اے آئی سے لکھی غزل !

آج مصنوعی ذہانت کی پوسٹ پر ایک دوست نے کمنٹ کیا کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ نے اس غزل پر جو باتیں یعنی پوسٹ لکھی ہے وہ بھی مصنوعی ذہانت ہی سے لکھی ہے۔ مجھے یہ پڑھ کر کچھ غصہ آیا اور کچھ اپنی فکر لاحق ہوئی۔ نئے تجربات کرنے اور پیش کرنے پر کچھ لوگ مجھ ایسے لوگوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ شاید ہم معمولی بات چیت بھی مصنوعی ذہانت ہی کی مدد سے کر رہے ہیں ۔۔۔یہ بہت خطرناک بات ہے اور ایک طرح سے الزام ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں تو یہاں اس فورم پر کئی سال گزارنے کے باوجود اس قابل بھی نہیں ہوں کہ اس کی فارمیٹنگ درست کردوں۔ یہ خدشہ مستقبل میں تمام غیر معروف شعرا اور ادبا کو بھی ہوگا۔ لوگ ان پر شک کریں گے یا الزام لگائیں گے۔ اس کی مستقبل میں صورتِ حال نہ جانے کیا ہو لیکن یہ بات بہرحال قدرتی ذہانت سے تخلیق کرنے والے شعرا و ادبا کے لیے تکلیف دہ ہے۔
جی نہیں تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آمد ، آورد اور توارد میں فرق اچھی طرح سمجھتے ہیں۔آپ کے تحقیقی مقالے ، آپ کی علمی باتیں ، آپ کے خیال افروز ارشادات، آپ کی فکرانگیزتحریریں، آپ کا قوی الرائے ہونا،آپ کی بالغ نظری،آپ کا تنقیدی شعور، آپ کی طبعِ بلند ، عقیل و فہیم ذہن۔۔۔۔۔یہ سب اوصاف آپ کے مضامین سے صاف مترشح ہیں ،جنھیں کوئی جھٹلانہیں سکتا ۔اِسی عرق ریزی اور دیدہ وری سے یہ علمی مہمات جاری رکھیں وقت بہت بڑا منصف اور عدل گستر ہے،بالضرورآپ کے جلائے ہوئےعلم وہنر کے چراغوں سے اِس جہان ِ آب و گِل کی تزئین وآرائش کاکام لیتا رہے گا، ان شاء اللہ۔
 
آخری تدوین:
مصنوعی ذہانت کا ایک کارِ منصبی خوب سے خوب تر کی جستجو بھی ہے کہ کہیں ایک جگہ اِس کی نظر ٹھہرے نہیں بلکہ جو نظم ، غزل یا مضمون اِس سے حاصل ہوا ہے ، اُسے سنوارنے اور خوب سے خوب تر بنانے میں اب اِس نے اپناایک اور کردار الگ سے ادا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
پہلی اسٹیج
خواب سے جاگتی ہے حقیقت مگر
زندگی کا ہے ہر لمحہ زخموں بھرا
یہ مسافر تو منزل سے محروم تھا
کچھ نصیبوں کا لکھا تھا لمحہ کڑا
خون دل کا بہا کر وہ دنیا گئی
رہ گیا یاد میں اک غموں کا دھرا
راہِ دنیا میں ہر موڑ اک راز ہے
پھر بھی انسان دھوکے میں کیوں جا رہا؟
جو ہے حاصل وہی تو مقدر میں تھا
وقت کی قید میں کون ٹھہرا یہاں؟
ہم سفر کا تو مقصد تھا رستہ فقط
منزلیں کیا ہیں، یہ کس نے سمجھا یہاں؟
دوسری اسٹیج(اِصلاح)
خواب سے جاگتی ہے حقیقت مگر
زندگی کا ہے ہر لمحہ زخموں کا گھر
یہ مسافر جو منزل سے محروم ہے
ہے نصیبوں کے لکھے کا ہی یہ اثر
خون دل کا ہوا زندگی لُٹ گئی
رہ گیا یاد ،تھا ایک غم کا نگر
زندگی کیا ہے کوئی نہ سمجھا اسے
گویا انجان رستوں کا ہے یہ سفر
جو ملا بس وہی تھا مقدر ترا
وقت کے جبر سے یاں کسے ہے مُفر
ہم سفر اِس لیے ہے کٹے راستہ
منزلوں کی کسی کو نہیں کچھ خبر
تیسری اسٹیج(ترمیم وتنسیخ)
خواب ہے زندگی یا حقیقت مگر
ہم نے دیکھا کہ ہے یہ تو غم سربسر
وہ
مسافر جو منزل سے محروم ہے
تھا مقدر کہ یونہی پھرے دربدر
یوں ہوا خوں تمناؤں کا رات دن
دل مرا ٹوٹ کر رہ گیا اک کھنڈر

زندگی کیا ہے کوئی نہ سمجھا اِسے
ہم جیے جارہے ہیں یونہی بے خبر
اب جو غم ہے ملا تھا نصیبوں میں یہ
اِس پہ مت دل جلا صبر کر صبر کر
دو قدم ساتھ تیرے جو مل کر چلا
میں نے کب یہ کہا ہے وہ تھا راہبر

اور اِس کے بعد بھی یہ مطمئن نہ ہو اور خوب سے خوب تر کی جستجومیں آپ کے ہمراہ رہے جیسے۔۔۔۔۔۔۔
خواب ہے زندگی یا حقیقت مگر
موت کا اِس میں شامل ہے کیوں خوف و ڈر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس لیے دربدر راہرو یہ پھرے
کیا نصیبوں میں اِس کے نہیں ایک گھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کے ارمان سارے ملے خاک میں
1۔میری آہوں سے دنیا ہے زیروزبر
2۔مجھ کو لگتا ہے آفاق یہ فتنہ گر
3۔مجھ پہ تو اے خدا رحم کر رحم کر
غرض انسانی ذہن جس طرح کام کرتا ہے اگر انسان اپنے ہی بنائے ہوئے گولے بارود (ناعاقبت اندیشی)سے موجودہ ترقیاتی عمل تباہ نہ کرلے تو ممکن ہے اِس کی بنائی ہوئی مشینیں ذہنِ انسانی کی کچھ ذمہ داریاں سنبھال کر اِس کی مشقت باہم تقسیم کرلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
صناعیِ مصنوعی خرد دیکھ رہے ہیں
اس دور تشکک میں سب ایقان گیا ہے
اس ناچیز نے اس سال کے آغاز میں لاہور میں پاکستان لٹریری فیسٹیول میں ایک نشست میں بطور سامع شرکت کی تھی ادب پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے اثرات سے متعلق
پینل میں تین شرکا تھے، ایک پاکستان کے حنیف صاحب (ایکسپلوڈنگ مینگوز والے)، دو دیگر غیر ملکی مصنفین تھے ایک عمر رسیدہ کسی یورپی ملکے کے دوسری ادھیڑ عمر کی خاتون غالبا جنوب امریکہ سے، افسوس نام یاد نہیں رہے ۔
حاصلِ گفتگو یوں تھا کہ عمر رسیدہ مصنف کا خیال تھا کہ تخلیقی ادب میں یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوسکتا، محمد حنیف صاحب کا تبصرہ کچھ بین بین تھا لیکن وہ بھی ارٹیفیشل انٹیلیجنس کو کوئی خاطر خواہ مقام دینے کو تیار نہ تھے، جبکہ خاتون کا کہنا تھا کہ یہ بحث تو اب پرانی ہوگئی ہے اور وہ اور ان کے معاصر پہلے ہی چیٹ جی پی ٹی جیسی ایپس سے ناول نگاری میں کام لے رہے ہیں۔

ابھی پچھلے ہفتے میں نے ایک تجربہ کیا اور اپنی ایک غزل کے چند شعر ایک اے آئی میوزک ایپ کو دیئے اور چھ سات تجربوں کے بعد ایک اچھی خاصی سریلی دھن میں ایک نغمہ تیار ہوگیا۔ اس حد تک معتبر کہ ایک ساتھی کو سنایا تو اس نے راگ بھی پہچان لیا کہ غالبا بھیروی میں بنا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ یہ اے آئی اب موجود ہے اور استعمال میں بھی آئے گی۔ زندگی کے ہر شعبے میں۔ ہمارے کرنے کا کام اب یہی ہے کہ اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں اس سے استفادہ حاصل کرنے کے ہنر سیکھیں۔

