اُڑنے لگے وجود کے ذّرے ہوا کے ساتھ
میں اِس قدر خلوص سے بکھرا کبھی نہ تھا
ڈوب گیا سورج کے ساتھ دل بھی میرا قتیل
اتنا اُداس شام کا منظر کبھی نہ تھا
قتیل شفائی
آج تک قائم ہے اس کے لوٹ آنے کی امید
آج تک ٹھہری ہے زندگی اپنی جگہ
لاکھ یہ چاہا کہ اس کو بھول جائیں پر فراز
حوصلے اپنی جگہ بے بسی اپنی جگہ۔۔۔۔۔!!!!
احمد فراز