11مارک کے کوارک
1911 میں برطانوی سائنس دان ولسن سکاٹ لینڈ کے ایک مشہور مرطوب پہاڑ پر بادلوں کا مطالعہ کر رہا تها تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ یہی کام تجربہ گاہ میں کیا جائے۔ اس نے کیمبرج کی کیونڈش تجربہ گاہ میں سادہ سا چیمبر بنایا جہاں وہ ہوا کو مرطوب اور نم کر کے مناسب حد تک بادل کا نمونہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
یہ آلہ ٹهیک کام کر رہا تها اور اس کا ایک اور فائدہ بهی اتفاق سے دریافت ہو گیا۔ جب اس نے چارج شدہ الفا ذرات کو اس سے گزارا تو وہ پیچهے باقاعدہ ایسے نشان چھوڑ گئے جیسے ہوائی جہاز چھوڑتا ہے۔ اس نے دنیا کا اولین پارٹیکل ڈیٹیکٹر بنا لیا تها۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سب اٹامک ذرات حقیقی ہیں۔
آخر کار کیونڈش کے ہی دو اور سائنس دانوں نے مزید طاقتور پروٹان بیم ڈیوائس بنائی جبکہ کیلیفورنیا میں برکلے میں ارنسٹ لارنس نے سائیکلوٹران بنایا جسے عرصے تک ایٹم سمیشر کے نام سے جانا جاتا رہا۔ ابهی تک یہ آلے ایک ہی اصول پر کام کر رہے ہیں کہ پروٹان یا کسی اور چارج بردار ذرے کو انتہائی تیزی سے گول یا سیدهے راستے پر چلا کر دوسرے ذرے سے ٹکرا کر دیکھا جائے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اگرچہ یہ کام کوئی بہت مشکل سائنس نہیں لیکن پهر بهی مناسب کام کرتا ہے۔ جب طبعیات دانوں نے مزید طاقتور مشینیں بنانا شروع کیں تو ایسے نئے ذرات کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے مثلاً میوان، پائیون، ہائپران، میسون، کے میسون، ہگس بوسون، انٹرمیڈیٹ ویکٹر بوسون، بریان اور ٹائیکون وغیرہ۔ ان کی تعداد اتنی ہوگئی کہ طبعیات دان بهی الجھ گئے۔
آج ان آلات کے نام سائنسی سے زیادہ جنگی لگتے ہیں جیسا کہ دی سپر پروٹان سنکروٹان، دی لارج الیکٹران-پازیٹران کولائیڈر، دی لارج ہیڈرون کولائیڈر، دی ریلیٹوسٹک ہیوی آئن کولائیڈر وغیرہ۔ انتہائی زیادہ توانائی کو استعمال کرتے ہوئے ان ذرات کو اتنی تیزی سے چلایا جاتا ہے کہ ایک الیکٹران ایک سیکنڈ سے بهی کم وقت میں 7 کلومیٹر طویل سرنگ کے 47,000 چکر لگا سکتا ہے۔ اس بارے کچھ سائنس دان پریشان ہیں کہ اس عمل میں کہیں غلطی سے بلیک ہول نہ بن جائے یا کوئی ایسا عجیب کوارک نہ بن جائے جو دیگر ذرات کے ساتھ عمل کرتے ہوئے قابو سے باہر ہو جائے۔ اگر آپ یہ فقرہ پڑھ رہے ہیں تو ایسا ابهی نہیں ہوا۔
ذرات کو تلاش کرنے میں بہت توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ صرف ان کا حجم مختصر اور رفتار تیز ہوتی ہے بلکہ ان کا وجود بهی بہت کم وقت کے لیے ہوتا ہے۔ یہ ذرات 10-24 سیکنڈ میں عدم سے وجود میں آ کر اور پهر ختم ہو سکتے ہیں۔ سب سے سست ذرات بهی 10-7 سیکنڈ میں ظاہر ہو کر غائب ہو سکتے ہیں۔
بعض ذرات انتہائی چکنے ہوتے ہیں۔ ہر سیکنڈ دس ہزار کهرب کهرب ایسے بے وزن نیوٹرینو ہماری زمین اور ہمارے وجود سے ایسے گزرتے ہیں جیسے خلا سے گزر رہے ہوں۔ ان ذرات کی اکثریت سورج سے آتی ہے۔ ان میں سے چند ذرات کو قابو کرنے کے لیے سائنس دانوں کو 57,000 مکعب میٹر بهاری پانی کے تالابوں کی ضرورت ہوتی ہے جو زیر زمین ہوتے ہیں تاکہ دیگر ذرات نہ پہنچ سکیں۔
کبهی کبهار ایک ایسا ذرہ کسی ایٹمی مرکزے سے ٹکراتا ہے تو ہلکا سا جهماکہ ہوتا ہے۔ انہی جهماکوں کی گنتی کر کے سائنس دان کائنات کے بنیادی ذرات کے بارے کچھ مزید معلومات پا لیتے ہیں۔ 1998 میں جاپانی سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ نیوٹرینوں کا بهی وزن ہوتا ہے جو کہ ایک الیکٹران کے ایک کروڑویں حصے کے برابر ہے۔
ان ذرات کو تلاش کرنے کے لیے بہت پیسہ درکار ہوتا ہے۔ جتنا چهوٹا ذرہ تلاش کرنا ہو، اتنی بڑی مشینیں اور آلات درکار ہوتے ہیں۔ یورپی ایٹمی تحقیقاتی ادارہ سرن ایک چهوٹا سا شہر ہے جو فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر ہے۔ اس میں 3,000 افراد کام کرتے ہیں اور اس کا رقبہ کئی مربع کلومیٹر ہے۔ اس میں موجود مقناطیسوں کا وزن آئفل ٹاور سے زیادہ ہے اور اس کی زیرِ زمین سرنگ 26 کلومیٹر طویل ہے۔
ایٹم توڑنا آسان ہے۔ جب آپ فلوریسنٹ لائٹ جلاتے ہیں تو یہی کام ہوتا ہے۔ تاہم ایٹم کا مرکزہ توڑنا بہت مشکل، مہنگا اور توانائی طلب کام ہے۔ ایٹمی ذرات کو بنانے والے کوارک تک جانے کے لیے کهربوں وولٹ بجلی اور چهوٹے موٹے ملک کے بجٹ جتنا پیسہ درکار ہوتا ہے۔ سرن کی نئی لارج ہیڈرون کولائڈر کے بنانے پر ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ لگے جبکہ چلانے کو 14 کهرب وولٹ بجلی درکار ہوتی ہے (اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ورلڈ وائڈ ویب ایجاد ہوا جو سرن کی ہی ایجاد ہے۔ اسے سرن کے سائنس دان سر ٹم برنرز لی نے 1989 میں ایجاد کیا)۔
تاہم یہ تو اس کے مقابلے کچھ بهی نہیں جو امریکہ میں ٹیکساس میں بنائے جانے والے سپر کنڈکٹنگ سپر کولائئڈر پر خرچ ہونے تهے۔ اس کا مقصد 84 کلومیٹر طویل سرنگ میں 99 ارب وولٹ کی مدد سے ذرات کو اس سطح پر لے جانا تها جہاں وہ بگ بینگ کے ابتدائی سیکنڈ کے دس ہزار کهربویں حصے جیسے ہو جاتے۔ اس پر پہلے 8 اور بعد میں 10 ارب ڈالر کا تخمینہ تھا اور چلانے پر سالانہ کروڑوں ڈالر الگ۔ کانگریس نے یہ منصوبہ روک دیا۔
کہہ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ یعنی 2 ارب ڈالر ایک گڑهے میں ڈالے گئے یعنی 22 کلومیٹر طویل سرنگ کهودی گئی اور پهر منصوبہ ختم ہو گیا۔ اس وقت ٹیکساس کی وجہ افتخار کائنات کا سب سے مہنگا گڑها ہے۔ اس سارے علاقے میں زمین صاف کی گئی ہے اور سرنگ کے اوپر جگہ جگہ مایوس قصبے ہیں۔ اس منصوبے سے مایوس ہو کر اب طبعیات دان نسبتاً سستے منصوبے بنا رہے ہیں۔ تاہم نسبتاً چھوٹے منصوبے بھی حیران کن حد تک مہنگے ہوتے ہیں۔ ایک نیوٹرینو مشاہدہ گاہ کی تجویز پیش کی گئی ہے جو ساؤتھ ڈکوٹا میں ایک پرانی اور متروک کان میں بنائی جانی تھی۔ اس کو بنانے کی قیمت 50 کروڑ ڈالر ہے اور وہ بھی اس لیے کہ کان پہلے سے کھدی ہوئی ہے۔ اسے چلانے کے سالانہ اخراجات کا ابھی حساب نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ ‘جنرل کنورژن کاسٹ’ کے نام سے 28 کروڑ ڈالر سے زیادہ الگ سے مختص ہوں گے۔ النوائس کے ایک پارٹیکل ایکسلریٹر کو دوبارہ محض نصب کرنے کا خرچہ 26 کروڑ ڈالر تھا۔
