حسن محمود جماعتی
محفلین
کورونا وبا کے اثرات میں ایک امر اپنوں سے دوری بھی ہے۔ یعنی سگے رشتہ داروں کو چار و ناچار دور رہنا پڑتا ہے۔ ماں باپ سگی اولاد سے، اولاد ماں باپ سے، بھائی بہن، میاں بیوی الغرض ہر رشتے سے فاصلے پیدا ہوجاتے ہیں۔ عمومی حالات میں سماجی فاصلہ ضروری ہے۔ لیکن اسی کورونا کے سبب ہم ملے محفل کی ایک خوبصورت شخصیت سے۔
دفتر میں دو قریبی افراد اس وبا سے متاثر ہوئے۔ ایک کو حالت وحالات کے سبب ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ باس نے پوچھا "میو ہسپتال میں کوئی جاننے والا ہے؟ جن کے ذریعے بہتر نگہداشت اور بروقت حالات معلوم کیے جا سکیں." جھٹ سے دماغ میں ایک نام ابھرا اور فیس بک پر میسیج داغ دیا۔ چند ساعتوں میں ہی جواب آیا کہ حکم کیجیے حکم کی تعمیل ہو گی۔ اسی اثنا میں نمبروں کا تبادلہ ہوا۔ چونکہ دفتر کے قریبی ساتھی وبا سے متاثر ہوئے لہذا اصولا اپنا ٹیسٹ کروانا بنتا تھا سو عرضی بھی ڈال دی۔ بولے فلاں وقت تشریف لائیے کام ہو جائے گا۔ اگلے روز مریض کے دیکھ بھال کے لیے میو جانا ہوا اور ہم نے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے وقت کی قطعی پابندی نہیں کی اور ڈاکٹر صاحب کے مذکورہ وقت پر نہیں پہنچے۔ رابطہ کیا جواب ندارد۔ سوچا ہماری کاہلی و سستی، وہ تو اپنا فرض ادا کر رہے ہوں گےاور یقینا ایسا ہی تھا وہ وارڈ ڈیوٹی پر تھے۔
نماز عصر کے وقت کال آئی کہ بندہ پرور کہاں تشریف فرما ہیں بتایا ابھی ہسپتال ہی ہوں۔ بولے نماز کے بعد ملاقات ہوگی فلاں وارڈ میں تشریف لائیے ٹیسٹ کے لیے نمونے لیے جائیں گے۔ لیجیے جناب یہ ٹھہری پہلی ملاقات اور پہلا دیدار جو ہمیں ڈاکٹر عاطف ملک صاحب کا ہوا۔
ڈاکٹری لباس زیب تن، ہڈی اور ماس کا ڈیل ڈول لیے، عینک میں سے جھانکتے، قدرے تیز کلام کرتے اور اپنے مخصوص انداز میں سر ہلاتے ڈاکٹر عاطف ملک صاحب۔
متعلقہ امور سر انجام دیے اور پھر فراغت پر باقاعدہ مختصر سلام دعا ہوئی۔ بولے ملنے کا اشتیاق تو تھا لیکن یوں نہیں۔ لیکن چلو اس کورونا کے سبب کوئی تو ملا۔ یہ خالصتاً طبی نوعیت کی ملاقات تھی۔ جس میں ڈاکٹر صاحب نے ہمارے اور مریض سے متعلق حالات پر ڈاکٹری تجزیہ دیا۔
16 اکتوبر کی صبح مریض کی دیکھ بھال کے دوبارہ جانا ہوا۔ جا کر رابطہ کیا بندہ پرور آپ کی نگری میں آپ کے زیر سایہ موجود ہیں۔ فرمایا ابھی ڈیوٹی پر ہوں آف ہوتے ہی رابطہ کرتا ہوں۔ سوا 10 بجے پیغام ملا آدھے گھنٹے تک فراغت ہو جائے گی۔ مقررہ وقت پر پیغام ملا کہ فراغت ہو گئی ہے۔ اس کے بعد ہر طرف خاموشی۔ 12 منٹ بعد پوچھا حضور آپ کے اشتیاق میں ادھر الطاف، رابن، ولسن ناجانے کس کس سے شرف ملاقات ہو گیا ہے۔ ٹھیک 12 منٹ بعد جواب ملا کینٹین پر تشریف لائیں۔
وہی بانکا نوجوان تیز تیز قدم اٹھاتا سامنے موجود۔ کینٹین میں ناشتہ کرنے بیٹھے اور اب پہلی بار غیر طبی گفتگو کا آغاز ہوا۔ جس کا نقطۂ ارتکاز بہرحال طب ہی تھا۔ اس گفتگو سے فراغت کے بعد جنابِ من نے اپنی ادب دوری کا بے جا رونا رویا جسے کمال خوبئِ حسن سماعت سے ڈاکٹر صاحب نے سنا اور کچھ اپنا حال سنایا۔ کنٹین سے نکل کر الوداعی طور پر ملنے کے کھڑے ہوئے تو کوئی مزید آدھا گفتگو بیچ سڑک کے ہوگئی جس پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا بھیا دھوپ زیادہ ہے اور سڑک کے بیچ کھڑے ہیں۔ خیر سے کوئی گاڑی ہی سلام دعا کر جائے۔ خیر چھاؤں میں کھڑے حسب عادت مزید نہ بولنے کا کہہ کر بھی مزید 10, 15 گفتگو سنائی۔
ملاقات کا اختتام آئندہ ملاقات جو کسی مناسب وقت اور مقام پر ہوگی کا دونوں طرف سے متفقہ فیصلہ سنایا گیا۔ اور پھر یہی دہرایا گیا کہ ایسے ملنے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن قدرت کو ملانا مقصود تھا تو فاصلے بڑھاتی اس وبا کے طفیل ہی ملا دیا۔۔۔۔۔۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی کینٹین میں اس ملاقات کی یادگاری تصوریر
