ایران کی جانب سے تحفہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جہانزیب

محفلین
بی بی سی کی خبر ۔

بی بی سی کو قابل اعتماد شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ ایرانی ریاست کے کچھ عناصر سرحد پار افغانستان میں طالبان کو ہتھیار بھیج رہے ہیں۔

طالبان کابل کی کرزئی حکومت کے خلاف شورش کررہے ہیں اور حکومت کی پشت پناہی میں وہاں تعینات کیے گئے نیٹو دستوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

طالبان کے درمیان ایرانی ساختہ ہتھیاروں کی بڑی مانگ ہے کیونکہ یہ بہت قابل بھروسہ اور خاص طور پر زیادہ تباہ کن سمجھے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ایرانی کلاشنکوف کی قیمت پاکستان، روس یا چین میں بنائی گئی کلاشنکوف سے دو تین سو ڈالر زیادہ ہوتی ہے۔

طالبان کے ایک کمانڈر کے مطابق ایران ساخت کے ہتھیاروں کی فراہمی کی وجہ سے امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف طالبان کی کارروائیاں زیادہ موثر ثابت ہو رہی ہیں۔

ایران میں بنائی گئی ایک بارودی سرنگ جسے ’ڈریگن ‘ کہا جاتا ہے بڑی کارگر ثابت ہو رہی ہے۔ اگر ایک عام بارودی سرنگ استعمال کی جائے تو اس سے صرف بکتر بند گاڑی ’ہموی‘ اور بڑے ٹینک کو معمولی نقصان ہوتا ہے لیکن اگر ڈریگن کا استعمال کیا جائے تو یہ اسے بالکل ناکارہ بنا دیتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایرانی ساخت کے ہتھیار صرف اسمگلر پیسہ بنانے کی غرض سے طالبان کو فراہم کر رہے ہیں یا ایران حکومت میں شامل کچھ عناصر بھی اس کام میں ملوث ہیں۔

افغانستان کے جنوب میں طالبان کے سرکردہ کمانڈروں نے بتایا ہے کہ طالبان تک یہ ہتھیار دونوں ذرائع سے پہنچ رہے ہیں۔

کابل میں موجود برطانوی سفیر سر شیراڈ کوپر کولز نے بھی یہ الزامات عائد کیئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران حکومت میں شامل کچھ عناصر یہ ہتھیار محدود پیمانے پر طالبان کو فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ایران کی باقی ایجنسیوں کو بھی اس کا علم ہو۔ لیکن یہ عناصر طالبان کو بہت حطرناک ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔

ایران کے سفارت خانے نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔

کوئی مہینہ بھر پہلے بھی بی بی سی نے پشاور میں وزارت داخلہ کی چار گھنٹے طویل پریس بریفنگ کے حوالے سے ایک خبر شائع کرنے کے بعد صرف چند گھنٹوں‌ کے اندر ہی وہ خبر ہٹا لی تھی، اور چونکہ پاکستان میں میڈیا واچ ڈاگ طرز کے گروپس ناپید ہیں اسی لئے بی بی سی بڑی آسانی سے اسے ہضم کر گیا ۔ اس خبر میں بھی تین ممالک کی پاکستان میں‌کھلی جارحیت کا ذکر کیا گیا تھا، جن میں سعودی عرب، ایران اور روس شامل ہیں‌ ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی جو ہندوستان کی طرف سے معمولی باتوں‌ تک پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کب تک "اپنوں" کی طرف سے کئے گئے اقدامات سے نظریں‌ چراتے رہیں‌ گے؟
 

جہانزیب

محفلین
یہ خبر صرف ایک پروپیگنڈا معلوم ہوتی ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں بگاڑ ڈالنے کے لئے۔

دل کو تسلیاں‌ دیتے رہیے ۔ ویسے کیا آپ کو معلوم ہے ڈاکٹر قدیر کے خلاف بوریاں‌ بھر بھر کر کن ممالک نے ثبوت فراہم کئے تھے؟‌ شائد ایران اور لبیا ۔
 

ساجداقبال

محفلین
جبتک ادھار تیل لینے کی عادت رہیگی۔ لیکن یہ کوئی اتنی بڑی بات تو نہیں۔ ”محدود“ پیمانے پر تو شاید امریکی گروپس بھی اپنا مال بیچ رہے ہوں۔
 

طالوت

محفلین
ایران کو اگر کوئی دوست سمجھتا ہے تو اس کی خوش فہمی ہے ورنہ ایرانی رویہ "بغل میں چھری" سے کم والا نہیں ، اور دوسرا ایرانیوں کا احساس تفاخر، پتہ نہیں کس زعم میں یہ خود کو سپیریر سمجھتے ہیں ، صحرا نشین بدووں نے ان کے دماغوں سے یہ خناس بڑی اچھی طرح نکالا تھا لیکن اب پھر آ کہ بیٹھ گیا ہے اور اس میں "پاکستانیوں" کا کردار بھی قابل رشک ہے جو پاکستان میں تو سو سو افراد مرنے پر باہر نہیں آتے لیکن ایران کو دی گئی ایک امریکی دھمکی پر پورا بندر روڈ (کراچی) بند کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
بی بی سی کی خبر ۔
کوئی مہینہ بھر پہلے بھی بی بی سی نے پشاور میں وزارت داخلہ کی چار گھنٹے طویل پریس بریفنگ کے حوالے سے ایک خبر شائع کرنے کے بعد صرف چند گھنٹوں‌ کے اندر ہی وہ خبر ہٹا لی تھی، اور چونکہ پاکستان میں میڈیا واچ ڈاگ طرز کے گروپس ناپید ہیں اسی لئے بی بی سی بڑی آسانی سے اسے ہضم کر گیا ۔ اس خبر میں بھی تین ممالک کی پاکستان میں‌کھلی جارحیت کا ذکر کیا گیا تھا، جن میں سعودی عرب، ایران اور روس شامل ہیں‌ ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی جو ہندوستان کی طرف سے معمولی باتوں‌ تک پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کب تک "اپنوں" کی طرف سے کئے گئے اقدامات سے نظریں‌ چراتے رہیں‌ گے؟

جہانزیب برادر،
آپ کو واقعی حق بنتا ہے کہ اگر ایران طالبان کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے تو اس پر تنقید کریں۔
مگر باقی جو طالبان کے حامی ہیں، اُنکی طرف سے طالبان کو اسلحہ فراہم کیے جانے پر تنقید کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف دشمنی برائے دشمنی کر رہے ہیں۔
////////////////////////////////
بار دیگر، عرض یہ ہے کہ اگر ایران نے طالبان کو اسلحہ فراہم کیا ہے تو بہت غلط کیا اور اسکے خلاف احتجاج میں میں آپکے مکمل ساتھ ہوں۔
لیکن اگر ایران نے ایسا نہیں کیا، اور یہ خبر جھوٹی ہے اور اس میں سازش کی بو آتی ہے تو مجھے امید ہے کہ اللہ کے نام پر پھر آپ ایران کے ساتھ انصاف کر رہے ہوں گے۔ انشاء اللہ۔

صورتحال یہ ہے کہ:
1۔ پاکستانی میڈیا کا معیار کچھ قابل فخر نہیں ہے۔

2۔ پاکستانی میڈیا میں بہت سی جھوٹی خبریں صحافی اپنا نام لیکر تک شائع کر دیتے ہیں، اور چونکہ زیادہ تر یہ جھوٹی خبریں عوام کی اکثریت کے مزاج کے مطابق بنائی جاتی ہیں، اس لیے عوام میں انہیں بغیر تحقیق کے پذیرائی بھی بہت ملتی ہے۔ [دوسرے الفاظ میں ان جھوٹے خبریں پھیلانے والوں کو عوام کو الو بنانے میں زیادہ مشکل نہیں ہوتی کیونکہ عوام خود الو بننے پر تیار بیٹھی ہوتی ہے۔]

3۔ مثال کے طور پر ایران سے تعلقات خراب کرنے کے لیے ایک بات یہ مشہور ہے کہ بلوچستان میں بہت سارا تیل نکل آیا تھا مگر ایران نے دباو ڈلوا کر تیل نکالنا بند کروا دیا اور اب ایران خود بلوچستان کا سارا تیل اپنے علاقے سے کھینچ رہا ہے۔
یہ خبر پاکستان میں ایسی پھیلائی گئی کہ بچے بچے کی زبان پر ہے۔ یہی کچھ پاک ڈیفنس فورم میں ہو رہا تھا۔ اس پر ایک ایرانی برادر نے ایران کے تیل کے تمام تر کنووءں کا پورا نقشہ پیش کر دیا جس کے مطابق تیل کے یہ تمام کنویں ایران کی مغربی سرحد [عرب ممالک کے ساتھ خلیج فارس کی طرف] ہیں، جبکہ مغربی سرحد [پاکستان و افغانستان] میں اگلے کئی سو کلومیٹر تک ایک بھی تیل کا کنواں نہیں ہے۔
شرم کی بات ہے۔ کم از کم میں نے پاک ڈیفنس پر یہی دیکھا کہ اس ثبوت کے بعد اراکین کی اکثریت اس بات پر نالاں تھی کہ پاکستان میں ایسی افواہیں ایسی آسانی سے کیسے پھیل جاتی ہیں۔ [نوٹ: کچھ اراکین ایسے بھی تھے تو اس ثبوت کے بعد بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اور جب جوابا انہیں اپنا ثبوت لانے کو کہا گیا تو بات ماموں جان نے کہا یا چچا جان نے کہا سے آگے نہ بڑھ سکی۔

4۔ اگلی مثال دیکھئیے کہ جب نام لیکر روزنامہ جنگ کے صحافی جاوید رشید صاحب یہ خبر اڑا رہے ہیں کہ انڈیا اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج افغانستان میں تعینات کر رہا ہے۔ پورا تھریڈ یہاں پڑھئیے

5۔ اگلی مثال پاکستانی اخبارات میں چھپنے والی یہ خبر تھی افغانستان نے [یونیفارم میں] اپنی چھ ہزار فوجیوں کو پاکستان میں خفیہ کاروائی کے لیے بھیج دیا۔
یہ ایسا بڑا جھوٹ تھا کہ سہا نہ گیا اور اس خبر کو بھی ہٹا لیا گیا۔ [لنک چاہیے تو بتائیے گا اور میں نے تمام ثبوت اسی فورم میں ایک تھریڈ میں پیش کیے ہوئے ہیں]

6۔ اور پھر حامد میر جیسے صحافی، جنہوں نے واہ کینٹ کی حملے میں محسود و ملا عمر کی طالبان کو صرف اپنے مفروضوں کے بل بوتے پر مکمل فرشتہ ثابت کر دیا، جبکہ ملا عمر خود ٹی وی پر آ کر خود کش حملے پر فخر کر رہا ہے۔
حامد میر اس سے قبل ایران پر بھی صرف اپنے مفروضوں کی بنیادوں پر ایسے الزامات لگا چکا ہے اور ہماری قوم کا ایک طبقہ بنا اس شخص کی تحریر پر غور کیے اور اسے انصاف کے تقاضوں پر پرکھے اھلا و سھلا کہہ رہا ہوتا ہے۔

////////////////////////////////////////

اب بی بی سی کی اس خبر پر بذات خود نظر دوڑاتے ہیں۔
اس کہانی کے موجد کا نام ہے : " کیٹ کلارک"
مجھے علم نہیں کہ یہ کیٹ کلارک صاحب یا صاحبہ کس حد تک اس قسم کی خبروں کا مستند ماخذ ہیں۔
بہرحال، صورتحال یہ ہے کہ جب عراق جنگ کرنی تھی تو امریکی اور برطانوی اخبارات کیمیائی بموں والی خبروں کو اچھالتے تھے۔
پھر میں نے یہ دیکھا کہ امریکی صدر تا پریس عراق میں القاعدہ اور خود کش بمباروں کی مدد کا الزام ایران پر لگا رہا ہے۔
پھر یہی چیز افغانستان میں ہوئی۔ اور یہ آج کی بات نہیں، بلکہ ماضی میں بھی امریکی حکومت اور پریس والے یہ خبریں اڑاتے رہیں ہیں کہ افغانستان میں ایران طالبان کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔
بہرحال، امریکی حکومت اور پریس کے بالکل برعکس، عراق کی اپنی جمہوری حکومت، اور افغانستان کی اپنی جمہوری حکومت دونوں امریکی حکومت اور پریس کے ایران پر الزامات کی تردید کر رہے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ بہت سے لوگ افغانستان اور عراق کی حکومتوں کو امریکہ کی پٹھو حکومتیں کہتے ہیں، مگر سوچیں کہ کیوں پھر ایسا ہے کہ اسکے باوجود بھی یہ امریکہ کی بات کی تردید کر رہے ہیں [یقینا لوگ اسکے بھی ہزار بہانے بنا لیں گے اور الزامات لگانے سے باز نہیں آئیں گے]

بہرحال، یہ کیٹ کلارک صاحب/صاحبہ اپنے مضمون کی شروعات اس سے کر رہے ہیں "۔۔۔ قابل اعتماد شواہد سے معلوم ہوا ہے۔۔۔۔"
بھائی جی آپ انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہیں اور اللہ ہم سب کے اعمال و افعال پر گواہ ہے۔۔۔۔۔ اپنے دل سے پوچھئے کہ کیا واقعی ان الفاظ سے شروع کی گئی اس عبارت پر یقین کرنا چاہیے یا نہیں؟ یا پھر یہ دشمن کی چال ہے کہ آپس میں نفرتیں پھیلائی جائیں

اسکے بعد کیٹ کلارک صاحب/صاحبہ نے آگے اور کوئی ثبوت نہیں دیا ہے، سوائے اسکے طالبان کے پاس ایرانی کلاشنکوف اور ایرانی بارودی سرنگ موجود ہیں، جو ان صاحب/صاحبہ کی اپنی زبانی سمگلروں اور غیر قانونی اسلحہ ڈیلروں تک کے پاس موجود ہیں۔
///////////////////////////////////
اس پہلو سے بھی غور کریں کہ جب ایران نے حزب اللہ کی اسلحے سے مدد کی تھی تو حزب اللہ اس قابل تھی کہ وہ اسرائیل کو چند ہی دنوں کی جنگ میں بھرپور نقصان پہنچائے۔ جبکہ حزب اللہ کے چار پانچ ہزار رضاکاروں کے مقابلے میں طالبان کے کئی لاکھ افراد ہیں، مگر وہ ان تمام سالوں میں ابھی تک دو سو امریکی فوجی ہی مار پائے ہیں۔ اگر ایران طالبان کی پیچھے ہوتا تو پھر یہ نقصان کئی گنا بڑے پیمانے پر ہوا ہوتا۔

ان تمام باتوں کے باوجود اگر آپ کو "کیٹ کلارک" صاحب کے ان نام نہاد مستند ذرائع پر اعتبار ہے تو یہ آپکی رائے ہے کہ جس کا میں احترام تو کر سکتی ہوں مگر اس سے اختلاف ضرور رکھتی ہوں۔
والسلام۔
 

امکانات

محفلین
جہانزیب برادر،
آپ کو واقعی حق بنتا ہے کہ اگر ایران طالبان کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے تو اس پر تنقید کریں۔
مگر باقی جو طالبان کے حامی ہیں، اُنکی طرف سے طالبان کو اسلحہ فراہم کیے جانے پر تنقید کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف دشمنی برائے دشمنی کر رہے ہیں۔
////////////////////////////////
بار دیگر، عرض یہ ہے کہ اگر ایران نے طالبان کو اسلحہ فراہم کیا ہے تو بہت غلط کیا اور اسکے خلاف احتجاج میں میں آپکے مکمل ساتھ ہوں۔
لیکن اگر ایران نے ایسا نہیں کیا، اور یہ خبر جھوٹی ہے اور اس میں سازش کی بو آتی ہے تو مجھے امید ہے کہ اللہ کے نام پر پھر آپ ایران کے ساتھ انصاف کر رہے ہوں گے۔ انشاء اللہ۔

صورتحال یہ ہے کہ:
1۔ پاکستانی میڈیا کا معیار کچھ قابل فخر نہیں ہے۔

2۔ پاکستانی میڈیا میں بہت سی جھوٹی خبریں صحافی اپنا نام لیکر تک شائع کر دیتے ہیں، اور چونکہ زیادہ تر یہ جھوٹی خبریں عوام کی اکثریت کے مزاج کے مطابق بنائی جاتی ہیں، اس لیے عوام میں انہیں بغیر تحقیق کے پذیرائی بھی بہت ملتی ہے۔ [دوسرے الفاظ میں ان جھوٹے خبریں پھیلانے والوں کو عوام کو الو بنانے میں زیادہ مشکل نہیں ہوتی کیونکہ عوام خود الو بننے پر تیار بیٹھی ہوتی ہے۔]

3۔ مثال کے طور پر ایران سے تعلقات خراب کرنے کے لیے ایک بات یہ مشہور ہے کہ بلوچستان میں بہت سارا تیل نکل آیا تھا مگر ایران نے دباو ڈلوا کر تیل نکالنا بند کروا دیا اور اب ایران خود بلوچستان کا سارا تیل اپنے علاقے سے کھینچ رہا ہے۔
یہ خبر پاکستان میں ایسی پھیلائی گئی کہ بچے بچے کی زبان پر ہے۔ یہی کچھ پاک ڈیفنس فورم میں ہو رہا تھا۔ اس پر ایک ایرانی برادر نے ایران کے تیل کے تمام تر کنووءں کا پورا نقشہ پیش کر دیا جس کے مطابق تیل کے یہ تمام کنویں ایران کی مغربی سرحد [عرب ممالک کے ساتھ خلیج فارس کی طرف] ہیں، جبکہ مغربی سرحد [پاکستان و افغانستان] میں اگلے کئی سو کلومیٹر تک ایک بھی تیل کا کنواں نہیں ہے۔
شرم کی بات ہے۔ کم از کم میں نے پاک ڈیفنس پر یہی دیکھا کہ اس ثبوت کے بعد اراکین کی اکثریت اس بات پر نالاں تھی کہ پاکستان میں ایسی افواہیں ایسی آسانی سے کیسے پھیل جاتی ہیں۔ [نوٹ: کچھ اراکین ایسے بھی تھے تو اس ثبوت کے بعد بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اور جب جوابا انہیں اپنا ثبوت لانے کو کہا گیا تو بات ماموں جان نے کہا یا چچا جان نے کہا سے آگے نہ بڑھ سکی۔

4۔ اگلی مثال دیکھئیے کہ جب نام لیکر روزنامہ جنگ کے صحافی جاوید رشید صاحب یہ خبر اڑا رہے ہیں کہ انڈیا اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج افغانستان میں تعینات کر رہا ہے۔ پورا تھریڈ یہاں پڑھئیے

5۔ اگلی مثال پاکستانی اخبارات میں چھپنے والی یہ خبر تھی افغانستان نے [یونیفارم میں] اپنی چھ ہزار فوجیوں کو پاکستان میں خفیہ کاروائی کے لیے بھیج دیا۔
یہ ایسا بڑا جھوٹ تھا کہ سہا نہ گیا اور اس خبر کو بھی ہٹا لیا گیا۔ [لنک چاہیے تو بتائیے گا اور میں نے تمام ثبوت اسی فورم میں ایک تھریڈ میں پیش کیے ہوئے ہیں]

6۔ اور پھر حامد میر جیسے صحافی، جنہوں نے واہ کینٹ کی حملے میں محسود و ملا عمر کی طالبان کو صرف اپنے مفروضوں کے بل بوتے پر مکمل فرشتہ ثابت کر دیا، جبکہ ملا عمر خود ٹی وی پر آ کر خود کش حملے پر فخر کر رہا ہے۔
حامد میر اس سے قبل ایران پر بھی صرف اپنے مفروضوں کی بنیادوں پر ایسے الزامات لگا چکا ہے اور ہماری قوم کا ایک طبقہ بنا اس شخص کی تحریر پر غور کیے اور اسے انصاف کے تقاضوں پر پرکھے اھلا و سھلا کہہ رہا ہوتا ہے۔

////////////////////////////////////////

اب بی بی سی کی اس خبر پر بذات خود نظر دوڑاتے ہیں۔
اس کہانی کے موجد کا نام ہے : " کیٹ کلارک"
مجھے علم نہیں کہ یہ کیٹ کلارک صاحب یا صاحبہ کس حد تک اس قسم کی خبروں کا مستند ماخذ ہیں۔
بہرحال، صورتحال یہ ہے کہ جب عراق جنگ کرنی تھی تو امریکی اور برطانوی اخبارات کیمیائی بموں والی خبروں کو اچھالتے تھے۔
پھر میں نے یہ دیکھا کہ امریکی صدر تا پریس عراق میں القاعدہ اور خود کش بمباروں کی مدد کا الزام ایران پر لگا رہا ہے۔
پھر یہی چیز افغانستان میں ہوئی۔ اور یہ آج کی بات نہیں، بلکہ ماضی میں بھی امریکی حکومت اور پریس والے یہ خبریں اڑاتے رہیں ہیں کہ افغانستان میں ایران طالبان کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔
بہرحال، امریکی حکومت اور پریس کے بالکل برعکس، عراق کی اپنی جمہوری حکومت، اور افغانستان کی اپنی جمہوری حکومت دونوں امریکی حکومت اور پریس کے ایران پر الزامات کی تردید کر رہے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ بہت سے لوگ افغانستان اور عراق کی حکومتوں کو امریکہ کی پٹھو حکومتیں کہتے ہیں، مگر سوچیں کہ کیوں پھر ایسا ہے کہ اسکے باوجود بھی یہ امریکہ کی بات کی تردید کر رہے ہیں [یقینا لوگ اسکے بھی ہزار بہانے بنا لیں گے اور الزامات لگانے سے باز نہیں آئیں گے]

بہرحال، یہ کیٹ کلارک صاحب/صاحبہ اپنے مضمون کی شروعات اس سے کر رہے ہیں "۔۔۔ قابل اعتماد شواہد سے معلوم ہوا ہے۔۔۔۔"
بھائی جی آپ انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہیں اور اللہ ہم سب کے اعمال و افعال پر گواہ ہے۔۔۔۔۔ اپنے دل سے پوچھئے کہ کیا واقعی ان الفاظ سے شروع کی گئی اس عبارت پر یقین کرنا چاہیے یا نہیں؟ یا پھر یہ دشمن کی چال ہے کہ آپس میں نفرتیں پھیلائی جائیں

اسکے بعد کیٹ کلارک صاحب/صاحبہ نے آگے اور کوئی ثبوت نہیں دیا ہے، سوائے اسکے طالبان کے پاس ایرانی کلاشنکوف اور ایرانی بارودی سرنگ موجود ہیں، جو ان صاحب/صاحبہ کی اپنی زبانی سمگلروں اور غیر قانونی اسلحہ ڈیلروں تک کے پاس موجود ہیں۔
///////////////////////////////////
اس پہلو سے بھی غور کریں کہ جب ایران نے حزب اللہ کی اسلحے سے مدد کی تھی تو حزب اللہ اس قابل تھی کہ وہ اسرائیل کو چند ہی دنوں کی جنگ میں بھرپور نقصان پہنچائے۔ جبکہ حزب اللہ کے چار پانچ ہزار رضاکاروں کے مقابلے میں طالبان کے کئی لاکھ افراد ہیں، مگر وہ ان تمام سالوں میں ابھی تک دو سو امریکی فوجی ہی مار پائے ہیں۔ اگر ایران طالبان کی پیچھے ہوتا تو پھر یہ نقصان کئی گنا بڑے پیمانے پر ہوا ہوتا۔

ان تمام باتوں کے باوجود اگر آپ کو "کیٹ کلارک" صاحب کے ان نام نہاد مستند ذرائع پر اعتبار ہے تو یہ آپکی رائے ہے کہ جس کا میں احترام تو کر سکتی ہوں مگر اس سے اختلاف ضرور رکھتی ہوں۔
والسلام۔

مہوش آپ کی تان ہمیشہ پاکستانی میڈیا پر تنقید تک پہنچ کر ٹوٹ جاتی ہے آپ کو خودصحافت کا ذرا بھی تجربہ نہیں پاکستان کے بارے میںامریکی اور ایرانی میڈیا جتنا زہر اگلتا ہے اس کا آپ کو علم ہے بی بی سی ایرانی اورامریکی میڈیا کے بارے میں پاکستانی ‌صحافیون میں مشھور ہے جس نے پاکستان کی مخالفت کرنی ان ممالک کے میڈیا گروپوںمیں چلایا جائے ایران ہمارا برادرملک ضرور ہے مگر یہ کوئی حاجی محمد شریف نہیں اس کے بھی مفادات ہیں طالبان اور القائدہ کے حوالے سے پاکستانی میڈیا امریکی میڈیا سے خبریں لفٹ کر تا ہے آج کے بعد جس پاکستانی خبر پر شک ہو وہ آپ کو تلاش کرنے پر مغربی میڈیا میں مل جائے گئی
 

مہوش علی

لائبریرین
ایران کو اگر کوئی دوست سمجھتا ہے تو اس کی خوش فہمی ہے ورنہ ایرانی رویہ "بغل میں چھری" سے کم والا نہیں ، اور دوسرا ایرانیوں کا احساس تفاخر، پتہ نہیں کس زعم میں یہ خود کو سپیریر سمجھتے ہیں ، صحرا نشین بدووں نے ان کے دماغوں سے یہ خناس بڑی اچھی طرح نکالا تھا لیکن اب پھر آ کہ بیٹھ گیا ہے اور اس میں "پاکستانیوں" کا کردار بھی قابل رشک ہے جو پاکستان میں تو سو سو افراد مرنے پر باہر نہیں آتے لیکن ایران کو دی گئی ایک امریکی دھمکی پر پورا بندر روڈ (کراچی) بند کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ وسلام

