نیرنگ خیال
لائبریرین
ملاقات کا کوئی بہانہ نہیں ہوتا۔ وجہ تراشنے بیٹھو تو وجہ نہیں ملتی۔ سوچتے ہیں کہ ملاقات کیوں کی جائے۔ آخر ایسا کیا موضوع ہاتھ لگے کہ سب دوبارہ مل بیٹھیں۔ کچھ فرصت کے لمحے دنیا سے چرا کر کچھ بے غرض باتیں بھی کی جائیں۔ لیکن ایسی ملاقاتوں کے لیے وقت نکالنا بھی بڑا مشکل مرحلہ ہے۔ اور ہماری سست طبع تو کہیں جانے کا، ہلنے کا ، چلنے کا سوچ کر ہی فنا ہوجاتی ہے۔ تصاویر والے دھاگے سے پتا چلا کہ محمد تابش صدیقی اور ایم اے راجا دونوں اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ چلو ایک وجہ تو ہاتھ آئی کہ دوبارہ سب سے ملا جائے۔ اسی بہانے روزمرہ کی گھٹن سے باہر آجائیں گے۔ تھوڑا ہنس کھیل لیں گے۔ اسلام آبادیوں کو ایک مکالمے میں اکھٹا کیا۔ سوائے فرخ بھائی کے۔ جب ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا ۔ اس دن پتا نہیں کیا مصروفیات ہوں۔ تب کی تب دیکھوں گا۔اور ملاقات سے اگلے دن یعنی کہ آج مجھے فرمانے لگے کہ آپ کا فرض تھا مجھے فون کر کے بتاتے۔ سب ملکر کہو سبحان اللہ۔۔۔۔ 21 فروری 16 بروز اتوار بمقام ایف –نائن پارک سہ پہر تین بجے ملاقات کے لیے شبھ گھڑی قرار دی گئی۔ hackerspk نے صرف شاپر ڈبل کیے۔ ملاقات پر نہیں آئے۔ الف نظامی کو فون کیا تو انہوں نے اٹھایا نہیں۔ میسج پر جب اپنا نام بتلایا تو بھی انہوں نے خاموشی اختیار کی۔ عام طور پر خاموشی نیم رضامندی ہوتی ہے۔ لیکن ہم نے اس خاموشی کو انکار ہی سمجھا۔
تابش نے مکالمے پر بتایا کہ وہ تاخیر سے پہنچیں گے۔ گو کہ عام طور پر تمام پاکستانی تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ لیکن تابش نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اپنی تاخیر رجسٹر کروا کر اس کو وقت پر پہنچنا بنا لیا۔ بندہ ذہین نکلا۔ بھلکڑ کا فون آیا کہ بئی کدھر ہو۔ میں نے کہا ابھی تو گھر ہی ہوں۔ اس کو مقام اوروقت بتلایا۔ خود تیاری کر کے (منہ ہاتھ دھو کر) سید زبیر سر کے گھر جا پہنچے۔ وہاں سے ان کو ساتھ لے کر ہم دونوں ایف-نائن پارک پہنچ گئے۔ اب وہاں بہت سارے لوگ موجود تھے۔ سارے انجان۔ کوئی نہ نکلا نادان۔ جس سے ہو جان پہچان۔ ہم دونوں ٹہلتے ٹہلتے کچھ دور ہی گئے تھے کہ داخلی دروازے کے بالائی حصے سے کسی چیز کے ٹکرانے کی آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو بھلکڑ اپنا سر پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔قد لمبا ہونے کی وجہ سے بیچارہ گیٹ کے بالائی حصے سے ٹکرا گیا تھا۔ اس کے بعد وہاں ہم تینوں نے بیٹھ کر خوب گپیں لگائیں۔
ساڑھے چار کے قریب تابش صاحب تشریف لے آئے۔ ان کی صحت دیکھ کر ہمیں لگا کہ شاعر ہیں۔ لیکن انہوں نے بڑی متانت سے جواب دیا۔ "نہیں جاوا ڈویلپر ہوں"۔ ایک ہی بات ہے میرے نزدیک۔ ہم نے دل میں اپنے آپ کو ہی جواب دیا۔ اب ہم ٹہلتے ٹہلتے آگے کی طرف چلے۔ ایم اے راجا صاحب کو فون کیا تومعلوم ہوا کہ ان کے ایک رشتے دار کا انتقال ہوگیا ہے۔ انا للہ و نا الیہ راجعون۔ امجد علی راجا بھائی نے مکالمے میں بہت وعدے قسمیں کھائیں۔ لیکن نکلے اس فلمی ہیرو کی طرح جس کے بارے میں مشہور گانا ہے کہ "ساہنوں نہر والے پل تے بلا کے۔۔ تے خورے ماہی کتھے رہ گیا"۔ اس پر ستم یہ کہ فون پر فرمانے لگے کہ بھئی تمہارا قصور ہے۔ مجھے فون پر نہ بتایا کہ کس جگہ ملنا ہے۔ نکلنے سے پہلے نہ بتایا۔ پہنچنے سے پہلے بھی نہیں بتایا۔ اور اب جب ہم آ نہیں سکتے تو ہم کو کہہ رہے ہو آجاؤ۔ ہم شرمندہ ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ سارا قصور ہمارا تھا۔ امجد بھائی تو "گنگا" کی طرح پوتر نکلے۔ خبر ملی کہ سعد صاحب بھی وارد ہوچکے ہیں۔ اور کسی بھی لمحے ہم تک پہنچے جاتے ہیں۔ کافی لمحے بیت گئے لیکن وہ لمحہ نہ آیا۔ آخر کار گوگل میپس سے موصوف کو اپنے کوآرڈی نیٹس بھیجے تو جناب ہم تک پہنچ سکے۔ اتنا بھی سائنسی نہیں ہونا چاہیے آدمی کو۔۔۔ یہ بات بھی ہم نے ان سے نہیں کہی۔ یہاں لکھ رہے ہیں۔ وہاں کافی دیر اِدھر اُدھر کے موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ تابش کے علاوہ سب سے پہلے سے ہی ملاقاتیں تھیں۔ باتوں کے دوران ہی ہم اٹھ کر ایف-10 مرکز آگئے۔ وہاں پر ہم نے پراٹھا رول کھایا۔ اور اس کے بعد سب اپنے اپنے گھر کو سدھارے۔ باتیں بہت زیادہ ہیں۔ طوالت کے ڈر سے اور پھر باقیوں کو بھی بولنے یا لکھنے کا موقع دینے کی نیت سے تحریر نہیں کر رہا۔
اور اب کچھ تصویریں۔۔۔۔۔
تابش نے مکالمے پر بتایا کہ وہ تاخیر سے پہنچیں گے۔ گو کہ عام طور پر تمام پاکستانی تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ لیکن تابش نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اپنی تاخیر رجسٹر کروا کر اس کو وقت پر پہنچنا بنا لیا۔ بندہ ذہین نکلا۔ بھلکڑ کا فون آیا کہ بئی کدھر ہو۔ میں نے کہا ابھی تو گھر ہی ہوں۔ اس کو مقام اوروقت بتلایا۔ خود تیاری کر کے (منہ ہاتھ دھو کر) سید زبیر سر کے گھر جا پہنچے۔ وہاں سے ان کو ساتھ لے کر ہم دونوں ایف-نائن پارک پہنچ گئے۔ اب وہاں بہت سارے لوگ موجود تھے۔ سارے انجان۔ کوئی نہ نکلا نادان۔ جس سے ہو جان پہچان۔ ہم دونوں ٹہلتے ٹہلتے کچھ دور ہی گئے تھے کہ داخلی دروازے کے بالائی حصے سے کسی چیز کے ٹکرانے کی آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو بھلکڑ اپنا سر پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔قد لمبا ہونے کی وجہ سے بیچارہ گیٹ کے بالائی حصے سے ٹکرا گیا تھا۔ اس کے بعد وہاں ہم تینوں نے بیٹھ کر خوب گپیں لگائیں۔
ساڑھے چار کے قریب تابش صاحب تشریف لے آئے۔ ان کی صحت دیکھ کر ہمیں لگا کہ شاعر ہیں۔ لیکن انہوں نے بڑی متانت سے جواب دیا۔ "نہیں جاوا ڈویلپر ہوں"۔ ایک ہی بات ہے میرے نزدیک۔ ہم نے دل میں اپنے آپ کو ہی جواب دیا۔ اب ہم ٹہلتے ٹہلتے آگے کی طرف چلے۔ ایم اے راجا صاحب کو فون کیا تومعلوم ہوا کہ ان کے ایک رشتے دار کا انتقال ہوگیا ہے۔ انا للہ و نا الیہ راجعون۔ امجد علی راجا بھائی نے مکالمے میں بہت وعدے قسمیں کھائیں۔ لیکن نکلے اس فلمی ہیرو کی طرح جس کے بارے میں مشہور گانا ہے کہ "ساہنوں نہر والے پل تے بلا کے۔۔ تے خورے ماہی کتھے رہ گیا"۔ اس پر ستم یہ کہ فون پر فرمانے لگے کہ بھئی تمہارا قصور ہے۔ مجھے فون پر نہ بتایا کہ کس جگہ ملنا ہے۔ نکلنے سے پہلے نہ بتایا۔ پہنچنے سے پہلے بھی نہیں بتایا۔ اور اب جب ہم آ نہیں سکتے تو ہم کو کہہ رہے ہو آجاؤ۔ ہم شرمندہ ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ سارا قصور ہمارا تھا۔ امجد بھائی تو "گنگا" کی طرح پوتر نکلے۔ خبر ملی کہ سعد صاحب بھی وارد ہوچکے ہیں۔ اور کسی بھی لمحے ہم تک پہنچے جاتے ہیں۔ کافی لمحے بیت گئے لیکن وہ لمحہ نہ آیا۔ آخر کار گوگل میپس سے موصوف کو اپنے کوآرڈی نیٹس بھیجے تو جناب ہم تک پہنچ سکے۔ اتنا بھی سائنسی نہیں ہونا چاہیے آدمی کو۔۔۔ یہ بات بھی ہم نے ان سے نہیں کہی۔ یہاں لکھ رہے ہیں۔ وہاں کافی دیر اِدھر اُدھر کے موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ تابش کے علاوہ سب سے پہلے سے ہی ملاقاتیں تھیں۔ باتوں کے دوران ہی ہم اٹھ کر ایف-10 مرکز آگئے۔ وہاں پر ہم نے پراٹھا رول کھایا۔ اور اس کے بعد سب اپنے اپنے گھر کو سدھارے۔ باتیں بہت زیادہ ہیں۔ طوالت کے ڈر سے اور پھر باقیوں کو بھی بولنے یا لکھنے کا موقع دینے کی نیت سے تحریر نہیں کر رہا۔
اور اب کچھ تصویریں۔۔۔۔۔
سید زبیر سر۔۔۔۔ سعد کی آدھی سمائلی۔۔۔۔
تابش صدیقی۔۔۔
بھلکڑ۔۔۔۔۔۔
سعد بھائی کی شرارتی مسکراہٹ۔۔۔ اور سید زبیر سر۔۔۔
قسم سے میں منہ دھو کر گیا تھا۔۔۔ سچی
سعد بھائی پراٹھا رول محفلین کو دکھاتے ہوئے۔۔۔ حصہ بقدر جثہ کی غیر عملی مثال۔۔۔
شاید بانسری بجانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔۔۔
حصہ بقدر جثہ کی غیر عملی مثال
تابش صدیقی۔۔۔
بھلکڑ۔۔۔۔۔۔
سعد بھائی کی شرارتی مسکراہٹ۔۔۔ اور سید زبیر سر۔۔۔
قسم سے میں منہ دھو کر گیا تھا۔۔۔ سچی
سعد بھائی پراٹھا رول محفلین کو دکھاتے ہوئے۔۔۔ حصہ بقدر جثہ کی غیر عملی مثال۔۔۔
شاید بانسری بجانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔۔۔
حصہ بقدر جثہ کی غیر عملی مثال