سید عاطف علی
لائبریرین
کچھ دنوں سے ایک دو مصرعے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ انہیں ایک غزل کی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔
جو ہم نہ ہوں تو ہے کس کام کی یہ رعنائی
ڈبو کے چھوڑے گا تم کو یہ زعم یکتائی
اگر چہ کہہ تو دیا تم نے جو میں چاہتا تھا
وہ زیر و بم نہ تھے لیکن شریک گویائی
چراغ ڈستے رہے میری تیرہ راتوں کو
سحر نہ بن سکی تریاق زہر تنہائی
جو لفظ قید ہیں تیرے لبوں کی بندش میں
اگر وہ سچ ہیں تو کیوں ہے یہ خوف رسوائی
ادھر میں روح کی جراحیوں میں ہوں مشغول
وہ انجمن میں ادھر محو جلوہ آرائی
تڑپ کے شب دل مضطر سے اک صدا جو اٹھی
وہی شبیہ ستاروں میں بھی ابھر آئی
میں کب کا توڑ چکا شش جہت کی زنجیریں
یہ کس نے میرے لیے، کیسی قید بنوائی
دروغ مصلحت آمیز ہم کو نامنظور
کہ مطمئن ہے جنوں پر ہماری سچائی
کسی طبیب نے اس درد کو نہ پہچانا
یہ کس کے عشق کی عاطف تھی کار فرمائی
------------
سید عاطف علی
15 اکتوبر 2022
ڈبو کے چھوڑے گا تم کو یہ زعم یکتائی
اگر چہ کہہ تو دیا تم نے جو میں چاہتا تھا
وہ زیر و بم نہ تھے لیکن شریک گویائی
چراغ ڈستے رہے میری تیرہ راتوں کو
سحر نہ بن سکی تریاق زہر تنہائی
جو لفظ قید ہیں تیرے لبوں کی بندش میں
اگر وہ سچ ہیں تو کیوں ہے یہ خوف رسوائی
ادھر میں روح کی جراحیوں میں ہوں مشغول
وہ انجمن میں ادھر محو جلوہ آرائی
تڑپ کے شب دل مضطر سے اک صدا جو اٹھی
وہی شبیہ ستاروں میں بھی ابھر آئی
میں کب کا توڑ چکا شش جہت کی زنجیریں
یہ کس نے میرے لیے، کیسی قید بنوائی
دروغ مصلحت آمیز ہم کو نامنظور
کہ مطمئن ہے جنوں پر ہماری سچائی
کسی طبیب نے اس درد کو نہ پہچانا
یہ کس کے عشق کی عاطف تھی کار فرمائی
------------
سید عاطف علی
15 اکتوبر 2022
آخری تدوین: