ایک مثال ایک خوبصورت بات یا جو بھی سمجھیں

x boy

محفلین
ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟٰﮧ ﺁﺑﺎﺩﯼ رحمہ اللہ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺧﻂ ﻟﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻂ میں
بعد سلام ﺍﻧﮩﯿﮟ"ﻗﺒﻠﮧ"ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﯿﺎ ۔۔
ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟٰﮧ ﺁﺑﺎﺩﯼ رحمہ اللہ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ":ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ"ﻗﺒﻠﮧ"ﻟﮑﮭﺎ ﮬﮯ ﺟﻮ
ﮐﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺎﺑﻞِ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﺟﮕﮧ ﺳﻤﺠﮭﯽ
ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ ۔۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ
ﻟﮑﮭﻮﮞ ۔۔ ﯾﮩﯽ ﻟﮑﮫ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﮐﮧ
"ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺟ۔ﺎﻣ۔ﻊ ﻣﺴ۔ﺠ۔ﺪ
 

x boy

محفلین
بندے کو اللہ کے الف کی بھی سمجھ لگ جائے تو بیڑہ پار ھو جاتا ھے !
زیادہ علم کے متلاشیوں کی عقلیں اسی طرح پھٹ جاتی ھیں جس طرح زیادہ وزن سے شاپر پھٹ جاتا ھے،، !
موسی علیہ السلام کے واقعے میں یہی سمجھایا گیا ھے کہ ھر علم کا حصول ضروری نہیں،، اور اس کے حاصل نہ ھونے سے اس کا انکار بھی ضروری نہیں !
جو موسی علیہ السلام کے لئے غیر معلوم تھا ، وہ عبدِ صالح کے لئے معلوم تھا،، پھر جب وہ موسی علیہ السلام کو معلوم ھوا بھی تو الٹ معلوم ھوا ،، جب تک سمجھانے والے نے نہیں سمجھایا ،،، اس نبی کو بھی سمجھ نہیں آیا جس کی شریعت سیکڑوں نبیوں کی شریعت رھی !
اسی کو کہنے والے نے کچھ یوں کہا ھے !

علم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وں بس ک۔ریں او یار !
اِک۔۔۔۔۔۔۔۔۔و ال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ف تی۔۔۔رے درکار !

علم تو علم ھے،، اس کا استعمال دینی اور دنیاوی دونوں مقاصد کے لئے کیا جا سکتا ھے،،جو دنیاوی علم کے نام سے ڈاکٹر بنتے ھیں چاھیں تو اس علم کو روٹی کمانے کے ساتھ انسانیت کی خدمت کے لئے استعمال کر سکتے ھیں،، اور جو اس کو دین کے نام پر آٹھ دس سال لگا کر حاصل کرتے ھیں وہ بھی آخر روٹی ھی کماتے ھیں،، اگرچہ اسے دینی ضرورتوں کے لئے بھی استعمال کرتے ھیں،، سارے حافظ بن کر مسجدوں میں بھی نہیں بیٹھ سکتے،،پھر نہ صرف معاشرے کی دیگر ضرورتیں پوری نہیں ھونگی بلکہ حافظوں کو تنخواہ دینے والے اور مساجد تعمیر کرنے والے بھی نہیں ملیں گے،،یہ بڑی بڑی درسگاھیں اور جامعات دنیا داروں کے سر پر چل رھی ھیں،، شیخ الحدیثوں کے سر پر نہیں،، اس لئے علم کی دینی اور دنیاوی تقسیم کر کے ایک طبقے کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا اور دوسرے کو ھِز ھولی نیس بنا دینا درست نہیں،، دونوں اللہ کی رضا و مشیئت کو پورا کرتے ھیں،، اب آپ اپنے بچے کی صلاحیت دیکھیں اور اس کے مطابق استعمال کریں،، آج کی دنیاوی تعلیم پرانے زمانے کی طرح نہیں ھے۔۔بلکہ بہت جان مار اور ھمہ جہتی اور ھمہ وقتی کام ھے،، بچہ اسکول پڑھے گا تو بہت مشکل سے اسکول کو ھی کور کر سکے گا،، آدھا یہ آدھا وہ کرنے کا زمانہ گزر گیا،، آج کل ایف اے بی اے کل کے مڈل اور میٹرک کے برابر ھے،، قرآن حفظ کرنا فرض نہیں البتہ اس پر عمل کرنا فرض ھے،، تعلیم گھر سے شروع ھوتی ھے اور پیدا ھوتے ھی بچہ سیکھنا شروع کر دیتا ھے،، یاد رکھئے سچ کتابوں میں پڑھا کر نہیں سکھایا جا سکتا،، سچ بول کر سکھانے کی چیز ھے،، بچہ پیدا ھوتے ھی والدین کو سمارٹ ھو جانا چاھئے اور اپنی بری عادات ختم کر دینی چاھئیں،، اگر اپ چاھتے ھیں کہ بچہ سگریٹ نہ پیئے تو آپ خود مت پیجئے پچہ بھی نہیں پیئے گا،، جھوٹ مت بولیئے،، ایک دوسرے کو گالیاں مت دیجئے،، صلہ رحمی کیجئے،،سسرال کی عزت کیجئے،، والدین کی باتوں کو برداشت کیجئے اور اپنی اولاد کے سامنے انہیں برا مت کہیئے،،
بچہ گریجوئیٹ ھو جائے تو کسی بھی ادارے سے قران کا تین ماہ کا کورس کر لے تو جمعہ جماعت کرانے کے قابل ھو جائے گا اور یوں جاب کے ساتھ ساتھ اس طرف کی صلاحیت بھی بڑھاتا رھے گا،، اپنی روٹی خود کما کر بغیر تنخواہ لیئے جو بھی جمعہ پڑھانے گا، بےخوف ھو کر حق بیان کرے گا ،، ورنہ روٹی کی مجبوری اسے حق سے روکے رکھے گی اور وہ صرف دنیا کا بن کر رہ جائے گا،، فمثلہ کمثل الکلب، ان تحمل علیہ یلہث او تترکہ یلہث ،، غیروں کی روٹی پہ حق کا تبیان کتنا مشکل کام ھے یہ وھی جانتے ھیں جو ایک سال میں دس مسجدیں بدلتے ھیں یوں ان کے بچے تعلیم سے بھی محروم رھتے ھیں!
دوسرا طریقہ یہ ھے کہ بچے کو میٹرک کے بعد کسی اچھی سی جامعہ میں ڈال دیں،،اور اسے عالم بننے دیں،مگر پھر بھول جائیں کہ اس سے دنیا کی کمائی کرانی ھے،اس کو کوئی بزنس وغیرہ کرا دینا جہاں سے اس کی روٹی چلتی رھے،،
میرا ذاتی خیال یہ ھے کہ جامعات کو خام مال جہاں سے ملتا ھے وہ ایک ندی کی طرح خود بخود انکی طرف رواں دواں ھے اور یونیورسٹیوں کو جہاں سے خام مال ملتا ھے ان کی ندی بھی ان کی طرف رواں دواں ھے،، دینی مدارس والے بچے آتے ھی ان گھرانوں سے ھیں جہاں پیاز اور لسی چٹنی کے ساتھ بھی روٹی بخوشی کھا لی جاتی ھے،اور یہی کچھ آج کل مدارس سے نکلنے والوں کو ملتا ھے 99 فیصد،،!
اب کل ایک بھائی کے بچے پراڈو میں پھریں اور دوسرے کے سائیکل چلائیں تو بھائی ھوتے ھوئے بھی آپس میں رشتے ناتے کرنا مشکل ھو جاتا ھے،یوں خاندان بھی بکھر جاتا ھے،، یہ کوئی ایک بچے کا مسئلہ نہیں،، بہتر یہ ھے کہ اگر آپ اسے ڈاکٹر یا انجینئر بنا سکتے ھیں تو بنا دیں،، دین کورسز کی صورت سیکھا جا سکتا ھے !
عام طور پر علماء کی جانب سے طنز کیا جاتا ھے کہ پھر جنازہ اور نکاح بھی اسی مولوی سے پڑھاتے ھو،، یا نکاح اور جنازہ بھی بش سے یا ٹونی بلیئر سے پڑھوا لینا !
تو جناب نکاح اور جنازہ دونوں مولوی کے بغیر پڑھائے جا سکتے ھیں،، کورٹ میں نکاح ھو سکتا ھے چاھے جج یا میجیسٹریٹ عیسائی ھی کیوں نہ ھو،، خطبہ نکاح کے فرائض میں سے نہیں اور خطبہ نکاح کا مقصد دونوں میاں بیوی کو ان کے حقوق و فرائض بتانا ھوتا ھے جو کہ لوگ بتاتے ھی نہیں اور عربی پڑھ کر چل دیتے ھیں،، جنازہ وارث کو پڑھانا چاھئے یعنی بیٹے یا پھر بھائی یا باپ کو ،، عربی میں دعا نہیں آتی تو اللہ کی تعریف اپنی زبان میں بھی کر سکتا ھے،درود نماز والا پڑھ سکتا ھے اور دعا بھی اپنی زبان میں کر سکتا ھے !
مگر پلٹ کر کوئی یہ کہہ دے کہ سرکار پھر آپ بھی مدرسے مفتی فلاں صاحب اور فلاں شیخ الحدیث سے بنوا لینا،، ایک ایک کروڑ کی چھت بھی یہی دنیا دار اور بزنس مین ھی ڈلوا کر دیتے ھیں جن کی دنیا داری کو آپ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں،، کہتے ھیں منہ کھائے اور آنکھیں شرمائیں،، مگر ھمارے ساتھیوں کی آنکھیں بھی نہیں شرماتیں،، کہ ان ھی کے آگے تنخواہ بڑھانے کی درخواست بھی پیش کرتے ھیں اور اپنی مجبوریاں بھی گڑگڑا کر بیان کرتے ھیں،، مگر اگلے جمعے ان کے پیچھے بھی لگے ھوتے ھیں،، اوپر والا ھاتھ نیچے والے ھاتھ سے بہتر ھے،،
دین کا علم اور دنیا کا علم بجلی کے نیگیٹیو پازیٹیو تاروں کی طرح ھیں،، دونوں سے دین اور دنیا چل رھے ھیں،،اور کوئی ان میں برا نہیں،، جس کی صلاحیت بچے میں ھو وہ اس کی پسند اور خواھش پر چھوڑ دیں !
اس ساری کہانی کے پیچھے ایک غلط فہمی ھے کہ دنیا کمانے کا ھنر سیکھنا ایک گھٹیا کام ھے اور دنیا داری ایک بری بات ھے اور دنیا ایک آلائش ھے،، جبکہ یہ قرآن کے خلاف سوچ ھے،، قرآن تو مال کو خیر اور اللہ کے فضل سے یاد کرتا ھے،ان ترک خیراً اگر اس نے خیر چھوڑی ھے یعنی مال چھوڑا ھے،، اور جمعے کے بعد جاؤ اللہ کا فضل ڈھونڈو،، مال اپنی ذات میں خیر ھی خیر ھے البتہ اس کا استعمال اچھا بھی ھے برا بھی ھے،، میں جب کہتا ھوں کہ ھمارے مولوی حضرات جب دنیا کی مذمت کچھ زیادہ ھی شد و مد اور بغیر کسی استثناء کے کرتے ھیں وہ اصلاً ایک جزبہ رقابت کے تابع کرتے ھیں ،،کہ چونکہ ھمیں نہیں ملی اس لئے بری ھے، ورنہ نبی پاک ﷺ کا غزوہ تبوک پر بار بار یہ اعلان کہ کون ھے جو سو اونٹ تیار کر کے دے اور جنت لے لے اور چھ بار حضرتِ عثمان کا اٹھ کر اعلان کرنا کہ میں سو اونٹ دیتا ھوں یوں چھ سو اونٹ انہوں نے اللہ کی راہ میں دیئے یہانتک کہ خود حضور ﷺ نے فرمایا کہ بس کر عثمان جنت تیری ھی ھے !

اسی طرح بینکنگ کے معاملات میں بھی ھم حقائق سے نظریں چرا کر فتوی لگاتے ھیں کہ جو شخص بینک میں کام کرتا ھے اس کی دعوت کھانا حرام ھے،، سوال یہ ھے کہ جس بزنس مین نے تقی صاحب کی جامعہ کے وضو خانے جو ایک کروڑ کی لاگت سے تیار ھوئے تھے،،مفتی رفیع صاحب کی ناگواری کی وجہ سے کیونکہ انہیں وہ پسند نہیں ائے تھے،،دوبارہ خرچہ کر کے تڑوا کر پھر ایک کروڑ کے خرچے سے بنا کر دیئے،، کیا وہ بزنس بینک کے ذریعے نہیں کرتا ھو گا ؟ آج کل کونسا ایسا بزنس ھے جس میں ایک بندہ اربوں کما رھا ھے اور بینک کو استعمال نہیں کرتا ھو گا ،، دعوت چونکہ چھوٹے درجے کا گناہ ھے اس لئے ناجائز ھے، البتہ جامعہ پہ کروڑوں لگا دے تو پھر بینکنگ حلال ھے !
ڈاکٹر اور انجینئر بن کر لاکھوں کما کر مساجد اور مدارس بنا کر بھی صدقہ جاریہ بنایا جا سکتا ھے،، صرف حفظ نہیں بلکہ حفظ کے انتظامات کر کے بھی سارے حافظوں جتنا اجر کمایا جا سکتا ھے،، یتیموں کی کفالت جس کی بشارت نبیﷺ نے دی ھے کہ اس کی جنت میری جنت سے یوں جڑی ھو گی جس طرح شہادت کی انگلی درمیان کی انگلی سے جڑی ھے ،وہ بھی اپنی کمائی کرنے والا ھی کر سکتا ھے،، مولوی صاحب نہیں،، پھر کفالت بھی اس طرح کہ اسے جیب کترا نہیں بنانا بلکہ تعلیم دلا کر ایک مفید انسان بنانا ھے،، یہ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت بھی یہی دنیا دار ھی کر سکتے ھیں،، اپنے بچے کو کھلانے والا شہباز بنائیں،،

از: قاری حنیف ڈار دبئی
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم غزوہِ خندق میں خندق کھود رہے تھے کہ ایک سخت قسم کی چٹان سامنے آگئی۔ صحابہ ٗ سے یہ چٹان نہیں ٹوٹی تو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یہاں ایک چٹان سامنے آگئی ہے (جو ہم سے نہیں ٹوٹتی ہے) حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں اُترتا ہوں چنانچہ آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ کے شکمِ مبارک پر (بھوک کی وجہ سے) پتھر بندھا ہوا تھا۔

حضرت جابرٗ فرماتے ہیں کہ ہم نے تین دن سے کوئی چیزنہیں چکھی تھی، حضور ﷺ نے کدال کو ہاتھ میں لے کر اُس چٹان پر مارا تو وہ چٹان ریت کا ڈھیر ہو گئی۔

مزید فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے گھر جانے کی اجازت دیدیجیئے، چنانچہ گھر آکر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ صبر نہ ہو سکا، تمھارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟ بیوی نے کہا میرے پاس کچھ جَو ہیں اور بکری کا ایک بچہ ہے، چنانچہ میں نے بکری کا وہ بچہ ذبح کیا اور بیوی نے جَو پیسے یہاں تک کہ گوشت کو ہم نے (پکنے کیلئے) ہانڈی میں رکھ دیا۔

پھر میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آٹا ٹوٹ چکا تھا (خمیر اٹھنے لگا تھا) ہانڈی چولہے پر تھی اور پکنے کے قریب تھی۔

حضرت جابرٗ نے آپکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: "مختصر سا کھانا ہے، آپ تشریف لے چلیں یا ایک دو آدمی آُپکے ساتھ ہوں"
آپ ﷺ نے پوچھا کتنا کھانا ہے؟
میں نے بتا دیا (اتنا ہے)
آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا خاصا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جب تک میں نہ آجاؤں، بیوی سے کہہ دو کہ نہ ھانڈی چولہے سے اتارے نہ روٹیاں تنور میں لگائے۔
پھر آپ ﷺ نے صحابہ میں اعلان فرمایا کہ جابر کی دعوت ہے، سب چلو۔
اُدھر حضرت جابرٗ گھر بیوی کے پاس پہنچے اور(کم کھانا اور زیادہ مہمان آنے کی وجہ سے شرم کے مارے) کہا کہ: تیرا بھلا ہو! حضور تو مہاجرین اور انصار سب کو ساتھ لا رہے ہیں۔
بیوی نے حضرت جابر سے پوچھا: حضور ﷺ نے تم سے کھانے کے متعلق پوچھ لیا تھا؟
انہوں نے کہا کہ ہاں پوچھ تو لیا تھا۔
اِس سے انکو اطمینان ہوگیا کہ پھر آپ اپنے اور اللہ کے اعتماد پر لے کر آرہے ہیں۔

