اے بریف ہسٹری آف نیئرلی ایوری تھنگ

قیصرانی

لائبریرین
اس لڑی میں میں Bill Bryson کی کتاب A brief history of nearly everything کا ترجمہ پوسٹ کر رہا ہوں جو میں نے خود ترجمہ کیا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
اے بریف ہسٹری آف نیئرلی ایوری تھنگ
بل برائسن
اردو ترجمہ
منصور محمد (قیصرانی)​

ماہرِ طبعیات لیو سزیلرڈ نے اپنے دوست ہانس بیتھ کو بتایا کہ وہ ڈائری لکھنا چاہتا ہے۔ ‘میں یہ ڈائری چھاپنا نہیں چاہتا۔ میں یہ ڈائری محض خدا کو حقائق بتانے کے لیے لکھنا چاہتا ہوں’۔
دوست نے پوچھا ‘ گویا خدا کو حقائق کا علم نہیں؟’
سزیلرڈ نے جواب دیا کہ ‘خدا کو علم تو ہے لیکن خدا ان حقائق کو ہمارے نکتہ نظر سے نہیں جانتا’۔
ہانس کرسچئن وون بائیر
Taming the atom
 

قیصرانی

لائبریرین
تعارف​
خوش آمدید۔ اور مبارکباد۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ یہاں تک پہنچ ہی گئے۔ یہاں تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ درحقیقت میرا خیال ہے کہ آپ کو بالکل بھی اندازہ نہیں کہ یہاں تک پہنچنا کتنا مشکل کام ہے۔
سب سے پہلے تو کھربوں کی تعداد میں ایٹموں کا انتہائی عجیب طور پر جمع ہو کر آپ کو تشکیل دینا ایک معجزہ ہے۔ درحقیقت یہ اجتماع اتنا منفرد ہے کہ نہ تو آپ سے قبل کبھی یہ سارے ایٹم اس طرح جمع ہوئے اور نہ ہی آپ کے بعد کبھی جمع ہوں گے۔ اگلے بہت سالوں تک یہی سارے ایٹم اسی طرح جمع رہتے ہوئے آپ کو زندہ اور چلتا پھرتا رکھیں گے اور اس سارے معجزے کو آپ ‘وجود‘ کہتے ہیں۔
یہ بات ابھی تک معمہ ہے کہ ایٹم ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ایٹمی پیمانے پر انسان یا وجود کی کوئی اہمیت نہیں۔ آپ کو بنانے کے باوجود ایٹموں کو نہ تو آپ کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی آپ کے وجود کا علم ہوتا ہے۔ انہیں تو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ ان کا اپنا وجود بھی ہے یا نہیں۔ ان کا دماغ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ خود زندہ ہوتے ہیں (اگر آپ انتہائی باریک چمٹی سے اپنے جسم سے ایک ایک کر کے تمام ایٹم نوچنا شروع کر دیں تو آخر میں آپ کے پاس ایٹمی گرد کا انبار ہوگا لیکن یہ تمام ایٹم غیر جاندار ہوتے ہوئے بھی کبھی آپ جیسے جاندار کا حصہ تھے)۔ تاہم آپ کی زندگی کے دوران ان کا واحد کام آپ کو زندہ رکھنا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ایٹم بے وفا ہوتے ہیں اور ایک جگہ زیادہ دیر نہیں رکتے۔ ایک عام انسان کی زندگی کا دورانیہ اوسطاً ساڑھے چھ لاکھ گھنٹے ہوتا ہے۔ جب یہ دورانیہ یا آپ کی زندگی ختم ہوتی ہے تو یہ تمام ایٹم ایک دم سے آپ کے وجود کو ختم کر کے دوسری چیزوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آپ کا قصہ یہیں تمام ہو جاتا ہے۔
پھر بھی آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ ایسا ہوتا تو ہے۔ عام طور پر کائنات میں ایسا نہیں ہوتا۔ کم از کم اب تک کی معلومات کے مطابق وہ تمام ایٹم جو جمع ہو کر زمین پر مختلف جاندار بناتے ہیں، عین اسی طرح کے ایٹم کائنات کے دوسرے حصوں میں ہوتے ہوئے بھی ایسا نہیں کرتے۔ چاہے کچھ بھی ہو، کیمیائی اعتبار سے زندگی بہت عام سی بات ہے۔ کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن، تھوڑی سی کیلشیم، چٹکی بھر سلفر یعنی گندھک اور دیگر عام اجزاء کی معمولی سی مقدار، غرض ہر وہ چیز جو آپ کو عام فارمیسی میں مل جائے گی، سے زندگی جنم لیتی ہے۔ جو ایٹم آپ کو بناتے ہیں، ان کی خاص بات ہی یہی ہے کہ وہ آپ کو بناتے ہیں۔ اسے زندگی کا معجزہ کہتے ہیں۔
چاہے کائنات میں دوسری جگہوں پر ایٹم زندہ مخلوقات بناتے ہوں یا نہ بناتے ہوں، لیکن ہر چیز ایٹموں سے ہی بنتی ہے۔ ان کے بغیر نہ تو پانی ہوگا اور نہ ہی پتھر اور نہ ہی ستارے اور سیارے، نہ ہی کہکشائیں اور نہ ہی نیبولا اور نہ ہی کائنات کا کوئی اور جرمِ فلکی۔ ایٹم اتنے اہم اور اتنے زیادہ ہیں کہ عام طور پر ہم ان کے وجود کو بھلا دیتے ہیں۔ ایسا کوئی قانونِ فطرت نہیں ہے کہ کائنات کو اپنے اندر زندگی کے لیے ضروری روشنی، مادہ، کششِ ثقل یا کچھ اور پیدا کرنا ہو۔ اصولی طور پر تو کائنات کے ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں۔ بہت طویل عرصے تک ایسا ہی تھا کہ نہ تو کائنات تھی اور نہ ہی اس میں موجود ایٹم۔ کہیں بھی کچھ بھی نہیں تھا۔
اس لیے شکر ہے کہ ایٹم ہیں۔ تاہم اس حقیقت کے باوجود کہ ایٹموں نے جمع ہو کر آپ کو بنایا، یہ اصل داستان کا محض ایک حصہ ہے۔ یہاں، اکیسویں صدی میں پیدا ہونے کے لیے آپ کو حیاتیاتی خوش قسمتی کی انتہائی لمبی زنجیر کا حصہ ہونا بھی لازمی ہے۔ زمین پر زندہ رہنا اتنا بھی آسان نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وقت کے آغاز سے اب تک جنم لینے والی کھربہا انواع میں سے 99.99 فیصد انواع اب موجود نہیں۔ زمین پر زندگی نہ صرف مختصر بلکہ انتہائی معمولی حیثیت رکھتی ہے۔ عجیب بات دیکھئے کہ ہم جس سیارے پر رہتے ہیں، زندگی کو پروان چڑھانے کے لیے جتنا سازگار ہے، اس سے زیادہ اسے ختم کرنے کے لیے بھی سازگار ہے۔ اوسطاً ایک نوع زمین پر چالیس لاکھ سال تک زندہ رہتی ہے۔ اگر آپ اربہا سال تک اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتے ہوں تو پھر آپ کو ایٹم ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ آپ کو ہر ممکن تبدیلی کو اپنانا ہوگا، چاہے وہ شکل ہو، حجم ہو، رنگ ہو یا کسی قسم کی پسند و ناپسند۔ اس تبدیلی کا عمل کہنے کی حد تک آسان ہے کیونکہ یہ تبدیلی کسی ترتیب سے نہیں ہوتی۔ زندگی کی قدیم ترین خوردبینی شکل سے لے کر موجودہ دور کے انسان تک، جانداروں کو انتہائی لمبے عرصے تک بروقت اور انتہائی مخصوص قسم کی جینیاتی تبدیلیاں لانی پڑی ہیں۔ لگ بھگ پچھلے چار ارب سال سے جانداروں کو پہلے آکسیجن سے نفرت اور پھر اسے برداشت کرنے، فِن اور ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء میں تبدیلی، انڈے دینا، دو مونہی زبان، چکنی جلد، بالدار کھال، زیرِ زمین رہنا، درختوں پر رہنا، ہرن جتنا بڑا یا چوہے جتنا چھوٹا ہونا اور لاکھوں دیگر کام کرنے پڑے۔ ان ارتقائی تبدیلیوں سے بال برابر بھی فرق پڑنے سے عین ممکن ہے کہ آپ اس وقت غار کی دیواروں سے الجی چاٹ رہے ہوتے یا والرس کی طرح پتھریلی زمین پر لوٹنیاں لگا رہے ہوتے یا سمندر میں وہیل کی شکل میں اپنے سر کے پیچھے موجود شگاف سے پانی اچھال کر پھر ساٹھ فٹ گہرا غوطہ لگا رہے ہوتے۔
نہ صرف یہ کہ وقت کی ابتداء سے آپ مخصوص ارتقائی لڑی سے جڑے رہے بلکہ آپ کے آباؤ اجداد کے حوالے سے بھی آپ معجزانہ طور پر خوش قسمت ہیں۔ سوچئے کہ تقریباً چار ارب سال سے آپ کے آباؤ اجداد میں تمام نر اور مادہ اتنے خوش شکل تھے کہ انہیں جوڑے ملے، اتنے صحت مند تھے کہ جنسی تولید کر سکیں اور قسمت اور حالات کی مہربانی سے وہ اتنا عرصہ زندہ بھی رہے اور اپنی نسل آگے بڑھائی۔ سوچئے، اگر ہمارے آباؤ اجداد میں سے ایک فرد بھی اگر افزائشِ نسل سے پہلے کچلا، کھایا، ڈوبا، بھوکا مرتا، کہیں مشکل جگہ پھنسا، زخمی یا کسی وجہ سے بھی مرنے سے قبل اپنے جینیاتی مواد کو ٹھیک وقت پر اپنے جوڑے تک منتقل نہ کر پایا ہوتا اور یہ سلسلہ اسی طرح نہ چلتا آیا ہوتا تو سوچئے کہ آپ یہاں نہ ہوتے۔
یہ کتاب آپ کو بتائے گی کہ ایسا کیسے ہوا، عدم سے وجود کیسے پیدا ہوا، پھر اس وجود سے ہم کیسے بنے اور اس دوران اور کیا کیا واقع ہوا۔ تاہم تفصیل انتہائی زیادہ ہے اور اسی وجہ سے اس کتاب کا نام ‘تقریباً ہر چیز کی مختصر تاریخ’ رکھا گیا ہے جو کہ کسی حد تک غلط ہے۔ ہر چیز کے بارے معلومات دینا ممکن ہی نہیں۔ تاہم جب ہم یہ کتاب پوری کر لیں گے تو آپ کو ایسا لگے گا کہ شاید اب آپ تقریباً ہر چیز کے بارے کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔
میری تلاش کا نکتہ آغاز میری چوتھی یا پانچویں جماعت کی ایک درسی کتاب تھی۔ 1950 کی دہائی کی عام درسی کتب کی مانند یہ کتاب بھی ثقیل اور ناقابلِ فہم زبان میں لکھی گئی تھی اور شاید ہی کسی کو پسند آئی ہو۔ تاہم اس کی ابتداء میں زمین کی ایک تصویر تھی۔ جیسے کسی نے چاقو سے زمین کے اندر سے ایسے قاش نکالی ہو جیسے ہم تربوز سے نکالتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ میں نے ایسی تصویر بہت بار دیکھی ہوگی، لیکن اس کتاب نے جیسے مجھے جکڑ لیا ہو۔ شروع میں میری سوچ یہ تھی کہ جیسے بہت بڑی تعداد میں لوگ مشرقی ریاستوں کو جا رہے ہوں جہاں اچانک قطب شمالی سے وسطی امریکہ کے درمیان 4٫000 میل طویل اور بہت اونچا پہاڑی سلسلہ ان کو روک لیتا ہے۔ تاہم پھر میں نے اس تصویر کے نیچے پڑھا کہ ہماری زمین کی مختلف تہیں ہیں اور عین درمیان میں لوہے اور نکل کا دہکتا ہوا گولہ موجود ہے جس کا درجہ حرارت سورج کی سطح جتنا ہے۔ میں اس وقت حیرت سے یہی سوچ رہا تھا، ‘آخر انہیں یہ سب کیسے پتہ چلا؟’
مجھے ان معلومات کی درستگی پر ہلکا سا بھی شبہ نہیں تھا۔ آج بھی میں سائنس دانوں کے انکشافات پر اسی طرح یقین کرتا ہوں جیسا میں کسی سرجن، پلمبر یا دوسرے ماہرین پر کرتا ہوں۔ تاہم مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ انہیں یہ کیسے پتہ چلا کہ ہزاروں میل نیچے زمین کے اندر کیا ہے، جسے کبھی کسی انسانی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ ہی کوئی ایکسرے وہاں تک پہنچ سکتی ہے؟ میں اسے معجزہ سمجھتا رہا۔ اس وقت سے سائنس کے بارے میں یہی خیال رکھتا ہوں۔
خوشی خوشی میں یہ کتاب گھر لے گیا اور رات کو کھانے کی میز پر جب میں نے یہ کتاب کھولی تو میری ماں کو فکر لاحق ہوئی کہ میں بیمار تو نہیں۔ پھر میں نے کتاب کو پڑھنا شروع کیا۔
یہیں سے مسئلہ شروع ہوا۔ کتاب انتہائی خشک نکلی۔ اسے سمجھنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ تصویر دیکھ کر میرے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوئے، کسی کا جواب بھی اس کتاب سے نہیں مل سکا۔ مثلاً ہماری زمین کے اندر یہ چھوٹا سا سورج کیسے آن پہنچا اور سائنس دانوں کو اس بارے کیسے علم ہوا؟ اگر ہماری زمین کے عین وسط میں سورج جل رہا ہے تو ہمیں زمین گرم کیوں نہیں لگتی؟ زمین کا مرکزہ پگھل کیوں نہیں جاتا؟ اگر یہ مرکزہ کسی دن جل کر ختم ہو گیا تو کیا ہماری زمین میں کہیں بہت بڑا سوراخ پیدا ہو جائے گا؟ آخر یہ بات کیسے پتہ چلی؟
تاہم ایسی باتوں کے بارے مصنف بالکل خاموش رہا۔ اس کا سارا زور زمین کی سطح کے نشیب و فراز، محوری گردش اور اسی طرح کی چیزوں پر تھا۔ مجھے ایسے لگا کہ جیسے مصنف ہر اہم اور دلچسپ بات کو چھپانے کی نیت سے اسے ناقابلِ فہم زبان میں پیش کر رہا ہو۔ وقت گزرتا رہا اور مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ محض میری کیفیت نہیں بلکہ دیگر لوگ بھی ایسے سوچتے ہیں۔ ایسے محسوس ہونے لگا جیسے پوری دنیا کی درسی کتب کے مصنفین کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ درسی کتب کو ہر ممکن طور پر ناقابلِ فہم بنائیں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ درسی کتب کسی قیمت پر بھی دلچسپ نہ ہونے پائیں۔
تاہم اب مجھے علم ہے کہ انتہائی دلچسپ اور معیاری سائنس لکھنے والے مصنفین کی بڑی تعداد موجود ہے جن میں ٹموتھی فیرس، رچرڈ فورٹی، رچرڈ فین مین جیسے نام سرِ فہرست ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے ان کی لکھی ہوئی ایک بھی درسی کتاب میں نے نہیں دیکھی۔ میری تمام تر درسی کتب ہمیشہ مرد مصنف کی لکھی ہوتی تھیں جو یہ سمجھتے تھے کہ دنیا کی مشکل سے مشکل بات بھی مساوات میں لکھنے سے آسانی ہو جائے گی اور کبھی یہ نہ سوچتے کہ باب کے آخر پر لکھے گئے سوالات کیسے ان بچوں کے ذہن کو پراگندہ کریں گے۔ جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا، مجھے یقین آتا گیا کہ سائنس انتہائی خشک مضمون ہے۔ تاہم مجھے گمان تھا کہ سائنس کو ایسا ہونا نہیں چاہئے۔ بہت عرصے تک میرا یہی حال رہا۔
طویل عرصے بعد، اب سے کوئی چار یا پانچ سال قبل بحرالکاہل عبور کرتے ہوئے لمبی پرواز کے دوران چاندنی میں چمکتے سمندر کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ خیال آیا کہ مجھے اپنے اس سیارے کی الف ب بھی نہیں معلوم، جبکہ یہ واحد سیارہ ہے جہاں میں رہتا ہوں۔ مثلاً مجھے علم نہیں تھا کہ سمندر تو نمکین ہیں لیکن عظیم جھیلیں کیوں میٹھے پانی سے بنی ہیں؟ مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ آیا وقت کے ساتھ ساتھ سمندر مزید نمکین ہو رہے ہیں یا نہیں اور اس سے ہمارے مستقبل پر کوئی فرق پڑے گا یا نہیں (آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ 1970 کے اواخر تک زیادہ تر سائنس دانوں کو بھی یہ باتیں معلوم نہیں تھیں، لیکن انہوں نے اس بارے خاموشی اختیار کیے رکھی)؟
سمندر میں نمک کی مقدار میری لاعلمی کی ایک انتہائی ادنیٰ سی مثال تھی۔ مجھے نہ تو پروٹان کا علم تھا اور نہ ہی پروٹین کا، کوارک اور کواسر کا فرق بھی مجھے نہیں معلوم تھا اور نہ ہی یہ جانتا تھا کہ کھائی کی دیوار پر موجود پتھر کا رنگ دیکھ کر ارضیات دان کیسے اس کی عمر کے بارے بتا سکتے ہیں۔ مجھے کچھ بھی تو معلوم نہیں تھا۔ تاہم مجھ پر ایک جنون سا طاری ہو گیا کہ آخر سائنس دان یہ سب کیسے جان لیتے ہیں اور یہ کہ مجھے بھی یہ سب جاننا ہے۔ مجھے کبھی یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ سائنس دان کیسے نت نئی دریافتیں کر لیتے ہیں۔ کوئی کیسے جان سکتا ہے کہ زمین کا وزن کتنا ہے، چٹانیں کتنی پرانی ہیں یا زمین کے مرکزے میں کیا ہے؟ کائنات کا آغاز کیسے ہوا اور اس وقت کیسی دکھائی دیتی ہوگی؟ ایٹم کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف تو سائنس دان تقریباً ہر بات جانتے ہیں تو دوسری طرف انہیں نہ تو زلزلے کے آنے کا پیشگی علم ہوتا ہے اور نہ ہی ہفتے بعد کے موسم کے بارے درست پیشین گوئی کر سکتے ہیں۔
اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی زندگی کا ایک حصہ ان باتوں کو جاننے کے لیے صرف کروں گا۔ یہ عرصہ تین سال نکلا۔ اس دوران میں نے لگاتار کتب اور سائنسی رسائل پڑھے اور بے شمار ماہرین سے بظاہر انتہائی احمقانہ سوالات پوچھے جن کے جوابات ہمیشہ انہوں نے سنجیدگی اور خندہ پیشانی سے دیئے۔ میرا مقصد سائنس کی خیرہ کن کامیابیوں کے بارے عام زبان میں جاننا تھا۔
یہی میرا خیال اور میرا مقصد تھا جو اب اس کتاب کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔ خیر، ہم نے بہت کچھ سیکھنا اور ہمارے پاس ساڑھے چھ لاکھ سے بھی کم گھنٹے بچے ہیں۔ آئیے، شروع کرتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حصہ اول: کاسموس میں گم
وہ تمام ایک ہی میدان میں ہیں۔ ایک ہی سمت حرکت کر رہے ہیں۔ بے داغ۔ انتہائی شاندار۔ ناقابلِ یقین۔
خلاء نورد جیفری مارسی نظامِ شمسی کے بارے بات کرتے ہوئے​


1 کائنات کیسے بنائی جائے​
آپ چاہے جتنی کوشش کیوں نہ کر لیں، آپ یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ایک پروٹان کتنا چھوٹا ذرہ ہے۔ پروٹان واقعی بہت مختصر جسامت کا حامل ہے۔
ایٹم کے مقابلے میں پروٹان اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اسے دیکھنا یا اس کی پیمائش کرنا بالکل بھی ممکن نہیں۔ تاہم ایٹم خود بھی کوئی زیادہ بڑی چیز نہیں اور اسے عام حالات میں دیکھنا بھی ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹے سے نقطے میں کم از کم 5 کھرب پروٹان سما جائیں گے۔ 5 کھرب کتنی بڑی رقم ہے، یوں سمجھیں کہ پانچ لاکھ سال میں گزرنے والے سیکنڈوں کی تعداد کے برابر ہے۔ یعنی پروٹان انتہائی چھوٹا ذرہ ہے۔
تاہم یہ بات واضح کر دوں کہ میں نے فرض کیا ہے کہ آپ تیزی سے پھیلنے والی کائنات بنانا چاہ رہے ہیں۔ اگر آپ بگ بینگ کے شیدائی ہوں تو اس کے لیے مزید بھی بہت کچھ درکار ہوگا۔ یعنی کائنات میں موجود تمام مادے کو جمع کر کے انتہائی چھوٹی سی جگہ پر رکھنا ہوگا۔ اس جگہ کو ہم اکائی یا وحدت یا Singularity کہیں گے۔
خیر، جو بھی کائنات آپ کی منشا کے مطابق ہو، ہر حال میں ایک انتہائی بڑے دھماکے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ظاہر ہے کہ آپ اس دھماکے کو کہیں دور اور محفوظ جگہ پر بیٹھ کر دیکھنا چاہیں گے لیکن افسوس، ایسا ممکن نہیں۔ یہ اکائی یا وحدت ہی واحد جگہ ہے۔ جب کائنات پھیلنا شروع ہوگی تو ایسا نہیں کہ پہلے سے موجود خالی جگہ کو بھرتی جائے گی بلکہ اپنے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ جگہ بناتی اور اسے بھرتی جائے گی۔
زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اکائی یا وحدت سے مراد ایک تھلتھلاتے ہوئی غبارے جیسی کوئی چیز ہوگی جو تاریک خلاء میں معلق ہے۔ نہ تو ایسی کوئی چیز موجود ہے اور نہ ہی کوئی خلاء اور نہ ہی تاریکی۔ اکائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہمیں تو یہ بھی پوچھنے کی اجازت نہیں کہ کیا یہ اکائی پہلے سے موجود تھی یا ابھی ابھی وجود میں آئی ہے یا ہمیشہ سے اسی طرح تھی۔ ابھی وقت پیدا نہیں ہوا۔ اس اکائی کا کوئی ماضی نہیں کہ جہاں سے یہ پیدا ہوتی۔
اس طرح کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ہماری کائنات شروع ہوئی۔
ایک خیرہ کر دینے والے لمحے میں یہ اکائی اچانک، انتہائی سرعت سے پھیل کر لامتناہی حجم میں بدل گئی۔ پہلے ہی لمحے (اس ایک لمحے کو فلکیات دان مزید حصوں میں تقسیم کرتے کرتے اپنی عمر گزار دیتے ہیں) میں تجاذب اور دیگر طبعی قوتیں پیدا ہو گئیں۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں کائنات ایک کروڑ کھرب میل پھیل گئی اور ابھی تک پھیلتی جا رہی ہے۔ اس دوران بے پناہ حرارت پیدا ہوئی۔ اس حرارت کی مقدار اندازاً دس ارب ڈگری ہوگی جس سے نیوکلیائی تعامل شروع ہوا اور اس درجہ حرارت سے ہلکے عناصر جیسا کہ ہائیڈروجن، ہیلیم اور انتہائی معمولی مقدار (دس کروڑ میں سے ایک ایٹم) میں لیتھیم پیدا ہونے لگے۔ تین منٹ کے اندر اندر پوری کائنات میں اس وقت تک موجود یا آئندہ پیدا ہونے والے مادے کا 98 فیصد حصہ پیدا ہو گیا۔ اب ہمارے پاس ایک کائنات آ گئی ہے۔ انتہائی ناممکن کام ممکن ہوا اور انتہائی خوبصورت کائنات پیدا ہوئی۔ اس سارے عمل میں اتنا وقت لگا جتنی دیر میں ایک سینڈوچ بنتا ہے۔
یہ سب کچھ کیسے ہوا، کافی بحث طلب امر ہے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق دس سے بیس ارب سال قبل یہ لمحہ آیا تھا۔ زیادہ تر ماہرین تیرہ اعشاریہ سات ارب سال پر متفق ہیں۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ یہ باتیں یقین سے کہنا انتہائی مشکل کیوں ہیں۔ یقین سے صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی بعید میں کسی ناقابلِ بیان لمحے میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر ایک ایسا لمحہ آیا جسے سائنس t=0 کے نام سے جانتی ہے۔
بے شمار چیزیں ہم ابھی تک نہیں جان پائے یا انہیں جانے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ حتٰی کہ بگ بینگ کی اصطلاح حال ہی میں متعارف ہوئی ہے۔ 1920 کی دہائی میں بیلجیم کے ایک پادری اور محقق جارجز لیماتر نے یہ نظریہ پیش کیا تھا لیکن 1960 کی دہائی کے وسط میں اسے شہرت ملی جب دو نوجوان ریڈیائی انجنیئروں نے ایک حیران کن دریافت کی۔
ان کے نام ارنو پینزیاس اور رابرٹ ولسن ہیں۔ 1965 میں انہوں نے نیو جرسی میں واقع ہولمڈیل کے مقام پر نصب بیل لیبارٹریز کے مواصلاتی انٹینا استعمال کرنے کی کوشش کی تو ان کا واسطہ ایک مستقل شور سے پڑا۔ اس شور کی وجہ سے کسی قسم کا تجربہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ یہ شور بظاہر غیر متعلق اور بے ترتیب تھا اور آسمان کے ہر گوشے سے آ رہا تھا۔ دن ہو یا رات، اس میں تبدیلی نہیں آتی تھی۔ پورے ایک سال تک انہوں نے اس شور کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ہر برقی نظام کو چیک کیا۔ بہت سارے آلات دوبارہ بنائے۔ سرکٹ دیکھے، تاریں بدلیں اور پلگ صاف کیے۔ پھر جھاڑو لے کر وہ انٹینا پر چڑھے اور پرندوں کی بیٹیں بھی صاف کیں جو سائنسی زبان میں وائٹ ڈائی الیکٹرک مٹیریل کہلاتا ہے۔ پھر ہر اونچ نیچ پر ٹیپ لگائی۔ تاہم ان کی ساری محنت اکارت گئی۔
