ایک غزل اصلاح کے لئے.... وہ مجسم ہے تصور میں یہاں ہے سامنے

ایک ٹوٹی پھوٹی غزل اصلاح کی غرض سے پیش کر رہا ہوں. استاد محترم جناب الف عین سر اور تمام احباب سے اصلاح اور مشوروں کا طالب ہوں.
بحر کے ارکان ہیں:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
وہ مجسم ہے تصور میں یہاں ہے سامنے
چھونا چاہوں گر اسے میں پھر دھواں ہے سامنے

اشتیاق و فکر نے انسان کو اشرف کیا
عالمِ امکاں کا میداں بے کراں ہے سامنے

فاصلہ اک جست میں پورا کرئینگے عنقريب
اِس زمیں سے تھوڑا باہر کہکشاں ہے سامنے

اک کہانی کو مجسم کر کے ہم پلٹے ہی تھے
دیکھتے کیا ہیں نئی اک داستاں ہے سامنے

کہہ گئے دانا کہ ماضی حال بن سکتا نہیں
اور ترقی کہہ رہی ہے رفتگاں ہے سامنے

میں سفر میں بھائیوں کے درمیاں ہوں مطمئن
اتفاقاً کچھ ہی دوری پر کنواں ہے سامنے

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
غلطی تو بس ایک ہی نظر آ رہی ہے
رفتگاں ہے سامنے
رفتگاں تو جمع ہے، ’ہے‘ غلط ہے۔ بلکہ اس لحاظ سے قافیہ ہی استعمال نہیں ہو سکا اس ردیف کے ساتھ۔
مطلع کی روانی بہتر نہیں لگ رہی۔
اور
اِس زمیں سے تھوڑا باہر کہکشاں ہے سامنے
تھوڑا باہر کی بجائے ’کچھ ہی‘ استعمال کریں تو میرے خیال میں زیادہ بہتر ہو جاتا ہے۔
 
استاد محترم جناب الف عین سر
کچھ تبدیلیوں اور ایک شعر کے اضافے کے بعد غزل حاضر ہے۔ آپ کے مشوروں کا منتظر رہونگا۔ جزاک اللہ۔

گو مجسم ہے تصور میں یہاں ہے سامنے
چھونا گر چاہوں اُسے تَو، پھر دھواں ہے سامنے

اشتیاق و فکر نے انسان کو اشرف کیا
عالمِ امکاں کا میداں بے کراں ہے سامنے

گو ہمارا وقت ہے کچھ دور اُن اَدوار سے
جب یہ پائیں گے نیا اک آسماں ہے سامنے

فاصلہ اک جست میں پورا کرئینگے عنقريب
اِس زمیں سے کچھ ہی باہر کہکشاں ہے سامنے

اک کہانی کو مجسم کر کے ہم پلٹے ہی تھے
دیکھتے کیا ہیں نئی اک داستاں ہے سامنے

کہہ گئے دانا کہ ماضی حال بن سکتا نہیں
اور ترقی کہہ رہی ہے سب عیاں ہے سامنے

میں سفر میں بھائیوں کے درمیاں ہوں مطمئن
اتفاقاً کچھ ہی دوری پر کنواں ہے سامنے
شکریہ جناب۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
محض رفتہ۔ ’ہ‘ پر ختم ہونے والے الفاظ کی جمع ہی ’گاں‘ لگانے سے بنتی ہے۔ جیسے بچہ سے بچگاں، رفتہ سے رفتگاں، سیارہ سے سیار گاں وغیرہ وغیرہ
اس اصول کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ ہماری زبان (سرائیکی )میں "گاں" گائے کو کہتے ہیں۔ ابھی ابھی عیدالاضحیٰ گزری ہے اور میں سوچ رہا تھا کہ "گاں" کی قیمت کافی بڑھ گئی ہے، جن کی قوت خرید سے یہ باہر ہوچکی، انہیں بکروں پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
استاد محترم جناب الف عین سر
کچھ تبدیلیوں اور ایک شعر کے اضافے کے بعد غزل حاضر ہے۔ آپ کے مشوروں کا منتظر رہونگا۔ جزاک اللہ۔

گو مجسم ہے تصور میں یہاں ہے سامنے
چھونا گر چاہوں اُسے تَو، پھر دھواں ہے سامنے
۔۔۔ چھونا چاہوں میں اسے تو پھر دھواں ہے سامنے ۔۔۔ کیا زیادہ بہتر نہیں؟؟
اشتیاق و فکر نے انسان کو اشرف کیا
عالمِ امکاں کا میداں بے کراں ہے سامنے


گو ہمارا وقت ہے کچھ دور اُن اَدوار سے
جب یہ پائیں گے نیا اک آسماں ہے سامنے
۔۔۔ شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارا وقت ان ادوار سے کچھ دور ہے جب ہم اک نیا آسمان سامنے پائیں گے۔ یہاں گو کا مقصد سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ ہم تو اسے ایسے جملے میں استعمال کرتے ہیں: گو کہ آپ سمجھدار ہیں، مگر یہ بات سمجھے نہیں۔ یہاں "گو" نے جو شرط عائد کی تھی، "مگر" سے وہ پوری ہوئی۔ یہاں "مگر" موجود نہیں۔
فاصلہ اک جست میں پورا کرئینگے عنقريب
اِس زمیں سے کچھ ہی باہر کہکشاں ہے سامنے
۔۔۔ زمین کہکشاں سے باہر نہیں، اس کے اندر ہے۔ یہ سائنس کا نظریہ ہے۔ ہماری کہکشاں "ملکی وے" میں نظام شمسی ہے جس کے اندر یہ زمین ہے ۔۔۔ اور آپ بھی زمین پر ہیں تو کہکشاں کے اندر ہوئے۔ فاصلہ تو ہے ہی نہیں۔ پورا کرنے کی ضرورت کیا؟؟
اک کہانی کو مجسم کر کے ہم پلٹے ہی تھے
دیکھتے کیا ہیں نئی اک داستاں ہے سامنے
۔۔۔ درست۔
کہہ گئے دانا کہ ماضی حال بن سکتا نہیں
اور ترقی کہہ رہی ہے سب عیاں ہے سامنے
۔۔۔ قدرے غیر واضح ہے، اگر دانا لوگ درست نہیں کہتے تھے تو دانا کیسے ہوئے؟
میں سفر میں بھائیوں کے درمیاں ہوں مطمئن
اتفاقاً کچھ ہی دوری پر کنواں ہے سامنے
۔۔۔ بھائیوں کے یا برادرانِ یوسف کے؟؟
شکریہ جناب۔
 
۔۔۔ چھونا چاہوں میں اسے تو پھر دھواں ہے سامنے ۔۔۔ کیا زیادہ بہتر نہیں؟؟
جی۔ یہ بہتر ہے۔ شکریہ۔


گو ہمارا وقت ہے کچھ دور اُن اَدوار سے
جب یہ پائیں گے نیا اک آسماں ہے سامنے

۔۔۔ شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارا وقت ان ادوار سے کچھ دور ہے جب ہم اک نیا آسمان سامنے پائیں گے۔ یہاں گو کا مقصد سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ ہم تو اسے ایسے جملے میں استعمال کرتے ہیں: گو کہ آپ سمجھدار ہیں، مگر یہ بات سمجھے نہیں۔ یہاں "گو" نے جو شرط عائد کی تھی، "مگر" سے وہ پوری ہوئی۔ یہاں "مگر" موجود نہیں۔
میرا خیال یہ کہ یہاں ابلاغ کا کوئی مسلئہ نہیں ہے۔ شعر مکمل ہی لگتا ہے۔ اساتذہ کی رائے اور لئے لیتے ہیں۔


۔۔۔ زمین کہکشاں سے باہر نہیں، اس کے اندر ہے۔ یہ سائنس کا نظریہ ہے۔ ہماری کہکشاں "ملکی وے" میں نظام شمسی ہے جس کے اندر یہ زمین ہے ۔۔۔ اور آپ بھی زمین پر ہیں تو کہکشاں کے اندر ہوئے۔ فاصلہ تو ہے ہی نہیں۔ پورا کرنے کی ضرورت کیا؟؟
زمین یقیناََ کہکشاں میں ہی ہے لیکن صرف زمین کی ہی کہکشاں ہو ایسا نہیں ہے۔لا تعداد کہکشائیں تو ابھی دیکھی جانا باقی ہیں ہیں بھائی:)۔ ان تک پہنچنا تو ابھی خواب ہی ہے۔

