لا حول ولا قوۃ الا بااللہ العلی العظیم۔
خان صاحب عسکری نے اردو محفل کے بزرگ و معزز افراد کے بارے میں لکھا تھا ۔ اور آپ کسی اور طرف چل نکلے۔:)

میں کسی کو ٹارگٹ نہیں کررہا نہ کرتا ہوں
قوم کے عمر رسیدہ افراد کے بارے میں کہہ رہا تھا کہ انہی کے چپ رہنے اور اپنی جھوٹی عزت بچانےکی وجہ سےملک کا یہ حال ہے
میں ان میں سے نہیں ہوں
 

عسکری

معطل
شمشاد بھائی نے منع کیا ہے بعد میں دیکھیں گے
شکر ہے کسی کے منع کرنے پر مان گئے اب جو بھی بات منوانی ہو شمشاد بھائی سے کہیں گے ۔

پہلی گزارش
جناب اعلی گزارش ہئ کہ
شمشاد بھائی ان کو کہیں پاک فوج اور پاکستانی آفسیرز کی انسلٹ بند کریں ۔ فوج کو گالیاں لعن طعن اور پر معاملے مین فوج نا دیکھا کریں ۔

آپکی مہربانی ہو گی
فدوی -عسکری
رول نمبر - 101
 
پر بھائی جان حد ہوتی ہے آپ مین سٹریم پبلک کے جزبات سے اس طرح کھلواڑ نا کریں ۔ دنیا کے ہر ملک نے وہ بھگتا ہے جو پاکستان نے بھی بھگتا ہے ۔ آج کے دن مین درجنوں قوموں کے مسائل وہی ہیں جو ہمارے ۔ لبنان شام مصر افغانستان بنگلہ دیش بھارت یمن سری لنکا برما سمیت ہمارے چاروں طرف لوڈ شیڈنگ بد امنی دہشت گردی نفرت اور تقسیم چھائی ہے ہمارے چاروں طرف پر کسی کو اتنا واویلا کرتے نہین دیکھا جتنا پاکستانیوں کو ۔
اسی طرح جس ہار کی طرف آپکا اشارہ ہے وہ جرمنی روس امریکہ جاپان بھارت برطانیہ برازیل عراق مصر اسرائیل ترکی اٹلی سمیت درجنوں ملک بھگت چکے آپ ان کو اپنی فوج کو گالیاں دیتے جرنلز کی انسلٹ کرتے اپنے قومی وقار کی دھجیاں بکھیرتے نہین دیکھ رہے تو آپ کو پاک عوام پاک فوج اور ہمارے یوم پیدائش کو بدلنے اور طرح طرح سے ہم پر ٹارچر کرنے ہماری انسلٹ کرنے پر کونسا گولڈ میڈل ملتا ہے ؟ یہ لال سب محفلین کے لیے کیا ہے تاکہ جان لو کہ ہم کوئی انوکھی مخلوق نہیں ہیں میں ان سب ممالک کے بارے مین یہ معلومات ابھی کے ابھی پوسٹ کر سکتا ہوں ۔

پتر تینوں غلط فہمی ہوئی اے۔

میں کسی ہار جیت کی طرف اشارہ نہیں کررہا۔ نہ فوجی جرنیلز کی بات کررہا تھا۔ اپ غلط فہمی کا شکار ہوئے

پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنا ہے۔ مگر مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا ایک ایسا سانحہ ہے جس نے اس معاملہ کو الجھادیاہے۔قومیتوں کی بنیاد پر تقسیم دوقومی نظریہ کی نفی ہے جو بذات خود پاکستان کی وجہ تخلیق پر ضرب لگاتی ہے۔
یہ موضوع بہت تکلیف دہ ہے اور نئی نسل اسکا ادراک بھی نہیں کرسکتی۔ کبھی بعد میں بات کریں گے کہیں اور۔
 
شکر ہے کسی کے منع کرنے پر مان گئے اب جو بھی بات منوانی ہو شمشاد بھائی سے کہیں گے ۔

پہلی گزارش
جناب اعلی گزارش ہئ کہ
شمشاد بھائی ان کو کہیں پاک فوج اور پاکستانی آفسیرز کی انسلٹ بند کریں ۔ فوج کو گالیاں لعن طعن اور پر معاملے مین فوج نا دیکھا کریں ۔

آپکی مہربانی ہو گی
فدوی -عسکری
رول نمبر - 101

امید ہے اب شمشاد بھائی کھیر کی دعوت کریں گے۔
مجھے کوئی شوق نہیں پاک فوج اور ان کے افیسرز کی انسلٹ کرنے کا۔ نہ میں نے کسی کو کبھی گالیاں دیں ہیں۔
مگر جن لوگوں نے پاکستان توڑ دیا عزت کے مستحق نہیں ہیں
 

