عزیزی فہیم
سلام مسنون!
یہ آپ کن چکرون میں پڑ گئے
اگر آپ نے اس کتاب کو پڑھنا ہی ہے تو پھر اس کتاب کے رد میں لکھی جانے والی بے شمار کتب کا مطالعہ بھی آپ کو کرنا چاہیے ورنہ احتمال ہے کہیں آپ سیدھے راستے ﴿صراط مستقیم﴾کو گم نہ کردیں
یہ بات درست ہے کہ پہلے لشکر اور پہلے بحری بیڑہ والی حدیث ایک ہی ہے
اب چونکہ پہلے بحری بیڑہ میں یزید شامل نہیں تھا اس لیے پہلے لشکر کی بات کر کے غلط فہمی پھیلائے جانے کی کوشش کی گئی ہے
ورنہ یہ حقیقت ہے کہ پہلے لشکر جس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا اس وقت یزید صرف چھ سات سال کا ہی تھا وہ تو قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے چھٹے یا ساتویں لشکر کا سپہ سالار بنا
آپ اس بکھیڑے میں پڑ ہی گئے ہیں تو میرا مشورہ یہ ہے کہ اس کتاب کے رد میں لکھی جانے والی کتابوں کا بھی مطالعہ کر لینا
اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب کی کتاب مشہور ہے
اس کے بعد اٹک سے تعلق رکھننے والے علامہ سید لعل شاہ بخاری کی کتاب استخلاف معاویہ و یزید بھی قابل مطالعہ ہے
میری محدود معلومات کے مطابق یزید کو امت مسلمہ کا ہیرو ثابت کرنے اور امام حسین کو ایک باغی کی حیثیت سے پیش کرنے والے اس مخصوص گروہ کی جانب سے یزید پلید کی حمایت میں ایک درجن کے قریب مستقل تصانیف سامنے آچکی ہیں جن میں سے آنجہانی محمود عباسی کی کتاب ۔’’خلافت معاویہ ویزید‘‘ اور ابویزید محمد دین بٹ کی کتاب’’رشید ابن رشید‘‘ کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ اولذکرکتاب پر سب سے پہلے مولانا قاری محمد طیب مرحوم نے گرفت کی اور ’’شہید کربلا اور یزید‘‘ کے نام سے بہترین تحقیق کتابی صورت میں شائع کرکے مسلک اہل سنت کو واضح کیا۔اس کے بعد مولانا عبدالرشید نعمانی نے اپنے مختلف مضامین اور ’’شہدائے کربلا پر افترأ‘‘ اور’’یزید کی شخصیت‘‘ نامی دو کتابوں کی صورت میں اس بد باطن گروہ کا تعاقب کیا۔ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین مولاناسید لعل شاہ بخاری نے اس رسوائے زمانہ کتاب کا مدلل تحقیقی رد کیا اور ’’استخلاف یزید‘‘ نامی کتاب لکھ کر صاحبان علم سے داد تحقیق حاصل کی۔
ثانی الذکرکتاب’’رشید ابن رشید‘‘ ابویزید محمد دین بٹ لاہوری کی تصنیف نامحمود ہے جس میں ناصبی گروہ کے اس سرخیل نے یزید پلید کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں اور امام عالی مقام کو باغی قرار دیتے ہوئے یزید کے خلاف ان کے خروج کو حرام قرار دیا۔جب یہ کتاب منظرِعام پر آئی تو حق پرست علمائے اہلل سنت اس مجموعہ خرافات کے رد کے لیے کمر بستہ ہوگئے اور کثیر تعداد میں علمی اور تحقیقی لٹریچر معرض وجود میں آیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ جب تک تمام متعلقہ لٹریچر پر نظر نہ ہو آپ جیسے نوجوان کا صرف ایک کتاب کا مطالعہ کرنا آپ کو حق کے راستے سے دور لے جائے گا
بھائی قیصرانی نے لکھا ہے:
برادر، حدیث کے خلاف کسی بھی شخص کی بحث اس کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی ہے
برادرم حدیث کی چانج اور پڑتال کے لیے ایک پورا علم ہے رجال روایت درایت اور بہت کچھ اس علم کے ذریعہ کسی بھی حدیث کو صحت کے اعتبار سے مختلف درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے اور کوئی حسن قرار پاتی ہے تو کوئی ضعیف کسی کو مرفوع کہا جاتا ہے تو کوئی موضوع اور کوئی احد یا خبر واحد کہلاتی ہے
اس کو ہم حدیث کے خلاف بحث نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ وہ علم ہے جس کی بنا پر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال مبارکہ کو خالص ترین صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کےے قابل ہو سکتے ہیں اور منسوب شدہ اور الحاق کردہ روایات کیی چھانٹی کر کے انہیں ایک طرف کر سکتے ہیں
اور اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ ہماری کتب حدیث اور کتب تاریخ میں بہت ساری ایسی روایات موجود ہیں کہ اگر جن کن چھانٹی بذریعہ جرح و تعدیل نہ کی جائے تو دین اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو تقویت ملتی ہے میں ایسی کئی مثالیں پیش کر سکتا ہوں لیکن یہ اس کا موقع محل نہیں