طالوت بھیا،
آغاز میں میرے صرف ایک سوال کا جواب دے دیجئے:
" ایران کو کیا ضرورت ہے کہ وہ امریکہ سے دشمنی کرے اور فلسطین جیسے مسئلے کو اٹھا کر دنیا میں بدنام ہوتا پھرے؟"
اگر ایران واقعی اتنا برا اور اسلام مخالف ملک ہے تو کیا یہ اسکے لیے بہتر نہ ہوتا کہ وہ اس خطے میں امریکہ کا ہمنوا بن جاتا [بلکہ جیسا کہ شاہ کے زمانے میں بنا ہوا تھا] اور پھر ان تمام عرب بادشاہوں کی ایسی تیسی پھیرتا رہتا؟ [جیسا کہ امریکہ کے وفادار شاہ کے زمانے میں صدام کو ہمت نہ تھی کہ ایران پر حملہ کرے بلکہ خود شط العرب اور دیگر جزیرے مذاکرات کے ذریعے خود صدام نے ایران کے حوالے کیے تھے]
/////////////////////////////////
مذہبی اسلامی ایرانیوں اور ملحد مغرب زدہ ایرانیوں میں فرق کرنا
از طالوت:
اور دوسرا ایرانیوں کا احساس تفاخر، پتہ نہیں کس زعم میں یہ خود کو سپیریر سمجھتے ہیں ، صحرا نشین بدووں نے ان کے دماغوں سے یہ خناس بڑی اچھی طرح نکالا تھا لیکن اب پھر آ کہ بیٹھ گیا ہے۔
طالوت بھیا تو جوش میں ذرا اونچائی پر ہیں۔ میں اجازت چاہوں گی کہ اپنا نقطہ نظر اور اپنا پیغام اور دردِ دل پہنچا دوں۔
عرب و ایران کی لڑائی صدیوں پرانی ہے۔
ایران میں ایک طبقہ ہے جو کہ سرے سے ہی ملحد ہے اور خدا ہی کو نہیں مانتا۔ بلکہ اسکے لیے اپنی ہزاروں سال قرانی کسری کی تہذیب اور ایرانی آرین خون ہی سب کچھ ہے۔ اس لیے یہ اسلام سے نفرت کرتا ہے، اللہ سے اور اسکے رسول ص سے نفرت کرتا ہے اور ہر ہر مسلمان سے نفرت کرتا ہے۔
مگر جس سے یہ ملحد طبقہ سب سے زیادہ نفرت کرتا ہے وہ ہے خود ایران کا مذھبی اسلامی طبقہ۔
/۔ یہ ملحد ایرانی طبقہ بقیہ ایرانیوں کو اسلام کے خلاف ورغلاتا ہے۔
/۔ انہیں ورغلاتا ہے کہ ان مذھبی اسلامی ایرانیوں نے ان پر عرب تہذیب اور عرب دین مسلط کر دیا ہے۔
/۔ انہیں ورغلاتا ہے کہ یہ دینی مذھبی ایرانی تو عربوں کے دوست اور حمایتی ہیں اور انہوں نے ایران دین و دنیا میں عرب کے تابع کر دیا ہے۔
/۔ انہیں ورغلاتا ہے کہ فلسطین ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ مذھبی ایرانیوں نے عرب دوستی اور تابعداری میں فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل و امریکہ اور پوری مغربی دنیا سے دشمنی مول لی ہوئی ہے۔

بے چارہ دین دار مذھبی ایرانی طبقہ ہر طرف سے پستا ہے۔ ملحد ایرانی اسے عرب کا ایجنٹ قرار دیتا ہے، جبکہ عرب کا بڑا حصہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ان مذھبی ایرانیوں کو آگ اور کسری کا پجاری اور عربوں سے نفرت کرنے والا اور ایرانی خون کی بڑائی کے زعم میں مبتلا ہونے والا، امریکہ و اسرائیل کا ایجنٹ [بشمول حزب اللہ کے] ۔۔۔۔ اور پتا نہیں کیا کچھ۔

یا خدا، تو اب بے چارہ یہ مذھبی ایرانی طبقہ جائے تو کہاں جائے؟

آپ ان مذھبی ایرانیوں کے پاس چلے جائیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ اپنے پاکستانی کلچر میں ہی گھوم پھر رہے ہیں۔ یہ آپ سے محبت و عزت سے پیش آئیں گے اور آپ کو اپنا دینی بھائی سمجھیں گے اور ان میں آپ کو کوئِی ایرانی کسری کی تہذیب اور ایرانی نسل و خون پر زعم نظر نہیں آئے گا۔
انہوں نے خود کمزور ہوتے ہوئے بھی امریکہ و اسرائیل کے خلاف نعرہ لگایا ہے اور اس جرم کی پاداش میں اپنے ساڑھے سات لاکھ جوانوں کے خون کا نذرانہ بارگاہ ایزدی میں پیش کر چکا ہے۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ان پر اسلام دشمن اور دوغلے ہونے وغیرہ جیسے الزامات لگانے سے قبل ان شہیدوں کے خون کا تھوڑا سا تو لحاظ کیا ہوتا جو امریکی سازش کا شکار ہوا کہ جب امریکہ اور مغربی دنیا کی شہہ پر عراق نے واضح طور پر جارحیت کرتے ہوئے ایران پر حملہ کر دیا۔ باخدا میں قسم کھا کر کہتی ہوں اگر یہ دینی و مذھبی ایرانی فلسطین کی حمایت نہ کرتے اور امریکہ و اسرائیل کے خلاف نعرہ نہ بلند کرتے تو صدام کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ کبھی ایران پر حملہ کرے۔ اور اگر کر بھی لیتا تو بغیر امریکی، روسی و عربی و مغربی دنیا کی امداد کے کبھی ایران پر قابض نہ ہو سکتا۔

جبکہ ملحد ایرانی طبقہ طاقت میں آ گیا تو وہ سب سے سے پہلے جا کر ہندوستان سے ہاتھ ملائے گا کیونکہ وہ پاکستان کو اسلام کی وجہ سے گالیاں دیتا ہے اور اپنا بہت بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ ہندوستان کے بعد اگلا مرحلہ امریکہ و اسرائیل سے گٹھ جوڑ کر کے عربوں کی ٹھکائی کرنے کا ہوتا۔
یقین کریں اگر ایران میں یہ ملحد آج آ جائیں تو افغانستان کی کارزائی حکومت جتنا پاکستان کے خلاف بولتی ہے اُس کو آپ بھول جائیں گے کیونکہ یہ ملحد پاکستان کے خلاف اتنی بیان بازی کریں گے اور اتنی سازشیں کریں گے بس اللہ کی پناہ۔
مگر اے ہموطنو، آپ لوگ یقین کریں کہ میں ایرانی اخبارات پڑھتی ہوں اور کم از کم جو اخبارات حکومتی [یا پھر بنیاد پرست کہلائے جانے والے طبقے کے زیر اثر ہیں] اُن میں پاکستان کے متعلق اچھا ہی لکھا جاتا ہے۔ اسے دوست برادر اسلامی ملک کہا جاتا ہے۔ اور جس طرح آپ کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی اخبارات میں ایران کے خلاف خبریں نہیں آتیں، تو اسی طرح ایرانی اخبارات میں بھی پاکستان کے خلاف خبریں نہیں آتیں۔

چونکہ میں ایرانی کلچر و حالات کو فرسٹ ہینڈ اور شاید یہاں سب سے زیادہ جانتی ہوں، اس لیے میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا ہے۔ اب میرے وطن کے لوگوں کو سوچنا ہے کہ کیا واقعی انہیں ایرانی قوم کو اس وقت مذھبی اور ملحد میں فرق کر کے دیکھنا چاہیے یا پھر سب کو ایک ہی طرح ہانکتے ہوئے ایرانی نسل کے زعم میں مبتلا اسلام کے خلاف قوم قرار دے دینا چاہیے؟ اور کیا ہمارے وطن عزیز کے لیے بہتر ہے کہ مذھبی طبقہ حکومت میں رہے یا پھر ملحد طبقہ جو کہ معاذاللہ رب الجلیل کو بھی گالیاں دینے سے بعض نہیں آتا وہ اقتدار حاصل کر لے۔

مجھے اتنا علم ہے کہ مذھبی ایرانیوں کو اپنے دیگر مسلم برادران کی حمایت اور نصرت کی شدید ضرورت ہے۔ چھوٹے موٹے فرقہ وارانہ جھگڑے ایک طرف، مگر بحیثیت ملت ہمیں اسلام کا مفاد سب سے زیادہ عزیز رکھنا ہو گا۔

