ایک مثال ایک خوبصورت بات یا جو بھی سمجھیں

x boy

محفلین
جھاد كى مشروعيت ميں حكمت




الحمد للہ:



اللہ سبحانہ وتعالى نے مسلمانوں پر جھاد فى سبيل اللہ فرض كيا ہے، اس ليے كہ اس كے نتيجہ ميں بہت سى مصلحتيں مرتب ہوتى ہيں، اور اس ليے بھى كہ جھاد ترك كرنے ميں بہت سى خرابياں و نقصانات اور فساد پيدا ہوتا ہے.

ذيل ميں جھاد فى سبيل اللہ كى مشروعيت ميں كيا حكمت ركھى ہيں ان كا مختصرا ذكر كيا جائے گا:

1 - جھاد كا اساسى اور رئيسى مقصد اور ھدف و ٹارگٹ يہ ہے كہ لوگوں سے اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت كروائى جائے، اور انہيں بندوں كى غلامى سے نكال كر بندوں كے پروردگار اور ان كے رب كى غلامى ميں لايا جائے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:

{اور ان سے اس وقت تك جنگ كرو جب تك فتنہ ( شرك ) مٹ نہ جائے اور اللہ تعالى كا دين غالب نہ آجائے، اگر تو يہ باز آجائيں اور رك جائيں ( تو تم بھى رك جاؤ ) زيادتى تو صرف ظالموں پر ہى ہے} البقرۃ ( 193 ).

اور ايك دوسرے مقام پر اس طرح فرمايا:

{اور تم ان سے اس وقت تك لڑو اور جنگ كرو جب تك فتنہ باقى ہے، اور دين اللہ ہى كا ہو جائے، اور اگر وہ باز آجائيں تو جو وہ اعمال كر رہے ہيں اللہ تعالى انہيں خوب ديكھ رہا ہے} الانفال ( 39 ).

ابن جرير رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

لھذا تم اس وقت تك ان كے ساتھ جنگ اور قتال كرتے رہو جب تك شرك ختم نہ ہو جائے، اور اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت نہ كى جانے لگے، تو زمين ميں اللہ تعالى كے بندوں سے مصائب ختم ہو جائيں، جو كہ فتنہ ہے، اور سارے كا سارا دين اللہ تعالى كے ليے ہى ہو كر رہ جائے، حتى كہ اطاعت و فرمانبردارى اور سارى كى سارى عبادت خالصتا اللہ تعالى كى ہونے لگے، كسى اور كہ نہ ہو. اھ۔

اور ابن كثير رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اللہ سبحانہ وتعالى نے فتنہ كے خاتمہ اور دين اللہ تعالى كے ليے ہوجانے تك كفار سے جنگ كرنے كا حكم يا ہے، يعنى دنيا ميں شرك باقى نہ رہے اور سب اديان پر اللہ تعالى كا دين ہى غالب ہو كر رہ جائے. اھ۔

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مجھے اس وقت تك جنگ كرنے كا حكم ديا گيا ہے جت تك لوگ يہ گواہى نہ دينے لگيں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور نماز قائم كرنے لگيں، اور زكاۃ ادا كرنے لگيں، لھذا جب وہ يہ كام كرنے لگيں گے تو انہوں نے مجھے سے اپنے خون اور اپنے مال محفوظ كر ليے مگر اسلام كے حق كے ساتھ، اور ان كا حساب اللہ تعالى كے سپرد"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 24 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2831 ).

اور ايك حديث ميں فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:

" ميں قيامت سے قبل تلوار دے كر بھيجا گيا ہوں حتى كہ اللہ وحدہ لاشريك كى عبادت ہونے لگے"

مسند احمد حديث نمبر ( 4869 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2831 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اللہ تعالى كے دشمنوں سے معركہ كے وقت صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كے ذہن ميں بھى يہ ہدف اور ٹارگٹ موجود تھا:

جبير بن حيہ بيان كرتے ہيں كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے مختلف ممالك ميں مشركوں كے خلاف جنگ كے ليے لوگوں كو روانہ كيا ....

ہميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے روانہ كيا اور ہمارا امير نعمان بن مقرن كو بنايا جب ہم دشمن كى سرزمين ميں پہنچے اور كسرى كا گورنر ہمارے مقابلہ كے ليے چاليس ہزار كا لشكر لے كے نكلا، تو ترجمان كہنے لگا:

تم ميں سے ہمارے ساتھ كوئى شخص بات چيت كرے، تو مغيرہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: جو چاہتے ہو سوال كرو،

وہ كہنے لگا: تم كون ہو؟

انہوں نے جواب ديا: ہم عرب لوگ ہيں، ہم بہت شدت كى پياس اور تنگى ميں تھے، حتى كہ بھوك كى بنا پر ہم چمڑا، گٹھلياں چوسا كرتے تھے، اور بالوں اور كھال كا لباس زيب تن كيا كرتے تھے، اور درخت و پتھروں كے سامنے سجدہ ريز ہوتے تھے، ہم اسى حالت ميں تھےتو اللہ رب العزت جو آسمانوں و زمين كا مالك اور رب ہے اس كا ذكر بلند و بالا اور اس كى عظمت عظيم الشان ہے، نے ہمارى طرف ہم ميں سے ہى ايك نبى بنا كر مبعوث كيا، ہم اس كے ماں باپ كو جانتے تھے، ہمارے نبى اور ہمارے رب كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں حكم ديا كہ:

ہم تمہارے ساتھ اس وقت تك جنگ اور لڑائى كريں جب تك تم اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت نہ كرنے لگ جاؤ، اور يا پھر جزيہ اور ٹيكس ادا كرو اور ہمارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارے رب كے پيغام كے ساتھ ہميں يہ بتايا كہ ہم ميں سے جو بھى قتل ہو گا وہ جنت كى نعمتوں ميں داخل ہو گا اس جيسى نعمت كسى نے كبھى ديكھى تك نہيں، اور ہم سے جو بھى باقى رہے گا وہ تمہارى گردنوں كا مالك بنے گا.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2925 ).

صحابہ كرام اور مسلمان كمانڈر حضرات اس حقيقت كا اعلان اپنى جنگوں اور عزوات ميں كرتے رہے ہيں.

