جب تک مرکز میں کمزور حکومتیں بنتی رہیں گی تب تک ایم کیو ایم اور اس سے ملتی جلتی سیاست کے نام پہ لسانی اور مذہب کے نام فروعی جماعتیں پر پرزے نکالتی رہیں گی۔ مستقبل قریب کے حالات اس بات کا فیصلہ کر دیں گے کہ پاکستان کا استحکام بحال ہو گا یا پھر ایسے لسانی اور نام نہاد مذہبی گروہ پاکستان کو مزید مشکلات سے دو چار کریں گے۔دیکھا جائے تو ز-ر-د-ا-ر-ی کی موجودہ حکومت نے بھی اب عملی طور پہ کچھ معاملات میں سندھ کارڈ کھیل کر اس قسم کی سیاست سے خود کو آلودہ کر لیا ہے۔اس لئیے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ہنی مون جاری ہے کہ پنجاب کی قیادت خود تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔سندھ کی حد تک پیپلز پارٹی خود کو سندھی بولنے والوں اور ایم کیو ایم اردو بولنے والوں کی جماعتیں ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہیں۔ لیکن پنجاب میں آ کر یوں شیر و شکر ہوتی ہیں گویا کہ پنجاب مال غنیمت ہو۔پنجاب کی عاقبت نا اندیش سیاسی اور حکومتی قیادت اس بات کو کیو بھول جاتی ہے کہ یہی ایم کیو ایم کراچی میں پنجابیوں کے خلاف کس قدر نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتی ہے۔ یہ کریڈٹ تو کراچی کے عوام کو جاتا ہے کہ وہ عام طور پہ ایم کیو ایم کے اس پروپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہوتے لیکن پھر بھی نوجوانوں کی ایک قلیل تعداد ان کے چنگل میں پھنس جاتی ہے۔ ایم کیو ایم شاید ایسا ہی کچھ کام دکھانے اب پنجاب کا رخ کر چکی ہے جس میں جاگیرداروں کو للکارنے کا سلطان راہی سٹائل اب پنجاب کے لوگوں کو باہم دست و گریباں کروا دے گا۔ جاگیرداری پاکستان کے ہر علاقے میں ہے اور سندھ میں پنجاب سے بھی بدتر حالت میں ہے۔ لیکن پیر سائیں کی بڑھک ، بھڑک اور کڑک پنجاب پہ ہے۔ کیوں کہ معاملہ ووٹ کا ہے نیت صاف ہوتی تو سندھ سے اس کام کا آغاز کرتے۔ جاگیرداری بڑھکیں مارنے سے نہیں بلکہ ایک مربوط معاشی نظام کی تشکیل اور اس پہ عمل کروانے سے ختم ہو گی اور ہماری تمام تر سیاسی قیادت بشمول ایم کیو ایم اس وصف سے عاری ہے۔