اب اِن کی بے خبری دیکھیں کہ ان سے محض 30 میل دور پرنسٹن یونیورسٹی میں رابرٹ ڈکی نامی فلکیات دان کی زیرِ نگرانی ایک ٹیم عرصے سے اسی چیز کو تلاش کرنے کی دھن میں تھی جس سے یہ دونوں چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک نظریے کے مطابق اگر ہم خلاء میں انتہائی دور دیکھیں تو ہمیں پس منظر میں بگ بینگ کی بچی کھچی تابکاری مل سکتی ہے۔ روسی سائنس دان جارج گیمو نے حساب لگایا تھا کہ اس انتہائی وسیع کائنات میں سفر کر کے جب یہ تابکاری ہم تک پہنچے گی تو شکل بدل کر مائیکرو ویو بن چکی ہوگی۔ ایک حالیہ مضمون میں گیمو نے یہ بھی اشارہ دیا تھا کہ پوری دنیا میں اگر کوئی اینٹینا یہ شعاعیں موصول کر سکتا ہے تو وہ بیل لیبارٹریز کا ہولمڈل والا یہی انٹینا ہے۔ بدقسمتی سے نہ تو رابرٹ اور پینزیاس اور نہ ہی پرنسٹن کی ٹیم نے یہ مضمون دیکھا تھا۔
ظاہر ہے کہ پینزیاس اور رابرٹ کا سامنا جس شور سے تھا وہ دراصل گیمو کی پیشین گوئی کے عین مطابق تھا۔ انہوں نے کائنات کا سرا دریافت کر لیا تھا جو 90 ارب کھرب میل دور تھا۔ یہ دراصل وہ ابتدائی فوٹان تھے جو کائنات کی ابتدائی روشنی تھے۔ وقت اور فاصلے کی وجہ سے وہ مائیکرو ویو میں بدل چکے تھے۔ اس امر کی وضاحت گیمو نے پہلے ہی کر دی تھی۔ ایلن گتھ نے اپنی کتاب Inflation Universe میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کائنات کے دور دراز گوشوں میں جھانکنے کو ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی 100ویں منزل پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے سے تشبیہ دیں تو 100ویں منزل آج کو جبکہ زمین کی سطح بگ بینگ کو ظاہر کرتی ہے۔ ولسن اور پینزیاس کی دریافت سے قبل بعید ترین کہکشاں 60ویں منزل جبکہ بعید ترین کواسر 20ویں منزل پر تھا۔ ولسن اور پینزیاس کی دریافت ہمیں زمین کی سطح سے محض نصف انچ قریب لے گئی۔
اپنی لاعلمی کی وجہ سے ولسن اور پیزیاس نے پرنسٹن یونیورسٹی میں ڈکی کو فون کیا اور اپنا مسئلہ بتا کر مدد مانگی۔ ڈکی نے فوراً بھانپ لیا۔ فون رکھ کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا، ‘بازی ہاتھ سے نکل گئی ہے’۔
کچھ عرصے بعد آسٹرو فزیکل جرنل میں دو مضامین چھپے۔ پہلا مضمون ولسن اور پینزیاس کا تھا جس میں انہوں نے اس نامعلوم شور کے بارے اپنی حیرت ظاہر کی تھی اور دوسرا ڈکی اور اس کی ٹیم کی جانب سے جس میں اس شور کی وضاحت کی گئی تھی۔ اگرچہ ولسن اور پینزیاس نہ تو اس شور کو تلاش کر رہے تھے اور نہ ہی جانتے تھے کہ انہوں کی کیا دریافت کیا ہے اور نہ ہی اس کی وضاحت کی، پھر بھی 1979 میں انہیں فزکس کا نوبل انعام ملا جبکہ پرنسٹن کے محققین کے پاس صرف لوگوں کی ہمدردیاں ہی آئیں۔ ڈینس اوربائی نے Lonly hearts of the cosmos میں بیان کیا ہے کہ پینزیاس اور ولسن کو اپنی دریافت کی اہمیت کا اندازہ تب ہوا جب انہوں نے اس کے بارے نیویارک ٹائمز میں پڑھا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس شور سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ اپنے ٹی وی پر کوئی بھی ایسا چینل لگائیں جو موصول نہ ہو رہا ہو تو سکرین پر ناچتے دھبوں کا کم از کم ایک فیصد حصہ یہی تابکاری ہوتی ہے۔ اب جب آپ سوچیں کہ ٹی وی پر کچھ نہیں آ رہا تو درحقیقت آپ کائنات کی پیدائش کا منظر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
اگرچہ ہم سب بگ بینگ کو اسی نام سے جانتے ہیں لیکن بہت ساری کتب میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ کوئی عام نوعیت کا دھماکہ نہیں تھا بلکہ انتہائی بڑے پیمانے پر ہونے والا اچانک پھیلاؤ تھا۔ اس کی کیا وجہ ہوگی؟
ایک رائے یہ ہے کہ یہ اکائی دراصل پہلے سے موجود کائنات کے سکڑنے سے بنی تھی۔ یعنی مسلسل کائنات پھیل اور سکڑ رہی ہے ایسے ہی جیسے لوہار کی دھونکنی پھولتی اور پچکتی ہے۔ کچھ لوگ اسے False Vacuum, A scalar field یا Vacuum energy کا نام دیتے ہیں۔ چاہے یہ کوئی خاصیت ہو یا کوئی چیز، اس نے لامکان یعنی نتھنگ نیس میں عدم توازن پیدا کر دیا۔ اگرچہ کچھ نہ ہونے سے کچھ پیدا ہونا ناممکن لگتا ہے پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ عدم سے ہی ہماری کائنات وجود میں آئی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری کائنات دیگر بے شمار کائناتوں کا ایک معمولی سا حصہ ہو جو نامعلوم ابعاد میں پھیلی ہوئی ہوں؟ ہر وقت اور ہر جگہ بگ بینگ ہو رہے ہوں؟ یہ بھی ممکن ہے کہ وقت اور مکاں بگ بینگ سے قبل کچھ ایسی شکل میں ہوں جو ہم سمجھ نہ سکتے ہوں؟ ہو سکتا ہے کہ بگ بینگ دراصل ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقلی کا ہی نام ہو؟ جس میں کائنات ایک نامعلوم شکل سے ایسی شکل میں بدل گئی ہو جسے ہم سمجھ سکتے ہیں؟سٹین فورڈ کے ایک ماہر فلکیات نے 2001 میں نیو یارک ٹائمز میں کہا، ‘یہ سوال بہت حد تک مذہبی نوعیت کے لگتے ہیں’۔
بگ بینگ کا نظریہ ہمیں دراصل بگ بینگ کے بارے نہیں بلکہ اس کے فوراً بعد پیش آنے والے واقعات کے بارے بتاتا ہے۔ فوراً بعد سے مراد فوراً بعد ہی ہے۔ بہت سارے حساب کتاب اور پارٹیکل ایکسلریٹرز میں ہونے والے تعاملات کے مشاہدے کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ بگ بینگ کے بعد 10-45سیکنڈ تک کے واقعات کے بارے جان گئے ہیں۔ اس وقت کائنات اتنی مختصر ہوگی کہ اسے دیکھنے کے لیے ہمیں خوردبین کی ضرورت پڑتی۔ اگرچہ ہر بڑی رقم دیکھ کر حیران ہونا اچھی بات نہیں لیکن دیکھتے ہیں کہ یہ 10x-45 کتنی بڑی رقم ہے۔ 0.0000000000000000000000000000000000000000001۔ یعنی ایک سیکنڈ کے ایک اربویں، کھربویں کھربویں کھربویں حصے کے برابر (سائنس میں بہت بڑی یا بہت چھوٹی رقم لکھنے کے لیے ہم طاقت کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ بصورت دیگر انہیں لکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ یعنی 10x 10 مساوی 100۔ اسے ہم1x102 کہیں گے۔ اسی طرح 1.4x109 مکعب کلومیٹر سے 1.4 ارب مکعب کلومیٹر مراد ہے ۔ جب ہم کائنات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اسی طرح لکھنا پڑے گا)۔
ہم میں سے اکثر لوگ کائنات کے بارے آج جو بھی جانتے ہیں یا جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ سٹین فورڈ یعنی موجودہ ایم آئی ٹی کے جونیئر پارٹیکل فزسٹ ایلن گُتھ کے 1979 میں پیش کردہ نظریے کا مرہونِ منت ہے۔ اس کے اپنے الفاظ میں اس وقت اس کی عمر 32 سال تھی اور اس وقت تک اس نے کوئی تیر نہیں مارا تھا۔ اگر اس نے رابرٹ ڈکی کا بگ بینگ کے عنوان پر ہونے والا لیکچر نہ سنا ہوتا تو اسے شاید کبھی اس بات کا خیال تک نہ آتا۔ اس لیکچر کی وجہ سے اس کے دل میں کائنات کی ابتداء کے بارے جاننے کا شوق پیدا ہوا۔
اس کا نتیجہ ‘کائنات کا پھیلاؤ’ نظریے کی صورت میں نکلا۔ اس کے مطابق تخلیق کے فوراً بعد انتہائی مختصر عرصے میں کائنات میں عظیم پھیلاؤ واقع ہوا۔ یوں سمجھیں جیسے کائنات اپنے آپ سے فرار ہو رہی ہو۔ ہر 10-34 سیکنڈ میں کائنات کا حجم دُگنا ہوتا گیا۔ تاہم یہ سارا سلسلہ 10-30سیکنڈ میں ختم ہو گیا۔ یعنی ایک سیکنڈ کے ایک لاکھ لاکھ کھربویں حصے میں ہماری کائنات جو اس وقت ہماری ہتھیلی میں سما جاتی، سے 1000 کھرب کھرب گنا بڑی ہو گئی۔ یہ نظریہ ہمیں ان باتوں کے بارے بھی بتاتا ہے جس کی وجہ سے ہماری کائنات کی پیدائش ممکن ہوئی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہماری کائنات میں محض گیس اور تاریکی ہی ہوتی اور ستارے یا مادہ نہ پیدا ہو سکتے۔
گتھ کے نظریے کے مطابق ایک سیکنڈ کے دس لاکھویں حصے کے ایک کھرب کھرب کھرب وقفے میں تجاذب کی قوت جبکہ ایک اور انتہائی مختصر وقفے کے دوران برقناطیسی اور کمزور و طاقتور نیوکلیائی قوتیں پیدا ہو گئیں جو طبعیات سے متعلق ہیں۔ اس کے فوراً بعد بنیادی اجزاء پیدا ہوئے۔ یہ اجزاء ہر قسم کے مادے کا بنیادی حصہ ہیں۔ اس طرح چشم زدن میں عدم سے الیکٹران، پروٹان، نیوٹران اور فوٹان وغیرہ پیدا ہو گئے۔ فی ذرہ ان کی تعداد 1079 سے لے کر 1089 کے درمیان ہے۔ یہ تعداد ہمیں بگ بینگ کے نظریے سے پتہ چلتی ہے۔
ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تعداد ہماری سوچ سے بھی باہر ہے۔ اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ ایک لمحے کے اندر اندر ہمیں اتنی بڑی کائنات تیار شکل میں مل گئی جو کم از کم ایک کھرب نوری سال چوڑی تھی۔ یہ کم از کم کا اندازہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کائنات تقریباً لامحدود ہو سکتی ہے۔ یہ کائنات نہ صرف ستاروں، کہکشاؤں بلکہ دوسرے پیچیدہ نظاموں کے لیے بھی تیار ہے۔
ہمارے لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ یہ کائنات ہمارے لیے انتہائی کارآمد شکل اختیار کر گئی ہے۔ اگر اس کائنات کی تخلیق تھوڑی سی بھی مختلف طریقے سے ہوئی ہوتی، مثلاً کششِ ثقل اگر کچھ کم یا کچھ زیادہ ہوتی یا پھر پھیلاؤ کا عمل کچھ زیادہ تیز یا کچھ سست ہوتا تو عین ممکن ہے کہ نہ تو کوئی عنصر پیدا ہوتا اور نہ ہی آپ اور میں اور نہ ہی یہ زمین۔ اگر کشش تھوڑی سی بھی طاقتور ہوتی تو یہ ساری کائنات اس طرح بنتی جیسے غبارے سے ہوا نکل رہی ہو۔ اگر یہ قوت کمزور ہوتی تو مادہ جمع نہ ہو سکتا۔ یوں کائنات صرف لامکاں پر مشتمل ہوتی۔
اس سے کئی ماہرین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بگ بینگ ایک سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ارب ہا بگ بینگ ہوئے ہوں جو ازل سے جاری ہوں اور اس بار ہم اس لیے پیدا ہوئے ہوں کہ ہماری تخلیق محض اسی بگ بینگ سے ممکن تھی؟ کولمبیا یونیورسٹی کے ایڈورڈ پی ٹائرن نے ایک بار کچھ یوں کہا تھا، ‘ہماری کائنات کیوں بنی، اس کا سادہ سا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ایسی باتیں گاہے بگاہے ہوتی رہتی ہیں۔’ اس پر ایلن گُتھ نے لقمہ دیا، ‘ٹائرن شاید یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ کسی نے ناکام کوششوں کا شمار نہیں کیا۔‘