اور جب فارسيوں كے كمانڈر انچيف رستم نے ربعى بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے سوال كيا كہ تمہيں كونسى چيز كھينچ لائى ہے؟ تو انہوں نے جواب ديا تھا:

اللہ تعالى نے ہميں اس ليے بھيجا ہے كہ جسے چاہے ہم اسے بندوں كى غلامى سے نكال كر اللہ تعالى كى عبادت كى طرف لے چليں.

اور جب عقبہ بن نافع طنجہ تك جا پہنچے تو انہوں اپنا گھوڑا پانى ميں ڈال ديا حتى كہ گھوڑا سينے تك پانى ميں چلا گيا تو كہنے لگے:

اے اللہ گواہ رہنا ميں آخرى كوشش تك جا پہنچا ہوں، اور اگر آگے يہ سمندر نہ ہوتا تو ميں تيرے ساتھ كفر كرنے والے ہر شخص كے ساتھ جنگ كرتا ہوا ملكوں تك جاتا، حتى كہ تيرے علاوہ كسى اور كى عبادت كرنے والا باقى نہ بچتا.

2 - مسلمانوں پر زيادتى اور ظلم كرنے والوں كے ظلم و زيادتى كو دور كرنا.

علماء كرام كا اجماع ہے كہ مسلمانوں پر كفار كى ظلم و زيادتى كو روكنا قدرت ركھنے والے پر فرض عين ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

{اور تم اللہ تعالى كے راستے ميں ان لوگوں كے ساتھ جنگ كرو جو تم سے جنگ كرتے ہيں، اور زيادتى نہ كرو بلا شبہ اللہ تعالى زيادتى كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا} البقرۃ ( 190 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

{تم ان لوگوں كى سركوبى كے ليے جنگ كيوں نہيں كرتے جنہوں نے اپنى قسموں كو توڑ ديا اور رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو جلاوطن كرنے كى فكر ميں ہيں، اور خود ہى انہوں نے تم چھيڑخانى كرنے ميں ابتدا كى ہے، كيا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ تعالى ہى زيادہ مستحق ہے كہ تم اس سے ڈرو اور اس كا خوف ركھو بشرطيكہ تم ايمان والے ہو} التوبۃ ( 13 ).

3 - لوگوں سے فتنہ و فساد ختم كرنا:

فتنے كئى اقسام وانواع كے ہيں:

اول:

مسلمانوں كو دين اسلام سے مرتد كرنے كے ليے كفار جو مختلف قسم كى تنگياں اور تكليفيں ديتے ہيں، اللہ تعالى نے كمزور اور ضعيف مسلمانوں كو بچانے كے ليے جھاد مشروع كرتے ہوئے فرمايا:

{اور تمہيں كيا ہو گيا ہے كہ تم اللہ تعالى كے راستے ميں ان كمزور مردوں اور عورتوں اور ننھے ننھے بچوں كے چھٹكارے كے ليے جنگ كيوں نہيں كرتے؟ جو يوں دعائيں مانگ رہے ہيں كہ اے ہمارے پروردگار ہميں ان ظالموں كى بستى سے نجات دے اور ہمارے ليے خود اپنے پاس سے حمايتى مقرر فرما دے، اور ہمارے ليے خاص اپنے پاس سے مدد گار بنا} النساء ( 75 ).

دوم:

كفار كا اپنى جانوں كے متعلق فتنہ اور ان كا حق نہ سننا اور قبول نہ كرنا:

يہ اس ليے كہ كفريہ نظام لوگوں كى فطرت اور عقلوں كو خراب كر كے ركھ ديتے ہيں، اور غير اللہ كى عبادت كرنے كى تربيت، اور شراب نوشى اور جنسى خرابيوں ميں پڑنے كا عادى بنانے كے ساتھ ساتھ اخلاق فاضلہ سے چھٹكارا دلاتے ہيں.

اور جو كوئى بھى ايسا بن جائے وہ حق كو بہت ہى كم قبول كرتا ہے، اور حق و باطل كے مابين پہچان بھى نہيں كرپاتا، اور نہ ہى اسے خير اور شر كى پتہ چلتا ہے، اور نيكى اور برائى كى پہچان بھى جاتى رہتى ہے.

لھذا يہ سارى اشياء جو لوگوں كو حق سننے اور قبول كرنے اور اس كى پہچان كرنے ميں حائل ہوتى ہيں انہيں ختم كرنے اور گرانے كے ليے جھاد فى سبيل اللہ مشروع كيا گيا.

4 - اسلامى مملكت كو كفار كے شر سے محفوظ كرنا.

اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كفر كے اماموں اور ليڈروں كو قتل كرنے كا حكم ديا جو دشمنوں كو مسلمانوں كے خلاف ابھارتے رہتے تھے، مثلا: كعب بن اشرف اور ابن ابى الحقيق جو يہودى سردار تھے.

اور اس ميں كفار سے سرحدوں كى حفاظت كرنا بھى شامل ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى رغبت دلاتے ہوئے فرمايا:

" اللہ تعالى كے راستے ميں ايك دن كا پہرہ دنيا اور جو كچھ اس پر ہے سے بہتر ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2678 ).

5 - كفار كو دہشت زدہ اور انہيں ذليل و رسوا كرنا.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{تم ان ( كفار ) سے جنگ كرو اللہ تعالى انہيں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، اور ذليل و رسوا كرے گا، ان كے خلاف تمہارى مدد فرمائےگا، اور مسلمانوں كے كليجے ٹھنڈے كرے گا، اور ان كے دلوں كے غيض و غضب دور كرے گا، اور وہ جس كى طرف چاہتا ہے رحمت سے توجہ فرماتا ہے، اللہ تعالى جانتا بوجھتا اور حكمت والا ہے} التوبۃ ( 14 - 15 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

{اور تم ان كے مقابلے كے ليے اپنى طاقت بھر قوت كى تيارى كر كے ركھو اور گھوڑوں كو تيار كر كے ركھو، كہ اس سے تم اللہ تعالى كے اور اپنے دشمنوں كو خوفزدہ ركھ سكو گے}الانفال ( 60 ).

