic]
اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ حالانکہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازِل کرے؟ تو یہ کہتے ہیں کہ بس تم خود ہی گھڑلیتے ہو (یہ کلام)۔ دراصل اکثر لوگ ان میں سے (حقیقت سے) بے خبر ہیں۔
ہم کو باوجود ہزار کوشش کے ایک بھی آیت ایسی نہیں ملتی جو قرآن حکیم کے ایک حکم کی تردید یا منسوخی کرتی ہو۔
جبکہ اس آیت سے واضح ہے کہ کفار رسول اکرم پر یہ الزام رکھتے تھے کہ -- سابقہ کتب میں موجود آیات میں درج معلومات کی منسوخی قرآن حکیم کی آیات سے ہوتی ہے۔ ورنہ پھر آپس میں مقابلہ (کمپیئر) کرنے کے لئے مواد کیا تھا؟؟
اب مزید دیکھئے اس معلومات کی مزید وضاحت کہ یہ تنسیخ سابقہ کتب کی آیات کے لئے ہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ان دو آیات کو پڑھنے کے بعد یقینی طور پر مطمئن ہوجائیں گے۔
[ayah]13:38[/ayah] [arabic]وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ[/arabic]
اور بے شک بھیجے ہیں ہم نے بہت سے رسُول تم سے پہلے اور بنایا تھا ہم نے اُنہیں بیوی بچّوں (والا) اور نہیں ہے طاقت کسی رسُول کی کہ لا دکھائے کوئی نشانی (از خود) بغیر اللہ کے اِذن کے۔ ہر دور کے لیے ہے ایک کتاب۔
[ayah]13:39[/ayah] [arabic]يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ[/arabic]
اور مٹا دیتا ہے اللہ جو کچھ چاہتا ہے اور قائم رکھتا ہے (جو چاہتا ہے) اور اسی کے پاس ہے اصل کتاب ( ام الکتاب)۔
ان دو آیات سے ہم کو جو واضح نکات ملتے ہیںوہ یہ ہیں۔
1۔ کوئی رسول اپنی طرف سے آیت نہیںبنا کر پیش کرتا۔ یعنی کوئی نیا حکم کوئی نبی نہیںلاتا۔ تمام احکامات اللہ تعالی کی طرف سے ہیں۔
2۔ ام الکتاب، یعنی اصل کتاب اللہ تعالی کے پاس ہے، جس میں سے اللہ تعالی ہر دور میں اس دور کے لئے مناسب و ضروری احکامات فراہم کرتا رہا۔
3۔ یہ اللہ ہی کی مرضی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہ قائم رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے وہ مٹا دیتا ہے۔ ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالی پرانی کتب میں تبدیلی فرما کر نئی کتا عطا فرماتے ہیں۔
4۔ یقینی طور پر یہ کام قرآن حکیم کے نزول کے وقت ہوا۔ جس کا تذکرہ[ayah] 2:106 [/ayah] اور اس کی وضاحت [ayah]13:38 [/ayah]اور [ayah]13:39[/ayah]
بنیادی طور پر کسی بھی آیت کی تنسیخپر یقین رکھنا، منسوخ شدہ آیت کے حکم سے انکار کرنا ہے۔ کیا ہم کسی آیت کا انکار کر سکتے ہیں؟ یقینی طور پر نہیں۔ دیکھئے:
[ayah]2:99[/ayah] [arabic]وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلاَّ الْفَاسِقُونَ [/arabic]
اور بیشک ہم نے آپ کی طرف روشن آیتیں اتاری ہیں اور ان (نشانیوں) کا سوائے نافرمانوں کے کوئی انکار نہیں کر سکتا
کیا ہم ان آیت میں سے کسی کا بھی انکار کرکے اپنا شمار ، اللہ تعالی کے الفاظ میں ---- فاسقوں یعنی نافرمانوں ---- میں کروانا پسند کریں گے۔
ہم سے غلطی جب ہوتی ہے جب ہم ایک ہی آیت پر اپنا فوکس (ارتکاز) کرکے اس آیت سے ہی معانی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور روایات یعنی -- پرکھوں کی معلومات --- کو حجت بنا لیتے ہیں۔ بھائی یہ بزرگ بھی ہماری طرح انسان تھے اس سے زیادہ میں کچھ نہیںکہوںگا کہ ہم سب کو اپنے اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔
میں بھی انسان ہوں اور اپنی تمام تر احتیاط کے باجود غلطی کا پتلا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ اللہ تعالی کی آیات درست سیاق و سباق میں پیش کروں۔ آیات آپ کے سامنے ہیں۔ اس پر غور فرمائیے اور اگر مجھ سے کہیں غلطی ہوگئی ہو تو سامنے لائیے۔ یہ ہار جیت کا مقابلہ نہیں۔ ایک دوسرے کے عقائد کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں۔ یہ کوشش ہے قرآن حکیم میں موجود چمکتی دمکتی نشانیوں میں موجود معلومات کو سامنے لانے کی تاکہ ان آیات پر جو گرد پڑ گئی ہے وہ دور ہو اور ہم قرآن حکیم کے احکامات کے مطابق سوچ اور سمجھ سکیں۔
والسلام