ایس ای کالج کے انگریزی کے استاد خالد حمید کا شاگرد کے ہاتھوں قتل

زیک

مسافر
سوال یہ ہے کہ اگر ایسے پروگرام قابل اعتراض تھے تو کالج کی انتظامیہ اور باقی لوگوں نے کیوں کچھ نہیں کہا۔
تحریک لبیک اور جین آسٹن کے ذکر کے بعد اس شک کی گنجائش ہی نہیں کہ پروگرام میں کچھ قابل اعتراض تھا۔ جو کچھ قابل اعتراض تھا وہ صرف قاتل کے ذہن میں تھا
 
زیادہ علم تو نہیں لیکن تین اشخاص سے بات ہوئی تو انھوں نے تحریکِ لبیک کہا تھا۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ اصل حقیقت کیا تھی/
میری رائے میں کسی معاملے پر اس قسم کے ریماکس ہمیں درست تجزیے کی طرف نہیں لے کر جاتے۔ فرض کریں اگر وہ طالب علم کسی درجے میں تحریک لبیک سے وابستہ بھی ہو تو اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ تحریک لبیک نے اس کو یہ تعلیم دی۔ بلکہ اس کے خلاف وہ بھی اس کی مذمّت ہی کریں گے۔
کسی بھی شدت پسندانہ رویے کا خاتمہ تبھی ممکن ہے جب ہم اس کا مکمل ذمہ دار اس مرتکب کوہی ٹھہرائیں اورکسی بھی جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر اس برائی کا مقابلہ کریں۔
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
 

زیک

مسافر
فرض کریں اگر وہ طالب علم کسی درجے میں تحریک لبیک سے وابستہ بھی ہو تو اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ تحریک لبیک نے اس کو یہ تعلیم دی۔ بلکہ اس کے خلاف وہ بھی اس کی مذمّت ہی کریں گے۔
اگر تحریک لبیک نے مذمت کی تو ضرور آگاہ کریں۔ اس کا کوئی امکان نہیں ہے
 

جان

محفلین
آج صبح تقریبا ساڑھے نو بجے گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج بہاولپور کے انگریزی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جناب خالد حمید صاحب کو انگریزی بی ایس کے پانچویں سمسٹر کے طالب علم خطیب حسین نے اُس وقت چھرے کے وار کر کے قتل کر دیا جب وہ اپنے دفتر میں اکیلے بیٹھے لیپ ٹاپ پہ کچھ کام کر رہے تھے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ کریم رحم کریں ، آمین
 

جان

محفلین
یہ قوم مقابلہ کرے گی امریکہ، اسرائیل، انڈیا اور دیگر دشمن ممالک سے جو اپنی قوم میں معماروں کی عزت اس طرح کرتی ہے۔ سچ تو یہ ہے ہم سب میں سے اکژیت کے ذہن میں مذہبی شدت پسندی ایک بیماری کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ مذہب جب اخلاقیات کا مرکز بننے کی بجائے صرف سازشی تھیوریاں بیچنے والی دکان بن جائے تو یہی نتائج نکلتے ہیں۔ وہ قوم جو محنت کو عار اور قتل کرنے کو فخر سمجھے اور اسے عین اسلامی اور جنت کی شارٹ کٹ سمجھے، اسے زوال سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اللہ تعالی بھی انصاف، محنت، پرہیزگار، اور صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں، ایسے قاتلوں کے ساتھ ہرگز ہرگز نہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
کالج اساتذہ میں عمومی اور ایسی ای کالج کے اساتذہ میں خاص طور پہ عدم تحفظ کا شدید احساس پایا جا رہا ہے۔ اساتذہ کہتے پائے گئے ہیں کہ اب ہم نہ طلبہ کو ڈانٹ سکتے ہیں نہ ہی کوئی نصیحت کر سکتے ہیں۔ ہم اس کیفیت میں ہیں کہ آخر ہمیں کون سے رویے اپنانے چاہییں کہ ہم نہ صرف طلبہ کی تربیت کر سکیں بلکہ ہمیں تحفظ کا ماحول بھی حاصل ہو۔ نیز ان حالات میں والدین کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
IMG-20190320-WA0115.jpg
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
اتنی شدت پسندی..
اگر آپ اسلام کی بات کرتے ہیں تو پھر تو یہ بھی بہت اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے دین میں اساتذہ کا کیا مقام ہے ...
کیا ہمارے دین میں قتل کی اجازت ہے?
کیا ہمارے دین میں اساتذہ سے اونچی آواز میں بات کرنے کی بھی اجازت ہے?
آخر یہ سوچ کیسے پروان چڑھتی ہے کہ آپ اس انتہا پر پہنچ جائیں..
دین اور دنیا کے حوالے سے معتدل سوچ کیوں سامنے نہیں آتی..
 