میں کتب حدیث میں سے اگر کچھ مخصوص مواد بغیر کسی حوالے کے یہاں نقل کر دوں تو آپ اس کو پڑھ کر کچھ ایسا ہی تبصرہ فرمائیں گے
اور جب آپ کو بتا دیا جائے کہ یہ بات فلاح حدیث کی کتاب میں ہے تو پھر آپ کے حیران ہونے کی باری آئے گی اور آپ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہو جائیں گے
یہاں بہن مہوش علی نے زیر نظر حدیث کی روایت کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی ہیں
بخاری شریف کی اس حدیث پر بہت سے علمائے حدیث نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق بحث کی ہے جیسا کہ گزشتہ کسی پوسٹ میں "شہر قیصر" کے بارے میں اختلاف سامنے آیا
یہ لوگ یزید کو جہنم کے گڑھے سے کسی نہ کسی طرح گھسیٹ کر جنت میں پھینکنے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن ان کو معلوم نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح فرمان ہے
عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما: ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم أخذ بید حسن و حسین، فقال: من أحبنی وأحب ہٰذین واباہما وامہما کان معی فی درجتی یوم القیامۃ۔
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین علیہما السلام کا ہاتتھ پکڑ کر فرمایا:جس نے مجھ سے ، ان دونوں سے، اور ان کے والد اور ان کی والدہ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے ہی ٹھکانہ پر ہوگا۔
(ترمذی، الجامع الصحیح، ۵:۶۴۱، ابواب المناقب، رقم:۳۷۳۳)
عن اسامۃ بن زید رضی اﷲ عنہما قال: قال النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم: انی أحبہما فاحبہما وأحب من یحبہما۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اﷲ! میں ان (حسنین کریمین) سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت رکھتا ہے اس سے بھی محبت فرما۔
(ترمذی، الجامع الصحیح،۵:۶۵۶، ابواب المناقب، رقم:۳۷۶۹)
عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم: من ابغضہما فقد ابغضنی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سیی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
(ابن ماجہ، السنن، فی باب فضائل اصحاب رسول اﷲ،۱:۵۱، رقم:۱۴۳)
(نسائی، السنن الکبریٰ،۵:۴۹، رقم۸۱۶۸)
عن سلمان قال: سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم من ابغضہما، أبغضنی، ومن ابغضنی أبغضہ اﷲ ومن ابغضہ اﷲ أدخلہ النار۔
سلمان فارسی سے روایت ہے،میں نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے حسن و حسین علیہما السلام سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا وہ اللہ کے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو اللہ کے ہاں مبغوض ہوا، اسے اﷲ نے آگ میں داخل کر دیا۔
(حاکم، المستدرک،۳:۱۸۱، رقم۴۷۷۶)
عن زید بن ارقم، ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم قال لعلیّ و فاطمۃ والحسن والحسین رضی اللہ عنہم انا حرب لمن حاربتم و سلم لمن سالمتم۔
حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اللہ علیہم سے فرمایا:جس سے تم لڑوگے میری بھی اس سے لڑائی ہوگی، اور جس سے تم ضلح کروگے میری بھی اس سے صلح ہوگی۔
(ترمذی، الجامع الصحیح،۵:۶۹۹، ابواب المناقب، رقم:۳۸۷۰)
عن ابی ہریرۃ قال: نظرالنبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم الی علی وفاطمۃ والحسن والحسین فقال:انا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہما السلام کی جانب دیکھ کر فرمایا:
جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا اور جو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کرونگا(یعنی جو تمہارا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو تمہارا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے)(احمد بن حنبل، المسند،۲:۴۴۲)
اور اب اتنے واضح فرامین پاک کے بعد بھی اگر کوئی شخص شامی راویوں ﴿جو اہلبیت سے دشمنی میں مشہور ہیں﴾ کی "خبر واحد" پر اعتبار کرتے ہوئے یزید کو جنت میں دیکھنا پسند کرتے ہیں تو یہ انکا اپنا ذوق ہے