برطانوی رائل آسٹرانومر مارٹن کے مطابق بے شمار کائناتیں ہیں جو لامحدود تعداد میں بھی ہو سکتی ہیں۔ ہر ایک کے خواص مختلف ہیں۔ ہم جس کائنات میں رہ رہے ہیں، وہ ان خاصیتوں کی حامل ہے جس میں ہم رہ سکتے ہیں۔ اس کی مثال انہوں نے کچھ یوں دی کہ آپ کپڑوں کے بہت بڑے سٹور میں جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ آپ کے سائز اور پسند کا لباس ملنا عین ممکن ہے۔ اسی طرح اگر بہت ساری کائناتیں ہوں جن میں مختلف اعداد پائے جاتے ہوں، ان میں سے ایک ایسی بھی مل جائے گی جس میں زندگی ممکن ہو۔ اس وقت ہم ایسی ہی ایک کائنات میں ہیں۔
مارٹن کے مطابق ہماری کائنات پر چھ اعداد کی حکمرانی ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک کی مقدار بھی ذرا کم یا زیادہ ہوتی تو ہم یہاں نہ ہوتے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن سے ہیلیم میں منتقلی کا عمل مسلسل مگر یکساں رفتار سے ہوتا ہے، یعنی ایک ہزار میں سے ساتواں حصہ۔ اگر یہ مقدار ساتویں سے کم کر کے چھٹا حصہ کر دی جائے تو یہ سارا عمل معطل ہو جائے گا۔ ساری کائنات میں محض ہائیڈروجن ہی ہائیڈروجن ہوگی اور کچھ نہیں۔ اسی طرح اگر اس شرح کو آٹھویں حصے تک بڑھا دیا جائے تو یہ عمل اتنا تیز ہوگا کہ ہائیڈروجن کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ یعنی کمی یا بیشی، دونوں صورتوں میں کائنات یکسر مختلف ہو جاتی۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب تک ہر بات درست انداز سے ہوتی آئی ہے۔ تاہم طویل عرصے بعد ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تجاذب کچھ زیادہ طاقتور نکلے اور کائنات کا پھیلاؤ تھم جائے اور کائنات سکڑنے لگے اور سکڑتے سکڑتے واپس اسی اکائی تک پہنچ جائے جہاں سے پھیلاؤ کا عمل شروع ہوا تھا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ تجاذب اتنی کمزور ہو کہ کائنات ہمیشہ پھیلتی جائے اور آخرکار سارا مادہ ایک دوسرے سے اتنی دور چلا جائے کہ کائنات انتہائی وسیع لیکن بے جان رہ جائے۔ ایک اور امکان ہے کہ تجاذب بالکل مناسب ہو اور کائنات کا پھیلاؤ ہمیشہ کے لیے جاری رہے۔ ماہرین فلکیات اسے بعض اوقات گولڈی لاک اثر کا نام دیتے ہیں۔ یعنی ہر چیز بالکل درست تناسب سے ہے۔ ان تین ممکنہ کائناتوں کو بالترتیب مقید، آزاد اور چپٹی کائنات کہا جاتا ہے۔
اب ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم سفر کرتے کرتے کائنات کے آخری سرے تک پہنچ جائیں اور اس سے سر باہر نکال کر دیکھیں؟ اگر ہمارا سر کائنات کی حدود سے باہر نکلا تو کہاں ہوگا؟ کائنات کے باہر کیا دکھائی دے گا؟ تاہم اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کبھی بھی کائنات کے سرے تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ نہ سمجھیں کہ وہاں تک کا سفر بہت لمبا ہے۔ ظاہر ہے کہ سفر تو لمبا ہے ہی۔ فرض کریں کہ آپ خطِ مستقیم میں لامحدود عرصے تک سفر کرتے رہیں گے تو بھی کبھی کائنات کے سرے تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ آپ کی منزل وہی مقام ہوگا جہاں سے آپ نے سفر شروع کیا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ آپ تھک کر ہمت ہار دیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے تصور سے بھی کہیں دور، کائنات دراصل خم کھا رہی ہے جو آئن سٹائن کے اضافیت کے نظریے کے عین مطابق ہے۔ فی الحال یہ کہنا بہتر ہے کہ کائنات کوئی پھولا ہوا غبارہ نہیں کہ جس میں ہم تیر رہے ہوں۔ بلکہ یہ ایک خمدار خلاء ہے۔ اس طرح یہ خلاء محدود لیکن بے کراں ہے۔ یہ کہنا بھی شاید غلط ہو کہ خلاء پھیل رہی ہے۔ نوبل انعام یافتہ طبعیات دان سٹیون وین برگ کے مطابق، ‘نہ تو نظامِ شمسی اور نہ ہی کہکشائیں پھیل رہی ہیں اور خلاء بھی نہیں پھیل رہی۔ بلکہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی ہیں۔‘ ہماری عقل یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک حیاتیات دان جے بی ایس ہیلڈین کے مطابق، ‘کائنات اتنی عجیب نہیں جتنی ہم سوچتے ہیں۔ کائنات اس سے کہیں عجیب تر ہے جتنی کہ ہم سوچ سکتے ہیں۔‘
اس بات کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ جیسے کسی ایک مخلوق کو جو کہ چپٹی دنیا کی باسی ہو اور اس نے کبھی گول کرہ نہ دیکھا ہو، کو زمین پر لے آئیں۔ اب وہ جتنا بھی حرکت کرے، کبھی زمین کے سرے پر نہیں پہنچ پائے گی۔
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
2 نظامِ شمسی میں خوش آمدید​
آج کے دور میں ماہرین فلکیات بھی کمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی بندہ چاند پر ماچس کی تیلی جلائے تو وہ اس کا شعلہ دیکھ لیں گے۔ انتہائی دور موجود ستاروں کی ٹمٹماہٹ اور لرزش دیکھ کر عام نظروں سے اوجھل سیاروں پر زندگی کے لیے مناسب حالات کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔ حالانکہ خلائی جہاز سے ان سیاروں تک جانے میں کم از کم 5 لاکھ سال لگیں گے۔ اپنی ریڈیائی دوربینوں کی مدد سے وہ اتنی خفیف مقدار کی ریڈیائی شعائیں پکڑ لیتے ہیں کہ بقول کارل ساگان، ‘1951 سے جب یہ عمل شروع ہوا، اب تک جمع ہونے والی کل توانائی کی مقدار اس توانائی سے کم ہے جب برف کا گالہ زمین سے ٹکراتا ہے۔‘
مختصراً یوں سمجھ لیں کہ جب ماہرین فلکیات کے پاس وقت ہو تو کائنات کی شاید ہی کوئی چیز ان کی نظر سے بچ پاتی ہو۔ شاید یہی وجہ ہو کہ 1978 تک کسی کو گمان تک نہیں تھا کہ پلوٹو کا ایک چاند بھی ہے۔ اس سال کے موسم گرما میں ایک نوجوان فلکیات دان جیمز کرسٹی جو امریکی بحریہ کی رصد گاہ (فلیگ سٹاف، ایریزونا) میں پلوٹو کی تصاویر کی روز مرہ کی جانچ پڑتال کر رہا تھا کہ اس کی نظر پلوٹو کے ساتھ موجود ایک دھندلے سے دھبے پر پڑی۔ یہ دھبہ انتہائی دھندلا لیکن پلوٹو سے الگ تھا۔ اپنے رفیق رابرٹ ہیرنگٹن سے اس نے مشورہ لیا تو اسے پتہ چلا کہ یہ تو پلوٹو کا چاند ہے۔ اور یہ کوئی عام چاند نہیں، اپنے سیارے کی جسامت کے تناسب سے یہ ہمارے نظامِ شمسی کا سب سے بڑا چاند تھا۔
اس بات سے پلوٹو کے سیارہ ہونے کی حیثیت پر گہرا اثر پڑا ہے جو پہلے ہی بہت مختصر جسامت کا حامل تھا۔ جس جگہ پلوٹو اور اس کا چاند موجود ہیں، کے بارے خیال کیا جاتا تھا ہے کہ وہاں صرف پلوٹو ہے۔ اب جا کر پتہ چلا کہ پلوٹو تو اس سے بھی بہت چھوٹا ہے۔ عطارد بھی اس سے بڑا ہے۔ ہمارے چاند سمیت نظامِ شمسی کے 7 چاند پلوٹو سے زیادہ بڑے ہیں۔
ظاہری بات ہے کہ آپ سوچیں گے کہ پلوٹو کے چاند کو دریافت کرنے پر اتنا وقت کیوں لگا؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ فلکیات دان اپنے آلات کا رخ کس سمت کرتے ہیں اور یہ بھی کہ ان کے آلات کس مقصد کے لیے تیار کیے گئے تھے اور یہ بھی کہ یہ محض پلوٹو ہی تو ہے۔ زیادہ تر اہمیت اس بات کی ہے کہ ان کے آلات کا رخ کس جانب ہے۔ فلکیات دان کلارک چیپ مین کے مطابق، ‘زیادہ تر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ فلکیات دان رات کو رصد گاہ جا کر آسمان کا مشاہدہ شروع کر دیتے ہوں گے لیکن یہ بات درست نہیں۔ زیادہ تر دوربینیں اس مقصد کے لیے بنائی جاتی ہیں کہ ان کو آسمان کے ایک انتہائی چھوٹے حصے پر مرکوز کر کے وہاں بلیک ہول یا کہکشاؤں کا جائزہ لیا جا سکے۔‘ آسمان کی ‘کھوج’ کے لیے بنائی جانے والی دوربینیں فوج کے استعمال میں ہوتی ہیں۔
فنکاروں کے بنائے ہوئے خاکے دیکھ دیکھ کر ہماری عادتیں خراب ہو چکی ہیں کیونکہ یہ زیادہ تر تخیلاتی ہوتی ہیں۔ کرسٹی کا بنایا ہوا فوٹو جس میں پلوٹو ہمیں دھندلا سا دکھائی دے رہا ہے اور اس کا چاند نیشنل جیوگرافک کی تصویر کے برخلاف انتہائی دھندلا ہے۔ اس دھندلاہٹ کی وجہ سے ہی اس بات پر 7 سال لگے کہ کوئی دوسرا بندہ اس چاند کو دیکھ کر اس کی آزادانہ تصدیق کر سکے۔
کرسٹی کی دریافت میں مزے کی یہ بات ہے کہ اس نے یہ دریافت فلیگ سٹاف میں بیٹھ کر کی۔ اسی جگہ 1930 میں پلوٹو بھی دریافت ہوا تھا جس کا سہرا فلکیات دان پرسیوں لوؤل کے سر بندھا۔ لوؤل کا خاندان بوسٹن کے قدیم اور امیر ترین گھرانوں میں سے ایک تھا۔ یہ رصد گاہ لوؤل کی تعمیر کردہ ہے اور اسی کے نام سے منسوب ہے۔ تاہم لوؤل کی وجہ شہرت اس کا نظریہ تھا کہ مریخی لوگ مریخ پر باقاعدہ نہریں بنا کر قطبین سے پانی استوائی مقامات کی طرف لے جاتے ہیں جہاں کی زمینیں زرخیز لیکن پانی کمیاب ہے۔
لوؤل نے یہ بھی بتایا کہ نیپچون سے پرے ایک اور سیارہ موجود ہونا چاہیئے جسے اس نے سیارہ ایکس کا نام دیا۔ یہ نواں سیارہ اس وقت تک نامعلوم تھا۔ اس نظریے کی بنیاد دراصل نیپچون اور یورینس کے مداروں میں موجود بے قاعدگیاں تھیں۔ اپنی زندگی کے آخری سال لوؤل نے اسی فرضی گیسی دیو کی تلاش میں ضائع کر دیئے تھے اور اسی دوران اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے مرتے ہی تلاش کا کام کھٹائی میں پڑ گیا کیونکہ اس کے رشتہ دار جائیداد کے بٹوارے میں لگ گئے۔ تاہم 1929 میں لوؤل کی رصد گاہ کے ڈائریکٹر نے لوگوں کی توجہ مریخ کی نہروں سے ہٹانے (جو باعثِ شرمندگی بن گئی تھیں) کے لیے کینساس کے ایک نوجوان کلائیڈ ٹومباغ کے ذمے سیارہ ایکس کی تلاش کا کام لگایا۔
ٹومباغ نے اگرچہ فلکیات کی باقاعدہ تربیت تو نہیں لی تھی لیکن اس کا حوصلہ بلند تھا اور ایک سال کی محنت کے بعد اس نے پلوٹو دریافت کر لیا۔ یہ دریافت معجزہ تھی اور اس کا دوسرا پہلو لوؤل کی جانب سے بیان کردہ تفصیلات کے عین برعکس ہونا ہے۔ ٹومباغ فوراً ہی پہچان گیا تھا کہ یہ نیا سیارہ بالکل بھی گیسی دیو نہیں۔ لیکن اس سیارے کے بارے اس کی رائے پر کسی نے توجہ نہیں دی کیونکہ پلوٹو کی دریافت بذاتِ خود انتہائی اہم خبر تھی۔ امریکہ میں دریافت ہونے والا یہ پہلا سیارہ تھا۔ اس لیے اس امر پر کسی نے توجہ نہیں دی کہ یہ سیارہ محض برفیلا نقطہ ہے جو انتہائی دور واقع ہے۔ پلوٹو کے نام کے پہلے دو حروف لوؤل کے نام کے ابتدائی ہجے ہیں۔ ہر کسی نے لوؤل کی بعد از مرگ تعریف کرنا شروع کر دی کہ وہ کتنا عظیم ماہر فلکیات تھا۔ ماہرین فلکیات کے سوا زیادہ تر لوگوں کو ٹومباغ کا نام تک بھول گیا۔
