ایک اور مسئلہ

ام اویس

محفلین
میرا تو یہ خیال ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جن کا تعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکی/سکتی.

قانون کے نفاذ کی بات کون کر رہا ہے؟ گھریلو آلات تشدد جو ایک ہی سمت میں استعمال ہوتے رہے ہیں ان کو مخالف سمت دکھانی ہوگی فقط اس صورت میں جب واقعی ہم اس مسئلے کو اہم سمجھیں. ورنہ یہ مسئلہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ مذکورہ بالا خاتون کی طرح زیادہ تر خواتین اس مسئلے کے ساتھ جینے کو باقی مسائل سے بری ہونے کی فِیس سمجھتی ہیں شاید.

اب تو قانون بن چکا ہے ۔ اگر شوہر مار کٹائی کرے تو 15 پر کال کریں اور رپورٹ بھی ہوجاتی ہے لیکن اس سے ٹی وی چینلز اور این جی اوز کا ہی بھلا ہوتا ہے گھر البتہ برباد ہوجاتا ہے ۔
اور جو تعلیم ہمارے ہاں دی جا رہی ہے اس کا مقصد جہالت دور کرنا نہیں بلکہ معاشی حالت بہتر بنانا ہے
تربیت ایک مشکل کام ہے اور اس کام سے سب ذمہ دار ہاتھ اٹھاتے جا رہے ہیں
 

زیک

مسافر
اب تو قانون بن چکا ہے ۔ اگر شوہر مار کٹائی کرے تو 15 پر کال کریں اور رپورٹ بھی ہوجاتی ہے لیکن اس سے ٹی وی چینلز اور این جی اوز کا ہی بھلا ہوتا ہے گھر البتہ برباد ہوجاتا ہے ۔
جب شوہر ہاتھ اٹھاتا ہے تو گھر تو اسی وقت برباد ہو جاتا ہے
 

ضیاء حیدری

محفلین
شادی سے پہلے مرد اور عورت کی تربیت ہونی چاہئے جس میں انہیں ان کے حقوق اور فرائض کے بارے میں بتایا جائے۔ پہلے سے تربیت ہونے سے دونوں کی زندگی سکون سے گزرے گی اور ان کے بچوں کی بھی۔

خاتون کا شوہر لڑاکو ہے اس لئے ناپسندیدہ ٹہرا، بہت سے شوہر ملنسار طبیعت کے ہوتے ہیں، پھر بھی خواتین ان پر شک کرتی ہیں، ایسے میں شوہر بیچارا کیا کرے؟
 

م حمزہ

محفلین
مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسا ہاتھ ہی توڑ دیا جائے. :cool: درجن بھر ہاتھ ٹوٹ جائیں گے تو شاید ان کو غیرت آ جائے ورنہ یہ تو صدیوں سے روز مرہ کا معمول ہے مردوں کا. کسی نہ کسی خطے میں روز یا شاید ہر وقت کوئی نہ کوئی عورت تو شوہر کے ہاتھوں پٹتی ہو گی.
آپ کی بات سے مکمل اتفاق۔مرد کا عورت کو مارنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔
البتہ یہ ادھوری بات ہے۔ میں یہ پڑھتا آیا ہوں کہ عورتوں کی وجہ سے بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے ہیں ۔ حکمرانوں کا تختہ الٹ گیا ہے۔ قتل و غارتگری ان کے لئے ایک مشغلہ رہا ہے۔ کئی بار شوہروں کو ہی راستے سے ہٹا دیاگیا۔

یہ بات اسلئے رقم کردی کیونکہ آپ نے لکھا تھا "صدیوں سے روز مرہ کا معمول ہے مردوں کا۔
سکے کا ایک ہی رخ دیکھ کر فتویٰ صادر کرنا عقلمندی نہیں ہے۔

مجھے اس کہانی میں عورت سے ہمدردی ہے۔ البتہ ایک خاص یا استثنائی واقع کو روز مرہ کا معمول نہیں کہہ سکتے۔
 
آخری تدوین:

م حمزہ

محفلین
مردوں کے بڑھتے ہوئے ظلم سے بچنے کے لیے خواتین کو تھوڑا مارشل آرٹ بھی سیکھ لینا چاہیے...
ہاتھ نہ اٹھائیں لیکن اٹھے ہوئے ہاتھ کو روک ضرور سکیں!!!
مارشل آرٹ کا پہلا اصول : حریف کو وار کرنے کا موقعہ ہی نہ دو۔ پہلا وار کرکے مد مقابل کو ناک آؤٹ کردو۔

پھر جب عورت کو یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ یہ ٹریننگ آپ کو اپنے ہی شوہر پر آزمانی ہے تووہ ڈیفنس کا انتظار کیونکر کرے۔ اٹیک اور اٹیک کے سوا اس کے ذہن میں کچھ نہیں رہ سکتا۔
دوسرا مسئلہ یہ ہوگا جو پہلے سے بھی بد تر ہوگا کہ وہ شوہر کو اپنا محافظ ونگراں خیال کرنے کے برعکس اسے اپنا دشمن تصور کریگی۔ اور یوں گھر میں خوشی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔
 

فاخر رضا

محفلین
کیا عورت کو مارنے کی اجازت قرآن میں نہیں ہے
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّ۔هُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّ۔هُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّ۔هَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا ﴿٣٤﴾
مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خد انے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انہوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے- پس نیک عورتیں وہی ہیں جو شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور ان کی غیبت میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہیں جن کی خدا نے حفاظت چاہی ہے اور جن عورتوں کی نافرمانی کا خطرہ ہے انہیں موعظہ کرو- انہیں خواب گاہ میں الگ کردو اور مارو اور پھر اطاعت کرنے لگیں تو کوئی زیادتی کی راہ تلاش نہ کرو کہ خدا بہت بلند اور بزرگ ہے
سورہ نساء آیت 34
 

م حمزہ

محفلین
کیا عورت کو مارنے کی اجازت قرآن میں نہیں ہے
آپ کا اشارہ سورہ نساء کی آیت کی طرف ہے۔
البتہ اس اجازت کا استعمال بیوی کو راہ راست پر لانے کیلئے ناگزیر صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ اور اس مار کی حدود بھی مقرر ہیں شریعت مطہرہ میں۔

گھر کا ماحول خوشگوار بنانے کیلئے شریعت محمدی میں کئی سارے ہدایات دئے گئے ہیں ۔ اگر ہم ان پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کریں تو مار پیٹ کی نوبت آہی نہیں سکتی۔
میرا یہ ماننا ہے کہ خوشگوار ماحول بنائے رکھنے کے لئے مرد کو ہی زیادہ صبر و تحمل سے کام لینا پڑے گا۔
 
آپ کی بات سے مکمل اتفاق۔مرد کا عورت کو مارنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔
البتہ یہ ادھوری بات ہے۔ میں یہ پڑھتا آیا ہوں کہ عورتوں کی وجہ سے بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے ہیں ۔ حکمرانوں کا تختہ الٹ گیا ہے۔ قتل و غارتگری ان کے لئے ایک مشغلہ رہا ہے۔ کئی بار شوہروں کو ہی راستے سے ہٹا دیاگیا۔

یہ بات اسلئے رقم کردی کیونکہ آپ نے لکھا تھا "صدیوں سے روز مرہ کا معمول ہے مردوں کا۔
سکے کا ایک ہی رخ دیکھ کر فتویٰ صادر کرنا عقلمندی نہیں ہے۔

مجھے اس کہانی میں عورت سے ہمدردی ہے۔ البتہ ایک خاص یا استثنائی واقع کو روز مرہ کا معمول نہیں کہہ سکتے۔
مجھے آپ سے اتفاق ہے اور یہ مراسلہ لکھتے وقت بھی ذہن میں وہ بات اپنی جگہ تھی کہ اتنا ظلم مرد نے عورت پر شاید نہیں کیا جتنا خود عورت نے عورت پر کیا. کسی نا کسی روپ، کسی نا کسی کہانی میں اور گھریلو سیاست اور لڑائیوں میں بھی شاید کوئی عورت پٹتی ہے تو کوئی عورت کمینگی سے دل ہی دل میں مسکراتی ہو یا کہیں نا کہیں محرکات میں بھی ہو....

