زبیر مرزا
محفلین
یہ تحریرہمارے تجربات ومشاہدات اور پیش آنے والے حادثات اورذاتی خیالات پرمبنی ہے لہذا آپ
غیر متفق ہونے اورمنہ بنانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں
خواتین شوہروں کی دوسری شادی سے اس قدر خوفزدہ نہیں ہوتیں جتنا شوہر کے کنوارے دوستوں
کا اپنے میاں سے میل جول انھیں کھٹکتا ہے ، اس کا اندازہ اپنےشادی شدہ دوستوں سے ملاقات
کے لیے ان کے گھرجاکے ہوتاہے اوربھابیات کے کڑے تیوروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے
ایک دوست سے ملاقات کا احوال پیش ہے اس سےاندازہ کریں ان کی بیچارگی کا اور ہماری عزت افزائی سے بھی آپ محظوظ ہوسکتے ہیں
ویک اینڈ کی ایک خوشگوار شام ہم اپنے محلےمیں رہنےوالے دوست سےملنےپہنچے
دستک کے جواب میں ہمارے دوست برآمد ہوئے اور ہمیں دیکھ کرگھبراہٹ سے بھرپورمسکراہٹ
سے ہمارا استقبال کیا
"ارے تم ہو ۔۔۔۔۔۔ آؤ اندرآجاؤ"
میں نے سیل فون پر رابطہ نا ہونے اورکافی عرصے سے ملاقت نا ہونے کی بابت دریافت کیا
اتنے میں بھابی صاحبہ کی کڑک آوازآئی
"یہ دروازے پرکھڑے کس سے گپیں لگا رہیں آپ"
ہمارے دوست دبی دبی آواز میں بولے
مرزا ہے ملنے آیا ہے
"اس وقت " جوابی صدا آئی بھابی صاحبہ کی
ہم نے اس وقت کو سمجھنے کی کوشش کی ، بے وقت؟ مشکل وقت؟ یا بُراوقت؟
سمجھ نہیں آئی ان میں سا کون ساوقت ہے یہ
خیرہم اندارپہنچ چکے تھے اورمودبانہ اور خوفزدہ سلام پیش کیا
خیروعافیت دریافت کرنے کے بعد ہم نے اپنے دوست سے پوچھا
"تم نے جم آنا چھوڑدیا ایکسرسائز کے لیے تمھاری تو پُرانی عادت تھی ویک اینڈپرجم آنے کی"
ہمارے دوست کے بولنے سے پہلے ہی بھابی نے جواب دیا
"ارے بھائی یہ ماشاءاللہ کافی فٹ ہیں تو خوامخواہ جم میں وقت اور پیسہ برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے جم جاکر"
ہم نے حیرت سے اپنے توند نکالتے دوست کودیکھا جن پر مٹاپے کے واضح آثار پائے جارہے تھے
ہم نے دوسراسوال جاب سے متعلق کیا
"کیسی چل رہی ہے تمھاری جاب ، مڈ ٹاؤن والی لوکیشن پر ہی جارہے ہو؟"
جواب پھر بھابی صاحبہ کی جانب سے آیا
"ارے مرزا بھائی ان کو توبس جاب کی فکرہے یا دوستوں کی گھر کی ان کو کیا پرواہ"
گلہ تھا یا حملہ ہم غورکرنے لگے-
چائے پیوگے ؟ ہمارے دوست نے شاید جھنیپ مٹانے کے لیے پوچھا
"مرزا بھائی کب بے وقت چائے پیتے ہیں "
بھابی نے چائے کی اس پیش کش پرمٹی ڈال دی
جبکہ ہم تو چائے ، کجھور اورآم کی پیش کش کو رد کرنا کفرانِ نعمت سمجھتے ہیں
ہمارے دوست نے ایک سوال کے ذریعے گفتگو میں شرکت کی کوشش کی
"مرزا پاکستان کب جارہے ہو؟"
تمام سوالات کے جواب کی ذمہ داری بھابی نے یوں پوری کی
"ہاں چلے جائیں چار پانچ مہینے کے لیے آپ کی کون کوئی ذمہ داری ہے جب چاہیں
جہاں چاہیں چلے جائیں"
ہم نے اس میں "منہ اُٹھائے چلے جائیں" کا استعمال نا ہونے پرشکرکیا
"آپ بٹھے باتیں ہی کرتے رہیں گے تو چھٹی کا دن ایسے ہی بیت جائے گا"
بھابی نے میاں صاحب کو کڑے تیوروں سے دیکھتے ہوئے کہا
"اورمرزا بھائی کا کیا ہے یہ تو آتے ہی رہتے ہیں "
یہ واضح اعلان تھا کہ اب چلتے بنیں
ہم نے بھی عافیت اسی میں جانی کہ رخصت ہوں
"میں مرزا کو دروازے تک چھوڑکر آتا ہوں" دوست صاحب منمنائے
"وہ خود چلے جائیں گے آپ نے دروازے پرکھڑے ہوکرپھرسے باتیں شروع کردینی ہیں
خداجانے کتنی باتیں ہوتی ہیں آپ لوگوں کے پاس جو ختم ہی نہیں ہوتیں"
فیصلہ سنایا جاچکا تھا اور وقت ملاقات کے ختم ہونے کا اعلان بھی- یوں ہم اپنے قیدی دوست