جو بڑھ کے خود اٹھا لے وہ جام اسی کا ہے

کوشش کریں کہ اے آئی کا جام اٹھانے والوں میں اولین صف میں پائے جائیں
 
مصنوعی ذہانت کا ایک کارِ منصبی خوب سے خوب تر کی جستجو بھی ہے کہ کہیں ایک جگہ اِس کی نظر ٹھہرے نہیں بلکہ جو نظم ، غزل یا مضمون اِس سے حاصل ہوا ہے ، اُسے سنوارنے اور خوب سے خوب تر بنانے میں اب اِس نے اپناایک اور کردار الگ سے ادا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
پہلی اسٹیج
خواب سے جاگتی ہے حقیقت مگر
زندگی کا ہے ہر لمحہ زخموں بھرا
یہ مسافر تو منزل سے محروم تھا
کچھ نصیبوں کا لکھا تھا لمحہ کڑا
خون دل کا بہا کر وہ دنیا گئی
رہ گیا یاد میں اک غموں کا دھرا
راہِ دنیا میں ہر موڑ اک راز ہے
پھر بھی انسان دھوکے میں کیوں جا رہا؟
جو ہے حاصل وہی تو مقدر میں تھا
وقت کی قید میں کون ٹھہرا یہاں؟
ہم سفر کا تو مقصد تھا رستہ فقط
منزلیں کیا ہیں، یہ کس نے سمجھا یہاں؟
دوسری اسٹیج(اِصلاح)
خواب سے جاگتی ہے حقیقت مگر
زندگی کا ہے ہر لمحہ زخموں کا گھر
یہ مسافر جو منزل سے محروم ہے
ہے نصیبوں کے لکھے کا ہی یہ اثر
خون دل کا ہوا زندگی لُٹ گئی
رہ گیا یاد ،تھا ایک غم کا نگر
زندگی کیا ہے کوئی نہ سمجھا اسے
گویا انجان رستوں کا ہے یہ سفر
جو ملا بس وہی تھا مقدر ترا
وقت کے جبر سے یاں کسے ہے مُفر
ہم سفر اِس لیے ہے کٹے راستہ
منزلوں کی کسی کو نہیں کچھ خبر
تیسری اسٹیج(ترمیم وتنسیخ)
خواب ہے زندگی یا حقیقت مگر
ہم نے دیکھا کہ ہے یہ تو غم سربسر
وہ
مسافر جو منزل سے محروم ہے
تھا مقدر کہ یونہی پھرے دربدر
یوں ہوا خوں تمناؤں کا رات دن
دل مرا ٹوٹ کر رہ گیا اک کھنڈر

زندگی کیا ہے کوئی نہ سمجھا اِسے
ہم جیے جارہے ہیں یونہی بے خبر
اب جو غم ہے ملا تھا نصیبوں میں یہ
اِس پہ مت دل جلا صبر کر صبر کر
دو قدم ساتھ تیرے جو مل کر چلا
میں نے کب یہ کہا ہے وہ تھا راہبر

اور اِس کے بعد بھی یہ مطمئن نہ ہو اور خوب سے خوب تر کی جستجومیں آپ کے ہمراہ رہے جیسے۔۔۔۔۔۔۔
خواب ہے زندگی یا حقیقت مگر
موت کا اِس میں شامل ہے کیوں خوف و ڈر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس لیے دربدر راہرو یہ پھرے
کیا نصیبوں میں اِس کے نہیں ایک گھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کے ارمان سارے ملے خاک میں
1۔میری آہوں سے دنیا ہے زیروزبر
2۔مجھ کو لگتا ہے آفاق یہ فتنہ گر
3۔مجھ پہ تو اے خدا رحم کر رحم کر
غرض انسانی ذہن جس طرح کام کرتا ہے اگر انسان اپنے ہی بنائے ہوئے گولے بارود (ناعاقبت اندیشی)سے موجودہ ترقیاتی عمل تباہ نہ کرلے تو ممکن ہے اِس کی بنائی ہوئی مشینیں ذہنِ انسانی کی کچھ ذمہ داریاں سنبھال کر اِس کی مشقت باہم تقسیم کرلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بات ہے ماشااللہ! آپ کو استاد بنانا پڑے گا :)
سدا سلامت رہیں۔ آمین
 
