اے افواج پاکستان

خاور بلال

محفلین
بڑی بڑی افسانوی اور تخیلاتی باتیں کرنا بہت آسان۔ انہی لوگوں کی وجہ سے آج مسلمانوں کی یہ حالت ہے۔ بجائے اس کے موجودہ حالات سے نکلنے اور انہیں بہتر بنانے کی کوشش کریں، ایک نیا نسخہ لیکر مارکیٹ میں آجاتے ہیں۔

جی ہاں بالکل صحیح!
میں اسی بات کی تائید کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ افسانوی اور تخیلاتی باتوں سے امن قائم کروانا بھی بہت آسان ہے۔ سادہ سانسخہ ہے۔ بس اردو محفل کے کچھ حضرات کو اپنی جان پر کھیل کر قبائلی علاقوں میں‌ جانا پڑے گا اور ان کا موقف سن کر مسائل کے حل کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

یہ سب ہوسکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ بیچ میں سے پاک فوج کو نکال دیں۔ آئیے ایک کہانی سنیں۔ ایک تھا راجہ ایک تھی رانی۔ نہیں نہیں بلکہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں کے کنویں میں ایک عدد کتا گر گیا۔ جس سے کنویں کے پانی سے بو آنے لگی۔ گاؤں کے باسی مولوی صاحب کے پاس گئے اور ان سے مسئلہ دریافت کیا۔ مولوی صاحب نے تجویز دی کہ چالیس ڈول پانی نکال کر پھینک دیا جائے تو پانی پاک ہوجائے گا۔ سو گاؤں کے رہنے والوں نے چالیس ڈول نکال دیے لیکن کچھ فرق نہ آیا اور مزید دو تین دفعہ چالیس ڈول نکالنے سے بھی کچھ افاقہ نہ ہوا۔ ایسے میں مولوی صاحب کا گذر وہاں سے ہوا تو گاؤں والوں‌ نے یہ ماجرا ان سے بیان کیا۔ مولوی صاحب یہ سن کر سناٹے میں آگئے کہ کتا تو کسی نے نکالا نہیں صرف پانی نکالے جارہے ہیں۔۔۔!! تو لیجئے صاحبان! کتا نکالے بغیر امن قائم کرنے کا نسخہ کیسا رہے گا؟
 

فرضی

محفلین
بہت پتے کی بات کی ہے آپ نے خاور بلال۔ کنویں میں تو مردہ کتا تھا۔ اس کنویں میں تو چوہے نے بلی سے جان بچانے کے لیے پناہ لے رکھی ہے۔ چوہے کو ڈر ہے کہ اگر باہر نکل آیا تو کہیں بلی نہ دبوچ لے۔
 

خرم

محفلین
جی ہاں بالکل صحیح!
میں اسی بات کی تائید کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ افسانوی اور تخیلاتی باتوں سے امن قائم کروانا بھی بہت آسان ہے۔ سادہ سانسخہ ہے۔ بس اردو محفل کے کچھ حضرات کو اپنی جان پر کھیل کر قبائلی علاقوں میں‌ جانا پڑے گا اور ان کا موقف سن کر مسائل کے حل کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

یہ سب ہوسکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ بیچ میں سے پاک فوج کو نکال دیں۔

چلیں بھائی مجھ ناقص العقل کی تو جو سمجھ میں آیا کہہ دیا۔ آپ لوگ اپنا "جہاد" جاری رکھئے، اور جب یہ جہاد ختم ہو جائے تو ہمیں بتا دیجئے گا۔
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم !

فاروق صاحب!
آپ نےبہت اچھی بات کی واقعی ہمیں احترام کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ میں ساۃنس سٹوڈنٹ رہا ہوں اس لئے لکھنا لکھانا میرے بس سے باہر کا کام ہے ۔اگر کہیں تحریر میں سختی نظر آئے تو اسے میرے لہجے کی کرختگی نہ سمجھیئے بلکہ اسے لفظوں کا غلط چناؤ سمجھیئے گا۔

کچھ ناموں کی مماثلت کی وجہ سے موجودہ جمہوریت اور خلافت کے نظام کو ایک ہی شے سمجھا جاتا ہے جیسے مجلس شوریٰ ۔مگر یہ دونوں اپنے اپنے اصولوں اپنی اپنی جزئیات اور اپنے اپنے مصادر جہاں سے یہ اخذ ہوئے ہیں سے کلی طور پر مختلف ہیں۔

آپ نے جو ووٹ اور بیعت کی بابت پوچھا اس کے بارے محتصرا یہ ہے کہ ووٹ ایک"رائے"(opinion) کا نام ہے۔عام طور پر جموری پارلیمانی نظام ،صدارتی نظام یا جمہوریت کی کسی بھی صورت میں جب حکومتی پارٹی کے چناؤ کا مرحلہ آتا ہے۔توحکومتی امیدوار جماعتیں اپنا اپنا ریاستی منشور عوام کے سامنے رکھتیں ہیں اور اس پر عوام کی رائےووٹ کے ذریعے طلب کی جاتی ہے۔
جبکہ بیعت عقد یا معاہدے contract کو کہا جاتاہے یہ معاہدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص اس لئے منصب خلافت سنبھال رہا ہے کہ وہ امت پر قران و سنت نافذ کرے گا ۔اور امت اس نفاذ کے بدلے اس کی اطاعت کرے گی ۔ مزید یہ کہ یہ بیعت مسلمانوں کی طرف سے خلیفہ کی ہوتی ہے ۔خلیفہ کی جانب سے مسلمانوں کی نہیں۔ یہ contract اس وقت حتم ہو جاتا ہے جب خلیفہ شریعت کے برعکس کوئی کام کرتا ہے۔
بخاری میں عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :

" ہم نے رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم سے پسند اور ناپسند ( دونوں حالتوں میں ) سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی۔ اور اس بات پر کہ ہم اولوالامر کے ساتھ نزاع نہیں کریں گے۔ اور ہم حق کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے یا حق بات کہہ دیں گے جس حالت میں بھی ہوں گے۔ اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔"

خلیفہ کی میعاد پرجن حدشات کا آپ نے اظہار کیا ہے وہ بھی بیعت کی تعریف کو سمجھنے سے دور ہوسکتے ہیں ۔ خلیفہ کے علاوہ باقی سب عہدوں کی ایک مدت متعین ہوتی ہے۔ مگر خلیفہ کی زمہ داری کی مدت ایک دن بھی ہو سکتی ہے اور تا عمر بھی ۔کیونکہ جب تک وہ اس امت کے ساتھ کی گئی بیعت contract کو پورا کرے گا وہ خلیفہ رہے گا ورنہ نہیں۔ اور اس بیعت کے حتم ہو جانے کے بعد امت پر اس کی اطاعت بھی حتم ہو جاتی ہے۔
ویسے بھی اگر دیکھا جائے ایک شحص احسن طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے تو اسے ہٹانے کی کیا ضروت ہو گی اور اگر وہ کسی غیر اسلامی فعل کا مرتکب ہے تو پانچ سال یا اگلے انتحابا ت کی مہلت کیوں!
 

زیک

مسافر
عمر: خلافتِ راشدہ کی ہی مثال لے لیں۔ چار میں سے تین کو شہید کیا گیا اور دو کو تو دوسرے مسلمانوں نے ہی کیا۔ اگر اتنے بڑے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوا تو پھر آج کے دور میں ہم خلیفہ کو کیسے ہٹائیں گے۔ یہ تو خانہ‌جنگی کی کیفیت ہو جائے گی۔
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم
زیک بھائی انشاءاللہ اگلی دفعہ اسے مسلئے پر بات کریں گے۔
خرم صاحب ہمیں یوں منجدہار میں چھوڑ کر نہ جایئں ابھی تو سلسلہ چل پڑا ہے کسی انجام تک تو پہنچا دیں !