پارٹیکل فزکس انتہائی مہنگی سائنس ہے لیکن اس کے بہت کچھ فائدے بھی ہیں۔ آج تک دریافت شدہ سب ایٹمی ذرات کی تعداد 150 سے تجاوز کر چکی ہے اور مزید 100 سے زیادہ کے بارے امید ہے کہ وہ بھی موجود ہوں گے۔ رچرڈ فین مین کے مطابق ‘بدقسمتی سے ان ذرات کے باہمی تعلقات کو سمجھنا انتہائی دشوار ہے اور یہ بھی کہ ان کا مقصد کیا ہے۔’ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہر بار جب ہم ایک صندوق کھولتے ہیں تو اس کے اندر ایک اور بند صندوق ملتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹائیکون نام کے ذرات بھی موجود ہیں جو روشنی سے بھی تیز ہو سکتے ہیں۔ کچھ سائنس دان گریویٹان کو تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں جو ان کے خیال میں کششِ ثقل کی بنیاد ہے۔ یہ کہنا آسان نہیں کہ کب ایسے ذرات سامنے آئیں گے جن کو مزید تقسیم کرنا ممکن نہ رہے۔ کارل ساگان نے اپنی کتاب ‘کوسموس’ میں یہ امکان پیش کیا تھا کہ اگر آپ الیکٹران کے اندر کا سفر کریں تو عین ممکن ہے کہ اس کے اندر ایک پوری کائنات چھپی ہوئی ہو۔ اس امکان کے بارے 1950 کی دہائی میں سائنس فکشن میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس نے لکھا تھا کہ عین ممکن ہے کہ ہر الیکٹران کے اندر موجود کائنات کے ہر ایٹم کے الیکٹران میں پھر مزید کائنات چھپی ہو اور یہ سلسلہ اسی طرح لامتناہی طور پر چلتا رہے۔ اور یہی سلسلہ اوپر کی جانب بھی لامتناہی ہو کہ ہماری پوری کائنات کسی دوسری سطح پر ایک الیکٹران ہو؟
یہ دنیا ہم میں سے زیادہ تر کے خواب و خیال سے بھی باہر ہے۔ پارٹیکل فزکس کی بنیادی معلومات جاننے کے لیے جو درسی مواد آپ پڑھیں گے وہ انتہائی ادق اصطلاحات اور مشکل زبان پر مشتمل ہوگا۔ ایسی کتب عام قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔
1960 میں کالٹیک کے طبعیات دن مرے جیل من نے سادگی متعارف کرانے کی خاطر ایک تجویز دی کہ وہ تمام ذرات جوسٹرانگ نیوکلیئر فورس سے متعلق ہیں، انہیں ایک مشترکہ نام دے دیا جائے۔ اس کے ساتھی رچرڈ فین مین نے تجویز پیش کی ان ذرات کو پارٹنز کہا جائے لیکن اسے مسترد کر کے ‘کوارک’ نام رکھا گیا۔
اگرچہ ابتداء میں کوارک کو بہت سادہ سمجھا گیا لیکن اس میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہونے لگ گئیں اور مزید شاخیں بنانی پڑیں۔ کوارک اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی رنگ، ذائقہ یا دیگر طبعی خصوصیات نہیں ہوتیں لیکن پھر بھی ان کی شناخت کے لیے ان کی چھ قسمیں بنائی گئیں، اوپر، نیچے، عجیب، جادوئی، بالائی اور تہہ دار۔ طبعیات دان ان ناموں کو ذائقہ سمجھتے ہیں اور انہیں مزید آگے سرخ، سبز اور نیلے رنگوں میں بانٹا ہوا ہے۔
ان سب کو ملا کر جو نتیجہ نکلا، اسے سٹینڈرڈ ماڈل یعنی معیاری نمونہ کہتے ہیں۔ اسے آپ سب ایٹمی ذرات کی فرہنگ کہہ لیں۔ اس ماڈل میں چھ کوارکس، چھ لیپٹان، پانچ معلوم اور ایک فرض شدہ بوسون (چھٹا بوسون ہگز بوسون ہے جو حال ہی میں دریافت ہوا ہے) اور چار طبعی قوتوں میں سے تین یعنی سٹرانگ اینڈ ویک نیوکلیئر فورسز اور برقناطیسیت ظاہر کی گئی ہیں۔
ترتیب کچھ اس طرح سے ہوئی کہ مادے کے بنیادی ذرات کوارک کہلاتے ہیں۔ انہیں گلُوآن نے ایک دوسرے سے جوڑا ہوا ہے۔ گلُوآن مل کر پروٹان اور نیوٹران یعنی ایٹم کا مرکزہ بناتے ہیں۔ لیپٹان سے الیکٹران اور نیوٹرینو بنتے ہیں۔ کوارک اور لیپٹان ایک ساتھ مل کر فرمیون کہلاتے ہیں۔ بوسون ایسے ذرات ہیں جو مختلف قوتوں کو پیدا کرتے ہیں اور ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس میں فوٹان اور گلُیوآن شامل ہیں۔ اس ماڈل کا مقصد وزن رکھنے والے ذرات کو بیان کرنا تھا۔
اگرچہ یہ ماڈل بہت آسان یا سادہ نہیں لیکن پھر بھی ذرات کی دنیا کی وضاحت کرتا ہے۔ زیادہ تر پارٹیکل فزسسٹ کے خیال میں اس ماڈل میں سادگی اور نفاست کی کمی ہے۔ فزکس ایک بنیادی سادگی کی تلاش کا نام ہے۔ ابھی تک ہم نے سادگی کی بجائے پیچیدگی ہی بڑھائی ہے۔
تاہم یہ ماڈل پُروقار نہ ہونے کے علاوہ مکمل بھی نہیں۔ اس میں کششِ ثقل کے بارے کچھ نہیں بیان کیا گیا۔ یعنی اگر آپ میز پر کچھ رکھیں تو وہ اڑ کر چھت کو کیوں نہیں جا چپکتا۔ ذرات کو کمیت دینے کی غرض سے فرض کیا گیا ہے کہ ہگس بوسون موجود ہونا چاہئے (یہ ذرہ اس کتاب کے لکھے جانے کے بعد دریافت ہوا ہے)۔
معاملہ سادہ بنانے کی غرض سے طبعیات دانوں نے سپر سٹرنگ نظریہ پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق کوارک اور لیپٹان جو پہلے ذرات سمجھے جاتے تھے، دراصل سٹرنگ یعنی لڑیاں ہیں۔ توانائی کی یہ لڑیاں 11 مختلف سمتوں میں تھرتھراتی ہیں۔ ان میں سے تین سمتیں ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں، چوتھی سمت وقت اور سات مزید سمتیں جن کے بارے عام انسان کو کچھ علم نہیں۔ یہ لڑیاں انتہائی چھوٹی ہیں۔
اضافی سمتوں کی وجہ سے طبعیات دانوں نے کوانٹم قوانین اور کششِ ثقل کو ملا کر ایک نسبتاً مختصر نمونہ بنا لیا ہے۔ تاہم یہ سب نظریات اتنے عجیب ہیں کہ اگر کوئی اجنبی بندہ آپ سے اس طرح کی کوئی بات کہے تو آپ اسے سنکی سمجھ کر اس سے دور ہو جائیں۔ مثال کے طور پر مشہور طبعیات دان ماچیو کاکو نے سپر سٹرنگ نظریے کے حوالے سے کائنات کی ساخت کچھ ایسے بیان کی:
ایک مخلوط لڑی دراصل ایک بند لڑی پر مشتمل ہے جس میں دو اقسام کی تھرتھراہٹ پائی جاتی ہے یعنی گھڑیال موافق اور گھڑیال مخالف۔ دونوں کو الگ الگ دیکھا جاتا ہے۔ گھڑیال موافق تھرتھراہٹ مکاں میں 10 مختلف سمتوں میں ہوتی ہے۔ گھڑیال مخالف تھرتھراہٹ 26 مختلف سمتوں میں ہوتی ہے جن میں سے 16 سمتوں کو ملا کر ایک سمت بنا دی جاتی ہے۔
اسی طرح کا متن لگ بھگ 350 صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔
سٹرنگ تھیوری آگے چل کر ایم تھیوری بناتی ہے جس کے بارے میرے الفاظ ختم ہو گئے ہیں۔ بہتر ہے کہ اسے یہیں روک دیا جائے۔
طبعیات میں علم اب جس سطح پر پہنچ گیا ہے، اس بارے ‘نیچر’ میں پال ڈیویز نے لکھا ہے ‘اب عام قاری کے لیے یہ فرق کرنا ممکن نہیں رہا کہ کون سی بات حقیقت میں عجیب ہے اور کون سی بات نرا پاگل پن۔’ 2002 میں دو فرانسیسی جڑواں بھائیوں ایگور اور گریچکا بوگڈانوف نے کثافت کا ایک ایسا نظریہ پیش کیا جس میں ‘فرضی وقت’ جیسے نظریات شامل تھے اور یہ نظریہ عدم کی وضاحت کرتا ہے کہ بگ بینگ سے قبل کیا تھا (چونکہ طبعی قوانین اور طبعیات کا آغاز بگ بینگ کے بعد ہوا تھا، اس لیے بظاہر طبعیات اس عدم کے بارے کچھ بھی نہیں کہہ سکتی)۔
