کاشف اسرار احمد
محفلین
السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********
عکس ہے یار کا، سینے میں چھپا رکھا ہے !
طاق میں دل کے، خدا گویا بٹھا رکھا ہے !
سانس کھنچتی ہی چلی جاتی ہے، لیکن دل نے
لب سے، خوابوں کا کٹورا ہی، لگا رکھا ہے !
عشق میں وحشت و خوش فہمی کا رشتہ دیکھیں
حالتِ فَقَر ہے، پر نام غِنا رکھا ہے !
دستکیں روز ہی ہوتی ہیں، مگر ہم نے بھی
دل کے، دروازے پہ دروازہ، چڑھا رکھا ہے !
میرے سینے میں اُجالے ہیں اُسی کے دم سے
نام اُس شمع کا اِس دل نے "دِیا" رکھا ہے !
کیا ضروری ہے، "قضا" ساتھ "نُمو" کے، اے خدا؟
کیوں ہر ایک پھول کا انجام، فنا رکھا ہے !
اس شکایت کا، ترے پاس بتا کیا ہے جواب؟
کیوں مرا نام، ہر اک دل سے مٹا رکھا ہے !
کیوں، مری رگ میں، لہو یاد کا اُس کی، دوڑے
کیوں مرے واسطے، اُس دل میں خلا رکھا ہے !
اشک سے ہم نے، مناظر کئے کینوس پہ کشید !
تشنہ خوابوں کو، نئی طرح ، سجا رکھا ہے !
پہلے آغوش کی گرمی، مجھے جس نے دی تھی
کون جانے کہ، کہاں اُس کا پتا رکھا ہے!
پرسش وعدہ پہ، جزبز ہوئے تم کیوں کاشف؟
مال بھی میرا ہے، اور تم نے دبا رکھا ہے!
سیّد کاشف
*******............********............********
عکس ہے یار کا، سینے میں چھپا رکھا ہے !
طاق میں دل کے، خدا گویا بٹھا رکھا ہے !
سانس کھنچتی ہی چلی جاتی ہے، لیکن دل نے
لب سے، خوابوں کا کٹورا ہی، لگا رکھا ہے !
عشق میں وحشت و خوش فہمی کا رشتہ دیکھیں
حالتِ فَقَر ہے، پر نام غِنا رکھا ہے !
دستکیں روز ہی ہوتی ہیں، مگر ہم نے بھی
دل کے، دروازے پہ دروازہ، چڑھا رکھا ہے !
میرے سینے میں اُجالے ہیں اُسی کے دم سے
نام اُس شمع کا اِس دل نے "دِیا" رکھا ہے !
کیا ضروری ہے، "قضا" ساتھ "نُمو" کے، اے خدا؟
کیوں ہر ایک پھول کا انجام، فنا رکھا ہے !
اس شکایت کا، ترے پاس بتا کیا ہے جواب؟
کیوں مرا نام، ہر اک دل سے مٹا رکھا ہے !
کیوں، مری رگ میں، لہو یاد کا اُس کی، دوڑے
کیوں مرے واسطے، اُس دل میں خلا رکھا ہے !
اشک سے ہم نے، مناظر کئے کینوس پہ کشید !
تشنہ خوابوں کو، نئی طرح ، سجا رکھا ہے !
پہلے آغوش کی گرمی، مجھے جس نے دی تھی
کون جانے کہ، کہاں اُس کا پتا رکھا ہے!
پرسش وعدہ پہ، جزبز ہوئے تم کیوں کاشف؟
مال بھی میرا ہے، اور تم نے دبا رکھا ہے!
سیّد کاشف
*******............********............********