کہہ گئے دانا کہ ماضی حال بن سکتا نہیں
اور ترقی کہہ رہی ہے سب عیاں ہے سامنے
۔۔۔ قدرے غیر واضح ہے، اگر دانا لوگ درست نہیں کہتے تھے تو دانا کیسے ہوئے؟
لیجئے جناب۔ دانا سے یہاں اشارہ جناب آئنسٹائن کی طرف ہے جو یہ کہ گئے ہیں کے وقت میں آگے جانا تو ممکن ہے وقت میں پیچھے جانا نا ممکن ہے۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے میں ان کے اس خیال سے اختلاف کر رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ آنے والے زمانے میں انسان وقت میں پیچھے بھی جا سکے گا۔

واللہ اعلم۔
ہاں آئنسٹائن کو میں اس کے با وجود دانا ہی سمجھتا ہوں۔:p
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین

زمین یقیناََ کہکشاں میں ہی ہے لیکن صرف زمین کی ہی کہکشاں ہو ایسا نہیں ہے۔لا تعداد کہکشائیں تو ابھی دیکھی جانا باقی ہیں ہیں بھائی:)۔ ان تک پہنچنا تو ابھی خواب ہی ہے۔
فاصلہ اک جست میں پورا کرئینگے عنقريب
اِس زمیں سے کچھ ہی باہر کہکشاں ہے سامنے
لیجئے جناب۔ دانا سے یہاں اشارہ جناب آئنسٹائن کی طرف ہے جو یہ کہ گئے ہیں کے وقت میں آگے جانا تو ممکن ہے وقت میں پیچھے جانا نا ممکن ہے۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے میں ان کے اس خیال سے اختلاف کر رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ آنے والے زمانے میں انسان وقت میں پیچھے بھی جا سکے گا۔
واللہ اعلم۔
ہاں آئنسٹائن کو میں اس کے با وجود دانا ہی سمجھتا ہوں۔:p
بے شک۔ لاتعداد کہکشائیں دیکھنا ابھی باقی ہے۔ لیکن آپ کے شعر سے ایسا محسوس ہوا کہ ہماری کہکشاں ہماری زمین سے باہر ہے۔ویسے تو دیکھی جاچکیں، لیکن قریب سے مشاہدہ کافی مشکل بلکہ ناممکن لگتا ہے کیونکہ فاصلہ سینکڑوں نوری سال کا ہے۔ ابھی تک معلوم تیز رفتار ترین شے یعنی روشنی کو ان کہکشاؤں تک پہنچنے میں سینکڑوں ہزاروں نوری سال لگتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ خود ہماری کہکشاں ملکی وے کا مرکز ہماری زمین سے تقریبا تیس ہزار نوری سال کی دوری پر ہے۔ ایسے میں "کچھ ہی باہر" کہنا حقیقت سے دور دکھائی دیتا ہے، لیکن آپ شاعر ہیں۔ سائنسدان نہیں، اس لیے جائز بھی سمجھ سکتے ہیں۔
وقت میں پیچھے جانا تو شاید ممکن نہ ہو، اس میں آئن اسٹائن سے میرا اختلاف نہیں لیکن اتنا ضرور مانتا ہوں کہ ہم گزرے ہوئے ماضی کو بالکل اسی طرح دیکھ ضرور سکیں گے جیسے آج کل ریکارڈ کی گئی ویڈیوز دیکھ لیتے ہیں ۔ تفصیل کا یہ مقام نہیں، ورنہ اس پر بھی بات ہوجاتی۔۔۔ تاہم دانا کی جو تعریف میرے ذہن میں ہے، وہ غلطی کرجائے تو نادانوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ انسان ہے لیکن فرشتوں سے کم نہیں۔ آپ کا شعر اس سے مختلف رہا ۔۔۔ یہی سہی۔۔۔
 
رات ہی ہاسپٹل سے واپس آیا ہوں۔ مفصل جواب بعد میں۔ ان شا اللہ
آئنسٹائن پر آپ کے جواب سے متفق ہوں۔
نوازش اور بے حد شکریہ۔
 