صناعیِ مصنوعی خرد دیکھ رہے ہیں
اس دور تشکک میں سب ایقان گیا ہے
اس ناچیز نے اس سال کے آغاز میں لاہور میں پاکستان لٹریری فیسٹیول میں ایک نشست میں بطور سامع شرکت کی تھی ادب پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے اثرات سے متعلق
پینل میں تین شرکا تھے، ایک پاکستان کے حنیف صاحب (ایکسپلوڈنگ مینگوز والے)، دو دیگر غیر ملکی مصنفین تھے ایک عمر رسیدہ کسی یورپی ملکے کے دوسری ادھیڑ عمر کی خاتون غالبا جنوب امریکہ سے، افسوس نام یاد نہیں رہے ۔
حاصلِ گفتگو یوں تھا کہ عمر رسیدہ مصنف کا خیال تھا کہ تخلیقی ادب میں یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوسکتا، محمد حنیف صاحب کا تبصرہ کچھ بین بین تھا لیکن وہ بھی ارٹیفیشل انٹیلیجنس کو کوئی خاطر خواہ مقام دینے کو تیار نہ تھے، جبکہ خاتون کا کہنا تھا کہ یہ بحث تو اب پرانی ہوگئی ہے اور وہ اور ان کے معاصر پہلے ہی چیٹ جی پی ٹی جیسی ایپس سے ناول نگاری میں کام لے رہے ہیں۔

ابھی پچھلے ہفتے میں نے ایک تجربہ کیا اور اپنی ایک غزل کے چند شعر ایک اے آئی میوزک ایپ کو دیئے اور چھ سات تجربوں کے بعد ایک اچھی خاصی سریلی دھن میں ایک نغمہ تیار ہوگیا۔ اس حد تک معتبر کہ ایک ساتھی کو سنایا تو اس نے راگ بھی پہچان لیا کہ غالبا بھیروی میں بنا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ یہ اے آئی اب موجود ہے اور استعمال میں بھی آئے گی۔ زندگی کے ہر شعبے میں۔ ہمارے کرنے کا کام اب یہی ہے کہ اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں اس سے استفادہ حاصل کرنے کے ہنر سیکھیں۔

جو بڑھ کے خود اٹھا لے وہ جام اسی کا ہے

کوشش کریں کہ اے آئی کا جام اٹھانے والوں میں اولین صف میں پائے جائیں
واہ ماشااللہ! آپ یہاں مجھ ایسے احباب کو اپنی موسیقی کے تجربات سے کچھ سکھائیں کہ کس طرح آپ نے وہ گیت ترتیب دیا۔ میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ چیزیں تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ ہمیں اس سے ڈرنے کے بجائے اسے سمجھنا اورسیکھنا ہوگا۔ دیکھیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر بطور استاد میں اسے نہیں سیکھتا تو میرے طلبہ مجھے دھوکا دے سکتے ہیں۔ ایک بچی چیٹ جی پی ٹی سے اسائنمنٹ لکھوالائی تھی، میں نے فوراً پکڑ لی، اور دوبارہ لکھنے کے لیے کہا۔ یہ قلم پر جمود وغیرہ کی صورت میں بہت کامیاب ہے، آپ کو آگے دھکیلنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ آپ براہِ کرم اپنے ترتیب دیے گیت کا اشتراک یہاں کیجیے گا۔
 

علی وقار

محفلین
ایک اہم سوال تو یہی سامنے آ رہا ہے کہ انسانی ادب کو مشینی ادب سے ممیز کیسے کیا جائے گا۔ فی الوقت، یہ آسان کام لگ رہا ہے۔ میرے خیال میں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فرق کرنا مشکل ہو جائے گا کہ یہ مشینی ادب ہے یا کسی مبتدی کی کاوش ہے۔ اعلیٰ پائے کے ادب کو تو شاید استثنٰی حاصل رہے گا۔

