ایک پلیٹ چھولے، دو نان،دس روپے

50_67042210.jpg

بشکریہ:روزنامہ دنیا
 

یوسف-2

محفلین
اس ”چھوٹے“ کی عظمت کو سلام، جس کا ذکر آج کے ”بڑے“ بھی بڑے احترام کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اگر ”سیلف میڈ“ ہر ”بڑا آدمی“ اپنے ماضی پر نظر دوڑائے تو اسے ایسے بہت سے ”چھوٹے“ ضرور نظر آئیں گے، جن کی ”وجہ“ سے آج وہ ایک ”بڑا آدمی“ ہے
 

نایاب

لائبریرین
وہ " چھوٹا " جس نے ایسا کردار نبھایا ۔
"دس سال " کی عمر میں کیسی روشن آگہی کا حامل تھا ۔
"بھوک " کیا ہوتی ہے ؟ جانے کب سے اس اذیت سے آگاہ تھا ۔
سلام ٹو چھوٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب آگہی کی حامل اک بہترین شراکت بھتیجے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہر چھوٹا چھوٹا نہیں ہوتا۔ کتنے ہی بڑوں کی تعمیر انہی چھوٹوں کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ کتنے ہی مضامین زندگی لوگ ان سے سیکھتے ہیں اور پھر قادرالکلام ہونے کے سبب اپنے نام سے لگا کر بڑا بن جاتے ہیں۔ یہ تو انسان کو ظرف ہوتا ہے جو اسے چھوٹا یا بڑا بنا دیتا ہے۔ زندگی ایسی مثالوں سے عبارت ہے۔ اگر کوئی سیکھنے کی نظر سے دیکھے۔ عمدہ کالم ہے۔ مگر یقیناً وہ چھوٹا اسے پڑھنے سے قاصر ہے اور رؤف کلاسرہ صاحب کی قلم کشائی بھی موضوع پر اسوقت ہوئی جب ایسا کوئی چھوٹا ان کے پاس بھی نہیں پھٹک سکتا۔
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
بہت اچھا کالم ہے ان صاحبان کو تو یاد رہ گیا لیکن میں اس بچے کا سوچ رہا ہوں اس نے اپنے مالک سے غلط بیانی کی۔
اللہ نے رزق اس دن ان کے لیے لکھا تھا وہ ان کو مل گیا لیکن وہ چھوٹا نیک کام کے لیے غلط بیانی بات کچھ سمجھ نہیں
آئی۔ تقریبا اس زمانے کے حساب سے کل پیسے بنتے ہیں 60 سے ستر روپے۔ وہ دس روپے کہہ کر اس نے اپنے
مالک سے بے وفائی کی۔ وہ چھوٹا اپنے مالک سے یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ اسٹوڈنس ہیں کام کی تلاش جاری ہے
انکے جیب میں پیسے نہیں ہیں اور بھوکے پیاسے ہیں اس حکمت کو استعمال کرتا ۔ بہر اللہ پاک نے ان کو اس دن
یہ رزق دینا تھا
کراچی میں بہت زیادہ ایسی جگہیں ہیں جہاں کوئی بھی جاکر اچھے اچھے کھانوں سے سیریاب ہوسکتا ہے اور وہ بھی اللہ واسطے۔
بہت پرانے عرصہ پہلے میں بھی اسی طرح اپنے دوست کے ساتھ بھوکا پیاسہ بالکل تقریبا یہی کہانی تھی لیکن ہم نے جس ہوٹل میں
کھانا کھایا وہ بھی نہاری کی پلیٹیں اور روٹیاں الحمد للہ ہم سے کوئی پیسہ نہیں لیا گیا۔ ہمارے جیسے اور بھی ہونگے اور تو اور چرسی موالی
غریب مسکین متعدد لوگوں نے اسی طرح کھایا الحمدللہ۔
آج میرا دل کرتا ہے کہ میں ایسے ہوٹلوں میں جاؤں اور دس بیس لوگوں کو ہر روز اسی طرح اللہ کے حکم سے کھانا کھلاؤں۔
الحمد للہ میرا گزر تو نہیں ہوتا لیکن میں اپنے اقارب کو کہہ دیتا ہوں کہ فلاں فلاں گھر میں راشن ڈلوادوں۔
اور میرا کام ہوجاتا ہے الحمد للہ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت اچھا کالم ہے ان صاحبان کو تو یاد رہ گیا لیکن میں اس بچے کا سوچ رہا ہوں اس نے اپنے مالک سے غلط بیانی کی۔
اللہ نے رزق اس دن ان کے لیے لکھا تھا وہ ان کو مل گیا لیکن وہ چھوٹا نیک کام کے لیے غلط بیانی بات کچھ سمجھ نہیں
آئی۔ تقریبا اس زمانے کے حساب سے کل پیسے بنتے ہیں 60 سے ستر روپے۔ وہ دس روپے کہہ کر اس نے اپنے
مالک سے بے وفائی کی۔ وہ چھوٹا اپنے مالک سے یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ اسٹوڈنس ہیں کام کی تلاش جاری ہے
انکے جیب میں پیسے نہیں ہیں اور بھوکے پیاسے ہیں اس حکمت کو استعمال کرتا ۔ بہر اللہ پاک نے ان کو اس دن
یہ رزق دینا تھا
کراچی میں بہت زیادہ ایسی جگہیں ہیں جہاں کوئی بھی جاکر اچھے اچھے کھانوں سے سیریاب ہوسکتا ہے اور وہ بھی اللہ واسطے۔
بہت پرانے عرصہ پہلے میں بھی اسی طرح اپنے دوست کے ساتھ بھوکا پیاسہ بالکل تقریبا یہی کہانی تھی لیکن ہم نے جس ہوٹل میں
کھانا کھایا وہ بھی نہاری کی پلیٹیں اور روٹیاں الحمد للہ ہم سے کوئی پیسہ نہیں لیا گیا۔ ہمارے جیسے اور بھی ہونگے اور تو اور چرسی موالی
غریب مسکین متعدد لوگوں نے اسی طرح کھایا الحمدللہ۔
آج میرا دل کرتا ہے کہ میں ایسے ہوٹلوں میں جاؤں اور دس بیس لوگوں کو ہر روز اسی طرح اللہ کے حکم سے کھانا کھلاؤں۔
الحمد للہ میرا گزر تو نہیں ہوتا لیکن میں اپنے اقارب کو کہہ دیتا ہوں کہ فلاں فلاں گھر میں راشن ڈلوادوں۔
اور میرا کام ہوجاتا ہے الحمد للہ۔

ماشاءاللہ خوب خیالات ہیں آپ کے۔ اللہ آپ کو اور زیادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مگر جو چیز آپ بھی نظر انداز کر گئے وہ یہ کہ عمر 10 سال، ہوٹل میں بیرا اور غم روزگار۔ جس عمر میں ہم
اپنے اپنے کھیلوں میں مصروف ہوتے تھے اس وقت وہ اپنا اور عین ممکن اپنے خاندان کا پیٹ پال رہا تھا۔ کیا معلوم وہ مسلم بھی تھا کہ نہیں۔ کیا معلوم کسے نے اسے کلمہ پڑھایا تھا۔ نماز سکھائی تھی۔ اسے حلال و حرام کا فرق سمجھایا تھا۔ اس عمر میں تو اللہ بھی روزہ فرض نہیں کرتا مسلم بچے پر جس عمر میں آپ اس سے دیانت، ایمانداری وضع اور حلال جیسے ثقیل عقائد کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ جیسا کہ نایاب بھائی نے کہا وہ بس اک بات جانتا تھا۔ بھوک۔ اور اسکا بس نہ چلا کہ وہ کسی کو بھوکا جانے دے۔ سو اس نے نیکی کی اور کسی بھوکے کا پیٹ بھرا۔
بجائے اسکے کے آپ رؤف کلاسرا کو نشانہ تنقید بنائیں کہ وہ کیوں نہ بولا وہاں۔ اس نے کیوں نہ کہا کہ میاں ہماری جیبیں خالی ہیں۔ ہم اسکے مشکور تو ہو سکتے ہیں۔ پیسے ادا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ آپ نے اپنی علمیت، اسلام دوستی اور دیانت کے تمام اصول لاگو کر دیئے اس بچے پر۔ میرے دوست جب میں اس عمر میں تھا تو بھوک کے لفظ سے نا آشنا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا پیسہ کیسے کمایا جاتا ہے۔ پیٹ کیسے بھرتا ہے۔ مسلک کیا ہے۔ حلال و حرام، ایمان و دیانت وفاداری ان تمام الفاظ سے ناآشنا تھا میں۔ بظاہر مطالب سے واقفیت ہوگی میری بڑی حد تک۔ میرے دوست غم روزگار تو وہ ہے جو محبوب سے غافل کر دے۔ پانی نیویں تھاں تے آندا کے مصداق آپ نے اپنے علم کے کنویں میں اس بچے کی نیکی کو ڈبو دیا۔
 

یوسف-2

محفلین
بہت اچھا کالم ہے ان صاحبان کو تو یاد رہ گیا لیکن میں اس بچے کا سوچ رہا ہوں اس نے اپنے مالک سے غلط بیانی کی۔
اللہ نے رزق اس دن ان کے لیے لکھا تھا وہ ان کو مل گیا لیکن وہ چھوٹا نیک کام کے لیے غلط بیانی بات کچھ سمجھ نہیں
آئی۔ تقریبا اس زمانے کے حساب سے کل پیسے بنتے ہیں 60 سے ستر روپے۔ وہ دس روپے کہہ کر اس نے اپنے
مالک سے بے وفائی کی۔ وہ چھوٹا اپنے مالک سے یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ اسٹوڈنس ہیں کام کی تلاش جاری ہے
انکے جیب میں پیسے نہیں ہیں اور بھوکے پیاسے ہیں اس حکمت کو استعمال کرتا ۔ بہر اللہ پاک نے ان کو اس دن
یہ رزق دینا تھا
کراچی میں بہت زیادہ ایسی جگہیں ہیں جہاں کوئی بھی جاکر اچھے اچھے کھانوں سے سیریاب ہوسکتا ہے اور وہ بھی اللہ واسطے۔
بہت پرانے عرصہ پہلے میں بھی اسی طرح اپنے دوست کے ساتھ بھوکا پیاسہ بالکل تقریبا یہی کہانی تھی لیکن ہم نے جس ہوٹل میں
کھانا کھایا وہ بھی نہاری کی پلیٹیں اور روٹیاں الحمد للہ ہم سے کوئی پیسہ نہیں لیا گیا۔ ہمارے جیسے اور بھی ہونگے اور تو اور چرسی موالی
غریب مسکین متعدد لوگوں نے اسی طرح کھایا الحمدللہ۔
آج میرا دل کرتا ہے کہ میں ایسے ہوٹلوں میں جاؤں اور دس بیس لوگوں کو ہر روز اسی طرح اللہ کے حکم سے کھانا کھلاؤں۔
الحمد للہ میرا گزر تو نہیں ہوتا لیکن میں اپنے اقارب کو کہہ دیتا ہوں کہ فلاں فلاں گھر میں راشن ڈلوادوں۔
اور میرا کام ہوجاتا ہے الحمد للہ۔

آپ کی بات میں یقیناً ” وزن“ ہوتا، اگر کمسن، نابالغ اور معصوم ”چھوٹے“ کی جگہ کسی بالغ اور سمجھدار ویٹر نے ایسا کیا ہوتا۔ :D یہ تو اس معصوم بچے کا بھولپن، اور نہ جانے کب تک کی ذاتی ”محرومیت“ کا شاخسانہ تھا کہ اُس نے دو بھوکے اور پیسوں سے ”محروم“ افراد کو اپنی دانست میں ”اپنا اختیار“ استعمال کرتے ہوئے پیٹ بھر کر اچھا کھانا کھلادیا۔ ثواب اور گناہ کا حساب کتاب رکھنا تو ہم جیسےعاقل و بالغ ”بڑوں“ کا کام ہے، معصوم بچوں کا نہیں۔ ہاں اگر آپ کالم نویس اور ان کے دوست پر ”اعتراض“ کرتے کہ انہوں نے ”مفتا“ کیوں کھایا تو شاید آپ کی بات میں کچھ وزن ہوتا۔ جی ہاں صرف ”کچھ وزن“ :D اس لئے کہ یہ سب کچھ اس طرح اچانک اور غیر متوقع ہوا کہ اگر وہ دونوں یہ ”شاندار ظہرانہ“ تناول فرمانے سے ”انکار“ کردیتے تو یقیناً مالک کے ہاتھوں اپنے اس معصوم محسن کو پٹوانے کا سبب بن جاتے اورعین ممکن تھا کہ مالک اس ”شک“ کی وجہ سے بچہ کو نوکری سے ہی نکال دیتا کہ پتہ نہیں وہ یہ ”فراڈ“ کب سے کر رہا ہے۔ آپ خود کو اس ”چھوٹے“ کی جگہ رکھ کر سوچیں گے تو آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ اس پر کئے گئے اس ”اعتراض“ کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ ویسے مجموعی طور پر آپ کا خیال نیک ہے، لیکن شاید ”وقوعے کی ان باریکیوں“ پر آپ کی نظر نہ گئی ہو :)

