ایسی تنک لباسی ہے کہ شرمندہ عریانی ہے ۔۔۔ غزل اصلاح کے لئے

استاد محترم جناب الف عین سر
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں۔ غزل کی بحر
بحر متدارک مثمن مخبون مضاعف (غالباََ)
ہے۔
ارکان ہیں :
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع
جس میں تسکین اوسط کے استعمال بھی کئی جگہ پر کیا گیا ہے۔
احباب محفل کی رائے بھی میرے لئے قیمتی ہے۔ منتظر رہونگا۔
★★★★★★★★★★★★★★★
اجلے بدن ہیں محفل محفل جلوؤں کی ارزانی ہے
ایسی تنک لباسی ہے کہ شرمندہ عریانی ہے

دل سے باہر کرنے پر بھی ہر خواہش ہے پاس مرے
اس پہ حیرت کیا ہو، ان کی فطرت ہی زندانی ہے

شام کے دھندلے سائے میں دیوار پہ بیلیں دیکھو تو
حسنِ تغافل کا قصہ ہے یا آیت قرآنی ہے

ق...........
آنگن میں کچھ یاد کے سائے، چھت پر بوجھل آوازیں
خواب کئے تہہ اک کمرے میں، ایک میں بند حیرانی ہے

بِن گائے کچھ گیت کہیں پر، اک الجھن الماری میں
بڑے گھروں میں ان چیزوں کو رکھنے کی آسانی ہے
........

پہلے میری روح میں تھی اور اب تن من سے لپٹ گئی
تنہائی بے شرم کا رشتہ مجھ سے اب جسمانی ہے

اِس دریا کی موج پہاڑوں پر سر دھنتی چلتی ہے
وہ شوخی کہسار پہ ہے، یہ ظرف میاں میدانی ہے

تصویر کے اس پس منظر میں یہ لڑکی خوب دِکھی لیکن
رنگوں نے جو پھیلایا وہ کرب یہاں لاثانی ہے

کاشف رات اداسی نے پھر چھیڑ کری، پھر ہنس کے کہا
یہ شکل کہیں پر دیکھی ہے، یہ صورت کچھ پہچانی ہے !
سیّد کاشف
★★★★★★★★★★★★★★★
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
تصویر کے اس پس منظر میں یہ لڑکی خوب دِکھی لیکن
رنگوں نے جو پھیلایا وہ کرب یہاں لاثانی ہے
یہ شکل کہیں پر دیکھی ہے، یہ صورت کچھ پہچانی ہے !
یہ مصرعے شاید درست بحر میں نہیں۔بحریں مخلوط ہو رہی ہیں ۔
چھیڑ کری اچھا نہیں ۔
خواب کئے تہہ اک کمرے میں، ایک میں بند حیرانی ہے
ایک کی جگہ اک آنا چاہیئے۔
تنک کی نشست درست نہیں لفظی طور پر۔
یہ ضروری باتیں ہیں ۔ اعجاز بھائی کی رائے لیتے ہیں ۔ دیکھئے کیا کہتے ہیں۔​
 
آخری تدوین:
بحر کا اصل وزن
فعل فعول فعول فعول فعول فعول فعول فعل ہے۔

خواب کئے تہہ اک کمرے میں، ایک میں بند حیرانی ہے
بند بر وزن فاع ہے۔

بڑے گھروں میں ان چیزوں کو رکھنے کی آسانی ہے
ابتدائی رکن بر وزن فعل نہیں ہو سکتا۔

اِس دریا کی موج پہاڑوں پر سر دھنتی چلتی ہے
تقابل ردیفین ۔

تصویر کے اس پس منظر میں یہ لڑکی خوب دِکھی لیکن
یہاں آپ نے تصویر کو تصور باندھا ہے۔

یہ شکل کہیں پر دیکھی ہے، یہ صورت کچھ پہچانی ہے

یہ مصرع متدارک میں ہے جب کہ اصل بحر متقارب ہے کیونکہ زیادہ شعر اسی بحر میں موزوں ہیں۔


اس کے علاوہ اگرچہ تنک والے مصرع کو بحر سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے باوجود بہتر یہی ہے کہ اس بحر کے درمیان میں وتد مجموع نہ لایا جائے۔ اس سے روانی متاثر اور عروضی پریشان ہوتے ہیں۔
 
مجھے آپ دونوں حضرات تھوڑا سا وقت دیں. میں پوری غزل کی تقطیع پیش کرتا ہوں ان شا اللہ.
عین ممکن ہے کہ بحور خلط ملط ہو رہی ہوں.
استاد محترم جناب الف عین سر کا بھی منتظر ہوں.
آپ دونوں حضرات کا شکرگزار ہوں۔. جزاک الّلہ.

