محمد اظہر نذیر
محفلین
وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا
مجھ کو تڑپا ہی دیا، ایسے، لپٹنے آیا
میں نے تنہاٗی کی برسوں سے بچھاٗی تھی بساط
وہ اُسے پل میں لگے ہاتھ ، اُلٹنے آیا
میں نے دیوار بناٗی تھی مرے چاروں طرف
میری دیوار کی پرتوں کو اُچٹنے آیا
میں کہ آتش میں محبت کی ہوا خاکستر
اُس کو پرواہ بھی نہ تھی، راکھ سے اٹنے آیا
اُس کی قربت کا نشہ ایسا تھا پھسلا میں بھی
وہ بھی سرشار تھا شائد کہ رپٹنے آیا
دور رہتے ہو کہاں جان سے پیارے اظہر
وہ کہ جزبات کی شدت سے تھا پھٹنے آیا