آپ نے دورانیہ نہیں بیان فرمایا بس ایک مبہم سی بات کر کے سوال ٹال دیا۔ چلیں ایک اور طرح سے سوال پوچھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ خلافت کی ناکامی لوگوں کی ناکامی تھی، اب اگر آپ خلافت کا دورانیہ بیان فرما دیں تو بات کھُلے کہ آپ کے نزدیک کونسے لوگ ناکام ہوئے۔ اس سوال کا جواب ضرور دیجئے پلیز۔

تاریخ کے حوالے سےلوگوں میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے اگر میں یہاں کسی کے خلاف یا حق میں کوئی رائے دے دوں تو بحث کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا جس کا کوئی فائدہ نہیںاور ضرورت بھی نہیں ۔مگر رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک حدیث ہے جو ان تمام اختلاف کو ختم کر دیتی ہے ۔
آپ صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
" تمہارے اندر "عہد نبوت" موجود رہے گا جب تک اللہ چاہے گا ،پھر جب اللہ اسے حتم کرنا چاہے گا تو اس کو حتم کردے گا ۔پھر " نبوت کے نقش قد م پر خلافت" قائم ہو گی جو ( اس وقت تک ) رہے گی جب تک اللہ چاہے گا ،پھر جب اللہ اسے حتم کرنا چاہے گا تو اس کو حتم کردے گا۔پھر موروثی خلافت کا دور ہو گا۔ جو ( اس وقت تک ) رہے گی جب تک اللہ چاہے گا ،پھر جب اللہ اسے حتم کرنا چاہے گا تو اس کو حتم کردے گا۔پھر" جابرانہ حکومت" کا دور ہو گا جو ( اس وقت تک ) رہے گی جب تک اللہ چاہے گا ،پھر جب اللہ اسے حتم کرنا چاہے گا تو اس کو حتم کردے گا۔
پھر " نبوت کے نقش قدم پر خلافت " قائم ہو گی ( رواہ احمد)

اس حدیث نبوی کے مطابق مسلمانوں پر پانچ قسم کے ادوار آییں گے ۔
پہلا نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم کا ۔
دوسرا حلافت راشدہ کا ۔
تیسرا موروثی خلافت کا جس میں کبھی بیٹا باپ کی جگہ خلیفہ بن رہاہے تو کھبی خلیفہ کا کوئی قریبی عزیز اس دور میں اچھے خلیفہ بھی آتے رہے اور ظالم بھی۔ لیکن مجموعی طور پر اسے خلافت یا مسلمانوں کا دور ھکومت ہی کہا جائے گا ۔
اور حلافت عثمانیہ اسی سلسلے کا تسلسل تھی جو 1924 میں حتم ہوئی۔ جسے حتم کرنے کے بعد لارڈ کرزن نے کہا تھا کہ آج ہم نے مسلمانوں کی سیاسی قوت کوہمیشہ کے لئے حتم کر دیا ۔
نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان امت کی گرہیں ایک کے بعد ایک کر کے کھلیں گی ۔سب سے پہلی حکومت کی ہو گی اور سب سے آخری نماز کی ۔

چوتھا دور کہا گیا جابرانہ حکومت کو آپ دیکھے کہ مسلمانوں کی آخری خلافت جیسے جیسے کمزور ہوتی گئی کفار مسلمانوں کے ہر ہر علاقے پر قبضہ کرتے گئے کہیں مسلمان برطانیوؤں کے غلام بن گئے اور کہیں ولندیزوں کے۔ آج تقریبا تمام اسلامی ملک کسی نہ کسی مغربی ملک کے آزاد کردہ ہیں ۔ کسی نے برطانیہ سے آزادی پائی ہے تو کسی نے فرانس سے۔ اور جب یہ مغربی استعماری کفار مسلمانوں کی آزادی کے لئے چلائی جانے والی تحریکوں کے سامنے کمزور پڑنے لگے توپھر انہوں نے علاقے آزاد کرنا شروع کر دیے۔
مگر انہوں نے ایک نئی چال بازی سے مسلمانوں کی صفوں میں شامل کچھ غداروں کو بڑی بڑی جایدادیں اور مال واکرام دے کر حریدا اور ان کے زریعے پھرسے حکومت میں شامل ہو گئے۔ پاکستان بننے کے بعد کیسے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ کھلونا بن کر رہ گیا جس کا مشاہدہ ہم آج تک کرتے آرہے ہیں۔
اور یہ پاکستان ہی نہیں بلکہ سبھی اسلامی ممالک کے ساتھ ہوا۔
اور ابھی یہ چوتھا دور یعنی " جابرانہ حکومت " والا ہی جاری ہے۔