اسائنمنٹ وغیرہ کا تو معاملہ ہی الگ ہے۔ اب تو طلباء زیادہ تر اسائنٹمنٹ چیٹ جی پی ٹی سے بنوا لیتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اُن سے اسائنمنٹ سے متعلق فی البدیہہ سوال جواب بھی کیے جائیں۔
 
واہ ماشااللہ! آپ یہاں مجھ ایسے احباب کو اپنی موسیقی کے تجربات سے کچھ سکھائیں کہ کس طرح آپ نے وہ گیت ترتیب دیا۔ میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ چیزیں تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ ہمیں اس سے ڈرنے کے بجائے اسے سمجھنا اورسیکھنا ہوگا۔ دیکھیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر بطور استاد میں اسے نہیں سیکھتا تو میرے طلبہ مجھے دھوکا دے سکتے ہیں۔ ایک بچی چیٹ جی پی ٹی سے اسائنمنٹ لکھوالائی تھی، میں نے فوراً پکڑ لی، اور دوبارہ لکھنے کے لیے کہا۔ یہ قلم پر جمود وغیرہ کی صورت میں بہت کامیاب ہے، آپ کو آگے دھکیلنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ آپ براہِ کرم اپنے ترتیب دیے گیت کا اشتراک یہاں کیجیے گا۔
میں موسیقی کی الف بے سے بھی واقف نہیں البتہ اچھی موسیقی سننے کا شوق رکھتا ہوں۔
اتفاقا ایک اے آئی ایپ سے واسطہ پڑ گیا جہاں تجرباتی طور پر یہ کام کیا۔ اس ایپ میں آپ شاعری لکھ کر مختصر الفاظ میں (120 حروف) بیان کرتے ہیں کہ آپ کس قسم کی طرز چاہتے ہیں ، میں نے کچھ سازوں کے نام اور انڈین میوزک کا حوالہ لکھا اور مردانہ آواز کا لکھا۔ ہر دفعہ وہ ایپ آپ کی ہدایات پر 2 طرزیں بنا کر پیش کرتی ہے۔ میں نے ماڈرن، انڈین، انڈین-ماڈرن مکس وغیرہ قسم کے تجربات کئے اور کئی طرزیں دستیاب ہوگیئیں۔ جو مجھے سب سے اچھی لگی وہ میں نے ڈاؤن لوڈ کرلی۔

آڈیو فائل یہاں کیسے شیئر کروں سمجھ نہیں آرہی
 

علی وقار

محفلین
واہ ماشااللہ! آپ یہاں مجھ ایسے احباب کو اپنی موسیقی کے تجربات سے کچھ سکھائیں کہ کس طرح آپ نے وہ گیت ترتیب دیا۔ میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ چیزیں تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ ہمیں اس سے ڈرنے کے بجائے اسے سمجھنا اورسیکھنا ہوگا۔ دیکھیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر بطور استاد میں اسے نہیں سیکھتا تو میرے طلبہ مجھے دھوکا دے سکتے ہیں۔ ایک بچی چیٹ جی پی ٹی سے اسائنمنٹ لکھوالائی تھی، میں نے فوراً پکڑ لی، اور دوبارہ لکھنے کے لیے کہا۔ یہ قلم پر جمود وغیرہ کی صورت میں بہت کامیاب ہے، آپ کو آگے دھکیلنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ آپ براہِ کرم اپنے ترتیب دیے گیت کا اشتراک یہاں کیجیے گا۔
امجد میانداد


مصنوعی ذہانت سے تیار کیا گیا اردو/ہندی کا پہلا گانا

 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
میں موسیقی کی الف بے سے بھی واقف نہیں البتہ اچھی موسیقی سننے کا شوق رکھتا ہوں۔
اتفاقا ایک اے آئی ایپ سے واسطہ پڑ گیا جہاں تجرباتی طور پر یہ کام کیا۔ اس ایپ میں آپ شاعری لکھ کر مختصر الفاظ میں (120 حروف) بیان کرتے ہیں کہ آپ کس قسم کی طرز چاہتے ہیں ، میں نے کچھ سازوں کے نام اور انڈین میوزک کا حوالہ لکھا اور مردانہ آواز کا لکھا۔ ہر دفعہ وہ ایپ آپ کی ہدایات پر 2 طرزیں بنا کر پیش کرتی ہے۔ میں نے ماڈرن، انڈین، انڈین-ماڈرن مکس وغیرہ قسم کے تجربات کئے اور کئی طرزیں دستیاب ہوگیئیں۔ جو مجھے سب سے اچھی لگی وہ میں نے ڈاؤن لوڈ کرلی۔