فوراً ہی طبعیات دان اس بات پر بحث کرنے لگ گئے کہ یہ عام سی بات ہے، ذہانت کا شاہکار یا محض دھوکہ بازی؟ کولمبیا یونیورسٹی کے طبعیات دان پیٹر ووئٹ کے مطابق ‘سائنسی اعتبار سے تو یہ بالکل احمقانہ ہے لیکن آج کل ایسی باتوں کو جانچنا بہت مشکل ہو گیا ہے’۔
سٹیون وائن برگ نے کارل پوپر کو موجودہ سائنسی فلاسفروں کا رہنما گردانا ہے اور اس رہنما کے خیال میں ‘کوئی نظریہ آخری نہیں بلکہ ہر نظریے کی وضاحت کے لیے مزید نظریات لانا پڑیں گے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا’۔ دوسرے الفاظ میں یہ علم ہماری سمجھ سے باہر ہی رہے گا۔ تاہم وائن برگ کے مطابق ‘ابھی ذہانت ختم نہیں ہوئی، اس لیے امید باقی ہے’۔
اس بات پر مزید تحقیق ہونا بظاہر لازم امر ہے اور جو بھی ہوگا، وہ ہم میں سے زیادہ تر کی سمجھ سے ویسے بھی باہر ہوگا۔
پچھلی صدی کے وسط میں سائنس دان ابھی انتہائی چھوٹے پیمانے والی دنیا پر کام کر رہے تھے تو فلکیات دان کائنات کو پورا نہ سمجھ سکنے پر کام کر رہے تھے۔
جب ہم نے ایڈون ہبل کا تذکرہ کیا تھا تو بات یہاں تک پہنچی تھی کہ اس وقت تقریباً تمام ہی کہکشائیں ہم سے دور جا رہی تھیں اور جو کہکشاں جتنی دور تھی، اتنی تیزی سے جا رہی تھی۔ ہبل نے اس ساری بات کو ایک مساوات کی مدد سے ظاہر کیا جو یہ ہے
Ho=v/d
Ho ایک مستقل ہے، v کہکشاں کی رفتار اور d کہکشاں سے ہمارا فاصلہ۔ Ho کو ہبل کا مستقل اور اس مساوات کو ہبل کا قانون کہتے ہیں۔ اس مساوات کی مدد سے ہبل نے کائنات کی عمر 2 ارب سال بتائی۔ یہ بات کچھ عجیب سی تھی کیونکہ اسی صدی کے آغاز سے معلوم ہو چکا تھا کہ کائنات کے بعض اجرامِ فلکی بشمول زمین کے، اس سے زیادہ پرانے ہیں۔ کائنات کی عمر کے بارے نظریات مسلسل بہتر ہو رہے ہیں۔
ہبل کے مستقل کے بارے ایک بات پکی ہے کہ اس پر اختلافات مستقل بڑھ رہے ہیں۔ 1956 میں ماہرینِ فلکیات نے سیفائیڈ متغیرات کے بارے یہ جانا کہ وہ ان کی توقعات سے بڑھ کر متغیر ہیں۔ ان کی ایک نہیں بلکہ دو اقسام ہیں۔ اس وجہ سے سارا حساب کتاب دوبارہ کرنا پڑا اور اب کائنات کی عمر 7 سے 20 ارب سال کے درمیان ہے۔ اگرچہ یہ اندازہ بہت بڑا فرق رکھتا ہے لیکن پھر بھی یہ زمین کی عمر سے مطابقت رکھتا ہے۔
ہبل کے جانشین سینڈیج نے پوری احتیاط سے حساب کتاب کر کے معلوم کیا کہ ہبل کے مستقل کی قیمت 50 ہے۔ عین اسی طرح یونیورسٹی آف ٹیکساس کے فرانسیسی نژاد ماہرِ فلکیات کے انتہائی محتاط حساب کتاب کے مطابق اس کی قیمت 100 ہے (آپ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ 50 یا 100 سے کیا مراد ہے۔ اس کا جواب فلکیاتی پیمائش کی اکائی ہے۔ بحث سے ہٹ کر سائنس دان نوری سال کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے بلکہ parsec یعنی Parallax اور second کا مخفف۔ یہ 3.26 نوری سال کے برابر ہوتا ہے۔ بہت بڑے فاصلے، جیسا کہ کائنات کا طول و عرض میگا پارسیک میں ظاہر کرتے ہیں۔ یہ مستقل کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک کو ظاہر کرتا ہے۔ جب ہبل کے مستقل کی قیمت 50 ہو تو یہ 50 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک کو اور 100 ہو تو 100 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک کو ظاہر کرتا ہے)۔ یعنی دونوں ماہرین کے اندازے میں دگنا فرق پایا جاتا ہے۔ 1994 میں خلائی دوربین ہبل سے کی گئی پیمائش کے مطابق کچھ طبعیات دانوں نے کائنات کی عمر 8 ارب سال بتائی ہے جو ان کے اپنے خیال میں کائنات کے کئی ستاروں کی عمر سے کم ہے۔ 2003 میں ناسا کی ایک ٹیم نے ایک نئے اور دور تک پیمائش کرنے والے مصنوعی سیارے کی مدد سے کائنات کی عمر 13.7 ارب سال اخذ کی ہے۔ تاہم اس میں 10 کروڑ سال کی کمی بیشی ممکن ہے۔ ابھی اس کے بعد کوئی نظریہ نہیں آیا۔
ان مشکلات کا سبب یہ بھی ہے کہ مختلف اندازے لگانے میں بہت گنجائش نکل آتی ہے۔ فرض کریں کہ آپ رات کو کسی کھیت میں کھڑے ہو کر دور دکھائی دینے والی دو روشنیوں کا فاصلہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب اگر آپ عام فلکیاتی اصول اپنائیں اور فرض کریں کہ دونوں یکساں دکھائی دینے والے دو بلب ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے دو گنا دور ہے۔ اب یہ کہنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا نزدیکی بلب 58 واٹ والا ہے جو ہم سے 37 میٹر دور ہے یا کہ 61 واٹ کا بلب ہے جو کہ 36.5 میٹر دور ہوگا۔ اس کے علاوہ مزید یہ بھی کہ کرہ ہوائی میں موجود مختلف ذرات ، کہکشاؤں کے بیچ موجود گرد، سامنے موجود ستاروں کی روشنی اور دیگر بہت سارے عوامل بھی اس فاصلے کو متاثر کر سکتے ہیں۔ یعنی یوں کہہ لیں کہ آپ کا اندازہ مسلسل فرض کردہ مقداروں پر مبنی ہے۔ اگر ایک بھی فرض کردہ مقدار غلط ہو تو اس کے نتیجے میں آگے والی تمام مقداریں بھی خودبخود غلط ہو جائیں گی۔ مزید یہ بھی خیال رہے کہ دوربینوں پر وقت لینا بہت دشوار ہے اور سرخ جھکاؤ یعنی ریڈ شفٹ کو ماپنا کافی مہنگا کام ہے۔ نتیجتاً ماہرین بعض اوقات انتہائی معمولی شواہد کی بنیاد پر اندازے لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایک صحافی جیفری کار کے مطابق ‘چوہے کے بل جتنے شواہد پر نظریات کا پہاڑ کھڑا کر دیا جاتا ہے’۔ مارٹن ریس کے خیال میں ‘ہمارا موجودہ علم ہمارے نظریات کی درستگی کی بجائے شواہد کی قلت کو ظاہر کرتا ہے’۔
نتیجتاً یہ مشکلات نہ صرف بلکہ کائنات کے سروں پر موجود چیزوں پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔ ڈونلڈ گولڈ سمتھ کے مطابق ‘جب فلکیات دان کہتے ہیں کہ ایم 87 کہکشاں ہم سے 6 کروڑ نوری سال دور ہے تو ان کے کہنے کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ کہکشاں ہم سے 4 سے 9 کروڑ نوری سال دور ہے۔ 4، 6 اور 9 کروڑ نوری سال کا فرق بہت زیادہ ہے۔‘
ایک نئے نظریے کے مطابق یہ کائنات اتنی بڑی نہیں جتنی ہم سمجھ رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ دور پار کی کہکشائیں دراصل پاس موجود کی کہکشاں کا عکس ہوں؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ بنیادی سطح پر بھی بہت کچھ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ کائنات کس چیز سے بنی ہے۔ جب بھی ماہرین کائنات کو جمع رکھنے والی کشش کی پیمائش کے لیے مادے کا شمار کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ مطلوبہ مقدار سے کہیں کم نکلتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہماری کائنات کا 90 سے 99 فیصد حصہ زویسکی والے ‘تاریک مادے’ سے بنا ہو۔ اس بات سے بہت مایوسی ہوتی ہے کہ ہم جس کائنات میں رہتے ہیں، اس کا انتہائی بڑا حصہ ہم دیکھ بھی نہیں سکتے۔ تاہم اس سے دو نظریات سامنے آتے ہیں کہ یہ ناقابلِ مشاہدہ حصہ یا تو WIMP یعنی بگ بینگ کے بعد رہنے والے آوارہ مادے یا MACHO یعنی سیاہ شگافوں، بھورے بونوں اور دیگر انتہائی مدھم ستاروں پر مشتمل ہے۔