بعض فلکیات دانوں نے پھر بھی سیارہ ایکس کی تلاش کا کام جاری رکھا۔ ان کے خیال میں مشتری سے کم از کم دس گنا بڑا یہ سیارہ سورج سے کم از کم 45 کھرب میل دور ہوگا۔ تاہم اس کی دریافت ابھی تک نہیں ہو پائی۔ اس کی شکل زحل یا مشتری سے بہت مختلف ہوگی۔ یوں سمجھیں کہ یہ سیارہ ایک ستارہ تھا جو سورج بنتے بنتے رہ گیا ہو۔ زیادہ تر نظامِ شمسی دو ستاروں سے بنے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارا ایک سورج والا نظامِ شمسی کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
جہاں تک پلوٹو کا سوال ہے تو کوئی نہیں جانتا کہ پلوٹو کس چیز سے بنا ہے یا اس کی فضاء کیسی ہوگی یا یہ ہے کیا۔ بہت سارے فلکیات دان کے خیال میں پلوٹو سیارہ نہیں بلکہ کوئیپر پٹی میں موجود اجرامِ فلکی میں سے ایک ہے۔ کوئیپر بیلٹ یا پٹی کا نظریہ 1930 میں ایک فلکیات دان ایف سی لیونارڈ نے پیش کیا تھا لیکن اس کا نام ولندیزی نژاد امریکی فلکیات دان جیرارڈ کوئیپر کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے اس نظریے کو توسیع دی۔ اس پٹی میں ایسے دمدار ستارے ہیں جو باقاعدگی سے اندرونی نظامِ شمسی کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ان میں مشہور ترین ہیلی کا دمدار ستارہ ہے۔ طویل المدتی دمدار ستارے اس سے بھی کہیں زیادہ دور اُوورت بادل سے آتے ہیں۔
یہ بات بجا ہے کہ پلوٹو عام سیاروں سے بہت فرق ہے۔ نہ صرف بہت چھوٹا اور غیر واضح ہے بلکہ اس کا مدار بھی کچھ اس نوعیت کا ہے کہ ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ آج سے سو سال بعد پلوٹو کہاں ہوگا۔ دوسرے سیارے ایک خاص محور پر گردش کرتے ہیں جبکہ پلوٹو ان سے 17 درجے ہٹ کر گردش کرتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ جیسے ہیٹ کا کنارہ ہوتا ہے۔ اس کا مدار اتنا بے قاعدہ ہے کہ کافی عرصہ تک پلوٹو نیپچون کی نسبت سورج سے زیادہ قریب رہتا ہے۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں کا زیادہ تر وقت نیپچون ہمارے نظامِ شمسی کا سب سے دور افتادہ سیارہ تھا۔ 11 فروری 1999 کو پلوٹو واپس دور دراز سیارے کے درجے پر پہنچا جہاں وہ اگلے 228 سال تک رہے گا۔
اب اگر پلوٹو سیارہ ہے بھی تو بہت عجیب سیارہ ہے۔ اس کی جسامت زمین کے ایک فیصد کا ایک چوتھائی ہے۔ اگر آپ اسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نقشے پر رکھیں تو زیریں 48 ریاستیں بھی پوری طرح نہیں چھپ سکیں گی۔ یہ بات بھی انتہائی عجیب ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کے اندرونی چار سیارے چٹانوں، دوسرے چار سیارے گیسی دیو اور پھر ایک برفانی کرہ یعنی پلوٹو پر مشتمل ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں پلوٹو کے آس پاس کے علاقے سے مزید ایسے برفانی کرے دریافت ہو جائیں تو مسئلہ اور بھی گھمبیر ہو جائے گا۔ جب کرسٹی نے پلوٹو کا چاند دریافت کیا ہے اس کے بعد سے فلکیات دانوں نے اس جگہ کا بغور مشاہدہ شروع کر دیا ہے اور دسمبر 2002 تک مزید چھ ایسے اجسام تلاش کر لیے ہیں جو نیپچون اور پلوٹو کے درمیان واقع ہیں۔ ان میں سے ایک تو پلوٹو کے چاند جتنا بڑا ہے۔ فلکیات دانوں کے خیال میں اس جگہ ہو سکتا ہے کہ ایسے ایک ارب اجرامِ فلکی گھوم رہے ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت بہت تاریک ہے۔ عام طور پر ان کی روشنی منعکس کرنے کی صلاحیت محض 4 فیصد ہوتی ہے جو کوئلے کے برابر ہے۔ اب لطف کی بات یہ ہے کہ ‘کوئلے’ کے یہ ڈھیر ہم سے 4 ارب میل دور ہیں۔
4 ارب میل کتنا بڑا فاصلہ ہے، اس کا اندازہ کرنا عام طور پر ممکن نہیں۔ خلاء بہت وسیع ہے۔ اس کو یوں سمجھتے ہیں کہ ہم راکٹ میں بیٹھ کر سفر پر نکلتے ہیں۔ ہمارا سفر زیادہ طویل نہیں بلکہ ہم محض نظامِ شمسی کے سرے تک ہی جائیں گے۔ اس سے ہمیں پتہ چلے گا کہ خلاء کتنی وسیع ہے اور ہمارا نظامِ شمسی کتنا چھوٹا ہے۔
ایک بری خبر۔ رات کو کھانے پر واپس لوٹنا ممکن نہیں ۔ اگر ہم روشنی کی رفتار سے بھی نکلیں تو پلوٹو تک پہنچنے میں 7 گھنٹے لگیں گے۔ تاہم روشنی کی رفتار کو پہنچنا ممکن نہیں۔ انسانی تیار کردہ اجسام میں وائجر اول اور دوم تیز ترین ہیں۔ اس وقت 35،000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے یہ ہم سے دور جا رہے ہیں۔
اگست اور ستمبر 1977 میں دونوں وائجروں کو روانہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مشتری، زحل، یورانس اور نیپچون اس طرح سیدھی قطار میں آ رہے تھے جو ہر 175 سال بعد ممکن ہوتا ہے۔ اس طرح انہیں تجاذبی مدد یعنی گریوٹی اسسٹ ملی جس سے ان کی رفتار بہت بڑھ گئی۔ اس تکنیک میں ایک سیارے کی کشش کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے سیارے تک جاتے ہیں۔ اس کے باوجود یورانس تک پہنچے پہنچے 9 سال جبکہ پلوٹو تک 12 سال لگے۔ 2006 کے جنوری میں نیو ہورائزن نامی جہاز کو پلوٹوکی طرف روانہ کرتے وقت ہمیں سائنسی ترقی اور سیاراتی مقامات کا فائدہ پہنچا اور امید ہے کہ تقریباً دس سال کے بعد یہ خلائی جہاز پلوٹو تک پہنچ جائے گا۔ تاہم واپسی کہیں زیادہ وقت لے گی۔ مجھے شک ہے کہ ہمارا سفر کچھ زیادہ ہی لمبا ہو جائے گا۔
خلاء میں پہنچ کر سب سے پہلے آپ کو احساس ہوگا کہ خلاء میں جگہوں کے نام تو بکثرت ہیں جبکہ اجرام فلکی بہت کم۔ شاید کھربوں میل کے دائرے میں ہمارا نظامِ شمسی ہی واحد متحرک نظام ہے۔ لیکن ہمارا سورج، سیارے، ان کے چاند، سیارچے اور اربوں کی تعداد میں شہاب ثاقب وغیرہ کو ملا کر بھی اس ساری خلاء کا محض کھربواں حصہ بنتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی احساس ہو جائے گا کہ درسی نقشے وغیرہ حقیقت سے بہت ہٹ کر بنتے ہیں۔ تدریسی نصاب میں چارٹ پر ترتیب سے جو سیارے دکھائی دیتے ہیں، ایسا ممکن نہیں اور نہ ہی بڑے سیارے ایک دوسرے سے اتنے قریب ہوتے ہیں۔ اس غلط بیانی کا مقصد محض اتنا ہوتا ہے کہ سارا نظامِ شمسی ایک کاغذ پر پورا آ جائے۔ نیپچون مشتری سے کچھ دور نہیں بلکہ ان کا درمیانی فاصلہ زمین اور مشتری کے درمیانی فاصلے سے 5 گنا زیادہ ہے۔ اتنی دور ہونے کی وجہ سے مشتری کی نسبت نیپچون کو محض تین فیصد سورج کی روشنی ملتی ہے۔
یہ فاصلے اتنے بڑے ہیں کہ نقشے کو درست تناسب سے بنانا ممکن ہی نہیں۔ چاہے ہم کتنے ہی صفحات مسلسل چپکاتے جائیں۔ اگر ہم نظامِ شمسی کا ایسا نقشہ بنائیں جس میں زمین کا حجم مٹر کے دانے برابر ہو تو مشتری ہم سے 1000 فٹ دور ہوگا اور پلوٹو کوئی ڈیڑھ میل اور اس کا حجم محض ایک بیکٹریا جتنا ہوگا۔ اگر مشتری کو ایک نقطے کے برابر دکھایا جائے تو پلوٹو ایک مالیکیول جتنا اور 35 فٹ دور ہوگا۔
یعنی ہمارا نظامِ شمسی بہت وسیع ہے۔ جب ہم پلوٹو تک پہنچیں گے تو ہمارا پیارا سورج ، جس سے ہمیں حرارت اور روشنی ملتی ہے، محض سوئی کی نوک سے ذرا بڑا ہوگا۔ یعنی عام ستاروں سے کچھ زیادہ روشن۔ اتنے فاصلے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کئی اہم چیزیں مثلاً پلوٹو کا چاند دریافت کرنا کیوں اتنا مشکل ہے۔ پلوٹو کو چھوڑیں، وائجر سے قبل ہمارے علم میں نیپچون کے دو چاند تھے۔ وائجر نے چھ مزید دریافت کیے ۔ جب میں بچہ تھا تو اس وقت ہمارے نظامِ شمسی میں معلوم چاندوں کی تعداد 30 تھی۔ اب یہ تعداد کم از کم 90 ہو چکی ہے جس کی ایک تہائی محض پچھلے 10 سال میں دریافت ہوئی ہے۔
یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جب ہم کائنات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے نظامِ شمسی کا بھی پوری طرح علم نہیں ہوتا۔ جب ہم پلوٹو کے پاس سے گزریں گے تو ہمیں بس یہی دکھائی دے گا کہ ہم پلوٹو کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ اگر آپ نقشے کو دیکھیں تو ہمارا نظامِ شمسی اسی جگہ ختم ہو رہا ہے۔ نقشے پر پلوٹو ہمارے نظامِ شمسی کا آخری سیارہ سہی، ہمارا نظامِ شمسی یہاں ختم نہیں ہوتا۔ جب تک ہم اُوورت بادل کو عبور نہ کر لیں، ہمارا نظامِ شمسی جاری رہے گا۔ اس بادل میں دمدار ستارے ہوتے ہیں۔ اس کے اختتام تک پہنچے پہنچے ہمیں مزید 10,000سال لگیں گے۔ سکولوں میں موجود درسی نقشہ جات کے برعکس پلوٹو ہمارے نظامِ شمسی کے آخری سرے تک کے فاصلے کا محض 50,000 واں حصہ ہے۔
ظاہر ہے کہ اتنا لمبا سفر ممکن نہیں۔ چاند تک کا محض 2,40,000 میل کا سفر ابھی تک ہمارے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ صدر بش اول نے شاید دکھاوے کے لیے مریخ پر انسان بردار جہاز بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ ایک تحقیق کے مطابق اس سفر پر کم از کم 450 ارب ڈالر خرچ ہوں گے اور قوی امید ہے کہ سارے خلاء باز مر جائیں گے (ان کا ڈی این اے شمسی تابکاری کی وجہ سے تباہ ہو جائے گا)۔
ہمارے موجودہ علم کے مطابق کوئی بھی انسان نظامِ شمسی کے آخری سرے تک کا سفر کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ فاصلہ انتہائی طویل ہے۔ ہبل دوربین کی مدد سے ہم ابھی تک اُوورت بادل تک نہیں دیکھ پائے کہ آیا ہے بھی یا نہیں۔ اس کی موجودگی ابھی تک خیالی اور فرضی ہے۔ اس کا اصل نام اوپک اُوورت بادل ہے جو استونین فلکیات دان ارنسٹ اوپک اور ولندیزی ماہر فلکیات جان اُوورت کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اوپک نے 1932 میں اس بادل کی موجودگی کا نظریہ پیش کیا تھا جسے 18 سال بعد اُوورت نے ریاضیاتی طور پر بہتر بنایا۔
اس بارے محض یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اُوورت بادل پلوٹو کے بعد کہیں شروع ہوتا ہے جو تقریباً دو نوری سال چوڑا ہے۔ نظامِ شمسی میں فاصلے کو ماپنے کی اکائی آسٹرانومیکل یونٹ یعنی فلکیاتی اکائی ہے۔ یہ فاصلہ زمین سے سورج کے فاصلے کے برابر ہے۔ ہمارا اور پلوٹو کا درمیانی فاصلہ 40 فلکیاتی اکائیوں کے برابر ہے۔ اُوورت بادل کے مرکز تک کا فاصلہ 50,000 فلکیاتی اکائیوں کے برابر ہے۔ یعنی اوورت بادل انتہائی وسیع ہے۔
