فی الوقت ممکنا ترجمے یہ ہو سکتے ہیں۔مزید جاری ہے اسی مراسلے میں اپ ڈیٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں
اُٹھ شاہ حُسینا ویکھ لے اسّی بدلی بیٹھے بھیس
ساھڈی جِند نمانی کُوکدی اسی رُلّ گئے وِچّ پردیس
جِند نمانی : خستہ حال جان یا زندگی
شاہ حسین اٹھ کر دیکھیے کہ ہم نے بہروپ بھرا ہوا ہے
ہماری شکست و ریخت زدہ زندگی نوحہ کناں ہے کہ ہم پردیس میں خوار ہورہے ہیں
ساھڈا ہر دم جی کُرلاوندا ، ساھڈی نِیر وگاوے اَکّھ
اساں جیوندی جاندے مر گئے، ساھڈا مادھو ہویا اوکھ
کُرلاوندا : گریہ زاری کرنا
نِیر وگاوے : آنسو بہائے
مادھو ہویا وکھ : مادھو جدا ہوا
ہمارا دل تڑپ رہا ہے اور ہماری آنکھ سے آنسو جاری ہیں
ہم جیتے جی مر چکے ہیں اور کہ ہمارا مادھو ہم سے جدا ہو گیا
سانوں سپّ سمے دا ڈنّگدا ، سانوں پَل پَل چڑھدا زہر
ساھڈے اندر بیلے خوف دے ، ساھڈے جنگل بن گئے شہر
سمے: وقت
ہمیں وقت کے سانپ نے ڈس لیا ہے اور زہر لمحہ بہ لمحہ اثر کر رہا ہے
ہمارے اندر خوف کے دشت ہیں اور ہمارے جنگل شہر کا روپ دھار چکے ہیں
اساں شوہ غماں وِچ ڈُبدے، ساھڈی رُڑھ گئی نائو پتوار
ساھڈے بولنّ تے پابندیاں ، ساھڈے سر لٹکے تلوار
شوہ: دریا
پتوار: کشتی کے چپو
ہم غم کے دریا میں ڈوب رہے ہیں اور ہماری کشی اور چپو بہہ گئے ہیں
ہماری نطق پہ تالے ہیں اور ہمارے سروں پر تلوار لٹک رہی ہے
اساں نیناں دے کھوہ گِیڑ کے کِیتی وتّر دل دی پَئوں
ایہھ بنجر رھئی نماننڑی ، سانوں سجّن تیری سَونھ
کھوہ گِیڑ : کنوے سے پانی نکالنا
نمانڑی: خستہ و شکستہ
ہم نے آنکھوں کے کنوؤں سے پانی نکال نکال کر دل کی زمین کو تر کر دیا ہے
مگر پھر بھی یہبدقسمت بنجر رہی ، اے ساجن تمھاری قسم
اساں اُتوں شانت جاپدے، ساھڈے اندر لگی جنگ
سانوں چُپ چپیتا ویکھ کے ، پئے اکھن لوک ملنگ
ہم ظاہری طور پر پرسکون ہیں مگر ہمارے باطن میں جنگ لگی ہوئی ہے
ہمیں خاموش دیکھ کر لوگوں نے ہمیں ملنگ کہنا شروع کردیا ہے
اساں کُھبے غم دے کُھبڑے ، ساڈے لمے ہو گئے کیس
پا تانے بانے سوچدے، اساں بُندے ریندے کھیس
کُھبڑے : گھائی
کیس: بال
ہم غم کی کھائی میں گر چکے ہیں اور بال لمبے ہو چکے ہیں
کہ ہم اس کا تانہ بانہ سوچ کر چادریں بننے لگے ہیں
ہُن چھیتی دوڑیں بُھلیا ، ساھڈی سولی ٹنگی جان
تینوں واسطہ شاہ عنائت دا ، نہ توڑیں ساھڈا مان
اب جلدی آو بھلیا ہماری جان سولی پر ہے
آپ کو شاہ عنایت کا واسطہ کہ ہماری بات رکھ لیجیو
اساں پیریں پا لئے کُنگھرو ، ساڈی پاوے جِند دھمال
ساھڈی جان لباں تے اپّڑی ، ہُن چھیتی مُکھ وکھال
ہم نے پاؤں میں گنگھرو باندھ لیے ہیں اور ہم دھمال ڈال رہے ہیں