ذراتی طبعیات دانوں کے خیال میں یہ WIMP ہے تو فلکیاتی طبعیات دانوں کا زور MACHO پر ہے۔ کچھ عرصے تک MACHO کو برتری رہی لیکن چونکہ ان کی اکثریت کا مشاہدہ نہیں ہو سکا، اس لیے اب اکثریت WIMP کے حق میں ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ WIMP آج تک نہیں ملے۔ چونکہ ان کی باہمی قوتیں بہت کمزور ہوتی ہیں، اس لیے انہیں دیکھنا اتنا ہی مشکل۔ کائناتی شعاعیں بہت خلل پیدا کر سکتی ہیں۔ سائنس دانوں کو زمین کے بہت اندر جا کر تجربات کرنے پڑتے ہیں۔ زمین پر سطح پر ٹکرانے والے ذرات کی تعداد 1 کلومیٹر گہرائی پر 10 لاکھ گنا کم ہو جاتی ہے۔ تاہم ان سب کو جمع کرنے کے بعد بھی کائنات کا دو تہائی حصہ نہیں ملتا۔ فی الوقت ہم انہیں DUNNOS کہہ دیتے ہیں یعنی مدھم، منعکس نہ کرنے والے، نہ محسوس ہونے والے اجسام جو کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔
حالیہ مشاہدات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نہ صرف کہکشائیں ہم سے دور ہو رہی ہیں بلکہ یہ بھی کہ ان کی رفتار وقت کے ساتھ ساتھ تیز ہوتی جا رہی ہے جو کہ تمام توقعات کے برعکس ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کائنات میں نہ صرف تاریک مادہ بلکہ تاریک توانائی بھی موجود ہے۔ سائنس دان اسے بعض اوقات خلائی توانائی کہتے ہیں۔ وجہ جو بھی ہو، کسی کو اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔ نظریہ یہ بھی بتاتا ہے کہ خلاء یکسر خالی نہیں۔ اس میں مادہ اور ضد مادہ پیدا ہوتا اور گم ہوتا رہتا ہے اور اسی وجہ سے کہکشاؤں کے دور جانے کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے۔ مزے کی بات یہ دیکھیں کہ اس ساری الجھن کی وضاحت کرنے کو آئن سٹائن کا وہ مستقل موجود ہے جو اس نے اپنے عمومی نظریہ اضافت سے یہ کہہ کر خارج کر دیا تھا کہ یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔ شاید یہ غلطی، غلطی نہیں تھی؟
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم جس کائنات میں رہتے ہیں، ہمیں اس کی عمر کا علم نہیں، ہمارے آس پاس موجود ستاروں کا ہم سے یا باہمی فاصلہ ہم نہیں ناپ سکتے، ایسے مادے سے بھری کائنات ہے جو ہم پہچان نہیں سکتے، ایسے قوانین پر چل رہی ہے جس کے بارے ہمیں کوئی سمجھ نہیں۔
اب اسے یہیں چھوڑ کر ہم کرہ ارض کی جانب واپس لوٹتے ہیں جس کے بارے ہمیں کچھ تو علم ہے۔ اگرچہ ہمیں اس کے بارے بہت کچھ معلوم نہیں اور جو کچھ علم ہے وہ بھی کچھ عرصہ قبل پتہ چلا ہے۔
12زمین حرکت کرتی ہے
1955 میں اپنی وفات سے قبل البرٹ آئن سٹائن نے مشہور ماہرِ ارضیات چارلس ہیپ گڈ کی کتاب Earth's Shifting Crust: A Key to Some Basic Probelms of Earth Science کا مختصر مگر بہترین پیش لفظ لکھا۔ یہ کتاب اس نظریے کی بہترین نفی تھی کہ براعظم حرکت کر رہے ہیں۔ ہلکے پھلکے انداز میں ہیپ گڈ نے بتایا کہ ‘چند سادہ لوح افراد براعظموں کے کناروں کے درمیان تعلق دیکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں براعظم جنوبی امریکہ براعظم افریقہ کے ساتھ منقطبق ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کے خیال میں بحرِ اوقیانوس کے دونوں کناروں کی چٹانیں تک ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہیں۔’
ہیپ گڈ نے ایسی کسی بھی بات کو رد کیا اور کہا کہ اپنے وقت کے مشہور ماہرینِ ارضیات کے ای کیسٹر اور جے سی مینڈس نے بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب کی چٹانوں پر طویل تحقیق کی ہے اور انہیں ایسی کوئی مماثلت نہیں ملی۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان ماہرین نے کن چٹانوں کا مشاہدہ کیا تھا کیونکہ دونوں اطراف کی چٹانیں مماثل نہیں بلکہ ایک ہی ہیں۔
یہ نظریہ اس دور کے اکثر ماہرینِ ارضیات کے عتاب کا شکار رہا تھا۔ ہیپ گڈ نے جس نظریے کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ نظریہ 1908 میں ایک امریکی شوقیہ ماہرِ ارضیات فرینک برسلے ٹیلر نے پیش کیا تھا۔ ٹیلر کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا جس کی وجہ سے اسے تعلیمی یا مالی مشکلات کا سامنا کیے بغیر اس میدان میں غیر روایتی انداز سے کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ ان افراد میں تھا جن کی توجہ سب سے پہلے افریقہ اور جنوبی امریکہ کے براعظموں کی ساخت کی جانب مبذول ہوئی اور اسی سے اس نے اندازہ لگایا کہ براعظم کبھی حرکت میں تھے۔ اس نے یہ بھی درست اندازہ لگایا براعظموں کی حرکت کی وجہ سے ہی دنیا کے پہاڑی سلسلے بلند ہوئے ہیں۔ تاہم وہ شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے سائنسی دنیا میں اس کے نظریات کو دیوانہ پن کہہ کر مسترد کر دیا گیا۔
تاہم جرمنی میں ایک نظریاتی سائنس دان اور یونیورسٹی آف ماربورگ کے ماہرِ موسمیات الفریڈ ویگنر نے قبول کیا۔ اس نے یہ تحقیق کی تھی کہ نباتات اور حیوانات کے فاسلوں میں پائی جانے والی عدم یکسانیت کے بارے موجودہ ارضیاتی نظریہ خاموش ہے اور اگر اسے لاگو کرنے کی کوشش کی جائے تو کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ جانوروں کے فوسل مسلسل سمندر کے دونوں اطراف میں پائے جاتے ہیں جبکہ سمندر اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی جانور اسے تیر کر عبور نہیں کر سکتا تھا۔ اسے حیرت تھی کہ کیا تھیلی دار جانور جنوبی امریکہ سے آسٹریلیا تک سفر کر کے پہنچے؟ سکینڈے نیویا اور نیو انگلینڈ میں ایک ہی نسل کے گھونگھے کیسے پہنچے؟ اسی طرح اس بات کی وضاحت کیسے کی جائے کہ سپیٹس برگن کے مقام پر پایا جانے والا کوئلے کا ذخیرہ جو قدیم جنگلات سے بنا ہے، ناروے سے 600 کلومیٹر میں شمال میں کیسے پیدا ہو گیا؟ کیا یہ جنگل کبھی گرم علاقے میں نہیں تھا جو زمین کی حرکت کے ساتھ شمال کو چلا گیا؟
ویگنر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ دنیا کے تمام براعظم پہلے پہل ایک بڑے زمینی قطعے کی شکل میں ایک جگہ موجود تھے جسے پنجائیا کہا گیا۔ اس مقام پر حیوانات اور نباتات ہر جگہ پھیل گئے اور جب یہ زمین موجودہ براعظموں کی شکل میں الگ ہوئی تو یہ نباتات اور حیوانات بھی اس کے ساتھ پھیل کر موجودہ مقامات تک پہنچ گئے۔ اس نے اس موضوع پر کتاب لکھی جس کا نام Die Entstehung der Kontinente und Ozeane یا The Origina of Continents and Oceans تھا۔ یہ کتاب 1912 میں جرمن زبان میں چھپی اور پہلی جنگِ عظیم کے باوجود انگریزی میں تین سال بعد چھپی۔
جنگ کی وجہ سے پہلے پہل تو اس نظریے پر کسی نے توجہ نہیں دی لیکن 1920 میں جب نظرِ ثانی اور اضافے کے بعد اس کتاب کو دوبارہ پیش کیا گیا تو ہر جگہ اس پر بحث شروع ہو گئی۔ اس بات پر عمومی اتفاق تھا کہ براعظم اوپر نیچے کو حرکت کرتے ہیں، اطراف میں نہیں۔ عمودی حرکات کا یہ نظریہ Isostasy کہلاتا ہے اور کئی نسلوں سے ارضیاتی اہمیت رکھتا ہے لیکن اس بارے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کب اور کیسے ہوا۔ میرے سکول کے دور تک ایک نظریہ جو درسی کتب میں شامل تھا، کو آسٹریا کے ایڈورڈ سوئیز نے پچھلی صدی کے اختتام پر پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق پگھلی ہوئی زمین جب ٹھنڈی ہوئی تو اس پر ایسے سلوٹیں پڑ گئیں جیسے آپ کسی سیب کو پکائیں تو پڑتی ہیں۔ اس طرح پہاڑی سلسلے اور سمندر بنے۔ اگرچہ اس سے بہت پہلے ہٹن یہ بات ثابت کر چکا تھا کہ ایسی کی سبھی صورتحال میں زمین محض ایک کرہ بن جاتا کہ کٹاؤ کی وجہ سے سارے اونچے اور نیچے مقامات برابر ہو جاتے۔ اس کے علاوہ ردرفورڈ اور سوڈی اس بات کو صدی پہلے بتا چکے تھے کہ زمینی عناصر میں کتنی گرمی چھپی ہوئی ہے جو اتنی زیادہ ہے کہ زمین اس طرح کبھی ٹھنڈی ہو ہی نہیں سکتی جیسا کہ سوئیز نے بتایا۔ بہرحال، اگر سوئیز کا نظریہ درست بھی ہوتا تو پہاڑی سلسلے پوری زمین پر یکسانیت سے پائے جاتے جو حقیقت کے برخلاف ہے۔ اس کے علاوہ ان کی عمریں بھی کم و بیش برابر ہوتیں جبکہ یہ بات 18ویں صدی میں واضح ہو چکی تھی کہ کچھ پہاڑی سلسلے جیسا کہ یورال اور اپلاچین کی عمر ایلپس اور راکیز سے کئی کروڑ سال زیادہ ہے۔ ظاہراً نئے نظریے کے لیے میدان ہموار ہو چکا تھا۔ بدقسمتی سے ویگنر جیسے بندے کی طرف سے ایسے نظریے کا پیش کیا جانا ماہرین ارضیات کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
سب سے پہلے تو یہ بات قابلِ اعتراض تھی کہ ویگنر کے ‘احمقانہ‘ نظریے نے ان کے علم کی پوری بنیاد ہی ہلا دی تھی، جو سامعین سے داد وصول کرنے کا سب سے برا طریقہ ہے۔ ایسا کوئی نظریہ ماہرِ ارضیات بھی پیش کرتا تو وہ بھی تکلیف دہ ہوتا جبکہ ویگنر ماہرِ ارضیات بھی نہیں تھا۔ اس کی تعلیم موسمیات سے متعلق تھی۔ ماہرِ موسمیات اور وہ بھی جرمن۔ یہ صورتحال تو بالکل ہی ناقابلِ قبول تھی۔
اس طرح ہر ممکن کاوش سے ماہرینِ ارضیات نے ویگنر کو جھٹلانے کی کوشش کی۔ فوسل کی یکسانیت سے پیچھا چھڑانے کے لیے انہوں نے ہر ممکن جگہ پر زمینی راستے یا پل ظاہر کرنا شروع کر دیے۔ جب ایک قدیم نسل کا گھوڑا فرانس اور فلوریڈا، دونوں جگہ فاسل حالت میں پایا گیا تو ان ماہرین نے بحرِ اوقیانوس پر ایک پل بنا دیا۔ جب ٹیپر کی ایک نسل جنوب مشرقی ایشیاء اور جنوبی امریکہ میں ایک ساتھ پائی گئی تو ایک پل وہاں بنا دیا گیا۔ کچھ ہی عرصے میں ان فرضی پلوں سے تقریباً سارے سمندر بھر گئے۔ یہ پل شمالی امریکہ سے یورپ، برازیل سے افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا سے آسٹریلیا اور آسٹریلیا سے انٹارکٹکا تک پھیلے ہوئے تھے۔ یہ پل نہ صرف بوقتِ ضرورت کہیں بھی نمودار ہو سکتے تھے بلکہ ان کے غائب ہونے پر ان کے تمام تر نشانات بھی مٹ جاتے تھے۔ اگرچہ ان سب کے پیچھے کوئی شواہد نہیں تھے لیکن پھر بھی اگلی نصف صدی تک یہی نظریات علم الارضیات کی بنیاد بنے رہے۔
تاہم زمینی پلوں سے بھی ہر مشکل کی وضاحت نہ ہو پائی۔ مثال کے طور پر ٹریلوبائٹس کی ایک نسل یورپ اور نیو فاؤنڈ لینڈ، دونوں جگہوں پر پائی جاتی ہے۔ تاہم نیو فاؤنڈ لینڈ جزیرے کے ایک سرے پر تو یہ ملتے ہیں، دوسرے پر نہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ٹریلوبائٹس بپھرے سمندر میں 3,000 کلومیٹر سفر طے کر کے نیوفاؤنڈ لینڈ تو جا پہنچے ہوں لیکن محض 300 کلومیٹر کا سفر کر کے اس جزیرے کے دوسرے سرے تک نہ پہنچ پائے ہوں؟ ٹریلو بائٹس کی ایک قسم یورپ کے علاوہ شمالی امریکہ میں بحرِ الکاہل کے مشرقی ساحل پر تو پائی گئی لیکن درمیان میں ان کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ اس کے باوجود 1964 کے انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں مختلف نظریات پر بات کرتے ہوئے ویگنر کے نظریات کے بارے محض یہ درج ہے کہ اس میں شدید نظریاتی مشکلات پائی جاتی ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ ویگنر کے نظریات میں غلطیاں تھیں۔ مثال کے طور پر اس نے بتایا کہ گرین لینڈ 1.6 کلومیٹر سالانہ مغرب کو سرک رہا ہے جبکہ اصل میں یہ ایک سینٹی میٹر سالانہ ہے۔ اس کے علاوہ اس نے یہ بھی وضاحت نہیں کی کہ آخر زمین کے اتنے بڑے قطعے کیوں سرکتے ہیں۔ اس نظریے کو ماننے کا مطلب یہ تھا کہ خشکی کے بڑے بڑے قطعے زمین کی بالائی سطح سے ایسے گزرتے ہیں جیسے کھیت میں ہل چلاتے ہیں۔ تاہم ان کا کوئی نشان نہیں باقی بچتا۔ ان عظیم سرکاؤ کی کوئی معقول وجہ نہیں مل سکی تھی۔
آرتھر ہومز وہ انگریز ماہرِ ارضیات تھا جس نے نہ صرف زمین کی عمر جاننے کے لیے کافی کام کیا تھا بلکہ اس نے ایک رائے پیش کی۔ ہومز پہلا سائنس دان تھا جس نے جانا کہ تابکاری سے پیدا ہونے والی حدت کی وجہ سے زمین کے اندر لہریں پیدا ہو سکتی ہیں۔ نظریاتی اعتبار سے یہ لہریں اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ زمین کی سطح پر موجود براعظموں کو سرکا سکیں۔ اپنی 1944 میں چھپنے والی مشہور کتاب Principles of Physical Geology میں اس نے براعظموں کے سرکاؤ کا نظریہ پیش کیا جو بنیادی طور پر آج تک مانا جاتا ہے۔ تاہم یہ نظریہ قبل از وقت تھا اور اس کی سب سے زیادہ مخالفت ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہوئی۔ ایک ناقد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہومز اپنے نظریات اور دلائل کو اتنے واضح اور پر زور انداز میں پیش کرتا ہے کہ اس کے طلباء کو شاید ان پر یقین بھی آ جاتا ہو۔ تاہم دیگر جگہوں پر محتاط لیکن مثبت انداز میں اس نظریے کو قبول کیا گیا۔ 1950 میں سائنس کی ترقی کی سالانہ میٹنگ میں رائے شماری سے پتہ چلا کہ کم از کم نصف افراد اب اس نظریے کو اپنا چکے ہیں (ہیپ گڈ نے اس رائے شماری پر رائے دی کہ برطانوی ماہرِ ارضیات کتنے بھٹک گئے ہیں)۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہومز خود بھی بعض اوقات شکوک کا شکار ہو جاتا تھا۔ 1953 میں اس نے اس بات کا اعتراف بھی کیا۔