فرض کریں کہ ہم اوورت بادل تک پہنچ گئے ہیں۔ سب سے پہلی بات جو آپ کو محسوس ہوگی وہ یہ کہ یہاں بہت سکون ہے۔ اس وقت ہم ایک طرح سے لامکاں تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمارا سورج اب آسمان پر سب سے روشن ستارہ نہیں رہا۔ اندازہ کریں کہ روشنی کا ننھا سا نقطہ اتنے بڑے اور وسیع نظامِ شمسی کو اپنی کشش سے باندھے ہوئے ہے۔ تاہم اس جگہ سورج کی کشش بہت کمزور پڑ چکی ہے اور دمدار ستارے محض 220 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تیر رہے ہیں۔ بعض اوقات اس کشش میں خلل پڑنے یا کسی ستارے کے پاس سے گزرنے کی وجہ سے یہ دمدار ستارے اپنے مدار سے نکل کر یا تو خلاء کی وسعتوں میں ہمیشہ کے لیے کھو جاتے ہیں یا پھر نظامِ شمسی کے مرکز کا رخ کرتے ہیں۔ اس نوعیت کے 3 یا 4 طویل مدتی دمدار ستارے ہر سال ہمارے نظامِ شمسی کے مرکز کا رخ کرتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ دمدار ستارے کسی ٹھوس جسم جیسا کہ زمین وغیرہ سے ٹکرا جاتے ہیں۔ اب ہم اس جگہ اس دمدار ستارے کو دیکھنے آئے ہیں جس نے ابھی ابھی نظامِ شمسی کے مرکز کا رخ کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ ستارہ زمین پر کسی بھی جگہ جا گرے۔ تاہم اس کا سفر بہت طویل ہے اور 30 یا 40 لاکھ سال بعد زمین تک پہنچے گا۔ اس کا تذکرہ آگے چل کر آئے گا۔
یہ ہمارا نظامِ شمسی ہے۔ اس سے پرے کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں اور بہت کچھ بھی۔ آپ کی مرضی جس طرح سے دیکھیں۔
مختصر الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی بنائی ہوئی خلاء بھی اتنی خالی نہیں جتنی ستاروں کے درمیان کی جگہ خالی ہے۔ اس طرح بہت طویل فاصلے تک خالی خلاء کے بعد جا کر پھر کچھ خاص آتا ہے۔ کائنات میں ہمارے نظامِ شمسی کے نزدیک ترین موجود ستارہ پراکسیما سینچاؤری ہے جو الفا سنچاؤری نامی تین ستاروں کے نظام کا حصہ ہے۔ یہ ستارہ ہم سے کوئی 4,3 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ کائنات میں یہ فاصلہ کچھ بھی نہیں لیکن چاند تک کے سفر سے یہ دس کروڑ گنا بڑا ہے۔ خلائی جہاز سے ہمیں اس تک پہنچنے میں کم از کم 25,000 سال لگیں گے۔ اگر ہم وہاں تک پہنچ بھی گئے تو یہی دکھائی دے گا کہ خالی خلاء میں تین ستارے موجود ہیں۔ اگلی منزل ہمارے لیے سائریس ہوگی جو مزید 4,6 نوری سال کے فاصلے پر ہوگا۔ اسی طرح ہم ایک ستارے سے دوسرے ستارے پر چھلانگ لگاتے ہوئے کائنات میں سفر کر سکتے ہیں۔ ہماری اپنی کہکشاں کے مرکز تک پہنچنے میں جتنا وقت لگے گا وہ وقت انسان کے بطور نوع جنم لینے سے کہیں زیادہ ہے۔
میں ایک بار پھر کہوں گا کہ خلاء انتہائی وسیع ہے۔ دو ستاروں کا درمیانی اوسط فاصلہ 2,000 کھرب میل ہے۔ روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے بھی یہ فاصلے بہت بڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ممکن تو ہے کہ خلائی مخلوق اتنے دور سے ہماری زمین پر لوگوں کو ڈرانے یا فصلی دائرے بنانے آئے لیکن اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہی ہیں۔
اتنے فاصلوں کے باوجود بھی خلائی مخلوق کے امکانات بہت روشن ہیں۔ ہماری کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد کے بارے اندازہ ہے کہ 100 سے 400 ارب ستارے ہیں۔ ہماری کہکشاں 140 ارب یا اس سے زیادہ کہکشاؤں میں سے ایک ہے جن میں سے بہت سی ہماری کہکشاں سے کہیں زیادہ بڑی ہیں۔ 1960 میں کورنل کے پروفیسر فرینک ڈریک نے مختصر ہوتے امکانات کی بنیاد پر اپنی مشہورِ زمانہ مساوات پیش کی۔
ڈریک کی مساوات کے مطابق ہر کہکشاں کے ستاروں کی کل تعداد کو ہم اس عدد سے تقسیم کرتے ہیں جن کے بارے ہمیں اندازہ ہو کہ ان کے سیارے ہو سکتے ہیں۔ حاصل جواب کو ہم اس عدد سے تقسیم کریں گے کہ جن سیاروں پر زندگی کے امکانات ہوں۔ حاصل جواب کو ہم اس عدد سے تقسیم کریں گے کہ جن سیاروں پر نہ صرف زندگی پیدا ہوئی بلکہ اس نے ذہانت کے درجے کو بھی پا لیا۔ کم سے کم اعداد دینے کے باوجود بھی ہماری کہکشاں میں ذہین مخلوق رکھنے والے ممکنہ سیاروں کی تعداد دسیوں لاکھ ہے۔
کتنی عمدہ سوچ ہے نا؟ ہو سکتا ہے کہ لاکھوں ذہین مخلوقات میں سے ہم ایک ہوں۔ بدقسمتی سے خلاء اتنی وسیع ہے کہ ہر دو ایسی مخلوقات کے درمیان موجود فاصلہ کم از کم 200 نوری سال کی اوسط کے برابر ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اگر کسی ایسی مخلوق کو ہمارے وجود کا علم ہو جائے اور وہ اپنی دوربینیں ہماری طرف مرکوز کریں تو انہیں ہم دکھائی نہیں دیں گے بلکہ 200 سال پرانا زمانہ دکھائی دے رہا ہوگا جب لوگ ریشمی کپڑے پہنے اور وگیں لگائے پھر رہے ہوں گے جنہیں نہ تو جین اور نہ ہی ایٹم کا علم ہوگا اور ان کے نزدیک شیشے کی سلاخ کو ریشمی کپڑے سے رگڑنے سے بجلی پیدا کرنا کمال فن ہوگا۔ 200 سال حقیقتاً انتہائی بڑا فاصلہ ہے۔
اسی وجہ سے جب فروری 1999 میں بین الاقوامی فلکیاتی یونین نے پلوٹو کو سیارہ تسلیم کر لیا تو ہمارے لیے ایک طرح سے خوش خبری ہی تھی۔ کائنات بہت وسیع ہے اور جتنے ہمسائے ہوں، اتنا ہی بہتر محسوس ہوگا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
3 ایوانز کی کائنات​
رات کو جب مطلع صاف ہو اور چاند زیادہ روشن نہ ہو تو ریورنڈ رابرٹ ایوانز اپنی بھاری دوربین اٹھا کر گھر کے پچھواڑے میں بیٹھ کر ایک انوکھا کام کرتا ہے۔ اس کا کام آسمان کی گہرائیوں میں جھانک کر دم توڑتے ستارے تلاش کرنا ہے۔ اس کا گھر سڈنی کے مغرب میں 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
ماضی کو دیکھنا نسبتاً آسان کام ہے۔ رات کے وقت آسمان پر نگاہ ڈالیں، تاحدِ نظر آپ کو ماضی ہی ماضی ملے گا۔ ہمیں دکھائی دینے والے ستاروں کا وہ ماضی ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ جب روشنی ان سے نکلی ہوگی۔ مثلاً قطبی ستارہ عین ممکن ہے کہ کئی سو سال قبل تباہ ہو چکا ہو لیکن ہمیں ابھی پتہ نہ چلا ہو۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج سے 680 سال قبل یہ ستارہ اسی جگہ دمک رہا تھا۔ ستارے مسلسل مرتے رہتے ہیں۔ ایوانز کی وجہ شہرت ایسے مرتے ستاروں کی تلاش ہے۔
دن کے وقت ایوانز ایک چرچ میں جزوی نوکری کرتا اور انیسویں صدی کی مذہبی تحاریک پر تحقیق کرتا ہے۔ رات کے وقت اس کا کام بدل جاتا ہے اور وہ سپر نووا تلاش کرتا ہے۔
جب ہمارے سورج سے بہت بڑا ستارہ سکڑتا اور پھر تباہ ہوتا ہے تو سپر نووا پیدا ہوتا ہے جو ایک لمحے میں کئی سو ارب سورجوں کے برابر توانائی خارج کرتا ہے اور پوری کہکشاں کے دیگر ستاروں کی مجموعی روشنی اس کے آگے ماند پڑ جاتی ہے۔ ایوانز کہتا ہے کہ جیسے کئی کھرب ہائیڈروجن بم ایک ساتھ پھٹے ہوں۔ اس کے مطابق اگر سپر نووا ہم سے 500 نوری سال کے فاصلے کے اندر کہیں بھی پیدا ہو، ہمیں ختم کر دے گا۔ تاہم کائنات بہت وسیع ہے اور سپر نووا عموماً ہم سے بہت دور ہوتے ہیں اور ہمارے وجود کے لیے خطرہ نہیں بن سکتے۔ ان کی اکثریت تو اتنی دور ہوتی ہے کہ ان کی روشنی محض ایک ٹمٹماتے دھبے کی شکل میں پہنچتی ہے۔ لگ بھگ ایک ماہ جتنا عرصہ یہ ستارے دکھائی دیتے ہیں۔ دیگر ستاروں کی نسبت یہ ‘عارضی ستارے’ ہمیں ان جگہوں پر دکھائی دیتے ہیں جو اس سے پہلے خالی تھی۔ ایوانز کا کام اس وسیع و عریض آسمان پر ایسے دھبے تلاش کرنا ہے۔
فرض کیجئے کہ عام کھانے کی میز پر کالا کپڑا بچھا کر اس پر مٹھی بھر نمک چھڑک دیا جائے۔ نمک کا ہر دانہ ایک کہکشاں کو ظاہر کرتا ہے۔ اب ایسے کل 1500 میزیں اکٹھی کر لیں جو دو میل لمبی قطار بنائیں گی۔ ان پر اسی طرح نمک چھڑک دیں۔ پھر کسی بھی میز پر، کسی بھی جگہ، نمک کا ایک اضافی دانہ ڈال دیں اور ایوانز کو کہیں کہ جاؤ اور جا کر اس ذرے کو تلاش کرو۔ ایک نظر ڈالتے ہی وہ اس دانے کو تلاش کر لے گا۔ یہ اضافہ دانہ سمجھئے کہ سپر نووا ہے۔
ایوانز کی یہ خاصیت اتنی منفرد ہے کہ ایک مصنف نے اپنی کتاب میں ان کے بارے پورا ایک قطعہ لکھا ہے۔ تاہم ایوانز نہیں جانتا کہ اس نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی۔ بقول اس کے، اسے لوگوں کے نام بھی یاد نہیں رہتے۔
اس کی دوربین ایک عام گھریلو گیزر جتنی بڑی ہے اور مشاہدے کے لیے وہ خود اسے اٹھا کر باہر لے جاتا ہے۔ اس کے گھر کے باہر اور درختوں کے اوپر جو تھوڑا سا آسمان دکھائی دیتا ہے، وہ اسی میں اپنی تلاش جاری رکھتا ہے۔ اسی جگہ جب چاند زیادہ نہ روشن ہو اور مطلع صاف ہو تو وہ سپر نووا تلاش کرتا ہے۔
سپر نووا کی اصطلاح 1930 کی دہائی میں فرٹز زویسکی نے متعارف کرائی تھی جو بلغاریہ میں پیدا ہوا لیکن پرورش سوئٹزرلینڈ میں پائی۔ 1920 کی دہائی میں جب وہ کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یعنی کالٹیک پہنچا تو اپنی سخت گیر طبیعت اور منفرد صلاحیتوں سے خود کو منوایا۔ اگرچہ اتنا باصلاحیت یا غیر معمولی ذہین نہیں تھا اور اس کے کئی ساتھی اسے تنک مزاج اور احمق گردانتے تھے۔ تاہم اسے اپنی صحت کے بارے جنون تھا۔ اگر کوئی اس کی طاقت کے بارے شک ظاہر کرتا تو کھانے کے کمرے یا جہاں بھی ہوتا، وہیں زمین پر لیٹ کر ایک ہاتھ سے ڈنڈ پیلنا شروع کر دیتا تھا۔ اس کے علاوہ انتہائی تنک مزاج تھا۔ اس کے قریبی ساتھی اور اس کے ساتھ کام کرنے والے والٹر باڈ نے زویسکی کے ساتھ اکیلے کام کرنے سے یکسر انکار کر دیا۔ زویسکی نے کئی بار باڈ کو نازی کہا اور ایک بار تو یہاں تک کہہ دیا ‘اگر باڈ کالٹیک میں کہیں بھی دکھائی دیا تو میں اسے قتل کر دوں گا’۔
تاہم زویسکی بعض معاملات میں انتہائی ذہین بھی ثابت ہوا۔ 1930 کے اوائل میں جب آسمان پر دکھائی دینے والے اتفاقیہ اور عارضی ستارے سائنس دانوں کے لیے وجہ پریشانی بنے تو زویسکی نے اس پر توجہ دی۔ اس وقت انگلستان میں جیمز چیڈویک نے نیوٹران دریافت کیا تھا اور اس نئی دریافت کے سبب زویسکی نے سوچا کہ شاید ان نئے عارضی ستاروں کے پیچھے نیوٹران کسی نہ کسی طرح ملوث ہوں۔ اس کا خیال تھا کہ اگر ستارے بھی اسی طرح سکڑتے ہوں جیسے ایٹم، تو نتیجتاً انتہائی مختصر مگر انتہائی کثیف اجسام تشکیل پائیں گے۔ یعنی جیسے ایٹم سکڑ جائیں تو ان کے الیکٹران اور پروٹان مل کر نیوٹران بنائیں گے۔ سوچیں کہ اگر توپ کے کروڑوں گولوں کو سکیڑ کر ایک کنچے کے برابر جگہ میں رکھ دیا جائے تو کیا ہوگا۔ نیوٹران ستارے کی کثافت اتنی زیادہ ہے کہ ایک چمچ بھر مادے کی کثافت 5 سو ارب کلوگرام کے برابر ہوگی۔ زویسکی نے سوچا کہ اس حالت میں پھٹتے ستارے سے نکلنے والی توانائی انتہائی زیادہ ہوگی۔ پھٹنے کی اس کیفیت کو زویسکی نے سپر نووا کا نام دیا۔ تخلیق کے سب سے بڑے مظاہر سپر نووا ہی ہیں۔