یہ مصرعے شاید درست بحر میں نہیں۔بحریں مخلوط ہو رہی ہیں ۔
چھیڑ کری اچھا نہیں ۔
خواب کئے تہہ اک کمرے میں، ایک میں بند حیرانی ہے
ایک کی جگہ اک آنا چاہیئے۔
تنک کی نشست درست نہیں لفظی طور پر۔
یہ ضروری باتیں ہیں ۔ اعجاز بھی کی رائے لیتے ہیں ۔ دیکھئے کیا کہتے ہیں۔​
بحر کا اصل وزن
فعل فعول فعول فعول فعول فعول فعول فعل ہے۔

خواب کئے تہہ اک کمرے میں، ایک میں بند حیرانی ہے
بند بر وزن فاع ہے۔

بڑے گھروں میں ان چیزوں کو رکھنے کی آسانی ہے
ابتدائی رکن بر وزن فعل نہیں ہو سکتا۔

اِس دریا کی موج پہاڑوں پر سر دھنتی چلتی ہے
تقابل ردیفین ۔

تصویر کے اس پس منظر میں یہ لڑکی خوب دِکھی لیکن
یہاں آپ نے تصویر کو تصور باندھا ہے۔

یہ شکل کہیں پر دیکھی ہے، یہ صورت کچھ پہچانی ہے

یہ مصرع متدارک میں ہے جب کہ اصل بحر متقارب ہے کیونکہ زیادہ شعر اسی بحر میں موزوں ہیں۔


اس کے علاوہ اگرچہ تنک والے مصرع کو بحر سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے باوجود بہتر یہی ہے کہ اس بحر کے درمیان میں وتد مجموع نہ لایا جائے۔ اس سے روانی متاثر اور عروضی پریشان ہوتے ہیں۔
 
جیسا کہ میں نے شروعاتی مراسلے میں کہا
بحر کا نام بحر متدارک ہے۔ اس کا سالم رکن فاعلن ہے۔ ایک عدد زحاف کے بعد رکن ہو جاتا ہے فعلن۔
اب اگر شعر میں سولہ ارکان ہوں تو بحر کا نام ہوگا بحر متدارک مثمن مخبون مضاعف۔ یہاں آٹھواں اور سولہویں رکن میں صرف فع ہے۔
یعنی ہر مصرع "فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع" کے وزن پر ہوگا۔
اس میں گنجائش یہ بتائی جاتی ہے کہ جہاں کہیں تین متحرک حروف یکجا ہوں ان میں درمیان والے کو تسکین اوسط کے قائدے سے ساکن کر سکتے ہیں۔
سو فعلن مین "فاع، عین اور لام" متحرک ہیں ان میں کسی بھی رکن کا عین ساکن کیا جا سکتا ہے۔ اور تمام ارکان کے عین ساکن کئے جا سکتے ہیں۔ یا صرف چند ارکان کے ! جیسی ضرورت ہو!
لیکن زیادہ تر مصرع ، جیسا کہ ریحان صاحب نے کہا، شاید بحر متقارب مثمن اثرم مقبوض مضاعف میں ہیں۔
جہاں سب جگہ تسکین اوسط کرنے پر "فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع" ملتا ہے جب کہ اصل بحر "فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعل فع" (غالباََ) ہے۔
سو میں نے کچھ جگہ پر تسکین اوسط کا استعمال کیا ہے اور کچھ جگہ نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ، شاید، یہ غزل بحر متقارب مثمن اثرم مقبوض مضاعف میں ہی ہے۔
آپ تمام اساتذہ اور احباب
الف عین سر
سید عاطف علی
محمد ریحان قریشی
کی رائے کا منتظر ہوں۔
 
آخری تدوین:
جیسا کہ میں نے شروعاتی مراسلے میں کہا
بحر کا نام بحر متدارک ہے۔ اس کا سالم رکن فاعلن ہے۔ ایک عدد زحاف کے بعد رکن ہو جاتا ہے فعلن۔
اب اگر شعر میں سولہ ارکان ہوں تو بحر کا نام ہوگا بحر متدارک مثمن مخبون مضاعف۔ یہاں آٹھواں اور سولہویں رکن میں صرف فع ہے۔
یعنی ہر مصرع "فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع" کے وزن پر ہوگا۔

فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع
اس بحر کا نام میرے حساب سے متدارک مثمن مخبون محزوذ مضاعف ہوگا۔ (رکن کے آخری وتد مجموع کو گرا دینا حزذ کہلاتا ہے اور جس رکن پر یہ عمل کیا جائے وہ محزوذ )

اگر آپ نے یہ بحر چنی ہے تو اب آپ کسی بھی فعلن کا عین ساکن کر سکتے ہیں۔ فعل فعولن اس بحر کے درمیان میں نہیں آ سکتا۔
لیکن اگر بحر
فعل فعول فعول فعول فعول فعول فعول فعَل
یعنی متقارب مثمن اثرم مقبوض محذوف
مضاعف ہے تو اس میں تسکین اوسط کے ذریعے مندرجہ بالا بحر کے علاوہ بھی کئی اور اوزان حاصل کیے جا سکتے ہیں جن کا استعمال آپ نے غزل میں کیا ہے۔
 
آخری تدوین:
لیکن اگر بحر
فعل فعول فعول فعول فعول فعول فعول فعَل
یعنی متقارب مضاعف اثرم مقبوض محذوف ہے تو اس میں تسکین اوسط کے ذریعے مندرجہ بالا بحر کے علاوہ بھی کئی اور اوزان حاصل کیے جا سکتے ہیں جن کا استعمال آپ نے غزل میں کیا ہے۔
جزاک اللہ۔
 

الف عین

لائبریرین
عروض کی باریکیوں سے تو میں بھی نا واقف ہوں اور اس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہوں۔
بند حیرانی‘ میں شاید ’ح‘ کا وصل کر دیا گیا ہے۔الف کی طرح۔ جوغلط ہے۔
طلع میںکہ+ کو بطور ’کے‘ باندھا گیا ہے جسے کم از کم میں پسند نہیں کرتا۔
تصویر کے اس۔۔۔ والے شعر میں بحر مفعول مفاعیلن فعلن ہو گئی ہے!!
 
عروض کی باریکیوں سے تو میں بھی نا واقف ہوں اور اس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہوں۔
بند حیرانی‘ میں شاید ’ح‘ کا وصل کر دیا گیا ہے۔الف کی طرح۔ جوغلط ہے۔
طلع میںکہ+ کو بطور ’کے‘ باندھا گیا ہے جسے کم از کم میں پسند نہیں کرتا۔
تصویر کے اس۔۔۔ والے شعر میں بحر مفعول مفاعیلن فعلن ہو گئی ہے!!
بہت بہتر سر۔
میں اس غزل کے اشعار پر نظرِ ثانی کرتا ہوں۔
درستی کے بعد حاضر ہوتا ہوں۔ ان شا اللہ
 
استاد محترم جناب الف عین
جناب محمد ریحان قریشی ، سید عاطف علی
استاد محترم اور احباب کے مشوروں اور رہنمائی کے بعد مندرجہ ذیل اشعار میں درستی کی ہے۔
میں ابھی بھی تھوڑی الجھن کا شکار ہوں کہ اب یہ شکل درست ہے یا نہیں۔
امّید ہے آپ احباب اپنے قیمتی وقت میں سے اس فقیر کو کچھ عنایت فرمائینگے۔
غزل کی بحر کا درست وزن : "فعل فعول فعول فعول فعول فعول فعول فعل" ہے اور اس میں تسکین اوسط کے استعمال بھی کیا گیا ہے۔
بِن گائے کچھ گیت کہیں پر، اک الجھن الماری میں
ان چیزوں کو بڑے گھروں میں رکھنے کی آسانی ہے(ابتدائی رکن ' بڑے گھروں' کی درستی)

خواب کئے تہہ اک کمرے میں، ایک میں بند حیرانی ہے (میرا خیال میں مصرع درست وزن میں ہے؟ کیا لفظ "بند" بروزن "فع" نہیں لیا جا سکتا؟یہاں 'ن' کی آواز 'نون غنہ کی ہے!)

