ایک جانب چاندنی - احمد فواد

سندباد

لائبریرین

جو بھی پیتا ہے پھر نہیں اٹھتا
موت اس جام میں بھرا کیا ہے

ہر طرف بے خودی سی طاری ہے
تیری آنکھوں میں یہ نشہ کیا ہے

ایسے پھرتی ہے پاگلوں کی طرح
تجھ کو بادِ صبا ہوا کیا ہے

سب کھلونے ہیں ٹوٹ جائیں گے
شاہ کیا چیز ہے گدا کیا ہے

رات دن کیوں ہے ایک چکّر میں
تجھ کو تکلیف اے ہوا کیا ہے

کون رکھتا ہے پھول میں خوشبو
یہ ستاروں کا قافلہ کیا ہے

کیوں زمانہ ہے ایک گردش میں
رات دن کا یہ سلسلہ کیا ہے

ہے مکاں سے پَرے مکاں جس کا
اُس کو دنیا میں ڈھونڈتا کیا ہے

کس لئے موت سے گریزاں ہے
زندگی نے تجھے دِیا کیا ہے

آسمانوں کو تکتا رہتا ہوں
آسمانوں سے ماورا کیا ہے

جی میں آتا ہے جو بھی کر گذرو
یاں روا کیا ہے ناروا کیا ہے

ساری آنکھیں ہیں اس کی آنکھوں میں
ان میں کھو جاؤ سوچتا کیا ہے

کون رس گھولتا ہے کانوں میں
دل کے نزدیک یہ صدا کیا ہے

سب کے ہونٹوں پہ ایک قصّہ ہے
شاعری میں نیا دھرا کیا ہے

پھر کوئی خون ہوگیا دل میں
آنسوؤں میں یہ رنگ سا کیا ہے

اب بھی اُس بے وفا پہ مرتا ہے
اور اس دل کا سانحہ کیا ہے

خاک میں سب کو کیوں ملاتا ہے
ساری مخلوق کی خطا کیا ہے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

خاک کو خاک میں ملا دے گا
اور تُو کیا مجھے سزا دے گا

دل میں پوشیدہ وہ جہنّم ہے
سب زمیں آسماں جلا دے گا

تیرے چہرہ کا رنگ مجھ سے ہے
تو مجھے کس طرح مٹا دے گا

چاہنے والے سارے جھوٹے ہیں
دل بھی اک دن تجھے بُھلا دے گا

تو بھی دنیا میں ہو گیا شامل
اب مجھے کون حوصلہ دے گا

خاک ہو جائیں گے گلاب تمام
سب ستارے کوئی بجھا دے گا

ذرّے ذرّے کا دل ٹٹولا ہے
کوئی سوچا ترا پتہ دے گا

تو کہ ناواقفِ محبت ہے
تو محبت کا کیا صلہ دے گا

تجھ سے آباد ہے یہ ویرانہ
دل ہمیشہ تجھے دعا دے گا

زندگی سخت کام ہے اک دن
سانس لینا تجھے تھکا دے گا

پوری قوّت سے دل اگر رویا
ان ستاروں کے دل ہلا دے گا

دیکھ کر دن نثار ہو جائے
ایسی ہر رات وہ ضیاء دے گا

وہ تو سیلاب ہے محبت کا
خس و خشاک کو بہا دے گا

آؤ اس دل سے دوستی کرلو
تم کو جینے کے گُر سکھا دے گا

نیند سے سب کو جو اٹھاتا ہے
سب کو اک روز وہ سلا دے گا

چھین کر دھوپ کا جلا ملبوس
چاندنی کی نئی ردا دے گا

جن کی آنکھوں میں صبح ہنستی ہے
ایسے پھولوں کے ہار لادے گا

تونے اُس شخص کو بھی مار دیا
اب تجھے کون یاں صدا دے گا

یہ محبت نہیں عبادت ہے
دل تجھے دیوتا بنا دے گا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

آگیا آج وہ زمانہ بھی
کفر ٹھہرا ہے دل لگانا بھی

جس کو ہم آسمان کہتے تھے
پھٹ گیا ہے وہ شامیانہ بھی

دیکھ کر تو یقیں نہیں آتا
بند ہوگا یہ کارخانہ بھی

قیس و فرہاد اٹھ گئے اک دن
ختم ہوگا ترا فسانہ بھی

تجھ سے مل کر اداس ہوتا ہے
ہوگا دل سا کوئی دوانہ بھی

چاہے جانا بھی تجھ کو مشکل ہے
اور مشکل ہے بھول جانا بھی

یوں تو پہلے بھی کونسا گھر تھا
چھن گیا آج وہ ٹھکانہ بھی

ایک پل بھی کہیں قرار نہیں
کیا مصیبت ہے دل لگانابھی

جو بنانے میں اتنا وقت لگا
کیا ضروری ہے وہ مٹانا بھی

جب تعلق نہیں رہا تجھ سے
چھوڑ دے اب یہ آزمانا بھی

کیا کریں اب تو اُس سے ملنے کا
کوئی ملتا نہیں بہانہ بھی

جب صبا ساتھ ساتھ چلتی تھی
آہ کیسا تھا وہ زمانہ بھی

اتنی کم گوئی بھی نہیں اچھی
سُن کے سب کی انہیں سنانا بھی

اب تو ممکن نظر نہیں آتا
دل کو اس راہ سے ہٹانا بھی

چوٹ کھانا تو کوئی بات نہ تھی
لیکن اُس پر یہ مسکرانا بھی

کیا تمہارے لئے ضروری ہے
ساری مخلوق کو ستانا بھی

ٹھیک ہے سب سے دل لگی لیکن
آکے پھر مجھ کو سب بتانا بھی

تیری آنکھوں نے بھی کہا مجھ سے
کچھ طبعیت تھی شاعرانہ بھی

دل بھی کچھ خوش یہاں نہیں رہتا
اٹھ گیا یاں سے آب و دانہ بھی

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

کوئی اس سے یہاں بچا بھی ہے
اس مرض کی کوئی دوا بھی ہے

ان ستاروں میں ان نظاروں میں
دیکھنا اُس کا نقشِ پا بھی ہے

ڈوب کر اُس سے کیا گلہ کرتے
وہ خدا بھی ہے نا خدا بھی ہے

صرف تو ہی یہاں نہیں موجود
کوئی لگتا ہے دوسرا بھی ہے

ایک انساں کے کتنے چہرے ہیں
وہ جو اچھا ہے وہ بُرا بھی ہے

اتنا پاگل نہیں رہا اب دل
سوچتا بھی ہے بولتا بھی ہے

کچھ دنوں سے تو ایسا لگتا ہے
کوئی دل میں تیرے سوا بھی ہے

جس سے روشن ہیں روز و شب میرے
وہ محبت ہی اک سزا بھی ہے

تو جو سرچشمہ ہے مسرت کا
تجھ سے مل کر یہ دل دکھا بھی ہے

صرف یہ نیلا آسمان نہیں
بیچ میں اور فاصلہ بھی ہے

ایک اک لمحہ سب بدلتا ہے
جو پرانا ہے وہ نیا بھی ہے

جس سے ملنے سے دل گریزاں ہے
ہر گھڑی اُس کو ڈھونڈتا بھی ہے

۔۔۔٭٭٭۔۔۔​
 

سندباد

لائبریرین

بس یہی سوچ کر گلہ بھی ہے
آپ نے حالِ دل سنا بھی ہے

ہر طرف ایک آہ و زاری ہے
اس نظر سے کوئی بچا بھی ہے

آپ کو کیا خبر محبت کی
آپ نے دل کبھی دیا بھی ہے

ایک سے دن ہیں ایک سی راتیں
تیری دنیا میں کچھ نیا بھی ہے

اب بھی یہ دل اُسی پہ مرتا ہے
ظلم کی کوئی انتہا بھی ہے

اے ستارو اسی فضا میں کہیں
دل کا ٹوٹا ہوا دیا بھی ہے

آؤ رہ جائیں اُس کی آنکھوں میں
دھوپ بھی ہے یہاں گھٹا بھی ہے

اس تغافل کا کیا سبب ہوگا
جب وہ سب حال جانتا بھی ہے

کچھ تو عادت ہے لڑکھڑانے کی
کچھ تری آنکھ میں نشہ بھی ہے

تیری خاطر جو خود کو ہار آیا
اُس دوانے کا کچھ پتہ بھی ہے

دن کی آنکھیں جو چھین لیتے ہیں
ان میں شامل وہ دلربا بھی ہے

چھوڑو اب جان سے بھی جاؤگے
کیا بچھڑ کر کوئی ملا بھی ہے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

