سید رافع
محفلین
شیخ گارڈن - ایک کہانی
شام ہو رہی تھی۔ مغرب کا وقت قریب تھا۔
لڑکا شیخ گارڈن کا پتہ پوچھتے پوچھتے انکی مسجد پہنچتا ہے۔
بالآخر لڑکا مسجد پہنچتا ہے اورگارڈ سے شیخ کے بارے میں دریافت کرتا ہے۔
پتہ چلتا ہے کہ بعداز مغرب وہ نشست فرماتے ہیں۔
شیخ تفسیر و حدیث کے عالم اورکئی ملکوں کے مشائخ سے تفسیر و حدیث کی اجازت حاصل کر چکے تھے۔ شعر و خطاطی سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ نقشبندیہ سلسلے سے تھے اور دنیا بھر میں آپکے مریدین موجود ہیں۔ آپ کے والد گرامی بھی نقشبدی مجددی سلسلے کے بزرگ تھے اور ایک اندازے کے مطابق چالیس سال کے عرصے میں 18000 خطابات کیے۔شیخ اور آپ کے والد گرامی کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں بھی گراں قدر خدمات ہیں۔
ختم نبوت کی بھی ایک تاریخ ہے۔
غدر 1857 کی جنگ آزادی کے بعد غلام احمد عیسائیوں سے ایک مناظر کی حیثیت سے ابھرا۔ اس پر علماء سے پذیرای ملی یہاں تک کہ علامہ اقبال تک غلام احمد کے بحیثیت مجتہد معتقد ہوگئے۔
لیکن پھر بات آگے بڑھی اور دعوی مجتہد سے مہدی، مہدی سے عیسٰی اور عیسیٰ سے ظلی بروزی نبی تک جا پہنچا۔ سو علماء نے ان تمام دعووں کو خارج از اسلام قرار دیا۔
پاکستان بننے کے بعد ربوہ غلام احمد کے معتقدین کی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ ربوہ فیصل آباد اور سرگودھا کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ انگریزگورنر سر مرانسس موڈی قادیانیوں کی ایک اسٹیٹ کا خواہش مند تھا جہاں انکی حفاظت کا بندوبست ہو۔سو سابق وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے ایک بہت بڑا قطعہ اراضی قادیانیوں لیے ربوہ میں مختص کیا۔ یہاں عام مسلمان زمین نہیں خرید سکتے تھے۔ جو قادیانی تائب ہو کر مسلمان ہوتا اسے بیوی بچوں اور گھر سے محروم کر کے ربوہ سے نکال دیا جاتا۔یہاں تک کہ ٹرین پر جاتے میڈیکل کے اسٹوڈینٹس نےقادیانی لٹریچر قبول کرنے سے انکار کیا جس پر قادیانیوں نے ان پر سخت تشدد کیا۔ مقدمہ چلا اور قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔
اب قادیانیوںکا مرکز برطانیہ ہے اور ان کے تبلیغ کے مقامات افریقا اور بلوچستان ہیں۔
مغرب کی نماز تمام ہوتی ہے اور لڑکا شیخ سے انکے آفس میں اندر آنے کی اجازت مانگتا ہے۔
بعداز سلام لڑکا ایک قریبی نشست پر بیٹھ جاتا ہے۔
شیخ متوجہ ہوتے ہیں تو لڑکا کہتا ہے کہ شیخ ایف بی ایریا 15 نے آپ کا تذکرہ کیا تھا جب وہ ان کے پاس مسلمانوں کی اس تقسیم کے متعلق ان کے پاس گیا۔
لڑکا مذید اپنی تیار کردہ دستاویز سے متعلق کہتا ہے کہ مسلمانوں کی یہ تقسیم اچھی نہیں۔
شیخ کہتے ہیں کہ آپ تو اکیلے آئیں ہیں اس سے قبل ایک تعداد میں لوگ انکے پاس اسی مسئلے کے ذیل میں آئے تھے۔
لڑکا کہتا ہے کہ عبد بن ابی کی نماز جنازہ پڑھنے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانا چاہتے تھے توہم کیونکر اخلاق کریمانہ نہیں دیکھا سکتے۔
شیخ لفظ ابی کا صحیح تلفظ لڑکے کو بتاتے ہیں۔
لڑکا سورہ کوثر کا حوالہ دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان تو اللہ نے خود محفوظ فرمائی ہے تو شیخ سر جھکا کر فرماتے ہیں مسئلہ تکفیر کی زنجیر کا ہے۔
یعنی اگر یہ عقدہ حل ہو جائے تو حنفی مسلمان پھر سے ایک ہو سکتے ہیں۔
لڑکے کو امید کی ایک کرن نظر آتی ہے ۔
یہ ایک ایسی کرن تھی کہ جس کو زمین پر اتارنا سخت دشوار عمل ہے۔
شیخ کی گفتگو کے بعد لڑکا شیخ کورنگی اول سے ملاقات کا ارادہ کرتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ایک دوپہر لڑکا ظہر کی نماز سے قبل شیخ کورنگی اول سے ملاقات کے لیے انکے آفس میں انتظار کر رہا ہے۔
میاں ظہوری-
شام ہو رہی تھی۔ مغرب کا وقت قریب تھا۔
لڑکا شیخ گارڈن کا پتہ پوچھتے پوچھتے انکی مسجد پہنچتا ہے۔
بالآخر لڑکا مسجد پہنچتا ہے اورگارڈ سے شیخ کے بارے میں دریافت کرتا ہے۔
پتہ چلتا ہے کہ بعداز مغرب وہ نشست فرماتے ہیں۔
شیخ تفسیر و حدیث کے عالم اورکئی ملکوں کے مشائخ سے تفسیر و حدیث کی اجازت حاصل کر چکے تھے۔ شعر و خطاطی سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ نقشبندیہ سلسلے سے تھے اور دنیا بھر میں آپکے مریدین موجود ہیں۔ آپ کے والد گرامی بھی نقشبدی مجددی سلسلے کے بزرگ تھے اور ایک اندازے کے مطابق چالیس سال کے عرصے میں 18000 خطابات کیے۔شیخ اور آپ کے والد گرامی کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں بھی گراں قدر خدمات ہیں۔
ختم نبوت کی بھی ایک تاریخ ہے۔
غدر 1857 کی جنگ آزادی کے بعد غلام احمد عیسائیوں سے ایک مناظر کی حیثیت سے ابھرا۔ اس پر علماء سے پذیرای ملی یہاں تک کہ علامہ اقبال تک غلام احمد کے بحیثیت مجتہد معتقد ہوگئے۔
لیکن پھر بات آگے بڑھی اور دعوی مجتہد سے مہدی، مہدی سے عیسٰی اور عیسیٰ سے ظلی بروزی نبی تک جا پہنچا۔ سو علماء نے ان تمام دعووں کو خارج از اسلام قرار دیا۔
پاکستان بننے کے بعد ربوہ غلام احمد کے معتقدین کی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ ربوہ فیصل آباد اور سرگودھا کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ انگریزگورنر سر مرانسس موڈی قادیانیوں کی ایک اسٹیٹ کا خواہش مند تھا جہاں انکی حفاظت کا بندوبست ہو۔سو سابق وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے ایک بہت بڑا قطعہ اراضی قادیانیوں لیے ربوہ میں مختص کیا۔ یہاں عام مسلمان زمین نہیں خرید سکتے تھے۔ جو قادیانی تائب ہو کر مسلمان ہوتا اسے بیوی بچوں اور گھر سے محروم کر کے ربوہ سے نکال دیا جاتا۔یہاں تک کہ ٹرین پر جاتے میڈیکل کے اسٹوڈینٹس نےقادیانی لٹریچر قبول کرنے سے انکار کیا جس پر قادیانیوں نے ان پر سخت تشدد کیا۔ مقدمہ چلا اور قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔
اب قادیانیوںکا مرکز برطانیہ ہے اور ان کے تبلیغ کے مقامات افریقا اور بلوچستان ہیں۔
مغرب کی نماز تمام ہوتی ہے اور لڑکا شیخ سے انکے آفس میں اندر آنے کی اجازت مانگتا ہے۔
بعداز سلام لڑکا ایک قریبی نشست پر بیٹھ جاتا ہے۔
شیخ متوجہ ہوتے ہیں تو لڑکا کہتا ہے کہ شیخ ایف بی ایریا 15 نے آپ کا تذکرہ کیا تھا جب وہ ان کے پاس مسلمانوں کی اس تقسیم کے متعلق ان کے پاس گیا۔
لڑکا مذید اپنی تیار کردہ دستاویز سے متعلق کہتا ہے کہ مسلمانوں کی یہ تقسیم اچھی نہیں۔
شیخ کہتے ہیں کہ آپ تو اکیلے آئیں ہیں اس سے قبل ایک تعداد میں لوگ انکے پاس اسی مسئلے کے ذیل میں آئے تھے۔
لڑکا کہتا ہے کہ عبد بن ابی کی نماز جنازہ پڑھنے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانا چاہتے تھے توہم کیونکر اخلاق کریمانہ نہیں دیکھا سکتے۔
شیخ لفظ ابی کا صحیح تلفظ لڑکے کو بتاتے ہیں۔
لڑکا سورہ کوثر کا حوالہ دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان تو اللہ نے خود محفوظ فرمائی ہے تو شیخ سر جھکا کر فرماتے ہیں مسئلہ تکفیر کی زنجیر کا ہے۔
یعنی اگر یہ عقدہ حل ہو جائے تو حنفی مسلمان پھر سے ایک ہو سکتے ہیں۔
لڑکے کو امید کی ایک کرن نظر آتی ہے ۔
یہ ایک ایسی کرن تھی کہ جس کو زمین پر اتارنا سخت دشوار عمل ہے۔
شیخ کی گفتگو کے بعد لڑکا شیخ کورنگی اول سے ملاقات کا ارادہ کرتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ایک دوپہر لڑکا ظہر کی نماز سے قبل شیخ کورنگی اول سے ملاقات کے لیے انکے آفس میں انتظار کر رہا ہے۔
میاں ظہوری-