اور اسى ليے جنگ ميں ايسى اشياء مشروع كى گئى ہيں جو دشمن كے دلوں ميں رعب كا سبب بنتى ہيں.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا كہ:

كيا جنگ ميں يا دشمن كا ايلچى آنے كے وقت فوجى ريشم يا سونا چاندى پہن سكتا ہے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى نے جواب ديا:

الحمد للہ:

دشمن پر رعب ڈالنے كے ليے ريشمى لباس زيب تن كرنے ميں علماء كرام كے دو قول ہيں، ان دونوں قولوں ميں صحيح يہى ہے كہ ايسا كرنا جائز ہے، كيونكہ شام كے فوجيوں نے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كو خط لكھا كہ جب ہم دشمن كے مقابلہ ميں جاتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ انہوں نے اپنا اسلحہ ريشم كے ساتھ ڈھانپا ہوا ہوتا ہے تو اس كى بنا پر ہمارے دلوں ميں رعب طارى ہو جاتا ہے.

تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں جواب ميں لكھا:

جس طرح وہ اپنا اسلحہ چھپاتے ہيں تم بھى اپنا اسلحہ چھپاؤ، اور اس ليے كہ ريشم پہننا تكبر كى علامت ہے، اور اللہ تعالى جنگ كے وقت تكبر پسند فرماتا ہے، جيسا كہ سنن ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان مروى ہے:

( تكبر ايسا بھى ہے جسے اللہ تعالى پسند فرماتا ہے، اور تكبر ايسا بھى ہے جو اللہ تعالى كو ناپسند ہے، اور اسے ناراض كرتا ہے، جو تكبر اللہ تعالى كو پسند ہے وہ دوران جنگ تكبر كرنا ہے، اور جو تكبر اللہ تعالى كو ناپسند ہے وہ بغاوت اور فخر ميں تكبر ہے ).

احد كى لڑائى ميں ابو دجانہ انصارى رضى اللہ تعالى عنہ نے صفوں كے درميان تكبرانہ چال چلى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ نے فرمايا:

" يہ چال ايسى ہے جسے اللہ تعالى ناپسند كرتا ہے، ليكن اس جگہ نہيں" اھ۔

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 28 / 17 ).

6 - منافقوں كو ظاہر كرنا:

فرمان بارى تعالى ہے:

{پھر جب كوئى صاف مطلب والى سورت نازل كى جاتى ہے، اور اس ميں قتال كا ذكر كيا جاتا ہے تو آپ ديكھتے ہيں كہ جن دلوں ميں بيمارى ہے وہ آپ كى طرف اس طرح ديكھتے جيسے اس شخص كى نظر ہوتى ہے جس پر موت كى بے ہوشى طارى ہو}محمد ( 20 ).

مسلمانوں كى وسعت اور كشادگى كى حالت ميں ہو سكتا ہے كچھ لوگ ايسے بھى مسلمانوں ميں شامل ہو جائيں جو مادى حالت سنوارنا چاہتے ہوں اور ان كا مقصد كلمہ كفر پر اللہ تعالى كا كلمہ بلند كرنا نہ ہو، اور ان لوگوں كا معاملہ بہت سے مسلمانوں پر مخفى رہے، تو اسے ظاہر كرنے والى سب سے چيز جھاد ہى ہے، كيونكہ جھاد ميں تو جان خرچ كرنى پڑتى ہے، اور اس منافق نے تو نفاق اسى ليے اختيار كيا ہے تا كہ وہ اپنى روح اور جان بچا سكے.

اور جو كچھ جنگ احد ميں مومنوں كے ساتھ ہوا اس ميں بھى اللہ تعالى كى حكمت تھى كہ منافقوں كو ظاہر كيا جائے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{جس حال پر تم ہو اسى پر اللہ ايمان والوں كو نہ چھوڑ دے گا جب تك كہ پاك اور ناپاك كو الگ الگ نہ كر دے}آل عمران( 179 ).

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يعنى جس حالت ميں تم ہو اللہ تعالى تمہيں اسى حالت ميں نہيں چھوڑ دے گا، كہ مومن اور منافق خلط ملط رہيں، بلكہ اللہ تعالى اہل ايمان كو اہل نفاق سے ممتاز كر كے ركھ دے گا، جيسا كہ انہيں معركہ احد ميں آزمائش كے ساتھ ممتاز كيا.

اور اللہ تعالى اس غيب پر مطلع نہيں كرے گا جو ان كے اور ان كے مابين تميز كردے، كيونكہ وہ اس كے غيب ميں اور اس كے علم ميں بھى متميز ہيں، وہ اللہ سبحانہ تعالى چاہتا ہے كہ ان كے مابين واضح تميز كردے، تو وہ معلوم ہو جائے غيب شھادہ ہے. اھ۔

7 - مومنوں كا گناہوں سے چھٹكارا:

يعنى ان كا گناہوں سے بچنا اور اس سے چھٹكارا حاصل كرنا.

اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:

{اور ہم ان دنوں كو لوگوں كے درميان ادلتے بدلتے رہتے ہيں، ( معركہ احد ميں يہ وقت شكست ) اس ليے تھى كہ اللہ تعالى ايمان والوں كو ظاہر كر دے اور تم ميں سے بعض كو شہادت كا درجہ نصيب فرمائے، اللہ تعالى ظالموں سے محبت نہيں كرتا، ( يہ وجہ بھى تھى ) كہ اللہ تعالى ايمان والوں كو بالكل الگ كر دے اور كافروں كو مٹا دے، كيا تم سمجھ بيٹھے ہو كہ تم جنت ميں چلے جاؤ گے حالانكہ ابھى تك اللہ تعالى نے يہ ظاہر نہيں كيا كہ تم ميں سے جہاد كرنے والے كون ہيں اور صبر كرنے والے كون ہيں؟} آل عمران ( 14 - 142 ).

8 - غنيمتوں كا حصول:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميں قيامت سے قبل تلوار دے كر مبعوث كيا گيا ہوں تا كہ صرف ايك اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت كى جائے، اور ميرا رزق ميرے نيزے كے سائے ميں ركھا گيا ہے، اور جس نے بھى ميرے كام كى مخالف كى اس پر ذلت و پستى مسلط كر دى گئى ہے، اور جو كوئى كسى قوم كے مشابھت اختيار كرتا ہے وہ انہى ميں سے ہے"

مسند احمد حديث نمبر ( 4869 ) صحيح الجامع حديث نمبر ( 2831 ).

حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس حديث اس امت كے غنيمتوں كے حلال ہونے كا اشارہ ہے، اور اس يہ بيان ہوا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا رزق اسى ميں ركھا گيا ہے، نہ كہ اس كے علاوہ كسى اور آمدن ميں، اور اسى ليے بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ يہ كمائى كا سب سے افضل ترين ذريعہ ہے. اھ۔

اور امام قرطبى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى روزى ان كى فضيلت كى بنا پر ان كى كمائى ميں ركھى، اور اسے سب سے بہتر اور افضل كمائى اور آمدن كى قسم ميں ركھا، اور وہ يہ كہ اپنے شرف كى بنا پر قھر اور غلبہ كے ساتھ حاصل كرنا. اھ۔

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم غزوہ بدر ميں ابوسفيان رضى اللہ تعالى عنہ كے قافلہ كے ليے نكلے تھے.

قرطبى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قافلہ پر حملہ كرنے كے ليے نكلنا غنيمت كے حصول كے ليے نكلنے كے جواز كى دليل ہے، كيونكہ يہ حلال كمائى ہے، اور يہ مالك رحمہ اللہ كا رد ہے كہ جب انہوں نے يہ كہا كہ يہ قتال دنيا كے حصول كے ليے تھا. اھ۔

امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( ابن ابى جمرہ كا كہنا ہے كہ: محققون كہتے ہيں كہ جب پہلا سبب اور باعث اعلاء كلمۃ اللہ ہو تو پھر اس كى طرف جو بھى اضافہ كيا جائے وہ اس كے ليے نقصان دہ نہيں ہے ) اھ۔

9 - شھادتوں كا حصول:

فرمان بارى تعالى ہے:

{اگر تم زخمى ہوئے ہو تو تمہارے دشمن اور مخالف بھى تو ايسے ہى زخمى ہو چكے ہيں، ہم ان دنوں كو لوگوں كے درميان ادلتے بدلتے رہتے ہيں، ( احد ميں وقتى طور پر شكست اس ليے تھى ) كہ اللہ تعالى ايمان والوں كو ظاہر كردے اور تم ميں سے بعض كو شہادت كا درجہ نصيب فرمائے، اللہ تعالى ظالموں سے محبت نہيں كرتا، ( وجہ يہ بھى تھى ) كہ اللہ تعالى ايمان والوں كو بالك الگ كردے اور كافروں كو مٹا كر نيست و نابود كركےركھ دے}آل عمران ( 140-141 ).

اللہ تعالى كے ہاں اولياء كے ليے بلند ترين مرتبہ شھادت ہے، اور شھداء ہى اس كے بندوں ميں خاص اور اس كے مقرب بندے ہيں، صديقيت كے بعد شھادت كے علاوہ كوئى مرتبہ اور درجہ نہيں، وہ اللہ سبحانہ وتعالى اپنے بندوں ميں سے شھداء بنانے پسند كرتا ہے، اس اللہ كى محبت ميں ان كے خون بہتے ہيں، اور اس كى خوشنودى كے حصول كے ليے وہ اپنى جانوں كا نذرانہ پيش كرتے، اور اس اللہ تعالى كى رضا اور محبت كو وہ اپنے نفسوں اور جانوں پر ترجيح ديتے ہيں، اور يہ مرتبہ و درجہ اس وقت تك حاصل ہى نہيں ہو سكتا جب تك كہ اس پہنچنے كے اسباب پيدا نہ ہوں، اور وہ دشمنوں كا مسلط ہونا ہے ) اھ۔

ماخوزاز: زاد المعاد لابن قيم رحمہ اللہ تعالى .

جو لوگ مسلمانوں كو جھاد سے متنفر كرتے، اور انہيں اس سے خوفزدہ كرتے، اور يہ باور كراتے ہيں كہ جھاد موت ہے، اس سے عورتيں بيوہ ہوتى ہيں اور بچے يتيم ہوتے ہيں، ان ميں يہ حكمت كہاں گئى اور وہ اس عظيم الشان اور جليل القدر حكمت كے متلق كيا كہتے ہيں؟!

10 - اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{اور اگر اللہ تعالى آپس ميں لوگوں كو ايك دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجديں اور يہوديوں كے معبد اور وہ مسجديں بھى منہدم كردى جاتيں جہاں اللہ تعالى كا نام كثرت سے ليا جاتا ہے، جو اللہ تعالى كى مدد و نصرت كرے گا اللہ تعالى بھى ضرور اس كى مدد و نصرت كرے گا، بيشك اللہ تعالى بڑى قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے} الحج ( 40 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

{اور اگر اللہ تعالى بعض لوگوں كو بعض سے دفع نہ كرتا تو زمين ميں فساد پھيل جاتا، ليكن اللہ تعالى دنيا والوں پر فضل و كرم كرنےوالا ہے} البقرۃ ( 251 ).

مقاتل رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر اللہ تعالى مسلمانوں كےساتھ مشركوں كو دفع نہ كرے تو مشرك زمين پر غالب آجائيں اور مسلمانوں كو قتل كرنا شروع كرديں، اور مساجد خراب كرديں. اھ۔

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب" الجواب الصحيح" ميں لكھتے ہيں:

اللہ تعالى مومنوں كے ساتھ كفار كو دفع كرتا اور دونوں گروہوں ميں سے بہتر اور اچھے گروہ كے ساتھ شرير اور برے گروہ كو ختم كرتا ہے، جيسا كہ مجوسيوں كو رومى عيسائيوں كے ساتھ ختم كيا، پھرامت محمديہ كے مومنوں كے ساتھ نصارى كو دفع كيا. اھ۔

ديكھيں: الجواب الصحيح ( 2 / 216 ).

اور سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

كافروں اور فاجروں، اہل شر اور فساديوں كے غلبہ كى بنا پر زمين ميں فساد بپا ہو چكا ہے. اھ۔

جھاد كى مشروعيت كى بعض حكمتيں يہ تھيں جو ذكر كى گئى ہيں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كو ان كے دين كى طرف بہتر اور اچھے طريقے سے پلٹنے كو توفيق نصيب فرمائے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے.

