زیک
مسافر
مسئلے کا ایک حل نہیں بلکہ اسے ہر طرف سے اٹیک کرنے کی ضرورت ہےپھر کیا اس سے مسئلے کا حل مل گیا ؟
مسئلے کا ایک حل نہیں بلکہ اسے ہر طرف سے اٹیک کرنے کی ضرورت ہےپھر کیا اس سے مسئلے کا حل مل گیا ؟
میرا تو یہ خیال ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جن کا تعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکی/سکتی.
قانون کے نفاذ کی بات کون کر رہا ہے؟ گھریلو آلات تشدد جو ایک ہی سمت میں استعمال ہوتے رہے ہیں ان کو مخالف سمت دکھانی ہوگی فقط اس صورت میں جب واقعی ہم اس مسئلے کو اہم سمجھیں. ورنہ یہ مسئلہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ مذکورہ بالا خاتون کی طرح زیادہ تر خواتین اس مسئلے کے ساتھ جینے کو باقی مسائل سے بری ہونے کی فِیس سمجھتی ہیں شاید.
جب شوہر ہاتھ اٹھاتا ہے تو گھر تو اسی وقت برباد ہو جاتا ہےاب تو قانون بن چکا ہے ۔ اگر شوہر مار کٹائی کرے تو 15 پر کال کریں اور رپورٹ بھی ہوجاتی ہے لیکن اس سے ٹی وی چینلز اور این جی اوز کا ہی بھلا ہوتا ہے گھر البتہ برباد ہوجاتا ہے ۔
شادی سے پہلے مرد اور عورت کی تربیت ہونی چاہئے جس میں انہیں ان کے حقوق اور فرائض کے بارے میں بتایا جائے۔ پہلے سے تربیت ہونے سے دونوں کی زندگی سکون سے گزرے گی اور ان کے بچوں کی بھی۔
آپ کی بات سے مکمل اتفاق۔مرد کا عورت کو مارنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسا ہاتھ ہی توڑ دیا جائے. درجن بھر ہاتھ ٹوٹ جائیں گے تو شاید ان کو غیرت آ جائے ورنہ یہ تو صدیوں سے روز مرہ کا معمول ہے مردوں کا. کسی نہ کسی خطے میں روز یا شاید ہر وقت کوئی نہ کوئی عورت تو شوہر کے ہاتھوں پٹتی ہو گی.
نہیں ۔ بلکہ گھر کشتی لڑنے کا اکھاڑا بن گیا۔پھر کیا اس سے مسئلے کا حل مل گیا ؟
مارشل آرٹ کا پہلا اصول : حریف کو وار کرنے کا موقعہ ہی نہ دو۔ پہلا وار کرکے مد مقابل کو ناک آؤٹ کردو۔مردوں کے بڑھتے ہوئے ظلم سے بچنے کے لیے خواتین کو تھوڑا مارشل آرٹ بھی سیکھ لینا چاہیے...
ہاتھ نہ اٹھائیں لیکن اٹھے ہوئے ہاتھ کو روک ضرور سکیں!!!
آپ کا اشارہ سورہ نساء کی آیت کی طرف ہے۔کیا عورت کو مارنے کی اجازت قرآن میں نہیں ہے
مجھے آپ سے اتفاق ہے اور یہ مراسلہ لکھتے وقت بھی ذہن میں وہ بات اپنی جگہ تھی کہ اتنا ظلم مرد نے عورت پر شاید نہیں کیا جتنا خود عورت نے عورت پر کیا. کسی نا کسی روپ، کسی نا کسی کہانی میں اور گھریلو سیاست اور لڑائیوں میں بھی شاید کوئی عورت پٹتی ہے تو کوئی عورت کمینگی سے دل ہی دل میں مسکراتی ہو یا کہیں نا کہیں محرکات میں بھی ہو....آپ کی بات سے مکمل اتفاق۔مرد کا عورت کو مارنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔
البتہ یہ ادھوری بات ہے۔ میں یہ پڑھتا آیا ہوں کہ عورتوں کی وجہ سے بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے ہیں ۔ حکمرانوں کا تختہ الٹ گیا ہے۔ قتل و غارتگری ان کے لئے ایک مشغلہ رہا ہے۔ کئی بار شوہروں کو ہی راستے سے ہٹا دیاگیا۔
یہ بات اسلئے رقم کردی کیونکہ آپ نے لکھا تھا "صدیوں سے روز مرہ کا معمول ہے مردوں کا۔
سکے کا ایک ہی رخ دیکھ کر فتویٰ صادر کرنا عقلمندی نہیں ہے۔
مجھے اس کہانی میں عورت سے ہمدردی ہے۔ البتہ ایک خاص یا استثنائی واقع کو روز مرہ کا معمول نہیں کہہ سکتے۔
شریعت اسلامی میں کسی مرد کو ہرگز یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مارے پیٹے۔ لیکن اگر مردوں یا عورتوں میں سے کوئی بھی فحاشی کا ارتکاب کرے تو اسلامی معاشرے میں دونوں کے لئے سزا ہے۔آپ کا اشارہ سورہ نساء کی آیت کی طرف ہے۔
البتہ اس اجازت کا استعمال بیوی کو راہ راست پر لانے کیلئے ناگزیر صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ اور اس مار کی حدود بھی مقرر ہیں شریعت مطہرہ میں۔
گھر کا ماحول خوشگوار بنانے کیلئے شریعت محمدی میں کئی سارے ہدایات دئے گئے ہیں ۔ اگر ہم ان پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کریں تو مار پیٹ کی نوبت آہی نہیں سکتی۔