15 جنوری 1934 میں فزیکل ریویو نامی رسالے میں ایک ماہ قبل سٹین فورڈ یونیورسٹی میں زویسکی اور باڈ کے لیکچر کے اہم نکات شائع کیے ۔ انتہائی اختصار کے باوجود 24 سطور کا ایک پیراگراف سائنس کی ایک نئی شاخ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس میں پہلی بار نیوٹران ستارے اور سپر نووا کا نہ صرف حوالہ دیا گیا بلکہ ان کے بننے کے طریقے اور ان کے پھٹنے کے پیمانے پر بھی روشنی ڈالی گئی اور مزید یہ بھی بتایا گیا کہ سپر نووا کے پھٹنے سے ہی کاسمک ریز یعنی کائناتی شعاعیں خارج ہوتی ہیں جو ان دنوں کائنات میں ہر جگہ پھیلی ہوئی مل رہی تھیں۔ یہ نکات انتہائی انقلابی نوعیت کے تھے۔ نیوٹران ستاروں کے وجود کا پہلا ثبوت 34 سال بعد جا ملا۔ کاسمک ریز یعنی کائناتی شعاعیں اس وقت ممکن تو سمجھی جاتی ہیں، لیکن ان کی تصدیق ہونا باقی ہے۔ کالیٹک کے آسٹرو فزسٹ کپ تھورن کے مطابق ‘یہ مقالہ طبعیات اور فلکیات کے موضوع پر شاید سب سے پرمغز مقالہ ہو’۔
مزے کی بات یہ تھی کہ زویسکی کو پسِ منظر میں ہونے والے عوامل کا علم نہیں تھا۔ تھورن کا خیال ہے کہ زویسکی کو طبعیات کے قوانین کا کوئی علم نہیں تھا اور اپنے نظریے سے متعلق طبعی قوانین کی سمجھ بھی نہیں تھی۔ اس کا وقت بڑے نظریات کے لیے وقف تھا۔ باقی ریاضیاتی کام کرنے کے لیے دوسرے افراد تھے جن میں باڈ سرِ فہرست تھا۔
زویسکی پہلا انسان تھا جس نے یہ بات جانی کہ ہماری کائنات میں ہرگز اتنا مادہ موجود نہیں جو تمام کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے منسلک رکھ سکے۔ اس نے اندازہ لگایا کہ کوئی نہ کوئی اور چیز ہونی چاہئے جس کی کشش سے تمام تر کہکشائیں ایک دوسرے سے منسلک رہتی ہیں۔ آج اسے ڈارک میٹر یعنی تاریک مادہ کے نام دیا جاتا ہے۔ ایک بات جس کا احساس زویسکی کو نہ ہو پایا، یہ تھا کہ جب نیوٹران ستارہ انتہائی سکڑتا ہے تو اس کی کشش روشنی پر بھی غالب آ جاتی ہے اور اسے بلیک ہول یعنی سیاہ شگاف کہتے ہیں۔ بدقسمتی سے زویسکی کے تعلقات دیگر ساتھیوں سے اتنے کشیدہ تھے کہ اس کے نظریات پرکوئی توجہ نہیں دی گئی۔ حتیٰ کہ پانچ سال بعد جب اوپن ہائیمر نے نیوٹران ستاروں پر اپنا مشہور مقالہ لکھا، اس نے ایک بار بھی زویسکی کی تحقیق کا حوالہ نہیں دیا، حالانکہ زویسکی اسی عمارت میں چند کمرے دور اسی مسئلے پر برسوں سے تحقیق کر رہا تھا۔ تاریک مادے پر زویسکی کی تحقیق پر لگ بھگ چار دہائیوں بعد توجہ دی گئی۔
جب ہم سر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ہمیں انتہائی محدود کائنات دکھائی دیتی ہے۔ پوری زمین سے ایک وقت میں ہم زیادہ سے زیادہ 6,000 ستارے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک جگہ کھڑے ہو کر دیکھیں تو ستاروں کی تعداد 2,000 سے زیادہ نہیں بڑھ پاتی۔ عام دوربین سے دیکھیں تو یہ تعداد بڑھ کر 50,000 ہو جاتی ہے۔ دو انچ قطر والی دوربین سے یہ تعداد بڑھ کر 3,00,000 ہو جاتی ہے۔ 16 انچ قطر کی دوربین سے ستاروں کی بجائے ہمیں کہکشائیں دکھائی دینے لگ جاتی ہیں۔ ایوانز کا خیال ہے کہ ان کی دوربین سے دکھائی دینے والی کہکشاؤں کی تعداد 50,000 سے 1,00,000 ہے اور ہر کہکشاں میں اربوں کی تعداد میں ستارے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کے باوجود دکھائی دینے والے سپر نووا کی تعداد انتہائی قلیل ہوتی ہے۔ عام طور پر ستارے اربوں سال تک روشن رہتے ہیں اور پھر اچانک خاموشی سے بجھ جاتے ہیں۔ اکا دکا ستارے ہی پھٹتے ہیں۔ زیادہ تر ستارے بجھتے بجھتے ختم ہو جاتے ہیں۔ عام کہکشاں میں سو ارب ستارے ہوتے ہیں اور اوسطاً اس میں ہر دو یا تین سو سال بعد سپر نووا پھٹتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ آپ ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی چھت پر کھڑے ہو کر دوربین کی مدد سے دیکھتے ہیں کہ مین ہٹن میں کسی عمارت کی کھڑکی سے کسی کو اپنی 21ویں سالگرہ کا کیک کاٹا جا رہا ہو۔
آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب ایوانز نے فلکیات دانوں سے جا کر سپر نووا کی تلاش میں مدد دینے والے نقشے مانگے تو انہوں نے سوچا کہ ایوانز پاگل ہو گیا ہے۔ اس وقت ایوانز کے پاس 10 انچ قطر کی دوربین تھی جو شوق کی حد تو بہت اچھی ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اس وقت ایوانز کا مقصود کائنات کے نادر ترین واقعات کو دیکھنا تھا۔ ایوانز سے قبل دیکھے گئے سپر نووا کی تعداد 60 بھی نہیں تھی۔ ایوانز نے 2003 تک 36 مزید دریافت کر لیے تھے۔
ایوانز کو کئی فائدے بھی ہیں۔ زیادہ تر لوگ شمالی نصف کرے میں ہیں جبکہ ایوانز جنوبی نصف کرے میں رہتا ہے جہاں بہت کم لوگ ایسے مشاہدات کرتے ہیں۔ دوسرا ایوانز کی یاداشت بہت اچھی ہے اور رفتار بھی۔ بڑی دوربینوں کو مطلوبہ مقام تک لانے کے لیے مشینوں کی مدد لینی پڑتی ہے۔ مشاہدے سے زیادہ وقت اسے مطلوبہ مقام تک لانے پر لگتا ہے۔ ایوانز آرام سے اپنی چھوٹی دوربین کو ہاتھ سے گھما کر ہر دو تین سیکنڈ بعد اگلے مقام کو دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اس طرح چند گھنٹوں میں ایوانز اگر چار سو کہکشائیں دیکھ لیتا ہے تو بڑی سائنسی دوربین والے بمشکل پچاس سے ساٹھ کہکشائیں دیکھ پاتے ہیں۔
سپر نووا کی تلاش عموماً ناکام رہتی ہے۔ 1980 سے 1996 تک ایوانز نے سالانہ دو سپر نووا بمشکل دیکھے تھے۔ ایک بار 15 دن میں تین سپر نووا دیکھے تو ایک بار تین سال تک ایک بھی نہیں دکھائی دیا۔
اس کے خیال میں ‘کچھ نہ ملنا دراصل ناکامی نہیں۔ اس سے ماہرینِ فلکیات کو کہکشاؤں کے پھیلاؤ کے بارے معلومات ملتی ہیں۔ یہ ان چند واقعات میں سے ایک ہے جہاں شواہد کی عدم موجودگی ہی شواہد کا کام دیتی ہے’۔
دوربین کے ساتھ ایک میز پر ایوانز کی کھینچی ہوئی سپر نووا کے متعلق کاغذات اور تصاویر رکھی ہوئی ہیں۔ عام طور پر ہم فنکاروں کی بنائی ہوئی رنگین اور خوبصورت تصاویر دیکھتے ہیں جو سپر نووا سے متعلق ہوتی ہیں۔ تاہم ایوانز کی تصاویر ان سے بہت مختلف اور بلیک اینڈ وائٹ دھندلی تصاویر ہیں۔ ایک تصویر میں ڈھیر سارے ستارے دکھائی دے رہے تھے جن کے درمیان ایک نسبتاً روشن دھبہ دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے تصویر کو بہت قریب سے دیکھنا پڑا تب کہیں جا کر سپر نووا دیکھائی دیا۔ ایوانز نے بتایا کہ یہ سپر نووا مجموعہ النجوم فورنیکس میں تھا جو بذاتِ خود این جی سی 1365 نامی کہکشاں کا حصہ ہے۔ این جی سی سے مراد نیو جنرل کیٹلاگ ہے۔ یہ پہلے کتابی شکل اور اب ڈیٹا بیس کی شکل میں ہے۔ 6 کروڑ سال تک اس ستارے کی روشنی خلا سے گزرتی ہوئی اگست 2001 میں زمین پر پہنچی اور ظاہر ہے کہ ایوانز ہی پہلا انسان تھا جس نے اسے دیکھا۔
ایوانز نے بتایا ‘یہ بات بہت سکون پہنچاتی ہے کہ کروڑوں سالوں تک روشنی خلا سے گزر کر زمین تک پہنچتی ہے اور عین اس خاص وقت پر کوئی انسان آسمان کے اس حصے کو دیکھتا ہے۔ اتنے بڑے واقعے کا مشاہدہ اچھا لگتا ہے’۔
سپر نووا محض عجوبہ ہی نہیں بلکہ ان سے اور بھی کئی فوائد منسلک ہیں۔ پہلے تو یہ کہ ان کی کئی اقسام ہوتی ہیں جن میں سے ایک تو ایوانز کی دریافت ہے۔ ان میں سے ایک قسم آئی اے سپر نووا کہلاتا ہے جو فلکیات کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ سپر نووا ایک مخصوص حجم کا ہوتا ہے اور ہر بار ایک ہی طریقے سے پھٹتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اسے معیاری مانتے ہیں اور اس کی روشنی سے دوسرے ستاروں کی روشنی کا جائزہ لیتے ہیں اور اس سے ہمیں کائنات کے پھیلنے کی رفتار کا علم ہوتا ہے۔
1987 میں کیلیفورنیا کی لارنس برکلے لیبارٹری کے سال پرل مٹر کو اس سے زیادہ آئی اے سپر نووا درکار تھے جو عام مشاہدے سے مل رہے تھے۔ اس نے تلاش کے طریقے کو جدید بنیادوں پر استوار کیا۔ اس نے کمپیوٹر اور انتہائی عمدہ کیمروں کو ملا کر ایک نظام بنایا۔ اس نظام میں دوربینوں کی مدد سے کیمرے ہزاروں تصاویر لے کر کمپیوٹر کو بھیجتے اور کمپیوٹر ان تصاویر میں سپر نووا تلاش کرتے۔ اس تکنیک کی مدد سے پانچ سال میں 42 نئے سپر نووا تلاش ہوئے۔ اب تو عام انسان بھی اس تکنیک کی مدد سے سپر نووا تلاش کر رہے ہیں۔ ایوانز نے اپنی مایوسی کا اظہار کچھ یوں کیا ‘دوربین اور کیمرے کو آسمان پر کسی جگہ فوکس کر کے آپ دوسرے کام کرنے لگ جائیں۔ سارا لطف غارت ہو کر رہ گیا ہے’۔
میں نے ایوانز سے پوچھا کہ کیا وہ اس نئی تکنیک کو اپنانا چاہے گا تو اس نے انکار کیا اور ایک سپر نووا کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ‘مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی میں بعض اوقات ان سے آگے نکل جاتا ہوں’۔
اب عام سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر ہمارے نزدیک کوئی ستارہ پھٹے تو کیا ہوگا؟ ہمارے نزدیک ترین ستارہ الفا سنچوری یعنی قنطورس اول ہے جو 4.3 نوری سال دور ہے۔ اگر یہ ستارہ پھٹتا ہے تو چار سال سے زیادہ عرصے تک ہم اس کے پھٹنے کا مشاہدہ کرتے رہیں گے۔ دوسری جانب چار سال اور چار ماہ کا عرصہ ایسے ہوگا کہ ہم لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتی ہوئی موت کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ جب اس کی تابکاری ہم تک پہنچے گی تو کوئی جاندار زندہ نہیں بچے گا۔ کیا یہ سب جانتے ہوئے بھی لوگ کام کریں گے؟ کیا کسان فصلیں اگائیں گے؟ کیا دکانوں پر سامان پہنچے گا؟
ایک ہفتے بعد جب میں اپنے گھر پہنچا تو اپنے قصبے کے کالج کے ماہرِ فلکیات جان تھورسٹنسن سے یہی سوال کیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے تسلی دی ‘فکر کی کوئی بات نہیں۔ اس طرح کے واقعات میں تابکاری یا تباہی روشنی کی رفتار سے ہی حرکت کرتی ہے۔ جب ہمیں سپر نووا دکھائی دے گا، وہی ہمارا آخری لمحہ ہوگا۔ تاہم ایسا نہیں ہوگا’۔
اس نے بتایا کہ سپر نووا سے زمین پر اس طرح کی تباہی کے لیے اس سپر نووا کا دس نوری سال سے کم فاصلے پر ہونا لازمی ہے۔ اس سے پورے آسمان پر ہمیں انوارِ قطبی دکھائی دیں گے جو انتہائی خوبصورت ہوں گے۔ تاہم ایسی روشنیاں پیدا کرنے والے منبع کا اتنا قریب ہونا اچھی خبر نہیں کہ اس سے لازمی تباہی ہوگی کیونکہ اس سے زمین کا مقناطیسی کرہ تباہ ہو جائے گا جو ہمیں مختلف اقسام کی تابکاریوں سے بچاتا ہے۔ اگر مقناطیسی کرے کے بناء ہم دھوپ میں جائیں گے تو فوراً ہی ہماری جلد جل جائے گی۔