امریکہ میں کچھ لوگ براعظمی سرکاؤ یعنی کانٹی نینٹل ڈریفٹ کے حق میں بھی تھے۔ ہارورڈ کے ریگنالڈ ڈالی نے اس کے حق میں بات کی لیکن شاید آپ کو یاد ہوگا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے کہا تھا کہ چاند کیسے بنا تھا۔ اس کے نظریات کے بارے عام خیال یہی تھا کہ وہ دلچسپ تو ہیں لیکن ان پر سنجیدگی سے غور کرنا فضول ہے۔ اس طرح زیادہ تر امریکی تعلیمی ادارے اس بات پر قائم رہے کہ براعظم شروع سے ہی موجودہ مقامات پر تھے اور ان کے کناروں کی ساخت سرکاؤ کی بجائے کسی اور وجہ سے ایسی تھی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ برسوں سے تیل کمپنیوں کے ماہرینِ ارضیات اس بات کو جانتے تھے کہ تیل کی تلاش کے کام میں آپ کو جن باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے، وہ صرف اور صرف پلیٹ ٹیکٹانکس سے ہی پیدا ہو سکتی ہیں۔ تاہم تیل کمپنیوں کے ماہرینِ ارضیات کبھی اس طرح کے مقالہ جات نہیں لکھتے۔ ان کا کام تیل تلاش تک محدود رہتا ہے۔
زمین کے حوالے سے پیش کردہ نظریات میں ایک بہت بڑا جھول تھا جو معمہ بنا ہوا تھا۔ جھول یہ تھا کہ آخر سمندری تلچھٹ جاتی کہاں ہے۔ ہر سال دریا بہت بڑی مقدار میں تلچھٹ سمندر میں لا کر ڈالتے ہیں۔ اس میں صرف کیلشیم کی مقدار 50 کروڑ ٹن ہوتی ہے۔ اگر اتنی بڑی مقدار میں تلچھٹ یا گاد جمع ہوتی رہے تو اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اس کی مقدار ناقابلِ یقین حد تک بڑھ چکی ہوتی۔ اندازہ ہے کہ اس وقت سمندر کی تہہ میں کم از کم 20 کلومیٹر اونچی تہہ ہوتی یا یہ کہ تمام تر سمندری تہیں اب سطح سمندر سے زیادہ بلند ہو چکی ہوتیں۔ سائنس دانوں نے اس مسئلے کا انتہائی خوبصورت حل نکالا۔ انہوں نے اس بات کو سرے سے نظر انداز کر دیا۔ تاہم پھر ایسا وقت بھی آیا کہ وہ اسے مزید نظر انداز نہ کر سکتے تھے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہر معدنیات ہیری ہیس کو ایک جنگی مال بردار جہاز کا سربراہ بنا دیا گیا۔ یہ جہاز یو ایس ایس کیپ جانسن تھا۔ اس جہاز پر گہرائی ماپنے والا آلہ فیدو میٹر بھی نصب تھا۔ اس آلے کا بنیادی مقصد ساحل پر فوجی اور سامان اتارتے ہوئے زیرِ آب چھپی چٹانوں کو دیکھنا تھا۔ ہیس نے محسوس کیا کہ اس سے سائنسی کام بھی لیا جا سکتا ہے اور اس نے گہرے سمندر اور حالتِ جنگ میں بھی اس آلے کو چلائے رکھا۔ اسے ملنے والے نتائج ناقابلِ یقین تھے۔ عام نظریے کے مطابق اگر سمندری تہیں قدیم تھیں تو ان پر تلچھٹ کی بہت بڑی مقدار موجود ہوتی، جو کہ جھیلوں اور دریاؤں میں عام پائی جاتی ہے۔ ہیس کے پیمائشوں کے مطابق کہیں بھی تلچھٹ دکھائی نہیں دی۔ ہر جگہ کھائیاں، خندق نما جگہیں اور سلوٹیں سی موجود تھی۔ بہت ساری جگہوں پر زیرِ آب آتش فشاں پہاڑ بھی موجود تھے جنہیں اس نے پرنسٹن کے ایک ماہرِ ارضیات آرنلڈ گاؤٹ کے نام پر گاؤٹ کہا۔ اگرچہ یہ سب باتیں عجیب تو تھیں لیکن ہیس کے سامنے جنگ تھی۔ اس لیے اس نے یہ سوچیں بعد کے لیے چھوڑ دیں۔
جنگ کے بعد ہیس پرنسٹن لوٹا اور پڑھانے میں مشغول تو ہو گیا لیکن سمندری تہہ سے متعلق سوالات اس کے ذہن پر چھائے رہے۔ 1950 کی دہائی میں اوشیانوگرافر سمندری تہوں کے بہتر نقشے تیار کرنے میں لگے ہوئے تھے اور اس عمل میں انہیں مزید حیران کن معلومات ملیں۔ دنیا کے سے بڑے اور سب سے اونچے پہاڑی سلسلے سمندروں میں چھپے ہوئے تھے۔ یہ سلسلے سمندروں کے نیچے ایسے پھیلے ہوئے تھے جیسے ٹینس کی گیند پر نشان ہوتے ہیں۔ اگر آپ آئس لینڈ سے شروع کریں تو یہ سلسلہ بحرِ اوقیانوس کے وسط سے ہوتا ہوا افریقہ کے گرد گھوم کر بحرِ ہند اور دیگر جنوبی سمندروں سے گزرتا ہوا آسٹریلیا کے نیچے سے گزرتا ہوا بحرالکاہل کو مڑ کر باجا کیلیفورنیا کو جاتا اور وہاں سے امریکہ کے ساحل سے ہوتے ہوئے الاسکا تک جاتا ہے۔ جگہ جگہ اس کی اونچی چوٹیاں پانی کی سطح سے اوپر نکل کر جزیرے یا جزائرکے مجموعے مثلاً بحرِ اوقیانوس میں ازور اور کناری جزائر اور بحرالکاہل میں ریاست ہوائی اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ تاہم زیادہ تر حصے پانی کی گہرائیوں میں پوشیدہ رہتے ہیں۔ اگر ہم ان تمام پہاڑی سلسلوں کو اکٹھا کریں تو ان کی لمبائی 75,000 کلومیٹر بنتی ہے۔
اس وقت تک ان پہاڑوں کے بارے شاید ہی کسی کو کچھ علم ہو۔ 18ویں صدی میں سمندر کی تہہ میں تار بچھانے والے لوگ جانتے تھے کہ بحرِ اوقیانوس کے وسط میں کہیں نہ کہیں پہاڑ موجود ہیں لیکن انہیں ان پہاڑوں کے حجم یا ان کے تسلسل کے بارے کوئی معلومات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ایسی تھیں جن کی کوئی وضاحت ممکن نہیں تھی۔ بحرِ اوقیانوس کے درمیان 20 کلومیٹر تک چوڑی ایک دراڑ اس پہاڑی سلسلے میں موجود تھی اور اس کی لمبائی 19,000 کلومیٹر تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے زمین دو حصوں میں تقسیم ہو رہی ہو۔ اگرچہ ایسا خیال ناممکن اور تکلیف دہ تھا لیکن تمام تر شواہد یہی بتا رہے تھے۔
1960 کی دہائی میں لیے گئے نمونوں سے پتہ چلا کہ اس دراڑ پر موجود تلچھٹ زیادہ پرانی نہیں۔ لیکن جوں جوں اس سے دور ہوتے جائیں تو تلچھٹ پرانی ہوتی جاتی ہے۔ ہیری ہیس نے اس بارے سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ سمندر کی نئی سطح اس دراڑ سے نمودار ہو رہی ہے اور پہلے سے موجود سطح کو دور دھکیلتی جاتی ہے۔ یعنی بحرِ اقیانوس کی سطح پر دو کنویئر بیلٹیں چل رہی ہیں جو شمالی امریکہ اور یورپ کی طرف نئی سمندری تہہ بکھیر رہی ہیں۔ اس عمل کو سمندری تہہ کا پھیلاؤ کہا جاتا ہے۔
جب یہ تہہ پھیلتے ہوئے اس جگہ پہنچتی ہے جہاں خشکی کی تہہ سمندر سے ملتی ہے تو یہ نئی تہہ خشکی کے نیچے گُھستی ہے جسے سب ڈکشن کہتے ہیں۔ اس عمل سے وضاحت ہوتی ہے کہ پرانی تلچھٹ کہاں جاتی ہے۔ یہ تلچھٹ واپس زمین کی نچلی سطح کو لوٹ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے سمندروں کی تہہ نسبتاً کم پرانی ہے۔ آج تک کہیں بھی سمندر کی سطح ساڑھے 17 کروڑ سال سے زیادہ پرانی نہیں مل سکی جبکہ سطح زمین پر موجود پتھروں اور چٹانوں میں اربوں سال پرانے نمونے مل جاتے ہیں۔ اس طرح ہیس کو یہ جواب ملا کہ سمندری سطح محض اتنی ہی پرانی ہو سکتی ہے جتنا وقت اسے اس دراڑ سے کنارے تک پہنچنے میں لگتا ہے۔ اس خوبصورت نظریے سے بہت ساری باتوں کی وضاحت ہو گئی تھی۔ ہیس نے اس بارے بہت اہم مقالہ لکھا لیکن کسی نے اس پر توجہ نہ دی۔ بعض اوقات دنیا کسی اچھے خیال کے لیے تیار نہیں ہوتی۔