ہماری جان لبوں پر آئی ہوئی ہے اب جلدی سے مکھڑا دکھا دو
ساھڈے سر تے سورج ہاڑھ دا ، ساھڈے اندر سیت سیال
بن چھاں ہُن چیتر رُکھ دی ، ساھڈے اندر پانبڑ بال
ہاڑھ دا :ایک گرم مہینے کا نام
سیت سیال : سفیدی یا اجالا جاری کیے ہوئے
چیتر رکھ: چیتر کا درخت
پانبڑ بال : الاؤ دھکانا
ہمارے سر پر سورج ہمیں سلگا رہا ہے اور ہمارے اندر اجالے جاری ہیں
چتیر کے درخت کی چھاؤں بن کر ہمارے اندر آلاؤ دھکاؤ
اساں مچ مچایا عشق دا ، ساھڈا لوسیا اِک اِک لُوں
اساں خُود نوں بُھلّے سانولا، اساں ہر دم جپّیا توں
لوسیا: جل گیا
لوں: رُواں، باریک بال
ہم نے عشق کی آگ لگا رکھی ہے اور ہمارا رُواں رُواں جل گیا ہے
اے پیارے ہم خود کو بھول چکے ہیں اور تمھارے نام کی ہر دم تسبیح کرتے ہیں
ساھنوں چِنتا چِیخا چڑاھون دی، ساھڈے تِڑکن لَگے ھَڈّ
پَھڑ لیکھاں برچھی دُکھ دی ساھڈے سینے دیتی کَڈ
چِنتا: فکر
چیخا :
تِڑکن: ٹوٹنا
ہمیں نامعلوم فکر ہے اور ہماری ہڈیاں ٹوٹنے لگی ہیں
اور قسمت نے غموں کی تلوار ہمارے سینے میں پیوست کردی ہے
اساں تُر تُوں دُکھڑے چاھگدے ساھڈے لکھیں لِکھیا سوگ
ساڈھی واٹ لمیری دُکھ دی،ساھڈے عُمروں لمے روگ
تُر تُوں : تجھ سے
چاھگدے: اجتناب کرنا، بچنے کی خواہش
واٹ :
اے دکھ ہم تجھ سے گبھراتے ہیں اور تم ہمارے مقدر میں لکھ دیے گئے ہو
ہماری زندگی دکھوں بھری ہے اور ہماری عم سے لمبے ہمارے غم ہیں
ساڈھے ویھڑے پھوھڑی دُکھ دی،ساھڈا رو رو چویا نور
ایہہ اوکڑ ساھڈی ٹال دے، تیرا جیوے شھر قصور
ویھڑے پھوھڑی : صحن میں میت
رو رو چویا نور: رو کر بینائی چلی گئی
اوکڑ :
ہمارے صحن میں غم کی میت پڑی ہے اور رو ور کر ہماری آنکھیں بے نور ہو چکیں
ہماری یہ پریشانی کو رفع کردے تمھارے شہر قصور کا بھی بھلا ہو
آ ویکھ سُخن دیا وارثا،تیرے جنڈیالے دی خیر
اَج پُتر بولی ماں دے پئے ماں نال رکھن وَیر
اے شاعری کے وارث آ کر دیکھو کہ تمھارا پرچم سلامت رہے
معصوم ماں کے اپنے ہی بیٹے آج اس کے دشمن بن گئے ہیں
اَج ھیر تیری پئی سھکدی، اَج قَیدو چڑھیا رنگ
اَج تخت ھزارے ڈھیھہ گئے،اَج اُجڑیا تیرا چَنگ
تمھاری ھیر غم سے دبلی ہو چلی پر اس کے دشمن پھل پھول رہے ہیں
آج ہزارہ کے تخت شکست پا چکے اور تمھارا جھنگ شہر ویران ہو چکا ہے
اَج بِیلے ہو گئے سونجڑے، اَج سُکیا ویکھ چنا
اَج پِھرن آذُردہ رانجھڑے، اَج کھیڑے کر دے چاء
سُکیا ویکھ چنا: چناب کو خشک ہوا دیکھو
کھیڑا: رانجے کا رقیب
چا: تمنا
آج بیلے ویران ہیں اور دریائے چناب خشک ہے
آج رانجھے دل شکستہ گھوم رہے ہیں اور رقیب اپنے ارمان نکال رہے ہیں
اَج ٹُٹی ونجلی پریت دی، اَج مُکے سُکھ دے گِیت
بَن جوگی دَر دَر ٹولیا، ساھنوں کوئی نہ مِلیا مِیت
ٹولیا : ٹٹول لیا ، دیکھ لیا ، پھر لیا، گھوم لیا
آج پیار کی بانسری ٹوٹ گئی اور راحت کے نغمے ختم ہو گئے
جوگی بن کر ہر جگہ دیکھ لی مگر ہم کو ہمارا ساجن کہیں نہ مل سکا
اساں اکھرموتی رول دے اساں در در لاندے واج
کوئی لبھے ھِیر سیالڑی جیھڑی رنگے اپنا تاج
رول دے : خوار کرتے ہیں، رسوا کرتے ہیں
ھیر: رانجے کی محبوبہ
سیالڑی:
ہم نے انمول ہیرے خوار کر دیے اور ہم نے ہر جگہ پکار کے دیکھ لیا
کوئی ھیر ہم کو مل جائے جو ہمارے تاج کا موتی بن جائے
ساھڈے ہتھ پیالا زہر دا اساں ویلے دے سُقراط
اساں کَھنڈ بنادے کھار نوں ساڈھی جگ توں وکھری بات
ہم وقت کے سقراط ہیں اور ہمارے ہاتھ میں زہر کا پیالہ ہے
ہم نمک کو چینی بنا دیتے ہیں اور ہم ساری دنیا سے نرالے ہیں
اُٹھ جاگ فریدا سُتّیا ھُن کر کوئی تدبیر
جِند ہِجر کریرے پَھس کے اَج ہو گئی لیرو لِیر
لیرو لِیر : ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا
اے سوئے ہوئے فرید اب جاگو اور کوئی تدبیر کرو
زندگی ہجر کے خاردار تاروں میں پھنس کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ہے
ساھنوں جوبن رُتے ویکھ کے سَبھ آکھن بابا لوگ
کِس کھویا ساھڈا جوبنا ساھنوں لگا کیھا روگ
جوبن رُتے: جوانی کے دنوں میں
ہمیں عالمِ شباب میں ہی سب لوگ بوڑھا کہنے لگے
کس نے ہماری جوانی چھین لی اور یہ کیسا روگ ہم آ لگا
اساں پیڑاں دا وَنجھ پالیا ساھنوں دُکھاں چاھڑی پان
ساھنوں غم دا پینجا پِنجدا ساڈھے تُنبے اُڈدے جان
وَنجھ : فصل
چاھڑی پان : لڑی پروان چڑھائی
ا پینجا پِنجدا :چکی میں پیسنا
ہم نے غموں کی کھیتی پیدا کی ہے اور غم نے کی بیل پر لٹک رہے ہیں
ان غموں کی چکی نے پیس کر رکھ دیا ہے کہ ہم ریزہ ریزہ ہو رہے ہیں
اساں بِیجے رُکھ انار دے ساھنوں لبھے تُمے کَوڑ
اساں مرن دیھاڑے اُڈیکدے ساھڈی وَدّدی جاوے سَوڑ
بِیجے رُکھ : درخت بھجوائے
تمے کوڑ : کوڑا پھل
دیھاڑے اُڈیکدے : دن کے منتظر
سوڑ: شاید عُمر
ہم نے انار کے درخت لگائے پر ہمیں پھل کڑوے تمے کا ملا
ہم موت کی خواہش کرتے ہیں تو ہماری ہم اور طویل ہو جاتی ہے
ساھڈے سِر تے رُکھ بلور دے ساھڈی تُپوں گھیری چھاں
ساھڈے تَنبو ساڑھے سورجے ساھڈی لُوسے دھرتی ماں
رُکھ: درخت
تُپوں گھیری : دھوپ ذرہ
تَنبو: شامیانہ
لُوسے دھرتی ماں : زمین جل رہی ہے
ہمارے سروں پر شیشے کے درخت ہیں اور ہماری چھاؤں تو دھوپ سے بھی زیادہ ظالم ہے
اور سورج نے ہمارے شامیانے جلا دیے ہیں اور ہماری زمین جل رہی ہے
ساھڈی اُجڑی حالت ویکھ کے پا رحمت دی اِک چات