واللہ اعلم .
 

x boy

محفلین
کرے غیر گربت کی پوجا تو کافر

جو ٹہرائے بیٹا خدا کا تو کافر

جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر

کواکب میں ما نے کرشمہ تو کافر

مگر مومنوں میں کشادہ ہیں راہیں

پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں

نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبیوں سے بڑھائیں

مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں

نہ توحید میں خلل اس سے آئے

نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جا ئے

وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں
ہوا جلوہ حق زمیں و زماں میں

رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں
وہ بدلا گیا آکے ہندوستان میں

ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں

وہ دولت بھی کھوبیٹے آخر مسلماں



مولانا الطاف حسین حالی رحمہ اللہ​
 

x boy

محفلین
شروط لا الہ الا اللہ



الحمد للہ
شیخ حافظ حکمی نے اپنی نظم سلم الوصول میں کہا ہے کہ:
علم اور یقین اور قبول اور انقیاد کو جان لے جو میں کہہ رہا ہوں،

صدق اور اخلاص اور محبت اللہ تجھے اس کی توفیق دے جسے وہ پسند کرتا ہے۔

پہلی شرط: (علم) اس سے مراد نفی اور اثبات جو کہ جہالت کے منافی ہے،

فرمان باری تعالی ہے:

"تو آپ جان لیں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں"

اور فرمان ربانی ہے:

"مگر وہ جو حق کا اقرار کریں اور انہیں علم بھی ہو"

یعنی لا الہ الا اللہ کا اقرار کریں اور اپنے دلوں کے ساتھ اسکا معنی بھی جانتے ہوں جو انکی زبان کہہ رہی ہے۔

صحیح بخاری میں عثمان رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اس حالت میں مرا کہ اسے لا الہ الا اللہ کا علم ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا)۔

دوسری شرط: (یقین) یہ اس کے کہنے والے کو جس پر یہ کلمہ دلالت کررہا ہے اس پر پختہ یقین ہونا چاہئے کیونکہ ایمان میں ایسا علم جو کہ ظنی ہو کافی نہیں بلکہ ایسا ایمان ہونا چاہئے جو کہ یقینی علم پر مبنی ہو تو اگر اس میں شک یعنی ظن داخل ہوگیا تو پھر اسکا کیا حال ہوگا؟

فرمان باری تعالی ہے:

"مومن تو وہ ہیں جو اللہ تعالی اور اسکے رسول پر (پختہ) ایمان لائیں پھر شک وشبہ نہ کریں اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہیں تو یہی پکے اور سچے مومن ہیں"

تو اس آیت میں اللہ تعالی اور اسکے رسول پر صدق ایمان کی شرط یہ لگائی کہ وہ شک وشبہ کی گنجائش نہ رکھیں، جسے شک وشبہ ہوتا ہے وہ منافق ہے۔

صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے یہ شہادت دی کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ تعالی کا رسول ہوں، تو اگر وہ بندہ اس میں بغیر شک کیے اپنے رب سے جاملے تو وہ جنت میں داخل ہوگا)۔

اور دوسری روایت میں ہے کہ: (ان دونوں میں شک نہ کرنے والا اللہ تعالی سے جاملے تو اس سے جنت چھپائی نہیں جائے گی)۔

اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جوتے دیکر بھیجا اور کہا کہ جو بھی اس باغ کے باہر ملے اور وہ لا الہ الا اللہ کی گواہی اپنے دل کے یقین کے ساتھ دیتا ہو اسے جنت کی خوشخبری دےدو) حدیث

تو جنت میں داخل ہونے کی شرط یہ لگائی کہ جو اسے اپنے دل کے یقین کے ساتھ پڑھتا ہو اور اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہ رکھتا ہو، تو جب شرط نہ پائی جائے تو پھر مشروط بھی نہیں ہوتا۔

تیسری شرط: (قبول) یہ کلمہ جس چیز کا تقاضا کرتا ہے اسے دل اور زبان کے ساتھ قبول کرنا، اللہ عزوجل نے سابقہ امتوں کے قصے بیان کرتے ہوئے ان لوگوں کی نجات کا بیان کیا جنہوں نے اسے قبول اور جنہوں نے اسے رد اور اسکا انکار کیا انکی سزا کا بھی بیان کیا ہے فرمان باری تعالی ہے:

"ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا اور انکے ہمراہیوں کو بھی اور ان کو بھی جن جن کی یہ اللہ کے علاوہ پرستش کرتے تھے ان سب کو جمع کر کے انہیں دوزخ کی راہ دکھا دو اور انہیں ٹھہرا لو (اس لئے کہ) ان سے سوال کئے جانے والے ہیں) اللہ تعالی کے اس فرمان تک "یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں تو یہ سرکشی اور تکبر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی بات پر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں؟"۔

تو اللہ تعالی نے انکے عذاب کی علت اور اسکا سبب یہ بیان کیا کہ وہ لاالہ الا اللہ سے تکبر کرتے اور اسے جو یہ کلمہ لے کر آیا جھٹلاتے اور اس چیز کی نفی نہیں کرتے تھے جس کی اس کلمے نے نفی کی اور نہ ہی اسکا اثبات کرتے جس کی یہ کلمہ اثبات کرتا ہے بلکہ انہوں نے اس سے انکار اور تکبر وسرکشی کرتے ہوئے یہ کہا کہ:

"کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود بنادیا واقعی یہ بہت عجیب بات ہے، ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ چلو جی اور اپنے معبودوں پر جمے اور ڈٹے رہو یقینا اس بات میں کوئی غرض ہے، ہم نے تو یہ بات پھچلے دین میں بھی نہیں سنی کچھ نہیں تو یہ صرف گھڑی ہوئی بات ہے"۔

تو اللہ تعالی نے انہیں جھٹلاتے اور ان کا رد کرتے ہوئے اپنے نبی کی زبان سے یہ فرمایا:

"(نہیں نہیں) بلکہ (نبی) تو حق (سچا دین) لائے ہیں اور سب رسولوں کو سچا مانتے ہیں"

پھر اسکے بعد ان کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا جن لوگوں نے اس کلمے کو قبول کیا:

"مگر اللہ تعالی کے خالص اور برگزیدہ بندے انہیں کے لئے مقرر کردہ رزق ہے ہر طرح کے میوے اور وہ باعزت ہونگے نعمتوں والی جنتوں میں"۔

اور صحیح بخاری میں ابو موسی رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس ہدایت اور علم کی مثال جو کہ اللہ تعالی نے مجھے دیکر مبعوث کیا ہے مثال اس موسلا دھار بارش کی ہے جو کہ ایسی زمین پر ہوتی ہے جو کہ صاف ہو اور پانی کو قبول کرنے کے بعد بہت زیادہ گھاس اور سبزہ اگائے، اور دوسری زمین کا ٹکڑا ایسا ہے کہ جہاں بارش ہو تو وہ نہ تو پانی ہی روکتا ہے اور نہ ہی گھاس اور سبزا اگاتا ہے، تو یہی مثال اس کی ہے جو کہ اللہ کے دین کی سمجھ رکھتا ہے تو اسے وہ چیز نفع دیتی ہے جسے دیکر اللہ تعالی نے مجھے بھیجا ہے اسے وہ خود بھی سیکھتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے اور وہ جو اس کی طرف سراٹھا کر دیکھتا اور دھیان بھی نہیں دیتا اور نہ ہی اللہ تعالی کی اس ہدایت کو جسے میں دیکر مبعوث کیا گیا ہوں قبول کرتا ہے۔)

چوتھی شرط: (انقیاد) مطیع ہونا: جو اس کے منافی ہونے پر دلالت کرے اس کا ترک کرنا ضروری ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:

"اور جو شخص اپنے آپ کو اللہ تعالی کے تابع کردے اور پھر وہ ہو احسان کرنے والا یقینا اس نے مضبوط کنڈے کو تھام لیا اور تمام کاموں کا انجام اللہ تعالی ہی کی طرف ہے"۔

یعنی جس نے لاالہ الا اللہ کے ساتھ کنڈے کو پکڑلیا۔ اور احسان کرنے والا: اس کا معنی یہ ہے کہ: وہ اللہ کا مطیع اور اسکے تابع ہو اور پھر موحد بھی ہو۔

اور جو اپنے آپ کو اللہ تعالی کا مطیع اور تابع نہ کرے اس نے مضبوط کنڈے کو ہاتھ نہیں ڈالا اور اللہ تعالی کے اس قول کا معنی بھی یہی ہے:

"آپ کافروں کے کفر سے رنجیدہ نہ ہوں آخر ان سب نے ہماری طرف ہی لوٹنا ہے پھر ہم انکو بتائیں گے جو انہوں نے کیا ہے"۔

صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (آپ میں کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہشات کو اس کے تابع نہ کردے جو میں لایا ہوں)۔

تو یہی مکمل اور انتہائی اتباع اور پیروی ہے۔

پانچویں شرط: (صد‍ق) جو کہ کذب اور جھوٹ کے منافی ہے وہ اس طرح کہ اسے یہ کلمہ صدق دل کے ساتھ کہنا چاہیے اور اسکا دل اسکی زبان سے جو نکل رہا ہے اس میں اسکی پیروی کرے۔ فرمان باری تعالی ہے:

"الم، کیا لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ان کے اس کہنے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہی چھوڑ دینگے ان سے پہلے لوگوں کو بھی ہم نے آزمایا یقینا اللہ تعالی ان کو بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی جو جھوٹے ہیں"

اور منافقوں اور جھوٹوں کے متعلق ارشاد فرمایا:

"اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں، وہ اللہ تعالی اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہيں مگر سمجھتے نہیں، ان کے دلوں میں بیماری تھی اللہ تعالی نے ان کی بیماری کو مزید بڑھادیا اور انکے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے"۔

بخاری اور مسلم میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو بھی صدق دل سے لاالہ الا اللہ پڑھے اور اسکی گواہی دے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے بندے اور رسول ہیں تو اللہ تعالی اس پر آگ کو حرام کردیتے ہیں)-

چھٹی شرط: (اخلاص) اخلاص یہ ہے کہ اپنے تمام اعمال کو شرک کی آلائشوں سے پاک صاف رکھا جائے فرمان باری تعالی ہے:

"خبردار! اللہ تعالی ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے"

اور فرمان ربانی ہے:

"کہہ دیجئے! کہ میں تو خالص صرف اپنے رب ہی کی عبادت کرتا ہوں"۔

صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگوں میں سے میری شفارش کا وہ شخص مستحق اور سعادت مند ہوگا جس نے لاالہ الا اللہ صدق دل اور جان سے پڑھا)

ساتویں شرط: (محبت) اس کلمہ اور جو اس کے تقاضے اور جن چیزوں پر یہ دلالت کرتا ہے انکے ساتھ محبت ہونا چاہئے اور اسی طرح اس پر اور اس کی شروط پر عمل کرنے والوں سے محبت اور اسکے نواقض سے بغض ہونا چاہئے فرمان باری تعالی ہے:

"اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالی کے شریک بنا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ تعالی سے ہونی چاہئے اور ایمان والے اللہ تعالی کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں"۔

تو اللہ تعالی نے یہ بیان کیا ہے کہ مومن لوگوں کی محبت اللہ تعالی سے بہت زیادہ ہوتی ہے اور اسکا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اسکی محبت میں کسی کو شریک نہیں کیا جس طرح کہ ان مشرکوں نے محبت کا دعوی کیا جو کہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا کر ان سے بھی اللہ تعالی جیسی محبت کرتے ہیں۔

صحیح بخاری اور مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے اس وقت تک کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ میرے ساتھ اپنے بیٹے اور باپ اور سب لوگوں سے زیادہ محبت نہ رکھے۔

واللہ تعالی اعلم۔

اللہ تعالی ہی کے پاس زیادہ علم ہے۔
 

x boy

محفلین
قرآن کی بیان کردہ مدبر اور کامیاب حکمران " ملکہ سبا بلقیس " !

قرآنِ حکیم نے جہاں انبیاء پر لگائے گئے الزامات سے ان کا دامن صاف کیا ھے وھیں ملکہ سبا بلقیس کے بارے میں بھی یہود کی ھرزہ سرائیوں کا منہ توڑ جواب دیا اور انہیں ایک مدبر اور اپنے عوام سے محبت کرنے والی ایک ذھین مسلمان ملکہ کے طور پر پیش کیا ھے !

جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے خط لکھا تو اس نے اپنی شوری کا اجلاس بلایا ،،جبکہ وہ مشرک اور سورج کی پوجا کرنے والی تھی ،،مگر قرآنی خبر " و امرھم شوری بینھم " کہ مسلمانوں کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ھوتے ھیں کا مصداق تھی ! شوری کے دوران سرداروں نے جنگ کی طرف میلان ظاھر کیا اور اپنی قوت اور تجربے کا حوالہ دیا مگر آخری فیصلہ ملکہ پر ھی چھوڑ دیا ! ملکہ نے ان سے تاریخ کا نچوڑ صرف ایک جملے میں بیان کر دیا ،، اور اللہ پاک نے ملکہ کے قول کی تائید فرمائی ! اس نے کہا " دیکھو یہ بادشاہ لوگ جب فاتح ھو کر کسی بستی میں گھستے ھیں تو وھاں فساد بپا کر دیتے ھیں اور اس بستی کے عزیز ترین لوگوں کو ذلیل ترین بنا دیتے ھیں ،، اللہ پاک نے فرمایا ،، و کذالک یفعلون "بالکل اسی طرح کرتے ھیں ! آج بھی ھم دیکھتے ھیں کہ ملکہ بلقیس کا قول کتنا Valid ھے،، عراق اور لیبیا کو دیکھ لیں،،کل تک جو عہدوں اور طاقت کے لحاظ سے ٹاپ ٹین تھے وہ اگلے دن موسٹ وانٹیڈ لسٹ میں ٹاپ ٹین پر تھے !

پھر اس نے جنگ کے آپشن کو رد کر کے کہا کہ میں ایک وفد بھیج رھی ھوں جو وھاں جا کر صورتحال کا جائزہ لے گا اور اس کی رپورٹ پر ھی اگلا قدم طے کیا جائے گا ! اپنے سفراء کی رپورٹ سے غیر مطمئن ملکہ نے خود دورہ کرنے کا ارادہ کر لیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنے دورے کی اطلاع دے دی ،، حضرت سلیمان نے ملکہ کا تخت منگوا لیا اور جب وہ دربار مین حاضر ھوئی تو اس کا "' ت۔۔راہ " نکالنے کے لئے اک دم اسی کا تخت بیٹھنے کے لئے پیش کر دیا ،، اور سوال کیا " أھٰکذا عرشکِ؟ کیا آپ کا عرش بھی اسی جیسا ھے ؟ ملکہ نے نہایت وقار سے تخت پر قدم رنجہ فرماتے ھوئے بڑا ڈپلومیٹک جواب دیا ،، جس سے اس کی ذھانت کا اندازہ ھوتا ھے،، اس نے نہ تو تعجب کا اظہار کیا ،، اور نہ ھاں یا نہ میں جواب دیا ،،بلکہ کہا " کأنہ ھو !! لگتا تو اسی جیسا ھے ! مگر اس نے اس بات کو اپنے حساب میں جوڑ ضرور لیا ! پھر جب سلیمان علیہ السلام نے اپنا دربار اس ھال میں سجایا جہاں نہایت شفاف شیشے کا فرش تھا جس کے پانی میں نیچے چلتی پھرتی مچھلیاں بھی نظر آرھی تھیں اور ملکہ کو دربار میں دعوت دی گئ تو ملکہ نے سمجھا کہ دربار تک جانے والے رستے مین پانی ھے تو اس نے اپنی شلوار تھوڑی سی اوپر اٹھائی ،جس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے آواز دی کہ تشریف لائیے یہ شیشہ ھے پانی اس کے نیچے ھے،، اس بات سےملکہ حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئ کہ یہ نفیس آدمی عام دنیا دار بادشاہ نہیں بلکہ واقعتاً کسی عظیم آسمانی ھستی کا نمائندہ ھے،، یوں اس نے سابقہ زندگی سے توبہ کر کے سلیمان علیہ السلام کے دست مبارک پر اسلام قبول کر لیا ! جس کے نتیجے میں اس کے اندازِ حکومت کو دیکھتے ھوئے سبا کی حکومت ملکہ ھی کے پاس رھنے دی گئ ،یوں ملکہ اپنی پوری قوم سمیت مسلمان ھو گئ،،خود بھی دونوں جہانوں میں کامیاب ھوئی اور اپنی قوم کو بھی سرخرو کر دیا !

اس کا تقابل اگر کرنا ھے تو مرد بادشاہ سے کر کے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں کہ مرد بادشاہ کامیاب ھوا یا عورت ملکہ ؟؟ نیز کس کی قوم برباد ھوئی ،مرد بادشاہ کی یا عورت حکمران کی ؟؟

1-پہلے نمبر پر فرعون کو دیکھ لیں ایک نہیں دو رسول تشریف لائے تھے،ایک ملاقات نہیں بلکہ 30 سال انہوں نے محنت کی اور 9 معجزے اس نے دیکھے ! مگر خود بھی ڈوبا اور قوم بھی ڈبو دی ! قرآن اس کی بربادی اور کم عقلی کا ذکر کچھ یوں کرتا ھے " و اضل فرعون قومہ وما ھدی،، فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا ،انہیں سیدھی راہ نہ سجھائی ! اور فیصلہ سنایا یقدم قومہ یوم القیامہ فاوردھم علی النار، و بئس ورد المورد ! اور وہ اپنی قوم کے اگے آگے چلے گا قیامت کے دن اور انہیں آگ میں جا اتارے گا اور برا ٹھکانہ ھے اترنے کے لئے !

2- قیصر کو اللہ کے رسول ﷺ نے خط لکھا اور اسے لکھا کہ اگر تم مسلمان ھو جاؤ گے تو تمہاری قوم بھی مسلمان ھو جائے گی اور تمہیں ان کے اسلام کا اجر بھی ملے گا،،اور تمہاری بادشاھی بھی تمہارے پاس رھے گی ! اور اگر تم پہلے کافر بنے تو تمہاری قوم بھی تمہارے اتباع میں کافر رھے گی ، یوں تمہیں ان کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھانا ھو گا ! ابوسفیان کی گواھی کے نتیجے میں حق کچھ اس طرح قیصر پر واضح ھوا تھا کہ اس نے یقین کے ساتھ کہا تھا کہ اس رسول کا حکم ٹھیک اس جگہ پہنچ کر رھے گا جہاں اس وقت میرے یہ قدم ھیں،،مگر وہ اپنی قوم کے سرداروں کے دباؤ کا سامنا نہ کر سکا اور ان کے دباؤ میں اور بادشاھی جانے کے ڈر سے اسلام قبول نہ کر سکا یوں خود بھی برباد ھوا اور اپنی قوم کو بھی برباد کیا، جبکہ ملکہ بلقیس نے حق واضح ھو جانے کے بعد ایک لمحے کی دیر بھی نہیں کی اور اسلام کو قبول کرنے کا بولڈ قدم اٹھایا اور سرداروں کے دباؤ کو مسترد کر کے اپنے عوام کو دونوں جہانوں کی بربادی سے بھی بچا لیا اور اپنی بادشاھی اور حکمرانی بھی بچا لے گئ !

فاعتبروا یا اولی الابصار !!
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
خاوند اپنی بیوی کو "امی "کہہ دے تو اسکا کیا حکم ہے؟ کیا یہ حرام ہے؟ یا اس طرح کہنے سے بیوی اس پر حرام ہوجائے گی؟


الحمد للہ:

اول:

آدمی اگر اپنی بیوی کو "تم میری ماں ہو" یا" میری بہن ہو"یا "امی " کہہ دے تو اس میں خاوند کی نیت کے مطابق ظہار ہونے یا نہ ہونے دونوں کا احتمال ہے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے، اور ہر شخص کیلئے وہی ہے جسکی اس نے نیت کی) متفق علیہ

اور عام طور پر اس طرح کے کلمات پیار محبت اور توقیر کیلئے خاوند کہہ دیتا ہے، چنانچہ اس صورت میں یہ ظہار نہیں ہوگا، اور نہ ہی شوہر کیلئے بیوی حرام ہوگی۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (8/6) میں کہتے ہیں:

"اور اگر خاوند نے کہہ دیا: تم مجھ پر میری ماں کی طرح ہو، یا ماں جیسی ہو، اور اس کا مقصد ظہار تھا ، تو اکثر علماء کے ہاں یہ ظہار ہی ہوگا، اور اگر مقصد صرف عزت و احترام تھا تو ظہار نہیں ہوگا۔۔۔ اور اسی طرح [ان جملوں کا بھی یہی حکم ہوگا کہ]: "تم میری ماں ہو"، یا "میری بیوی میری ماں" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا

دائمی فتوی کمیٹی سے پوچھا گیا کہ :

کچھ لوگ اپنی بیوی سے کہہ دیتے ہیں کہ میں تمہارا بھائی ہوں، اور تم میری بہن ہو، تو اسکا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"جب خاوند اپنی بیوی سے کہے کہ میں تمہارا بھائی ہوں اور تم میری بہن ہو، یا کہے کہ : تم میری ماں ہو، یا میری ماں جیسی ہو، یا پھر کہہ دے کہ: "تم میرے نزدیک میری ماں جیسی ہو، یا بہن جیسی ہو، تو اگر اس کی مذکورہ باتوں کی نیت صرف عزت افزائی، احترام ، صلہ رحمی اور اظہار محبت ہو ، یا سرے سے کوئی نیت تھی ہی نہیں ، اور نہ کوئی ارادہ ظہار کے شواہد پائے گئے ، تو یہ ظہار نہیں ہوگا اور نہ اسے کوئی کفارہ لازم آئے گا۔

اور اگر اس جیسے دیگر کلمات سے ظہار کا ارادہ تھا، یا ظہار کیلئے شواہد پائے گئے ، جیسے کہ یہ کلمات بیوی پر غصہ اور اسے ڈانٹ ڈپٹ پلانے کے وقت صادر ہوئے ہوں تو یہ ظہار ہوگا جو کہ حرام ہے، اس پر اسے توبہ کرنی ہوگی، اور بیوی سے ہمبستری سے قبل کفارہ بھی ادا کرنا ہوگا، جو کہ ایک غلام کو آزاد کرنا ہے، اگر غلام نہ ملے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہونگے، اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہوگا" انتہی

"فتاوى اللجنة الدائمة" (20/274)

دوم:

بعض علماء کے نزدیک خاوند کی طرف سے اپنی بیوی کو : "میری ماں "، یا "میری بہن" کہنا مکروہ ہے، اس کی دلیل وہ ابو داود (2210)کی روایت کو بناتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو کہہ دیا: "میری بہنا" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہاری بہن ہے کیا؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند جانا اوراسے اس روک دیا)

صحیح بات یہی ہے کہ اس بات میں کوئی کراہت نہیں ہے، کیونکہ یہ حدیث ضعیف ہے، البانی نے اسے ضعیف ابو داود میں ضعیف قرار دیا ہے۔

اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

کیا آدمی کیلئے یہ جائز ہے کہ اپنی بیوی کو صرف محبت کے طور پر کہہ دے"او!میری بہن"یا محبت ہی کی وجہ سے کہہ دے: "او! میری ماں"


تو انہوں نے جواب دیا:

"جی ہاں! "میری بہن"یا "میری ماں"یا اسکے علاوہ پیار و محبت کا موجب بننے والے کلمات کہنا جائز ہے، اگرچہ کچھ اہل علم کے ہاں بیوی کو اس قسم کے جملوں سے مخاطب کرنا مکروہ ہے، لیکن حقیقت میں کراہت کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے،ا ور اس آدمی نے ان جملوں سے یہ نیت نہیں کی کہ اسکی بیوی بہن کی طرح اس پر حرام ہے، یا وہ اسکابہن کی طرح محرم ہے، بلکہ اس نے محبت اور پیار بڑھانے کیلئے ایسا کیا، اور ہر وہ چیز جو میاں بیوی کے مابین محبت کا سبب ہو چاہے وہ خاوند کی طرف سے ہو یا بیوی کی طرف سے تو وہ مطلوب ہے" انتہی


اقتباس از: "فتاوى برنامج نور على الدرب"

واللہ اعلم .
 
Top