آڈیو فائل یہاں کیسے شیئر کروں سمجھ نہیں آرہی
شکیل صاحب، ایپ کا نام بتا سکتے ہیں پلیز
 
ایک اہم سوال تو یہی سامنے آ رہا ہے کہ انسانی ادب کو مشینی ادب سے ممیز کیسے کیا جائے گا۔ فی الوقت، یہ آسان کام لگ رہا ہے۔ میرے خیال میں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فرق کرنا مشکل ہو جائے گا کہ یہ مشینی ادب ہے یا کسی مبتدی کی کاوش ہے۔ اعلیٰ پائے کے ادب کو تو شاید استثنٰی حاصل رہے گا۔

اسائنمنٹ وغیرہ کا تو معاملہ ہی الگ ہے۔ اب تو طلباء زیادہ تر اسائنٹمنٹ چیٹ جی پی ٹی سے بنوا لیتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اُن سے اسائنمنٹ سے متعلق فی البدیہہ سوال جواب بھی کیے جائیں۔
اس ضمن میں ایک سہولت تو یہ میسر ہوگئی ہے کہ ٹرن اٹ ان میں اے آئی کا سرقہ پکڑنے کی آپشن آن ہوچکی ہے، اور پکڑا بھی جارہا ہے۔ بہرحال جس قدر تیزی سے اے آئی میں جدت آرہی ہے، مجھے لگتا ہے کہ ٹرن اٹ ان اسے کچھ پیچھے رہ جائے گا۔ اور یہ بات بالکل درست ہے کہ اعلیٰ پائے کا ادب ہی اس سے بچ پائے گا، باقی سب مستقبل میں مکس اپ ہوجائے گا۔
 
میں موسیقی کی الف بے سے بھی واقف نہیں البتہ اچھی موسیقی سننے کا شوق رکھتا ہوں۔
اتفاقا ایک اے آئی ایپ سے واسطہ پڑ گیا جہاں تجرباتی طور پر یہ کام کیا۔ اس ایپ میں آپ شاعری لکھ کر مختصر الفاظ میں (120 حروف) بیان کرتے ہیں کہ آپ کس قسم کی طرز چاہتے ہیں ، میں نے کچھ سازوں کے نام اور انڈین میوزک کا حوالہ لکھا اور مردانہ آواز کا لکھا۔ ہر دفعہ وہ ایپ آپ کی ہدایات پر 2 طرزیں بنا کر پیش کرتی ہے۔ میں نے ماڈرن، انڈین، انڈین-ماڈرن مکس وغیرہ قسم کے تجربات کئے اور کئی طرزیں دستیاب ہوگیئیں۔ جو مجھے سب سے اچھی لگی وہ میں نے ڈاؤن لوڈ کرلی۔

آڈیو فائل یہاں کیسے شیئر کروں سمجھ نہیں آرہی
یہاں اشراک کا طریقہ تو مجھے بھی معلوم نہیں ہے، آپ سافٹ وئیر کا نام وغیرہ بتائیں تو اس پر کوشش کی جاسکتی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
امجد میانداد پہلے ہی اے آئی سے موسیقی کے ساتھ دو عدد گیت یہاں پہلے ہی شئر کر چکے ہیں جس کا علم شاید محمد شکیل خورشید کو نہیں تھا، انہوں نے خود تجربہ کیا ہے یہ۔ دونوں حضرات نے جو ایپ/ایپس استعمال کی ہوں، ان کو یہاں شئر کریں۔
محمد شکیل خورشید نے بھی جس میوزک فائل کا ذکر کیا ہے، اسے اپنی ڈرائیو میں اپ لوڈ کر کے اسے شئریبل بنا کر لنک دیں
 
امجد میانداد پہلے ہی اے آئی سے موسیقی کے ساتھ دو عدد گیت یہاں پہلے ہی شئر کر چکے ہیں جس کا علم شاید محمد شکیل خورشید کو نہیں تھا، انہوں نے خود تجربہ کیا ہے یہ۔ دونوں حضرات نے جو ایپ/ایپس استعمال کی ہوں، ان کو یہاں شئر کریں۔
محمد شکیل خورشید نے بھی جس میوزک فائل کا ذکر کیا ہے، اسے اپنی ڈرائیو میں اپ لوڈ کر کے اسے شئریبل بنا کر لنک دیں
جی استادِ محترم مجھے واقعی امجد میانداد صاحب کے کام کا علم نہیں تھا۔ میں تو حادثاتی طور پر اس ایپ تک پہنچا، کام کچھ اور درپیش تھا، لیکن تجرباتی طور پر یہ نغمہ بھی بن گیا، یقینا یہ اتنا پروفیشنل کام نہیں جتنا امجد صاحب کا نظر آرہا ہے۔
 

علی وقار

محفلین
صناعیِ مصنوعی خرد دیکھ رہے ہیں
اس دور تشکک میں سب ایقان گیا ہے
اس ناچیز نے اس سال کے آغاز میں لاہور میں پاکستان لٹریری فیسٹیول میں ایک نشست میں بطور سامع شرکت کی تھی ادب پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے اثرات سے متعلق
پینل میں تین شرکا تھے، ایک پاکستان کے حنیف صاحب (ایکسپلوڈنگ مینگوز والے)، دو دیگر غیر ملکی مصنفین تھے ایک عمر رسیدہ کسی یورپی ملکے کے دوسری ادھیڑ عمر کی خاتون غالبا جنوب امریکہ سے، افسوس نام یاد نہیں رہے ۔
حاصلِ گفتگو یوں تھا کہ عمر رسیدہ مصنف کا خیال تھا کہ تخلیقی ادب میں یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوسکتا، محمد حنیف صاحب کا تبصرہ کچھ بین بین تھا لیکن وہ بھی ارٹیفیشل انٹیلیجنس کو کوئی خاطر خواہ مقام دینے کو تیار نہ تھے، جبکہ خاتون کا کہنا تھا کہ یہ بحث تو اب پرانی ہوگئی ہے اور وہ اور ان کے معاصر پہلے ہی چیٹ جی پی ٹی جیسی ایپس سے ناول نگاری میں کام لے رہے ہیں۔

ابھی پچھلے ہفتے میں نے ایک تجربہ کیا اور اپنی ایک غزل کے چند شعر ایک اے آئی میوزک ایپ کو دیئے اور چھ سات تجربوں کے بعد ایک اچھی خاصی سریلی دھن میں ایک نغمہ تیار ہوگیا۔ اس حد تک معتبر کہ ایک ساتھی کو سنایا تو اس نے راگ بھی پہچان لیا کہ غالبا بھیروی میں بنا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ یہ اے آئی اب موجود ہے اور استعمال میں بھی آئے گی۔ زندگی کے ہر شعبے میں۔ ہمارے کرنے کا کام اب یہی ہے کہ اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں اس سے استفادہ حاصل کرنے کے ہنر سیکھیں۔

جو بڑھ کے خود اٹھا لے وہ جام اسی کا ہے

کوشش کریں کہ اے آئی کا جام اٹھانے والوں میں اولین صف میں پائے جائیں
شکیل بھائی! آپ شاید اس فیسٹول کی بات کر رہے ہیں۔
 
شکیل بھائی! آپ شاید اس فیسٹول کی بات کر رہے ہیں۔
غالبا یہی تھا، میں ان چار پینلسٹس میں سے دونوں کونوں پر بیٹھے افراد کو پہچان رہا ہوں کہ یہی تھے۔ اب سیشن یہی تھا یا کوئی اور، یہ یاد نہیں کیونکہ میری یادداشت میں تین پینلسٹس تھے جن میں سے ایک پاکستانی محمد حنیف تھے۔
ممکن ہے میری یادداشت مجھے دھوکہ دے رہی ہو، سٹھیانے میں سوا سال ہی باقی ہے :D
 
Top