ساھڈے سر توں اَنھی رات نوں ھُن کر سائیاں شبرات
چات:نظر
ہماری بربادی پر ایک نظرِ کرم فرمائے
اور اس اندھیری رات کو ہٹا کر مرادوں والی رات بنا دیجیے
ھُن آ باھو سُلطانیا ساھنوں درداں لیا لتاڑ
اَج توڑ زنجیری دُکھ دی اَج ھو دا نعرہ مار
لٹاڑ: تباہ کر دیا
اے سلطان باہو اب آ جاو کے ہم کو مصائب و آلام نے توڑ کر رکھ دیا ہے
اس تکلیف کی زنجیر کو توڑ کر اللہ ہو کا نعرہ بلند کرو
ساھنوں الف بنا دے پیاریا ساھڈی مُک جائے بے دی لُوڑ
مَن مُشّکے بوٹی عشق دی سب نِکلے دل دی کوڑ
ہمیں یک جان کردے اے پیارے کہ ہم دوسری کوئی تمنا ہی نہ کر سکیں
ہمارے دل عشق کی خوشبو سے معطر کردے اور ساری کڑواہٹ کو نکال دے
ایتھے تِڑ دے سب ایمان تے ایتھے اُڈدی عشق دی تُوڑ
جو عشق سلامت منگدا پھڑ اُس نوں لیندے نُوڑ
تِڑ دے: اکڑنا
تُوڑ: گرد خاک
یہاں سب کو اپنے ایمان کا زعم ہے ااور یہاں عشق کی خاک اڑھ رہی ہے
جس کو عشق سلامت چاہیے اس کو ظالم پکڑ لیتے ہیں
ساھڈا تالو جاوے سُکدا ساھڈی ودھدی جاوے پیاس
بن بدل ساون ماہ دا ساھڈی پوری کر دے آس
ہمارا حلق خشک ہو رہا ہے اور ہماری تشنگی بڑھ رہی ہے
ساون کے مہینے کا بادل بن کر ہماری تمنا پوری کر دو
اساں اپنی قبرے آپ ہی لئے لَھو دے دیوے بال
اساں بے بُریاں دے شھر وِچ ایھہ کیتا نواں کمال
لَھو دے دیوے بال: لہو سے چراخ جلانا
بے بُریاں: جو بُرے نہ ہوں مراد نیکوکار پارسا
ہم نے اپنی قبر پر اپنے لہو سے چراغ جلا لیا ہے
ہم نے پارساؤں کے شہر میں یہ انوکھا کام کیا ہے
سائیں دمڑی شاہ دیا پیاریا تیرا جیوے سیف ملوک
ساھڈے دیدے ترسن دید نوں ساھڈے دل چوں اُٹھدی ھوک
اے سائیں دمڑی شاہ کے پیارے تمھارے علاقہ سیف ملوک آباد رہے
ہمارے دل سے آہ نکل رہی ہے اور ہماری آنکھیں دیدار کو ترس رہی ہیں
ساھنوں گُڑھتی دیدے سُخن دی ساھڈی کر دے صاف زبان
ساھنوں بُکّل وِچ لپیٹ کے ھُن بخشو عِلم گیان
گُڑھتی : گھٹی مراد نومولو بچے کی پہلی غذا
بُکّل : چادر یا دامن
ہمیں سخن کی گھٹی دے کر ہماری زبان کو صاف کر دے
اپنے علم کی چادر میں لپیٹ کر ہمیں علم تعلیم کر دیجیے
اساں راتیں اُٹھ اُٹھ پِٹدے ساھڈے کالجے پئے گئی سوج
اساں چَھم چَھم روندے پیاریا ساھنوں ھر دم تیری کھوج
پِٹدے: ماتم کرتے
کالجے: کلیجے میں
رات دن ماتم کر کے ہمارے کلیجے سوج چکے ہیں
ہم زار و قطار روتے ہیں تمھاری تلاش میں
اساں موھرا پِیتا سچ دا ساھڈے نِیلے ہو گئے بُل
اساں رہ گئے کلّم کلّڑے ساھڈا ویری ہویا کُل
موھرا پِیتا: زہر پیا
بل: لب
کلّم کلّڑے : تن تنہا
ویری ہویا: دشمن ہوا
کُل: ساری دنیا یا سب لوگ
ہم نے سچ کا زہر پی اپنے لب نیلےکر لیے ہیں