میرا تبصرہ اس کہانی سے متعلقہ تھا اور پھر اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ عورت مرد کو پیٹے تو یہ ایک لطیفہ ہے اور شاید اب زیادہ رواج پکڑا ہے. نصف صدی پہلے کی ہی فضا شاید اور ہوتی اور سب جانتے ہیں کہ اس پر سنجیدگی سے عمل کتنے کم مواقع پر ہوتا ہے جبکہ مردوں کی جانب سے عورتوں کی ہڈی پسلی ایک کرنے کا رواج پتا نہیں کتنا قدیم ہے کبھی دنیا بھر کی فرسٹریشن اپنی عورت پر نکالنے کے لیے، کبھی اسے اوقات میں رکھنے کے لیے اور کبھی خدا جانے کس کس وجہ سے.
 

ضیاء حیدری

محفلین
آپ کا اشارہ سورہ نساء کی آیت کی طرف ہے۔
البتہ اس اجازت کا استعمال بیوی کو راہ راست پر لانے کیلئے ناگزیر صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ اور اس مار کی حدود بھی مقرر ہیں شریعت مطہرہ میں۔

گھر کا ماحول خوشگوار بنانے کیلئے شریعت محمدی میں کئی سارے ہدایات دئے گئے ہیں ۔ اگر ہم ان پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کریں تو مار پیٹ کی نوبت آہی نہیں سکتی۔
میرا یہ ماننا ہے کہ خوشگوار ماحول بنائے رکھنے کے لئے مرد کو ہی زیادہ صبر و تحمل سے کام لینا پڑے گا۔
شریعت اسلامی میں کسی مرد کو ہرگز یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مارے پیٹے۔ لیکن اگر مردوں یا عورتوں میں سے کوئی بھی فحاشی کا ارتکاب کرے تو اسلامی معاشرے میں دونوں کے لئے سزا ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
شریعت اسلامی میں کسی مرد کو ہرگز یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مارے پیٹے۔ لیکن اگر مردوں یا عورتوں میں سے کوئی بھی فحاشی کا ارتکاب کرے تو اسلامی معاشرے میں دونوں کے لئے سزا ہے۔
اسلام میں عورت کو مارنے کی اجازت ہے
 

ضیاء حیدری

محفلین
اسلام میں عورت کو مارنے کی اجازت ہے

عورت کو جس طرح سے بعض حضرات ذدوکوب کرتے ہیں وہ ناجائز ہے، البتہ سرکش عورت کے متعلق حکم ہے کہ پہلے انہیں سمجھاؤ، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑدو یعنی ان کے بستر کو الگ کردو، (اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو)انہیں مارسکتے ہو۔ سورۃ النساء کی آیت سے بعض حضرات یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بیوی کو مارنا دین ہے، حالانکہ قرآن وحدیث نے میاں بیوی کے درمیان کشیدگی کو بڑھانے کے بجائے ہمیشہ ایسے اسباب اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے کہ جن سے دونوں کے درمیان ایسی محبت، الفت، تعلق ، اور ہمدردی پیدا ہو جو دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ شریعت اسلامیہ میں دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق یعنی اپنی اپنی ذمہ داریوں کو اداکرنے بار بار تعلیم دی گئی ہے۔
 

ضیاء حیدری

محفلین
مجھے آپ سے اتفاق ہے اور یہ مراسلہ لکھتے وقت بھی ذہن میں وہ بات اپنی جگہ تھی کہ اتنا ظلم مرد نے عورت پر شاید نہیں کیا جتنا خود عورت نے عورت پر کیا. کسی نا کسی روپ، کسی نا کسی کہانی میں اور گھریلو سیاست اور لڑائیوں میں بھی شاید کوئی عورت پٹتی ہے تو کوئی عورت کمینگی سے دل ہی دل میں مسکراتی ہو یا کہیں نا کہیں محرکات میں بھی ہو....

