ایس ای کالج کے انگریزی کے استاد خالد حمید کا شاگرد کے ہاتھوں قتل

ابن جمال

محفلین
فوری اشتعال کا یہ مطلب نہیں ہوتاکہ اشتعال فوری ختم ہوجاتاہے،اس کا دورانیہ طویل بھی ہوسکتاہے،میں اپنی آنکھوں دیکھی بات کررہاہوں، دونوجوانوں میں جھگڑاہوا، دونوں نے ہاتھاپائی، جس کو زیادہ پٹائی لگی، وہ بھاگ کر گھر گیا،گھر تقریباایک ڈیڑھ کلومیٹر دور تھا اور وہاں سے دیسی کٹہ (ریوالور)لے کر آیا،اس کو مارنے کیلئے،اس کو فوری اشتعال ہی کہیں گے،یہ نہیں کہیں گے کہ اتنی دور سے ہتھیار لے کر آیا،اس لئے پوری پلاننگ تھی۔
 
کبھی کبھی تو ہم سوچتے ہیں کہ ہم شاید کسی ڈیسٹوپین یا کسی خوفناک ناول میں جی رہے ہیں۔ ڈورِس لیسنگ ، برام اسٹوکر اور ایڈگر ایلن پو بھی اگر اس وقت ہمارے ساتھ آکر رہ لیں تو مارے دہشت کے خود ہی مر جائیں۔ خوف و دہشت کی ایسی ٹھنڈی لہر جو انہوں نے کبھی تصور بھی نہ کی ہوگی۔ ہم اسلام کے امن پسند معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ ہردم زبان پر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے۔ لوگو! اللہ کے رسول نے تو اپنے بدترین دشمنوں تک کو معاف فرمادیا تھا۔ جاؤ ٓج کے بعد تم پر کوئی الزام نہیں۔

امیر المئومنین جناب ضیاالحق صاحب نے جو بویا تھا ہم کاٹ رہے ہیں۔ معاشرے سے متبادل بیانیے کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب شدت پسندی عینِ اسلام ٹھہری ہے۔ ٓج ہمیں فیض صاحب کی نظم بہت یاد آرہی ہے۔
یہ داغ‌ داغ اجالا، یہ شب گریدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کہ آرزو لے کر
چلے تھے کہ یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شب ست موج کا ساحل
کہیں تو رکے گا سفینہء غم کا دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے یار تو دامن پر کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں بانہیں، دن لاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن سحر کی لگن
بہت قریں تھا لیکن حسینان نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا، دبی دبی تھکن



سنا ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام
دل چکا ہے بہت اہل درد کا سوتر
نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام
جگر کہ آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ چارہ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگار صبا، کدھر کو گئ



ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں‌ آئی​
 

فلسفی

محفلین
انتہائی افسوسناک ۔

معاشرہ دو متضاد انتہاؤں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ خلیج دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ یقین جانیے جو کچھ مذہب کے نام پر ہو رہا ہے اس کا مذہب سے تعلق بالکل نہیں۔ اور جو کچھ لبرل ازم کے نام پر ہو رہا ہے وہ لبرل ازم کی تعریف کے دائرہ کار سے کہیں دور نکل چکا ہے۔

کبھی عورت مارچ میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ "نکاح" (جسے حدیث میں النکاح من سنتی فرمایا گیا) کو ختم کردینا چاہیے تو کہیں شاگرد کے ہاتھوں استاد مذہب کے نام پر قتل ہو جاتے ہیں ۔۔۔ واللہ نہ وہ لبرل ازم ہے اور نہ یہ اسلام۔

ملا کو سوچنا ہے، یقینا سوچنا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی کی تشریح وہ کیا کر رہا ہے۔ عوام کے سامنے عبادات کے مضمون کو کھولتے کھولتے وہ شاید یہ بھول گیا کہ اسلام میں اخلاقیات، معاشرت اور معاملات کا مضمون زیادہ وسیع اور اہم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیں تہجد گزار جھوٹے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ گویا یوں سمجھا جاتا ہے کہ دن بھر کے گناہوں کا کفارہ رات کو مصلے پر بیٹھ کر ادا ہوجائے گا، ہر گز نہیں، حقوق العباد ادا کیے بغیر خدا کو راضی کیسے کیا جاسکتا ہے۔ عبادات کا ایک علیحدہ اہم موضوع ہے لیکن اس کی آڑ میں معاملات کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔

مسٹر کو سوچنا ہوگا کہ اگر وہ مسلمان ہے تو ادخلو فی السلم کافۃ پر عمل کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ زندگی ہولی وڈ کے عیاش اداکار کی طرح گزرے جبکہ کفن اور دفن مدینے کی پاک سرزمین میں نصیب ہو۔ اگر کلمہ پڑھا ہے تو کچھ ذمے داریاں بھی عائد ہوتی ہے۔ ان ذمے داریوں اور فرائض سے لبرل ازم کی آڑ لے کر جان چھڑانا کسی طور بھی مناسب نہیں۔ مسلمان کو اپنی حدود کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے۔ فقط مذہب کی ضد میں اپنی حد سے بڑھ جانا پرلے درجے کی حماقت ہے۔

ملا اور مسٹر دو انتہاؤں پر کھڑے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں۔ میرے نزدیک دونوں ہی شدت پسند ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو دینی طبقے سے تعلق رکھتے ہوتے ہوئے لبرل ہیں یا بظاہر لبرل ہوتے ہوئے بھی مذہب پسند ہیں، مختصرا یہ کہ اعتدال پسند ہیں انھیں چاہیے کہ ملا اور مسٹر کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کریں۔ ورنہ ان کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج آنے والی نسلوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اللہ پاک ہم سب کے حال پر رحم فرمائے۔ آمین
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ہماری ایک کولیگ کا چھوٹا بھائی اس کا ہم جماعت تھا۔
اس کا کہنا ہے کہ خطیب تنہائی پسند تھا۔ کمرہ جماعت میں خالد صاحب سے پارٹی کے موضوع پہ اس کی کوئی بحث نہیں ہوئی۔
خالد حمید صاحب کے ایک طالب علم کی تحریر وٹزایپ پہ آئی ہے۔
بہاولپور میں دولے شاہ کے چوہے کے ہاتھوں شہید ہونے والے استاد کے ہی ایک شاگرد کی تحریر پڑھ لیجے میرا سلام ہو اس طالب علم پر جس نے وقت پر اپنے حصے کا سچ بولا اور جرات سے لکھ دیا ( حیدر جاوید سید)

پروفیسر خالد حمید

دنیا میں انسان بہت سے لوگوں کے سامنے زانو تلمذ طے کرتا ہے لیکن ان میں سے چند ہی ہوتے ہیں جو آپکو زانو سے پیروں پر کهڑا ہونا سکهاتے ہیں اور پهر اڑنا، سر خالد حمید بهی وہی استاد تهے.. کتنا عجیب لگ رہا کہ اس انسان کے نام کے آگے بهی "تها" لگانا پڑا.
آج کا دردناک اور لرزه خیز واقعہ ہم سب کے سامنے ہے ایک مذہبی جنونی طالبعلم نے اپنے ہی استاد کا خنجر سے قتل کردیا، یہ دکھ اس قدر بڑا ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل کہ ایهی اس عظیم ہستی کو سپردخاک کر کےآیا ہوں، طبیعت اجازت نہیں دے رہی لیکن سوشل میڈیا پر جس طرح اس واقع کو رنگ دیا جا رہا ہے تو مجبورا لکهنا ضروری ہے سب سے پہلے آپ کو مختصر سر کا اور اس بدبخت قاتل کا تعارف اور پهر اس واقع کی مسلم روداد سناتا ہوں.
سر خالد حمید ایس ای کالج شعبہ انگلش کے مایہ ناز استاد تهے آپکی علمی استداد، آپکا انداز بیان، بہاولپور کا ہر وه طالب علم جس نے آپکا ایک لیکچر بهی لیا آپکا گرویده ہوگیا،یہ بات آج ایس کالج کے گراؤنڈ میں جنازے میں موجود نوجوان طلبا کی تعداد نے ثابت بهی کردی، صوم و صلواة کے پابند، نفیس لہجہ، سٹوڈنٹ کے حق کی خاطر خود تکالیف برداشت کرنی، ہر لیحاظ سے انکو سپورٹ کرنا کوشش کرنا کے کوئی کولیگ تو دور سٹوڈنٹ بهی آپ سے خفا نہ ہوجائے کسی کولیگ کی بلواسطہ بهی برائی نہیں کی ، ڈائس سے کبهی کوئی غیر اخلاقی یا مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں کی بلکہ کبهی مذہب کو چهیڑا تک نہیں یہ بات میں تبهی کر رہا ہوں کہ 3سال انکے پاس پڑها ہے وقت گزارا ہے سفر کیا ہے حال دل سنا اور سنایا ہے یہ باتیں محض لیپا لپٹی نہیں انکا ہر سٹوڈنٹ تائید کرے گا.