آپ نے صحابہ سے فرمایا "اندر چلو اور رش نہ کرو"۔
چنانچہ آپ ﷺ روٹیاں توڑنے لگے اور اُن پر بوٹیاں رکھنے لگے، اور ہانڈی سے گوشت اور تنور سے روٹی لے کر ان کو ڈھانک دیتے تھے، اِسی طرح برابر آپ ﷺ روٹی کے ٹکڑے کرکر کے دیتے رہے اور ہانڈی میں سے چمچ بھر بھر کر لیتے رہے یہاں تک کہ سب آسودہ (شکم سیر) ہوگئے اور کھانا کچھ بچ بھی گیا، پھر آپ ﷺ نے حضرت جابر کی بیوی سے فرمایا:

"یہ تم خود بھی کھاؤ اور محلے پڑوس میں بھی ہدیہ بھیجو! اسلئے کہ لوگوں کو بھوک لاحق ہے"

مفھومِ حدیث صحیح بخاری: 3876
 

x boy

محفلین
گھریلو زندگی سے متعلق ھمارا افسوسناک رویہ

ساتھیو! میرے دوستو !کھبی غور فرمایا ھے۔۔۔کہ ھم جب نبی کریمﷺ کی گھریلو زندگی کا ذکر کرتے ھیں تو بڑا منہ پھٹ انداز اختیار کرتے ھیں،،آپ کی چھوٹی چھوٹی گھریلو خدمات کا ذکر تفصیل سے کرتے ھیں،،گویا حضور ﷺصرف یہ ھی کام کرنے تشریف لائے تھے،،ھمارا یعنی مولوی حضرات کا موقف یہ ھوتا ھے کہ چونکہ جناب رسالت مآبﷺ انسانی زندگی کے ھر شعبے کے مقتداء اور نمونہ ھیں ،،چنانچہ ھم کو ان باتوں کا حوالہ دینا پڑتا ھے،،تا کہ مرد کی چاردیواری کی زندگی کو دین کے دائرے میں لایا جا سکے،،،،،،،، مگر میرے بھائیو !! یہ بات جتنی بھی اچھی اور خوبصورت ھو،،عملی طور پر ھم مولویوں سمیت سارے مردانہ کلچر کا شکار ھین،،اور دین کی بھی مردانہ تشریح کرتے ھیں،،،،تفصیل اس اجمال کی یہ ھے،،کہ جن گھریلو کاموں کو ھم نبی ﷺ کی نسبت دے کر بر سرِ ممبر بڑے فخر سے بیان کرتے ھیں،،ان کاموں کی نسبت اپنی طرف کرتے ھوئے شرماتے ھیں،اور کوشش کرتے ھیں کہ گھر سے باھر کسی کو پتہ نہ چلے اور ھم زن مرید مشہور نہ ھو جائیں،،،جو کام نبیﷺ کے لئے باعث فخر ھیں،،وہ ھمارے لئے باعث شرم کیوں ھیں؟؟،،کیا ھماری عزت نبی کی عزت سے زیادہ ھے،،اور اس ڈبل اسٹینڈرڈ کے ساتھ نبی ﷺ کے واقعات بیان کرنا توھین نہیں ھے؟،،یا تو اس کو سنت سمجھ کر فخر سے اتباع کرو اور فخر سے بیان کرو کہ،،یار ابھی ابھی برتن دھو کر آیا ھوں،،،فون آ جائے اٹھانے میں دیر ھو جائے ، تو کہنا سیکھو،،سوری یار وہ ھاتھوں کو لیکس ھوا تھا،،برتن دھو رھا تھا،،،،سوری یار وہ مشین کی آواز میں بیل سنائی نہین دی،،کپڑے دھو رھا تھا،،،،صحن میں برش مار رھا تھا ! کہہ سکتے ھیں؟،،،نہیں ناں؟ کیوں کہ یہ ھمارا کلچر ھے کہ مرد گھریلو کام نہیں کرتا،،،،،اس کا نام ھے مردانہ کلچر،،ھم دین کی تشریح بھی اسی نفسیات کے تحت کرتے ھیں،کہ گھریلو کام عورت کی ذمہ داری اور خوبی ھے،،جبکہ مرد کا عیب ھے(پھر نبی کا عیب کیوں گنواتے ھو ؟) دین میں ایسا کچھ بھی نہیں ھے،،عورت کی صرف ایک ذمہ داری ھے وہ مرد کی مدد کرے اسکے سکون کا باعث بنے اولاد کی اچھی تربیت کرے،نفل نماز اور نفل روزہ بھی مرد کا موڈ پوچھ کر رکھے ،اور بس،،،،مرد کھانا خود پکائے،،یا ھوٹل سے لائے،،یا عورت مہربانی کر کے اس کا ہاتھ بٹائے اور روٹی سالن بنا دے،، اس تعاون کے نتیجے میں عورت مزید پیار ،زیادہ نرمی،بہترین حسن سلوک اور کسی تحفے کی حقدار ھے اور برادری میں تعریف کے لائق ھے،،نہ کہ گالی گلوچ،مار پیٹ اور طنز و تشنیع کی حقدار ھے، کیا کسی نے کبھی دین کی روشنی میں آپ کو بتایا ھے کہ عورت گھر کا جو کام کرتی ھے وہ اس کے کنٹریکٹ میں شامل نہیں ھے،،،؟ نہیں بتایا ناں،،اسی وجہ سے کھانا لیٹ ھونے پر شوھر بیوی کو اور بھائی بہن کو قتل کر دیتا ھے،،اس کو کہتے ھیں مردانہ اجارہ داری،،،،اللہ کے لئے اس نعمت کی قدر کریں،،اللہ نے اس کو انسان بنانے کے لئے چنا ھے،،اس کو عزت اور رفعت دیں گے تو باعزت نسلیں تیار ھونگی،،،،،،ذراسوچئے،،،،،،اللہ حافظ
 

x boy

محفلین
  • مسئلے کا حل یہ ھے کہ دنیا میں کوئی ایسی عورت پائی جاتی ھو جو پلٹ کر جواب نہ دے اور اس میں سائلینٹ پروفائل کا آپشن بھی ھو،جب آپ کا جی چاھا اسے سائلینٹ پہ کر لیا اور اپنا غصہ اتار کر پھر جنرل پر کر دیا ! اگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ر ایسا ھوتا تو کیا خوب ھوتا،،مگر افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ھے کہ دنیا میں کوئی ایسی عورت نہیں پائی جاتی اور نہ کوئی ایسا مرد کہ جس کے تقدس میں عورت پلٹ کر جواب نہ دے ،، یہ بات کائنات کی بہترین عورتوں " ازواج مطہرات سے شروع ھوتی ھے اور کائنات کے بہترین انسان محمد رسول اللہ ﷺ کے گھر سے چلتی ھے ،،
    کتاب الکبائر میں امام ذھبی جو ساتویں صدی ھجری کے عالم ھیں،،عورت کے نشوز کی وضاحت کرتے ھوئے لکھتے ھیں کہ عورت کا شوھر کو پلٹ کر جواب دینا اور اس کے ساتھ بحث مباحثہ کرنا نشوز یا نافرمانی میں نہیں آتا کافی طویل بحث کے بعد جو کہ کئ صفحات پر پھیلی ھوئی ھے وہ چند مثالیں دے کر اس کو واضح کرتے ھیں !
    فرماتے ھیں کہ روایت کیا گیا ھے کہ ایک شخص اپنی بیوی کی زبان درازی کی شکایت کرنے امیر المومنین عمر ابن الخطاب کے گھر گیا،، گھر کے اندر سے عورت کے عمرؓ کو ڈانٹنے کی مسلسل آواز آ رھی تھی جبکہ عمرؓ ساکت کھڑے تھے پلٹ کر کوئی جواب بھی نہیں دے رھے تھے،، میں نے سوچا جب عمرؓ کا یہ حال ھے جو اپنی سخت طبیعت کی وجہ سے مشہور ھیں اور امیر المومنین بھی ھیں تو میں کس کھیت کی مولی ھوں ،،میں پلٹ پڑا ،، اچانک عمرؓ گھر سے نکلے تو مجھے دیکھ کر پکارا کہ بھائی کوئی کام تھا مجھ سے ؟ تو میں نے عرض کیا کہ جناب میں اپنی بیوی کی بد اخلاقی اور زبان درزای کی شکایت کرنے آیا تھا مگر آپ کے گھر کا حال بھی وھی دیکھا تو پلٹ پڑا ،،اور سوچ کر صبر کر لیا کہ اگر امیر المومنین کا حال یہ ھے تو پھر اپنی کوئی بات نہیں !
    فرمایا کہ بھتیجے میں یہ سب اس لیئے برداشت کرتا ھوں کہ اس کے میرے اوپر بہت احسان ھیں،یہ میرے لئے سالن بناتی ھے ،روٹی پکاتی ھے کپڑے دھو دیتی ھے ،میرے بچوں کو دودھ پلاتی ھے اور ان میں سے کوئی کام اس پر واجب نہیں ھے ،،پھر میرے اس جذبے کی تسکین کرتی ھے جو اس کے سوا حرام سے کم پر راضی نہیں ھوتا ،،اس لئے میں اس کی باتیں برداشت کر لیتا ھوں ،، آدمی نے کہا امیر المومنین یہ سارے کام تو میری بیوی بھی کرتی ھے ، آپؓ نے فرمایا برداشت کرو بھائی یہ تھوڑی سی مدت کا تو ساتھ ھے !
    حضرت عمرؓ سے ھی احادیث کی کتابوں میں روایت کیا گیا ھے کہ ھم مکے میں عورتوں کو دبا کر رکھنے کے عادی تھے،، مگر مدینے کی عورتیں چونکہ اپنے شوھروں کے ساتھ کھیتی باڑی کرتی تھیں تو کافی فری تھیں،، ان کی دیکھا دیکھی ھماری عورتیں بھی جواب دینے لگ گئیں،، ایک دن میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹ دیا کہ جواب دیتی ھو تو اس نے مجھے پلٹ کر جواب دیا کہ آپکی صاحبزادی خیر البشر ﷺ کو پلٹ کر جواب دیتی ھے تو آپ کی شان کوئی رسول اللہﷺ سے بڑھ کر نہیں،، میں نے جاکر حفصہؓ کو پوچھا تو وہ بولی یہ تو ھم ساری ازواج کرتی ھیں،، اس پر میں ایک ایک ام المومنین کے گھر گیا اور ان کو سمجھایا کہ وہ ایسا نہ کریں ،،مگر جب ام سلمیٰؓ کے گھر پہنچا تو انہوں نے مجھے سختی سے ڈانٹ دیا کہ کیا اللہ کا رسولﷺ اپنا گھر سنبھالنے سے عاجز ھو گیا ھے ائے عمر‌ؓ کہ تمہیں ان کی ازواج کو سمجھانے کی ضرورت محسوس ھوئی ھے؟ ان کی اس بات سے میرے پسینے چھوٹ گئے اور میں آج تک اپنی اس جرأت پر نادم ھوں،،
    ابوبکر صدیقؓ اپنی بیٹی عائشہؓ کے حجرے کے پاس سے گزرے تو عائشہۜ صدیقہ کی بلند آواز کان میں پڑی وہ حضورﷺ سے کوئی گلہ کر رھی تھیں،، یہ جھٹ سے حجرے میں داخل ھوئے اور حضرت عائشہؓ کی تأدیب کے لئے ھاتھ اٹھایا ،مگر حضورﷺ نے ان کا ھاتھ پکڑ لیا،، اور ان سے باھر جانے کو کہا،، جونہی وہ باھر نکلے تو آپﷺ نے حضرت عائشہؓ فرمایا کہ اگر آج میں تیرے باپ کا ھاتھ نہ پکڑ لیتا تو جتنے زور کا وہ ھاتھ آرھا تھا،تیرا تو کام ھو جانا تھا،،اس پہ حضرت عائشہ کھلکھلا کے ھنس پڑیں ،، ان کی ھنسی کی آواز سن کر ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں نے لڑائی میں مداخلت کی تھی مجھے صلح میں بھی شریک فرما لیجئے آپ ﷺ نے انہیں اندر بلا لیا !
    ھم نے تو گونگی کو طلاق ھوتے دیکھی ھے جس کے پاس نیشنلٹی بھی برطانیہ کی تھی اور اللہ نے اسے سائیلنٹ پر لگایا ھوا تھا،، اس کے شوھر سے پوچھا بھئ طلاق کیوں دی ھے کہنے لگے بد زبان تھی ، پوچھا بھائی وہ تو بے زبان تھی پھر بدزبان کیسے ھو گئ ؟ بولے جی ایک تو وہ اشاروں کی مار دیتی تھی،دوسرا بات کرتے کرتے اچانک منہ پر تھوک دیتی تھی،، تیسرا چونکہ بہری بھی تھی،لہذا جوابی گالیاں سنتی بھی نہیں تھی جس کی وجہ سے غصہ بھی نہیں نکلتا تھا !
    خیر امام ذھبی نے ھی حدیث روایت کی ھے کہ جو مرد اپنی عورت کی بداخلاقی پر صبر کرتا ھے اسے صبرِ ایوب جتنا اجر دیا جائے گا اور جو عورت اپنے شوھر کی بدخلقی کو برداشت کرے گی اسے آسیہ زوجۃُ فرعون جتنا اجر ملے گا،،
    ھم عورت کو اپنا آفس بوائے سمجھتے ھیں جسے بات بے بات ڈانٹ لیا تو وہ چپ ھو جاتا ھے،، مگر وہ ھماری Subordinate نہیں ھے،، پارٹنر ھے !

    آگے آپ کی مرضی ھے،،ھم نیک و بد سرکار کو سمجھائے دیتے ھیں !
(قاری حنیف ڈار کی باتیں)۔
 

x boy

محفلین
م۔۔۔۔۔۔۔۔۔رد کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انی !