سے دوماہ بعد مل کرآئے
غیر متفق ہونے اورمنہ بنانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں
خواتین شوہروں کی دوسری شادی سے اس قدر خوفزدہ نہیں ہوتیں جتنا شوہر کے کنوارے دوستوں
کا اپنے میاں سے میل جول انھیں کھٹکتا ہے ، اس کا اندازہ اپنےشادی شدہ دوستوں سے ملاقات
کے لیے ان کے گھرجاکے ہوتاہے اوربھابیات کے کڑے تیوروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے
ایک دوست سے ملاقات کا احوال پیش ہے اس سےاندازہ کریں ان کی بیچارگی کا اور ہماری عزت افزائی سے بھی آپ محظوظ ہوسکتے ہیں
ویک اینڈ کی ایک خوشگوار شام ہم اپنے محلےمیں رہنےوالے دوست سےملنےپہنچے
دستک کے جواب میں ہمارے دوست برآمد ہوئے اور ہمیں دیکھ کرگھبراہٹ سے بھرپورمسکراہٹ
سے ہمارا استقبال کیا
"ارے تم ہو ۔۔۔۔۔۔ آؤ اندرآجاؤ"
میں نے سیل فون پر رابطہ نا ہونے اورکافی عرصے سے ملاقت نا ہونے کی بابت دریافت کیا
اتنے میں بھابی صاحبہ کی کڑک آوازآئی
"یہ دروازے پرکھڑے کس سے گپیں لگا رہیں آپ"
ہمارے دوست دبی دبی آواز میں بولے
مرزا ہے ملنے آیا ہے
"اس وقت " جوابی صدا آئی بھابی صاحبہ کی
ہم نے اس وقت کو سمجھنے کی کوشش کی ، بے وقت؟ مشکل وقت؟ یا بُراوقت؟
سمجھ نہیں آئی ان میں سا کون ساوقت ہے یہ
خیرہم اندارپہنچ چکے تھے اورمودبانہ اور خوفزدہ سلام پیش کیا
خیروعافیت دریافت کرنے کے بعد ہم نے اپنے دوست سے پوچھا
"تم نے جم آنا چھوڑدیا ایکسرسائز کے لیے تمھاری تو پُرانی عادت تھی ویک اینڈپرجم آنے کی"
ہمارے دوست کے بولنے سے پہلے ہی بھابی نے جواب دیا
"ارے بھائی یہ ماشاءاللہ کافی فٹ ہیں تو خوامخواہ جم میں وقت اور پیسہ برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے جم جاکر"
ہم نے حیرت سے اپنے توند نکالتے دوست کودیکھا جن پر مٹاپے کے واضح آثار پائے جارہے تھے
ہم نے دوسراسوال جاب سے متعلق کیا
"کیسی چل رہی ہے تمھاری جاب ، مڈ ٹاؤن والی لوکیشن پر ہی جارہے ہو؟"
جواب پھر بھابی صاحبہ کی جانب سے آیا
"ارے مرزا بھائی ان کو توبس جاب کی فکرہے یا دوستوں کی گھر کی ان کو کیا پرواہ"
گلہ تھا یا حملہ ہم غورکرنے لگے-
چائے پیوگے ؟ ہمارے دوست نے شاید جھنیپ مٹانے کے لیے پوچھا
"مرزا بھائی کب بے وقت چائے پیتے ہیں "
بھابی نے چائے کی اس پیش کش پرمٹی ڈال دی
جبکہ ہم تو چائے ، کجھور اورآم کی پیش کش کو رد کرنا کفرانِ نعمت سمجھتے ہیں
ہمارے دوست نے ایک سوال کے ذریعے گفتگو میں شرکت کی کوشش کی
"مرزا پاکستان کب جارہے ہو؟"
تمام سوالات کے جواب کی ذمہ داری بھابی نے یوں پوری کی
"ہاں چلے جائیں چار پانچ مہینے کے لیے آپ کی کون کوئی ذمہ داری ہے جب چاہیں
جہاں چاہیں چلے جائیں"
ہم نے اس میں "منہ اُٹھائے چلے جائیں" کا استعمال نا ہونے پرشکرکیا
"آپ بٹھے باتیں ہی کرتے رہیں گے تو چھٹی کا دن ایسے ہی بیت جائے گا"
بھابی نے میاں صاحب کو کڑے تیوروں سے دیکھتے ہوئے کہا
"اورمرزا بھائی کا کیا ہے یہ تو آتے ہی رہتے ہیں "
یہ واضح اعلان تھا کہ اب چلتے بنیں
ہم نے بھی عافیت اسی میں جانی کہ رخصت ہوں
"میں مرزا کو دروازے تک چھوڑکر آتا ہوں" دوست صاحب منمنائے
"وہ خود چلے جائیں گے آپ نے دروازے پرکھڑے ہوکرپھرسے باتیں شروع کردینی ہیں
خداجانے کتنی باتیں ہوتی ہیں آپ لوگوں کے پاس جو ختم ہی نہیں ہوتیں"
فیصلہ سنایا جاچکا تھا اور وقت ملاقات کے ختم ہونے کا اعلان بھی- یوں ہم اپنے قیدی دوست
سے دوماہ بعد مل کرآئے