اس دریا کی موج پہاڑوں پر سر دھنتے دیکھو گے (تقابلِ ردیفین ۔۔ درست کیا ہے)

وہ شوخی کہسار پہ ہے، یہ ظرف میاں میدانی ہے

اس منظر کے پس منظر میں یہ لڑکی خوب دِکھی لیکن(مصرع تبدیل کیا ہے اور لفظ 'تصویر' کو ہٹا دیا ہے)
رنگوں نے جو پھیلایا وہ کرب یہاں لاثانی ہے

کاشف رات اداسی نے پھر طنز کیا، پھر ہنس کے کہا ( لفظ چھیڑ کری کو تبدیل کیا ہے)
یہ چہرہ پہلے دیکھا ہے، یہ صورت کچھ پہچانی ہے ( مصرع اب شاید درست وزن میں ہے، لفظ شکل بھی بدل دیا ہے۔)

جزاک اللہ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
خواب کئے تہہ اک کمرے میں، ایک میں بند حیرانی ہے (میرا خیال میں مصرع درست وزن میں ہے؟ کیا لفظ "بند" بروزن "فع" نہیں لیا جا سکتا؟یہاں 'ن' کی آواز 'نون غنہ کی ہے!)
بند کو فع نہیں کر سکتے ، فاع ہی لازم ہے ، اگرچہ عروضی مجبوری ہی کیوں نہ ہو ۔ بند کی اصل فارسی ہے اور ایسا محض کچھ ہندی کے الفاظ میں ہی مناسب لگتا ہے ۔
یہاں یہ مسئلہ ہے کہ بند کو صحیح پڑھا جائے تو حیرانی کو حرانی پڑھنا پڑ رہا ہے۔یہ ایک اور الگ بات ہے کہ حیرانی لفظ ہی میرے نزدیک درست نہیں جبکہ حیرت کا لفظ مو جود ہے ۔میری رائے میں اس مصرع کو ازسر نوع کہیں اچھا متبادل قافیہ اورمصرع ضرور مل جائے گا۔
 
بہت بہتر عاطف بھائی.
مطلع بھی تبدیل کیا ہے اور اب یوں ہے
اجلے بدن ہیں محفل محفل جلوؤں کی ارزانی ہے
ایسے کپڑے پہنے ہیں کہ شرمندہ عریانی ہے

بند والے مصرع پر غور کر تا ہوں.
جزاک اللّٰہُ
 
عاطف بھائی... حیرانی کا متبادل قافیہ تو شاید وقت لے لیکن ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے
آنگن میں کچھ یاد کے سائے، چھت پر بوجھل آوازیں
خواب کئے تہہ اک کمرے میں، ساتھ میں کچھ حیرانی ہے

اب کچھ بہتر ہوا؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عاطف بھائی... حیرانی کا متبادل قافیہ تو شاید وقت لے لیکن ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے
آنگن میں کچھ یاد کے سائے، چھت پر بوجھل آوازیں
خواب کئے تہہ اک کمرے میں، ساتھ میں کچھ حیرانی ہے
اب کچھ بہتر ہوا؟
جی ہاں بہتر ہے ۔
 
مکمل غزل....
اجلے بدن ہیں محفل محفل جلوؤں کی ارزانی ہے
ایسے کپڑے پہنے ہیں کے شرمندہ عریانی ہے

دل سے باہر کرنے پر بھی ہر خواہش ہے پاس مرے
اس پہ حیرت کیا ہو، ان کی فطرت ہی زندانی ہے

شام کے دھندلے سائے میں دیوار پہ بیلیں دیکھو تو
حسنِ تغافل کا قصہ ہے یا آیت قرآنی ہے

ق...........
آنگن میں کچھ یاد کے سائے، چھت پر بوجھل آوازیں
خواب کئے تہہ اک کمرے میں، ساتھ میں کچھ حیرانی ہے

بِن گائے کچھ گیت کہیں پر، اک الجھن الماری میں
اپنے گھر میں ان چیزوں کو رکھنے کی آسانی ہے
........
پہلے میری روح میں تھی اور اب تن من سے لپٹ گئی
تنہائی بے شرم کا رشتہ مجھ سے اب جسمانی ہے

اِس دریا کی موج پہاڑوں پر سر دھنتی دیکھوگے
وہ شوخی کہسار پہ ہے، یہ ظرف میاں میدانی ہے

اس منظر کے پس منظر میں یہ لڑکی خوب دِکھی لیکن
رنگوں نے جو پھیلایا وہ کرب یہاں لاثانی ہے

کاشف رات اداسی نے پھر طنز کیا پھر ہنس کے کہا
یہ چہرہ پہلے دیکھا ہے، یہ صورت کچھ پہچانی ہے !
 
آخری تدوین:
Top