گھر میں امن و سکون تو زن مریدی سے ھی حاصل ھوتا ھے ! اپنے اختیارات اپنی خوشی سے کسی کو سونپ دینا،، جھگڑا ختم ھو جاتا ھے اور اسی کو انڈر اسٹینڈنگ کہتے ھیں،، مرد کو ھینڈل کرنا اصل میں یہ سیٹ ھے ھی عورت کی ھے،،عورت ھی اس کو پیدا کرتی ھے ،زنانہ وارڈ میں اس کا نزول ھوتا ھے،عورتیں ھی اس کو خوش آمدید کہتی ھیں،، عورت ھی اسے پالتی اور اس کی تربیت کرتی ھیں اچھی ھو یا بری، پھر ھار سنگھار کر کے اسے دوسری عورت کو سونپ دیتی ھے،، لہذا ھر ماں یہ دیکھ لیا کرے کہ وہ اپنا لعل کس کو سونپ رھی ھے ! اس کی میت بھی عورتوں میں ھی پڑی ھوتی ھے،مرد صرف غسل دینے کے لیئے اٹھانے آتے ھیں ! عورت کے بگاڑے کو عورت ھی سدھار سکتی ھے، ماں کے بگاڑے ھوئے کو بیوی ھی سدھار سکتی ھے ،، اور ماں کے سدھارے کو بیوی ھی بگاڑ سکتی ھے،، اس کا پاس ورڈ ازل سے عورت کے پاس ھے،، اور یہ ھمیشہ ماں یا بہنوں یا بیوی کے درمیان فٹ بال بنا رھتا ھے جو اپنی اپنی مرضی کی گیم اس پر کھیلتی اور اس کی سیٹنگز تبدیل کرتی رھتی ھے،، ماں کی سیٹنگز بیوی رات کو تبدیل کر دیتی صبح اماں ایک پھونک سے وہ ھٹا کر دوبارہ فیکٹری سیٹنگز ریسٹور کر لیتی ھے،، بس اتنی ساری مرد کہانی ھے ! عموماً اماں جی اپنی سلطنت میں اضافے کے لئے بیٹے کو بطورِ چارہ استعمال فرماتی ھیں جس سے ان کے ھاتھ کسی غیر کی پالی پوسی پڑھائی پڑھائی بیٹی ھاتھ آ جائے اور یوں وہ اپنے اختیارات کو دو گھروں تک وسیع کر لیں ! اس کے لئے شادی سے پہلے ھنگامی دورے ھوتے ھیں، لنچ کہیں اور ھوتا ھے تو برنچ کہیں اور ڈنر کہیں اور ھوتا ھے تو ونر کوئی اور ،، اس بھاگ دوڑ کے بعد آخر ایک گھر منتخب کر لیا جاتا ھے اور یوں مچھلی پکڑ کر گھر لائی جاتی ھے،، شادی کے بعد ٹیسٹ کیس کے طور پر اماں جی اپنی بیٹیوں اور بہو کا تقابل کرتی ھیں،، کوشش کرتی ھیں کہ بہو اور بیٹا جہاں جائیں ایک آدھ بہن ساتھ جائے جو ان کی سرگرمیوں میں نظر رکھے - اگر بہن کو بھی ساتھ لے کر جانا ھے تو پھر بہتر ھے ھنی مون پہ نہ ھی جایا جائے ،، کیونکہ اس میں دو نقصانات ھوتے ھیں،، پہلا تو یہ کہ جس محبت کے ماحول کے لئے انسان جاتا ھے وہ کبھی حاصل نہیں ھوتا،،یہ ایسا ھی سماں ھوتا ھے جیسے افطاری سے پہلے پکوڑے سموسے اور روح افزاء سامنے رکھ کر بیٹھنے والوں کا ھوتا ھے،، بہن بھی کوشش کرتی ھے کہ وہ نہ صرف بھابھی اور بھائی کو خلوت میسر نہ آنے دے بلکہ وہ بس میں بھی کوشش کر کے میاں بیوی کے درمیان دیوارِ برلن بن کر بیٹھتی ھے،دوسرا بہن واپس آکر جو غلط رپورٹنگ کرتی ھے وہ فساد کی پہلی چنگاری ھو تی ھے،، یوں ماں کو بیٹا ھاتھ سے جاتا نظر آتا ھے اور اسے احساس ھوتا ھے کہ کشمیر لیتے لیتے مشرقی پاکستان بھی ھاتھ سے گیا ! دوسرا ٹیسٹ یہ ھوتا ھے کہ بیٹا جو چیز اپنی بیوی کے لئے خریدے وھی چیز بہن کے لئے بھی خریدے ،، چاھے وہ سونا ھو یا کپڑا ! سوال یہ ھے کہ بیٹے نے دو شادیاں نہیں کیں کہ وہ دونوں میں انصاف کرے،، زیادہ جنتی جوان سوچتے ھیں کہ بہن کے لئے پیسے نہیں تو بیوی کے لئے بھی تحفہ نہیں خریدنا،، یوں بھاوج اور نند کا تنازعہ شروع ھوتا ھے،، تنازعات میں مرد کی اھمیت بڑھ جاتی ھے،، زیادہ تر مرد مارکیٹنگ کے اس دور میں اپنی مارکیٹ ڈاؤن نہیں ھونے دیتے، وہ ماں کو بھی گولی دیتے ھیں اور بیوی کو کیپسول،، جو ایک طرف کا ھو جائے وہ چلا ھوا کیپسول گنا جاتا ھے - مگر مرد ری فِل قسم کا کارتوس ھے،ذرا سا بیوی کی طرف سے شکوہ پیدا ھوا تو اسے اپنا ریٹ گرتا ھوا محسوس ھوتا ھے،، اب یہ اس بہن کے گھر جا گھسے گا جو بیوی کی سب سے زیادہ مخالف ھے، کھانا وھاں سے کھا کر آئے گا،، اور منہ سوجا سوجا سا بنا لے گا چاھے اس بہن نے کچھ بھی نہ کہا ھو، بیوی کھانے کو پوچھے گی تو بتائے گا،، بہن کے یہاں کھا آیا ھوں،، بیوی کا تراہ نکل جائے گا، اب وہ اس رویئے کا ذمہ دار نند کو سمجھے گی،،یوں پھر قبضے کی جنگ شروع ھو جائے گی اور مرد کی مارکیٹ چڑھ جائے گی ،، یہ بیوی کی کچھ باتیں ماں سے شیئر کرتا رھتا ھے یوں ماں کی گڈ بُکس میں رھتا ھے،اور جنت کی ریزرویشن پکی رکھتا ھے اور فی الآخرۃِ حسنۃ کا پتہ ھاتھ میں رکھتا ھے ،ادھر ماں کی دو چار باتیں بیوی کو بتا کر فی الدنیا حسنۃ بھی کیش میں لیتا ھے،، بس تھوڑی سی ذلالت اس دن ھو جاتی ھے جس دن وہ لڑائی میں ایک دوسرے کو بتا دیتی ھیں کہ اگر میری تمہارے ساتھ کی ھے تو تمہاری بھی مجھے بتاتا ھے، ! یہ ایک فساد ٹائپ گھر کا ماحول ھے مگر بدقسمتی یہ ھے کہ یہ اکثریت کا فسانہ ھے ! اس قسم کے ماحول میں پیدا ھونے والے بچے ھر وقت جنگ کے ماحول میں پلتے بڑھتے ھیں - دادی ،اور پھوپھو کو اپنی والدہ کا دشمن سمجھتے ھیں، والد کو بھی بے انصاف سمجھتے ھیں، مجبوراً والد کے ساتھ جڑے رھتے ھیں مگر اندر سے اس کے مخالف ھوتے ھیں،،حالانکہ مرد اگر اپنی بیوی اور ماں سے مخلص نہ بھی ھو تو بھی اولاد کے ساتھ 100٪ مخلص ھوتا ھے،،لیکن یہی وہ جگہ ھے جہاں انسان نہ آگے کا رھتا ھے اور نہ پیچھے گا،، آپ گرم دیگچے کو کرتے ھیں مگر گرم سالن ھوتا ھے،،اور آپ ٹھنڈا برتن کو کرتے ھیں مگر ٹھنڈا سالن ھوتا ھے،، جس عورت کی گود میں آپ نے اپنا مستقبل اور دل کا ٹکڑا رکھا ھے اسے تتے توے پر بٹھا کر آپ کیسے گمان کر لیتے ھیں کہ اولاد ٹھنڈی رھے گی ؟ اب اولاد نہ تو پھوپھو کے گھر سے شادی کرتی ھے اور نہ چچا کے گھر سے،، یہی وجہ ھے کہ خاندان میں رشتوں کی بجائے باھر کا رجحان ھے،ایک تو یہ ڈر ھوتا ھے کہ جو ھم نے کیا ھوا ھے اس کے نتیجے میں کہیں ھماری بیٹی کے ساتھ بدلہ نہ چکایا جائے،، دوسرا طرف عورت کو یہ ھوتا ھے کہ جنہوں نے زندگی بھر میرے شوھر کے کان بھرے ھیں وہ میرے بیٹے کو کب بخشیں گے، اس طرح دونوں فریق اپنے کیئے سے ڈرتے ھوئے رشتوں کے لئے باھر دھکے کھا رھے ھوتے ھیں !اگر آپ چاھتے ھیں کہ آپکی اولاد آپ سے پیار کرے آپ سے مخلص رھے، اور اچھی تعلیم و تربیت پائے تو بیوی کے ساتھ تعلقات کو کبھی خراب مت ھونے دیں،، شریعت نے والدین کے حقوق مقرر کر دیئے ھیں اور ان کی ادائیگی بغیر کسی کا حق مارے بھی ھو سکتی ھے،،نماز میں سب سے اھم رکن سجدہ ھے جب سب کچھ کر کے انسان اپنا سر رب کے قدموں میں رکھ دیتا ھے،،مگر نماز صرف رکوع میں سر رکھے رھنے کا نام نہیں ھے،اس میں قیام بھی ھے،رکوع بھی ھے، قومہ و جلسہ و قعدہ بھی ھے،،یہ سجدے سے کم اھم ھو سکتے ھیں،،مگر نماز کے ھونے میں ان کا وجود بھی ضروری ھے،،ماں اگر سجدے کا مقام بھی رکھتی ھے تو بیوی قیام اور اولاد رکوع والی جگہ پہ رکھ لیں مگر دین اور دنیا ان سب کے ساتھ مکمل ھوتے ھیں،، نا اںصافی اللہ پاک کو سخت ناپسند ھے اور وہ اسے ظلم سے تعبیر کرتا ھے، اور ظالموں سے نفرت بھی کرتا ھے اور ان پر لعنت بھی کرتا ھے،،ماں سے محبت اپنی مٹھاس رکھتی ھے ،بیوی سے محبت اپنی مٹھاس رکھتی ھے اولاد کا پیار اپنا مزہ دیتا ھے،،ان سب مزوں کا نام زندگی ھے،، عیسی علیہ السلام کو پھانسنے کے لئے یہود نے ایک مسئلہ پیش کیا کہ حکومت کو ٹیکس دینا چاھئے یا نہیں ؟ عیسی علیہ السلام نے فرمایا اس درھم کو پلٹو ! اس پر قیصر کی تصویر بنی تھی،، آپ نے فرمایا جو قیصر کا ھے وہ قیصر کو دو -جو اللہ کا ھے وہ اللہ کو دو،،یعنی درھم پر قیصر کی مہر ھے اور تم پر اللہ کی مہر ھے ! ماں بیوی والے حصے پر شب خون نہ مارے،، اور بیوی ماں کے حصے کو ھڑپ نہ کرے،، !
 

x boy

محفلین
احب۔۔۔۔۔۔۔اب سے دردمندانہ گزارش ھے !!

ان لوگوں کو چھوڑ دیں کہ وہ خدا تک کس رستے سے پہنچتے ھیں،، ھر بندے کی اپنی نیچر ھوتی ھے،، ھم مشورہ نہ ھی دیں تو بہتر ھے وہ اس سے بھی بدک جاتے ھیں،، میرے یہاں شارجہ سے پھوپھو کا بیٹا آیا جو مجھ سے کوئی دس پندرہ سال بڑا تھا ،یہ 1982 کی بات ھے ،،فجر کی نماز کا وقت نکلا جا رھا تھا ،،وہ ھل جل رھے تھے مگر اٹھ نہیں پا رھے تھے،میں نے کہا کہ بھائی جان( پہاپا) اٹھو سورج چڑھنے والا ھے، نماز نکل جائے گی،میرا یہ کہنا تھا کہ ان کا ھلنا جلنا ختم ھو گیا اور وہ کومے کی کیفیت میں چلے گئے،،دن بھی جمعے کا تھا دس بجے اٹھے تو مجھے گھ۔۔ور کر ابا جان سے مخاطب ھوئے جن کے ساتھ وہ 1969 سے کام کر رھے تھے، اور لانچ پر دبئ آئے تھے ، پاسپورٹ کا زمانہ نہیں تھا،، یہ بھٹو صاحب نے پاسپورٹ کی لت ڈال کر قوم کی عادت خراب کر دی تھی لوگ تین تین پاسپورٹ لیئے پھرتے تھے،، اس شخص کا ویژن کیا ھوا گا کہ جس نے آئ ڈی کا 1975 میں سوچ لیا تھا؟،،جسے دنیا آج سوچ رھی ھے اور انڈیا نے ابھی تک نہیں سوچا !واقعی ایسے لیڈر اس قوم کے قابل نہیں ھوتے جو پیچھے منہ کر کے چل رھے ھوں ،،، خیر وہ مجھے گھور کر اور ابا جان سے مخاطب ھو کر بولے " اچھا بھلا اٹھنے لگا تھا،کہتا ھے اٹھو نماز نکل جائے گی،،میں نے سوچا اب پڑھی بھی تو حنیف کی نماز ھو گی،اس لئے اب پڑھنے کا " فیدہ " کوئی نئیں،، قضا پڑھ لوں گا مگر اپنی پڑھوں گا ،، تو جناب کچھ لوگ اس لیئے بھی اللہ کو نہیں مانتے کہ مولوی کا منوایا ھوا خدا ھم نہیں مانتے ھم دیر سے مانیں گے مگر اپنا ڈھونڈ کے مانیں گے،، ان کی اس بات کو دیکھ کر ھی میں نے انہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ پھر جلدی تلاش شروع کر دیں اور مولویوں والا فولڈر ڈیلیٹ کر دیں ،، آپ لوگوں کے مشورے مجھے ڈیلیٹ کرنے پڑیں گے،، وہ لوگ بڑھے پڑھے لکھے ھیں،، منڈی میں مولیاں بیچنے والے نہیں کہ ھم انہیں سمجھائیں،، انہیں خدا اپنے اندر سے ھی ملے گا جب ملے گا،، اس لیئے کہ ان سے گم بھی اندر ھی ھوا ھے،، شاعر نے کہا تھا کہ !
ملتا ھی نہیں مجھ کو جہاں ڈھونڈ رھا ھ۔۔وں !!
کھ۔۔۔ویا تھا کہ۔اں اُس کو کہاں ڈھونڈ رھا ھوں !

سوئی گھر میں گم کر کے باھر کھمبے کے نیچے ڈھونڈنے سے صرف اس وجہ سے نہیں مل جاتی کہ باھر بہت روشنی ھے،، وہ وھیں سے ملے گی جہاں گری ھے روشنی وھیں کرنی پڑے گی،، بس میں نے ان کو روشنی اندر ھی جلانے کا مشورہ دیا ھے اور بس !

از: قاری حنیف ڈار
 

x boy

محفلین

  • یہ اسپیشل پوسٹ صرف ان خواتین و حضرات کے لئے ھے جن کی بات چیت میرے ساتھ وجودِ باری تعالی کے بارے میں چلتی رھتی ھے اور میں سمجھتا ھوں کہ وہ تلاشِ حق میں مخلص ھیں ،اس میں کوئی مشورہ طنزیہ نہیں بلکہ سب کچھ دردِ دل کے ساتھ لکھا جا رھا اور ساتھ میں ان کی صحیح منزل تک رسائی کے لئے اللہ پاک کے حضور خصوصی دعا بھی کروں گا !

