ایویں ہی کا اقتباس

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
ایسے بہت سے لمحات زندگی میں آتے ہیں جیسے میری دوستیں آئی ہوئی تھیں میرے گھر رکنے
ہم نے خوب مزے کیئے،ساتھ رہے ،دل بھر کے شرارتیں کیں لیکن وہ جب ان کے جانے کا دن آیا تو مجھے خوب رونا آیا اور میرا دل بے چین ہوگیا۔
ابھی میرے آنسو آنکھوں سے نکلنے ہی والے تھے کہ میرے چاچی آگئیں رکنے کے لیئے جن سے میری بہت بہت زیادہ دوستی ہے تو بس پھر اس وقت میرا دل سکون کی جھیل میں اتر گیا :happy:

ایسی ہی تب ہوا جب میری نانوں اور میری کچھ کزنز گاؤں جارہی تھیں پر اور مجھے بھی بہت اشتیاق تھا کے میں گاؤں کی شادی دیکھوں صرف ایک دن رہ گیا تھا
اور اجازت تھی کہ ملتی ہی نہیں تھی۔صبح سب نے چلے جانا تھا اور بس اک ہلکی سی امید تھی کہ میں بھی جاؤں گی آثار کوئی نہ تھے دل بے چین کہ جانا ہے جانا ہے!
ایسے ہی صبح ہوگئی اورمیری امید بھی ختم لیکن اچانک دیکھا تو نانو اور میری کزنز آگئی ہیں لینے اور جلدی جلدی سب نے تیاری کروائی ہم روانہ ہوگئے۔
اس وقت ٹرین میں بیٹھتے ہوئے دل جو سکون کی جھیل میں اترا تھا وہ آج بھی یاد آئے تو آنکھیں چمکنے لگتی ہیں۔

لیکن یہ قصے کچھ مناسبت رکھتے ہیں آپ کے دھاگے سے پوری طرح نہیں اترتے موضوع پر۔

بات یہی ہے کہ کبھی کبھار ساحل کے قریب پہنچ کر بھی سفینے ڈوب جایا کرتے ہیں۔۔۔اور کبھی ساحل کی امید نہیں ہوتی لیکن ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ کشتی بھنور سے باخیر و عافیت نکل آتی ہے
تو کچھ بھی کھوجائے امید رکھنی چاہیئے کہ اللہ تعالی اس سے بہتر عطا فرمائیں گے یہ بھی اک سکون کا ذریعہ ہے۔
 
ایسی ہی تب ہوا جب میری نانوں اور میری کچھ کزنز گاؤں جارہی تھیں پر اور مجھے بھی بہت اشتیاق تھا کے میں گاؤن کی شادی دیکھوں صرف ایک دن رہ گیا تھا​
اور اجازت تھی کہ ملتی ہی نہیں تھی۔​
گاؤن کی شادی کوٹ کے ساتھ ہوئی تھی یا برقعہ کے ساتھ؟؟:D
 

فہیم

لائبریرین
ایسے بہت سے لمحات زندگی میں آتے ہیں جیسے میری دوستیں آئی ہوئی تھیں میرے گھر رکنے
ہم نے خوب مزے کیئے،ساتھ رہے ،دل بھر کے شرارتیں کیں لیکن وہ جب ان کے جانے کا دن آیا تو مجھے خوب رونا آیا اور میرا دل بے چین ہوگیا۔
ابھی میرے آنسو آنکھوں سے نکلنے ہی والے تھے کہ میرے چاچی آگئیں رکنے کے لیئے جن سے میری بہت بہت زیادہ دوستی ہے تو بس پھر اس وقت میرا دل سکون کی جھیل میں اتر گیا :happy:

ایسی ہی تب ہوا جب میری نانوں اور میری کچھ کزنز گاؤں جارہی تھیں پر اور مجھے بھی بہت اشتیاق تھا کے میں گاؤن کی شادی دیکھوں صرف ایک دن رہ گیا تھا
اور اجازت تھی کہ ملتی ہی نہیں تھی۔صبح سب نے چلے جانا تھا اور بس اک ہلکی سی امید تھی کہ میں بھی جاؤں گی آثار کوئی نہ تھے دل بے چین کہ جانا ہے جانا ہے!
ایسے ہی صبح ہوگئی اورمیری امید بھی ختم لیکن اچانک دیکھا تو نانو اور میری کزنز آگئی ہیں لینے اور جلدی جلدی سب نے تیاری کروائی ہم روانہ ہوگئے۔
اس وقت ٹرین میں بیٹھتے ہوئے دل جو سکون کی جھیل میں اترا تھا وہ آج بھی یاد آئے تو آنکھیں چمکنے لگتی ہیں۔

لیکن یہ قصے کچھ مناشبت رکھتے ہیں آپ کے دھاگے سے پوری طرح نہیں اترتے موضوع پر۔

بات یہی ہے کہ کبھی کبھار ساحل کے قریب پہنچ کر بھی سفینے ڈوب جایا کرتے ہیں۔۔۔ اور کبھی ساحل کی امید نہیں ہوتی لیکن ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ کشتی بھنور سے باخیر و عافیت نکل آتی ہے
تو کچھ بھی کھوجائے امید رکھنی چاہیئے کہ اللہ تعالی اس سے بہتر عطا فرمائیں گے یہ بھی اک سکون کا ذریعہ ہے۔


لاجواب:applause:
:)
 
Top