فرقان احمد

محفلین
اگر طالب علم کو دس بارہ برس تک تعلیم پانے کے بعد یہ تک معلوم نہیں ہے کہ انسانی جان کی حرمت کیا ہے تو پھر جان لیجیے کہ ہم تنزلی کا سفر بڑی تیزی سے طے کر رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
قاتل طالب علم کا تعلق کس گروپ سے ہے؟
پاکستان کی یونیورسٹیوں میں جمیعت کے غنڈے میرے یونیورسٹی کے زمانے سے ایسے “بہانوں” سے دنگا فساد کرتے آئے ہیں۔
جماعت اسلامی۔ مغربی یونیورسٹیوں میں اسی لئے سیاسی سرگرمیاں بین ہیں۔ تعلیم اور سیاسی پراپگنڈہ ایک ساتھ نہیں چل سکتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ قوم مقابلہ کرے گی امریکہ، اسرائیل، انڈیا اور دیگر دشمن ممالک سے جو اپنی قوم میں معماروں کی عزت اس طرح کرتی ہے۔ سچ تو یہ ہے ہم سب میں سے اکژیت کے ذہن میں مذہبی شدت پسندی ایک بیماری کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ مذہب جب اخلاقیات کا مرکز بننے کی بجائے صرف سازشی تھیوریاں بیچنے والی دکان بن جائے تو یہی نتائج نکلتے ہیں۔ وہ قوم جو محنت کو عار اور قتل کرنے کو فخر سمجھے اور اسے عین اسلامی اور جنت کی شارٹ کٹ سمجھے، اسے زوال سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اللہ تعالی بھی انصاف، محنت، پرہیزگار، اور صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں، ایسے قاتلوں کے ساتھ ہرگز ہرگز نہیں۔
استاد کا یہ قتل لہو کی بارش کا پہلا قطرہ ہے
20/03/2019 عدنان خان کاکڑ



قاتل کہتا ہے کہ اس کا استاد ”اسلام کے خلاف بہت بھونکتا تھا۔ روز بھونکتا تھا۔ قانون کون سا ہے۔ قانون تو گستاخوں کو رہا کرتا ہے۔ “ کیا یہ بات ماننے والی ہے کہ بہاولپور جیسے شہر میں ایک استاد سینکڑوں طالب علموں کے سامنے اسلام کے خلاف بات کرتا ہو اور کسی نے رپورٹ نہ کیا ہو؟ ہاں رپورٹ ہوئی ہے مگر اس بات کی کہ کالج انتظامیہ نئے طلبہ کے لئے ویلکم پارٹی کے انتظامات کر رہی تھی اور اس کے خلاف شہر میں بینر لگے ہوئے تھے۔

احمد نورانی کے مطابق رپورٹ یہ ہوا ہے کہ ”گزشتہ رات ایک میٹنگ میں شہید پروفیسر نے پرنسپل کو قتل کی دھمکیوں کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ طلبہ کا ایک گروہ ایک نفرت پھیلانے والے ملا سے متاثر ہو کر نہ صرف اس ویلکم پارٹی کے منتظمین کے خلاف ایک مہم چلا رہا تھا بلکہ انہیں دھمکیاں بھی دے رہا تھا۔ اس پارٹی کے خلاف بینر لگائے گئے تھے ضلعی انتظامیہ اس صورتحال سے باخبر تھی مگر کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے۔ کوئی براہ راست کنفرمیشن نہیں ہے لیکن پولیس کا دعوی ہے کہ بہاولپور کا یہ قاتل خادم رضوی گروپ سے تعلق رکھتا ہے“۔

رپورٹ کے مطابق اپنے استاد کو قتل کرنے والا یہ لڑکا قتل کے بعد وہیں کھڑا ہو کر بڑھکیں مارتا رہا کہ مورخہ 21 مارچ کو ہونے والی ”ویلکم پارٹی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے جس میں فحاشی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ میں نے اس لئے خالد حمید کو قتل کر دیا ہے۔ خالد حمید پارٹی کی حمایت کرتا تھا۔ “ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ لڑکا انگلش میں بیچلرز کر رہا تھا اور پانچویں سمیسٹر کا طالب علم تھا۔