اس دوران دو محقق جو الگ الگ کام کر رہے تھے، نے کئی دہائیاں قبل دریافت شدہ حقائق کی بنیاد پر زمین کی تاریخ کے بارے حیران کن انکشافات کرنا شروع کر دیے۔ 1906 میں فرانسیسی طبعیات دان برنارڈ برن ہیس نے دیکھا کہ زمین کا مقناطیسی میدان اپنا رخ بدلتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت مختلف پتھروں میں موجود لوہے کے انتہائی باریک ذرات کے رخ سے ملتے ہیں۔ جب چٹان ٹھنڈی ہو کر جمتی ہے تو اس وقت اس میں موجود یہ ذرات جس طرح ہوتے ہیں، ویسے ہی جم کر رہ جاتے ہیں اور اپنی تخلیق کے وقت مقناطیسی قطب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 1950 کی دہائی میں یونیورسٹی آف لندن کے پیٹرک بلیکیٹ اور یونیورسٹی آف نیو کیسل کے ایس کے رنکارن نے برطانیہ کی قدیم چٹانوں میں ایسے ذرات کا جائزہ لیا تو انتہائی حیران کن انکشافات ہوا کہ جیسے ماضی بعید میں برطانیہ جیسے اپنے مرکز پر گھوم کر اور تھوڑا سا شمال کو سرک گیا ہو۔ مزید برآں اگر آپ یورپ کے ایسے نقشے کو امریکہ کے اسی دور کے ایسے ہی نقشے سے ملائیں تو دونوں ایک دوسرے سے ایسے فٹ ہوتے ہیں جیسے ایک ہی ہوں۔ تاہم ان کی دریافت بھی نظرانداز ہوئی۔
آخرکار کیمبرج کے جیو فزسٹ ڈرمنڈ میتھیوز اور اس کے طالبعلم فریڈ وائن نے مل کر سارے نظریات جمع کیے ۔ 1963 میں انہوں نے بحرِ منجمد شمالی کی تہہ کے مقناطیسی مطالعے سے دکھایا کہ سمندری تہہ عین اسی طرح پھیل رہی ہے جیسے کہ ہیس نے پیشین گوئی کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ براعظم حرکت کر رہے ہیں۔ عین اسی وقت ایک بدقسمت کینیڈین ماہرِ ارضیات عین اسی نتیجے پر پہنچا لیکن اپنا تحقیقی مقالہ بروقت چھپوانے میں ناکام رہا۔ اس وقت جرنل آف جیو فزیکل ریسرچ نامی رسالے کے ایڈیٹر نے اسے بتایا ‘ایسے نظریات کاک ٹیل پارٹی میں ہی دلچسپ محسوس ہوتے ہیں۔ تاہم سائنسی حلقوں میں ایسی باتیں چھپوانا مستحسن نہیں۔‘ بعد میں ایک ماہرِ ارضیات کے مطابق ‘سائنسی تاریخ میں شاید یہ اہم ترین مقالہ تھا جسے شائع کرنے سے انکار کیا گیا۔‘
اصل بات یہ ہے کہ اس وقت تک زمین کی اوپری سطح کا حرکت کرنے کا خیال اتنا عام ہو چکا تھا کہ یہ خیال کسی نہ کسی کو آ ہی جاتا۔ رائل سوسائٹی کی 1964 کی ایک میٹنگ میں سائنس کی اس شاخ کے اہم ترین افراد جمع ہوئے اور اچانک ہی ہر کوئی اس پر یقین کرنے لگا۔ میٹنگ میں اس بات پر ہر کسی نے اتفاق کیا کہ زمین کی سطح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ٹکڑوں سے مل کر بنی ہےجس کی وجہ سے اتنے بڑے بڑے ارضیاتی حادثات پیش آتے ہیں۔
کانٹی نینٹل ڈریفٹ یعنی براعظمی سرکاؤ کا لفظ جلد ہی اپنا معنی کھو بیٹھا کہ نئی تحقیق نے بتایا کہ صرف برِاعظم ہی نہیں بلکہ تمام تر اوپری تہہ حرکت کر رہی ہے۔ تاہم نئے نام کے لیے فوری اتفاق نہ ہو سکا۔ کچھ لوگوں نے ‘کرسٹل بلاکس’ کہا تو کچھ نے اسے ‘پیوونگ سٹونز’۔ تاہم 1968 میں تین امریکی سائزمالوجسٹس نے جرنل آف جیوفزیکل ریسرچ میں ایک مضمون چھپوایا۔ اس مضمون میں ان ٹکڑوں کو پلیٹس کا نام دیا گیا اور اس مضمون نے متعلقہ علمی شاخ کو پلیٹ ٹیکٹانکس کا نام دیا۔
چونکہ پرانے نظریات سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان نہیں، اس لیے اس نئے خیال کو ماننے والے افراد کی تعداد آہستہ آہستہ ہی بڑھی۔ 1970 کی دہائی میں ارضیات کے موضوع پر انتہائی اہم اور پراثر کتاب The Earth میں ہیرلڈ جیفریز نے پورے یقین سے پلیٹ ٹیکٹانکس کے نظریے کو یہ کہہ کر جھٹلایا کہ طبعی طور پر ایسا ممکن ہی نہیں۔ عین یہی نظریہ اس نے اسی کتاب کے 1924 کے پہلے ایڈیشن میں بھی ایسے ہی پیش کیا تھا۔ زمین کے اندر حرارت کی منتقلی ہو یا سمندروں کی پھیلتی تہہ، دونوں ہی ناممکن تھے۔ 1980 میں اپنی کتاب Basin and Range میں جان میکفی نے بتایا کہ ہر آٹھ میں سے ایک امریکی ارضیات دان پلیٹ ٹیکٹانکس پر یقین نہیں کرتا۔
آج ہم جانتے ہیں کہ زمین کی اوپری سطح آٹھ سے بارہ بڑی (اس بات پر منحصر ہے کہ آپ بڑی کسے کہتے ہیں) جبکہ بیس چھوٹی پلیٹوں پر مشتمل ہے۔ جتنی بڑی پلیٹ ہوگی، اتنی کم اور جتنی چھوٹی پلیٹ ہوگی، اتنا ہی تیز حرکت کرے گی۔ اتفاق سے ان کے نام بھی وہی ہیں جو ان کے اوپر موجود زمین کے مقامات کے نام ہیں۔ نارتھ امریکن پلیٹ برِاعظم شمالی امریکہ سے بہت بڑی ہے۔ یہ پلیٹ شمالی امریکہ کے مغربی ساحل سے شروع ہوتی ہے (اسی وجہ سے یہ جگہ زلزلوں کے حوالے سے کافی متحرک ہے) اور بحرِ اوقیانوس کے وسط میں موجود عظیم دراڑ تک جاتی ہے۔ آئس لینڈ کا نصف حصہ شمالی امریکی اور نصف حصہ یورپی پلیٹ پر موجود ہے۔ نیوزی لینڈ بحرِ ہند کی پلیٹ پر رکھا ہے حالانکہ وہ بحرِہند سے کہیں دور واقع ہے۔ زیادہ تر پلیٹیں ایسی ہی ہیں۔
موجودہ اور سابقہ زمینی مقامات کے رابطے ہر کسی کی توقع سے بھی زیادہ گنجلک نکلے۔ مثال کے طور پر قزاقستان کبھی ناروے اور نیو انگلینڈ سے جڑا تھا۔ اسی طرح سٹیٹن آئی لینڈ کا ایک کنارہ یورپ میں ہے۔ اسی طرح نیو فاؤنڈ لینڈ کا ایک حصہ یورپ سے ہے۔ میساچوسٹس کے ساحل سے ایک کنکر اٹھائیے اور اس کا دوسرا ‘رشتہ دار’ آپ کو افریقہ سے ملے گا۔ سکاٹ لینڈ کاپہاڑی علاقہ اور سکینڈے نیویا کا زیادہ تر حصہ امریکی ہے۔ انٹارکٹکا کی شیکلٹن رینج کے بارے خیال ہے کہ وہ مشرقی امریکہ کے اپلانچین پہاڑی سلسلے کا حصہ رہ چکا ہے۔
مستقل حرکت کی وجہ سے متحرک پلیٹیں کبھی ایک جگہ جمع ہو کر ایک ساکن پلیٹ نہیں بنا سکتیں۔ بحرِ اوقیانوس مسلسل پھیل رہا ہے اور انجام کار بحر الکاہل سے بڑا ہو جائے گا۔ کیلیفورنیا کابڑا حصہ الگ ہو کر ایک طرح سے امریکہ کا مڈغاسکر بن جائے گا۔ افریقہ شمال میں یورپ میں گھس جائے گا اور بحیرہ روم ختم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ پیرس سے کلکتہ تک ہمالیہ جتنا بلند پہاڑی سلسلہ پیدا ہو جائے گا۔ آسٹریلیا شمالی جزائر سے جڑتے جڑتے ایشیاء سے جڑ جائے گا۔ تاہم یہ سب پیشین گوئیاں ہیں، لازمی نہیں کہ ایسا ہی ہو۔ تاہم ان کی ابتداء ہو چکی ہے۔ آج کے جی پی ایس سسٹم کی مدد سے ہمیں پتہ چل رہا ہے کہ براعظم یورپ اور براعظم شمالی امریکہ اس رفتار سے الگ ہو رہے ہیں جس سے انسانی ناخن اگتا ہے، یعنی عام انسان کی زندگی میں دو میٹر جتنا۔ نقشے پر جب آپ زمین کو دیکھتے ہیں تو براعظموں کے موجودہ مقامات زمین کی تاریخ کے ایک فیصد کے بھی دسویں حصہ کے برابر موجودہ مقامات پر ہیں۔
