اسد قریشی
محفلین
برف کے پگھلنے کا چاند کے نکلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے
آہ کے مچلنے کا اور دل سنبھلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے
کب سفر میں اُلفت کے منزلیں ملی کس کو، راحتیں ملی کس کو
فیصلہ بدلنے کا، ساتھ ساتھ چلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے
عشق کی مرے دل میں آگ بُجھ گئی کب کی، صرف راکھ باقی ہے
آگ کے بھڑکنے کا، راکھ میں بدلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے
خاک کا قَفس ہے اور روُزنِ تَخیّل ہے، جس کو چھوڑ جانا ہے
روح کے بکھرنے کا، جسم سے نکلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے
عمر بھر بھلا کوئی ساتھ کب نبھاتا ہے، ہاتھ چھُوٹ جاتا ہے
دن نیا نکلنے کا اور شب کے ڈھلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے
تُم اسد حقیقت کو مان کیوں نہیں لیتے، خواب ٹوٹ جاتے ہیں
سَحر سے نکلنے کا زہر کے نگلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے