ایم ایم اے میں تحریک لبیک یا رسول اللہ اور پاکستان عوامی تحریک کو شامل کرنے کی کوشش جاری

زیک

مسافر
تحریک انصاف کو کسی سیاسی بازو میں ڈالنا مشکل ہے۔ ایک طرف انہیں مغربی فلاحی ریاست چاہئے جو سیاسی اعتبار سے بائیں بازو کی سیاست ہے تو دوسری طرف انہیں ختم نبوت اور تعلیم کی اسلامائزیشن بھی درکار ہے جو دائیں بازو کی قدامت پسندی ہے۔ تحریک انصاف کو اپنی خواتین کو آزاد کرنا ہے۔ دھرنوں، جلسوں میں ناچ گانا حلال کرنا ہے۔ مگر اپنے زیر نگرانی اسکولوں میں حجاب و نماز کی پابندی بھی کرانی ہے۔ عجیب ملغوبہ سا ہے۔
رائٹ ونگ پاپولسٹ؟
 

زیک

مسافر
اگر یہ کہا جائے کہ دائیں بائیں کا تصور اب پاکستانی سیاست میں موجود ہی نہیں۔ تو بے جا نہ ہو گا۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں انتہائی بائیں نظریہ سے لے کر انتہائی دائیں نظریہ والے لوگ بھی موجود ہیں۔
اب صرف مفاد پرستی کی سیاست ہے۔ جہاں اور جس کے ساتھ مفاد نظر آئے، جھک جاؤ۔
ایسے میں دائیں، بائیں کی بحث بے کار ہے۔

مفاد میں مثبت اور منفی ہر طرح کا مفاد شامل ہے۔
کونسل اور کنونشن مسلم لیگز کے بارے میں کیا خیال ہے؟
 
اگر یہ کہا جائے کہ دائیں بائیں کا تصور اب پاکستانی سیاست میں موجود ہی نہیں۔ تو بے جا نہ ہو گا۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں انتہائی بائیں نظریہ سے لے کر انتہائی دائیں نظریہ والے لوگ بھی موجود ہیں۔
اب صرف مفاد پرستی کی سیاست ہے۔ جہاں اور جس کے ساتھ مفاد نظر آئے، جھک جاؤ۔
ایسے میں دائیں، بائیں کی بحث بے کار ہے۔

مفاد میں مثبت اور منفی ہر طرح کا مفاد شامل ہے۔
یعنی اردو محفل ہو گئی ہیں. :battingeyelashes:
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ غلط فہمی تو میں بالکل نہیں رکھتا کہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کی ٹاپ قیادتیں اسلام کے لیے ذرا فکرمند ہیں، نہ میں یہ گمان رکھتا ہوں کہ اِس تہذیبی معرکے میں دینِ محمدؐ کے لیے اِن دونوں کو ادنیٰ درجے کی کوئی پریشانی یا کوئی تشویش ہو سکتی ہے۔ البتہ یہ میں ادراک رکھتا ہوں کہ ان دونوں قیادتوں کو اپنی اپنی پارٹی میں موجود اس عنصر کو کھو دینے کی پریشانی حد سے بڑھ کر ہو سکتی ہے جو بہرحال اسلام کے لیے پریشان ہوتا ہے اور جس کے لیے اس ملک میں اسلامی تہذیب کو پسپا ہوتا یا لبرل اور قادیانی ایجنڈا کو پیش قدمی کرتا دیکھنا ناقابل برداشت ہے۔ بطور اسلامی سیکٹر، یہ خاموش عنصر اس ملک میں میری بہت بڑی سٹرینتھ (strength) ہے اور اس سے کام لے کر مجھے اس تہذیبی معرکے میں کئی ایک ہدف سر کرنے اور کئی ایک بلائیں اپنے دین اور امت سے دفع کرنی ہیں۔ یہ بات میرے لیے اضافی طور پر خوش آئند ہے کہ ان دو بڑی پارٹیوں کی ٹاپ قیادتیں کسی بھی معنیٰ میں کوئی نظریاتی قیادتیں نہیں۔ ان کے نظریاتی ہونے پر میں ضرور خوش ہوتا اگر یہ اسلامی ہوتیں۔ ہاں غیر اسلامی ہوں اور پوری طرح نظریاتی ہوں، اس سے مہلک آفت اِس ملک اور قوم کے حق میں بھلا کیا ہو گی؟
 

الف نظامی

لائبریرین
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ’’تحریک اسلامی کامیابی کی شرائط‘‘ میں بہت ہی دل پذیر انداز میں لکھا تھا:
’’دنیا میں جو نظامِ زندگی بھی قائم ہے اُن کو اعلیٰ درجے کے ذہین اور ہوشیار لوگ چلا رہے ہیں اور ان کی پشت پر مادّی وسائل کے ساتھ عقلی اور فکری طاقتیں اور علمی و فنی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرے نظام کو قائم کر دینا اور کامیابی کے ساتھ چلا لینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ یہ بسم اللہ کے گنبد میں رہنے والوں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ سادہ لوح خواہ کتنے ہی نیک اور نیک نیت ہوں اس سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے، اس کے لیے گہری بصیرت اور تدبّر کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دانشمندی اور معاملہ فہمی درکار ہے۔ اس کام کو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو موقع شناس اور باتدبیر ہوں اور ان کی زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ حکمت ان کے سب اوصاف کے لیے ایک جامع لفظ ہے اور اس کا اطلاق دانائی کے متعدد مظاہر پر ہوتا ہے۔ یہ حکمت ہے کہ آدمی انسانی نفسیاتی سمجھ رکھتا ہو اور انسانوں سے معاملہ کرنا جانتا ہو۔ لوگوں کے ذہنوں کو اپنی دعوت سے متاثر کرنے اور ان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کے طریقوں سے واقف ہو۔ ہر شخص کو ایک ہی لگی بندھی دعا دیتا نہ چلا جائے بلکہ ہر ایک کے مزاج اور مرض کی صحیح تشخیص کر کے علاج کرے۔ یہ بھی حکمت ہے کہ آدمی اپنے کام کو اور اُس کے کرنے کے طریقوں کو جانتا ہو۔ یہ بھی حکمت ہے کہ آدمی اس وقت کے حالات پر نظر رکھتا ہو، مواقع کو سمجھتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ کس موقع پر کیا تدبیر کی جانی چاہیے۔ حالات کو سمجھے بغیر اندھا دھند قدم اٹھا دینا، بے موقع کام کرنا اور موقع پر چوک جانا غافل لوگوں کا کام ہے اور ایسے لوگ خواہ کتنے ہی پاکیزہ مقصد کے لیے کتنی ہی نیکی اور نیک نیتی کے ساتھ کام کر رہے ہوں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ان سب حکمتوں سے بڑھ کر بڑی حکمت یہ ہے کہ آدمی دین میں سمجھ اور معاملات ِ دنیا کی بصیرت رکھتا ہو۔ محض احکام اور مسائلِ شریعت سے واقف ہونا اور آنے والے حادثوں پر چسپاں کر دینا کسی مفتی کے لیے تو کافی ہو سکتا ہے مگر بگڑے ہوئے معاشرے کو درست کرنے اور نظام زندگی کو جاہلیت کی بنیادوں سے اکھاڑ کر ازسرِ نو قائم کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
 
Top