ایک گیت اصلاح کا طالب ہے

اظہرالحق

محفلین
مسافر ہوں یارو ، سفر پہ چلا ہوں
ساتھی بہت ہیں ، مگر اکیلا ہوں

بستیاں ہیں کتنی میرے راستوں میں
مگر کوئی بھی میری منزل نہیں ہے
طوفاں بہت ہیں ، جیون کے ساگر میں
کسی موج کا کوئی بھی ساحل نہیں ہے

کھویا ہے میں نے ، ہر ہم سفر کو
یونہی چلتے چلتے جو کسی سے ملا ہوں

میرے رات اور دن کا نہیں کوئی مطلب
میرے اس سفر کا نہیں ہے ٹھکانہ
گرد یہ کہتی ہے اڑ کہ راستوں کی
چلتے رہنا ہے مجھے چلتے رہنا

کبھی موڑ مڑتا ہوں ، خوشی کی طرف تو
کبھی آنسوؤں کے پانی سے دھلا ہوں

مسافر ہوں یارو سفر پہ چلا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
 

دائم

محفلین
بسم اللہ!
آپ کا یہ گیت عروضی اعتبار سے ابھی بہت کمزور ہے، بحر ہزج کے مختلف زحافات بغیر کسی قاعدے کلیے کے یہاں پیوست کر دئیے ہیں، کبھی فعولن فعولن، کبھی فعلن فعولن، کبھی فعولن فعلن ........ الخ،

معنوی اعتبار سے گیت گیت نہیں ہے، مضامین رونے دھونے کی غمازی کر رہے ہیں، عُلُوّ چاہیے یہاں، اور مصارع بھی ازروئے بندش نہایت سست روی کا شکار ہیں ، مزید بہتری کا متقاضی ہے
 
Top