آخری تدوین:
بے شک۔ لاتعداد کہکشائیں دیکھنا ابھی باقی ہے۔ لیکن آپ کے شعر سے ایسا محسوس ہوا کہ ہماری کہکشاں ہماری زمین سے باہر ہے۔ویسے تو دیکھی جاچکیں، لیکن قریب سے مشاہدہ کافی مشکل بلکہ ناممکن لگتا ہے کیونکہ فاصلہ سینکڑوں نوری سال کا ہے۔ ابھی تک معلوم تیز رفتار ترین شے یعنی روشنی کو ان کہکشاؤں تک پہنچنے میں سینکڑوں ہزاروں نوری سال لگتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ خود ہماری کہکشاں ملکی وے کا مرکز ہماری زمین سے تقریبا تیس ہزار نوری سال کی دوری پر ہے۔ ایسے میں "کچھ ہی باہر" کہنا حقیقت سے دور دکھائی دیتا ہے، لیکن آپ شاعر ہیں۔ سائنسدان نہیں، اس لیے جائز بھی سمجھ سکتے ہیں۔
وقت میں پیچھے جانا تو شاید ممکن نہ ہو، اس میں آئن اسٹائن سے میرا اختلاف نہیں لیکن اتنا ضرور مانتا ہوں کہ ہم گزرے ہوئے ماضی کو بالکل اسی طرح دیکھ ضرور سکیں گے جیسے آج کل ریکارڈ کی گئی ویڈیوز دیکھ لیتے ہیں ۔ تفصیل کا یہ مقام نہیں، ورنہ اس پر بھی بات ہوجاتی۔۔۔ تاہم دانا کی جو تعریف میرے ذہن میں ہے، وہ غلطی کرجائے تو نادانوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ انسان ہے لیکن فرشتوں سے کم نہیں۔ آپ کا شعر اس سے مختلف رہا ۔۔۔ یہی سہی۔۔۔
میں نے پوری غزل میں کوئی سائنسی بحث نہیں کی۔ ایک مفروضے پر ہی بات کی ہے۔
مفروضہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کہکشاؤں میں سفر کو ابھی ثابت نہیں کر سکتا بس یقین ہے ایسا ہونا ہی ہے۔ وقت کا تعین مشکل ہے۔ کسی کے لئے بھی۔
ہو سکتا یہ شعر اور میری شاعری کے ایسے کئی اشعار ابھی ممکنات کی دہلیز پر دستک بھی نہ دے پائے ہوں لیکن انسانی ذہن کی پرواز تو کہکشاؤں سے کہیں آگے کی چیز ہے سو میں بھی اس سفر سے گریز کرنا حرام سمجھتا ہوں۔:)
جہاں تک آئنسٹائن کی بات ہے آپ سےمتفق ہوں۔ گزرے ہوئے زمانے کو "آئیندگاں" ضرور بلاضرور دیکھ پائینگے۔ ایسا ممکن ہوگا لیکن (شاید) اس میں کچھ تبدیلی ممکن نا ہو سکے گی۔
واللہ اعلم ۔
جزاک اللہ۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں نے پوری غزل میں کوئی سائنسی بحث نہیں کی۔ ایک مفروضے پر ہی بات کی ہے۔
مفروضہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کہکشاؤں میں سفر کو ابھی ثابت نہیں کر سکتا بس یقین ہے ایسا ہونا ہی ہے۔ وقت کا تعین مشکل ہے۔ کسی کے لئے بھی۔
ہو سکتا یہ شعر اور میری شاعری کے ایسے کئی اشعار ابھی ممکنات کی دہلیز پر دستک بھی نہ دے پائے ہوں لیکن انسانی ذہن کی پرواز تو کہکشاؤں سے کہیں آگے کی چیز ہے سو میں بھی اس سفر سے گریز کرنا حرام سمجھتا ہوں۔:)
جہاں تک آئنسٹائن کی بات ہے آپ سےمتفق ہوں۔ گزرے ہوئے زمانے کو "آئیندگاں" ضرور بلاضرور دیکھ پائینگے۔ ایسا ممکن ہوگا لیکن (شاید) اس میں کچھ تبدیلی ممکن نا ہو سکے گی۔
واللہ اعلم ۔
جزاک اللہ۔
بے شک۔ سورج کی روشنی ہم تک آٹھ منٹ بعد پہنچتی ہے جو اس کی دوری کی وجہ سے ہے۔ اگر سورج گرہن ہوتا ہے تو اس کا پتہ بھی آٹھ منٹ بعد ہی چلتا ہے۔ اسی طرح بالفرض اگر کوئی ستارہ ہم سے سو نوری سال کی دوری پر ہو تو اس کی جو روشنی ہم تک پہنچے گی وہ بھی سو سال پرانا منظر دکھائے گی۔ اگر آنے والے دور میں یہ ممکن ہوا کہ ہم سو نوری سال دور کسی ستارے یا سیارے تک روشنی سے بھی تیزی سے کسی روبوٹ یا جہاز کو بھیج کر وہاں سے حاصل کردہ تصویریں لے سکیں تو ایسی تصویروں کی مدد سے زمین پر سو سال قبل ہونے والی باتیں نہ صرف دیکھی جاسکتی ہیں بلکہ ریکارڈ بھی کی جاسکتی ہیں۔ تبدیلی بلا شبہ ممکن نہیں کیونکہ جو آپ دیکھ رہے ہوں گے، وہ ایک عکس کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
۔۔ معذرت ، کہ آپ کی غزل بہت پیچھے رہ گئی ۔۔۔
 