دل تجھے دیکھ دیکھ ڈولے گا
منہ سے اک لفظ بھی نہ بولے گا

دیکھنا یہ حقیر پُر تقصیر
سارے اسرار تیرے کھولے گا

چل بسا رات وہ ستارہ بھی
اب یہ کھڑکی کوئی نہ کھولے گا

خاک پر خاک کچھ اثر ہوگا
چھوڑ موتی کہاں یہ رولے گا

کس کو معلوم تھا کہ خود یہ دل
میری دنیا میں زھر گھولے گا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

شاعری کو دکاں بنا دوں گا
میں تجھے داستاں بنا دوں گا

چاند تارے سمیٹ کر سارے
اک نیا آسماں بنا دوں گا

تیرا چہرہ اتار کر دل میں
خود کو میں جاوداں بنا دوں گا

تو یہاں خوش نہیں تو تیرے لئے
کوئی تازہ جہاں بنا دوں گا

چھیڑ کر نغمۂ محبت پھر
دل کو میں نوجواں بنا دوں گا

شاعری کے لطیف لہجہ سے
پھر تجھے مہرباں بنادوں گا

اپنا دل بانٹ کر ہواؤں میں
سب کو پھر نغمہ خواں بنا دوں گا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

کچھ تو ظالم تری نگہ بھی ہے
دل کو مرنے کا شوق سا بھی ہے

موت اُس قصرِ ناز کی جانب
کیا کوئی اور راستہ بھی ہے

جو تجھے ڈھونڈنے گیا خود سے
اُس بچارے کا کچھ پتہ بھی ہے

ڈوب جا اُس کی گہری آنکھوں میں
اس مرض کی یہی دوا بھی ہے

ہر طرف تجھ کو ڈھونڈتا پھرتا
چاند تاروں کا قافلہ بھی ہے

میں نہیں خاک میں کھلا تنہا
اور پھولوں کا سلسلہ بھی ہے

تجھ کو شاید یقیں نہ آئے مگر
کوئی دل میں ترے سوا بھی ہے

اس کمینی ذلیل دنیا میں
دل کا غنچہ کبھی کھلا بھی ہے

اب فقط دیکھنے کا شوق نہیں
بات کرنے کا حوصلہ بھی ہے

عشق کی سب نئی کتابوں میں
دیکھ اب اپنا تذکرہ بھی ہے

خاک میں اس طرح میں کیوں ملتا
اس میں شامل تری رضا بھی ہے

دیکھتے رہنا رات دن آنکھیں
یہ نظر کے لئے شفا بھی ہے

بس یہی سوچ کر خموش رہے
راہزن ہی تو رہنما بھی ہے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

دل اسی بات پر خفا بھی ہے
آپ سے میں نے سب کہا بھی ہے

آج پھر وہ نظر اٹھی ہوگی
اس لئے درد کچھ سوا بھی ہے

دیکھ کر سب نے موند لیں آنکھیں
کوئی دنیا سے خوش گیا بھی ہے

جانے کیوں اجنبی سا لگتا ہے
وہ جو کم بخت آشنا بھی ہے

توڑ کر دل کہاں پہ جاؤ گے
اس سے اچھی کوئی جگہ بھی ہے

جان سے تو گذر ہی جائیں گے
مشکل اک اور مرحلہ بھی ہے

سخت ناراض ہے یہ دل جس سے
ٹوٹ کر اُس کو چاہتا بھی ہے

تیری شفّاف گہری آنکھوں میں
اک جہاں اس سے ماورا بھی ہے

دل کو تاراج کرنے والے سُن
اس حویلی میں تو رہا بھی ہے

رات دن تجھ کو تکتا رہتا ہوں
اور بندے کی کچھ خطا بھی ہے

سانس لینے کی اس مشقّت میں
تلخ و شیریں سا اک مزہ بھی ہے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

کس نے اس طرح مرے دل کی طرح ڈالی ہے
پہلے دن سے یہ کرایہ کے لئے خالی ہے

اس تغافل سے تو لگتا ہے کہ اب اپنے لئے
کائنات اُس نے کوئی اور بنا ڈالی ہے

تیرے آنے کی تو صورت ہے نہ امید کوئی
بھیج دے کوئی کرن رات بہت کالی ہے

تم تو پاگل ہو چلو جاؤ کہیں اور مرو
نام لینا بھی محبت کا یہاں گالی ہے

آپ مجرم ہیں نہیں اس میں کسی کا بھی قصور
ہم نے خود جان کے یہ دل کی بلا پالی ہے

تجھ کو دیکھے گا نہ سوچے گا نہ اب چاہے گا
آج اِس دل نے کوئی ایسی قسم کھالی ہے

جانے کیا سوچ کے اس پیڑ کو اپنایا تھا
پھول ہیں اس میں نہ پتّے نہ کوئی ڈالی ہے

دل کو ہم سارے زمانہ سے جدا جانتے تھے
اب کھلا ہے کہ یہی سب سے بڑا جعلی ہے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

بجھ گئے ہیں جو دئے جلتے تھے اُن گالوں میں
اب کوئی بھی نہیں آئے گا تری چالوں میں

ایک ہی پَل میں وہ کس طرح زمیں بوس ہوئی
وہ عمارت جو بنائی تھی کئی سالوں میں

کل تو تقدیر ترے ساتھ پھرا کرتی تھی
آج پوچھے گا تجھے کون بُرے حالوں میں

وقت جس نے انہیں بچپن میں لگایا تھا خضاب
کرنے آیا ہے سفیدی بھی ترے بالوں میں

نکتہ سنجی نہیں آواز کی لے دیکھتے ہیں
شاعری آکے کہاں پھنس گئی قوّالوں میں

اپنے ہونے پہ ندامت کا وہ احساس رہا
کٹ گئی عمر جلوسوں میں کچھ ہڑتالوں میں

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

نہیں یہ ذہن تنہا الجھنوں میں
ہے میرا دل بھی مشکل مرحلوں میں

مرا پھولوں سے مطلب پھول وہ ہیں
جو کھلتے ہیں ہمیشہ آئینوں میں

میں اُن اشکوں کا ماتم کررہا ہوں
جو دب کر رہ گئے ہیں قہقہوں میں

نکل کر خود سے تجھ کو ڈھونڈتے ہیں
ہے میرا نام بھی اُن پاگلوں میں

یہ سارے چاند تارے اجنبی ہیں
کوئی اپنا نہیں ان جمگھٹوں میں

نہ جانے کس طرف سے آئے گا وہ
بکھر کر رہ گیا ہوں راستوں مں
سمجھتا ہی نہیں ہے بات کوئی
یہ بھیجا ہے مجھے کن جاہلوں میں

جو تیرے راستہ میں جل رہے ہیں
ہے میرا دل بھی اُن ٹوٹے دیوں میں

جلا کرتے تھے جن سے چاند تارے
وہ چہرے بجھ گئے ہیں مقبروں میں

کہاں ہمراہ دنیا چل رہی تھی
کہاں تنہا کھڑا ہوں منزلوں میں

بہار آکر گلی میں رک گئی ہے
گلاب ایسے کھلے ہیں کھڑکیوں میں

نئے غنچوں کے آؤ گیت گائیں
دھرا کیا ہے پرانی چاہتوں میں

تجھے پاکر بھی آنکھیں جاگتی ہیں
مزہ دیکھا ہے ایسا رتجگوں میں
۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