اور پانچواں دور بے شک خلافت راشدہ کا دور ہو گا ۔ جس کے بارے میں نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم
نے فرمایا میری امت کی مثال بارش جیسی ہے اور نہیں معلوم کے میری امت کے پہلے( دور ) حصے میں زیادہ خیر ہے یا آخری ( دور ) حصے میں ۔

اور اسی خلافت کے قیام کے لئے ہم کام کر رہے ہیں۔ اسکے قیام کو مسلمانوں پر فرض سمجھتے ہیں۔ اسکو باعث فخر نہیں بلکہ اللہ سبحان وتعالٰی کی ہدایت سمجھتے ہوئے اوراس عظیم نیکی کی سعادت سمجھتے ہوئے کرر ہے ہیں۔
یہ وہ ٹرین ہے جس نے اپنی منزل پر پہنچنا ہی پہنچنا ہے آپ اپنی ذات کا فیصلہ کر لیں کہ آپ کہاں کھڑے ہیں اسکے اندر یا اسکے باہرکسی تماشائی کی طرح صرف ہا تھ ہلا رہے ہیں یا اسکے روکنے والوں کے ساتھ ہیں ۔

والسلام
ابھی اور بھی بہت سے سوالات کے جواب لکھنا باقی ہیں مگر انشاء اللہ اگلی دفعہ ۔۔۔۔۔۔۔
 
عمر، اگر منتخب شدہ خلیفہ، پریزیڈینٹ یا جو بھی آپ کہیں۔ کی معیاد مقرر نہیں تو یہ ایک فرسودہ نظام ہے جس کی جڑیں‌ قرآن میں تو نہیں‌ملتی ہیں۔ زندگی بھر کی فرمانروائی کا مطلب ہے، حکومت ایک شخص کی میراث ہو گئی۔ ہم آج کے جمہوری نظام میں تو اپنے صدر کو ہٹا نہیں سکتے، کسی مطلق العنان خلیفہ کو کیسے ہٹائیں گے۔

قرآن ہر جگہ 'یا ایھا الذینَ ' کہہ کر عوام الناس کو خطاب کرتا ہے۔ مذہب کی یا حکومت کی بنیاد ٹھیکیداری پر ہوتی تو 'امیر المومنین ' کو خطاب کرتا ۔ حزب التحریر کے ذہن میں جس حکومت کا تصور ہے۔ موجودہ حکومت میں کیا کیا تبدیلیاں‌ ہوں گی تو یہ ایک اسلامی حکومت بن جائے گی؟ آپ کم از کم تین عدد بنیادی تبدیلیوں‌کا تذکرہ کریں۔

ترک خلافت جو ختم ہوئی۔ وہ کس قدر غیر اسلامی تھی اور کس قدر غیر فطرتی تھی۔ اس کو تو ختم ہی ہونا تھا۔ میں‌ بلادریغ یہ کہہ سکتا ہوں کہ تمام اسلامی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی حکومت ایک اسلامی حکومت سے قریب تر ہے۔ امپروومنٹ کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہے۔ سو وہ رہے گی۔ جو کمی ہے اس کو ہم لوگ تبدیل کرسکتے ہیں۔

صاحب یہ تا حیات حکمرانی یعنی حکومت کے پردے میں ملکیت کسی طور قبول نہیں۔ حکمرانی کرنے کے لئے ایک مظبوط مشاورتی کونسل بہت ضروری ہے۔ جب تک ایسی مظبوط مشاورتی کونسل نہیں‌بنتی، یہ کام فوج کی مشاورتی کونسل ہی کرتی رہے گی۔ اور جلد یا بدیر فوج آتی ہی رہے گی۔
 

