خالد محمود چوہدری
محفلین
جی جی کریں مگر یہ یاد رکھییں کہ اپ نقاد نئیں ۔۔۔۔۔۔باقی رہی بات احادیث کی تو کسی حدیث میں فرقہ وارانہ باتیں نئیں ہوتیں
ہم لوگ تو قرآن پاک کی آیات کو بھی اپنے اپنے حق میں پیش کر کے مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں
جی جی کریں مگر یہ یاد رکھییں کہ اپ نقاد نئیں ۔۔۔۔۔۔باقی رہی بات احادیث کی تو کسی حدیث میں فرقہ وارانہ باتیں نئیں ہوتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سکول کے بچوں کے لیے اشتیاق احمد کے ناول اگرچہ دلچسپ تھے۔ تاہم کوئی شک نہیں کہ اشتیاق احمد نے مذہبی منافرت کی برسوں آبیاری کی۔ پاکستان میں پھیلی مذہبی جنونیت کو دیکھ کر اشتیاق احمد جیسوں کے متعلق کہنا پڑھے گا کہ ایک عہد جو ابھی تک تمام نہیں ہوا۔
آمین!قارئین کرام! خود ہی ملاحظہ فرما لیں کہ یہ دھاگہ جو کہ ایک تعزیتی دھاگہ تھا میں آ کر فرقہ واریت کے بیج بونے والے حضرات کون ہیں ۔۔۔ ؟؟؟؟؟
اللہ تعالٰی مرحوم کوجنت الفردوس میں اعلی و ارفع مقام عطا فرمائے ۔۔۔! آمین
حضور والا گستاخی معاف مگر میں آپ سے متفق نئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دھاگہ تعزیتی نہیں بلکہ آپ کی تحریریں کے زمرے میں کھولا گیا ہے۔ تعزیت کے لیے باقاعدہ ایک الگ زمرہ ہے۔قارئین کرام! خود ہی ملاحظہ فرما لیں کہ یہ دھاگہ جو کہ ایک تعزیتی دھاگہ تھا میں آ کر فرقہ واریت کے بیج بونے والے حضرات کون ہیں ۔۔۔ ؟؟؟؟؟
اللہ تعالٰی مرحوم کوجنت الفردوس میں اعلی و ارفع مقام عطا فرمائے ۔۔۔! آمین
صاحب دھاگہ اس فورم میں نئے آئے ہیں غالباََ انہیں اس بات کا علم نہیں۔ لیکن تبصرے کرنے والوں کو تو معلوم ہے کہ یہ دھاگہ تعزیت کے لیے کھولا گیا ہے۔یہ دھاگہ تعزیتی نہیں بلکہ آپ کی تحریریں کے زمرے میں کھولا گیا ہے۔ تعزیت کے لیے باقاعدہ ایک الگ زمرہ ہے۔
باقی فرقہ واریت ڈھونڈنے کے لیے آپ کے سابقہ مراسلوں پر سرسری سی نظر ہی کافی ہے۔
برادر ..اب آپ نے چونکے مجھے مخاطب کر کے بات کی ہے تو جواب دے رہا ہوں اور وہ یہ کے ...دیکھیں میں نے پہلے ہی کہدیا تھا کے متوفی جو کر گئے ہیں اس پر ہم نہیں کوئی اور بات کردیگا علمی بات کو علمی طریقے سے کیا جائے تو مناسب رہے گا بات آگے جائے گی تو اسکول آف ٹھاٹ پر رکے گی ...جہاں آپ کا صحیح میرے لیے قابل قبول نہیں ہوگا اور میرا نکتہ آپ کو ہضم نہیں ہوگا ( حسیب صاحب کا مضمون میری نظر میں ہے اس کا جواب اگر میں دوں تو شاید یہاں کے مدیر کی منظوری ملنا مشکل ہو جائے کیونکے یہاں کے فورم کی جہت کی مجھے سمجھ آگئی ہے آپ کو یہاں۔۔اصلاح۔۔ صرف۔۔۔ شاعری میں مل سکتی ہے بس اسپر اس سے زیادہ کچھ نہیں کہونگا ) ...عثمان صاحب کی جس بات پر میں نے متفق کیا ہے وہ وہی ہے جو میں عرض کر چکا ہوں .." پاکستان میں پھیلی مذہبی جنونیت کو دیکھ کر اشتیاق احمد جیسوں کے متعلق کہنا پڑھے گا کہ ایک عہد جو ابھی تک تمام نہیں ہوا" انہوں نے مجھ سے کم لفظوں میں زیادہ معنی خیز بات کردی ...حضور والا گستاخی معاف مگر میں آپ سے متفق نئیں
