محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
سید عاطف علی بھائی سے معذرت کے ساتھ، اُن کی نظم "زندگی" پڑھ کر کچھ پیروڈی شعر ہوئے۔ جو کہ محفلین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
"اہلیہ"
اہلیہ جینے نہیں دیتی مجھے
اذنِ عقدِ نو کہیں دیتی مجھے!
عقد ہی کیا وہ تو آنکھیں بھی کہیں
چار کرنے ہی نہیں دیتی مجھے
"پونچھنے دیتی نہیں وہ اشک بھی
بات بھی کرنے نہیں دیتی مجھے"
اپنے میکے کے لیے مشروب ہیں
سادہ پانی بھی نہیں دیتی مجھے
میرے درہم بانٹ کر سالوں میں وہ
جوتا تک لینے نہیں دیتی مجھے
آج تو برہم نہیں اس کے مزاج
آج کیوں کھانا نہیں دیتی مجھے
ہو کے چپ لگتی ہے وہ کیسی حسیں
بول کر جینے نہیں دیتی مجھے
خود تو کر لیتی ہے وہ سولہ سنگھار
منھ تلک دھونے نہیں دیتی مجھے
اہلیہ سے بس شکایت ہے یہی
اہلیہ جینے نہیں دیتی مجھے
"اہلیہ"
اہلیہ جینے نہیں دیتی مجھے
اذنِ عقدِ نو کہیں دیتی مجھے!
عقد ہی کیا وہ تو آنکھیں بھی کہیں
چار کرنے ہی نہیں دیتی مجھے
"پونچھنے دیتی نہیں وہ اشک بھی
بات بھی کرنے نہیں دیتی مجھے"
اپنے میکے کے لیے مشروب ہیں
سادہ پانی بھی نہیں دیتی مجھے
میرے درہم بانٹ کر سالوں میں وہ
جوتا تک لینے نہیں دیتی مجھے
آج تو برہم نہیں اس کے مزاج
آج کیوں کھانا نہیں دیتی مجھے
ہو کے چپ لگتی ہے وہ کیسی حسیں
بول کر جینے نہیں دیتی مجھے
خود تو کر لیتی ہے وہ سولہ سنگھار
منھ تلک دھونے نہیں دیتی مجھے
اہلیہ سے بس شکایت ہے یہی
اہلیہ جینے نہیں دیتی مجھے