عسکری

معطل
پتر تینوں غلط فہمی ہوئی اے۔

میں کسی ہار جیت کی طرف اشارہ نہیں کررہا۔ نہ فوجی جرنیلز کی بات کررہا تھا۔ اپ غلط فہمی کا شکار ہوئے

پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنا ہے۔ مگر مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا ایک ایسا سانحہ ہے جس نے اس معاملہ کو الجھادیاہے۔قومیتوں کی بنیاد پر تقسیم دوقومی نظریہ کی نفی ہے جو بذات خود پاکستان کی وجہ تخلیق پر ضرب لگاتی ہے۔
یہ موضوع بہت تکلیف دہ ہے اور نئی نسل اسکا ادراک بھی نہیں کرسکتی۔ کبھی بعد میں بات کریں گے کہیں اور۔
اوکے مٹی پاؤ
 

عسکری

معطل
امید ہے اب شمشاد بھائی کھیر کی دعوت کریں گے۔
مجھے کوئی شوق نہیں پاک فوج اور ان کے افیسرز کی انسلٹ کرنے کا۔ نہ میں نے کسی کو کبھی گالیاں دیں ہیں۔
مگر جن لوگوں نے پاکستان توڑ دیا عزت کے مستحق نہیں ہیں
درخواست ابھی دی ہی ہے ان کا جواب آنے دیں
 
میرا خیال سے تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اب تو یومِ آزادی 14 اگست کو ہی منائی جاتی ہے۔
یہ بالکل ایسی بات ہے جیسے شادی کارڈ پر شادی کی تاریخ ۱۲ مئی درج ہے جبکہ نکاح ۱۳ مئی کو رات ایک بجے ہوتا ہے۔۔
اور شادی کی سالگرہ ۱۲ مئی ہی منائی جاتی ہے۔:p
 

حسان خان

لائبریرین
ش

شہزاد احمد

مہمان
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے سرکاری ٹی وی چینل پر بھی 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب کو ٹھیک بارہ بجے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہمیں آزاد ہوئے "اتنے" برس بیت گئے ۔۔۔ میں تو یہ کہوں گا کہ یومِ آزادی چاہے 14 اگست ہی کو تصور کر لیا جائے لیکن آنے والے نسلوں کو کم از کم یہ تو بتا دیا جائے کہ ہم 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب کو آزاد نہیں ہوئے تھے بلکہ 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب کو آزاد ہوئے تھے ۔۔۔!!!
 

حسان خان

لائبریرین
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے سرکاری ٹی وی چینل پر بھی 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب کو ٹھیک بارہ بجے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہمیں آزاد ہوئے "اتنے" برس بیت گئے ۔۔۔ میں تو یہ کہوں گا کہ یومِ آزادی چاہے 14 اگست ہی کو تصور کر لیا جائے لیکن آنے والے نسلوں کو کم از کم یہ تو بتا دیا جائے کہ ہم 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب کو آزاد نہیں ہوئے تھے بلکہ 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب کو آزاد ہوئے تھے ۔۔۔ !!!

اس سے کیا فرق پڑ جائے گا؟ ہم آزاد کب ہوئے اتنا اہم نہیں جتنا اہم یہ ہے کہ اُس آزادی کے دن کی ہمارے نزدیک کیا معنوی حیثیت ہے۔ اور جو معنوی حیثیت چودہ اگست کی پاکستانیوں کے لیے ہے، وہ پندرہ اگست کے لیے اب نہیں ہو سکتی۔ چاہے اُس دن میں ہم دس بار آزاد ہوئے ہوں۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اس سے کیا فرق پڑ جائے گا؟ ہم آزاد کب ہوئے اتنا اہم نہیں جتنا اہم یہ ہے کہ اُس آزادی کے دن کی ہمارے نزدیک کیا معنوی حیثیت ہے۔ اور جو معنوی حیثیت چودہ اگست کی پاکستانیوں کے لیے ہے، وہ پندرہ اگست کے لیے اب نہیں ہو سکتی۔ چاہے اُس دن میں ہم دس بار آزاد ہوئے ہوں۔

جی ہاں! میرا ووٹ بھی 14 اگست کے لیے ہے ۔۔۔ اس معاملے میں آپ کے ساتھ ہوں لیکن آنے والی نسلوں کا یہ حق ہے کہ اُن تک درست معلومات پہنچائی جائیں ۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
کیا اکثر لوگوں کو پتا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی پرچم میں سفید حصہ شامل نہیں تھا اور چاند ستارے کا رخ ترکی کی طرز پر سیدھا تھا، نہ کہ آسمان کی طرف مڑا ہوا؟ لیکن اِس کے معلوم ہونے سے کیا پاکستانی پرچم کی موجودہ حیثیت میں کوئی تغیر آئے گا؟ کیا پچھلا پرچم لوگوں کے جذبات اُسی طرح ابھارے گا جس طرح موجودہ پرچم ابھارتا ہے؟