    شعورِ ملکیت بہت طاقتور اور منہ زور جذبہ یا احساس ھے ! اور یہ دو دھاری تلوار کی سی کیفیت رکھتا ھے ۔ اس منہ زور احساس کو یا تو اللہ ھی صحیح طرح استعمال کرتا ھے یا پھر اللہ کا ڈر رکھنے والے ھی اس کا درست استعمال کرتے ھیں،، جب آپ کسی چیز کے مالک بن جاتے ھیں تو وہ چیز فوری طور پر آپکی نظر سے گر جاتی ھے، اس کے کرشمے آپ بچپن سے دیکھتے چلے آ رھے ھوں گے، کہ بچہ والدین کے کہنے پر کسی چیز کے دو ٹکڑے کر کے ایک ٹکڑا اپنے بھائی کو دیتا ھے،پھر جھٹ سے اس کے ھاتھ سے واپس لے کر دوسرا اس کو پکڑاتا ھے اور پھر وہ واپس لے کر پہلے والا پکڑا دیتا ھے، اس کے بارے میں پشتو زبان میں ایک کہاوت بھی بہت مشہور ھے کہ دوسرے کے ھاتھ کا ٹکڑا بڑا نظر آتا ھے،، یہی واردات بچے کے ساتھ ھوتی ھے، وہ کنفیوز ھو جاتا ھے،جب وہ ٹکڑا اس کے بھائی کے ھاتھ میں جاتا ھے اسے وہ بڑا لگنے لگ جاتا ھے !
    بازار جائیں سارا دن لگا کر بھی آپ ایک چشمہ یا جوتا پسند کریں،مگر ابھی اس کے پیسے بھی نہیں دیئے ھوتے کہ آپ کی نظر دوکان کی طرف اٹھتی ھے تو باقی گھڑیاں ،چشمے یا جوتے آپکی ملکیت والے سے خوبصورت نظر آتے ھیں اور آپ رک جاتے ھیں،ایک دفعہ پھر سب کو چیک کرتے ھیں،کبھی دکاندار سے پوچھتے ھیں کہ یار تم ھی بتا دو کونسا اچھا ھے،کیونکہ آپ فیصلہ نہیں کر پا رھے،،یہی حال خواتین کے ساتھ کپڑوں کے معاملے میں ھوتا ھے،،
    جونہی کوئی چیز آپکی ملکیت سے نکلتی ھے ، آپ کی نظر میں اھم ھو جاتی ھے، اس کو دیکھنے کا آپ کا زاویہ بدل جاتا ھے،، ایک بے کار کی گاڑی آپ بیچ کر فارغ ھوتے ھیں اور آپ کو وہ خوبصورت لگنے لگتی ھے،، بیوی کو طلاق دیتے ھی جونہی وہ ملکیت سے نکلتی ھے،، سوھنی اور معصوم لگنے لگتی ھے،، اپ کنکھیوں سے اسے دیکھتے ھیں،کہ یہ وھی ھے،، طلاق کے آدھے گھنٹے بعد مولوی صاحب کے دروازے پہ آتے ھیں تو یوں جھٹ سے باھر نکل کر اس کا دروازہ کھولتے ھیں جیسے امی جان لگتی ھیں،، sense of possession کا ختم ھونا تھا ،، اس کا آپ کے قبضے سے نکلنا تھا کہ وہ آپ کی محبوبہ ھو گئ ھے !
    کسی معمولی خرچے پہ جھگڑے کی بنیاد پر طلا ق ھو گئ،میاں بیوی دونوں برطانیہ کی پیدائش تھے اور جاب کرتے تھے،، دونوں ھی اعلی درجے کے کوالیفائڈ تھے،، میرے پاس آئے دوبارہ نکاح کرایا گیا،، پتہ ھے بیوی نے کتنا مانگا اور شوھر نے کتنا حق مہر دیا؟ ایک کروڑ بچاس لاکھ پاکستانی،، اس نے چیک لکھا میں نے خاتون کے ھاتھ میں دیا اور اس سے پوچھا کہ آپا جی اس کے اکاؤنٹ میں اتنا پیسہ ھے بھی؟ کہنے لگی اس سے زیادہ تو میرے اکاؤنٹ میں پڑا ھے،یہ تو اس کا ڈنر ھے ،، اس نکاح نامے کی کاپی میں نے کر کے رکھ لی تھی،، بہت سارے کاغذ ضائع کرتا رھتا ھوں،مگر جب وہ سامنے آتا ھے تو سائڈ پہ کر دیتا ھوں تا کہ اللہ کا شکر ادا کر سکوں کہ اس نے ھمیں کتنی قیمتی چیز کتنی سستی دے دی تھی !
    جو لوگ پیدائشی مسلمان ھیں انہیں شعورِ ملکیت کی وجہ سے اللہ کی قدر نہیں ،، گنہگار ھم بھی بہت ھیں،مگر گناھوں کی زندگی کے دوران بھی ذاتِ باری تعالی پر ایک لحظے کے لئے بھی کبھی شک نہیں ھوا، اور اس پر اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ھے !
    مگر جن کو یہ بیماری لگ جاتی ھے، یہ وھی جانتے ھیں کہ یہ کیا بلا ھے، جو شخص اس میں گرفتار نہیں ھوا وہ فتوی تو دے سکتا ھے،مگر ان کے درد کا احساس نہیں کر سکتا،، یہ بیماری کوئی خود کو نہیں لگاتا کیونکہ یہ آرام دہ نہیں سکون بخش نہیں بلکہ اذیت ناک اور کربناک مرض ھے،اس کا علاج ایک تو یہ ھے کہ کوئی اللہ والا جاگ لگا دے،اپنے جلتے چراغ سے ان کی شمع روشن کر دے،اپنی سٹارٹ گاڑی سے لیڈیں لگا کر ان کی گاڑی سٹارٹ کرا دے !
    یا یہ لوگ ٹھیک طور پر مطالعہ کر لیں،، ان کے یہاں خدا نام کی ایک کرپٹ فائل پڑی ھے، یہ جب بھی کچھ پڑھ کر خدا کے نام سے کچھ سیو کرنا چاھتے ھیں،، انہیں جواب ملتا ھے کہ خدا نام کی ایک فائل پہلے سے پڑی ھے اور یہ اسی پہلے والی کو ھی سیو رکھتے ھیں ،،حالانکہ وہ خالی فولڈر ھے،اس میں خدا نام کی کوئی فائل ھے ھی نہیں !
    یہ خدا کے نام کے ساتھ گھسٹتے پھر رھے ھیں یا اپنے ساتھ خدا کو گھسیٹتے پھر رھے ھیں،،یہ پہاڑ جتنی زندگی اور ھمالیہ جیسے امتحان اس خدا فریبی اور خود فریبی میں نہیں گزارے جا سکتے،، ایک دفعہ ھمت کر کے اس فولڈر کو صاف ھی کر دیں اور اللہ پر اپنا یہ احسان ختم کر دیں کہ اگرچہ وہ ھے نہیں مگر آپ نے احسان کر کے اسے اٹھا رکھا ھے،، اللہ پاک صاف صاف فرماتا ھے ،، قل لا تمنوا علی اسلامکم ،، ان سے کہہ دیجئے تم مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ چڑھاؤ،، اس کرپٹ فولڈر کو ڈیلیٹ کر دیں،، اور نئے سرے سے اللہ کی ھستی کو تلاش کریں،، وہ گوگل سرچ سے نہیں ملے گا وہ آپ کی اپنی ذات کی سرچ سے ملے گا،، اس سلسلے میں آپ ایک کتاب لے لیں،، ھمیں خدا کیسے ملا ؟ یہ ھر اسلامی مکتبے سے مل جائے گی،، یہ لوگ آپ کو بتائیں گے کہ وہ کیوں مسلمان ھوئے اور انہیں خدا کیسے ملا ! اس مطالعے کے دوران اور خدا کی تلاش میں آپ کا جو وقت بھی لگے گا وہ اگر آپ ٹھیک منزل پہ پہنچ گئے تو بہت قیمتی بکے گا، اس سوچ اور فکر کی ایک گھڑی 60 سال کی بے ریا عبادت سے زیادہ افضل ھے،، اس شک کی حالت میں کہ جس میں آپ مسلمان بنے مسلمانوں کے ساتھ گھسٹتے پھر رھے ھیں اگر آپکی موت آگئ تو یقین جانیں خسر الدنیا والآخرہ والی بات ھو گی،، خدا ھی ملا نہ وصال صنم والا معاملہ ھو جائے گا،جبکہ خدا کی تلاش میں اگر موت آگئ اور آپ اپنی تلاش میں صادق ھوئے تو شاید اللہ آپ پر رحم فرما دے،، وقت ضائع مت کیجئے اور خدا کو تلاش کیجئے،، ایک دفعہ قرآن کو اپنی ملکیت سے نکال کر ذرا پڑھ لیجئے،، اللہ کے وجود کے دلائل پڑھئے،، قانونی معاملات بعد میں دیکھے جائیں گے ! شاید اللہ کا انکار کر کے آپ کو اللہ کی قدر و قیمت کا احساس ھو جائے !
از: قاری حنیف ڈار
 

x boy

محفلین

  • غور و فکر کا مطالبہ اور ھماری غلط فہمی !

    خشتِ اول چوں نہ۔۔۔۔۔د معم۔۔ار ک۔۔ج !
    تا ث۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریا م۔۔۔ی رود دی۔۔۔۔وار ک۔۔۔ج !

    پہلی اینٹ اگر ٹیڑھی رکھی جائے گی تو یہ کجی آسمان تک دیوار کے ساتھ رھے گی بلکہ جوں جوں بلندی بڑے گی کج۔۔ی زیادہ نمایاں ھو گی !
    عربی شاعر کہتا ھے کہ میں نے آج تک ٹیڑھی لاٹھی کا سایہ سیدھا نہیں دیکھا ! جو لوگ ٹیڑھے عصا کے سائے کو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ھیں وہ زندگی ضائع کرتے ھیں،، ٹیڑھی سوچ والے کا عمل کبھی سیدھا نہیں ھو سکتا،، عمل درست کرنا ھے تو سوچ درست کرو !
    اللہ پاک نے قرآن حکیم میں جہاں بھی سوچنے کا حکم دیا ھے ،غور وفکر ،، تذکر و تدبر کا حکم دیا ھے ،وھاں کونی یعنی یونیورسل حقائق بیان کیئے ھیں اور ان سے ثابت کیا ھے کہ کائنات کا خالق ایک ھی ھے،، توحید پہ غور و فکر کا حکم بھی دیا ھے مشورہ بھی دیا ھے،، اور مطالبہ کیا کہ جب اس خالق و مالک و رازق و قیوم تک پہنچو تو پھر سرنڈر کر دو،، سب کچھ اس کے قدموں میں اپنی مرضی سے ڈھیر کر دو،، اس نے یہ نہیں فرمایا کہ عقل سے کام لے کر میرے قوانین پر اعتراض کرو اور مجھ سے قانون بنانے پر جواب طلبی کرو ! یفعل ما یشاء،،جو چاھتا ھے کرتا ھے،، لا یسئل عما یفعل،، جو کرتا ھے اس پر اس سے سوال نہیں کیا جا سکتا،، فعالٓ لما یرید،، جو چاھتا ھے کر گزرتا ھے !
    مجھے کیا بنانا ھے،کس کے گھر بنانا ھے،، مرد یا عورت بنانا ھے،، کس زمانے میں پیدا کرنا ھے،، ؟؟؟ یہ سارے فیصلے اس کے ھیں،، شکل و صورت اور بیماریاں یہ سب اس کے فیصلے ھیں،،میرے لئے بچا کیا ھے ؟ دو رستے،،من شاء فلیومن،، جو چاھے ایمان لے آئے،، و من شاء فلیکفر،، اور جو چاھے وہ انکار کر دے ،، ان دو کے علاوہ اور کوئی تیسرا رستہ نہیں ،، یہ ایک آپشن مل جانے کی وجہ سے میں ھلدی کی گانٹھ لے کر پنساری بن گیا ھوں،،
    اگر میں ایمان کا رستہ اختیار کرتا ھوں تو یہ میرا فائدہ ھے اللہ کا کوئی فائدہ نہیں،، اگر کوئی کفر کا رستہ اختیار کرتا ھے تو یہ اس کا ذاتی نقصان ھے، اللہ پاک کا کوئی نقصان نہیں ھے،، اس نے فرما دیا کہ اے آدم کی اولاد تمہارے اگلے جو گزر گئے اور پچھلے جو آنے والے ھیں وہ سب ایک متقی ترین شخص کے دل کی مانند ھو جائیں تو میرا کوئی فائدہ نہیں ،، اور اگر تم اور تمہارے اگلے پچھلے سارے فاسق ترین شخص کے دل کی مانند ھو جائیں تو میرا کوئی نقصان نہیں،، یاد رکھو تم میرا نفع اور نقصان کرنے کے مقام تک نہیں پہنچے،،
    یہ تمہارے اعمال ھیں جن کو میں سمیٹ سمیٹ کر رکھتا ھوں،، اگر ان میں خیر پاؤ تو میرا شکر ادا کرنا،، اور اگر ان میں شر پاؤ تو اپنے آپ کو ملامت کرنا !
    اگر اسے ڈر ھو کہ کافروں کی تعداد بڑھ جانے سے میری بادشاھی میں کوئی کمی واقع ھو جائے گی تو وہ روز لاکھوں کی تعداد میں کافروں کے گھروں میں بچے کیوں پیدا کرے؟ اور لاکھوں مسلمانوں کو مرنے کیوں دے؟ بس وہ یہی پالیسی اپنا لے کہ کافروں کے یہاں اولاد روک لے اور مسلمانوں کا مرنا روک دے تو دس سالوں میں مسلمانوں سے دنیا بھر جائے ،، مگر اسے اس چیز کی ذرا پرواہ نہیں،، اس کی بے نیازی کو دیکھو تو کپکپی طاری ھو جاتی ھے،،
    صوفی شاعر کہتا ھے !
    کیہہ بھروسہ اے اس اشنائی دا !
    ڈر لگ۔۔۔۔دا اے بے پرواھ۔۔۔۔۔۔۔ی دا !
    کس طرح احد میں نبیﷺ کے پیارے شہید ھونے دیئے؟ کس طرح سجدے میں نبیﷺ کی پشت پر سواری کرنے والا میدان کربلا میں تہہ تیغ کر دیا گیا ؟ جسے لڑکھڑاتے دیکھ کر نبیﷺ جمعے کا خطبہ چھوڑ کر لپکے،وہ جب زخمی ھو کے گھوڑے سے گرا تو کچھ نہ ھوا،، کس طرح دعاؤں اور منتوں سماجتوں سے مانگا گیا یحی علیہ السلام عین قربان گاہ کے سامنے سر اتار کر خوان میں رکھ کر ناچنے والی کو تحفے میں دے دیا گیا،،؟ اور ادھر بڑی سرکار کو پرواہ ھی نہیں،، کس طرح زکریا علیہ السلام کے سر پر جب آرا رکھا گیا اور ان کے منہ سے " سی " کی آواز نکلی تو فرمایا اگلی سسکی نکلی تو نبیوں میں سے نام کاٹ دوں گا،، کیا بے نیازی ھے،، جو لوگ سمجھتے ھیں کہ ان کے ارتداد سے آسمانوں پر ھلچل مچ جائے گی،، واللہ وہ اپنے کو بڑی چیز سمجھتے ھیں،،
    وہ جو چاھتے ھیں کہ رب ان سے شملہ مزاکرات کرے ،،پھر کچھ ان کی مانے اور کچھ اپنی منوائے،، پھر ھم اس کو رب مانیں گے ! گندے پانی میں تیرنے والے دمدار کیڑے نے بڑے دور کی سوچی ھے،، اس نے بغیر مزاکرات تیری ماں کا نکاح کسی سے کرا دیا،تجھے جس گھر اور قوم میں چاھا بغیر مزاکرات پیدا فرما دیا،، شکل و صورت کا تعین کرنے کے لئے تیرے ماں باپ سے کلوز ڈور میٹنگ نہیں رکھی،، کل تک اپنے اوپر پیشاب کر دینے والا چاھتا ھے کہ اللہ اس سے مشورے کر کے قانون بناتا ، سبحان اللہ ،، اللہ پاک نے پہلی سورت میں ھی بتا دیا تھا کہ میں نے انسان کو علق سے پیدا کیا،، وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا، اور جب وہ سیکھ گیا تو ،، بغاوت پر اتر آیا،،ان الانسان لیطغی،، کیوں باغی ھوا ؟،، ان راہ استغنی،، کیوں کہ اس نے دیکھا کہ فوری گرفت کوئی نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں !
    وہ خالق ھے وہ مالک ھے سب کچھ اس کا ھے، ھمارے سجدے قبول کر لے اس کی مہربانی ھے، اٹھا کر پھینک دے تو اس کا حق رکھتا ھے،، ھمارا کام ھے سجدے کرتے جانا ھے،،اس کا حق ھے کہ چاھے تو قبول کرے چاھے تو اٹھا کر پھینک دے،، ھمارے سجدے اس کے شایانِ شان ھیں کب؟ کسی بادشاہ کو کاسیو گھڑی 33 درھم کی پیش کر کے قبولیت کا مطالبہ کرنے کا کیا حق بنتا ھے ،یہ تو بادشاہ کی توھین ھو گئ ھے،، اس کے ساتھ مذاق ھو گیا ھے !
    میاں محمد صاحب نے کیا پیاری بات کی ھے !

    جنہاں ص۔۔۔۔رافاں اگے رُل۔دے لعل جواھ۔۔۔۔۔ر پَنے !
    کچے من۔۔۔۔۔۔کے ویک۔ھ اساڈے کد انہاں دل منے !

    یعنی جس بادشاہ کے آگے پیغمبروں کے سجدوں کے ڈھیر لگے ھوں ،، سچے لعل موتی رُل رھے ھوں،،وھاں ھمارے کچے منکے کوئی کیوں دیکھے گا ؟ وہ بھلا ان سجدوں کو قبول کرنے پر کیوں راضی ھو گا، پھر فرماتے ھیں کہ ان سجدوں کو تو رو رو کر ھی قبول کروایا جا سکتا ھے ! احسان جتلا کر نہیں !!
    یہ پیدائشی مسلمان ،ذرا ذرا سی بات پر اللہ سے حساب کتاب مانگنا شروع ھو گئے ھیں،، اگر وہ ھر چیز پر قادر ھے تو یہ کیوں نہیں کر دیتا،،وہ کیوں نہیں کر دیتا،، یہ بات نبیﷺ نہیں کہہ سکتے تھے کہ اللہ تو تو ھر چیز پر قادر تھا، تو ھی حمزہ کے بدن کے ٹکڑے ھونے سے بچا لیتا،، تو ھی سمیہؓ اور یاسر ؓ کو بچا لیتا،، عثمانؓ شہید نہ ھوتے،، عمرؓ اور علیؓ کی شہادت کو ھی اللہ نہیں ٹال سکتا تھا؟ عشرہ مبشرہ کے زبیرؓ نبی کے حواری تھے مگر سجدے میں سر کاٹ لیا گیا،، حضرت طلحہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے،، وہ بھی اسی طرح نماز میں شہید کئے گئے،، مگر صحابہؓ میں سے تو کسی نے بھی اللہ کی قدرت پر نہ سوال اٹھایا نہ کافر ھو جانے کی دھمکی دی،،،
    ھمارے علماء نے لوگوں کے دین سے پھر جانے پر پابندی لگا کر نادرا کے مسلمانوں کی تعداد کو تو قابو میں رکھا ،،مگر معاشرے کو منافقوں سے بھر دیا ھے ،جنہوں نے حقیقی مسلمانوں کے عمل کو بھی بے اثر کر کے رکھ دیا ھے ،
  • از: قاری حنیف ڈار
 

x boy

محفلین
ایک بدو نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حشر میں حساب کون لے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اللہ " بدو خوشی سے جھوم اٹھا اور چلتے چلتے کہنے لگا بخدا تب تو ھم نجات پا گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیسے ؟ اس نے عرض کیا " کریم جب قابو پا لیتا ھے تو معاف کر دیتا ھے " بدو چلا گیا مگر جب تک نظر آتا رھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جملہ دھرا کر فرماتے رھے،، قد وجد ربہ ،، قد وجد ربہ!! اس نے رب کو پہچان لیا،، بدو اپنے رب تک پہنچ گیا !!
 

x boy

محفلین
مشت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ری ھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ار باش !!!

آج کل ھونے والے دس رشتوں میں سے ایک رشتہ نامرد نکل رھا ھے !
اور دو رشتے نامرد تو نہیں مگر بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم !

نامردوں کے چنگل میں پڑھی لکھی بچیاں سسک رھی ھیں،، چار تو ایم بی بی ایس لیڈی ڈاکٹر میرے علم میں ھیں،، برادری چھوڑ کر باھر رشتہ کرنے کے شرم سے اب کچھ کہہ بھی نہیں سکتیں،، کہ برادری میں بدنامی ھو گی،، لڑکوں کا جاب تو دیکھا گیا کہ اچھی جاب ھے،، شکل و صورت بھی اچھی ھے ،
کوئی بتا سکتا ھے اس کا کیا علاج ھے ؟ پہلے سے میڈیکل کرایا جائے تو بانجھ مرد کا تو پتہ چل جاتا ھے،مگر مردانگی کا پتہ نہیں چلتا،، لڑکے ھاتھ آئی مرغی نکلنے نہیں دیتے،، مقدمہ کرو تو لڑکی رسوائی سے ڈرتی ھے،،
جو بانجھ مرد ھیں ان کے یہاں اولاد نہ ھونے سے وہ عورت سے شرمندہ ھیں جو کہ ڈیپریشن میں تبدیل ھوتی جا رھی ھے،، وہ گھر سے بھاگے رھتے ھیں ،عورت سے چھپتے پھرتے ھیں،، احسان تلے کرش ھو کر نیم پاگل ھو چکے ھیں،، ادھر عورت اولاد سے بھی محروم اور شوھر کے پیار سے بھی محروم،، وہ گھر میں بدروح کی طرح چکر کاٹ کاٹ کر نیم پاگل ھو جاتی ھے،، پھر کہتی ھیں قاری صاحب کوئی دم ،،کوئی وظیفہ ؟

شریعت اس کا علاج بتاتی ھے جو عورت کو عدالتوں کی ذلالت اور رسوائی سے بچاتا ھے ! کہ نکاح نامے میں حقِ طلاق عورت کو تفویض کر دیا جائے ! یوں اگر مرد نامرد ثابت ھوتا ھے تو عورت خود کو نوٹس طلاق جاری کر سکتی ھے جو متعلقہ یونین کونسل میں جمع کرا دیا جائے گا،، امارات کی کورٹ میں بھی نکاح کے وقت پوچھا جاتا ھے کہ حق طلاق تفویض کیا گیا ھے یا نہیں ،، نیز پاکستانی نکاح نامے کا باقاعدہ یہ ایک کالم ھے جسے ھمارے نکاح خواں گھر سے ھی کاٹا مار کر لاتے ھیں،،جبکہ پورا نکاح نامہ پڑھ کر سنانا چاھیئے تا کہ دولہا دلہن میں اپنے حقوق کا واضح تعین ھو جائے،، میں نے گیارہ سال اس سلسلے میں پاکستانی عدالتوں کے دھکے کھانے کے بعد ، اور یونین کونسل سے سپریم کورٹ تک مقدمے لڑنے کے بعد اس شق کو عورت کے حق میں سب سے زیادہ کار آمد پایا ھے،،
ایک تو مرد حضرات دن رات کے جس پہر میں چاھئیں کوئی سننے والا ھو یا نہ ھو ،جس طرح فوراً ون ٹو تھری کر دیتے ھیں ، عورت اس طرح نہ کرتی ھے نہ کر سکتی ھے،، وہ اپنے حق کو بطور پوسٹیڈ چیک متعلقہ اتھارٹی کے سامنے پیش کر دیتی ھے،جس کے نتیجے میں قانونی پہیہ حرکت میں آ کر لڑکی کے گھر ھی مصالحتی عدالت لگا کر فیصلہ کر دیتا ھے !! اسےکہیں جا کر گھنٹوں باھر دھوپ میں کچی زمین پر بیٹھ کر بھری کچہری میں تماشہ نہیں بننا پڑتا !
مراسلہ از: قاری حنیف ڈار صاحب دبئی
 

x boy

محفلین
یار !یہ جو’’ نان سیریس‘‘ قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔یہ عجیب ہوتے ہیں ۔یہ اکثر ہنستے اور ہنساتے نظر آتے ہیں ۔بہت مرتبہ ان کی زندگی پر رشک آنے لگتا ہے۔یوں لگتا ہے انہوں نے دکھ غم قسم کی چیز کبھی دیکھی ہی نہیں۔لیکن ایسا ہے نہیں...یہ سطحی دکھائی دینے والے لوگ ہوتے بڑے گہرے ہیں۔آپ کبھی کسی ’’نان سیریس‘‘ شخص کو اعتماد میں لیجیے۔اُسے کسی پُرسکون جگہ بٹھا کر کریدیے ۔اوّل تو وہ آپ کے سوالوں اور اس کی ذات میں آپ کی دلچسپیوں کو اپنی مسکراہٹوں میں اُڑائے گا۔وہ اپنی عادت کے مطابق آپ کو لطیفوں ،قصّوں میں اُلجھا کر دامن چھڑانے اور رسی تُڑانے کی کوشش کرے گا۔ وہ یہ باور کرانے پر اصرار کرے گا کہ اس نے آپ کی بات کا نوٹس ہی نہیں لیا ۔ تجاہلِ عارفانہ کا سہارا لے گا۔آپ ڈٹے رہیے ۔کچھ دیر بعد وہ آپ کے سامنے ہتھیار ڈال دے گا ...وہ آپ کو ان گنت قہقہوں اور بے شمار مسکراہٹوں کے نیچے دبے وہ دُکھ نکال نکال کر دکھائے گا ۔ ۔ ۔وہ ہرزخم کی الگ داستان سنائے گا ۔وہ آپ کو زندگی کے بے شمار سبق سمجھائے گا ۔تھوڑی دیر کے لیے آپ حیران ضرور ہوں گے ۔ مگر جان جائیں گے کہ زندگی کسی ایک صدمے،کسی ایک دکھ،کسی ایک محرومی کے بوجھ تلے عمر گزار دینے کا نام نہیں ۔تکلیف دہ واقعات کا سامنا کون نہیں کرتا۔انسان کو اندر سے توڑ کر رکھ دینے والے سانحات کس کے ساتھ پیش نہیں آتے۔لیکن زندگی اپنے چہرے کو ہر وقت دکھوں ،محرومیوں ،غموں کی آرٹ گیلری بنائے رکھنے کا نام نہیں۔زندگی اپنے کو کسی ایک صدمے کی بھٹی میں جھونک دینے کا نام نہیں۔زندگی روتے رہنے کا نام نہیں ۔ یہ’’ نان سیریس‘‘ کہلائے جانے والے لوگ زندگی کے سب سے بڑے استاد ہیں ۔یہ گِر کر دوبارہ ایک نئے ولولے سے اُٹھنا سکھاتے ہیں۔ یہ ٹوٹ کر بکھر جانے واالے دل کی کرچیاں اکٹھی کر پھر سے جوڑننا سکھاتے ہیں۔یہ سکھاتے ہیں کی غم سے مر جانے والا دل دوبارہ کیونکر جِلایا جا سکتا ہے۔یہ بلا کے خوددار ہوتے ہیں۔ اپنے غم کو کسی کے حرفِ تسلّی کے عوض ہر گز نہیں بیچتے۔یہ ہنستے ہیں اور ٹوٹ کر ہنستے ہیں ۔ بے پناہ ہنستے ہیں۔ان کے قہقہے ان کے ناتوان ہو جانے والے جذبوں کو ایک نئی توانائی بحشتے ہیں۔یہی وجہ ہے یہ’’ نان سیریس‘‘ لوگ زندگی گھسیٹتے نہیں گزارتے ہیں ۔ہاں گزارتے ہیں ۔یہ کسی ایک حادثے کوکبھی اتنا سرکش نہیں ہوتے دیتے کہ وہ انہیں گزار دے..
 

x boy

محفلین
یار !یہ جو’’ نان سیریس‘‘ قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔یہ عجیب ہوتے ہیں ۔یہ اکثر ہنستے اور ہنساتے نظر آتے ہیں ۔بہت مرتبہ ان کی زندگی پر رشک آنے لگتا ہے۔یوں لگتا ہے انہوں نے دکھ غم قسم کی چیز کبھی دیکھی ہی نہیں۔لیکن ایسا ہے نہیں...یہ سطحی دکھائی دینے والے لوگ ہوتے بڑے گہرے ہیں۔آپ کبھی کسی ’’نان سیریس‘‘ شخص کو اعتماد میں لیجیے۔اُسے کسی پُرسکون جگہ بٹھا کر کریدیے ۔اوّل تو وہ آپ کے سوالوں اور اس کی ذات میں آپ کی دلچسپیوں کو اپنی مسکراہٹوں میں اُڑائے گا۔وہ اپنی عادت کے مطابق آپ کو لطیفوں ،قصّوں میں اُلجھا کر دامن چھڑانے اور رسی تُڑانے کی کوشش کرے گا۔ وہ یہ باور کرانے پر اصرار کرے گا کہ اس نے آپ کی بات کا نوٹس ہی نہیں لیا ۔ تجاہلِ عارفانہ کا سہارا لے گا۔آپ ڈٹے رہیے ۔کچھ دیر بعد وہ آپ کے سامنے ہتھیار ڈال دے گا ...وہ آپ کو ان گنت قہقہوں اور بے شمار مسکراہٹوں کے نیچے دبے وہ دُکھ نکال نکال کر دکھائے گا ۔ ۔ ۔وہ ہرزخم کی الگ داستان سنائے گا ۔وہ آپ کو زندگی کے بے شمار سبق سمجھائے گا ۔تھوڑی دیر کے لیے آپ حیران ضرور ہوں گے ۔ مگر جان جائیں گے کہ زندگی کسی ایک صدمے،کسی ایک دکھ،کسی ایک محرومی کے بوجھ تلے عمر گزار دینے کا نام نہیں ۔تکلیف دہ واقعات کا سامنا کون نہیں کرتا۔انسان کو اندر سے توڑ کر رکھ دینے والے سانحات کس کے ساتھ پیش نہیں آتے۔لیکن زندگی اپنے چہرے کو ہر وقت دکھوں ،محرومیوں ،غموں کی آرٹ گیلری بنائے رکھنے کا نام نہیں۔زندگی اپنے کو کسی ایک صدمے کی بھٹی میں جھونک دینے کا نام نہیں۔زندگی روتے رہنے کا نام نہیں ۔ یہ’’ نان سیریس‘‘ کہلائے جانے والے لوگ زندگی کے سب سے بڑے استاد ہیں ۔یہ گِر کر دوبارہ ایک نئے ولولے سے اُٹھنا سکھاتے ہیں۔ یہ ٹوٹ کر بکھر جانے واالے دل کی کرچیاں اکٹھی کر پھر سے جوڑننا سکھاتے ہیں۔یہ سکھاتے ہیں کی غم سے مر جانے والا دل دوبارہ کیونکر جِلایا جا سکتا ہے۔یہ بلا کے خوددار ہوتے ہیں۔ اپنے غم کو کسی کے حرفِ تسلّی کے عوض ہر گز نہیں بیچتے۔یہ ہنستے ہیں اور ٹوٹ کر ہنستے ہیں ۔ بے پناہ ہنستے ہیں۔ان کے قہقہے ان کے ناتوان ہو جانے والے جذبوں کو ایک نئی توانائی بحشتے ہیں۔یہی وجہ ہے یہ’’ نان سیریس‘‘ لوگ زندگی گھسیٹتے نہیں گزارتے ہیں ۔ہاں گزارتے ہیں ۔یہ کسی ایک حادثے کوکبھی اتنا سرکش نہیں ہوتے دیتے کہ وہ انہیں گزار دے..
 

x boy

محفلین
دعا آپ جانتے ھیں اسلام میں ایک مستقل عبادت ھے بلکہ وہ ھر عبادت کا جوھر ھے بلکہ وہ ھی عبادت ھے،،یہ تین اصطلاحات جو میں نے استعمال کی ھیں پہلی قرآن نے استعمال کی ھے،و قال ربکم ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن "عبادتی" سیدخلون جہنم داخرین،، اور تمہارا رب کہتا ھے مجھے پکارو میں تمہاری دعا پوری کرتا ھوں ،یقیناً جو لوگ میری "عبادت" سے یعنی دعا سے تکبر کرتے ھیں وہ عنقرب ذلیل ھو کر جہنم میں داخل ھونگے ،،، جبکہ دوسری دو نبی کریمﷺ نے احادیث میں استعمال فرمائی ھیں،،الدعاءُ مُخ العبادہ اور الدعا ھو العبادہ ! اس لیئے میرے لیئے دعا لینے دینے سے اوپر کی چیز ھے،، جس طرح نماز ھمیں ھر حال میں پڑھنی ھے چاھے تقدیر تبدیل ھو یا نہ ھو،، بیماری دور ھو یا نہ ھو،، غریبی دور ھو یا نہ ھو ، اولاد ملے یا نہ ملے،، نماز ھر حال میں پڑھنی ھے وہ فرض ھے،،اسی طرح دعا فرض ھے وہ تو ھر حال میں کرنی ھے،، یہ ھماری مجبوری بھی ھے اور رب کا حکم بھی ! یہ اصولی بات عرض کرنے کے بعد گزارش ھے کہ جی ھاں جب وھاں دعا قبول ھو جاتی ھے تو پھر زمین پر اسباب کی گراری چلنا شروع ھو جاتی ھے اور جس طرح فلائٹس کی روانگی کے بعد ائیر پورٹ پر لگے شیڈول کے بورڈ میں ٹھکا ٹھک شروع ھو جاتی ھے،پرانی فلائٹس کا نام غائب اور نئ فلائٹس کا ڈسپلے ھو جاتا ھے،، اھلِ نظر اسباب کی تبدیلی کے چکے کے چلتے ھی سمجھ جاتے ھیں کہ کام ھو گیا ،،بعض کام جائز ھوتے ھوئے بھی بتانا ناجائز ھوتا ھے،جیسے میاں بیوی کا تعلق،، اللہ کے ساتھ تعلق کے بعض راز بتانا شاید مناسب نہ ھو،،مگر ھم نے یوں معاملات کو ھوتے دیکھا ھے کہ کوئی مان کر نہ دے ،، ھم نے ایسے بھی دیکھا ھے کہ جیسے اللہ پاک نے کان سے پکڑ کر کسی سے کام کرائے ھیں،،انسان تو انسان ھم نے مشین کو بھی اللہ کے ھاتھوں مجبور ھوتے دیکھا ھے !
 

x boy

محفلین
بڑا بھائی !

آپ شاید سمجھے ھوں کہ میں کراچی کی بات کرنے لگا ھوں، ایسا نہیں ھے بلکہ میں اس مظلوم مخلوق کی بات کرنا چاھتا ھوں جو ھر مذھب میں بکثرت پایا جاتا ھے،، اور اس کے معدوم ھونے کے امکانات بالکل نہیں ھیں ! بلکہ ھر ماں کوشش کر کے پہلے بڑا بھائی ھی پیدا کرتی ھے چاھے دیر سویر ھو جائے مگر یہ بڑا بھائی پیدا ھونے سے انکار نہیں کر سکتا !
بڑے بھائی کی سب سے زیادہ اھمیت ھندو مذھب میں ھوتی ھے، جو کراؤن پرنس ھوتا ھے، والد کی ارتھی کو آگ بھی وھی دیتا ھے اور اس کے بعد باپ کی ساری منقولہ و غیرمنقولہ جائداد کا وارث بھی وہی اکیلا ھوتا ھے، باقی سارے بھائی بہن لیگ بائی کے ھوتے ھیں،، وہ سب بھائی بہنوں کی ذمہ داری اٹھاتا ھے،چونکہ دوسرے بھائیوں اور بہنوں کو جائداد میں سے دھیلا نہیں ملتا لہذا قانوناً بھی اور اخلاقاً بھی بہنوں کو جہیز وغیرہ دینا اور بیاھنا اسی کی ذمہ داری بنتی ھے،پھر گھر بار بھی چونکہ اسی کو ملتا ھے لہذا لازماً دوسرے بہن بھائیوں کو رھنا بھی اس کے ساتھ ھی ھوتا ھے،،یوں بھان متی کا کنبہ بنتا ھے جو بہت مشہور ھے !