پهر آخر اس پیارے انسان کو انہی کے سٹوڈنٹ نے مارا کیوں؟

خطیب حسین 5th سمسٹر کا لڑکا ہے یعنی میرا جونئیر، یزمان کا رہائشی یہ لڑکا مولانا خادم حسین کا پیروکار ہے اسکے کلاس فیلوز بتاتے ہیں کہ پچهلے چھ مہینوں سے اس کا انداز تهوڑا مختلف ہو گیا مذہبی انتہاپسندی پر مبنی باتیں کرتا واٹس ایپ گروپ میں دوستوں کی ہنسی مزاق کی گپ شپ گو بهی حرام قرار دیتا اور ایک بار تو مولانا خادم کا فتوی پیش کیا کہ ہنسنا حرام ہے پڑهنے میں بہتر تها کلاس میں خاموش رہتا.
سر نے پانچویں سمسٹر میں انکو پڑهانا شروع کیا ینی ابهی 2ماه ہی ہوئےتهے.
ہماری اینول پارٹی کا وقت آن پہچا پارٹی سے 2دن پہلے پورے کالج میں پروپیگنڈا کے تحت پمفلٹ لگے ہوئے پائے گئے کہ انگش ڈیپارٹمنٹ کی ہونے والی پاڑٹی کنجرخانہ ہے یہاں فحاشی ہوتی ہے یہاں یورپیین کلچر کو لایا جا رہا یہ اسلام کے منافی ہے اور نیچے منجانب طلبہ لکها ہوا تها یہ پمفلٹ نہیں معلوم کس نے بنوایا جس نے بهی بنوایا اس سے میرے دو سوال ہیں
1-جب پارٹی ابهی ہوئی نہیں تم پر وحی اتری کہ پارٹی میں یہ سب ہونے جا رہا ہے؟
2-اتنی سلیس اردو میں لکهے پمفلٹ میں محض انگلش ڈیپارٹمنٹ کا نام کیوں باقی ڈیپارٹمنٹس کی پارٹی پر سانپ سونگھ گیا تها؟
(پارٹی دراصل ایک اینول ڈینر ہوتا ہے جس کی تیاری سر حالد کے ساتھ مل کر ہم سبهی طالبہ و طالبات مل کر کرتے جس کا آغاز تلاوت قران پاک اور نعت سے ہوتا ہے)

اس پمفلٹ واقع کے اگلے دن صبح جب سر آفس میں آئےتو خطیب حسین انکے پیچهے کمرے میں چلا آیا اور اور نیچے گرا کر پہ در پہ خنجر کے وار کرتا رہا ہمارے چونکہ لیکچرز دیر سے ہوتے تو صبح کے وقت زیاده تعداد نہیں ہوتی ایک لڑکی نے جیسےدیکها تو چیخ مار کر بیہوش ہوگئی اسکی چیخ کی آواز سے لڑکے بهاگ کر گئے تو دیکها وه جنونی خنجر سےمار کر خود اطمینان سے کرسی پر بیٹها ہے ایمبولین آگئی ڈولفن پولیس پہنچ گئی سر تو اسی وقت دم توڑ گئے اسی واقواع پر جب ایک اہلکار نے خطیب سے پوچها کہ تم نے وار کیوں کیا تو اسکا کہنا تها کہ یہ اسلام کے خلاف بولتا تها،
اس بدبخت نے سراسر جهوٹ بولا ہے،سر کو پڑهاتے20 سال سے اوپر ہوگئے ہوں گے آج تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وه ایسا کچه کہیں گے سر نے 10 سال سعودہ عرب میں گزارے ہیں 3 سے 4 بار حج کر رکها ہے، ہر جمعہ ایک خوبصورت شلوار قمیض میں آتےاور لیکچر کے آغاز میں خدا کی نعمتوں کا ذکر اور اسکا شکریہ ادا کرنے کی تلقین ہوتی یہ انکی فطرت تهی انکا بس جرم یہ تها کہ وه منافق نہ تهے میں نے تین سالوں میں اس جیسا خوبصورت انسان نہیں دیکها جو ایک وقت میں انگریزی ادب کا بہترین معلم، اسی لمحےایک اچها مسلمان، ایک اچها دوست اور شفیق والد تها.