بے شک۔ سورج کی روشنی ہم تک آٹھ منٹ بعد پہنچتی ہے جو اس کی دوری کی وجہ سے ہے۔ اگر سورج گرہن ہوتا ہے تو اس کا پتہ بھی آٹھ منٹ بعد ہی چلتا ہے۔ اسی طرح بالفرض اگر کوئی ستارہ ہم سے سو نوری سال کی دوری پر ہو تو اس کی جو روشنی ہم تک پہنچے گی وہ بھی سو سال پرانا منظر دکھائے گی۔ اگر آنے والے دور میں یہ ممکن ہوا کہ ہم سو نوری سال دور کسی ستارے یا سیارے تک روشنی سے بھی تیزی سے کسی روبوٹ یا جہاز کو بھیج کر وہاں سے حاصل کردہ تصویریں لے سکیں تو ایسی تصویروں کی مدد سے زمین پر سو سال قبل ہونے والی باتیں نہ صرف دیکھی جاسکتی ہیں بلکہ ریکارڈ بھی کی جاسکتی ہیں۔ تبدیلی بلا شبہ ممکن نہیں کیونکہ جو آپ دیکھ رہے ہوں گے، وہ ایک عکس کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
۔۔ معذرت ، کہ آپ کی غزل بہت پیچھے رہ گئی ۔۔۔
حالانکہ جہاں روبوٹ کو بھیجا جانا ممکن ہوگا تو وہاں انسان بھی کشاں کشاں پہنچ ہی جائیگا۔ اور وہ مناظر کا چشم دید گواہ بنے گا۔ غالباََ۔
جیسا کہ میں نے کہا، غزل کسی بھی سائنسی کلیہ کی کلید پیش نہیں کر رہی سو اس کے پیچھے رہ جانا کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
یہ غزل اپنے آپ میں ایک مکمل شاعرانہ خیال ہے۔
جزاک اللہ۔
 

علی امان

محفلین
وہ مجسم ہے تصور میں یہاں ہے سامنے
چھونا چاہوں گر اسے میں پھر دھواں ہے سامنے
پیارے بھائی! میرے خیال میں چند اصلاحات کی ضرورت ہے۔
پہلے مصرع میں "یہاں ہے سامنے" خلاف محاورہ ہے۔ یہ محل"جیسے سامنے ہو" کا ہے۔
دوسرے مصرع میں "پھر" غیر مناسب ہے، "تو" ہونا چاہئے اور تھوڑی ترتیب میرے خیال میں تبدیل ہونی چاہئے:
چھونا گر چاہوں اسے میں تو دھواں ہے سامنے
ویسے پورا شعر ہی خلاف محاورہ ہے۔
وقت ملا تو مزید اشعار پر بھی کچھ کہوں گا۔
 
Top