جب ھمارے باپ دادا نے مغلوں کے گھوڑں کو دانہ پانی کھلاتے پلاتے اور ان کی مٹھی چاپی کرتے کرتے اچانک مسلمان ھونے کا فیصلہ کیا تو وہ ھندو بڑا بھائی بھی ساتھ لے آئے اور مسلمان بڑا اور ھندو بڑا بھائی ملا کر مظلوم بڑا بھائی تخلیق کیا ! ھندوؤں کا بڑا بھائی تو تمام خدمات کے عوض ساری جائداد کا مالک بنتا تھا ،،مگر مظلوم بڑا بھائی وہ ساری خدمات بجا لاتا ھے جو ھندو بڑا بھائی بجا لاتا تھا،یعنی وہ بہن بھائیوں کی فوج بھی پالتا ھے،بہنوں کو بیاھتا بھی ھے،جہیز بھی دیتا ھے،چھوٹے بھائیوں کو پالتا بھی ھے ،خود ان پڑھ رہ کر ان کو پڑھاتا بھی ھے، اگرچہ اس کی وجہ سے اس کی اپنی اولاد ان پڑھ رہ جائے،ان کو کاروبار سیٹ کر کے دیتا ھے،، ان کو الگ مکان بنا کر دیتا ھے،وہ سارے ایک ایک کر کے پھُر کرتے جاتے ھیں ،البتہ بڑے کو الگ ھونے کی اجازت نہیں اور نہ ھی بڑے کی بیوی اس چڑیا گھر سے نکل سکتی ھے، وہ اپنے سامنے اپنے بچوں کے منہ کا نوالہ چھن کر دوسروں کے منہ میں جاتا دیکھتی ھے مگر کر کچھ نہیں سکتی ،اس سے طاقتور تو مرغی ھے جو اپنے بچوں کی خاطر اپنے مالک پر بھی جھپٹ پڑتی ھے،، جب یہ سارے بیاھے جا چکے ھوتے ھیں ،اپنی اپنی حوریں لے کر سیٹل ھو جاتے ھیں،، ان کے بچے پڑھ جاتے ھیں،وہ دھرم پورے سے بحریہ ٹاؤن منتقل ھو جاتے ھیں تو ،،، بڑے بھائی سے حساب کتاب کرنے پہنچ جاتے ھیں،، جائداد تقسیم کر لی جاتی ھے،مکان جس میں ان کو پالا گیا تھا، وہ بڑا جو بیوی کے بار بار کہنے پر الگ مکان نہیں لے رھا تھا،، گن پؤائنٹ پر اس مکان سے اس طرح نکالا جاتا ھے کہ اس کے پاس رات کو سونے کے لئے بستر تک نہیں ھوتا،،پڑوسی ترس کھا کے بستر دیتے ھیں اور وہ کرائے کے مکان میں شفٹ ھو جاتا ھے ، چھوٹے بہن بھائیوں کا ایک جتھہ ھوتا ھے ،وہ آپس میں ھی رشتے ناتے کرتے ھیں بڑے کے بچے نہ کوئی کرتا ھے نہ دیتا ھے کیونکہ وہ ان پڑھ ھیں،،
ھم نے تو وہ بڑے بھی دیکھے ھیں جنہوں نے بھائیوں کو بلایا لاکھوں درھم لگا کر جیولری کی دکانیں ڈال کر دیں بھائی وہ دکانیں بڑے ھوٹلوں میں ناچنے والیوں پر وار کر گھر سدھار گئے، پاکستان میں ان کے بچے بھی بڑا پالتا رھا،مرغی خانے بھی ڈال کر دیئے اور جب پاکستان گیا تو تنیوں چھوٹے بھائیوں نے اس کو پکڑ کر لمبا ڈال کر خوب پھینٹی لگائی اور والدین بھی چھوٹوں کے ساتھ تھے ! اصل ظلم یہی ھوتا ھے کہ جن کی دعاؤں کے لئے بڑا بھائی یہ سب کچھ کرتا ھے وہ جب بھی کوئ کرائسس پیدا ھوتا ھے تو انصاف کرنے کی بجائے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ھوتے ھیں اور بڑے کو بدعائیں دیتے ھیں، گویا خدا ھی ملا نہ وصالِ صنم ! یہ تو پنجابی مظلوم بھائی تھا !
پٹھان بڑا بھائی تو اور بھی زیادہ مظلوم ھوتا ھے !
ایک تو ان میں دو دو شادیاں کرنے کا بہت رواج ھوتا ھے،نتیجہ ظاھر ھے،بہن بھائی بھی بہت سارے ھوتے ھیں مگر ستم بالا ستم یہ ھے کہ وہ تینوں ماؤں سے پیدا ھونے والوں کا بڑا بھائی ھوتا ھے،، وہ پردیس میں کماتا ھے اور گانے سن سن کر جوانی گزار دیتا ھے،، چار پانچ سال بعد گھر جاتا ھے،، پیچھے چھوٹے بھائی چرس پیتے اور بیچتے ھیں،، کبھی موڈ ھوا تو قتل بھی کر دیتے ھیں،، اس بھائی کا کام ان کی ڈالی ھوئی دشمنیاں بھگتانا اور مقدمے لڑنا ھوتا ھے،،اگر پیسہ دے کر قتل کرانا ھو تو بھی پیسہ اسی کو بھیجنا ھوتا ھے کیونکہ یہ بڑا ھے ! اس دوران جو بھی جائداد خریدی جاتی ھے وہ ابا جی کے نام خریدی جاتی ھے،یوں ابا جی کا زیادہ تر کام نئ شادیاں کرنا ھی ھوتا ھے،کیونکہ قربانی کا بکرا جو ملا ھوا ھے۔،، ایک صاحب ناوقت تشریف لائے، اس قسم کے مہمانوں پہ غصہ تو بہت آتا ھے کہ آپ گاڑی کے نیچے گھسے آئل تبدیل کر رھے اور سر منہ تیل میں بھرا ھے اور باھر ٹنا ٹن بیل بج رھی ھے،مگر کیا بھی کچھ نہیں جا سکتا کیونکہ اسپتال اور مولوی کا گھر تو ایمرجینسی سروسز میں شامل ھیں،، پتہ نہیں کون کس لمحے کیا کر بیٹھے؟؟ جن دوستوں کی طرف سے مسائل زیادہ آتے ھیں میں انہیں رمضان میں مسیج کر کے پوچھ لیتا ھوں کہ کسی ایمرجینسی کا پروگرام تو نہیں میں سونے لگا ھوں ! خیر وہ بھائی بتانے لگے کہ " یارا قیری صاحب ھمارا ایک مسئلہ ھے، ھمارا باپ ھے یارا وہ پاگل ھو گیا ھے ! عرض بھائی جان اسپتال لے جائیں،فرمانے لگے وہ والا پاگل نہیں،، ھمارا ماں فوت ھو گیا تو ھم باپ کو بولا کوئی بڑا عمر کا عورت سے شادی کرو،، تمہارا بھی کام چلے گا،بچہ بھی پیدا نہیں کرو،مگر یارا وہ ھمارا بہن سے بھی چھوٹا بیوی لے کر آ گیا،، ابھی ھم بڑا بھائی ھے ھم نے 6 اپنا بہن بھائی پالا ھے ھم کو تیس سال ادھر ھو گیا ھے،، ایک بہن ھے پانچ بھائی،، ابھی باپ نے 7 دوسرا سے پیدا کیا،، چلو ھم نے وہ بھی پالا،ابھی ھمارا سر دیکھو ،، انہوں نے اپنے سر سے پرنا ھٹایا تو دروازے کے آگے روشنی دگنی ھو گئ ،، جناح ٹرمینل کے رن وے کی طرح لش لش کرتا سر تھا،، ابھی ھمارا یہ حال ھو گیا،،ھمارا نوکری ختم ھے،، ھمارا باپ بولتا ھے تمہارا جو گریجویٹی تم کو ملا ھے اس کو بھی سب میں بانٹو یا ادھر گھر میں واپس نہیں آؤ،،ساتھ وہ دو سوتیلے بھائی بھی لے کر آیا ھوا تھا،، تا کہ حکم شرعی وہ بھی سن لیں،، میں نے کہا کہ جو جائداد آپ باپ کے نام لگا چکے ھیں اس میں تو سارے حصہ دار ھیں،، اگرچہ یہ باپ کے نام نہیں لگنی چاھئے تھی،، لیکن آپ کے اس پیسے پر جو آپ کو سروس ختم ھونے پر ملا ھے،تمہارے باپ یا تمہارے بہن بھائیوں کا کوئی حق نہیں ھے !

اسلام اور بڑا بھائی !
اسلام میں سارے بھائی برابر ھیں ،چھوٹے بڑے کی کوئی تفریق نہیں سوائے احترام کے کہ بڑا بھائی احترام میں والد کی جگہ رکھتا ھے، بچے پالنے میں والد کا ھاتھ بٹانا چاھئے اور سب بھائیوں کو یہ کام کرنا چاھئے کہ جو بھی کام پر لگتا جائے اپنا حصے کا بوجھ اٹھائے، اس دوران اگر بڑے کی شادی ھو جاتی ھے تو اب وہ والدین کی خدمت اور مدد کرے گا ،مگر بچ بچا کر،پہلے اپنے بچوں کی سوچ سوچے گا پھر کسی دوسرے کی سوچ سوچے گا،، وہ والد صاحب کے نان نقے کا ذمہ دار ھو سکتا ھے،مگر اپنے بچوں کی خیال کرتے ھوئے ان کے تعلیمی اخراجات کے ساتھ !
والد کی وفات کے بعد جائداد سب بہن بھائیوں میں حسبِ شریعت تقسیم کر کے سب کو فارغ کر دینا چاھئے چاھے وہ لاکھ ھو یا ھزار ھو یا سو روپیہ،، قل منہ او کَثُر ،، قرآن کہتا ھے تھوڑی ھے یا زیادہ مگر تقسیم کرو،، تقسیم کے بعد سارے اپنا مقدر آزمانے نکل جائیں کوئی امیر ھو جاتا ھے تو یہ اس کا مقدر ھے کوئی غریب رھتا ھے تو اپنا مقدر،،کوئی محل بناتا ھے تو اس کا مقدر کوئی جھونپڑی میں رھتا ھے تو اس کا مقدر مگر کِھنڈ پُھنڈ جاؤ،، بہن بیاھنی ھے تو جس طرح جائداد میں سارے وارث تھے اس بوجھ کو بھی سارے مل کر اٹھاؤ،،، بھائی جوان ھو گیا ھے تو کمائے اور شادی کے لئے جمع کرے،،بڑا بھائی کسی کی شادی کا ذمہ دار نہیں !
سب سے بری حالت بڑی بھاوج کی ھوتی ھے،وہ کہیں آ جا بھی نہیں سکتی،، شوھر دبئ سے یا سعودیہ سے چھٹی آیا ھے تو کہیں گھومنے بھی نہیں جا سکتے کہ ساتھ پوری فیملی لے کر جانا ھو گا،، وہ صاحب فرماتے ھیں کہ اگر جاؤں گا تو سارے بھائیوں کی بیویاں ساتھ لے کر جاؤنگا،، بھائی جان وہ پیچھے اپنی بیویوں کے ساتھ گھومتے پھرتے رھے ھیں ،، اکیلی تو تیری ڈو ڈو کرتی پھرتی رھی ھے،، اب اگر چار دن تو ذرا اسے اور بچوں کو باھر لے کر نکل جائے گا تو اسلام کو کوئی خطرہ نہیں،،اپنے بچوں کے لئے کچھ نہیں لیں گے،کیونکہ یا تو میں سارے بھتیجے بھتیجیوں اور بھانجوں بھانجیوں کے لئے لوں گا اگر اس کی استطاعت نہیں تو پھر میں اپنے بچوں کے لئے بھی کچھ نہیں لونگا،،یوں دوسروں کے جرائم کی سزا اپنی اولاد کو دینا،، اس کے نتیجے میں ایسا باپ اپنی اولاد کی نظر میں بھی دشمن،، بیوی کی نگاہ میں بھی مجرم اور آخرکار جب بھائیوں کی طرف سے بھی جواب ملتا ھے تو کسی طرف کا نہیں رھتا،پھر چلتے پھرتے دورے پڑتے رھتے ھیں اور دیواروں سے باتیں کرتے ھیں !
قاری حنیف ڈار
 

x boy

محفلین
جمعے کو نماز عصر کے بعد باپ بیٹے کا معمول تھا کہ وہ لوگوں کو دین کی دعوت دینے کے لیے اپنے گھر سے نکلتے، بازار کے وسط میں سڑک کنارے کھڑے ہو جاتے‘ آتے جاتے لوگوں میں اسلامی لٹریچر تقسیم کرتے۔ باپ مقامی مسجد میں خطیب ہیں ان کا گیارہ سالہ بیٹا گذشتہ کئی سالوں سے موسم کی شدت کی پرواہ کیے بغیر اپنے والد کے ساتھ جاتا تھا۔
ایمسٹر ڈم ہالینڈ کا دارالحکومت ھے۔ یورپ کا یہ چھوٹا سا ملک بے حد خوبصورت ہے۔ یہاں بے حد و حساب پھول پیدا ہوتے ہیں۔ بارشیں کثرت سے ہوتی ہیں، اس لیے یہاں ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے۔ دودھ کی پیداوار اور اس کی پروڈکٹ کے اعتبار سے یہ ملک بڑا مشہور ہے۔ کتنی ہی مشہور زمانہ کمپنیاں یہاں سے خشک دودھ دنیا بھر میں سپلائی کرتی ہیں۔
اس روز موسم بڑا ہی خراب تھا۔ صبح سے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ یخ بستہ سردی کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے بارش بھی ہو رہی تھی۔جمعہ کا دن تھا اور معمول کے مطابق باپ بیٹے کو لٹریچر تقسیم کرنا تھا۔ والد تھوڑی ہی دیر پہلے مسجد سے گھر پہنچے تھے۔انہیں قدرے تھکاوٹ بھی تھی۔ بیٹے نے خوب گرم کپڑے پہنے اور اپنے والد صاحب سے کہنے لگا: اباجان چلیے! لٹریچر تقسیم کرنے کا وقت ہو چکا ہے۔
مگر بیٹے! آج تو موسم بڑا خراب ہے۔ سردی کے ساتھ ساتھ بارش بھی ہو رہی ہے۔
میں تو تیار ہو گیا ہوں۔ بارش ہو رہی ہے تو پھر کیا ہے؟ یہاں تو بارش کا ہونا معمول کی بات ہے، بیٹے نے جواب دیا۔
بیٹے! موسم کا تیور آج ہم سے یہ کہہ رہا ہے کہ ہم آج گھر پر ہی رہیں، والد نے جواب دیا۔

