اسکول کے طلباء کا ذکر نہیں کرتا کہ وہ عموماً اپنی اَمی کے قبضہ قدرت
میں ہوتے ہیں لیکنآج کل کے کالج یونیورسٹی کے عمومی طالب علموں کا انتہائی فضول نظام الاوقات جسے میں ”افراتفری نطام الاوقات“
کہتا ہون کچھ یوں ہوتا ہے :
صبح انتہائی تاخیر سے بیدار ہونا کہ کالج یا یونیورسٹی جانے میں محض بیس تیس منٹ باقی ہوں۔ انتہائی تیزی سے واش روم جانا، جلدی جلدی تیار ہونا، امی کا تیار کردہ ناشتہ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کرنا کہ ٹائم نہیں ہے، ابھی کھایا نہیں جائے گا، وغیرہ وغیرہ گھر سے باہر نکل جانا تاکہ پوائنٹ نہ چھوٹ جائے۔ اور اکثر و بیشتر گھر سے باہر نکل کر کال بیل بجانا کہ جلدی سے میرا بٹوا، میرا موبائل یا کچھ اور پکڑا دیں
اور کالج یا یونی پہنچ کر یہ یاد آنا کہ او ہو فلاں کتاب یا فلاں جرنل تو لانا ہی بھول گیا، آج تو پریکٹیکل بھی ہے
کالج اوریونیورسٹی سے (بالخصوص اگر پیشہ ورانہ ہوں تو) واپس گھر آتے آتے چار پانچ بج جاتے ہیں۔ اگر جامعہ میں پڑھائی سے فارغ ہوکر جنک فوڈ وغیرہ کھا لیا ہو تو گھر پر کھانا کھانے سے انکار ہوجاتا ہے۔ اور اگر بھوکے رہے ہوں یا صرف کولڈ ڈرنکس پر اکتفا کیا ہو تو جلدی کھا پی کر ۔ ۔ ۔ ۔ میں سونے جارہا ہوں، کوئی مجھے تنگ نہ کرے کہہ کر بستر پر دراز ہوجاتے ہیں اور مغرب تک بلکہ اکثر اس کے بعد تک نیند پوری کرکے اُٹھتے ہیں۔
پھر اطمینان سے پڑھنے کی میز پر آتے ہیں۔ ایک ہاتھ میں موبائل ہوتا تو دوسری طرف لیپ ٹاپ کھُل جاتا ہے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ بعد کتاب بھی بالآخر کھُل ہی جاتا ہے۔ تب تک نو دس بج چکے ہوتے ہیں۔ گھر والے عموماً عشائیہ کی میز پر پہنچ چکے ہوتے ہیں اور اس طالب علم کو بھی ”دعوت“ کی جاتی ہے کہ کھانا کھا لے۔ اگر تو موصوف یونی میں برگر وغیرہ کھا کر آئے ہوں اور گھر میں آن کر کچھ نہ کھایا ہو تو احسان عظیم فرماتے ہوئے پڑھائی ”چھوڑ“ کر کھانا کھانے آجاتے ہیں۔ لیکن اگر یونی میں سارا دن بھوکے رہے ہوں اور گھر آتے ہی سر شام کھانا کھایا ہو تو پھر عشائیہ سے معذرت کرلیتے ہیں۔ اور پڑھائی میں ”مصروف“ رہتے ہیں۔ نیٹ اور کتاب کو اپنی بیویاں سمجھتے ہوئے ہر دو کے ساتھ یکساں اور برابری کا سلوک کرتے ہیں
مجال ہے کہ کسی بھی لمحہ کوئی ایک نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ اس مساویانہ سلوک کے سبب پڑھائی اور اسائنمنٹس نامکمل ہی رہتی ہے اور ایک ڈیڑھ بج جاتا ہے۔ ایسے میں عموماً امی جان آکر شفقت سے فرماتی ہیں کہ بیٹا اب سوجاؤ۔ اور کتنا پڑھوگے، صبح یونیورسٹی بھی جانا ہے اور برخور دار دس پندرہ منٹ مزید یہ کہہ کر پڑھنے لگتے ہیں کہ امی ابھی تو اسائنمنٹس مکمل نہیں ہوا۔ چلیں باقی یونی میں کل کر لوں گا اور امی پر احسان عظیم فرماتے ہوئے بیڈ پر چلے جاتے ہیں۔ موبائل ہاتھ میں ہوتا ہے اور ہم جماعتوں کی طرف سے ایس ایم ایس کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور سوتے سوتے دو ڈھائی بج جاتے ہیں۔ اب اگر کوئی دو ڈھائی بجے سوئے تو صبح جلدی کیسے اٹھے۔ لہٰذا اگلا دن وہی افرا تفری کا ہوتا ہے بشرطیکہ وہھ دن چھٹی کا نہ ہو۔ جب موصوف تین کے بعد ہی سوتے ہیں اور اگلے روز دوپہر کو تھک ہار اُٹھ جاتے ہیں۔
اگر آپ میں سے کسی طالب علم کو اس منظر کشی میں اپنا عکس نظر آئے (اور شاید ہی کسی کو نظر نہ آئے
) تو وہ مجھے ”مورد الزام“ نہ ٹھہرائے بلکہ یہ سوچ لے کہ اس کا یہ طرز زندگی، نارمل نہیں ہے۔ نیچر سے ہٹ کر ہے۔ اور اِس افراتفری شیڈیول کا منفی اثر اُس کی ساری پیشہ ورانہ زندگی میں پڑ سکتا ہے، بلکہ لازماً پڑے گا۔ مغربی معاشرون میں تو یہ شیڈیول عام ہے اور اب ہم مشرق والے بھی اندھا دھند اسی کو فالو کئے چلے جارہے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