میرا تبصرہ اس کہانی سے متعلقہ تھا اور پھر اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ عورت مرد کو پیٹے تو یہ ایک لطیفہ ہے اور شاید اب زیادہ رواج پکڑا ہے. نصف صدی پہلے کی ہی فضا شاید اور ہوتی اور سب جانتے ہیں کہ اس پر سنجیدگی سے عمل کتنے کم مواقع پر ہوتا ہے جبکہ مردوں کی جانب سے عورتوں کی ہڈی پسلی ایک کرنے کا رواج پتا نہیں کتنا قدیم ہے کبھی دنیا بھر کی فرسٹریشن اپنی عورت پر نکالنے کے لیے، کبھی اسے اوقات میں رکھنے کے لیے اور کبھی خدا جانے کس کس وجہ سے.
حجۃ الوداع کے موقعہ پر حضور اکرم ﷺ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد وعظ ونصیحت فرمائی: خبردار! میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں، اس لئے کہ وہ تمہاری نگرانی اور سرپرستی میں ہیں لیکن تمہارے پاس قیدی کی طرح نہیں ہیں۔ اور تم ان پر اس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتے کہ ان سے صحبت کرو۔ البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، تو انہیں اپنے بستر سے الگ کردو۔ اور اُن کی معمولی پٹائی کرو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو انہیں تکلیف پہنچانے کے راستے تلاش نہ کرو۔ جان لو: کہ تمہارا تمہاری بیویوں پر اور اُن کا تم پر حق ہے۔تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو بلکہ ایسے لوگوں کو گھر میں بھی داخل نہ ہونے دیں، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں بہترین کھانا اور بہترین لباس دو۔ ترمذی ۔
 

فاخر رضا

محفلین
حجۃ الوداع کے موقعہ پر حضور اکرم ﷺ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد وعظ ونصیحت فرمائی: خبردار! میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں، اس لئے کہ وہ تمہاری نگرانی اور سرپرستی میں ہیں لیکن تمہارے پاس قیدی کی طرح نہیں ہیں۔ اور تم ان پر اس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتے کہ ان سے صحبت کرو۔ البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، تو انہیں اپنے بستر سے الگ کردو۔ اور اُن کی معمولی پٹائی کرو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو انہیں تکلیف پہنچانے کے راستے تلاش نہ کرو۔ جان لو: کہ تمہارا تمہاری بیویوں پر اور اُن کا تم پر حق ہے۔تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو بلکہ ایسے لوگوں کو گھر میں بھی داخل نہ ہونے دیں، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں بہترین کھانا اور بہترین لباس دو۔ ترمذی ۔
بعض شرائط کے ساتھ ہی سہی لیکن مارنے کی اجازت ہے
 

فاخر رضا

محفلین
پھینٹی پر اتنے اصرار کی کوئی خاص وجہ؟
نہ تو میں مارتا ہوں اور نہ اس کے حق میں ہوں۔
رہی بات اصرار کی تو وجہ یہ ہے کہ جو لکھا ہے قرآن و حدیث میں اسکے کی غلط توجیحات دی جارہی ہیں۔ مارنا جائز ہے اسلام میں تو ہے۔ اس میں بحث کیا ہے۔
جو دلائل قرآن و حدیث سے اس کے خلاف دیئے گئے ان میں بھی مارنے کی اجازت دی ہے بعض شرائط کے ساتھ۔
میرے خیال میں اس پر علماء کو defensive ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
 
Top