خطیب حسین نے یہ سب خود نہیں کیا یقین اس کے پیچهے وه سوچ کار فرما ہے جس سے نہ مشعال خان بچ سکا اور نہ اب سر خالد. یہ عجیب بات ہے کہ آپ کسی ذاتی عناد کی وجہ سے سے اسے اسلام دشمن کہیں اور قتل کر دیں یہ کونسا اسلام اجازت دیتا ہے ایسے تو اب جس کا دل چاہے وه نوٹس لگائے اور اگلے دن اسے قتل کردے کیا یہی وه اسلام تها جو فتح مکہ کے موقع پر دیکهنے کو ملا؟ نہیں یہ اسلام نہیں بلکہ اسلام کا استعمال ہے اپنی رنجشوں کی آڑ میں آخر کب تک ہم ان جهوٹے انتہا پسند مولویں کی وجہ سے جانیں گنوائیں گے، کب تک ہم اپنے معلم، دانشور کهوئیں گے؟
آج صرف سر خالد کا قتل خطیب حسین کے ہاتهوں نہیں ہوا بلکہ علم کو جاہل نے خنجر سے مار ڈالا
اس واقع کی انکوائری جاری ہے، اس پوسٹ کو لکهنے مقصد یہ ہے کہ آپ غلط پروپیگنڈا میں مت آئیں نہ اسے آگے پهیلائیں، بلکہ آواز بلند کریں ایک معلم آج اس معاشرے میں انصاف مانگ رہا ہے.
وجیہ الحسن / تحریر Wajeeh Ul Hassan
 

سید عمران

محفلین
معمہ مزید الجھ گیا۔۔۔
جب سر اسلام مخالف نہیں بولتے تھے جیسا کہ خطیب کا دعویٰ تھا پھر خطیب نے انہیں کیوں مارا ؟؟؟
 

محمداحمد

لائبریرین
ہماری اینول پارٹی کا وقت آن پہچا پارٹی سے 2دن پہلے پورے کالج میں پروپیگنڈا کے تحت پمفلٹ لگے ہوئے پائے گئے کہ انگش ڈیپارٹمنٹ کی ہونے والی پاڑٹی کنجرخانہ ہے یہاں فحاشی ہوتی ہے

دراصل اس معاملے میں ہم مسلمان (اکثریت) منافقت کا شکار ہے۔ اس قسم کی پارٹیز (گو کہ وہ تعلیمی اداروں میں ہی کیوں نہ ہوں) میں رقص و موسیقی کا ہونا عام ہے اور اختلاط و مرد و زن بھی بہت زیادہ ہوا کرتا ہے۔

اسلامی تعلیمات ہمیں ان باتوں سے روکتی ہیں۔ یعنی ہمارا معاشرہ اتنا اسلامی نہیں ہے کہ جتنا اسے ہونا چاہیے ۔

تاہم ان پارٹیوں کا اہتمام کرنا یا اُن میں شرکت کرنا گناہ کا کام تو ہے لیکن ایسا کام ہرگز نہیں ہے کہ کوئی شخص بلاوجہ واجب القتل ہو جائے۔

مذہبی طبقہ بھی منافقت کا شکار نظر آیا کہ اس معاملے پر براہِ راست تنقید کرنے کے اُنہوں نے بزدلانہ انداز میں پوسٹرز چھاپے اور نفرت کو ہوا دی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مذہب کی آڑ میں یہ کوئی مقتول کا دشمن ہو اور اُس نے اپنی راہ ہموار کرنے کے لئے مذہب کو آلہ کار بنایا ہو۔

تاہم میری خواہش یہ ہے کہ معاشرے سے عدم برداشت کے رویوں کو کم سے کم کیا جائے اور اس قسم کے مجرموں کو جو خود ہی منصف، خود ہی گواہ اور سزا کا کام کرتے ہیں ،قرار واقعی سزا دی جائے۔
 

شکیب

محفلین
کیا اتنے بڑے طلباء کی عمر مناسب نہیں ہے کہ انہیں متعصب اور متشدد مزاجی کے خلاف والدین اور اساتذہ براہِ راست بتائیں یا مواد فراہم کریں؟
مجھے یاد ہے کہ بچپن سےہی ہمیں بھلے ہی براہِ راست بہت کم نصائح والدین سے سننے کو ملی ہیں، لیکن تقریبا ہر موضوع پر مواد وقتا فوقتا اور حسبِ موقع کتب کی شکل میں گھر میں "ادھر ادھر رکھا ہوا" مل جاتا تھا۔
اگر اسٹوڈنٹ کو بدقسمتی سے مطالعے سے دلچسپی نہیں ہے اور بیانات و تقاریر سننے کو ترجیح دیتا ہے "اپنا عالم" یا "اپنا مسلک" والی بات ہے تو بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ معتدل مزاج لوگ ہر مسلک میں ہوتے ہیں (بلکہ زیادہ تعداد انہی کی ہوتی ہے۔)
 

محمداحمد

لائبریرین
کیا اتنے بڑے طلباء کی عمر مناسب نہیں ہے کہ انہیں متعصب اور متشدد مزاجی کے خلاف والدین اور اساتذہ براہِ راست بتائیں یا مواد فراہم کریں؟

زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے بیشتر والدین اور اساتذہ خود تربیت کے محتاج ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
نری تعلیم حاصل کرنے سے پیسہ تو کمایا جاسکتا ہے انسانیت نہیں۔۔۔
انسانیت کے حصول کا واحد ذریعہ صرف اور صرف تربیت ہے۔۔۔
دیکھیئے پہلے زمانہ کے لوگ صرف کھانا کھانے سے متعلق اپنے بچوں کی تربیت کس قدر خوش اسلوبی سے کیا کرتے تھے:
دلی میں متوسط طبقے کے مرد و خواتین دسترخوان پر اپنے بچوں کی تربیت کرتے تھے۔ کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے کوئی غلط حرکت یا معیوب بات دیکھتے تو روکتے ٹوکتے۔ دلی ہو یا دلی سے باہر کسی بھی شہر یا قصبے میں ہر فرقے اور طبقے کے لوگ کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کی تربیت کرتے رہتے ہیں، مگر دلی والوں کا اس کا زیادہ احساس تھا، خاص طور پر طبقہ اشرافیہ زیادہ ہی چوکنا رہتا کہ دوسرے لوگ نام دھریں، تمیز و تہذیب پر حرف آئے کہ بچوں کو کیسا اٹھایا ہے؟ اس لیے وہ ہر پل نظر رکھتے۔

