محمد شکیل خورشید
محفلین
درد کو سینچتے رہے ہم بھی
نقش اک کھینچتے رہے ہم بھی
اشک تھے بےقرار بہنے کو
آنکھ کو میچتے رہے ہم بھی
نالہ نوکِ زباں پہ رکھا تھا
ہونٹ کو بھینچتے رہے ہم بھی
لوگ بھی خواب کے پجاری تھے
اور گماں بیچتے رہے ہم بھی
ایک غمخوار مل گیا تھا شکیل
بات کو کھینچتے رہے ہم بھی
نقش اک کھینچتے رہے ہم بھی
اشک تھے بےقرار بہنے کو
آنکھ کو میچتے رہے ہم بھی
نالہ نوکِ زباں پہ رکھا تھا
ہونٹ کو بھینچتے رہے ہم بھی
لوگ بھی خواب کے پجاری تھے
اور گماں بیچتے رہے ہم بھی
ایک غمخوار مل گیا تھا شکیل
بات کو کھینچتے رہے ہم بھی