اباجان! آپ تو خوب جانتے ہیں کہ کتنے ہی لوگ جہنم کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمیں ان کو بچانا ہے۔انہیں جنت کا راستہ دکھانا ہے۔ آپ کو تو خوب معلوم ہے کہ جنت کا راستہ نامی کتاب پڑھ کر کتنے ہی لوگ راہِ راست پر آگئے ہیں۔
والد: بیٹے! آج میرا اس موسم میں باہر جانے کا قطعًا ارادہ نہیں ہے۔ کسی اور دن پروگرام بنا لیں گے۔
بیٹا: اباجان! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آج میں اکیلا ہی ان کتابوں کو تقسیم کر آؤں ؟ ۔ بیٹے نے اجازت طلب نگاہوں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔والد تھوڑی دیر تردد کا شکار ہوئے اور پھر کہنے لگے: میرے خیال میں تمہارے اکیلے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ کا نام لے کر تم بے شک آج اکیلے ہی چلے جاؤ اور لوگوں میں کتابیں تقسیم کر آؤ۔
والد نے بیٹے کو Road to Paradise’’جنت کا راستہ ‘‘نامی کچھ کتابیں پکڑائیں اور اسے فی اما ن اللہ کہہ کر الوداع کہہ دیا۔ قارئین کرام! اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ہمارے اس ننھے داعی کی عمر صرف گیارہ سال ہے اسے بچپن ہی سے اسلام سے شدید محبت ہے اور وہ نہایت شوق سے دین کے کاموں میں پیش پیش رہتا ہے۔
ننھا داعی گھر سے نکلتا ہے ، اس کا رخ بازار کی طرف ہے جہاں وہ کافی عرصہ سے لٹریچر تقسیم کرتا چلا آ رہا ہے۔ اب وہ بازار میں اپنی مخصوص جگہ پر کھڑا ہے وہ اپنی مسکراہٹ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان کو سلام کرتا ہے۔ انہیں روکتا ہے۔ ان سے بات چیت کرتا ہے مسکراتے ہوئے ان سے کہتا ہے:دیکھیے سر! میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے شدید محبت کرتا ہے۔ وہ انہیں کتاب پیش کرتا ہے، ان سے کہتا ہے: جناب! یہ فری ہے۔ یہ آپ کے لیے ہے۔ ان میں کچھ لوگ اس ننھے لڑکے سے کتاب لے لیتے ہیں کچھ شانے اچکا کر آگے نکل جاتے ہیں ۔کچھ کتابیں تقسیم کرنے کے بعد اب اس کا رخ قریبی محلے کی طرف ہے وہ بعض گھروں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے اگر کوئی باہر نکلتا ہے تو مسکراتے ہوئے اسے کتاب کا تحفہ پیش کرتا ہے۔ کوئی قبول کرلیتا ہے کوئی انکار کرتا ہے مگر وہ ان چیزوں سے بے پروا اپنے مشن میں لگا ہوا ہے۔
کتابیں تقسیم کرتے ہوئے کم و بیش دو گھنٹے گزر چکے ہیں۔ اب اس کے ہاتھوں میں آخری کتاب رہ گئی ہے۔ وہ اس سوچ میں تھا کہ یہ آخری کتاب کسے دی جائے۔ اس نے گلی میں آنے جانے والے کئی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انہیں کتاب دینے کی پیش کش کی، مگر انہوں نے تھینک یو کہہ کر انکار کیا اور آگے چل دیے۔
گلی میں ایک جگہ جہاں بہت سارے گھر ایک ہی ڈیزائن کے بنے ہوئے ہیں وہ ان میں سے ایک گھر کا انتخاب کرتا ہے اور اس کے دروازے پر جا کر گھنٹی بجاتا ہے ،کسی نے جواب نہ دیا۔ اس نے بار بار گھنٹی بجائی ،مگر اندر مکمل خاموشی تھی۔ نجانے اسے کیا ہوا۔ یہ اس کے طریق کار کے خلاف تھا کہ وہ کسی کے دروازے کو اس طرح بجائے مگر آج اس نے دروازے کو زور زور سے بجانا شروع کر دیا زور سے کہا: کوئی اندر ہے تو دروازہ کھولو۔
اندر بدستور مکمل خاموشی تھی۔ وہ مایوس ہونے لگا، اس نے کچھ سوچا اور آخری بار اپنی انگلی گھنٹی پر رکھ دی۔ گھنٹی بجتی رہی، بجتی رہی… اور آخر کار اسے اندر سے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ اس کے دل کی حرکت تیز ہونے لگی۔چند لمحوں بعد آہستگی سے دروازہ کھلتا ہے۔
ایک بوڑھی خاتون چہرے پر شدید رنج و غم کے آثار لیے سامنے کھڑی تھی، کہنے لگی: ہاں میرے بیٹے! بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟
ننھے داعی نے مسکراتے ہوئے کہا: نہایت ہی معزز خاتون! اگر میں نے آپ کو بے وقت تنگ کیا ہے تو اس کے لیے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ دراصل میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے حقیقی اور سچی محبت کرتا ہے۔ آپ کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ میں کچھ کتابیں تقسیم کر رہا تھا۔ میرے پاس یہ آخری کتاب بچی ہے۔
میری خواہش ہے کہ یہ کتاب میں آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ اس کتاب میں کیا ہے؟ یہ آپ کو پڑھنے کے بعد معلوم ہو گا ، مگر اتنی بات میں کہے دیتا ہوں یہ کتاب آپ کو آپ کے حقیقی رب کے بارے میں بہت کچھ بتائے گی۔اسے پڑھ کر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے پیدا کرنے والے نے ہمیں کن مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ اور ہم اپنے رب اپنے خالق اور مالک کو کیسے راضی کر سکتے ہیں۔ بوڑھی عورت نے کتاب وصول کی اوربچے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: جیتے رہو بیٹا، جیتے رہو۔
ننھے داعی کا آج کے لیے مشن مکمل ہو چکا تھا، اس کو جتنی کتابیں تقسیم کرنا تھیں وہ کر چکا تھا۔ اس کا رخ اب اپنے گھر کی طرف تھا۔ یوں بھی شام کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ وہ ہنستا مسکراتا اپنے گھر واپس آ گیا۔
ہفتہ کے ایام جلد ہی گزر گئے ۔ آج ایک بار پھر جمعہ کا دن ہے۔ باپ بیٹا حسب معمول جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں ہیں۔ ننھے داعی کے والد نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ نماز پڑھانے کے بعد حسب معمو ل حاضرین سے کہا کہ آپ میں سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہو یا کوئی بات کہنا چاہتا ہو تو اسے بر سر عام ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ وہ اٹھ کر بیان کر سکتا ہے۔
حاضرین میں تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ آج کسی کے پاس کوئی خاص سوال نہیں۔ اچانک پچھلی صفوں پر بیٹھی ہوئی خواتین میں سے ایک بوڑھی خاتون کھڑی ہوتی ہے۔ وہ قدرے بلند آواز میں کہنا شروع کرتی ہے :
خواتین و حضرات! آپ لوگوں میں سے مجھے کوئی بھی نہیں پہچانتا نہ ہی آج سے پہلے میں کبھی اس مسجد میں آئی ہوں۔ میں تو گزشتہ جمعہ تک مسلمان بھی نہ تھی۔بلکہ میں نے اسلام قبول کرنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
چند ماہ گذرے میرے خاوند کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد میں اس دنیا میں بالکل تنہا تھی۔گزشتہ جمعہ کے روز موسم غیر معمولی ٹھنڈا تھا۔ وقفے وقفے سے ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں اس دنیا اور تنہائی سے تنگ آچکی تھی۔ دنیا میں میرا کوئی بھی نہ تھا۔ میں کتنے دنوں سے سوچ رہی تھی کہ میں خود کشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کیوں نہ کر لوں۔
جب میرا خاوند نہیں رہا تو میں اس دنیا میں رہ کر کیا کروں گی۔بالآخر گزشتہ جمعہ کو میں نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ میں بازار گئی وہاں سے ایک نہایت مضبوط رسی خریدی ۔سیڑھی پر چڑھ کر چھت کے ایک شہتی۔۔ر سے رسی کو باندھا۔ پھر میں نے رسی کے ایک سرے سے پھندا بنایا، اگلا مرحلہ یہ تھا کہ کرسی کواپنے قریب کر کے مجھے اس پر پاؤں رکھنا تھا اورگلے میں پھندا ڈال کر کرسی کو ٹھوکر مار دینی تھی ۔اس طرح پھندہ میرے گلے میں اٹک جاتا اور میری زندگی کا خاتمہ ہو جاتا۔ جوںہی میں نے گلے میں رسی ڈالی، نیچے سے گھنٹی بجنے کی آواز آئی۔ پہلے تو میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، مگر گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ میں نے سوچا: میرا ملنے والا کون ہو سکتا ہے؟مدتیں گزر گئی ہیں مجھے کوئی ملنے کے لیے کبھی نہیں آیا۔
میں نے فیصلہ کیا کہ میں گھنٹی کو نظر انداز کر دوں اور خود کشی کرلوں۔ ادھر گھنٹی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ کوئی غیر مرئی طاقت مجھ سے کہہ رہی تھی کہ دیکھو دروازے پر کون ہے؟
لیکن ایک سوال بار بار میرے ذہن میں آ رہا تھا: اس دنیا میں تو میرا کوئی بھی نہیں پھر یہ گھنٹی دینے والا کون ہو سکتا ہے؟
اسی دوران کسی نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ میں نے سوچا:چلو کوئی بات نہیں، میں خود کشی کے پروگرام کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کر دیتی ہوں چنانچہ میں نے رسی کو گردن سے اتارا، کرسی کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی اور آہستہ آہستہ نچلی منزل کی طرف چل دی۔
میں نے دروازہ کھولا تو ایک بہت پیارے اور خوبصورت بچے کو دیکھا جو مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں ،مجھے دیکھ کر اسے یوں لگ رہا تھا کہ اسے کوئی بڑی نعمت مل گئی ہو۔ میں نے آج تک اس عمر کے بچے کے چہرے پر اتنی خوبصورت مسکراہٹ نہیں دیکھی ۔میں بتا نہیں سکتی کہ وہ بچہ مجھے کتنا پیارا لگا۔
اس کے منہ سے نکلنے والے کلمات نہایت پیارے اور دل کش تھے ۔جس انداز سے اس نے میرے ساتھ گفتگو کی وہ ناقابل فراموش تھی۔ اس نے مجھ سے کہا:اے معزز اور محترم خاتون!میں آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کو بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے حقیقی محبت کرتے ہیں اور آپ کا ہر لحاظ سے خیال رکھتے ہیں۔ اس نے ’’جنت میں جانے کا راستہ‘‘ نامی کتاب میرے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا : اسے اطمینان سے ضرور پڑھیے۔
وہ خوبصورت اور روشن چہرے والا بچہ جدھر سے آیاتھا ادھر ہی واپس چلا گیا، مگر میرے دل میں شدید ہلچل پیدا کر گیا۔ میں نے دروازہ بند کیا اور نچلی منزل پر ہی بیٹھ کر اس کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھنے لگی۔ میں کتاب پڑھتی چلی گئی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ کتاب میرے لیے اور صرف میرے لیے لکھی گئی ہے۔ میں نے جیسے ہی کتاب ختم کی میرے ذہن میں انقلاب آچکا تھا۔ مجھے روشنی مل گئی تھی۔ میں اوپر والی منزل میں گئی۔ چھت سے رسی کھولی اور کرسی کو پیچھے ہٹا دیا۔ اب مجھے ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہ رہی تھی۔
معزز حاضرین! اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کرکہا: میں نہایت سعادت مند‘ اور خوش بخت ہوں کہ میں نے اپنے حقیقی رب کو پہچان لیا ہے۔ میں نے فطرت کو پا لیا ہے ۔ میں اب الحمدللہ! مسلمان ہو چکی ہوں۔ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت سے نوازا۔ کتاب کے آخری صفحہ پر اس مرکز کا ایڈریس دیا ہوا تھا میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرسکوں، خصوصاً اس ننھے سے داعی کا جو میرے پاس نہایت ہی مناسب وقت پر آیا۔ بس یہ چندلمحوں کی با ت تھی، اگر وہ نہ آتا تو میں جہنم کا ایندھن بننے ہی والی تھی۔ !!
لوگ حیران و ششدر ہو کر بڑھیا کی بات سن رہے تھے، جب اس کی بات ختم ہوئی تو مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں شاید ہی کوئی آنکھ ہو جس میں آنسو نہ جھلک رہے ہوں۔مسجد میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ امام مسجد منبر سے نیچے اترے، سامنے والی صف میں ان کا ننھا داعی بیٹا بیٹھا ہوا تھا۔
انہوں نے روتے ہوئے اسے اپنے بازوؤں میں لیا اور سینے سے لگا لیا۔وہ کہہ رہے تھے: بیٹے! مجھے تم پر فخر ہے۔ تم صحیح معنوں میں ننھے داعی اور مجاہد ہو۔ مسجد میں شاید ہی کوئی شخص ہو جس کی یہ تمنا نہ ہو کہ کاش اس کا بیٹا بھی اس قسم کا داعی ہوتا!!!۔

عبید الرحمٰن کا تحفہ اس بہن کے لئے جسے شاید رب کی محبت کا اندازہ نہیں !
 

x boy

محفلین
سبوخ سید کے نام ! محبت کیا ھوتی ھے،کیسی ھوتی ھے ؟

صبح صبح سحری کے وقت اپنے ایک مہربان صحافی دوست کا لطیفہ موصول ھوا، لطیفہ کچھ یوں ھے کہ بیوی نے شوھر سے گلہ کیا کہ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ھے ! جس پر شوھر نے پلٹ کر جواب دیا ،بچے کیا عامر لیاقت کے پروگرام سے گفٹ میں لائی ھو؟ پہلے یہ لطیفہ کچھ یوں تھا کہ' بچے کیا گوگل سے ڈاؤن لؤڈ کیئے ھیں؟ بات لطیفے کی نہیں، بات ھماری نفسیات کی ھے،،جب بھی کسی بیوی نے شوھر سے گلہ کیا ھے کہ اسے اب بیوی سے محبت نہیں رھی تو شوھر نے بچے پکڑ کر اس کے سامنے ثبوت کے طور پر کھڑے کر دئیے،،یا ان کی طرف اشارہ کر دیا ! کیا بچے پیدا کرنا محبت کی نشانی ھے یا کیا بچے محبت کا ثبوت ھیں،، یا کیا جنسی تعلق محبت کا ثبوت ھے ؟؟؟؟ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ھے،، بچے درجن بھی ھوں تو ضروری نہیں کہ ان میاں بیوی کو آپس مین محبت بھی ھو، ، جنسی جذبہ اور جنسی تعلق ایک حیوانی جذبہ ھے جو تناسل کے لئے بالقوہ رکھا گیا ھے،،جنسی تعلق میں انسان اور حیوان صرف ایک ھی جذبے، ایک ھی ضرورت کے غلام ھوتے ھیں، دونوں میں انیس ،بیس کا فرق بھی نہیں ھوتا، اس لئے جنسی تعلق اور افزائشِ نسل کو محبت نہ کہا جا سکتا ھے ،نہ محبت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ھے،،ھماری اسی غلط فہمی کا نتیجہ ھے کہ گھروں سے محبت کا جنازہ نکل چکا ھوتا ھے اور ھم اولاد کو دیکھ دیکھ کر محبت کی وافر موجودگی کا یقین کیئے بیٹھے ھوتے ھیں،، پھر محبت کیا ھے ؟ محبت ایک جذبہ ھے، جو اپنے اثرات اور نشانیاں رکھتا ھے،، اس کے شواھد ھوتے ھیں،، محبت اپنے محبوب کے سامنے سرنگوں رھتی ھے،، محبوب کی مرضی میں اپنی مرضی گم کر دیتی ھے،،وہ محبوب کو خوش کر کے اس کی خوشی میں سے اپنی خوشی کشید کرتی ھے،،اس میں انا کوئی نہیں ھوتی،، اس میں اتھارٹی کی طلب نہیں ھوتی،، وہ اپنے تمام حقوق لکھ کر محبوب کو دے دیتی ھے اور پھر کبھی پلٹ کر صلہ طلب نہیں کرتی،، وہ محبوب کی ناراضی برداشت نہیں کرتی،، وہ پوری طرح اپنے محبوب کے رنگ میں رنگ جاتی ھے،، وہ تو حکم کا انتظار بھی نہیں کرتی وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے محبوب کی پسند کا اندازہ کرتی اور اسے کہے بغیر پورا کرتی ھے،، جب گھروں میں مطالبے ھونے لگیں اور اپنے اپنے حقوق کا رونا رویا جائے ،ھر ایک اپنے دکھ سنانے کے چکر مین ھو،اپنی قربانیاں گنوانے کو بے قرار ھو تو سمجھ لیں محبت اس گھر سے کوچ کر گئی ھے،،اب اس کی لاش کی چیر پھاڑ جاری ھے،، اللہ جب انسان سے محبت کرتا ھے تو اپنی اتھارٹی بھول جاتا ھے،، اپنی شان کے ساتھ سماء دنیا پر تنزل فرماتا ھے ،،بندہ چل کے آتا ھے تو وہ دوڑ کر آتا ھے،، معاف کرنے پر تلا بیٹھا ھوتا ھے ، خود معاف کرنے کے بہانے فراھم کرتا ھے اورسب سے بڑی بات کہ کائنات میں نہ سما سکنے والا قلبِ انسان میں ٹھکانہ بنا لیتا ھے، جن گھروں میں محبت ھوتی ھے وھاں سزا نہیں ھوتی،، معافی ھوتی ھے،اور معافی مانگنے کا انتظار بھی نہیں ھوتا، عورت کے لیئے سب سے بڑی سزا اس کے شوھر کا ناراض ھو جانا ھے بشرطیکہ اسے شوھر سے محبت ھو،جسمانی مار تو طلاق کی پہلی سیڑھی ھے ! علماء اللہ سے اپنی محبت کے ثبوت میں نماز روزہ پیش کرتے ھیں،جس طرح بیوی کی محبت کے ثبوت میں شوھر بچے پیش کرتا ھے! جبکہ نماز پڑھنے والا ضروری نہیں اللہ سے محبت بھی کرتا ھو،،وہ بھی نمازی ھی ھیں جن کو ویل کی دھمکی دی گئی ھے اور وہ بھی نمازی ھی ھو گا جس پر بخاری کی رویت کے مطابق جہنم بھڑکائی جائے گی،، نماز مسلمان کی نفسیاتی ضرورت ھے،، اصل بات دل کی ھے کہ نماز کے علاوہ بھی دل محبوب کی یاد میں غرق ھو، اور بار بار اسکی گلی کا خیال آتا ھو،، ارشادِ مصطفی ﷺ ھے کہ جو سات بندے قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے کے نیچے ھوں گے ،ان میں وہ بھی ھو گا جس کا دل مسجد میں اٹکا ھو گا،، بہت سارے حج پر جاتے ھیں مگر ضروری نہیں ان کو محبت بھی ھو،، اپنی جنت کا چکر ساتھ ساتھ ھے،ضرورت اور مطلب پرستی ساتھ ساتھ چلتی ھیں،، محبت ایک الگ جذبہ ھے،جس کی طلب اللہ پاک کو ھے،، والذین آمنوا اشد حباً للہ،، مومن تو شدید محبت اللہ ھی سے کرتے ھیں،، مصطفی ﷺ فرماتے ھیں تم میں سے کوئی مومن نہیں ھو سکتا جب تک میں اسے اپنی اولاد ،ماں باپ اور ساری دنیا سے زیادہ محبوب نہ ھو جاؤں،، اور محبت کا ثبوت یہ ھے کہ جو تمہیں محبوب ھے وہ محبوب کی خاطر چھوڑ دو،،لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون،، جب تک محبوب کو محبوب پر قربان نہ کرو،محبت ثابت نہیں ھوتی،، ابراھیم کے دل میں اسماعیل کو بسا کر الفت ڈال کر،جب دیکھا کہ دل نے کانٹا نگل لیا ھے، و بلغ معہ السعی،، تو چھری کے نیچے لٹانے کا اشارہ کر دیا،، اور لٹانے والا لٹا کر خلیل بن گیا،، ھمارے گھروں میں یہ منظر شادی کے ابتدائی دنوں میں اپنی جھلک دکھاتا ھے،، عورت اپنے جہیز کی چیزیں سسرال میں استعمال کرتی نظر آتی ھے،، پھر جوں جوں محبت سمٹتی جاتی ھے،چیزیں دوبارہ پیک ھونا شروع ھو جاتی ھے،، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھروں میں صرف ورکنگ ریلیشن شپ باقی رہ جاتی ھے جس کا ثبوت بچے ھوتے ھیں،،محبت جس گھر میں ھوتی ھے وہ دنیا میں جنت ھوتا ھے، بات بات پر طلاق مانگنا اور بات بے بات طلاق دینا،، پھر فتوے لے کر رکھنا،،یہ کوئی محبت نہیں،،یہ بندہ سوچتا ھے کہ بچوں کا کیا بنے گا،،عورت بھی سوچتی ھے شریک میرے والدین کو طعنے دیں گے،،اپنا اپنا مفاد دیکھ کر گھر بسائے جا رھے ھوتے ھیں ورنہ عورت ایسے شوھر کے ساتھ جنت میں بھی رھنے پر راضی نہیں ھوتی،28 سال پرانی بات ھے ھمارے پڑوس میں حیدر آباد انڈیا کی ایک عورت رھتی تھی ،اس کی اپنے شوھر سے بنتی نہیں تھی، ایک تو اس وجہ سے کہ وہ بہت خوبصورت تھی شوھر اس کے مقابلے کا نہیں تھا، دوسرا وہ امیر گھرانے کی تھی،اس کا والد کویت کا شہری تھا،جبکہ سالم صاحب غریب آدمی تھے،تیسرا وہ عمر میں سالم صاحب سے بہت چھوٹی تھی اور فساد کی چوتھی وجہ یہ تھی کہ سالم صاحب کا زیادہ تر وقت گھر سے باھر سہ روزے اور چلے پر لگتا تھا،،چھوٹے چھوٹے بچوں کی لائن لگی تھی اور زینب کو سودا سلف بھی کسی سے منگوانا پڑتا تھا،، گھر میں فساد کی کیفیت تھی، رمضان کا مہینہ تھا اور عصر کے بعد کا وقت میں اندر لیٹا تھا اور زینب میری گھر والی کے پاس صحن میں بیٹھی تھی،باپردہ لڑکی تھی،اس نے اتفاقًا پوچھ لیا کہ مردوں کو تو جنت میں حوریں ملیں گی،عورت کو کیا ملے گا،میں نے اندر سے پکار کر کہا کہ عورت کو اس کا شوھر ملے گا،، اس لڑکی کی بے ساختہ چیخ نکل گئی،،بولی اللہ رے میں ساری نمازیں روزے اس موئے چھوٹی سری والے سالم کے لئے پڑھی؟ میں اب کوئی نماز نہیں پڑھوں گی،یہ سالم میرا پیچھا مر کے بھی نہیں چھوڑے گا،،خطرہ بھانپ کر میں نے اسے فوراً تسلی دی کہ وھاں سالم کا سر بڑا کر دیا جائے گا اور عادتیں ٹھیک کر دی جائیں گی ،اگر پھر بھی اسے پسند نہ ھوا تو اللہ پاک اسے انتخاب کا موقع دیں گے کہ وہ اپنی مرضی کا شوھر منتخب کر لے،،اس سے آپ اندازہ کر سکتے ھیں کہ ڈھیر سارے بچے ھونے کے باوجود وہ عورت جنت میں بھی سالم کے ساتھ رھنے کو تیار نہیں تھی،، نماز چھوڑ کر جہنم میں جانے کو تیار تھی،گویا اسے سالم سمیت گھر جہنم سے بھی بدتر لگتا تھا !! عورت سے محبت ھم شادی سے پہلے کرتے ھیں،، جب وہ ھماری محبوبہ ھوتی ھے،جب اس کی ناراضی ھماری نیند اڑا دیتی ھے،جب گھر سے نیا جوڑا اور بال بنا کر انسان نکلتا ھے اور دس چکروں کے بعد آمنا سامنا ھوتا ھے تو صرف ایک نظر پڑ جانے پر انسان سمجھتا ھے اسکی محنت کام آ گئی ھے،جن کے لئے پہنے تھے انہوں نے دیکھ لیا،، اللہ پاک فرماتا ھے،،ھر نماز میں کنگھی پٹی کر کے آیا کرو،،بن سنور کے آیا کرو،، خذوا زینتکم عند کل مسجد،، ھر نماز مین زینت اختیار کر کے آیا کرو،، اس کی وعدہ خلافی مزید آتشِ شوق بھڑکاتی ھے،،اس کا غصہ ادا لگتا ھے،،مگر شادی کے ساتھ ھی ھم افسر بن جاتے ھیں اور وہ ھماری ملازمہھو جاتی ھے، اور پھر افسری کی نفسیات شروع ھو جاتی ھیں،، اب اس کا ناراض ھونا اس کا حق نہیں بلکہ ھماری انسلٹ ھوتی ھے،، اب ھم محبت نہیں تابعداری چاھتے ھیں،، پھر اس تابعداری کو ھم ڈنڈے سے پیدا کرتے ھیں،، اور گھر میں ایک چلتی پھرتی لاش ھماری بیوی اور ھمارے بچوں کی ماں کہلاتی ھے !!

