جہانزیب
محفلین
بی بی سی کی خبر ۔
کوئی مہینہ بھر پہلے بھی بی بی سی نے پشاور میں وزارت داخلہ کی چار گھنٹے طویل پریس بریفنگ کے حوالے سے ایک خبر شائع کرنے کے بعد صرف چند گھنٹوں کے اندر ہی وہ خبر ہٹا لی تھی، اور چونکہ پاکستان میں میڈیا واچ ڈاگ طرز کے گروپس ناپید ہیں اسی لئے بی بی سی بڑی آسانی سے اسے ہضم کر گیا ۔ اس خبر میں بھی تین ممالک کی پاکستان میںکھلی جارحیت کا ذکر کیا گیا تھا، جن میں سعودی عرب، ایران اور روس شامل ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی جو ہندوستان کی طرف سے معمولی باتوں تک پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کب تک "اپنوں" کی طرف سے کئے گئے اقدامات سے نظریں چراتے رہیں گے؟
بی بی سی کو قابل اعتماد شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ ایرانی ریاست کے کچھ عناصر سرحد پار افغانستان میں طالبان کو ہتھیار بھیج رہے ہیں۔
طالبان کابل کی کرزئی حکومت کے خلاف شورش کررہے ہیں اور حکومت کی پشت پناہی میں وہاں تعینات کیے گئے نیٹو دستوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
طالبان کے درمیان ایرانی ساختہ ہتھیاروں کی بڑی مانگ ہے کیونکہ یہ بہت قابل بھروسہ اور خاص طور پر زیادہ تباہ کن سمجھے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ایرانی کلاشنکوف کی قیمت پاکستان، روس یا چین میں بنائی گئی کلاشنکوف سے دو تین سو ڈالر زیادہ ہوتی ہے۔
طالبان کے ایک کمانڈر کے مطابق ایران ساخت کے ہتھیاروں کی فراہمی کی وجہ سے امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف طالبان کی کارروائیاں زیادہ موثر ثابت ہو رہی ہیں۔
ایران میں بنائی گئی ایک بارودی سرنگ جسے ’ڈریگن ‘ کہا جاتا ہے بڑی کارگر ثابت ہو رہی ہے۔ اگر ایک عام بارودی سرنگ استعمال کی جائے تو اس سے صرف بکتر بند گاڑی ’ہموی‘ اور بڑے ٹینک کو معمولی نقصان ہوتا ہے لیکن اگر ڈریگن کا استعمال کیا جائے تو یہ اسے بالکل ناکارہ بنا دیتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایرانی ساخت کے ہتھیار صرف اسمگلر پیسہ بنانے کی غرض سے طالبان کو فراہم کر رہے ہیں یا ایران حکومت میں شامل کچھ عناصر بھی اس کام میں ملوث ہیں۔
افغانستان کے جنوب میں طالبان کے سرکردہ کمانڈروں نے بتایا ہے کہ طالبان تک یہ ہتھیار دونوں ذرائع سے پہنچ رہے ہیں۔
کابل میں موجود برطانوی سفیر سر شیراڈ کوپر کولز نے بھی یہ الزامات عائد کیئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران حکومت میں شامل کچھ عناصر یہ ہتھیار محدود پیمانے پر طالبان کو فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ایران کی باقی ایجنسیوں کو بھی اس کا علم ہو۔ لیکن یہ عناصر طالبان کو بہت حطرناک ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔
ایران کے سفارت خانے نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔
کوئی مہینہ بھر پہلے بھی بی بی سی نے پشاور میں وزارت داخلہ کی چار گھنٹے طویل پریس بریفنگ کے حوالے سے ایک خبر شائع کرنے کے بعد صرف چند گھنٹوں کے اندر ہی وہ خبر ہٹا لی تھی، اور چونکہ پاکستان میں میڈیا واچ ڈاگ طرز کے گروپس ناپید ہیں اسی لئے بی بی سی بڑی آسانی سے اسے ہضم کر گیا ۔ اس خبر میں بھی تین ممالک کی پاکستان میںکھلی جارحیت کا ذکر کیا گیا تھا، جن میں سعودی عرب، ایران اور روس شامل ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی جو ہندوستان کی طرف سے معمولی باتوں تک پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کب تک "اپنوں" کی طرف سے کئے گئے اقدامات سے نظریں چراتے رہیں گے؟