ایسی پتا نہیں کتنی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، جنہیں اتنا بڑا مسئلہ بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے قومی ترانے پر بڑی بحث چلی تھی کہ جگن ناتھ آزاد نے قومی ترانہ پہلے لکھا تھا یا حفیظ جالندھری نے۔ ایک طبقے نے تو مطالبہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ پرانا ترانا واپس لایا جائے۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ حفیظ جالندھری کا ترانہ ساٹھ سالوں سے ہم گنگناتے آئے ہیں اور یہ ترانہ اپنی دھن کے ساتھ ہمارے اجتماعی شعور کا زندہ حصہ بن چکا ہے۔ اب بھلے اس ترانے سے پہلے جگن ناتھ آزاد نے ترانہ لکھا ہو، لیکن اُس ترانے کی اب ایک اچھی ملی نظم سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں ہو سکتی۔
 
میری ناقص رائے تاریخ یوم ِآزادی وہی شمار کی جاتی ہے جس دن باضابطہ اعلان تقسیم ہوا بعد کی تاریخوں میں جو کچھ ہوا وہ انتظامی مسائل تھے۔۔۔ آگے کوئی مورخ ہی بہتر جواب دے سکتا ہے
 
کیا اکثر لوگوں کو پتا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی پرچم میں سفید حصہ شامل نہیں تھا اور چاند ستارے کا رخ ترکی کی طرز پر سیدھا تھا، نہ کہ آسمان کی طرف مڑا ہوا؟ لیکن اِس کے معلوم ہونے سے کیا پاکستانی پرچم کی موجودہ حیثیت میں کوئی تغیر آئے گا؟ کیا پچھلا پرچم لوگوں کے جذبات اُسی طرح ابھارے گا جس طرح موجودہ، صوابدیدی طور پر چنا ہوا، موجودہ پرچم ابھارتا ہے؟

ایسی پتا نہیں کتنی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، جنہیں اتنا بڑا مسئلہ بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے قومی ترانے پر بڑی بحث چلی تھی کہ جگن ناتھ آزاد نے قومی ترانہ پہلے لکھا تھا یا حفیظ جالندھری نے۔ ایک طبقے نے تو مطالبہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ پرانا ترانا واپس لایا جائے۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ حفیظ جالندھری کا ترانہ ساٹھ سالوں سے ہم گنگناتے آئے ہیں اور یہ ترانہ اپنی دھن کے ساتھ ہمارے اجتماعی شعور کا زندہ حصہ بن چکا ہے۔ اب بھلے اس ترانے سے پہلے جگن ناتھ آزاد نے ترانہ لکھا ہو، لیکن اُس ترانے کی اب ایک اچھی ملی نظم سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں ہو سکتی۔
ارے بھائی پہلے ہی یہاں الجھنیں کم ہیں جو آپ جھنڈے کی الجھن لے کر آ گئے۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
اس طرح کی باتیں کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ لیکن تحقیق کے طور پر اچھی ہیں۔
عسکری جی کوئی چھوٹا موٹا میزائل تو عنایت کر دیں۔ شروع سے ہی پاکستان کے قیام کی مخالفت رکھنے والوں کی باقیات پر گرانے کا دل کر رہا ہے۔ جن کے منہ میں ان کی مادری زبان بولتی ہے جس نے 71ء میں کہا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریہ کو بحرہ ہند میں غرق کر دیا۔ اور اب تک یہ پاکستان اور پاک فوج کے بارے میں دل میں بغض رکھتے ہیں۔
ایسے لوگ جو پاکستان کے ٹوٹنے کی بات کرتے ہیں ان کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جگہ پر ناقابل اشاعت الفاظ ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
برطانوی اخبار، دا ٹیلیگراف، کے مطابق پاکستان اور انڈیا 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب بارہ بجے وجود میں آئے تھے، لیکن انتقالِ اقتدار کی تقریب پاکستان میں 14، اور انڈیا میں 15 اگست کو ہوئی تھی، کیونکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک کی تقریبات میں شرکت کے خواہاں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں یومِ آزادی بھی ایک دن پہلے ہی منایا جاتا ہے۔


واللہ اعلم۔ :)
یہ کوئی مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ پاکستانی قوم شروع سے یومِ آزادی چودہ اگست کو مناتی آ رہی ہے، اس لیے اس تاریخ سے لوگوں کے جذبات جڑ چکے ہیں۔ اب اگر الہامی کتب سے بھی ثابت ہو جائے کہ پاکستان پندرہ تاریخ کو آزاد ہوا تھا، تو بھی ہمارا 'یومِ آزادی' پندرہ تاریخ نہیں ہو جائے گا، کیونکہ پندرہ بطور آزادی کی تاریخ سے لوگوں کی وابستگی نہیں رہی ہے۔