والسلام
پی ایس:
ایران پر الزام ہے کہ اس نے پاکستانی ایٹمی راز عالمی اداروں کے حوالے کر دیے ہیں۔
یہ الزام بالکل غلط ہے، بلکہ یہ لیبیا ہے جس نے طیارے بھر کر تمام آلات اور ڈآکومینٹز امریکہ روانہ کر دیے تھے، جبکہ ایران آج بھی ان ڈاکومینٹز حوالہ نہ کرنے کی وجہ سے پابندیوں کا شکار ہے۔ اگر کسی کو اب بھی تنقید کرنی ہے تو پھر نیا تھریڈ شروع کر لیتے ہیں اور ادھر میں مطالبہ کروں گی کہ معترضین صرف اعتراضات و الزامات ہی نہیں بلکہ ایک ہی ٹھوس ثبوت پیش کر دیں کہ یہ ایران ہے جس نے قدیر خان نیٹ ورک کی تفصیلات عالمی اداروں کو پیش کی ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش آپ کی تان ہمیشہ پاکستانی میڈیا پر تنقید تک پہنچ کر ٹوٹ جاتی ہے آپ کو خودصحافت کا ذرا بھی تجربہ نہیں پاکستان کے بارے میںامریکی اور ایرانی میڈیا جتنا زہر اگلتا ہے اس کا آپ کو علم ہے بی بی سی ایرانی اورامریکی میڈیا کے بارے میں پاکستانی ‌صحافیون میں مشھور ہے جس نے پاکستان کی مخالفت کرنی ان ممالک کے میڈیا گروپوںمیں چلایا جائے ایران ہمارا برادرملک ضرور ہے مگر یہ کوئی حاجی محمد شریف نہیں اس کے بھی مفادات ہیں طالبان اور القائدہ کے حوالے سے پاکستانی میڈیا امریکی میڈیا سے خبریں لفٹ کر تا ہے آج کے بعد جس پاکستانی خبر پر شک ہو وہ آپ کو تلاش کرنے پر مغربی میڈیا میں مل جائے گئی

سبحان اللہ خبر برطانوی بی بی سی کی تھی اور مدح سرائی پاکستانی میڈیا کی۔

ساجد بھائی، میں نے پاکستانی میڈیا کے ساتھ ساتھ یہ مکمل ذکر کیا تھا کہ امریکی اور برطانوی پریس مسلسل عراق جنگ میں کیمیل بموں کا پرچار کرتے رہے، اور پھر عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے یہ پرچار شروع ہے کہ ایران عراق میں دہشت گردوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔
اسی حوالے اگر بی بی سی کے "کیٹ کلارک" نے کوئی خبر شائع کی ہے تو بجائے اس پر صرف زبانی اصرار کرنے کے یا تو کوئی اور مستند ماخذ کا ثبوت ہو، ورنہ خدارا سوچیں کہ کہیں یہ صرف ایک جھوٹا الزام اور خطرناک سازش تو نہیں تاکہ آپس میں نفرتیں پیدا کی جائیں؟
/////////////////////////////////////
امکان برادر،
آپ نے دعوی کیا تھا کہ پاکستانی میڈیا میں ویسے تو خبریں اڑتی ہیں مگر صحافی اپنا نام لیکر خبریں نہیں اڑاتے۔ مگر میں نے اوپر آپکو بمع لنک ثبوت مہیا کر دیا ہے۔ اب یہ آپ کی مرضی اسے قبول کرتے ہیں یا نہیں۔
/////////////////////////////////////
بھائی لوگو، آپ مجھ پر غصے ہونے کی بجائے میرے دل کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
میں بھی ایران کو حاجی محمد شریف نہیں مانتی۔ مگر ایران کے ساتھ ساتھ میں کسی اور ملک [بشمول پاکستان] کو بھی حاجی محمد شریف نہیں مانتی۔
دیکھئیے مفادات میں ٹکراو ہو جانا ایک فطرتی بات ہے۔ دو سگے بھائیوں کے مفادات میں بھی کبھی کبھار ٹکراو ہو جاتا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ انتہا پسند ہر جگہ اور ہر قوم میں موجود ہوتے ہیں۔ کہیں وہ طاقت میں کم اور کہیں طاقت میں زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ انتہا پسند ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پھیلاتے ہیں اور ان سے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ایران میں اب کئی سو روزنامے یا ہفتہ نامے یا ماہنامے شائع ہوتے ہیں اور ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور پاکستان کے خلاف لکھتے ہیں۔ مگر زیادہ تر یہی لوگ دینی و مذھبی ایرانیوں کے یا عرف عام میں انقلاب اسلامی کے بھی خلاف ہیں۔

ہمیں ایسی پالیسی اپنانی چاہیے کہ جس سے ہمسائیہ برادر ممالک میں پھوٹ اور نفرت نہ پڑے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت و احترام کا رشتہ اتنا پکا ہو کہ باہر کی قوتیں یا پھر اندر کی باطل قوتیں انہیں توڑ یا کمزور نہ کر سکیں۔ ورنہ دیکھئیے گا اسی باطل قوتوں کی لگائی گئی آگ کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارے ایک دشمن کا بلاوجہ اضافہ ہو جائے گا اور ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران کو بھی پاکستان کے خلاف اپنے بلاک میں لے لے گا۔ [بلکہ پھر ہندوستان ہی کیوں، جلد امریکہ اور اسرائیل بھی افغانستان کے بعد آپ کی ایرانی مغربی سرحدوں کے قریب منڈلا رہے ہوں گے۔]
 

آبی ٹوکول

محفلین
اسی حوالے اگر بی بی سی کے "کیٹ کلارک" نے کوئی خبر شائع کی ہے تو بجائے اس پر صرف زبانی اصرار کرنے کے یا تو کوئی اور مستند ماخذ کا ثبوت ہو، ]

مہوش بہن مجھے صرف اتنا بتادیں کہ یہ مستند ماخذ کس بلا کا نام ہے اور اس کا ادراک کیسے ہوتا ہے ؟
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش بہن مجھے صرف اتنا بتادیں کہ یہ مستند ماخذ کس بلا کا نام ہے اور اس کا ادراک کیسے ہوتا ہے ؟
محترم بھائی صاحب، آپ مجھے کن کن باتوں میں بحثوں میں الجھا رہے ہیں۔
میں بہت کم علم ہوں اور یقینا آپ مجھ سے بہتر ادراک رکھتے ہوں گے کہ کوئی چیز مستند کیسے ہو سکتی ہے۔
بہرحال، میری ناقص رائے آپ جاننا چاہتے ہیں تو میرے نزدیک آجکل کسی خبر کے مستند ہونے کا اُسی طرز کا معیار ہونا چاہیے جیسا کہ احادیث و روایات کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے اپنایا جاتا ہے۔
مثلا یہ دیکھنا کہ خبر پھیلانے والا کون ہے [جس طرح علم الرجال میں حدیث بیان کرنے والے کے عقائد اور کردار وغیرہ کا علم ہوتا ہے]۔ تو آجکل اگر خبریں پھیلانے والے کا ماضی میں کردار صاف رہا ہے اسکی خبر میں وزن ہے۔ جبکہ اگر وہ ماضی میں بھی بے پر کی اڑاتا رہا ہے تو پھر اس کی خبر بے وزن ہو گی۔
اسی طرح مغربی میڈیا اپنے مخالفین کے متعلق خبر شائع کرے گا تو اس پر کسی حد تک شک کیا جائے گا، مگر اگر پاکستانی میڈیا القاعدہ یا طالبان کا باقاعدہ انٹرویو نشر کرے گا تو اسے مغربی میڈیا کی نسبت زیادہ پراعتماد سمجھا جائے گا۔
اور "صحیح خبر" سے زیادہ اہمیت "متواتر خبر" کی ہے جو کہ ایک دو نہیں، بلکہ اتنے ماخذین سے ثابت ہو جائے کہ جنہیں جھٹلانا مشکل ہو جائے۔
//////////////////////////////////////
اور آپ ہماری روشوں میں متضاد رویہ دیکھنا چاہیں تو یہاں اسکی ایک مثال موجود ہے۔
گیارہ ستمبر کے واقعے کی اتنی بالواسطہ اور بلاواسطہ شہادات اکھٹی ہو چکی ہیں، خود القاعدہ کے انٹرویوز نشر ہو چکے ہیں، مگر ابھی تک اس کو جھٹلایا جاتا ہے کہ ان تمام عربی طالبعلموں کو بہکا کر طیاروں میں سوار کروایا گیا تھا، اور ٹیپ کسی نے فراڈ سے بنا لی ہوں گی، اور پاکستانی میڈیا نے کسی بناسپتی القاعدہ کے لیڈر کا جھوٹا انٹرویو نشر کر دیا ہو گا ۔۔۔۔۔۔ [وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ہزار ہا بہانے]
مگر یہاں ایک کیٹ صاحب/صاحبہ جب اپنے نامعلوم ذرائع کا نام لیکر ایران کے خلاف کچھ لکھتے ہیں تو بھائی حضرات اس پر ایمان لانے کو تیار تلے بیٹھے ہیں۔ میرے خیال میں یہ اس چیز کا نتیجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کا احترام بھول گئے ہیں اور آج بس ایک دوسرے کو اپنا دشمن اور برباد کر دینے والا سمجھ رہے ہیں۔
اللہ تعالی پھر سے ہمارے سینوں کو صاف فرمائے۔ امین۔
والسلام۔
 