پی۔۔ار دی ک۔۔۔ہانی ل۔۔وک۔۔و ک۔۔تھے آ کے رُک گئی ! ھاسیاں تو شروع ھوئی ،ھنجواں تے مُک گئی !
 

x boy

محفلین
ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ، ﺍﺳﮯ
ﯾﻮﻧﮩﯽ ﻟﮕﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭘﯿﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﺋﯿﮕﺎ
ﻣﮕﺮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﻮﻧﭧ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﯼ
ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮬﮯ، ﭘﮭﺮ
ﺍﺳﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭘﯿﺎﺱ ﺳﮯ
ﻣﺮ ﺑﮭﯽ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔۔۔۔
ﮐﻮﺉ ﭘﯿﺎﺱ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺮﺗﺎ۔۔۔۔۔ ﻣﺮﺗﮯ ﺗﻮ ﺳﺐ
ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻗﺖ ﭘﮧ ﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ، ﺟﺴﻄﺮﺡ
ﺍﻟﻠﮧ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮬﮯ ﻣﮕﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭘﯿﺎﺱ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮟ ﮐﮧ ﭘﮭﺮ ﮬﻤﯿﮟ
ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺗﺠﺮﺑﮯﮯ ﮔﺰﺭﻧﺎ
ﭘﮍﺗﺎ ﮬﮯ۔۔۔
 

x boy

محفلین
"تنگ اور گندہ لباس پہننے والی عورتوں کے لیے"

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جہنم میں جانے والی دو قسمیں ایسی ہیں جو میں نے ابھی تک نہیں دیکھیں۔ان میں سے ایک وہ لوگ جن کے پاس بیل کی دموں کی طرح کوڑے ہونگے جن میں سے وہ لوگوں کو(یعنی رعایا)ماریں گے۔دوسرئ قسم ان عورتوں کی جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوتئ ہیں،مردوں کو بہکانے والیاں،اور خود بہکنے والیاں،ان کے سربختی اور اونٹوں کی کوہاں کیطرح(بالوں میں اونچے اونچے جوڑے لگانے کیوجہ سے)ایک طرف جھکے ہونگے۔ایسی عورتیں جنت میں جائیں گی نہ جنت کی خوشبو سونگھ سکیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو طویل مسافت سے آتی ہے"
صحیح مسلم
 

x boy

محفلین

  • م۔۔۔۔۔۔ال وال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔و ھ۔۔۔۔۔۔وش ک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رو !

    اللہ پاک نے انسان کو امتحان میں مبتلا کرنے کے جو وسائل دنیا میں پیدا فرمائے ھیں ان میں مال و اولاد کو قرآن حکیم میں بار بار ذکر کیا ھے ! نہ اولاد بری چیز ھے اور نہ ھی مال کوئی بری چیز ھے ! انسان کو جب بھی کبھی نیکی کا دورہ پڑتا ھے تو اس کا سب سے پہلا نشانہ یہی دو چیزیں بنتی ھیں ! انسان کی اس کمزوری اور غلط فہمی کو سامنے رکھتے ھوئے اللہ پاک نے انسانیت سے اپنے آخری خطاب میں ھر وہ ممکن طریقہ استعمال فرمایا ھے،جس سے اس غلط فہمی کا علاج کیا جا سکے ! مال و اولاد کو دنیا کی زینت قرار دینے کے ساتھ ساتھ، ان کو امتحان کا نصاب بھی قرار دیا اور ان سے فرار کو کمرہ امتحان سے فرار کے مترادف قرار دیا ھے، مال کو ھر جگہ لفظ " خیر " سے ذکر کر کے اس کے ساتھ منسوب برائی کے تصور کی بیخ کنی کی گئ ھے،، و انہ لحب الخیرِ لشدید" انسان خیر " مال" سے شدید محبت کرتا ھے،، کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیراً الوصیۃ للوادین ،، یہاں بھی مال کو " خیر چھوڑا " سے تعبیر فرمایا ،، بہت سی جگہوں پر اسے اپنا فضل قرار دیا،، جیسے جمعے سے فارغ ھونے کے بعد منتشر ھو کر اللہ کے فضل کو ڈھونڈنے کی ترغیب دی گئ ھے،اور یہی اصل مقصود ھے کہ مال کی شدید محبت اسے کمانے میں تمہیں ناجائز ذرائع کی طرف مائل نہ کر دے اور پھر کمانے کے بعد اس کی محبت تمہیں اس کو جوڑ جوڑ کر اور سینت سینت کر رکھنے پر آمادہ نہ کر دے،، حدود کا خیال رکھتے ھوئے خوب کماؤ اور اپنے اھل و عیال کی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ،، دیگر ضرورت مندوں میں بھی اسے خوب خرچو اور ان کے ذریعے اسے آخرت میں منتقل کرو،، و آتی المال علی حبہ،، مال کی محبت کے باوجود اسے دل سے کھینچ کر نکالنا اور دل کے رونے دھونے اور شیطان کے فقر کے ڈراؤوں کے علی الرغم اسے اللہ کی راہ میں دینا اصل امتحان ھے،، جس نے کمایا ھی نہیں ،، سونے کی چمک دیکھی ھی نہیں ،،وہ کیا جانے کہ مال کی محبت کیا ھوتی ھے اور پھر اس کے انفاق پر کیا درجات مرتب ھوتے ھیں ؟؟
    شاعر نے کہا تھا !
    بلن۔۔۔د ھ۔۔۔۔۔و تو کُھ۔لے تج۔۔ھ پہ زور پست۔۔۔۔۔۔۔ی کا !
    ڈگ۔۔۔مگائے ھی۔۔۔۔ں بڑے بڑوں کے ق۔۔۔۔۔۔۔دم کیا کیا !

    یعنی تم جس پستی کو بڑی مسکین سمجھتے ھو،ذرا اس سے بلند ھو کر دیکھو،،صرف مکان کی چھت سے کتنے زور سے کھینچتی ھے کہ ٹانگیں توڑ دیتی نھے،، جب مال قبضے میں آ کر دل میں جگہ بنا لیتا ھے تو پھر اسے نکالتے وقت انسان کو اپنے اندر جو جنگ لڑنی پڑتی ھے وہ اللہ دیکھ رھا ھوتا ھے،شیطان جس طرح بھوک و افلاس کے ڈراوے دے دے کر انسان کو انفاق سے روکتا ھے، وہ بھی اللہ دیکھ رھا ھوتا ھے اور ارشاد فرماتا ھے " الشیطانُ یعدکم الفقر و یامرکم بالفحشاء،، واللہ یعدکم مغفرۃً منہ و فضلاً،، شیطان تمہیں فقر کے ڈراوے دے رھا ھے اور شرمناک رویئے پر اکسا رھا ھے،جبکہ اللہ تم سے بخشیش اور اپنے فضل کا وعدہ کر رھا ھے ( اب تمہارا انتخاب ھے کہ شیطان پر اعتبار کرتے ھو یا اپنے رب رحمان پر )
    قصہ کوتاہ یہ کہ مال کی کمائی میں جدوجہد کرنا،، اس کی پلاننگ کرنا،، اس کے لئے بھاگ دوڑ کرنا قطعاً قابلِ مذمت نہیں اور نہ اس میں خرچ ھونے والے وقت پر کسی احساسِ جرم کو پیدا ھونے دینا چاھئے ! یہ شیطان کا بہت بڑا وار ھے، وہ دولت کو اللہ کی حدود کا خیال رکھنے والوں سے دور اور اللہ کی حدیں توڑنے والوں کے قریب کرتا ھے تا کہ اس کے ذریعے ان سے اللہ کی حدیں تڑوائے ! اپنی اور اپنے اھل و عیال نیز والدین اور اقرباء کی خبر گیری کے لئے کمانا ،جہد فی سبیل اللہ ھے !
    مال والے کو یاد رکھنا چاھئے کہ اس کے اردگرد کے حلقہ اقرباء میں مختلف درجوں کے لوگ ھیں ، والدین پیچھے سے قریب ھیں تو اولاد آگے سے قریب ھے،،اور انسان درمیان میں ھے،، اس صورت میں اسے یہ بھی دیکھنا ھے کہ ایک بچے پر وہ پیسے لگا کر اسے پڑھا کر جاب پر لگا چکا ھے جبکہ ایک بچہ ابھی آدھے رستے میں ھے، اسکی تعلیم ھی ابھی ادھوری ھے،اسے فیس اور کتابوں کے پیسے چاھئیں ، اگر اسے اس حالت میں موت آ جاتی ھے تو جائداد کے بارے میں اللہ کا قانون حرکت میں آئے گا اور وہ اس بچے کو بھی اتنی ھے رقم دے گا جو خود ماھانہ لاکھوں کما رھا ھے جتنی اس بچے کو دے گا جو ابھی اپنے تعلیمی اخراجات کے لئے ماھانہ ھزاروں روپے کا محتاج ھے،، اس لیئے اسے اپنے جیتے جی اس بچے کا سوچنا ھو گا،، جب تک وہ زندہ ھے وہ صاحب اختیار ھے اور اللہ پاک کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کس کو کتنا دیتا ھے ! یہی معاملہ بیوی کا ھے، اگر کسی کے اولاد نہیں اور بیوی بھی اس قابل نہیں کہ کہیں اور شادی کر سکے تو وہ ایک معقول رقم اپنی بیوی کو منتقل کر سکتا ھے اور والدین کو بھی !! بجائے اس کے کہ اسے وہ لوگ ھڑپ لیں جو کل تک اس کے دشمن بنے پھرتے تھے !
    اسی طرح اپنی اولاد میں سے کمزور ترین طبقے یعنی بیٹی کی طرف بھی دھیان رکھنا چاھیئے کہ جسے ھمارے سماج میں کچھ دینے کا رواج ھی نہیں،، بھائیوں سے حصہ مانگ کر ساری زندگی کی رنجش وہ پالنا نہیں چاھتی، اور امیر تر بھائی اپنی غریب ترین بہن سے، زمین جائداد لکھوا لینے میں کوئی عیب بھی نہیں سمجھتے ، اس صورت میں بیٹی کے ساتھ جؤائنٹ اکاؤنٹ کھول کر رقم یا پھر جائداد میں سے اس کا حق اس کے نام کرا دینا چاھیئے ! تا کہ نہ تو اس کی حق تلفی ھو اور نہ اولاد کے درمیان رنجش پیدا ھو ! جس بیٹے نے والدین کی زیادہ خدمت کی ھو ،ھر مشکل میں ان کا ھاتھ بٹایا ھو اور مکان،دکان جائداد بنانے میں والد کی مدد کی ھو،، اپنی جائداد میں سے اس کے نام کچھ زیادہ کرا دینا چاھئے تا کہ اس کی اولاد کی بھی حق تلفی نہ ھو !
    الغرض یہ فیصلے اپنے جیتے جی کر لینے چاھئیں تا کہ بعد میں مقدمہ بازی اور سر پھٹول کا بازار گرم نہ ھو !!
 
Top