عمر میرزا

محفلین
ہم آج کے جمہوری نظام میں تو اپنے صدر کو ہٹا نہیں سکتے، کسی مطلق العنان خلیفہ کو کیسے ہٹائیں گے۔
میں‌ بلادریغ یہ کہہ سکتا ہوں کہ تمام اسلامی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی حکومت ایک اسلامی حکومت سے قریب تر ہے۔


براہ کرم آپ ان نکات کی وضاحت کریں تاکہ مجھے آپ کا موقف سمجھنے میں آسانی ہو۔
موجودہ جمہوری نظام میں ایک صدر یا وزیر اعظم کو ہٹانا کیوں مشکل ہے۔اس مسلئلے کے حل کےلئے کن عوامل کو آپ رکاوٹیں وسمجھتے ہیں۔ تکنیکی طور پر وضاحت کیجئے گا، نیز پاکستانی حکومت کو آپ کن بنیادوں پر اسلامی نظام کے قریب ترین کہہ رہے ہیں
 
بہت شکریہ۔ آپ اگر تھوڑی سی تکلیف کیجئے اور میرے دستخط میں موجود لنک مین فراہم کردہ مضمون کسی وقت دیکھ لیجئے۔ جب دیکھ چکیں تو بتائیے میں پھر آپ کو مزید معلومات فراہم کرنے کی کوشش کروں گا، کہ حکومتی ڈھانچہ کس طرح اسلامی ہے گو کہ اس میں مزید تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
 

خرم

محفلین
" ہم نے رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم سے پسند اور ناپسند ( دونوں حالتوں میں ) سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی۔ اور اس بات پر کہ ہم اولوالامر کے ساتھ نزاع نہیں کریں گے۔ اور ہم حق کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے یا حق بات کہہ دیں گے جس حالت میں بھی ہوں گے۔ اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔"
بھائی یہ جس بیعت کا آپ ذکر کر رہیں ہیں یہ تحصیل علمِ دین اور اس پر عمل کرنے کی بیعت ہے۔ سلاسل طریقت میں آج بھی شیوخ اپنے مریدین کو انہیں‌باتوں پر بیعت کرتے ہیں کہ وہ انہیں شریعت پر چلنے کا راستہ دکھائیں‌گے اور مریدین ان کی اتباع کریں گے۔ میری ناقص فہم اور معلومات کے مطابق نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی حکمرانی کے لئے بیعت نہیں لی۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک کا مقصد و محور دین کی اشاعت تو تبلیغ تھا۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی محض حکومت سازی کا کشور کشائی کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔ کوئی ایسی حدیث نہیں ملتی جس کے تحت نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے ان مسلمانوں کو کسی مسلم حکمران کی بیعت کرنے کو کہا ہو جو اسلامی حکومتوں میں نہیں رہتے تھے۔ سب سے بڑی مثال تو حضرت اویس قرنی کی ہے جنہیں‌ظاہری حیات میں کبھی بھی شرفِ ملاقات حاصل نہ ہوا۔ ظاہر ہے ان کی بیعت بھی نہ ہوئی، تو پھر آپ ان کو تو اس تمام عرصہ میں ایمان سے خارج ہی قرار دیں گے؟ اسی طرح حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کا معاملہ ہے۔ اس میں آپ کیا فیصلہ صادر فرمائیں گے؟
اسلام میں کہیں بھی جمہور کا متفقہ طور پر ایک خلیفہ یا حکمران چُننا یا خلیفہ کی معیاد مقرر کرنے کے خلاف کوئی حکم نہیں ہے۔ یہ ارشادِ پاک بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی امت کی اکثریت کبھی بھی غلط بات پر اکٹھی نہیں ہوگی۔ اس ارشادِ پاک کی روشنی میں ایک حکمران کا تعین و تقرر بذریعہ ووٹ کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ مسلمانوں کا تمام دُنیا میں صرف ایک ہی خلیفہ ہونا ایک ایسی چیز ہے جس کے التزام کی نہ تو کوئی روایت ملتی ہے اور نہ کوئی ثبوت۔ اسلام کا مطمع نظر تمام انسانیت کو آگاہِ خالق کرنا اور اس سے ملانا ہے نا کہ تمام دُنیا میں ایک حکومت کا قیام۔ ہاں اگر کوئی ہستی ایسی انسانوں کے درمیان موجود ہوتی ہے جس کی قیادت پر تمام مسلمان متفق ہوتے ہیں تو یہ ممنوع بھی نہیں جیسے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام یا حضرت عیسٰی علیہ السلام کے دور میں ہوگا انشاء اللہ۔
مسلمانوں کی مختلف حکومتوں کے بارے میں سب سے بڑا ثبوت یہ پیش کرتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دونوں بیٹوں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہم السلام کے درمیان ملک عرب کو تقسیم فرما دیا تھا۔ اگر اہل ایمان کے ہاں مختلف حکومتیں ہونا اللہ کو ناپسند ہوتا تو حضرت خلیل اللہ علیہ السلام اور ان کے پیارے بیٹوں جو دونوں جلیل القدر انبیاء ہیں ان سے اس کا صدور قطعا نہ ہوتا۔ اس دلیل کے بعد میرے خیال میں مختلف اسلامی ممالک اور ان کی اپنی خودمختار حکومتوں کے غیر اسلامی ہونے کے بارے میں آپ کے شکوک کو رفع ہو جانا چاہئے۔
اسی طرح شریعت کا نفاذ ایک بہت دلفریب نعرہ ہے لیکن اس کی تفصیل معلوم کرنا بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہی بات حل طلب ہے کہ شریعت کے نفاذ سے مراد کیا ہے؟ اور یہاں‌میرا سوال ایک مبہم جواب کا نہیں اس بات کا ملتجی ہے کہ یہ بیان ہو کہ عملی زندگی میں نفاذِ شریعت سے آپ کی مراد کیا ہے؟
 