اور۔۔۔

مشترکہ خاندان میں سبھی مل جل کر رہتے، اپنے بچوں کے ساتھ بھائی بہنوں کے لڑکے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر پوری پوری توجہ دیتے تھے۔ کسی کو اعتراض نہ ہوتا کہ ہمارے بچے کو کیوں ٹوکا، کیسے ڈانٹا۔ اگر کوئی بڑا تنبیہ کرتا یا سمجھاتا تو گھر کا دوسرا شخص خاموشی سے کھڑا دیکھتا رہتا۔ درمیان میں کسی بات میں دخل نہ دیتا اور بعد میں سمجھاتے کہ تم غلط حرکت کرتے نہ وہ تمھیں ٹوکتے، آئندہ خیال رکھنا، ایسا نہ ہو کہ پھر کسی بات پر سخت سست کہیں اور چھوٹے بھی سنی اَن سنی نہ کرتے۔ خواتین گھروں میں بچوں، بالخصوص لڑکیوں پر نظر رکھتیں، مرد گلی کوچے میں آنے جانے والے لڑکوں پر۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی بچہ بری صحبت میں پڑ کر پیٹ سے پاؤں نکالے۔صبح سے رات تک ایک ہی وقت ایسا ہوتا، جب گھر کے سب بڑے چھوٹے دسترخوان پر یکجا ہوتے۔ دسترخوان چننے سے ‘‘بڑھانے ’’ تک گھر کے بڑے چھوٹوں کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتے۔ جن گھروں میں ملازمہ یا خادمہ نہیں ہوتی، وہاں گھر کی بڑی لڑکی دسترخوان بچھاتی، دوسری لڑکیاں کھانے کے مطابق طشتریاں، غوریاں، پیالے، پیالیاں، طباق، چھوٹے بڑے چمچے لاکر سلیقہ سے دسترخوان سجانے اور کھانا چُننے میں مدد کرتیں۔ کھانے کی قابیں آنے سے پیشتر سفل دان اور مغزکش بھی چمچوں کے ساتھ رکھ دیے جاتے۔ آج کی تانتی ان سے واقف ہی نہیں۔ سفل دان ڈھکنے والا گول پیالے، کٹورے نما ایک برتن جس کے سرپوش پر برجی بنی ہوئی ہوتی، اس کا پیندہ سپاٹ ہوتا، عام طور پر تام چینی یا المونیم کے بنے ہوئے ہوتے۔ نوالے میں کوئی ہڈی کا ٹکڑا، گوشت کا ریشہ دانتوں میں پھنس جائے یا کالی مرچ وغیرہ جو چبائی نہ جائے تو اس کے رکھنے کے لیے استعمال میں آتا۔مغزکش سے نلی کا گودا نکالا جاتا تھا۔ یہ نالی دار چمچہ تھا، ایک ٹوتھ برش کی مانند سیدھا، آدھا حصہ پتلا اور آدھا چوڑا۔ اسے گودے کی نلی میں داخل کرکے آہستہ سے باہر کھینچتے تو نالی دار حصہ میں گودا یا مغز آجاتا۔ نلی کو جھاڑنے توڑنے یا ٹھونکنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ اسٹیل یا چاندی کے بنائے جاتے تھے۔ اب نہ سفل دان ہیں اور نہ مغزکش، کوئی ان سے واقف بھی نہیں۔ دسترخوان کے لوازمات کے ساتھ ایک بڑی سینی میں پانی کا جگ، کٹورے، گلاس دسترخوان کے بائیں جانب آخری سرے پر رکھ دیے جاتے۔ جن گھروں میں بڑے بڑے دالان ہوتے، وہاں چوکیوں پر دسترخوان بچھا کر کھانے کا رواج تھا۔ پہلے گھر کا کوئی بزرگ (مرد) دسترخوان کے سامنے درمیان میں آکر بیٹھتا، ان کی دائیں جانب خواتین مراتب کے اعتبار سے بیٹھتیں اور اسی طرح مرد بائیں جانب۔ دسترخوان کے دوسری طرف گھر کے لڑکے لڑکیاں مؤدب انداز میں بیٹھتے۔ خواتین کے سامنے لڑکیاں، مردوں کے سامنے چھوٹے بڑے لڑکے ہوتے۔ گھر میں اگر مہمان آتے تو وہ بزرگ کے ساتھ بیٹھتے۔ مہمان زیادہ ہوں تو پہلے مہمانوں کی تواضع کی جاتی اور گھر کی خواتین بعد میں کھانا کھاتیں۔ گھر کی بڑی بہو یا لڑکی کشتی نما تانبے کی قلعی دار قابوں میں کھانے کی اشیا لاتیں۔ مردوں اور عورتوں کے سامنے علاحدہ علاحدہ قابیں پیش کی جاتیں۔ بعض گھروں میں تانبے کے برتنوں کے ساتھ چینی یا بلوری برتن بھی ہوتے اور کھانوں کی مناسبت سے اچار، چٹنی اور رائتے کی پیالیاں بھی۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے زانو پوش گھٹنوں پر ڈالتے۔ بچوں سے کہا جاتا کہ وہ بائیں جانب اپنا اپنا رومال رکھیں۔ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا جاتا۔ خواتین چنگیری سے روٹیاں نکال کر دیتیں۔ چنگیری، روٹی رکھنے کی ٹوکری تانبے کی قلعی دار، کھجوریا بید کی بنی ہوئی ہوتی اور اس میں بڑے رومال میں لپیٹ کر روٹیاں رکھتے۔ بڑے چھوثوں کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھتے رہتے۔ کسی کا بڑا لقمہ دیکھا اور ٹوکا : ‘‘ بیٹا چھوٹا نوالہ بناؤ، گال پھولا ہوا نظر نہ آئے، چباتے وقت منھ بند رہے، چپڑ چپڑ کی آواز نہ ہو، سالن شوربے میں ناخن نہ ڈوبیں، غوری یا طشتری میں ایک طرف سے کھانا، ہاتھ نہ بھریں، جلدی جلدی نہ کھاؤ، آخر کب تک رکابی میں رونق رہے، بوٹی یا سبزی کا ایک حصہ آخری لقمے میں لینا’’۔ اسی طرح پانی پیتے وقت کہا جاتا ’’لمبا گھونٹ نہ لو، چھوٹے چھوٹے گھونٹ میں تین مرتبہ پانی پیو’’۔