پتھریلے سیاروں میں سے زمین ہی واحد سیارہ ہے جس میں ٹیکٹانکس پائی جاتی ہیں جو سائنس دانوں کے لیے قدرے اچھنبے کی بات ہے۔ حجم یا جسامت سے فرق نہیں پڑتا کہ زہرہ اور زمین تقریباً جڑواں سیارے ہیں لیکن زہرہ پر ٹیکٹانکس نہیں پائی جاتیں۔ شاید زمین جس مادے سے بنی ہے، اس کی نوعیت اور مقدار بالکل درست ہے، تبھی ہمارا سیارہ ٹیکٹانکس رکھتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ٹیکٹانکس کسی بھی سیارے پر زندگی کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ ایک ماہر طبعیات اور لکھاری جیمز ٹریفل نے لکھا ہے ‘یہ سوچنا محال ہے کہ ٹیکٹانکس کی مسلسل حرکت کا زمین پر موجود زندگی کی پیدائش پر کوئی اثر نہیں ہوا۔’ اس کے خیال میں ٹیکٹانکس سے پیدا شدہ تبدیلیاں جیسا کہ موسم کی تبدیلی، ذہانت کی ابتداء کے لیے انتہائی اہم رہی ہوں گی۔ بعض کے خیال میں براعظموں کا سرکاؤ زمین پر ہونے والے مختلف معدومیت کے واقعات کا اہم سبب ہو سکتا ہے۔ نومبر 2002 میں کیمبرج یونیورسٹی کے ٹونی ڈکسن نے سائنس نامی رسالے میں رپورٹ چھپوائی کہ زمین کی چٹانوں اور زندگی کی تاریخ میں تعلق ہو سکتا ہے۔ اس کے خیال میں ہماری دنیا کے سمندروں میں پچھلے نصف ارب سال سے اچانک ڈرامائی تبدیلیاں آتی رہی ہیں جو کہ ہماری حیاتیاتی تاریخ کے بہت سے اہم واقعات سے وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر انگلستان کے جنوبی ساحل پر ایسے ننھے جانداروں کی بہت بڑی تعداد کا اچانک نمودار ہو جانا جنہوں نے چاک والی چٹانیں بنائیں یا پھر کیمبرین دور میں سمندری جانوروں کے بنائے گئے خول وغیرہ۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ سمندروں کی کیمسٹری میں اچانک کس وجہ سے اتنی بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔ تاہم بحری دراڑوں کا کھلنا اور بند ہونا ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔
تاہم پلیٹ ٹیکٹانکس نے نہ صرف زمین کی متحرک سطح کی وضاحت کی بلکہ اوربھی بہت کچھ بتایا۔ زلزلے، جزائر کے سلسلے، کاربن چکر، پہاڑوں کے مقامات، برفانی ادوار کا آنا جانا، زندگی کی ابتداء، غرض کون سا ایسا اہم مسئلہ تھا جس کی وضاحت اس نظریے سے نہ ہوئی ہو۔ میکیفی کے مطابق ‘ارضیات دانوں کو یہ جان کر اچانک چکر آنے لگ گئے کہ پورا کرہ ارض اچانک بامعنی ہو گیا۔‘
تاہم ایک حد تک۔ مثال کے طور پر پرانے دور کے براعظموں کی تقسیم وغیرہ کے معاملے ایسے ہیں کہ وہاں شاید جیو فزکس کی دنیا میں ایک رائے ملے۔ جارج گیری لارڈ سمپسن نے اپنی کتاب Fossils and the History of Life میں لکھا ہے کہ قدیم دور کے جانوروں اور پودوں کی انواع اچانک وہاں ملتی ہیں جہاں انہیں نہیں ہونا چاہیئے تھا اور وہاں سے اچانک غائب ہوجاتی ہیں کہ جہاں انہیں موجود رہنا چاہیے تھا۔
ایک عظیم براعظم گونڈوانا تھا جس میں آسٹریلیا، افریقہ، انٹارکٹکا اور جنوبی امریکہ موجود تھے، اس میں فرن کی ایک قسم پائی جاتی تھی جو ہر اس جگہ ملتی ہے جہاں اس کا ہونا ممکن تھا۔ تاہم بہت عرصے بعد جا کر پتہ چلا کہ یہ پودا ان جگہوں پر بھی بکثرت پایا جاتا تھا کہ جن کا گونڈوانا سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ تاہم اس نوعیت کے اہم مسائل عموماً نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک خزندے کے آثار ہمیں انٹارکٹکا سے ایشیاء تک تو ملتے ہیں لیکن جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا ان سے یکسر خالی ہیں، حالانکہ جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا اس دور میں اسی بڑے برِ اعظم کا حصہ سمجھے جاتے تھے۔
اس کے علاوہ بہت سارے زمینی آثار ایسے ہیں کہ جن کی وضاحت ٹیکٹانکس سے ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر ڈینور کو دیکھیں۔ اس کی سطح سمندر سے بلندی ایک کلومیٹر سے کچھ کم ہے۔ تاہم اس کا ابھار ماضی قریب میں ہوا ہے۔ جب ڈائنو سار زمین پر آباد تھے تو یہ خطہ سمندر کی تہہ کا حصہ اور سطح سمندر سے کئی ہزار میٹر نیچے تھا۔ اس کے باوجود ڈینور جن چٹانوں پر قائم ہے، ان میں ٹوٹ پھوٹ اور دباؤ کے کوئی آثار نہیں ملتے کہ پلیٹ ٹیکٹانکس سے ابھرا ہو؟ ویسے بھی ڈینور پلیٹ کے کنارے سے اتنا دور ہے کہ ایسا ہونا ممکن بھی نہیں تھا۔ یہ کچھ ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ بچھے ہوئے قالین کے ایک حصے کو آگے کو دھکیلیں تو قالین کا دوسرے سرے پر رکھی بھاری چیز اونچی ہونے لگ جائے۔ تعجب کی بات ہے کہ کروڑوں سالوں سے ڈینور ایسے ابھر رہا ہے جیسے خمیر والا آٹا۔ یہی کچھ جنوبی افریقہ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اس کا 1,600 کلومیٹر کا ایک حصہ پچھلے دس کروڑ سال میں لگ بھگ ڈیڑھ کلومیٹر اوپر کو اٹھا ہے جبکہ اس کی بظاہر کوئی وجہ بھی ممکن نہیں۔ آسٹریلیا جھک اور ڈوب رہا ہے۔ پچھلے دس کروڑ سال میں اس کا رخ شمال کی جانب ایشیاء کی جانب ہے اور اس کا اگلا کنارہ تقریباً دو سو میٹر ڈوب چکا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انڈونیشیا آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے اور اپنے ساتھ آسٹریلیا کو بھی لے جا رہا ہے۔ ٹیکٹانکس نظریے میں کوئی بھی بات اس کی وضاحت نہیں کر سکتی۔
الفریڈ ویگنر اپنے نظریات کو سچا ثابت ہونے تک زندہ نہ رہا۔ اپنی پچاسویں سالگرہ کے وقت 1930 میں اکیلی مہم پر گرین لینڈ گیا ہوا تھا۔ ایک روز وہ فضاء سے گرائی جانے والی راشن کی سپلائی دیکھنے نکلا اور واپس نہ لوٹا۔ چند روز بعد اس کی جمی ہوئی لاش ملی۔ اسی جگہ اسے دفن کیا گیا۔ تاہم اس کی موت کے وقت سے لے کر اب تک اس کی لاش شمالی امریکہ سے ایک میٹر زیادہ قریب ہو چکی ہے۔
آئن سٹائن اپنی غلطی کا اندازہ لگانے سے قبل ہی اس جہان سے گزر گیا تھا۔ درحقیقت 1955 میں پرنسٹن میں جب اس کا انتقال ہوا تو اس وقت چارلس ہیپ گڈ کی کتاب ابھی چھپی بھی نہیں تھی۔
ٹیکٹانکس کے نظریے کا ایک اور اہم کردار ہیری ہیس اس وقت پرنسٹن میں تھا اور اس نے اپنی بقیہ زندگی وہیں گزاری۔ یہاں اس کا ایک انتہائی ہونہار طالبعلم والٹر الوارز تھا جس نے انتہائی الگ انداز سے سائنس کی دنیا بدل دی۔
ارضیات کے لیے تباہی کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا اور اس کی ابتداء کرنےو الا الوارز ہی تھا۔