خرم

محفلین
یہ بات بھی درست ہے کہ نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمان کے مطابق اگر کسی مسلمان کے گلے میں حلیفہ کی بیعت نہیں ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
عمر کیا یہ بات حزب کے لٹریچر میں شامل ہے؟ اگر ہے تو کیا میں یہ سمجھوں کہ یہ حزب کی سوچ کے "بنیادی عناصر" یعنی "Corner Sotnes" میں سے ہے؟ اور اگر میں اس بات کو فسق ثابت کر دوں‌تو آپ حزب کے بارے میں کیا رائے رکھیں گے؟
 

عمر میرزا

محفلین
عمر کیا یہ بات حزب کے لٹریچر میں شامل ہے؟ اگر ہے تو کیا میں یہ سمجھوں کہ یہ حزب کی سوچ کے "بنیادی عناصر" یعنی "Corner Sotnes" میں سے ہے؟ اور

یہ حزب کا لٹریچر نہیں بلکہ ‌ نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
اور اگر میں اس بات کو فسق ثابت کر دوں‌تو آپ حزب کے بارے میں کیا رائے رکھیں گے؟

صاحب! اگر کوئی فسق و فجور والی بات ہے تو بتانے کےلیے اجازت کیا طلب کرنی ہے ڈنکے کی چوٹ پر بات کریں ۔آپ حنجر آزمائیے ہم جگر آزماتے ہیں۔
 

خرم

محفلین
بھائی حدیث کی صحت بھی تو حزب کی ذمہ داری ہے نا اور اگر وہ دعوٰی کرتے ہیں اسلامی حکومت کا تو اسلام کا علم اور اس سے بڑھ کر اس پر عمل بھی ہونا چاہئے۔
اب میرا سوال یہ ہے آپ سے کہ آپ کی بیان کردہ اس حدیث کے مطابق آپ خاتون جنت‌(میرا سب کچھ ان پر قربان) کو کس زمرہ میں رکھئے گا؟ عرض کردوں کہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (فداہ ابی و امی) کی بیعت نہ کی تھی بلکہ حضرت علی شیر خدا نے بھی حضرت صدیق اکبر کی بیعت وفاتِ فاطمہ زہراء کے بعد کی تھی۔
آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔
 

عمر میرزا

محفلین
مکمل حدیث کچھ یوں ہے کہ

مسلم نے نافع سے روایت کیا کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا : میں نے رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا :

((من خلع یدا من طاعتہ لقی اللہ یوم القیامتہ لا حجتہ لہ ومن مات ولیس فی عنقہ بیعتہ مات میتہ جاھلیتہ ))

" جو شحص ( امیر کی) اطاعت سے اپنا ہاتھ کینچ لے تو قیامت کے دن وہ اللہ تعالٰی سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کے پاس اپنے ( اس عمل کے ) لئے کوئی دلیل نہ ہو گی ۔ اور جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت ( کا طوق ) نہ ہو تو وہ جاہلیت کے دنوں کی موت مرا ۔ "

ایک اور جگہ مسلم ابن عباس سے رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم کی یہ حدیث روایت کرتے ہیں کہ آپ صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( من کرہ من امیرہ شیاء فلیصبر علیہ ، فانہ لیس احد من الناس یخرج من السلطان شبرا ، فمات علیہ ، الامات میتہ جاھلیتہ ))
" جس کسی نے اپنے امیر کی کسی چیز کو ناپسند کیا تو لازم ہے کہ وہ اس پر صبر کرے۔کیونکہ لوگوں میں سے جس نے بھی امیر کی اطاعت سے بالشت برابر بھی خروج کیا اور وہ اس حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا "


اب آتے ہیں اصل مدعا کی طرف ۔
میں نے پچھلی پوسٹوں میں اس حدیث کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا اس حدیث میں ایسا قرینہ پایا جاتا ہے جو کسی اور حکم کی دلالت کرتا ہے اسکا یہ مطلب نہیں کہ جو بیعت نہیں کرتا وہ جاہلیت کی موت ،را ۔

مثال کے طور پر یہ احادیث کے " صفائی نصف ایمان ہے " اور " جس نے نکاح کر لیا اسنے آدھا ایمان مکمل کر لیا "
اسی طرح ایک اور حدیث کے " دین کیا ہے۔۔۔۔ کھانا کھلانا اور بھلائی چاہنا "
تو کیا اس کا یہ مطلب ہو گا کہ جو کوئی صاف ستھرا رہے اور شادی کر لے تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا ۔یا جو کوئی لوگوں کو کھانا کھلائے اور بھلائی چاہے تو وہ پکا مومن بن گیا اور اب اسے باقی فرائض اور سنتیں اپنانے کی ضرروت نہیں ۔بلکہ ایسا ہر گز ایسا نہیں یہ تو ایک انداز ہے عربی زبان کا۔یہ تو عربی زبان کے اسالیب گفتار ہیں۔۔جسے آپ بامخاورہ عربی کہتے ہیں۔
اور یہاں بھی ان احادیث کے زرٰیعے صفائی ، نکاح کرنے ،کھانا کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے۔

اردو کے بھی محاوروں سے تو آپ یقیننا واقف ہونگے کہ لفظی مطلب کچھ اور ہوتا ہے اور مفہوم کچھ اور۔

درج بالا احادیث کی بھی وضاحت کر دوں کہ رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ فرض قرار دیا ہے کہ ہر مسلمان کی گردن میں خلیفہ کی بیعت کا طوق ہو ۔یہاں جو نکتہ قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ھر مسلمان خلیفہ کی بیعت کرے چنانچہ فرض ہر مسلمان کی گردن میں خلیفہ کی بیعت کا طوق موجود ہونا ہے یہ ایک خلیفہ کی موجودگی کو لازم کرتا ہے جس کا وجود اسے اس بات کو مستحق بناتا ہے کہ اس کی بیعت کا طوق ہر مسلمان کی گردن میں ہو ۔پس خلیفہ کے موجود ہونے سے ہر مسلمان کی گردن پر بیعت کا طوق ہوتا ہے خواہ وہ مسلمان بالفعل بیعت نہ بھی کرے ۔لہذا یہ حدیث کی اس بات کی طرف دلالت کرتی ہے کہ خلیفہ کا تقرر فرض ہے اور ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اس کی گردن میں بیعت کا طوق ہو۔
یہ حدیث اس بات کی دلالت نہیں کرتی کےہ ہر مسلمان پر بیعت دینا فرض ہے کیونکہ رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والہ وسلم جس چیز کی مذمت کی ہے وہ ہے مسلمان کی گردن کا موت تک بیعت (خلیفہ ) سے خالی ہونا ،نہ کہ سرے سے بیعت کا نہ ہونا ۔۔