ہم تن تنہا رہ گئے اور سارا عالم ہمارا دشمن ہو گیا ہے
ساھڈے نَینِیں نِیندر رُس کے جا پُہنچے کیھڑے دیس
ھر راتیں چَھویاں مار دے ساھنوں لیھف سرھانے کھیس
نَینِیں نِیندر رُس کے : آنکھوں سے نیند روٹھ کر
نیند ہماری آنکھوں سے روٹھ کر کس دیس پہنچ گئی
ہمارا بستر ہر رات ہمیں کاٹتا ہے
آ کوٹ مِٹھن دیا والیا لے جبدے ساھڈی سار
ھِک تِکھڑا نین نکِیلڑا ساھڈے دل تِھیں ہویا پار
جبدے:
سار: مثل ، جیسا
تِکھڑا نین نکِیلڑا : تیکھی نوکدار آنکھ
تِھیں: میں
کوٹ مٹھن کے والی ہماری طرح ۔۔۔۔۔َ؟
ایک تیکھا نوکیلا نین ہمارے سینے کے پار ہوگیا
ساھنوں چڑھیا تَیھا ہِجر دا ساھڈا کر لے کوئی توڑ
ساھنوں بِرھن جوکاں لگیاں ساھڈا لِتا لہو نچوڑ
تَیھا : فسوں
جوکاں: خون چوسنے والی جوک کی جمع
ہم ہجر کے فسوں زدہ ہیں اس کا مداوا کرو
جوکوں نے چمٹ کر ہمارا خون نچوڑ لیا
اساں اپنے ہی گل لگ کے نِت پائیے سو سو وَیں
ساھڈی یا قسمت نوں چِمڑی اِک پُکھاں ماری ڈین
سو سو وَین: نوحہ کناں ہونا
ڈین: بلا ، ویمپائر
ہم اپنے گلے سے لگ کر ہی ماتم کر رہے ہیں
ایک بھوکی بلا ہماری قسمت کو گھیرے ہوئے ہے
ایھنوں کِیلے منتر پھوک کے ایھنوں کڈھو دیسوں دور
ایہہ پِچھل پیری اوتری ایتھے بن بن بیٹھے حور
کِیلے منتر : جادو ٹونا
اوتری: جس کے آگے پیچھے کوئی (نسل) نہ ہو
اسے پر جادو ٹونہ کرکے اس کو دیس سے دور نکال دو
یہ چڑیل یہاں حور بنی ہوئی ہے
اَج پئے گیا کال پریت دا اَج نفرت کیتا زور
کر تتّا لوگڑپریم دا ساھڈے جُسے کرو ٹکور
لوگڑ: چوٹ پر گرمائش پہچانے کے لیے جو کپڑے کا یا کسی چیز کا گٹھا سا بنا کر لگایا جاتا ہے
جُسے: جسم پر
ٹکور : گرمائش پہنچانا
آج محبت کا قحط پڑ گیا ہے اور اور نفرت کا راج ہے
محبت کے گرم مرہم سے ہمارے جسم کو کچھ آرام دو
ساھڈی سوچ نوں پیندیاں دندلاں ساھڈے چل چل ھف گئے ساہ
نِت پھندے بُن بُن سُخن دے اساں خُود نوں دیندے پھاہ
پیندیاں : پڑتی ہیں
ھف گئے ساہ: سانس اکھڑ گئی
پھاہ: پھانسی
ہماری سوچ سکتے میں ہے ہماری سانس اکھڑ چکی ہے
شاعری کے نئے نئے پھندے بنا کر ہم خود کو سولی چڑھا رہے ہیں
ساھنوں ویلا پَچھ لگاوندا اُتے کڑھیاں پاون لُون
دن راتاں مَچھ مریلڑے ساھنوں غم دی دلدل تُونھن
پَچھ لگاوندا: زخم لگانا
لون: نمک
مَچھ مریلڑے: مگرمچھ
تونھن: دھنسانا
وقت ہمیں زخم لگا رہا ہے اور اس پر نمک چھڑکا جا رہے ہے
دن رات ہمیں مگر مچھ غم کی دلدل میں کھینچ رہے ہیں
ساھنوں لڑدے ٹھونھے یاد دے ساھڈا جُسا نِیل و نِیل
ساھنوں کُوھڑے کُوھڑا آکھ دے کیہہ دیئے اساں دلیل
ٹھونھے: بچھو
ا جُسا نِیل و نِیل: جسم زخموں سے چور