پس نوشت: نیرنگ خیال بھائی ! غالباً ہم دونوں ایک ہی وقت میں ایک ہی بات لکھ رہے تھے۔ آپ کا جواب میں نے اپنا جواب پوسٹ کرنے کے بعد دیکا تو یہ سطور لکھ دیں۔ تاکہ ”نقل نویسی“ کا الزام نہ آئے :)
 

Muhammad Qader Ali

محفلین

جی جناب اعلی میں نے تنقید نہیں کی۔
میں نے اشارہ کیا یہ وہ حلال کام کررہا تھا لیکن ان لوگوں کو یہ کہہ کر رد کردینا تھا کہ ہم اپنی جیب سے زیادہ نہیں خرچ کرسکتے
ہمیں نہیں چاہیے کٹھن راستے ہی اگے چل کر آرام دہ ہو جاتی ہے
وہ تو بچہ تھا لیکن کھانے والے تو نہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
پس نوشت: نیرنگ خیال بھائی ! غالباً ہم دونوں ایک ہی وقت میں ایک ہی بات لکھ رہے تھے۔ آپ کا جواب میں نے اپنا جواب پوسٹ کرنے کے بعد دیکا تو یہ سطور لکھ دیں۔ تاکہ ”نقل“ کا الزام نہ آئے :)
یوسف بھائی آپ جیسے کہاں ہم نوآموزوں کی نقل کرتے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے۔ سرقہ کا الزام پھر بھی مجھ پر لگتا کہ پہلے چوری کر لی:laugh:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جی جناب اعلی میں نے تنقید نہیں کی۔
میں نے اشارہ کیا یہ وہ حلال کام کررہا تھا لیکن ان لوگوں کو یہ کہہ کر رد کردینا تھا کہ ہم اپنی جیب سے زیادہ نہیں خرچ کرسکتے
ہمیں نہیں چاہیے کٹھن راستے ہی اگے چل کر آرام دہ ہو جاتی ہے
وہ تو بچہ تھا لیکن کھانے والے تو نہیں۔
آپکی تحریر آپکے اشارے پر غالب آگئی اور یقیناً اس مہین اشارے کی طرف میری نظر نہیں گئی دوبارہ پڑھنے پر بھی:( ۔ یوسف ثانی سر اپنے الفاظ کے خود ذمہ دار ہیں:p
 

یوسف-2

محفلین
جی جناب اعلی میں نے تنقید نہیں کی۔
میں نے اشارہ کیا یہ وہ حلال کام کررہا تھا لیکن ان لوگوں کو یہ کہہ کر رد کردینا تھا کہ ہم اپنی جیب سے زیادہ نہیں خرچ کرسکتے
ہمیں نہیں چاہیے کٹھن راستے ہی اگے چل کر آرام دہ ہو جاتی ہے
وہ تو بچہ تھا لیکن کھانے والے تو نہیں۔
کھانے والوں پر آپ کا اعتراض ”بجا“ ہے۔ لیکن میرے ”جواب“ میں ان کی ”ممکنہ مجبوریوں“ کا احوال بھی پڑھ لیجئے۔ :D ہر وقت اور ہر جگہ ثواب گناہ کا ”کلیہ“ ایک جیسا نہیں ہوتا میرے بھائی! کبھی کبھی بظاہر ”غلط اور غیر شرعی“ کاموں کا بھی بڑا ”اجر“ ہوتا ہے۔ تب بات ”نیت“ اور ”موقع محل“ کی ہوتی ہے۔
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
جی نہیں میں اس بچے کی جگہہ نہیں لے سکتا البتہ میں نے جیب خرچ پورے کرنے کے لیے جمعہ بازار، اتوار بازار وغیرہ میں کام کرکے تجربات لیے ہیں۔ خیر جانے دیں یہ ضروری نہیں کہ وہ جو سوچ رہا ہے میں بھی وہ سوچوں۔ اسلئے تو میں نے کراچی کا ذکر کیا ہے جو دل والوں کا شہر ہے
ابھی ایک سیلانی خیراتی ادارے کا سنا ہے جہاں ہر روز گوشت کے سالن اور روٹی سے لوگوں کا استقبال کرتے ہیں کچھ مسکین تو تھک گئے کہ یہ کیا روز روز بکرے کا گوشت۔:lol:
ایک دن اسی طرح مجھے کچھ دو اشخاص ملے انہوں کہا کھانا کھانا ہے بھوک سے برا حال ہے تو میں کہا حاضر جناب۔ کہا کھاینگے تو انہوں جگہہ بتائی میں ان کے ساتھ گیا اور کاونٹر میں پیسے جمع کرادیے۔ الحمد للہ
یہ میں اسلیے لکھ رہا ہوں کہ ہم سب ان شاء اللہ اسطرح کے کام کریں گے تاکہ ہمارے محلے میں کو چھوٹا بغیر اسکول میں پڑھے نہ رہے یہ بنیادی حق ہے۔
نیکی کے کاموں میں ہم سب کو اگے ہونا چاہیے۔
کراچی میں میمن برادری اس کام میں سرفہرست ہیں اور اول نمبر پرہے۔
یہ تنقید نہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم
اس " چھوٹے " نے جس کا ضمیر اس قدر حساس تھا کہ اس نے کسی کی بھوک کا خیال کرتے اپنی نوکری کو داؤ پر لگا اک " گناہ " کیا ۔
اور مالک سے بے وفائی کی ۔ کیا معلوم اس نے اپنے اس " گناہ " کی تلافی کیسے کی ہو گی ۔؟
یہ وہ " چھوٹا " ہی جانتا ہے یا اس کا رب ۔
جانے وہ " چھوٹا " آج انسانوں کے جنگل میں کہاں اور کس مقام پر کھڑا ہے ۔
جانے وہ " چھوٹا " اس وقت یہ آگہی رکھتا تھا کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کہ
کرو مہربانی تم اہل زمین پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر ۔
شاید وہ اس حدیث مبارکہ سے بھی نا آشنا ہی ہوگا کہ
"انما الاعمال بالنيات "
 