نظر آیا ہے وہ آکر بنوں میں
جسے ڈھونڈا سدا آبادیوں میں

یہ اب کس کی سواری آرہی ہے
درخت آئے کھڑے ہیں راستوں میں

ستارے کیسی باتیں کر رہے ہیں
یہ کس کا تذکرہ ہے تتلیوں میں

پرندے کس کے نغمے گا رہے ہیں
خموشی کیوں ہے اتنی پتھروں میں

یہ دریا رات دن کیوں چل رہے ہیں
یہ کس نے آگ بانٹی جگنوؤں میں

زمیں کس کو خلا میں ڈھونڈتی ہے
یہ کون آیا کھڑا ہے بادلوں میں

پہاڑوں نے اِنہیں کیا کہہ دیا ہے
یہ کیسا شور اٹھا ہے ندّیوں میں

یہ سارے لفظ کس جانب رواں ہیں
یہ کیا جھگڑا ہے سارے شاعروں میں

ہَوا کس کے لئے یوں دربدر ہے
کھلائے پھول کس نے دلدلوں میں

کھڑی ہے شام کیوں یوں مضمحل سی
سحر کیوں پھر رہی ہے جنگلوں میں

کہاں جاتے ہیں گر کر زرد پتّے
چھڑی ہے بحث یہ کیا بلبلوں میں

سمندر روز و شب کیوں مضطرب ہے
اترتا کون ہے یہ بارشوں میں

صبا کیوں ہر کلی کو چومتی ہے
یہ پاگل پن ہے کیسا پانیوں میں

ہنسی میں گونجتے ہیں کس کے نغمے
جلائے دیپ کس نے آنسوؤں میں

جنوں کو جانے یہ کیا ہوگیا ہے
یہ کیسی بے رخی ہے گلرخوں میں

اجالے کیا ہوئے اُن عارضوں کے
کمی کیسی ہے دل کی وحشتوں میں

گلا کیوں گھٹ رہا ہے خواہشوں کا
یہ سنّاٹا ہے کیسا ولولوں میں

وہ پاس آکر بھی مجھ سے کیوں جدا ہے
یہ دوری کیوں ہے اتنی قربتوں میں

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

نہ اب شعلے بھڑکتے ہیں دلوں میں
نہ وہ شوخی رہی ہے دلبروں میں

بھری ہیں ہوشمندی کی کتابیں
اڑی ہے خاک ایسی میکدوں میں

میں ان لوگوں سے مل کر کیا کروں گا
نہیں لگتا ہے یہ دل محفلوں میں

اکیلا اس لئے میں گھومتا ہوں
وہ آتا ہے ہمیشہ خلوتوں میں

کھلی ہیں ہر طرف وہ درسگاہیں
اضافہ ہو رہا ہے جاہلوں میں

زمیں کا رنگ خاکی ہو گیا ہے
بچاری کب سے ہے ان گردشوں میں

سمندر کے سمندر پی گئے ہیں
یہ کیسی پیاس ہے ان ساحلوں میں

وہ آنکھوں کے پیالے بھول جاؤ
شراب اب بک رہی ہے بوتلوں میں

گلابوں میں وہ چہرہ جھانکتا ہے
چمکتی ہیں وہ آنکھیں بجلیوں میں

اب اس جلتے جہنم سے نکالو
چھپالے مجھ کو اپنے بازوؤں میں

گذر جاتا ہے جو آنکھیں چرائے
وہی رہتا ہے دل کی دھڑکنوں میں

مری ہر سانس جس کے واسطے تھی
کھڑا ہے وہ بھی میرے قاتلوں میں

حریمِ دل ہے قصرِ ناز جس کا
اُسے کیا ڈھونڈتا ہے مسجدوں میں

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

بجھ گئے تیری راہ تکتے ہوئے
آنسوؤں کے کئی ہزار دیئے

وہ جو معصوم بھولا بھالا ہے
اُس نے اس دل پہ کتنے ظلم کئے

خواب میں بھی وہ لڑ کھڑاتا ہے
تیری آنکھوں سے جو شراب پئے

ہو گئے پیشہ ور رفوگر ہم
زندگانی میں اتنے زخم سیئے

تجھ سے ملنے کی کوئی آس نہیں
ہے یہی زندگی تو کون جیئے

یوں تو لاکھوں حسین صورت ہیں
دل دھڑکتا ہےِصرف تیرے لئے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین
جو کبھی کہہ سکا نہ کہنے دے
آج لفظوں سے خون بہنے دے

اب کوئی اور بات کر مجھ سے
یہ فراق و وصال رہنے دے

ایک ہی جیسے رات دن کب تک
کوئی تازہ عذاب سہنے دے

جن کی خوشبو نہ وقت چھین سکے
ایسے کلیوں کے مجھ کو گہنے دے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

لمحہ لمحہ کی آنکھ پرنم ہے
کون کہتا ہے وقت مرہم ہے
موت کے منہ کو خوں لگا ایسا
ہر طرف زندگی کا ماتم ہے
میرا ہر لفظ گونگا بہرا ہے
اس کی ہر اک نگاہ مبہم ہے
پھر کوئی حادثہ ہوا ہوگا
دل کی آواز کتنی مدّھم ہے
شوق کا آج امتحاں ہوگا
دیکھیں کتنا نگاہ میں دم ہے
ٹھیک ہے داستانِ یوسف بھی
میرا محبوب کیا کوئی کم ہے
اس زمیں آسماں کی خیر نہیں
آج اُس کا مزاج برہم ہے
سب دئیی اُس کے سامنے گُل ہیں
کون شعلہ ہے کون شبنم ہے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

