آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیامحو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں اچھے بھی اور برے بھی ۔ کچھ لوگوں کی ساری زندگی اپنے جوڑے سے نہیں بنتی اور کبھی حالات بھی ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں علیحدگی بھی نہیں ہو پاتی ساری عمر یونہی ساتھ رہ کر لڑتے جھگڑتے تکلیف میں گزر جاتی ہے ۔میرے خیال میں باپ نے اس کی ساکھ اور رعب داب دیکهہ کر اپنی بیٹی اس کے حوالے کی یہاں بیٹی کی سوچ پڑها ہوتا اٹهتی بهیٹتی پسندیدگی اور مشغلے اس کی فطرت اس کہانی میں ضروری نہیں سارے کردار عورت کے کمزور ہو مرد بهی کمزوری رکهتے ہیں
یہ حوصلہ عورت کی فطرت طے کرتا ہے وہ پہلی مار سے حوصلہ ہار بهیٹی اگر بغاوت کرتی اب بغاوت کئ طرح کے ہوسکتے ہیں یا ان مار کی وجوہات کا جواب دلائل سے دیتی اسے اپنی مردانگی اسی کی نگاہ سے دیتی تو نوبت نہ آتی اعتدال نہیں رکهی اس نے
یہی ہے فرق کہہ رشتہ اونچے خاندان سے کرو یا اس میں دو تو سوچ میں فرق ہوتا ہے
وجوہات بہت سارے ہیں ہاں بچوں کی غلطی پر سختی سے تنبیہ اور تهوڑی بہت مار جائز سمجهتے ہیں
مار کھانے کے بعد کیا دلائل؟میرے خیال میں باپ نے اس کی ساکھ اور رعب داب دیکهہ کر اپنی بیٹی اس کے حوالے کی یہاں بیٹی کی سوچ پڑها ہوتا اٹهتی بهیٹتی پسندیدگی اور مشغلے اس کی فطرت اس کہانی میں ضروری نہیں سارے کردار عورت کے کمزور ہو مرد بهی کمزوری رکهتے ہیں
یہ حوصلہ عورت کی فطرت طے کرتا ہے وہ پہلی مار سے حوصلہ ہار بهیٹی اگر بغاوت کرتی اب بغاوت کئ طرح کے ہوسکتے ہیں یا ان مار کی وجوہات کا جواب دلائل سے دیتی اسے اپنی مردانگی اسی کی نگاہ سے دیتی تو نوبت نہ آتی اعتدال نہیں رکهی اس نے
یہی ہے فرق کہہ رشتہ اونچے خاندان سے کرو یا اس میں دو تو سوچ میں فرق ہوتا ہے
وجوہات بہت سارے ہیں ہاں بچوں کی غلطی پر سختی سے تنبیہ اور تهوڑی بہت مار جائز سمجهتے ہیں
یعنی apologia کی بجائے loud and proudنہ تو میں مارتا ہوں اور نہ اس کے حق میں ہوں۔
رہی بات اصرار کی تو وجہ یہ ہے کہ جو لکھا ہے قرآن و حدیث میں اسکے کی غلط توجیحات دی جارہی ہیں۔ مارنا جائز ہے اسلام میں تو ہے۔ اس میں بحث کیا ہے۔
جو دلائل قرآن و حدیث سے اس کے خلاف دیئے گئے ان میں بھی مارنے کی اجازت دی ہے بعض شرائط کے ساتھ۔
میرے خیال میں اس پر علماء کو defensive ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
میرے خیال میں اسلام جب تک آدھا پونا نافذ ہوگا تب تک بہت سارے احکامات ظلم دکھائی دیں گے اور انہیں ہضم کرنا مشکل ہوگا. جب سماجی انصاف، تعلیم و تربیت، قانون کا نفاذ اور لوگوں کا مزاج ایک ہی سسٹم (چاہے وہ اسلامی ہو یا کوئی اور) کے مطابق ہونگے تب ہم ان کو صحیح سے analyse کر سکیں گےیعنی apologia کی بجائے loud and proud
مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسا ہاتھ ہی توڑ دیا جائے. درجن بھر ہاتھ ٹوٹ جائیں گے تو شاید ان کو غیرت آ جائے ورنہ یہ تو صدیوں سے روز مرہ کا معمول ہے مردوں کا. کسی نہ کسی خطے میں روز یا شاید ہر وقت کوئی نہ کوئی عورت تو شوہر کے ہاتھوں پٹتی ہو گی.