سید زبیر

محفلین
ال
جی نہیں میں اس بچے کی جگہہ نہیں لے سکتا البتہ میں نے جیب خرچ پورے کرنے کے لیے جمعہ بازار، اتوار بازار وغیرہ میں کام کرکے تجربات لیے ہیں۔ خیر جانے دیں یہ ضروری نہیں کہ وہ جو سوچ رہا ہے میں بھی وہ سوچوں۔ اسلئے تو میں نے کراچی کا ذکر کیا ہے جو دل والوں کا شہر ہے
ابھی ایک سیلانی خیراتی ادارے کا سنا ہے جہاں ہر روز گوشت کے سالن اور روٹی سے لوگوں کا استقبال کرتے ہیں کچھ مسکین تو تھک گئے کہ یہ کیا روز روز بکرے کا گوشت۔:lol:
ایک دن اسی طرح مجھے کچھ دو اشخاص ملے انہوں کہا کھانا کھانا ہے بھوک سے برا حال ہے تو میں کہا حاضر جناب۔ کہا کھاینگے تو انہوں جگہہ بتائی میں ان کے ساتھ گیا اور کاونٹر میں پیسے جمع کرادیے۔ الحمد للہ
یہ میں اسلیے لکھ رہا ہوں کہ ہم سب ان شاء اللہ اسطرح کے کام کریں گے تاکہ ہمارے محلے میں کو چھوٹا بغیر اسکول میں پڑھے نہ رہے یہ بنیادی حق ہے۔
نیکی کے کاموں میں ہم سب کو اگے ہونا چاہیے۔
کراچی میں میمن برادری اس کام میں سرفہرست ہیں اور اول نمبر پرہے۔
یہ تنقید نہیں۔
اللہ جزائے خیر دے اور ہمیں بھی نیک عمل کرنے کی قوت عطا فرمائے (آمین)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اسلئے تو میں نے کراچی کا ذکر کیا ہے جو دل والوں کا شہر ہے
۔
ارے میاں یہ کراچی کب سے دل والوں کا شہر ہو گیاo_O ۔ یہ تو مقولہ ہی دلی والوں کے لیئے مشہور ہے۔ یا پھر پاکستان میں زندہ دلان لاہور۔ کراچی کو تو ہمیشہ غریب پرور یا روشنیوں کے شہر کے نام سے منسوب پایا۔:)
 

نایاب

لائبریرین
محترم دوستو
یہ پاپی پیٹ ایسا نامراد ہے کہ جب خالی ہو تو سب حلال و حرام اس دلیل کے ساتھ بھول جاتا ہے کہ ۔
"اس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے"
سورہ البقرہ آیت 173
 
Top