اُس پر اس کا اثر تو کیا ہوگا
دیکھ کر اور خوش ہُوا ہوگا

کیسے اس بات کا یقیں آئے
تو بھی اس خاک سے بنا ہوگا

جو بھی ملتا ہے پوچھ لیتا ہوں
سوچتا ہوں اسے پتا ہوگا

صرف ہم جان سے ہی جائیں گے
تیرے جانے سے اور کیا ہوگا

راستہ میں کہیں کھڑا ہوگا
پھر خلاؤں میں تک رہا ہوگا

رہگذاروں میں آج بھی تنہا
کوئی دیوانہ گھومتا ہوگا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

میں اپنا درد ہوا کے سپرد کرتا رہا
سماعتوں کا دریچہ کھلا نہ در کوئی

تم اپنے نالہ و فریاد سے ہی جاؤ گے
یہاں کسی پہ بھی ہوتا نہیں اثر کوئی

ہر ایک سانس میں اس راستہ میں ہار آیا
تِرا پتہ ہے نہ اپنی ملی خبر کوئی

یہ آسمان و زمیں سب اُسی کے لگتے ہیں
اٹھے یہاں سے مگر جائے گا کدھر کوئی

کہاں نہ جانے وہ خوشیوں کا باب کُھل جائے
اسی خیال میں پھرتا ہے دربدر کوئی

میں جانتا ہوں یہ تاروں کا سلسلہ کیا ہے
جلا کے بھول گیا دیپ بام پر کوئی

ہوا کے ساتھ نہ لڑتے تو اور کیا کرتے
نہ اپنا دوست نہ غمخوار ہے نہ گھر کوئی

نہ جانے کب سے کھلی ہیں یہ کھڑکیاں دونوں
اٹھے ہماری طرف بھی ذرا نظر کوئی

تمہاری آنکھوں کی جنّت سے جو نکالا گیا
نہ اُس کو شام ملی ہے نہ پھر سَحر کوئی

ہر ایک سمت وہ جلوہ فروش بیٹھا ہے
بچائے رکھے گا کب تک دل و نظر کوئی

فواد ایسے کھلونوں سے کب بہلتا ہے
اٹھا کے طاق پہ رکھ دے یہ بحروبر کوئی

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

جو بھی پیتا ہے پھر نہیں اٹھتا
موت اس جام میں بھرا کیا ہے

ہر طرف بے خودی سی طاری ہے
تیری آنکھوں میں یہ نشہ کیا ہے

ایسے پھرتی ہے پاگلوں کی طرح
تجھ کو بادِ صبا ہوا کیا ہے

سب کھلونے ہیں ٹوٹ جائیں گے
شاہ کیا چیز ہے گدا کیا ہے

رات دن کیوں ہے ایک چکّر میں
تجھ کو تکلیف اے ہوا کیا ہے

کون رکھتا ہے پھول میں خوشبو
یہ ستاروں کا قافلہ کیا ہے

کیوں زمانہ ہے ایک گردش میں
رات دن کا یہ سلسلہ کیا ہے

ہے مکاں سے پَرے مکاں جس کا
اُس کو دنیا میں ڈھونڈتا کیا ہے

کس لئے موت سے گریزاں ہے
زندگی نے تجھے دِیا کیا ہے

آسمانوں کو تکتا رہتا ہوں
آسمانوں سے ماورا کیا ہے

جی میں آتا ہے جو بھی کر گذرو
یاں روا کیا ہے ناروا کیا ہے

ساری آنکھیں ہیں اس کی آنکھوں میں
ان میں کھو جاؤ سوچتا کیا ہے

کون رس گھولتا ہے کانوں میں
دل کے نزدیک یہ صدا کیا ہے

سب کے ہونٹوں پہ ایک قصّہ ہے
شاعری میں نیا دھرا کیا ہے

پھر کوئی خون ہوگیا دل میں
آنسوؤں میں یہ رنگ سا کیا ہے

اب بھی اُس بے وفا پہ مرتا ہے
اور اس دل کا سانحہ کیا ہے

خاک میں سب کو کیوں ملاتا ہے
ساری مخلوق کی خطا کیا ہے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 
Top