16-10-20
میو ہسپتال لاہور
دفتر میں دو قریبی افراد اس وبا سے متاثر ہوئے۔ ایک کو حالت وحالات کے سبب ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ باس نے پوچھا "میو ہسپتال میں کوئی جاننے والا ہے؟ جن کے ذریعے بہتر نگہداشت اور بروقت حالات معلوم کیے جا سکیں." جھٹ سے دماغ میں ایک نام ابھرا اور فیس بک پر میسیج داغ دیا۔ چند ساعتوں میں ہی جواب آیا کہ حکم کیجیے حکم کی تعمیل ہو گی۔ اسی اثنا میں نمبروں کا تبادلہ ہوا۔ چونکہ دفتر کے قریبی ساتھی وبا سے متاثر ہوئے لہذا اصولا اپنا ٹیسٹ کروانا بنتا تھا سو عرضی بھی ڈال دی۔ بولے فلاں وقت تشریف لائیے کام ہو جائے گا۔ اگلے روز مریض کے دیکھ بھال کے لیے میو جانا ہوا اور ہم نے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے وقت کی قطعی پابندی نہیں کی اور ڈاکٹر صاحب کے مذکورہ وقت پر نہیں پہنچے۔ رابطہ کیا جواب ندارد۔ سوچا ہماری کاہلی و سستی، وہ تو اپنا فرض ادا کر رہے ہوں گےاور یقینا ایسا ہی تھا وہ وارڈ ڈیوٹی پر تھے۔
نماز عصر کے وقت کال آئی کہ بندہ پرور کہاں تشریف فرما ہیں بتایا ابھی ہسپتال ہی ہوں۔ بولے نماز کے بعد ملاقات ہوگی فلاں وارڈ میں تشریف لائیے ٹیسٹ کے لیے نمونے لیے جائیں گے۔ لیجیے جناب یہ ٹھہری پہلی ملاقات اور پہلا دیدار جو ہمیں ڈاکٹر عاطف ملک صاحب کا ہوا۔
ڈاکٹری لباس زیب تن، ہڈی اور ماس کا ڈیل ڈول لیے، عینک میں سے جھانکتے، قدرے تیز کلام کرتے اور اپنے مخصوص انداز میں سر ہلاتے ڈاکٹر عاطف ملک صاحب۔
متعلقہ امور سر انجام دیے اور پھر فراغت پر باقاعدہ مختصر سلام دعا ہوئی۔ بولے ملنے کا اشتیاق تو تھا لیکن یوں نہیں۔ لیکن چلو اس کورونا کے سبب کوئی تو ملا۔ یہ خالصتاً طبی نوعیت کی ملاقات تھی۔ جس میں ڈاکٹر صاحب نے ہمارے اور مریض سے متعلق حالات پر ڈاکٹری تجزیہ دیا۔
16 اکتوبر کی صبح مریض کی دیکھ بھال کے دوبارہ جانا ہوا۔ جا کر رابطہ کیا بندہ پرور آپ کی نگری میں آپ کے زیر سایہ موجود ہیں۔ فرمایا ابھی ڈیوٹی پر ہوں آف ہوتے ہی رابطہ کرتا ہوں۔ سوا 10 بجے پیغام ملا آدھے گھنٹے تک فراغت ہو جائے گی۔ مقررہ وقت پر پیغام ملا کہ فراغت ہو گئی ہے۔ اس کے بعد ہر طرف خاموشی۔ 12 منٹ بعد پوچھا حضور آپ کے اشتیاق میں ادھر الطاف، رابن، ولسن ناجانے کس کس سے شرف ملاقات ہو گیا ہے۔ ٹھیک 12 منٹ بعد جواب ملا کینٹین پر تشریف لائیں۔
وہی بانکا نوجوان تیز تیز قدم اٹھاتا سامنے موجود۔ کینٹین میں ناشتہ کرنے بیٹھے اور اب پہلی بار غیر طبی گفتگو کا آغاز ہوا۔ جس کا نقطۂ ارتکاز بہرحال طب ہی تھا۔ اس گفتگو سے فراغت کے بعد جنابِ من نے اپنی ادب دوری کا بے جا رونا رویا جسے کمال خوبئِ حسن سماعت سے ڈاکٹر صاحب نے سنا اور کچھ اپنا حال سنایا۔ کنٹین سے نکل کر الوداعی طور پر ملنے کے کھڑے ہوئے تو کوئی مزید آدھا گفتگو بیچ سڑک کے ہوگئی جس پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا بھیا دھوپ زیادہ ہے اور سڑک کے بیچ کھڑے ہیں۔ خیر سے کوئی گاڑی ہی سلام دعا کر جائے۔ خیر چھاؤں میں کھڑے حسب عادت مزید نہ بولنے کا کہہ کر بھی مزید 10, 15 گفتگو سنائی۔
ملاقات کا اختتام آئندہ ملاقات جو کسی مناسب وقت اور مقام پر ہوگی کا دونوں طرف سے متفقہ فیصلہ سنایا گیا۔ اور پھر یہی دہرایا گیا کہ ایسے ملنے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن قدرت کو ملانا مقصود تھا تو فاصلے بڑھاتی اس وبا کے طفیل ہی ملا دیا۔۔۔۔۔۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی کینٹین میں اس ملاقات کی یادگاری تصوریر
16-10-20
میو ہسپتال لاہور