یہ دھاگہ تعزیتی نہیں بلکہ آپ کی تحریریں کے زمرے میں کھولا گیا ہے۔ تعزیت کے لیے باقاعدہ ایک الگ زمرہ ہے۔
باقی فرقہ واریت ڈھونڈنے کے لیے آپ کے سابقہ مراسلوں پر سرسری سی نظر ہی کافی ہے۔
برادر ..اب آپ نے چونکے مجھے مخاطب کر کے بات کی ہے تو جواب دے رہا ہوں اور وہ یہ کے ...دیکھیں میں نے پہلے ہی کہدیا تھا کے متوفی جو کر گئے ہیں اس پر ہم نہیں کوئی اور بات کردیگا علمی بات کو علمی طریقے سے کیا جائے تو مناسب رہے گا بات آگے جائے گی تو اسکول آف ٹھاٹ پر رکے گی ...جہاں آپ کا صحیح میرے لیے قابل قبول نہیں ہوگا اور میرا نکتہ آپ کو ہضم نہیں ہوگا ( حسیب صاحب کا مضمون میری نظر میں ہے اس کا جواب اگر میں دوں تو شاید یہاں کے مدیر کی منظوری ملنا مشکل ہو جائے کیونکے یہاں کے فورم کی جہت کی مجھے سمجھ آگئی ہے آپ کو یہاں۔۔اصلاح۔۔ صرف۔۔۔ شاعری میں مل سکتی ہے بس اسپر اس سے زیادہ کچھ نہیں کہونگا ) ...عثمان صاحب کی جس بات پر میں نے متفق کیا ہے وہ وہی ہے جو میں عرض کر چکا ہوں .." پاکستان میں پھیلی مذہبی جنونیت کو دیکھ کر اشتیاق احمد جیسوں کے متعلق کہنا پڑھے گا کہ ایک عہد جو ابھی تک تمام نہیں ہوا" انہوں نے مجھ سے کم لفظوں میں زیادہ معنی خیز بات کردی ...
حضور والا واقعی میں نیا ہوں اس لیے نئیں جانتا تھا کہ تعزیت کیلیے الگ زمرہ ہے اس لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔معذرتصاحب دھاگہ اس فورم میں نئے آئے ہیں غالباََ انہیں اس بات کا علم نہیں۔ لیکن تبصرے کرنے والوں کو تو معلوم ہے کہ یہ دھاگہ تعزیت کے لیے کھولا گیا ہے۔
صاحب دھاگہ اس فورم میں نئے آئے ہیں غالباََ انہیں اس بات کا علم نہیں۔ لیکن تبصرے کرنے والوں کو تو معلوم ہے کہ یہ دھاگہ تعزیت کے لیے کھولا گیا ہے۔
دھاگہ محض اظہار تعزیت تک محدود نہیں بلکہ اس میں صاحب دھاگہ کی رائے پر مشتمل ان کی تحریر موجود ہے۔ لہذا تمام افراد کو مذکورہ شخصیت پر تنقید یا تعریف کرنے کا حق حاصل ہے۔حضور والا واقعی میں نیا ہوں اس لیے نئیں جانتا تھا کہ تعزیت کیلیے الگ زمرہ ہے اس لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔معذرت
باقی سکول آف ٹھاٹ کی بات کی جائے تو میرا خیال ہے یہاں دودھ کا دھلا آپکو کوئی نئیں مل سکے گا۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ دھاگہ صرف مرحوم کیلیے دعا کرنے کیلیے کھولا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کو متنازعہ کر دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے بھائیو! وہ جو بھی تھے یا انہوں نے جو بھی کیا اسکا معاملہ اب اللہ کےہاں پیش ہو چکا اس لیے ہمیں انکی بخشش کی دعا کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔
مجھے آپ کی متلی کا اندازہ تھا...میرا خدشہ صحیح نکلا آپ نے الٹی کر ہی دی آخر ........دراصل پاکستان میں اصل فرقہ واریت خمینی کے اقتدار میں انے پر شروع ہوئی ۔ اسے سے پہلے سب بھائ بھائی ہی تھے۔ بدقسمتی سے ایران میں ملا کے قبضے نے اور پھر اپنا نظریہ پاکستان ایکسپورٹ کرنے پر پاکستان فرقہ واریت کی نظر ہوا
اشتیاق احمد کے ناولز کے بغیر ہماری ایک نسل ذہنی نابالغ رہ جاتی
http://www.express.pk/story/409889/
شتیاق احمد ایک ایسے انسان تھے جن کے لیے سیلف میڈ جیسے لفظ بنے ہیں،بھارتی پنجاب کے قصبے کرنال میں پیدا ہوئے،پاکستان بننے کے بعد والدین کے ساتھ جھنگ آ گئے،خاندان قیام پاکستان سے پہلے بھی غریب تھا اور پاکستان بننے کے بعد بھی۔ بڑی مشکل سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی،لاہور میں میونسپل کارپوریشن میں ملازم ہو گئے۔
سو روپے ماہانہ معاوضہ ملتا تھا،خاندان بڑا تھا،آمدنی کم تھی چنانچہ وہ شام کے وقت آلو چھولے کی ریڑھی لگانے لگے،یہ ’’کاروبار‘‘چل پڑا تو کمپنی کو پان اور سگریٹ تک پھیلا دیا،وہ دن کی ملازمت اور شام کے کاروبار سے ایک گھنٹہ بچاتے تھے اور رات سونے سے پہلے کہانیاں لکھتے تھے،ان کی پہلی کہانی 1960 ء کی دہائی میں کراچی کے کسی رسالے میں شایع ہوئی،وہ کہانی اشتیاق صاحب کے لیے رہنمائی ثابت ہوئی اور وہ باقاعدگی سے لکھنے لگے،کہانیاں سیارہ ڈائجسٹ میں شایع ہونے لگیں،وہ کہانی دینے کے لیے خود ڈائجسٹ کے دفتر جاتے تھے۔
کہانی بھی دے آتے تھے اور مفت پروف بھی پڑھ دیتے تھے،پبلشر کو ان کی یہ لگن پسند آ گئی،اس نے انھیں پروف ریڈر کی جاب آفر کر دی،اشتیاق صاحب نے میونسپل کارپوریشن کی پکی نوکری چھوڑی اور 100 روپے ماہانہ پر کچے پروف ریڈر بن گئے،وہ اب کہانیاں لکھتے تھے اور پروف پڑھتے تھے،کہانیاں رومانوی ہوتی تھیں،ان کی چند کہانیاں ’’اردو ڈائجسٹ‘،میں بھی شایع ہوئیں،1971ء میں پہلا ناول لکھا،وہ ناول رومانوی تھا،پبلشر نے وہ ناول پڑھنے کے بعد انھیں جاسوسی ناول لکھنے کا مشورہ دیا،اشتیاق صاحب نے قلم اٹھایا،محمود،فاروق،فرزانہ اور انسپکٹر جمشید کے لافانی کردار تخلیق کیے اور صرف تین دن میں ناول مکمل کر کے پبلشر کے پاس پہنچ گئے اور پھر اس کے بعد واپس مڑ کر نہ دیکھا،وہ شروع میں شیخ غلام علی اینڈ سنز کے لیے لکھتے تھے۔
