ہماری اینول پارٹی کا وقت آن پہچا پارٹی سے 2دن پہلے پورے کالج میں پروپیگنڈا کے تحت پمفلٹ لگے ہوئے پائے گئے کہ انگش ڈیپارٹمنٹ کی ہونے والی پاڑٹی کنجرخانہ ہے یہاں فحاشی ہوتی ہے
دراصل اس معاملے میں ہم مسلمان (اکثریت) منافقت کا شکار ہے۔ اس قسم کی پارٹیز (گو کہ وہ تعلیمی اداروں میں ہی کیوں نہ ہوں) میں رقص و موسیقی کا ہونا عام ہے اور اختلاط و مرد و زن بھی بہت زیادہ ہوا کرتا ہے۔
اسلامی تعلیمات ہمیں ان باتوں سے روکتی ہیں۔ یعنی ہمارا معاشرہ اتنا اسلامی نہیں ہے کہ جتنا اسے ہونا چاہیے ۔
تاہم ان پارٹیوں کا اہتمام کرنا یا اُن میں شرکت کرنا گناہ کا کام تو ہے لیکن ایسا کام ہرگز نہیں ہے کہ کوئی شخص بلاوجہ واجب القتل ہو جائے۔
مذہبی طبقہ بھی منافقت کا شکار نظر آیا کہ اس معاملے پر براہِ راست تنقید کرنے کے اُنہوں نے بزدلانہ انداز میں پوسٹرز چھاپے اور نفرت کو ہوا دی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مذہب کی آڑ میں یہ کوئی مقتول کا دشمن ہو اور اُس نے اپنی راہ ہموار کرنے کے لئے مذہب کو آلہ کار بنایا ہو۔
تاہم میری خواہش یہ ہے کہ معاشرے سے عدم برداشت کے رویوں کو کم سے کم کیا جائے اور اس قسم کے مجرموں کو جو خود ہی منصف، خود ہی گواہ اور سزا کا کام کرتے ہیں ،قرار واقعی سزا دی جائے۔