جیہ
لائبریرین
آپ سب اہلِ محفل کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ دیوانِ غالب کا اولین نسخہ جو کہ نسخۂ حمیدیہ یا نسخۂ بھوپال کے نام سے مشہور ہے، کی ٹائپنگ مکمل ہو چکی ہے اور آج کل میں اس کی پروف ریڈنگ کر رہی ہوں۔ جوں ہی اس کی پروف ریڈنگ مکمل ہوتی ہے ، اسے آپ کی خدمت میں بابا جانی جنابِ اعجاز اختر کی نظرِ ثانی اور مختصر تعارف کے بعد محفل کے وکی وکا پر پیش کیا جائے گا۔ میری کوشش ہوگی کہ یہ نادر دیوان جلد از جلد آن لائن ہو۔ انشاء اللہ۔ اس کتاب کے آن لائن ہونے کا کریڈٹ میرے میرے شفیق، میرے استاد محترم ، میرے بابا جانی جناب اعجاز اختر صاحب کو جاتا ہے جن کی خواہش نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس کتاب کی ٹائپنک بازار سے کچھ پیسے دے کر کروالوں کہ 290 صفحوں پر مشتمل کتاب کی ٹائپنگ میرے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔
اس کتاب کے دیباچے سے ایک اقتباس:
مرزا غالب کی وفات کے پچاس سال بعد بھوپال کے کتب خانۂ حمیدیہ میں دیوانِ غالب کا سب سے پہلا نسخہ ایک خوش نما مخطوطے کی صورت میں دستیاب ہوا۔ اس دریافت نے اُس زمانے کے ادبی حلقوں میں ایک سنسنی سی پیدا کر دی کیونکہ غالب کا پہلا دیوان اُس بے دریغ قطع و برید کے باعث، جس کا ذکر حالی، آزاد اور خود غالب نے کیا ہے، محض ایک ادبی حکایت بن کر رہ گیا تھا۔ اب جو یہ پورا دیوان غیر مترقبہ طور پر میسر ہوگیا تو اکثر اہلِ ذوق نے اس کی طباعت و اشاعت کا خیر مقدم کیا، اگر چہ بعض لوگوں کو اعتراض ہوا کہ جو اشعار مرزا غالب نے خود رد کردیے تھے، اُنہیں اس طرح نشر کر کے گڑے مردے اکھیڑنا کیا ضرور ہے۔ با ایں ہمہ بھوپال کے ڈائرکٹر سر رشتۂ تعلیم، ضیاء العلوم مفتی محمد انوار الحق، کے فہمِ سلیم نے صحیح فیصلہ کیا اور دیوان غالب کا یہ نسخہ جو نواب محمد حمیداللہ خان کے اعزازمیں "نسخۂ حمیدیہ" کہلایا، مفتی صاحب کے اہتمام سے مخطوطے کی کتابت کے ٹھیک ایک صدی بعد 1921عیسوی میں شائع ہوگیا۔
قلمی دیوان کی کتابت نومبر 1821عیسوی میں تکمیل کو پہنچی تھی۔
اس کتاب کے دیباچے سے ایک اقتباس:
مرزا غالب کی وفات کے پچاس سال بعد بھوپال کے کتب خانۂ حمیدیہ میں دیوانِ غالب کا سب سے پہلا نسخہ ایک خوش نما مخطوطے کی صورت میں دستیاب ہوا۔ اس دریافت نے اُس زمانے کے ادبی حلقوں میں ایک سنسنی سی پیدا کر دی کیونکہ غالب کا پہلا دیوان اُس بے دریغ قطع و برید کے باعث، جس کا ذکر حالی، آزاد اور خود غالب نے کیا ہے، محض ایک ادبی حکایت بن کر رہ گیا تھا۔ اب جو یہ پورا دیوان غیر مترقبہ طور پر میسر ہوگیا تو اکثر اہلِ ذوق نے اس کی طباعت و اشاعت کا خیر مقدم کیا، اگر چہ بعض لوگوں کو اعتراض ہوا کہ جو اشعار مرزا غالب نے خود رد کردیے تھے، اُنہیں اس طرح نشر کر کے گڑے مردے اکھیڑنا کیا ضرور ہے۔ با ایں ہمہ بھوپال کے ڈائرکٹر سر رشتۂ تعلیم، ضیاء العلوم مفتی محمد انوار الحق، کے فہمِ سلیم نے صحیح فیصلہ کیا اور دیوان غالب کا یہ نسخہ جو نواب محمد حمیداللہ خان کے اعزازمیں "نسخۂ حمیدیہ" کہلایا، مفتی صاحب کے اہتمام سے مخطوطے کی کتابت کے ٹھیک ایک صدی بعد 1921عیسوی میں شائع ہوگیا۔
قلمی دیوان کی کتابت نومبر 1821عیسوی میں تکمیل کو پہنچی تھی۔