ایسی چیزیں ریاضی کے فارمولے تو ہوتے نہیں کہ جن میں اتنی باریکی اور عینیت کی سعی کی جائے۔ ایسی چیزیں عموماً صوابدیدی (arbitrary) ہی ہوتی ہیں۔
اس سے کیا فرق پڑ جائے گا؟ ہم آزاد کب ہوئے اتنا اہم نہیں جتنا اہم یہ ہے کہ اُس آزادی کے دن کی ہمارے نزدیک کیا معنوی حیثیت ہے۔ اور جو معنوی حیثیت چودہ اگست کی پاکستانیوں کے لیے ہے، وہ پندرہ اگست کے لیے اب نہیں ہو سکتی۔ چاہے اُس دن میں ہم دس بار آزاد ہوئے ہوں۔

کیا اکثر لوگوں کو پتا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی پرچم میں سفید حصہ شامل نہیں تھا اور چاند ستارے کا رخ ترکی کی طرز پر سیدھا تھا، نہ کہ آسمان کی طرف مڑا ہوا؟ لیکن اِس کے معلوم ہونے سے کیا پاکستانی پرچم کی موجودہ حیثیت میں کوئی تغیر آئے گا؟ کیا پچھلا پرچم لوگوں کے جذبات اُسی طرح ابھارے گا جس طرح موجودہ پرچم ابھارتا ہے؟

ایسی پتا نہیں کتنی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، جنہیں اتنا بڑا مسئلہ بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے قومی ترانے پر بڑی بحث چلی تھی کہ جگن ناتھ آزاد نے قومی ترانہ پہلے لکھا تھا یا حفیظ جالندھری نے۔ ایک طبقے نے تو مطالبہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ پرانا ترانا واپس لایا جائے۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ حفیظ جالندھری کا ترانہ ساٹھ سالوں سے ہم گنگناتے آئے ہیں اور یہ ترانہ اپنی دھن کے ساتھ ہمارے اجتماعی شعور کا زندہ حصہ بن چکا ہے۔ اب بھلے اس ترانے سے پہلے جگن ناتھ آزاد نے ترانہ لکھا ہو، لیکن اُس ترانے کی اب ایک اچھی ملی نظم سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں ہو سکتی۔

(y)(y)(y)
 

سعود الحسن

محفلین
یہ کوئی مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ پاکستانی قوم شروع سے یومِ آزادی چودہ اگست کو مناتی آ رہی ہے، اس لیے اس تاریخ سے لوگوں کے جذبات جڑ چکے ہیں۔ اب اگر الہامی کتب سے بھی ثابت ہو جائے کہ پاکستان پندرہ تاریخ کو آزاد ہوا تھا، تو بھی ہمارا 'یومِ آزادی' پندرہ تاریخ نہیں ہو جائے گا، کیونکہ پندرہ بطور آزادی کی تاریخ سے لوگوں کی وابستگی نہیں رہی ہے۔

ایسی چیزیں ریاضی کے فارمولے تو ہوتے نہیں کہ جن میں اتنی باریکی اور عینیت کی سعی کی جائے۔ ایسی چیزیں عموماً صوابدیدی (arbitrary) ہی ہوتی ہیں۔

اصل مسلئہ تاریخ کا نہیں ہے بلکہ "تاریخ" کا ہے؟؟؟؟ ہم بحثیت قوم تاریخ کو مسخ کرکے اپنی مرضی کی لکھ کر خوش ہونے کی بیماری میں مبتلا ہیں اور علاج کے لیے بھی تیار نہیں بلکہ ہمیں اپنے اس مرض سے عشق ہے۔ یہی وجہ ہے ہمارے ہاں ہر دس سال بعد نئی تاریخ لکھی جاتی ، اکثر حکمرانوں کے ساتھ تاریخ بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔

وائے ناکامی کہ متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
 

محمداحمد

لائبریرین
اصل مسلئہ تاریخ کا نہیں ہے بلکہ "تاریخ" کا ہے؟؟؟؟ ہم بحثیت قوم تاریخ کو مسخ کرکے اپنی مرضی کی لکھ کر خوش ہونے کی بیماری میں مبتلا ہیں اور علاج کے لیے بھی تیار نہیں بلکہ ہمیں اپنے اس مرض سے عشق ہے۔ یہی وجہ ہے ہمارے ہاں ہر دس سال بعد نئی تاریخ لکھی جاتی ، اکثر حکمرانوں کے ساتھ تاریخ بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔

وائے ناکامی کہ متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اب آپ کیا چاہتے ہیں؟
 
Top