جہانزیب

محفلین
مہوش میں ایران کے ساتھ ساتھ میری پہلی پوسٹ میں سعودی عرب کا ذکر بھی تھا، اور اصل رونا یہ تھا کہ آخر بی بی سی نے وہ پہلی خبر کیوں ہٹائی تھی۔
اب آپ کی تحریر اور الزامات کی طرف آتا ہوں، یہ صرف آپ ہی نہیں پوری دنیا میں واویلا کیا جاتا ہے، یہاں جب کوئی خبر لبرلز کے خلاف ہو تو وہ میڈیا پر الزامات لگا کر کہ ان کا جھکاؤ قدامت پسندوں کی طرف ہے، تب قدامت پسند وہ خبر پوری شد و مد کے ساتھ اچھالتے ہیں، پھر کوئی ایسی خبر آ جاتی ہے جو قدامت پسندوں کو ناگوار گزرتی ہے تو اسی میڈیا کو وہ کوسنا شروع کر دیتے ہیں، جس کی خبر کے وہ پہلے حوالے دیتے تھے ۔ مستند ہونے کے لئے میری ایک دلیل ہے کہ خبر بی بی سی پر آئی ہے، اور بی بی سی کا ریکارڈ اتنا برا نہیں کہ اس پر یقین نہیں کیا جائے ۔
اس دھاگے کا مقصد بالکل بھی فرقہ ورانہ نہیں تھا، لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ یہ اسی جانب بڑھ رہا ہے ۔ اور نہ ہی یہاں بات عوام کی ہے کہ ایرانی عوام پاکستان سے محبت کرتے ہیں، تو پاکستانی عوام بھی ایرانیوں کو اپنا برادر ملک ہی کہتے ہیں ۔ یہاں علاقائی سیاست میں ایران اور اس کی حکومت کے کردار پر بات کی جائے تو وہ زیادہ مناسب ہو گا ۔
اب ہم اخبارات کو بھول جاتے ہیں، ایران کے پاکستان کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی بات میں نے اخبارات سے نہیں، پرویز مشرف کی ٹیلویژن تقریر میں سنی تھی، اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ سابق صدر مستند انسان ہیں کہ نہیں ۔ اس کے علاوہ اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ محمد البرادی کا شکریہ بھی ریکارڈ پر ہے ۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ کے کونسے مستند ذرائع ہیں جن کی بنیاد پر آپ ان حقائق کو ماننے سے انکار کر رہی ہیں ۔
اب ہم ایران کی طالبان کو مدد کے حوالے سے بات کرتے ہیں، حالانکہ یہی طالبان ہیں جنہوں نے مزار شریف پر قبضہ کے بعد ایرانی اہلکاروں کو قتل کر دیا تھا پھر ایران ان کی مدد کیوں کرے گا، جبکہ ماضی میں ایران افغانستان میں شمالی اتحاد کا حامی رہا ہے ۔ اس پر میرے علم کے مطابق سب سے پہلے بات اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر زلمے خلیل زاد نے کی تھی کہ ان کے پاس ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ ایران افغانستان میں اسلحہ فراہم کر رہا ہے ۔اور اوپر جس خبر کے ہٹائے جانے کی بات کی تھی، اس میں پاکستانی وزارتِ داخلہ کی طرف سے اس پر تفصیل سے بحث کی گئی تھی ۔ ایران کی اس پالیسی کے پیچھے شائد پاکستان دشمنی کا تاثر نہیں ہو، لیکن امریکہ کو افغانستان میں الجھائے رکھنا ضرور شامل ہے، آپ عراق میں مزاحمت کاروں کے بہت خلاف ہیں، وہاں بھی امریکہ پہلے دن سے واویلا مچا رہا ہے کہ ایران ہر قسم کی مدد مزاحمت کاروں کو مہیا کر رہا ہے، اور اس کے پیچھے بھی یہی تحریک ہے کہ امریکہ یہیں الجھا رہے ۔
اب ایران پاکستان کا کتنا ہمدرد ہے، ذیل کے اقتباسات ملاحظہ کریں ۔

Pakistan has blamed Iran for fueling a growing insurgency in Baluchistan, the strategically sensitive province where militant tribesmen have launched a series of terrorist attacks in recent weeks.

Senior government officials say Iran is encouraging "intruders" from within its own Baluch community to cross the 550-mile border with the Pakistani province and give support to the rebels.

"All this violence is a part of a greater conspiracy," a senior Pakistani government official said. "These militants would not be challenging the government so openly without the backup of a foreign hand."

Pakistan's Inter-Services Intelligence (ISI) agency set up a unit in the provincial capital, Quetta, last year to monitor suspected Iranian activity in Baluchistan. Officials say that in addition to directly supporting the insurgency, Tehran's state-controlled radio has launched a propaganda campaign against Islamabad.

"Radio Tehran broadcasts between 90 and 100 minutes of programs every day which carry propaganda against the Pakistan government," said a former interior minister. He added that Iran was suspected of providing financial, logistical and moral backing for the insurgency.
پوری خبر کا حوالہ یہاں موجود ہے ۔ امید ہے کہ آپ بھی مذہب سے ہٹ کر ایک پاکستانی کے حوالے سے اس پر سوچیں گی ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم،

1۔ یہ خبر جنوری 2005 کی ہے، اور آج ستمبر 2008۔ یعنی پونے چار سال پرانی۔
2۔ نہ صرف واشنگٹن پوسٹ، بلکہ یہ خبر یورپ کے کئی اخبارات میں ایک ساتھ جوں کی توں شائع کروائی گئی [مثلا لندن میں سنڈے ٹیلیگراف نے لفظ بہ لفظ یہ خبر ایسے ہی شائع کی]

آئیے اب پوری خبر پڑھتے ہیں:

london Sunday Telegraph
karachi, Pakistan — Pakistan Has Blamed Iran For Fueling A Growing Insurgency In Baluchistan, The Strategically Sensitive Province Where Militant Tribesmen Have Launched A Series Of Terrorist Attacks In Recent Weeks.

Senior Government Officials Say Iran Is Encouraging "intruders" From Within Its Own Baluch Community To Cross The 550-mile Border With The Pakistani Province And Give Support To The Rebels.

"all This Violence Is A Part Of A Greater Conspiracy," A Senior Pakistani Government Official Said. "these Militants Would Not Be Challenging The Government So Openly Without The Backup Of A Foreign Hand."

Pakistan's Support Would Be Essential For Any U.s.-led Action Against Iran, Whose Fundamentalist Muslim Regime Was Last Week Put Firmly In The Sights Of The Second Bush Administration By Vice President Dick Cheney. "you Look Around The World At Potential Trouble Spots — Iran Is Right At The Top Of The List," Mr. Cheney Said.

Pakistan's Inter-services Intelligence (isi) Agency Set Up A Unit In The Provincial Capital, Quetta, Last Year To Monitor Suspected Iranian Activity In Baluchistan. Officials Say That In Addition To Directly Supporting The Insurgency, Tehran's State-controlled Radio Has Launched A Propaganda Campaign Against Islamabad.

"radio Tehran Broadcasts Between 90 And 100 Minutes Of Programs Every Day Which Carry Propaganda Against The Pakistan Government," Said A Former Interior Minister. He Added That Iran Was Suspected Of Providing Financial, Logistical And Moral Backing For The Insurgency.

Iran Is Said To Be Taking Advantage Of Unrest Among Tribesmen Who Claim To Have Been Denied The Benefits Of Baluchistan's Natural-gas Fields.

Earlier This Month, Rebels Disrupted Gas Production In A Series Of Rocket And Mortar Attacks, Which Killed Eight Persons. However, Islamabad Is Delaying A Formal Complaint To Tehran In The Hope That Private Diplomatic Channels May Prove More Effective. Meanwhile, Large Numbers Of Troops Are Hunting Rebels In The Province.

Pakistani Officials Believe That Tehran — Already Furious At Pakistan's Support For The U.s.-led War On Terrorism — Has Stepped Up Its Activity In Baluchistan Because Of Its Anger At The Construction Of A Vast Deep-water Port At Gwadar, Close To The Border, Which It Fears Could Be Used By Washington As A Base For Monitoring And Infiltrating Iran.