کُوھڑے کُوھڑا آکھ دے: جہلا ہی ہمیں جاہل کہتے ہیں
یاد کے بچھو ہمیں کاٹ رہے ہیں اور ہمارا بدن زہر زہر ہورہا ہے
ہمیں جہلا جاہل کہہ رہے ہیں اور اس پر ہم کسی کو کیا دلیل دیں
آ تلونڈی دے بادشاہ گرو نانک جی مھاراج
توں لاڈلا بولی ماں دا تیری جگ تے رھنی واج
تلونڈی کے باشاہ گرو نانک جی مہاراج تشریف لائے
تم اس مادری زبان کے پیارے ہو اور تمھارا نام گونجتا رہے گا
لے فیض فرید کبیر توں کیتا اُلفت دا پرچار
توں نفرت دے وِچ ڈُبدے کئی بیڑے کیتے پار
فرید بابا سے فیضیاب ہو کر محبت کا درس دیا
اور نفرت میں غرق کئی بیڑے پار کر دیے
تُوں مان وداھیا پُرش دا تُوں ونڈیا اَت پیار
پا سچ دی چھاننی پاپ چوں تُوں لِتا پُن نتار
پُرش: آدمی
اَت: بے انتہا
پا سچ دی چھاننی پاپ چوں تُوں لِتا پُن نتار: سچ کی چھلنی سے گناہ کا پانی علیحدہ کر کے ثواب ابھار لیا
آپ نے انسانوں کو عزت دی اور بے انتہا پیار بانٹآ
سچ کی چھلنی کو گناہوں میں ڈال کر سارے گناہ علیحدہ کر کے نیکیاں ابھار لیں
تیرا وسے گُرو دوالڑا تیرا اُچا ھووے ناں
دِن راتیں سِیساں دیوندی تینوں نانک بولی ماں
سِیساں: دعائیں
تمھارا پیر آباد رہے اور تمھارا نام و مرتبہ بلند ہو
گرو نانک تم کو دن رات مادری زباں دعائیں دیتی ہے
اے شِو کمارا پیاریا منگ ماں بولی دی خیر
اساں ٹُر پئے تیری راہ تے اساں نپّی تیری پَیڑ
شِو کمار: نام ہے
منگ: مانگو
پَیڑ: کھوج
اے شو کمار پیارے مادری زبان کی خیر مانگو
ہم تمھارے نقشِ قدم پر چل دیے اور تمھیں تلاش کرلیا
تُوں چھوٹی عُمرے پیاریا کیتا عمروں وَدھ کمال
تُوں ماں بولی دا بوٹڑا لیا لہو اپنے نال پال
بوٹڑا: پودا
پال: پرورش کرنا
کمسنی میں کمال کردیا تم نے
تم مادری زبان کے وہ پودے ہو جسے اپنے خون سے سینچا ہے
توں پُنھے پِیر پراگڑے توں پیتی گھول رسوئنت
تیرا لِکھیا گاہ نہ کڈھدے کئی سُر دے شاہ کلونت
پا چھاپاں چَھلے پینکھڑا لا ٹِکا نَتھ پازیب
تُوں ورت کے لفظ انوکھڑے بھری ماں بولی دی جیب
پا چھاپاں چَھلے: انگوٹھیاں
لا ٹِکا نَتھ: جھومر، جیولری
ورت: استعمال کرکے
تم نے زیوارت پہن کر
اور نرالے الفاظ استعمال کرکے مادری زبان کی جیب بھر دی
تُساں سب سُچجے سجڑے رل پیش کرو فریاد
رب ماں بولی دا اُجڑیا گھر فیر کرے آباد
آپ سے بزرگ مل کر فریاد کریں
کہ اللہ مادری زبان کا اجڑا ہوا گھر پھر آباد کردے
چل چھڈ ندیمے قادری ھُن کر دے پُر کلام
تُوں سیھوک بولی ماں دا تیرا جگ تے رھنا نام
ندیمے قادری: شاعر کا تخلص ندیم قادری
ندیم قادری اب بس کرو اور اپنا کلام ختم کرو تم مادری زبان کے خدمت گزار ہو تمھارا دنیا پر نام رہے گا