ایک تازہ غزل

ایم اے راجا

محفلین
اجالا تو کیا پر دیا ہی نہیں ہے
غریبوں کے گھر کچھ رہا ہی نہیں ہے

یہ بچے جو ہیں بر ہنہ، پوچھتے ہیں
ہمارا یہاں کیا خدا ہی نہیں ہے ؟

نظر بہ نظر تشنگی کے ہیں سائے
تمنا کا دریا بہا ہی نہیں ہے

میں چھینوں اسے کیا زمانے سے یارو
مرے ساتھ اس کی رضا ہی نہیں ہے

جو مقبول ہوتی سرِ عرش راجا
لبوں پر رہی وہ دعا ہی نہیں ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
راجا بھائی بہت خوب مجھے یہ شعر بہت اچھا لگا
یہ بچے جو ہیں بر ہنہ، پوچھتے ہیں
ہمارا یہاں کیا خدا ہی نہیں ہے ؟
بہت خوب
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بھولا نہیں تھا۔ آج ہی اس کو لے کر بیٹھا تھا۔ در اصل بقول مصحفی۔ اس میں تو بہت کام رفو کا نکلا
اجالا تو کیا پر دیا ہی نہیں ہے
غریبوں کے گھر کچھ رہا ہی نہیں ہے

//
راجا، ایک تو یہ کہ پوری غزل میں ردیف اگر "ہی نہیں ہے" کی بجائے ’تک نہیں ہے" ہو تو کیسا رہے۔ اس لئے کہ کئی اشعار میں درست محل ’تک‘ ہی ہے، جیسے مطلع ہی دیکھو۔ اس کی تفہیم درست نہیں ہوتی جب تک کہ یوں نہ کہا جائے:
اجالا ہی کیا، اک دیا تک نہیں ہے
غریبوں کے گھر کچھ رہا تک نہیں ہے
//

یہ بچے جو ہیں بر ہنہ، پوچھتے ہیں
ہمارا یہاں کیا خدا ہی نہیں ہے ؟

//
مجھے اکثر اپنے والد کی یاد آتی ہے جو بڑی شدت سے ’برہنہ‘ کا تلفظ اس طرح کرتے تھے کہ ’ہ‘ پر سکون یعنی جزم ہو، حرکت نہ ہو، یعنی بَرہَنہ بر وزن فاعلن غلط ہے، درست فعولن ہے۔ استاد سودا کا شعر دیکھو، کیا کہا ہے ظالم نے:
سمجھ کے رکھیو قدم دشتِ خار میں مجنوں
کہ اس نواح میں سودا برہنہ پا بھی ہے ...
ہمارا ہی شعر ہے جس کی بنیاد پر مجموعے کا نام رکھا ہے
سلگتی ریت کو دو دن میں بھول جائیں نہ ہم
یہ ایک شعر ہے اپنی برہنہ پائی پر
اس لحاظ سے اگر یوں کہیں تو:
برہنہ یہ بچے یہی پوچھتے ہیں
ہمارا یہاں کیا خدا تک نہیں ہے ؟
//

نظر بہ نظر تشنگی کے ہیں سائے
تمنا کا دریا بہا ہی نہیں ہے

//
یہاں" بہ‘ کا تلفظ ’با‘ ہو رہا ہے جو درست نہیں یعنی فعولن فعو نہیں، درست "فعو متفا‘ آتا ہے اگر بحر ایسی ہو تو۔۔۔۔ نظر تا نظر آ سکتا ہے یہاں۔ ۔ یوں بھی نظر تا نظر کر بھی دیا جائے تو اس کا تعلق تشنگی سے کیا ہے، لبوں سے لبوں تک تو تشنگی کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ایک اور یہ بات بھی کہ سائے مثبت معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور منفی معنی میں بھی۔ گھنی دھوپ میں سائے سکون پرور ہوتے ہیں، لیکن رات کے اندھیروں میں جب شاعر نے خوف کا ماحول پیدا کر رکھا ہو تو سائے مہیب لگتے ہیں۔ یہاں تشنگی کے سائے میں ایسی ہیبت نظر نہیں آتی۔ اگر نظر اور سائے ہی استعمال کیا جائے تو ایک یہ صورت ممکن ہے:
نظر تا نظر سائے ہیں تشنگی کے
(غور کرو، "تشنگی کے ہیں سائے" بہتر ہے یا "سائے ہیں تشنگی کے"؟)
دوسری صورت:
لبوں پر جمی ریت ہے تشنگی کی
یا
دہن تا دہن ریت ہے تشنگی کی
سوچو کیا بہتر ہے؟ فرخ، وارث فاتح زہرا وغیرہ بھی اس طرف توجہ دیں۔
//

میں چھینوں اسے کیا زمانے سے یارو
مرے ساتھ اس کی رضا ہی نہیں ہے
اوزان درست ہیں اور کوئی بیان کی ایسی غلطی نہیں۔ ص
//

جو مقبول ہوتی سرِ عرش راجا
لبوں پر رہی وہ دعا ہی نہیں ہے
درست تو ہے، لیکن دوسرے مصرعے میں ’رہی‘ کی بہ نسبت ’مرے‘ زیادہ بہتر نہیں ہوگا؟
یعنی
جو مقبول ہوتی سرِ عرش راجا
لبوں پر مرے وہ دعا ہی/تک نہیں ہے
وارث، ذرا برہنہ پر روشنی ڈالو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ اعجاز صاحب،

حضور کیوں مجھے کافر کرتے ہیں، میری اتنی مجال کہاں کہ آپ کی رائے پر کچھ کہوں لیکن چونکہ آپ نے صدا دی سو میں "برہنہ پا" دوڑا چلا آیا :)

آپ نے بالکل صحیح کہا، برہنہ کا صحیح وزن 'فعولن' ہے یعنی یہ لفظ 'بَ رَہ نہ' ہے، نا کہ 'بَر ہَنہ'۔

ایک شعر سودا کا آپ نے بیان کیا، کیا قیامت کا شعر ہے، واہ واہ، گو اس شعر میں سودا نے برہنہ کی آخری 'ہ' گرائی ہے اور اسے 'فعول' باندھا ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پہلی 'ہ' ساکن باندھی ہے۔

دیگر امثال

فردوسی کا شاہ نامہ سے یہ شعر

تناور یکے لشکری زور مند
برہنہ تن و پوست و بالا بلند

(برہنہ اس میں فعولن کے وزن میں بندھا ہے)

غالب کا یہ شعر

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

(اس شعر میں لفظ 'برہنگی' بر وزن 'مفاعلن' بندھا ہے یعنی 'ہ' ساکن ہے)

ن م راشد کی نظم 'انتقام' کا یہ مصرع

اُس کا چہرہ، اُس کے خدّوخال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس

یہ نظم بحر رمل مخذوف میں ہے (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) اور اس میں بھی برہنہ میں 'ہ' ساکن ہے۔

لیکن

یہ ربط دیکھیئے، اردو لغت کا

http://www.crulp.org/oud/ViewWord.aspx?refid=2152

اس میں انہوں نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ برہنہ کا تلفظ 'بَ رَہ نہ' ہے لیکن ایک تغیر 'بر ہَنہ' بھی دیا ہے۔ لیکن سند میں جو شعر دیا ہے اس میں یہ لفظ 'ہ' ساکن کے ساتھ ہے۔

میرے خیال میں

برہنہ کا صحیح تلفظ اور وزن 'بَ رہَ نہ' اور 'فعولن' ہے۔ فارسی اور اردو شاعری میں یہی مستعمل ہے۔

'بَر ہَنہ' گو بول چال میں مستعمل ہے لیکن غلط العوام ہے اور شاعری میں شاید اسطرح استعمال نہیں ہوتا۔

والسلام
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی بہت شکریہ، اعجاز صاحب بہت شکریہ، شاید میری سمجھ کی غلطی ہے، پروین شاکر کی دو غزلوں میں میں نے برہنہ کو دونوں طرح سے پڑھا تھا، یعنی ایک جگہ فعولن اور ایک جگہ فا علن، میں اس غزل کو ٹھیک کرتا ہوں۔
اعجاز صاحب اگر اس غزل کا ردیف اسی طرح رہے یعنی ' اجالا تو کیا پر دیا ہی نہیں ہے۔ غریبوں کے گھر کچھ رہا ہی نہیں ہے۔ تو کیسا رہے گا، کیوں کہ ردیف تبدیل کرنے سے یعنی" تک نہیں ہے " کچھ شعر مجھے اچھے نہیں لگ رہے، ذرا اظہارِ خیال فرمائیے گا شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
دوسرےاشعار میں تو ’ہی‘ نہیں ہے سے بھی مفہوم واضح ہو جاتا ہے لیکن مطلع تب بھی گنجلک رہ جاتا ہے۔ یوں ’ہی نہیں ہے‘ ردیف بھی یوں ہی رکھی جا سکتی ہے،
 
Top