وما علینا الالبلاغ
ولسلام
 

خرم

محفلین
بات کچھ الجھ سی گئی ہے عمر۔ اس کا مطلب ہے کہ جو حزب کے سربراہ ہیں وہ اپنے آپ کو خلیفہ کہلوانا شروع کردیں۔ مجھ سمیت باقی 99 فیصد مسلمان انہیں خلیفہ نہیں مانتے لیکن پھر بھی وہ خلیفہ ہیں اور ہم پر بھی ان کی اطاعت واجب نہیں۔ پھر تو جھگڑا ہی کوئی نہیں۔
اور ویسے بھی خاتون جنت اور شیرِ خدا سے یہ گمان رکھنا بھی انتہائی گمراہی ہے کہ آقا صل اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد وہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارک کو فراموش کردیں۔
 

خرم

محفلین
ایک بات یہاں بڑی دلچسپ ہے۔ ان احادیث میں سے پہلی کے مطلب میں لفظ (امیر) کا اضافہ مترجم نے کیا ہے۔ اب یہاں پر یہ بات کافی غور طلب ہے کہ جس بیعت کے متعلق فرمان جاری کیا جارہا ہے وہ بیعت کونسی ہے اور جس امیر کے حکم سے سرتابی نہ کرنے کی بات ہو رہی ہے وہ امیر کون ہے؟ عمومی طور پر امیر سے مراد حاکمِ وقت یا خلیفہ وقت لیا جاتا ہے لیکن یہ تشریح صحابہ کرام اور اکابرینِ امت کے افعال سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اگر امیر سے مراد حاکمِ وقت ہو تو پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیعت سے اہالیانِ بیت کا ابتدائی انکار، حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت، جنگِ جمل، حضراتِ علی و امیر معاویہ کے باہم اختلافات، مسلمان جو بسلسلہ تبلیغ ممالکِ‌غیر میں قیام پذیر رہے اور ان کے غیر موجودی میں‌کئی خلافتیں بدلی گئیں، ان سب کو آپ کس کسوٹی پر پرکھئے گا؟ اگر عملِ صحابہ و تابعین و تبع تابعین سے دلیل لی جائے تو جس بیعت کا احادیث میں ذکر ہے وہ بیعت دین پر چلنے کی بیعت ہے۔ وہی بیعت جونبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے تمام اصحاب سے لی۔ اس بیعت کو آج لوگ بیعتِ طریقت کہتے ہیں جو انہی باتوں پر لی جاتی ہے جن باتوں پر آقا صل اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے بیعت لی۔ قرآن میں جس اولوالامر کا یا احادیث میں جس امیر کا ذکر آتا ہے وہ وہی شخص ہوتا ہے جس سے آپ اطیعو اللہ و اطیعوالرسول کے آداب سیکھتے ہیں اور جسے شیخ‌ یا پیرِ طریقت کہا جاتا ہے۔ اور یہی ایک ایسا رُتبہ ہے جس پر فائز شخص کی اطاعت کے لئے قرآن و حدیث میں تلقین آئی ہے اور یہی وہ بیعت ہے کہ جس نے نہ کی وہ جاہلیت کی یعنی ایک جاہل کی موت مرا (کفر کی موت نہیں) کیونکہ اس نے دین کو سیکھنے کے لئے کسی باعمل انسان کی بیعت ہی نہ کی اور اس طرح ایک واضح قرآنی حکم اور فرمانِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔
 

x boy

محفلین
اب تو مشرف بھی گیا، زرداری بھی گیا، گیالانی بھی کیانی بھی، نوازشریف بہت شریف ہے
کراچی آپریشن، ہرجگہہہ کا آپریشن ہونا باقئ۔
 
Top