استاد کا یہ قتل لہو کی بارش کا پہلا قطرہ ہے
20/03/2019 عدنان خان کاکڑ
قاتل کہتا ہے کہ اس کا استاد ”اسلام کے خلاف بہت بھونکتا تھا۔ روز بھونکتا تھا۔ قانون کون سا ہے۔ قانون تو گستاخوں کو رہا کرتا ہے۔ “ کیا یہ بات ماننے والی ہے کہ بہاولپور جیسے شہر میں ایک استاد سینکڑوں طالب علموں کے سامنے اسلام کے خلاف بات کرتا ہو اور کسی نے رپورٹ نہ کیا ہو؟ ہاں رپورٹ ہوئی ہے مگر اس بات کی کہ کالج انتظامیہ نئے طلبہ کے لئے ویلکم پارٹی کے انتظامات کر رہی تھی اور اس کے خلاف شہر میں بینر لگے ہوئے تھے۔
احمد نورانی کے مطابق رپورٹ یہ ہوا ہے کہ ”گزشتہ رات ایک میٹنگ میں شہید پروفیسر نے پرنسپل کو قتل کی دھمکیوں کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ طلبہ کا ایک گروہ ایک نفرت پھیلانے والے ملا سے متاثر ہو کر نہ صرف اس ویلکم پارٹی کے منتظمین کے خلاف ایک مہم چلا رہا تھا بلکہ انہیں دھمکیاں بھی دے رہا تھا۔ اس پارٹی کے خلاف بینر لگائے گئے تھے ضلعی انتظامیہ اس صورتحال سے باخبر تھی مگر کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے۔ کوئی براہ راست کنفرمیشن نہیں ہے لیکن پولیس کا دعوی ہے کہ بہاولپور کا یہ قاتل خادم رضوی گروپ سے تعلق رکھتا ہے“۔
رپورٹ کے مطابق اپنے استاد کو قتل کرنے والا یہ لڑکا قتل کے بعد وہیں کھڑا ہو کر بڑھکیں مارتا رہا کہ مورخہ 21 مارچ کو ہونے والی ”ویلکم پارٹی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے جس میں فحاشی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ میں نے اس لئے خالد حمید کو قتل کر دیا ہے۔ خالد حمید پارٹی کی حمایت کرتا تھا۔ “ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ لڑکا انگلش میں بیچلرز کر رہا تھا اور پانچویں سمیسٹر کا طالب علم تھا۔
اب یہاں اس بات پر سوال اٹھانا جائز ہے کہ انگلش زبان اور لٹریچر پڑھنے والے کو کیا پڑھایا جا رہا تھا جو وہ ایسی مذہبی انتہاپسندی کو ختم کرنے کی بجائے اسے قتل تک لے گیا؟ کیا نصاب میں مذہبی انتہا پسندی پیدا کرنے والا عنصر موجود ہے؟ بظاہر حکومت کا خیال ہے کہ نصاب ٹھیک ہے۔ اسی وجہ سے اس میں مذہبی عنصر میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ انگریزی ادب کی جگہ بھی مذہبی لٹریچر لے رہا ہے۔
ہم خود سے تو کچھ سوچنے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یا شاید اس کام سے ڈرتے ہیں۔ انگریزوں پر ہمیں بھروسا نہیں ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم ترکی یا عرب امارات سے سکول اور کالج کا نصاب لے کر اپنے ہاں رائج کر دیں؟ اسلامی ملک کا نصاب بھی ہو گا اور ان مسلم ممالک کی طرح انتہا پسندی بھی نہیں رہے گی۔
سرکاری تعلیمی اداروں میں یہ انتہا پسندی نہ روکی گئی تو پھر یہ پہلا استاد تو ہو گا جو مذہبی جنونیت کے باعث اپنے شاگرد کے ہاتھوں قتل ہوا، لیکن یہ قتل ہونے والا آخری استاد نہیں ہو گا۔ یہ لہو کی بارش کا پہلا قطرہ دکھائی دیتا ہے۔
لیکن جب حکومت کی ٹانگیں کانپتی دکھائی دیں، جب حکومت انتہا پسندوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرے کہ انہیں حکومت کے خلاف ہی استعمال کرنے والے عناصر موجود ہیں، تو حکومت انہیں روکنے کی جرات نہیں کرے گی۔
ایک بات سامنے دکھائی دیتی ہے۔ سرکاری اداروں میں معمولی بات کو بھی اسلامی اور اخلاق اقدار پر حملہ قرار دے کر طلبا اور اساتذہ کے ساتھ غنڈہ گردی کی جاتی ہے۔ لیکن نجی تعلمی اداروں میں سرکاری اداروں سے کہیں زیادہ کھلا ڈلا ماحول ہونے کے باوجود ادھر کوئی طالب علم یا طلبا تنظیم غنڈہ گردی کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ کیا اس کی وجہ سرکار کی کمزوری ہے، بدنیتی یا نا اہلی؟
دہشت گردی اور طالبان، شدت پسندی کے بیج سے پھوٹنے والے تناور درخت ہیں۔ ایک جنگ کے کلہاڑے سے انہیں کاٹ بھی دیا جائے تو یہ بیج دوبارہ انہیں پہلے سے زیادہ طاقتور بنا کر سامنے لے آئے گا۔ ان سے جنگ ہتھیار کی نہیں سوچ کی جنگ ہے۔ اور سوچ کی یہ جنگ تعلیمی اداروں میں ہی جیتی جا سکتی ہے۔
یا تو یہ جنگ لڑ لیں، قانون کی حکمرانی ویسے ہی قائم کریں جیسے مغرب اور مشرق وسطی میں ہے، یا پھر تیار ہو جائیں کہ دس پندرہ برس بعد ہمارے حکمران طالبان ہوں گے۔ یا شاید اس سے بھی خطرناک صورتحال ہو۔ یعنی نہ حکومت ہو اور نہ طالبان ہوں، بلکہ ایسا فتنہ ہو کہ راہ چلتا کوئی بھی شخص دوسرے کو گستاخ قرار دے کر مار ڈالے۔
جاسمن