بیٹا حسیب ! بہت شکریہ محفل میں پیش کرنے کا
بہت اچھا کالم ہے ان صاحبان کو تو یاد رہ گیا لیکن میں اس بچے کا سوچ رہا ہوں اس نے اپنے مالک سے غلط بیانی کی۔
اللہ نے رزق اس دن ان کے لیے لکھا تھا وہ ان کو مل گیا لیکن وہ چھوٹا نیک کام کے لیے غلط بیانی بات کچھ سمجھ نہیں
آئی۔ تقریبا اس زمانے کے حساب سے کل پیسے بنتے ہیں 60 سے ستر روپے۔ وہ دس روپے کہہ کر اس نے اپنے
مالک سے بے وفائی کی۔ وہ چھوٹا اپنے مالک سے یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ اسٹوڈنس ہیں کام کی تلاش جاری ہے
انکے جیب میں پیسے نہیں ہیں اور بھوکے پیاسے ہیں اس حکمت کو استعمال کرتا ۔ بہر اللہ پاک نے ان کو اس دن
یہ رزق دینا تھا
کراچی میں بہت زیادہ ایسی جگہیں ہیں جہاں کوئی بھی جاکر اچھے اچھے کھانوں سے سیریاب ہوسکتا ہے اور وہ بھی اللہ واسطے۔
بہت پرانے عرصہ پہلے میں بھی اسی طرح اپنے دوست کے ساتھ بھوکا پیاسہ بالکل تقریبا یہی کہانی تھی لیکن ہم نے جس ہوٹل میں
کھانا کھایا وہ بھی نہاری کی پلیٹیں اور روٹیاں الحمد للہ ہم سے کوئی پیسہ نہیں لیا گیا۔ ہمارے جیسے اور بھی ہونگے اور تو اور چرسی موالی
غریب مسکین متعدد لوگوں نے اسی طرح کھایا الحمدللہ۔
آج میرا دل کرتا ہے کہ میں ایسے ہوٹلوں میں جاؤں اور دس بیس لوگوں کو ہر روز اسی طرح اللہ کے حکم سے کھانا کھلاؤں۔
الحمد للہ میرا گزر تو نہیں ہوتا لیکن میں اپنے اقارب کو کہہ دیتا ہوں کہ فلاں فلاں گھر میں راشن ڈلوادوں۔
اور میرا کام ہوجاتا ہے الحمد للہ۔
بہت اچھا کالم ہے ان صاحبان کو تو یاد رہ گیا لیکن میں اس بچے کا سوچ رہا ہوں اس نے اپنے مالک سے غلط بیانی کی۔
اللہ نے رزق اس دن ان کے لیے لکھا تھا وہ ان کو مل گیا لیکن وہ چھوٹا نیک کام کے لیے غلط بیانی بات کچھ سمجھ نہیں
آئی۔ تقریبا اس زمانے کے حساب سے کل پیسے بنتے ہیں 60 سے ستر روپے۔ وہ دس روپے کہہ کر اس نے اپنے
مالک سے بے وفائی کی۔ وہ چھوٹا اپنے مالک سے یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ اسٹوڈنس ہیں کام کی تلاش جاری ہے
انکے جیب میں پیسے نہیں ہیں اور بھوکے پیاسے ہیں اس حکمت کو استعمال کرتا ۔ بہر اللہ پاک نے ان کو اس دن
یہ رزق دینا تھا
کراچی میں بہت زیادہ ایسی جگہیں ہیں جہاں کوئی بھی جاکر اچھے اچھے کھانوں سے سیریاب ہوسکتا ہے اور وہ بھی اللہ واسطے۔
بہت پرانے عرصہ پہلے میں بھی اسی طرح اپنے دوست کے ساتھ بھوکا پیاسہ بالکل تقریبا یہی کہانی تھی لیکن ہم نے جس ہوٹل میں
کھانا کھایا وہ بھی نہاری کی پلیٹیں اور روٹیاں الحمد للہ ہم سے کوئی پیسہ نہیں لیا گیا۔ ہمارے جیسے اور بھی ہونگے اور تو اور چرسی موالی
غریب مسکین متعدد لوگوں نے اسی طرح کھایا الحمدللہ۔
آج میرا دل کرتا ہے کہ میں ایسے ہوٹلوں میں جاؤں اور دس بیس لوگوں کو ہر روز اسی طرح اللہ کے حکم سے کھانا کھلاؤں۔
الحمد للہ میرا گزر تو نہیں ہوتا لیکن میں اپنے اقارب کو کہہ دیتا ہوں کہ فلاں فلاں گھر میں راشن ڈلوادوں۔
اور میرا کام ہوجاتا ہے الحمد للہ۔
یوسف بھائی آپ جیسے کہاں ہم نوآموزوں کی نقل کرتے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے۔ سرقہ کا الزام پھر بھی مجھ پر لگتا کہ پہلے چوری کر لیپس نوشت: نیرنگ خیال بھائی ! غالباً ہم دونوں ایک ہی وقت میں ایک ہی بات لکھ رہے تھے۔ آپ کا جواب میں نے اپنا جواب پوسٹ کرنے کے بعد دیکا تو یہ سطور لکھ دیں۔ تاکہ ”نقل“ کا الزام نہ آئے
آپکی تحریر آپکے اشارے پر غالب آگئی اور یقیناً اس مہین اشارے کی طرف میری نظر نہیں گئی دوبارہ پڑھنے پر بھی ۔ یوسف ثانی سر اپنے الفاظ کے خود ذمہ دار ہیںجی جناب اعلی میں نے تنقید نہیں کی۔
میں نے اشارہ کیا یہ وہ حلال کام کررہا تھا لیکن ان لوگوں کو یہ کہہ کر رد کردینا تھا کہ ہم اپنی جیب سے زیادہ نہیں خرچ کرسکتے
ہمیں نہیں چاہیے کٹھن راستے ہی اگے چل کر آرام دہ ہو جاتی ہے
وہ تو بچہ تھا لیکن کھانے والے تو نہیں۔
کھانے والوں پر آپ کا اعتراض ”بجا“ ہے۔ لیکن میرے ”جواب“ میں ان کی ”ممکنہ مجبوریوں“ کا احوال بھی پڑھ لیجئے۔ ہر وقت اور ہر جگہ ثواب گناہ کا ”کلیہ“ ایک جیسا نہیں ہوتا میرے بھائی! کبھی کبھی بظاہر ”غلط اور غیر شرعی“ کاموں کا بھی بڑا ”اجر“ ہوتا ہے۔ تب بات ”نیت“ اور ”موقع محل“ کی ہوتی ہے۔جی جناب اعلی میں نے تنقید نہیں کی۔
میں نے اشارہ کیا یہ وہ حلال کام کررہا تھا لیکن ان لوگوں کو یہ کہہ کر رد کردینا تھا کہ ہم اپنی جیب سے زیادہ نہیں خرچ کرسکتے
ہمیں نہیں چاہیے کٹھن راستے ہی اگے چل کر آرام دہ ہو جاتی ہے
وہ تو بچہ تھا لیکن کھانے والے تو نہیں۔
اللہ جزائے خیر دے اور ہمیں بھی نیک عمل کرنے کی قوت عطا فرمائے (آمین)جی نہیں میں اس بچے کی جگہہ نہیں لے سکتا البتہ میں نے جیب خرچ پورے کرنے کے لیے جمعہ بازار، اتوار بازار وغیرہ میں کام کرکے تجربات لیے ہیں۔ خیر جانے دیں یہ ضروری نہیں کہ وہ جو سوچ رہا ہے میں بھی وہ سوچوں۔ اسلئے تو میں نے کراچی کا ذکر کیا ہے جو دل والوں کا شہر ہے
ابھی ایک سیلانی خیراتی ادارے کا سنا ہے جہاں ہر روز گوشت کے سالن اور روٹی سے لوگوں کا استقبال کرتے ہیں کچھ مسکین تو تھک گئے کہ یہ کیا روز روز بکرے کا گوشت۔
ایک دن اسی طرح مجھے کچھ دو اشخاص ملے انہوں کہا کھانا کھانا ہے بھوک سے برا حال ہے تو میں کہا حاضر جناب۔ کہا کھاینگے تو انہوں جگہہ بتائی میں ان کے ساتھ گیا اور کاونٹر میں پیسے جمع کرادیے۔ الحمد للہ
یہ میں اسلیے لکھ رہا ہوں کہ ہم سب ان شاء اللہ اسطرح کے کام کریں گے تاکہ ہمارے محلے میں کو چھوٹا بغیر اسکول میں پڑھے نہ رہے یہ بنیادی حق ہے۔
نیکی کے کاموں میں ہم سب کو اگے ہونا چاہیے۔
کراچی میں میمن برادری اس کام میں سرفہرست ہیں اور اول نمبر پرہے۔
یہ تنقید نہیں۔
ارے میاں یہ کراچی کب سے دل والوں کا شہر ہو گیا ۔ یہ تو مقولہ ہی دلی والوں کے لیئے مشہور ہے۔ یا پھر پاکستان میں زندہ دلان لاہور۔ کراچی کو تو ہمیشہ غریب پرور یا روشنیوں کے شہر کے نام سے منسوب پایا۔اسلئے تو میں نے کراچی کا ذکر کیا ہے جو دل والوں کا شہر ہے
۔