Washington Believes Iran Is Pursuing An Advanced Nuclear-weapons Program In Addition To Sponsoring International Terrorism, And Has Repeatedly Accused Tehran Of Fomenting Trouble Within Iraq.

Last Week, Journalist Seymour Hersh Reported In The New Yorker That U.s. Special Forces Had Carried Out Recent Reconnaissance Missions Inside Iran To Identify Nuclear, Chemical And Missile Sites That Could Be Targeted. Although The Bush Administration Brushed Aside The Claims, The Report Heightened The Belief That The United States Might Be Preparing To Take Action.
3۔ آپ پوری خبر پڑھ لیں۔ اس میں آپ کو بار بار پاکستانی عہدیداروں کا حوالہ نظر آئے گا، مگر تمام کے تمام حوالے پھر بھی ایسے ہیں کہ اسکی بنیاد پر آپ ایک بھی بندے تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ تصدیق کر سکتے ہیں کہ اس نے یہ کہا ہے۔
ذرا غور کیجئیے۔

4۔ 2005 میں جب یہ افواہ شائع ہوئی تھی تو ایک طوفان اٹھا تھا اور بہت سے ڈسکش فورمز پر یہ بحث چل رہی تھی۔ مگر یقین کریں اتنا شور شرابہ اٹھنے کے بعد بھی ایک پاکستانی آفیشل سامنے نہیں آ سکا جس نے یہ بیانات دیے ہوں۔ بلکہ اسکے برعکس مجھے یاد ہے کہ فوجی ترجمان [برگیڈیئر راشد قریشی جو کہ اُس وقت کرنل تھے] نے ان خبروں کی اس موقع پر کھل کر تردید کی تھی کہ یہ غلط بیان حکومت سے منسوب کیا جا رہا ہے اور انکے پاس کوئی رپورٹس نہیں کہ ایران بلوچستان میں کسی قسم کی تخریب کاری کروا رہا ہے۔

5۔ اور صدر مشرف نے 2005 میں نہیں بلکہ 2008 میں بیان دیا ہے کہ انہیں 100 فیصد یقین ہے کہ بلوچستان میں غیر ملکی در اندازی ہو رہی ہے۔ اور مشرف صاحب کا اشارہ انڈین را کی طرف تھا، مگر ہمارے کچھ مہربانوں نے اس بیان کا رخ زبردستی موڑ کر انڈین را سے ہٹا کر ایران کی طرف کر دیا ہے۔

6۔ اور ایران اور پاکستان کے بلوچستان اور سیستان میں یکساں مفادات ہیں۔ دونوں میں علیحدگی پسند تحریک چل رہی ہے جو کہ مل کر ایک آزاد ملک بنانا چاہتی ہے۔
اس سلسلے میں دونوں ممالک میں خاموشی کے ساتھ بہت تعاون بھی ہوا ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ امریکی آفیشلز نے کھلے عام اعلان کیا تھا کہ وہ ایرانی سیستان میں علیحدگی پسند تحریک "جندل اللہ" سے رابطے میں ہیں تاکہ ان سے تعاون کریں تاکہ وہ ایران میں کاروائیاں کر سکے۔

7۔ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مشرف صآحب نے ایران پر الزام لگایا تھا۔ حالانکہ یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ مشرف صاحب کی وجہ سے پاک ایران تعاون اس معاملے میں اتنا زیادہ تھا کہ پاکستان نے "جندل اللہ" کے بہت سے کارکنوں کو پاکستان میں پکڑ کر مارا اور کچھ کو ایران کے حوالے کیا۔ جبکہ ایرانی سیکورٹی فورسز نے جواب میں کاروائی کرتے ہوئے بگتی کے بیٹے کو ایران میں مارا۔

8۔ ابتک آپ پر یا بات واضح ہو جانی چاہیے کہ اندرونی و بیرونی دشمن کیسے غلط فہمیاں پھیلا کر دونوں ہمسایہ ممالک کو کیسے لڑوانا چاہتے ہیں۔
ادھر پاکستان میں وہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ایران افغانستان میں تخریبی کاروائیاں کر رہا ہے۔
اور اُدھر ایران میں یہ افواہیں پھیلانے کی کوشش میں رہے کہ پاکستانی سرزمین پر پاکستان جنداللہ کو ایران میں تخریبی کاروائیوں کے لیے منظم کر رہا ہے۔
مگر بھلا ہو دونوں ممالک کا کہ انہوں نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور اپنی اپنی سرزمین پر سیکورٹی فورسز کے ساتھ ایکش کر کے دونوں طرف کے تخریب کاروں کو قتل کر دیا۔ اس دو طرفہ کروائی سے دشمن کی اڑائی ہوئی یہ تمام افواہیں اگر مریں نہ بھی تو بھی بے دم ہو کر زمین پر گر پڑیں۔

پی ایس: کیا آپ مجھے لنک دے سکتے ہیں کہ مشرف صاحب نے صاف صاف ایران پر تخریب کاری میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔
نیز البرداعی نے یواین او کے چارٹر پر ایران کے تعاون پر شکریہ ادا کیا تھا۔ لیکن آپ نے ایک دوسری بات کی ہے۔ کیا آپ مجھے اسکے متعلق خبروں کا لنک فراہم کر سکتے ہیں [وجہ یہ ہے کہ تاریخ دیکھ کر میں آپ کو بتا دوں گی کہ اس سے بہت قبل لیبیا نے پورا طیارہ بھر کر ڈائریکٹ امریکہ روانہ کر دیا تھا جس میں تمام ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ پوری ڈاکومینٹیشن بھی تھی]
 

جہانزیب

محفلین
اب خیر اس پر میں کیا کہوں، ڈاکٹر قدیر کے واقعہ کے دوران میں پاکستان میں‌ موجود تھا، اور بقلم خود صدر مملکت کی تقریر سنی تھی ۔ اب ایک اور اقتباس
[
quote]the Iaea Chief Said Iran Had Shown “good Progress” In Answering Questions About How It Procured Centrifuges For Enrichment From The Network Of Abdul Qadeer Khan, The Scientist Known As The Father Of Pakistan’s Atomic Bomb Who Later Peddled His Country’s Nuclear Technology. And Elbaradei Credited Tehran With Providing Ahead Of Schedule A 15-page Document Showing How To Craft Uranium Metal Hemispheres For A Nuclear Warhead, A Blueprint That Iran Said Was Provided Unsolicited By Khan’s Network And Not Used To Build Anything[/quote]​

سورس اور جب خبروں‌کا ماخذ ایک ہو تو خبریں‌ بھی ایک جیسی ہوتی ہیں‌ ۔
 

زیک

مسافر
Pakistan Has Blamed Iran For Fueling A Growing Insurgency In Baluchistan, The Strategically Sensitive Province Where Militant Tribesmen Have Launched A Series Of Terrorist Attacks In Recent Weeks.

پاک ڈیفنس فورم؟ وہی ایک صاحب یا وہاں ہر شخص اسیطرح ہر لفظ کو capitalize کرتا ہے؟

یہاں کچھ لوگ شاید عمر میں چھوٹے ہیں اور انہیں 80 کی دہائ کی سعودیہ اور ایران کی پاکستان میں کارروائیوں کا علم نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اب خیر اس پر میں کیا کہوں، ڈاکٹر قدیر کے واقعہ کے دوران میں پاکستان میں‌ موجود تھا، اور بقلم خود صدر مملکت کی تقریر سنی تھی ۔ اب ایک اور اقتباس
[
quote]the Iaea Chief Said Iran Had Shown “good Progress” In Answering Questions About How It Procured Centrifuges For Enrichment From The Network Of Abdul Qadeer Khan, The Scientist Known As The Father Of Pakistan’s Atomic Bomb Who Later Peddled His Country’s Nuclear Technology. And Elbaradei Credited Tehran With Providing Ahead Of Schedule A 15-page Document Showing How To Craft Uranium Metal Hemispheres For A Nuclear Warhead, A Blueprint That Iran Said Was Provided Unsolicited By Khan’s Network And Not Used To Build Anything​
سورس اور جب خبروں‌کا ماخذ ایک ہو تو خبریں‌ بھی ایک جیسی ہوتی ہیں‌ ۔[/quote]

جہانزیب برادر،

1۔ یہ خبر "لاس اینجلس ٹائمز" کی ہے اور اسکی اشاعت ہوئی ہے مورخہ 23 نومبر 2007
2۔ اسی خبر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ "چار ماہ قبل" [یعنی اگست 2007 میں ایران نے کچھ دستاویزات عالمی ادارے کے حوالے کیں:
He told the 35-member board that Iran had answered questions in the last four months about where it acquired technology to enrich uranium,
3۔ اس نومبر 2007 سے قبل ایران پر 3 مرتبہ اقوام متحدہ میں پابندیاں لگ چکی تھیں کیونکہ ایران ان سوالات کا جواب نہیں دے رہا تھا کہ یہ ٹیکنالوجیز اسکے ہاتھ کہاں سے لگیں۔
4۔ اور ایران کو 2007 میں ان سوالات کا جواب دینے پر کیوں مجبور تھا؟
اسکی وجہ یہ ہے کہ اگست 2007 سے کہیں قبل 2003 میں لیبیا نے اپنے تمام Equipment کو ہوائی جہاز میں بھر کر ڈائریکٹ واشنگٹن میں لینڈ کروا دیا تھا۔ ساتھ میں پوری ڈاکومینٹیشن موجود تھی کہ کیا کچھ انہیں کہاں سے ملا۔
5۔ بلکہ لیبیا کے واقعے سے بھی دو سال قبل 2001 میں امریکی ایجنسیز کے پاس عبدالقدیر خان نیٹ ورک کے متعلق تفصیلات آ چکی تھیں۔
6۔ اور 2003 میں ہی لیبیا کے واقعے کے بعد صدر مشرف نے پہلے عبدالقدیر خان کو پہلے کہوٹہ سے الگ کر کے دوسرے شعبہ کا انچارج بنایا، مگر جب عالمی پریشر بڑھا تو پھر عبدالقدیر خان صاحب کو نظر بند کیا گیا۔
7۔ اور 2003 تک امریکہ کو عبدالقدیر خان نیٹ ورک کے متعلق اتنی معلومات مل چکی تھیں کہ اب انکار کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ 2003 کے آخر [بلکہ 2004 جنوری میں] عبدالقدیر خان نے واضح پر سامنے آ کر اقرار کیا کہ وہ کوریا، لیبیا اور ایران کی اس سلسلے میں مدد کرتے رہے ہیں۔
8۔ اس اعتراف کے بعد ایران کے پاس بھی چھپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی اور اسے بھی اس نیٹ ورک سے متعلق معلومات عالمی اداروں کو مہیا کرنا پڑیں جو کہ اس نے آہستہ آہستہ کیں۔
چنانچہ ایران کو اگرچہ کہ 2007 میں یہ معلومات فراہم کرنا پڑیں، مگر اس سے قبل وہ انہی معلومات کو چھپانے کے جرم میں 3 مرتبہ عالمی پابندیوں کا نشانہ بن چکا تھا۔

ذرا سوچئیے کہ ایران کا اس میں کیا فائدہ تھا کہ وہ عبدالقدیر خان نیٹ ورک کے خلاف ثبوت 2003 سے قبل امریکہ کے حوالے کرتا؟ ایران کو تو ہر ہر صورت میں اس نیٹ ورک کے لیک ہو جانے کا نقصان تھا اور وہ براہ راست اس میں ملوث ہو کر عالمی دباو کا نشانہ بنتا۔
سب سے پہلے مکمل ثبوت لیبیا نے مہیا کیے اور اسکے بعد پاکستان کے پاس بھی کوئی آپشن نہ تھِی سوائے اس پر اس نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کرنے کے۔ ایسے میں یہ ایران پر یہ الزام لگانا غلط ہے کہ اس نے سب سے پہلے اس نیٹ ورک کی معلومات امریکہ تک پہنچا کر پاکستان کی کمر میں کوئی خنجر گھونپا ہے۔ یہ دشمن کا پروپیگنڈا ہے۔ تمام ثبوت و دلائل سامنے ہیں۔ امریکہ کو 2001 سے ہی اس نیٹ ورک کی کاروائیوں کا علم تھا۔ اور مکمل ثبوت 2003 میں لیبیا نے اسے فراہم کیے۔
والسلام
پی ایس:
کیا آپ کو علم ہے کہ 2003 میں جب گوادر کا پہلا فیز مکمل ہوا تو اس پر سب سے پہلے مبارکباد دینے والا شخص ایران کا صدر خاتمی تھا۔ اور ایرانی اخبارات پڑھنے کے بعد مجھے یوں لگا کہ ایران بذات خود گوادر پورٹ میں دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ یہاں پر چین کی بحریہ کا ایک بیس بننا ہے جس سے ایران کو اس علاقے میں امریکہ کے خلاف ایک کاونٹر قوت میسر آئے گی۔ جبکہ ایران کے خلاف امریکہ گوادر پورٹ کا بہت بڑا دشمن ہے اور بہت ناخوش ہے۔ چین کی گوادر پورٹ میں شمولیت کے اور امریکی ناراضگی کے بارے میں تفصیلی رپورٹ جنگ اخبار میں سن 2005 میں شائع ہوئی تھی۔ افسوس کہ آنلائن اب اس تاریخ کا اخبار موجود نہیں ہے۔ خبر شائع ہونے کی اصل تاریخ ہے 17 جنوری 2005۔

جہاں تک ٹریڈ کا تعلق ہے تو سٹڈیز کے مطابق گوادر پورٹ بن جانے سے ایران کو زیادہ فرق نہیں پڑنے والا تھا کیونکہ کراچی سے افغانستان کو سپلائی پہلے سے جاری ہے۔ تھوڑا فرق جو پڑنا تھا وہ وسطی ایشیا کی تین ریاستیں ہیں [ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان اور شاید چھوٹا سا ملک کرغیزستان بھی] اگرچہ کہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک جو راستہ پاکستان/افغانستان سے ہوتا ہوا گذرتا ہے، وہ کافی دشوار گذار پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔ جغرافیائی صورتحال کے حساب سے یقینی طور پر کم از کم ترکمانستان اور ازبکستان ایران سے ہی مال منگواتے، جبکہ تاجکستان سے چانسز تھے کہ وہ پاکستان کے راستے مال منگوائیں۔
بہرحال، گوادر کے حوالے سے ان وسطی ایشیائی ریاستوں کا کردار اتنا اہم نہیں [بلکہ امریکہ کے ذریعے پائپ لائن ڈیل نہ ہونے کے بعد دلچسپی اور کم ہو گئی ہے]

گوادر پورٹ سے جو اصل ٹریڈ ہونی ہے، وہ چائنا کا مال ہے جسے عرب ممالک سے لیکر افریقہ تک پھیلنا ہے۔ اور اسی طرح عرب ممالک کا تیل وغیرہ کی چائنا کو سپلائی دینا تھی اور خام مال کا افریقہ سے چین پہنچنا ہے۔

دیکھئیے ہمسائیہ ممالک کے یہ چھوٹے موٹے مفادات کبھی کبھار ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ جاتے ہیں، مگر مہذب قومیں انہیں مہذب طریقے سے حل کرنے پر قادر ہوتی ہیں۔ یورپ میں اب جرمنی اور ہالینڈ کی بندرگاہیں ایک دوسرے کے Compitition پر کھڑی ہیں اور یہاں سے پورے وسطی یورپ وغیرہ میں مال سپلائی ہوتا ہے۔ مگر اس Compitition کے باوجود انہوں نے بہت آسانی سے یہ مسائل حل کر لیے ہیں۔ تو پھر ہم کیوں اس بات پر قادر نہیں کہ اپنے مسائل مہذب طریقے سے حل کر سکیں؟
 

طالوت

محفلین
6۔ اور پھر حامد میر جیسے صحافی، جنہوں نے واہ کینٹ کی حملے میں محسود و ملا عمر کی طالبان کو صرف اپنے مفروضوں کے بل بوتے پر مکمل فرشتہ ثابت کر دیا، جبکہ ملا عمر خود ٹی وی پر آ کر خود کش حملے پر فخر کر رہا ہے۔[/b]
مجھے سمجھ نہیں آ رہی بی بی کہ آپ دانستہ یا ناداستہ افغان طالبان کو پاکستانی طالبان سے مکس اپ کیوں کرتی رہتی ہیں ، اب فخر کا اظہار مولوی عمر نے کیا تھا ملا عمر نے نہیں ۔۔۔ اور پھر آپ جو اتنے دعوے کرتی رہتی ہیں آپ کو بار بار یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ پاکستانی طالبان میں بھی کئی ایک گروہ ہیں جن کے آپسی اختلاف اور ایک دوسرے سے لا تعلقی واضح ہے ۔۔۔ مجھے تو حیرت ہے کہ آپ اور آپ کے امریکہ کو طالبان اتنا بڑا خطرہ نظر آنے لگے ہیں کہ امریکہ بہادر "بدی کے محور" کو بھول ہی گیا ہے اور پاکستان پر چڑھائی کر رہا ہے ۔۔۔ بات ذرا سوچنے کی ہے کہ ایک طرف خالی خولی دھمکیاں اور دوسری طرف غیر اعلانیاں حملے ۔۔۔۔۔۔ سوچیئے گا ضرور :)
وسلام
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top