اب یہاں اس بات پر سوال اٹھانا جائز ہے کہ انگلش زبان اور لٹریچر پڑھنے والے کو کیا پڑھایا جا رہا تھا جو وہ ایسی مذہبی انتہاپسندی کو ختم کرنے کی بجائے اسے قتل تک لے گیا؟ کیا نصاب میں مذہبی انتہا پسندی پیدا کرنے والا عنصر موجود ہے؟ بظاہر حکومت کا خیال ہے کہ نصاب ٹھیک ہے۔ اسی وجہ سے اس میں مذہبی عنصر میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ انگریزی ادب کی جگہ بھی مذہبی لٹریچر لے رہا ہے۔

ہم خود سے تو کچھ سوچنے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یا شاید اس کام سے ڈرتے ہیں۔ انگریزوں پر ہمیں بھروسا نہیں ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم ترکی یا عرب امارات سے سکول اور کالج کا نصاب لے کر اپنے ہاں رائج کر دیں؟ اسلامی ملک کا نصاب بھی ہو گا اور ان مسلم ممالک کی طرح انتہا پسندی بھی نہیں رہے گی۔

سرکاری تعلیمی اداروں میں یہ انتہا پسندی نہ روکی گئی تو پھر یہ پہلا استاد تو ہو گا جو مذہبی جنونیت کے باعث اپنے شاگرد کے ہاتھوں قتل ہوا، لیکن یہ قتل ہونے والا آخری استاد نہیں ہو گا۔ یہ لہو کی بارش کا پہلا قطرہ دکھائی دیتا ہے۔

لیکن جب حکومت کی ٹانگیں کانپتی دکھائی دیں، جب حکومت انتہا پسندوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرے کہ انہیں حکومت کے خلاف ہی استعمال کرنے والے عناصر موجود ہیں، تو حکومت انہیں روکنے کی جرات نہیں کرے گی۔

ایک بات سامنے دکھائی دیتی ہے۔ سرکاری اداروں میں معمولی بات کو بھی اسلامی اور اخلاق اقدار پر حملہ قرار دے کر طلبا اور اساتذہ کے ساتھ غنڈہ گردی کی جاتی ہے۔ لیکن نجی تعلمی اداروں میں سرکاری اداروں سے کہیں زیادہ کھلا ڈلا ماحول ہونے کے باوجود ادھر کوئی طالب علم یا طلبا تنظیم غنڈہ گردی کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ کیا اس کی وجہ سرکار کی کمزوری ہے، بدنیتی یا نا اہلی؟

دہشت گردی اور طالبان، شدت پسندی کے بیج سے پھوٹنے والے تناور درخت ہیں۔ ایک جنگ کے کلہاڑے سے انہیں کاٹ بھی دیا جائے تو یہ بیج دوبارہ انہیں پہلے سے زیادہ طاقتور بنا کر سامنے لے آئے گا۔ ان سے جنگ ہتھیار کی نہیں سوچ کی جنگ ہے۔ اور سوچ کی یہ جنگ تعلیمی اداروں میں ہی جیتی جا سکتی ہے۔

یا تو یہ جنگ لڑ لیں، قانون کی حکمرانی ویسے ہی قائم کریں جیسے مغرب اور مشرق وسطی میں ہے، یا پھر تیار ہو جائیں کہ دس پندرہ برس بعد ہمارے حکمران طالبان ہوں گے۔ یا شاید اس سے بھی خطرناک صورتحال ہو۔ یعنی نہ حکومت ہو اور نہ طالبان ہوں، بلکہ ایسا فتنہ ہو کہ راہ چلتا کوئی بھی شخص دوسرے کو گستاخ قرار دے کر مار ڈالے۔

جاسمن
 

جاسم محمد

محفلین
لیکن نجی تعلمی اداروں میں سرکاری اداروں سے کہیں زیادہ کھلا ڈلا ماحول ہونے کے باوجود ادھر کوئی طالب علم یا طلبا تنظیم غنڈہ گردی کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ کیا اس کی وجہ سرکار کی کمزوری ہے، بدنیتی یا نا اہلی؟
نجی تعلیمی ادارے اس معاملہ میں بہت سختی کرتے ہیں۔ جمعیت کے غنڈے وہاں یہ سب کر کے دکھائیں۔ اسی دن ادارے سے فارغ کردئے جائیں گے۔
 