بریانی، پلاؤ یا چاول عام طور پر چمچے کے بجائے ہاتھ سے کھاتے، انگلیاں چکنی ہو جاتیں۔ پانی پینے کی ضرورت پیش آتی تو بائیں ہاتھ سے گلاس یا کٹورا اٹھانے کی ہدایت دی جاتی اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کا سہارا دے کر پانی پینے کے لیے کہتے، تاکہ دائیں ہاتھ میں لگی ہوئی چکنائی سے گلاس، کٹورہ خراب نہ ہو۔ جو بچہ نوالے سے زائد روٹی توڑتا اور پھر اس کے ٹکڑے کرتا، اسے بدتمیزی سمجھا جاتا۔ کھاتے کھاتے منھ میں ہڈی کا ٹکڑا، بوٹی کا ریشہ یا گرم مصالحے میں سے لونگ یا سیاہ مرچ آ جاتی تو بچوں سے کہتے، پہلے دایاں ہاتھ منھ کے سامنے لاؤ، پھر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور ساتھ کی انگلی سے اس شے کو نکالو، چھنگلی اور اس کے برابر والی انگلی سے سفل دان کے سرپوش کی برجی پکڑ کر ڈھکنا اٹھاؤ اور آہستہ سے وہ شے ڈال کر سرپوش ڈھانک دو۔دسترخوان پر اگر کباب ہوتے اور کوئی بچہ طشتری سے کباب اٹھاکر روٹی پر رکھ کر کھانے کی کوشش کرتا تو اسے معیوب سمجھتے۔ (بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے دلی کے بعض گورکن اپنے مُردوں کو دفنانے کے بعد جو حاضری کا کھانا کھلاتے، وہ مٹی کی رکابی میں روٹی کے دو ٹکڑے کرکے ان پر گولے کے کباب رکھتے، اس لیے روٹی پر کباب رکھ کر کھانا برا سمجھا جاتا۔)ضمناً یہاں گورکن اور کباب والی بات آگئی۔ ہم دسترخوان کی تربیت کا ذکر کر رہے تھے کہ بڑے بچوں کو سکھاتے تھے کہ کھاتے وقت دوسروں کے کھانے پر نظر نہ ڈالو، اپنے آگے جو رکھا ہوا ہے اسے دیکھو۔ کسی دوسرے دسترخوان پر کھانا ہو تو جو میزبان پیش کرے، اسے خوشی کے ساتھ کھاؤ۔ مرچ تیز، نمک پھیکا ہو تو اسے ظاہر نہ کرو۔ کسی کھانے میں عیب نکالنا بری بات ہے۔ غمی کے کھانے میں روٹی بوٹی کی فرمائش نہ کرنا۔ چند لقمے کھانا۔ اگر تمہاری رکابی میں نلی آ جائے اور دسترخوان پر مغزکش نہ ہو تو اسے رکابی یا روٹی پر نہ جھاڑنا، نہ منھ سے چوسنا۔ اس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تم نے کبھی کچھ کھایا پیا نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
معاشرہ دو متضاد انتہاؤں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ خلیج دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ یقین جانیے جو کچھ مذہب کے نام پر ہو رہا ہے اس کا مذہب سے تعلق بالکل نہیں۔ اور جو کچھ لبرل ازم کے نام پر ہو رہا ہے وہ لبرل ازم کی تعریف کے دائرہ کار سے کہیں دور نکل چکا ہے۔

کبھی عورت مارچ میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ "نکاح" (جسے حدیث میں النکاح من سنتی فرمایا گیا) کو ختم کردینا چاہیے تو کہیں شاگرد کے ہاتھوں استاد مذہب کے نام پر قتل ہو جاتے ہیں ۔۔۔ واللہ نہ وہ لبرل ازم ہے اور نہ یہ اسلام۔
عین متفق۔ ملک اس وقت انتہائی شدید تقطیب ( Polarization) کا شکار ہے۔ جہاں دونوں اطراف لبرل اور مذہبی انتہا پسند موجود ہیں۔ جن کا آپس میں ٹکراؤ ناگزیر ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
انتہائی افسوسناک ۔

معاشرہ دو متضاد انتہاؤں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ خلیج دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ یقین جانیے جو کچھ مذہب کے نام پر ہو رہا ہے اس کا مذہب سے تعلق بالکل نہیں۔ اور جو کچھ لبرل ازم کے نام پر ہو رہا ہے وہ لبرل ازم کی تعریف کے دائرہ کار سے کہیں دور نکل چکا ہے۔

کبھی عورت مارچ میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ "نکاح" (جسے حدیث میں النکاح من سنتی فرمایا گیا) کو ختم کردینا چاہیے تو کہیں شاگرد کے ہاتھوں استاد مذہب کے نام پر قتل ہو جاتے ہیں ۔۔۔ واللہ نہ وہ لبرل ازم ہے اور نہ یہ اسلام۔

ملا کو سوچنا ہے، یقینا سوچنا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی کی تشریح وہ کیا کر رہا ہے۔ عوام کے سامنے عبادات کے مضمون کو کھولتے کھولتے وہ شاید یہ بھول گیا کہ اسلام میں اخلاقیات، معاشرت اور معاملات کا مضمون زیادہ وسیع اور اہم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیں تہجد گزار جھوٹے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ گویا یوں سمجھا جاتا ہے کہ دن بھر کے گناہوں کا کفارہ رات کو مصلے پر بیٹھ کر ادا ہوجائے گا، ہر گز نہیں، حقوق العباد ادا کیے بغیر خدا کو راضی کیسے کیا جاسکتا ہے۔ عبادات کا ایک علیحدہ اہم موضوع ہے لیکن اس کی آڑ میں معاملات کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔

مسٹر کو سوچنا ہوگا کہ اگر وہ مسلمان ہے تو ادخلو فی السلم کافۃ پر عمل کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ زندگی ہولی وڈ کے عیاش اداکار کی طرح گزرے جبکہ کفن اور دفن مدینے کی پاک سرزمین میں نصیب ہو۔ اگر کلمہ پڑھا ہے تو کچھ ذمے داریاں بھی عائد ہوتی ہے۔ ان ذمے داریوں اور فرائض سے لبرل ازم کی آڑ لے کر جان چھڑانا کسی طور بھی مناسب نہیں۔ مسلمان کو اپنی حدود کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے۔ فقط مذہب کی ضد میں اپنی حد سے بڑھ جانا پرلے درجے کی حماقت ہے۔

ملا اور مسٹر دو انتہاؤں پر کھڑے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں۔ میرے نزدیک دونوں ہی شدت پسند ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو دینی طبقے سے تعلق رکھتے ہوتے ہوئے لبرل ہیں یا بظاہر لبرل ہوتے ہوئے بھی مذہب پسند ہیں، مختصرا یہ کہ اعتدال پسند ہیں انھیں چاہیے کہ ملا اور مسٹر کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کریں۔ ورنہ ان کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج آنے والی نسلوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اللہ پاک ہم سب کے حال پر رحم فرمائے۔ آمین

متوازن تبصرہ!
 

جاسم محمد

محفلین
کیا آپ کو نہیں معلوم کس کانٹیکسٹ میں بات ہو رہی ہے؟
معاشرہ میں اب یہ معمول بن چکا ہے کہ کسی بھی شخص پر اسلام مخالف بیانات یا اقدامات کا الزام لگا کر جھوٹاپراپگنڈہ شروع کر دو۔ سادہ لوح عوام کے جذبات ابھارو۔ اور جب کوئی اس انتہا پسند بیانیہ سے متاثر ہو کراس معصوم کو قتل کردے۔ اور قانون حرکت میں آئے تو معصوم کو ظالم اور ظالم قاتل کو مظلوم بنا کر پیش کرو۔
سلمان تاثیر، مشال خان، اور اب یہ پروفیسر کا قتل اسی کانٹیکسٹ کا سلسلہ ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
دراصل اس طالب علم نے پہلے سے اپنا ذہن بنا رکھا تھا اور موقع ملنے پر اپنا کام دکھا گیا۔ بعض جنونی افراد سستی شہرت کے حصول کے لیے ایسا کام کر دکھاتے ہیں اور پھر تاعمر پچھتاتے ہیں۔ اس بچے کا مستقبل برباد ہو گیا تاہم اب یہ اندیشہ ہے کہ ایک خاص مذہبی طبقہ اسے ہیرو نہ بنا لے۔
 

جاسم محمد

محفلین

شکیب

محفلین
زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے بیشتر والدین اور اساتذہ خود تربیت کے محتاج ہیں۔
واقعی افسوسناک بات ہے۔ کیا ہم ذاتی کوششوں پر ایسا کچھ تربیتی نظام ترتیب دے سکتے ہیں؟
باقاعدہ کوئی سنگھٹن کی ضرورت نہیں۔۔۔ ہر اسکول اور کالج میں کوچنگ سینٹرز والے اور انٹر اسکول/کالج مقابلوں کے انوی ٹیشن کے لیے جاتے ہی ہیں۔ کتنے ہی سیمی نار کریئر گائیڈنس کے ہوتے ہیں۔ انتظامیہ سے کوئی آدھے ایک گھنٹے کی بات کر کےکوئی اچھے اسپیکر کے ذریعے چھوٹا سا سیمی نار جیسا منعقد کرایا جا سکتا ہے۔
زیادہ مجمع بھی ضروری نہیں۔ محض گیارہویں باہویں جماعت کے طلباء، یا نویں دسویں کے طلباء۔ مختصر بات۔ ایسے معاملات کی سنگینیوں کا ذکر۔ مستقبل پر اثر۔ اسلام کا نظریہ۔ محبت کی باتیں۔
طلباء کی بجائے اساتذہ کو بھی ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے، جو بچوں کے ساتھ سال بھر رہتے ہیں اور دھیرے دھیرے ذہنوں میں محبتیں اور پازیٹیویٹی گھول سکتے ہیں۔
اگر اسکول کالج میں ممکن نہیں ہو رہا تو محلے میں جاری ٹیوشن سنٹرز کے اساتذہ سے خصوصی ملاقات کی جائے۔
کچھ تو کیا جائے!
 
Top