پھر شراکت داری پر ’’مکتبہ اشتیاق‘‘بنالیا اور آخر میں اشتیاق پبلی کیشنز کے نام سے اپنا اشاعتی ادارہ بنا لیا،وہ ہفتے میں چار ناول لکھتے تھے،ان ناولوں کی باقاعدہ ایڈوانس بکنگ ہوتی تھی،آپ کسی دن نادرا کا ریکارڈ نکال کر دیکھیں،آپ کو 80،90 اور 2000ء کی دہائی میں لاکھوں بچوں کے نام محمود،فاروق،جمشید اور فرزانہ ملیں گے،یہ نام کہاں سے آئے،یہ نام اشتیاق صاحب کے ناولوں سے کشید ہوئے،وہ جھنگ میں بیٹھ کر صرف ایک کام کرتے تھے،لکھتے تھے اور صرف لکھتے تھے،اللہ تعالیٰ نے انھیں کہانیاں بُننے کا ملکہ دے رکھا تھا،اشتیاق صاحب کی کہانی آخری سطر تک اپنا سسپنس برقرار رکھتی تھی۔
ان کے لفظوں میں مقناطیسیت تھی،قاری ان کا لکھا ایک فقرہ پڑھتا تھا اور اس کی آنکھیں لوہا بن جاتی تھیں اور وہ اس کے بعد ان کی تحریر سے نظریں نہیں ہٹا پاتا تھا،مقبولیت اگر کوئی چیز ہوتی ہے تو اشتیاق احمد اس کی عملی تفسیر تھے اور اگر تحریر کو پڑھے جانے کے قابل بنانا ایک فن ہے تو اشتیاق احمد اس فن کے امام تھے،وہ لکھتے بچوں کے لیے تھے لیکن ان کے پڑھنے والوں میں آٹھ سے اسی سال تک کے ’’نوجوان‘‘شامل تھے،وہ بڑے شہروں سے گھبراتے تھے۔
ان میں ایک خاص نوعیت کی جھجک اور شرمیلا پن تھا،وہ درویش صفت تھے،انھوں نے عمر کے آخری پندرہ سال مذہب کے دامن میں گزارے،وہ باریش ہو گئے،جامعۃ الرشید کے ساتھ منسلک ہوئے،روزنامہ اسلام کا بچوں کا میگزین سنبھال لیا،حلیہ بھی عاجز تھا اور حرکتیں بھی چنانچہ وہ قلمی کمالات اور ادبی تاریخ رقم کرنے کے باوجود سرکاری اعزازات سے محروم رہے،خاک سے اٹھے انسان تھے،خاک میں کھیل کھیل کر خاک میں مل گئے،سرکار نے زندگی میں ان کا احوال پوچھا اور نہ ہی سرکار کو ان کے مرنے کے بعد ان کا احساس ہوا،وہ تھے تو سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہیں تھے۔
وہ نہیں ہیں تو ورثے میں ہزاروں کہانیاں،100 کتابیں اور 800 ناول چھوڑنے کے باوجود کچھ بھی نہیں ہیں،سرکار زندگی میں ان کی طرف متوجہ ہوئی اور نہ ہی مرنے کے بعد،کاش ان کی بھی کوئی لابی ہوتی،کاش یہ بھی کسی بڑے شہر میں پلے ہوتے،کاش یہ بھی انگریزی ہی سیکھ لیتے اور یہ برطانیہ اور امریکا کے بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے تو زندگی میں بھی ان کے گھر کے سامنے لوگوں کا مجمع رہتا اور موت کے بعد بھی ان کی قبر،ان کے گھر کے سامنے سے پھول ختم نہ ہوتے،یہ بس کرنالی،جھنگوی اور پاکستانی ہونے کی وجہ سے مار کھا گئے،یہ ایک گم نام‘ناتمام زندگی گزار کر رخصت ہو گئے اور ان کی ہزار کتابیں بھی ان کو نامور نہ بنا سکیں،حکومت ان کے وجود سے بے خبر تھی اور ان کی آخری سانس تک بے خبر رہی