میرا یہ ماننا ہے کہ خوشگوار ماحول بنائے رکھنے کے لئے مرد کو ہی زیادہ صبر و تحمل سے کام لینا پڑے گا۔
اسلام میں عورت کو مارنے کی اجازت ہےشریعت اسلامی میں کسی مرد کو ہرگز یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مارے پیٹے۔ لیکن اگر مردوں یا عورتوں میں سے کوئی بھی فحاشی کا ارتکاب کرے تو اسلامی معاشرے میں دونوں کے لئے سزا ہے۔
اسلام میں عورت کو مارنے کی اجازت ہے
حجۃ الوداع کے موقعہ پر حضور اکرم ﷺ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد وعظ ونصیحت فرمائی: خبردار! میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں، اس لئے کہ وہ تمہاری نگرانی اور سرپرستی میں ہیں لیکن تمہارے پاس قیدی کی طرح نہیں ہیں۔ اور تم ان پر اس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتے کہ ان سے صحبت کرو۔ البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، تو انہیں اپنے بستر سے الگ کردو۔ اور اُن کی معمولی پٹائی کرو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو انہیں تکلیف پہنچانے کے راستے تلاش نہ کرو۔ جان لو: کہ تمہارا تمہاری بیویوں پر اور اُن کا تم پر حق ہے۔تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو بلکہ ایسے لوگوں کو گھر میں بھی داخل نہ ہونے دیں، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں بہترین کھانا اور بہترین لباس دو۔ ترمذی ۔مجھے آپ سے اتفاق ہے اور یہ مراسلہ لکھتے وقت بھی ذہن میں وہ بات اپنی جگہ تھی کہ اتنا ظلم مرد نے عورت پر شاید نہیں کیا جتنا خود عورت نے عورت پر کیا. کسی نا کسی روپ، کسی نا کسی کہانی میں اور گھریلو سیاست اور لڑائیوں میں بھی شاید کوئی عورت پٹتی ہے تو کوئی عورت کمینگی سے دل ہی دل میں مسکراتی ہو یا کہیں نا کہیں محرکات میں بھی ہو....
میرا تبصرہ اس کہانی سے متعلقہ تھا اور پھر اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ عورت مرد کو پیٹے تو یہ ایک لطیفہ ہے اور شاید اب زیادہ رواج پکڑا ہے. نصف صدی پہلے کی ہی فضا شاید اور ہوتی اور سب جانتے ہیں کہ اس پر سنجیدگی سے عمل کتنے کم مواقع پر ہوتا ہے جبکہ مردوں کی جانب سے عورتوں کی ہڈی پسلی ایک کرنے کا رواج پتا نہیں کتنا قدیم ہے کبھی دنیا بھر کی فرسٹریشن اپنی عورت پر نکالنے کے لیے، کبھی اسے اوقات میں رکھنے کے لیے اور کبھی خدا جانے کس کس وجہ سے.
بعض شرائط کے ساتھ ہی سہی لیکن مارنے کی اجازت ہےحجۃ الوداع کے موقعہ پر حضور اکرم ﷺ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد وعظ ونصیحت فرمائی: خبردار! میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں، اس لئے کہ وہ تمہاری نگرانی اور سرپرستی میں ہیں لیکن تمہارے پاس قیدی کی طرح نہیں ہیں۔ اور تم ان پر اس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتے کہ ان سے صحبت کرو۔ البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، تو انہیں اپنے بستر سے الگ کردو۔ اور اُن کی معمولی پٹائی کرو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو انہیں تکلیف پہنچانے کے راستے تلاش نہ کرو۔ جان لو: کہ تمہارا تمہاری بیویوں پر اور اُن کا تم پر حق ہے۔تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو بلکہ ایسے لوگوں کو گھر میں بھی داخل نہ ہونے دیں، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں بہترین کھانا اور بہترین لباس دو۔ ترمذی ۔
پھینٹی پر اتنے اصرار کی کوئی خاص وجہ؟بعض شرائط کے ساتھ ہی سہی لیکن مارنے کی اجازت ہے
نہ تو میں مارتا ہوں اور نہ اس کے حق میں ہوں۔پھینٹی پر اتنے اصرار کی کوئی خاص وجہ؟
وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، تو انہیں اپنے بستر سے الگ کردو۔ اور اُن کی معمولی پٹائی کرو۔بعض شرائط کے ساتھ ہی سہی لیکن مارنے کی اجازت ہے