جاسمن

لائبریرین
استاد کا یہ قتل لہو کی بارش کا پہلا قطرہ ہے
20/03/2019 عدنان خان کاکڑ



قاتل کہتا ہے کہ اس کا استاد ”اسلام کے خلاف بہت بھونکتا تھا۔ روز بھونکتا تھا۔ قانون کون سا ہے۔ قانون تو گستاخوں کو رہا کرتا ہے۔ “ کیا یہ بات ماننے والی ہے کہ بہاولپور جیسے شہر میں ایک استاد سینکڑوں طالب علموں کے سامنے اسلام کے خلاف بات کرتا ہو اور کسی نے رپورٹ نہ کیا ہو؟ ہاں رپورٹ ہوئی ہے مگر اس بات کی کہ کالج انتظامیہ نئے طلبہ کے لئے ویلکم پارٹی کے انتظامات کر رہی تھی اور اس کے خلاف شہر میں بینر لگے ہوئے تھے۔

احمد نورانی کے مطابق رپورٹ یہ ہوا ہے کہ ”گزشتہ رات ایک میٹنگ میں شہید پروفیسر نے پرنسپل کو قتل کی دھمکیوں کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ طلبہ کا ایک گروہ ایک نفرت پھیلانے والے ملا سے متاثر ہو کر نہ صرف اس ویلکم پارٹی کے منتظمین کے خلاف ایک مہم چلا رہا تھا بلکہ انہیں دھمکیاں بھی دے رہا تھا۔ اس پارٹی کے خلاف بینر لگائے گئے تھے ضلعی انتظامیہ اس صورتحال سے باخبر تھی مگر کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے۔ کوئی براہ راست کنفرمیشن نہیں ہے لیکن پولیس کا دعوی ہے کہ بہاولپور کا یہ قاتل خادم رضوی گروپ سے تعلق رکھتا ہے“۔

رپورٹ کے مطابق اپنے استاد کو قتل کرنے والا یہ لڑکا قتل کے بعد وہیں کھڑا ہو کر بڑھکیں مارتا رہا کہ مورخہ 21 مارچ کو ہونے والی ”ویلکم پارٹی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے جس میں فحاشی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ میں نے اس لئے خالد حمید کو قتل کر دیا ہے۔ خالد حمید پارٹی کی حمایت کرتا تھا۔ “ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ لڑکا انگلش میں بیچلرز کر رہا تھا اور پانچویں سمیسٹر کا طالب علم تھا۔

اب یہاں اس بات پر سوال اٹھانا جائز ہے کہ انگلش زبان اور لٹریچر پڑھنے والے کو کیا پڑھایا جا رہا تھا جو وہ ایسی مذہبی انتہاپسندی کو ختم کرنے کی بجائے اسے قتل تک لے گیا؟ کیا نصاب میں مذہبی انتہا پسندی پیدا کرنے والا عنصر موجود ہے؟ بظاہر حکومت کا خیال ہے کہ نصاب ٹھیک ہے۔ اسی وجہ سے اس میں مذہبی عنصر میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ انگریزی ادب کی جگہ بھی مذہبی لٹریچر لے رہا ہے۔

ہم خود سے تو کچھ سوچنے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یا شاید اس کام سے ڈرتے ہیں۔ انگریزوں پر ہمیں بھروسا نہیں ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم ترکی یا عرب امارات سے سکول اور کالج کا نصاب لے کر اپنے ہاں رائج کر دیں؟ اسلامی ملک کا نصاب بھی ہو گا اور ان مسلم ممالک کی طرح انتہا پسندی بھی نہیں رہے گی۔

سرکاری تعلیمی اداروں میں یہ انتہا پسندی نہ روکی گئی تو پھر یہ پہلا استاد تو ہو گا جو مذہبی جنونیت کے باعث اپنے شاگرد کے ہاتھوں قتل ہوا، لیکن یہ قتل ہونے والا آخری استاد نہیں ہو گا۔ یہ لہو کی بارش کا پہلا قطرہ دکھائی دیتا ہے۔

لیکن جب حکومت کی ٹانگیں کانپتی دکھائی دیں، جب حکومت انتہا پسندوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرے کہ انہیں حکومت کے خلاف ہی استعمال کرنے والے عناصر موجود ہیں، تو حکومت انہیں روکنے کی جرات نہیں کرے گی۔

ایک بات سامنے دکھائی دیتی ہے۔ سرکاری اداروں میں معمولی بات کو بھی اسلامی اور اخلاق اقدار پر حملہ قرار دے کر طلبا اور اساتذہ کے ساتھ غنڈہ گردی کی جاتی ہے۔ لیکن نجی تعلمی اداروں میں سرکاری اداروں سے کہیں زیادہ کھلا ڈلا ماحول ہونے کے باوجود ادھر کوئی طالب علم یا طلبا تنظیم غنڈہ گردی کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ کیا اس کی وجہ سرکار کی کمزوری ہے، بدنیتی یا نا اہلی؟

دہشت گردی اور طالبان، شدت پسندی کے بیج سے پھوٹنے والے تناور درخت ہیں۔ ایک جنگ کے کلہاڑے سے انہیں کاٹ بھی دیا جائے تو یہ بیج دوبارہ انہیں پہلے سے زیادہ طاقتور بنا کر سامنے لے آئے گا۔ ان سے جنگ ہتھیار کی نہیں سوچ کی جنگ ہے۔ اور سوچ کی یہ جنگ تعلیمی اداروں میں ہی جیتی جا سکتی ہے۔

یا تو یہ جنگ لڑ لیں، قانون کی حکمرانی ویسے ہی قائم کریں جیسے مغرب اور مشرق وسطی میں ہے، یا پھر تیار ہو جائیں کہ دس پندرہ برس بعد ہمارے حکمران طالبان ہوں گے۔ یا شاید اس سے بھی خطرناک صورتحال ہو۔ یعنی نہ حکومت ہو اور نہ طالبان ہوں، بلکہ ایسا فتنہ ہو کہ راہ چلتا کوئی بھی شخص دوسرے کو گستاخ قرار دے کر مار ڈالے۔

جاسمن

بینرز تو میں نے کہیں لگے نہیں دیکھے۔ قتل کی دھمکیوں کے بارے بھی ابھی تک کسی سے نہیں سنا۔
صرف ڈی سی او کو مندرجہ بالا خط کی اطلاع ملی تھی۔
 

ابن جمال

محفلین
یہ واقعہ افسوسناک ضرور ہے لیکن اس کے پیچھے کسی تنظیم اورنصاب پر واویلا کرنا درست نہیں، یہ ایک انفرادی کارروائی بھی ہوسکتی ہے، جیسے امریکہ میں اسکولوں میں فائرنگ کی رسم بدستور قائم ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہتاکہ امریکی شدت پسند ہوگئے ہیں، نصاب خراب ہے،امریکی نصاب کی وجہ سےشدت پسندی آرہی ہے وغیرذلک
 

ابن جمال

محفلین
یہ بھی ممکن ہے کہ طالب علم اس سلسلے مین زیادہ حساس ہو اور جب اس نے استاد سے بات کرنے کی کوشش کی ہو تو استاد نے اس کی حساسیت کا ٹھیک سے اندازہ نہ لگایاہو،دنیا میں نہ جانے کتنے قتل فوری اشتعال کے تحت رونماہوتے ہیں،ہوسکتاہے کہ یہ واقعہ بھی اس میں سے ایک ہو۔
 

سید ذیشان

محفلین
یہ بھی ممکن ہے کہ طالب علم اس سلسلے مین زیادہ حساس ہو اور جب اس نے استاد سے بات کرنے کی کوشش کی ہو تو استاد نے اس کی حساسیت کا ٹھیک سے اندازہ نہ لگایاہو،دنیا میں نہ جانے کتنے قتل فوری اشتعال کے تحت رونماہوتے ہیں،ہوسکتاہے کہ یہ واقعہ بھی اس میں سے ایک ہو۔
فوری اشتعال میں چھری کہاں سے ملی اس کو؟ یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا جو اس طالب علم نے پہلے سے بنایا تھا۔ جس طرح اس طالب علم نے ہر چیز کا اقرار کیا ہے اور پروفیسر کے مرنے کی خبر پر کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا، ان سب باتوں سے اس کی محرکات کا علم ہوتا ہے۔
 
Top