اس نے مزید بتایا کہ ہمیں اس سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ سپر نووا ایک خاص قسم کے ستارے سے بنتا ہے۔ ایسا ستارہ ہمارے سورج سے 10 سے 20 گنا زیادہ بڑا ہونا چاہئے اور اس حجم کا کوئی ستارہ اتنے قریب موجود نہیں۔ کائنات بہت وسیع ہے۔ اس طرح کا نزدیک ترین ستارہ Betelgeuse ہے جو زمین سے 50,000 نوری سال دور ہے۔ تاہم اس ستارے پر اسی قسم کی سرگرمی جاری ہے۔
ہماری تاریخ میں دس یا بارہ مرتبہ سپر نووا اتنے نزدیک پھٹا ہے کہ اسے دوربین کے بغیر بھی دیکھا گیا ہے۔ کریب نیبولا 1054 میں پھٹا تھا۔ 1604 میں دوسرا سپر نووا پھٹا جو تین ہفتے تک دن کے وقت بھی دکھائی دیتا تھا۔ آخری ایسا سپرنووا 1987 میں لارج میجلینیک کلاؤڈ میں پھٹا اور جنوبی نصف کرے سے بمشکل نظر آتا تھا۔ اس کا فاصلہ ہم سے 1,69,000 نوری سال تھا۔
ہمارے وجود کے لیے سپر نووا کی اہمیت بنیادی ہے۔ سپر نووا کے بغیر حیات پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ پہلے باب میں ہم نے دیکھا کہ بگ بینگ کے وقت کائنات میں ہلکی گیسیں ہی تھیں لیکن بھاری عناصر نہیں بن سکے۔ طویل عرصے تک کسی کو علم بھی نہیں تھا کہ بھاری عناصر بعد میں کیسے بنے۔ بھاری عناصر کے بننے کے لیے انتہائی بلند درجہ حرارت درکار ہوتا ہے جو انتہائی گرم ستاروں کے مرکزے سے بھی زیادہ گرم ہو۔ اس سے کاربن اور لوہا بنتا ہے۔ سپر نووا سے یہ بات پتہ چلی کہ بھاری عناصر سپر نووا سے ہی بنتے ہیں۔ اسے انگریز ماہرِ فلکیات نے دریافت کیا۔
یارکشائر میں پیدا ہونے والے اس بندے کا نام فریڈ ہوئل تھا جو 2001 میں فوت ہوا۔ نیچر میگزین کے مطابق ماہرِ فلکیات کے علاوہ متنازعہ شخصیت بھی تھا۔ اس کے متنازعہ بیانات نے اس کی شخصیت کا ہمیشہ منفی پہلو پیش کیا۔ مثال کے طور پر اس نے بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کیا کہ نیچرل ہسٹری میوزیم میں آرکیو ٹیرکس کے فوسل جعلی ہیں۔ عجائب گھر کے منتظمین کو وضاحت پیش کرتے کرتے بہت دن لگ گئے کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ زمین پر حیات اور اکثر بیماریاں جیسا کہ انفلوئنزا اور ببونک طاعون بھی خلاء سے آئے ہیں۔ ایک بار اس نے دعویٰ کیا کہ انسانی نتھنے نیچے کی طرف اس لیے ہیں کہ خلاء سے آنے والے جراثیم سے بچاؤ ہو سکے۔
اسی نے ریڈیو پر بات کرتے ہوئے پہلی بار 1952 میں بگ بینگ کی اصطلاح استعمال کی۔ اسی نے بتایا کہ طبعیات کا ہمارا علم ہرگز یہ بات نہیں بتا سکتا کہ کیسے تمام مادہ ایک جگہ جمع ہوا اور پھر ڈرامائی انداز میں پھیلنا شروع ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ کائنات سٹیڈی سٹیٹ ہے یعنی ایسی کائنات جو مستقل طور پر پھیل رہی ہے اور پھیلتے ہوئے مزید مادہ پیدا کرتی جا رہی ہے۔ ہوئل نے ہی یہ بات بتائی کہ اگر ستارے اندر کی جانب پھٹیں تو بے انتہا حرارت پیدا ہوگی جو 10 کروڑ ڈگری سے بھی زیادہ ہوگی جس سے بھاری عناصر کی پیدائش کا عمل شروع ہوگا۔ ا س عمل کو نیوکلیو سنتھسیز کہتے ہیں۔ 1957 میں ہوئل نے دیگر سائنس دانوں کی مدد سے ثابت کیا کہ سپر نووا کے پھٹنے کے دوران کیسے بھاری عناصر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی کام پر اس کے ایک ساتھی فاؤلر کو نوبل انعام ملا جبکہ ہوئل کو کسی نے نہیں پوچھا۔
ہوئل کے نظریے کے مطابق پھٹتا ہوا ستارہ نئے عناصر بنا کر انہیں کائنات میں پھینک دیتا ہے اور وہ آگے چل کر گیسی بادل بنتے ہیں جو ستاروں کے درمیان موجود ہوتے ہیں۔ بعد میں یہی بادل جمع ہو کر نظامِ شمسی بناتا ہے۔ ان نئے نظریات کی مدد سے آخرکار یہ ممکن ہو گیا کہ ہم اپنی پیدائش کی منظر کشی کر سکیں۔ اب ہمارا خیال ہے کہ:
4.6 ارب سال قبل 24 ارب کلومیٹر طویل گیس اور گرد کا ایک بادل اسی جگہ پہنچا جہاں ہمارا نظامِ شمسی ہے۔ 99.9 فیصد جمع ہو کر سورج بنا جبکہ دیگر میں سے پہلے دو خوردبینی ذرات برقی طاقتوں کے تحت جمع ہوئے جو ہماری زمین کا پیش خیمہ بنے۔ اس وقت پورے نظامِ شمسی میں یہی ہو رہا تھا۔ گرد کے ذرے ایک دوسرے سے ٹکراتے اور جمع ہوتے گئے۔ جب ان کا حجم ایک خاص حد سے بڑا ہوا تو یہ سیارچے بن گئے جو اسی طرح بڑے ہوتے ہوتے سیارے بنے۔
خیال ہے کہ یہ عمل بہت تیز تھا کہ خوردبینی ذرات سے چھوٹے سیارچے تک کا عمل ایک لاکھ سال سے بھی کہیں کم عرصے میں ہوا۔ 20 کروڑ سال سے بھی کم عرصے میں ہماری زمین بن گئی اگرچہ شروع میں یہ زمین پگھلی ہوئی حالت میں تھی اور اس پر مسلسل اجرامِ فلکی گر رہے تھے۔
اس موقع پر یعنی 4.4 ارب سال قبل مریخ کے حجم کا ایک اجرامِ فلکی زمین سے ٹکرایا اور اس سے اٹھنے والے گرد و غبار نے چند ہفتوں میں جمع ہو کر شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں اس نے گول چٹانی شکل اختیار کی اور تب سے چاند کی شکل میں ہمارے ساتھ ہے۔ خیال ہے کہ چاند کا زیادہ تر حصہ زمین کے مرکزے کی بجائے سطح سے آیا ہے۔ اسی وجہ سے چاند پر لوہے کی شدید قلت جبکہ زمین پر عام پایا جاتا ہے۔ اگرچہ اس نظریے کو جدید مانا جاتا ہے تاہم یہ نظریہ 1940 کی دہائی سے چلا آ رہا ہے اور ہارورڈ کے ریگنالڈ ڈالی نے پیش کیا تھا۔ اب نئی بات یہ ہوئی ہے کہ لوگوں نے اس پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔
جب زمین موجودہ حجم کا محض ایک تہائی تھی تو اس پر فضاء تشکیل پانے لگ گئی تھی جس کا زیادہ تر حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن، میتھین اور سلفر پر مشتمل تھا۔ اس پر زندگی کا وجود شاید ہی ممکن ہوتا۔ تاہم اسی زہریلے آمیزے سے حیات نے جنم لیا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ سبز مکانی یعنی گرین ہاؤس گیس ہے۔ اُس دور میں سورج بہت مدھم تھا جس کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ہونا فائدہ مند رہا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین آج بھی برفیلا سیارہ ہوتی اور اس پر حیات کا وجود ممکن نہ ہو پاتا۔ تاہم حیات شروع ہو گئی۔
اگلے 50 کروڑ سال تک زمین پر سیارچوں، دمدار ستاروں اور شہابِ ثاقب اور دیگر اجرامِ فلکی کی بارش ہوتی رہی جس سے اتنا پانی جمع ہو گیا کہ سمندر بن گئے جہاں سے زندگی کی ابتداء ہوئی۔ اس وقت کا ماحول بہت مشکل تھا تاہم پھر بھی حیات شروع ہوگئی۔ کوئی چھوٹا سا کیمیائی بیگ حرکت میں آیا اور حیات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
4 ارب سال بعد جا کر لوگوں نے اس بات پر حیران ہونا شروع کر دیا کہ ایسا کیسے ہوا۔ آئیے اب اس اگلے مرحلے کی طرف چلتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حصہ دوم: زمین کا حجم​


4 چیزوں کی پیمائش​
اگر آپ کو کہیں مشاہدہ کرنے کے لیے جگہ کا انتخاب کرنا ہو تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ آپ فرانس کی رائل اکیڈمی کے 1735 والے پیرو کے ملک والے دورے سے برا انتخاب نہ کر پائیں گے۔ اس مہم کی سربراہی پیئر بوگر نامی ہائیڈروجسٹ اور فوجی اور ماہرِ ریاضیات چارلس مارلی کے ذمے تھی۔ اس مہم میں سائنس دان اور مہم جو افراد حصہ لے رہے تھے جو ‘ٹرائینگولیٹ’ نامی طریقے سے اینڈیز پہاڑوں میں فاصلوں کی پیمائش کرنا چاہتے تھے۔
ان دنوں لوگوں کو زمین کے بارے زیادہ سے زیادہ جاننے کا جنون ہو رہا تھا اور مختلف امور جیسا کہ زمین کی عمر، اس کا وزن، خلاء میں کس جگہ موجود ہے اور اس کی پیدائش کیسے ہوئی وغیرہ جیسے امور پر بحث ہوتی رہتی تھی۔ اس مہم کا اصل مقصد ایک ڈگری کی پیمائش کرنا تھا جو زمین کے کل محیط کا 1/360 حصہ ہے۔ اس پیمائش کے لیے انہوں نے کیوٹو کے نزدیک یاروقی نامی جگہ کا انتخاب کیا۔ یہ جگہ موجودہ دور کے ایکواڈور کے مقام کیونسا سے 320 کلومیٹر دور ہے (ٹرائینگولیشن میں ان کا منتخب کردہ طریقہ اس اصول سے نکلا تھا کہ اگر آپ کو مثلث کے ایک ضلع کی لمبائی اور دیگر دو کے زاویے معلوم ہوں تو آپ باقی دونوں اضلاع کو آسانی سے معلوم کرسکتے ہیں۔ فرض کریں کہ اگر ہم چاند کا زمین سے فاصلہ معلوم کرنا چاہیں تو پہلے ہم تھوڑا دور چلے جائیں گے۔ ایک بندہ پیرس اور ایک ماسکو میں پہنچ کر ایک ہی وقت چاند کو دیکھیں اور فرض کریں کہ پیرس اور ماسکو اور چاند تین لکیروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اب اگر ہم ماسکو اور پیرس کا درمیانی فاصلہ ماپ لیں اور دونوں مقامات سے چاند کے زاویے معلوم کر لیں تو باقی کا حساب آسان ہو جائے گا۔ مثلث کے اندرونی زاویوں کا مجموعہ ہمیشہ 180 کے برابر ہوتا ہے۔ اگر ہمیں دو زاویے معلوم ہوں تو تیسرا معلوم کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں اس فرضی مثلث کی شکل پتہ چل جاتی ہے۔ یہ تکنیک 150 ق م میں دریافت کی گئی تھی جس نے زمین سے چاند کا فاصلہ معلوم کیا۔ زمین پر بھی مختلف جگہوں کا فاصلہ اسی طرح ماپا جا سکتا ہے۔ ایک ڈگری کی قیمت جاننے کے لیے ماہرین اسی طرح مثلث در مثلث استعمال کرتے جاتے ہیں)۔
ابتداء سے ہی مسائل شروع ہو گئے۔ کیوٹو پہنچتے ہی کسی وجہ سے مقامی افراد ان کے خلاف بھڑک گئے اور ان کا استقبال سنگ باری سے کیا۔ اس کے فوراً بعد کسی عورت پر پیدا ہونے والی غلط فہمی کی وجہ سے مہم کے ڈاکٹر کو قتل کر دیا گیا۔ ماہرِ نباتات پاگل ہو گیا۔ کئی دیگر افراد بخار اور حادثات کا شکار ہوتے گئے۔ مہم کا تیسرا سب سے بزرگ شخص ایک 13 سالہ لڑکی کے ساتھ بھاگ گیا اور واپس آنے سے انکاری ہو گیا۔
ایک بار تو مہم جوئی کا کام 8 ماہ تک رکا رہا کہ ٹیم کے اراکین کو لیما جا کر اپنے کام کے اجازت ناموں کی تجدید کرانی پڑی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ان دونوں سربراہوں نے ایک دوسرے سے بات چیت اور کام کرنا بھی بند کر دیا۔ مقامی سرکاری افراد کو اس بات کے ماننے میں عار تھا کہ فرانسیسی دنیا کے دوسرے کونے سے اتنے چھوٹے کام کے لیے آئے ہیں؟ یہ بات ان کی سمجھ سے باہر تھی۔ اڑھائی سو سال گزرنے کے بعد آج بھی یہ بات کسی کی سمجھ میں ٹھیک سے نہیں آ رہی۔ بھلا فرانسیسیوں نے یہ پیمائش فرانس میں ہی کیوں نہ کر لی اور اتنی مصیبتوں میں کیوں پڑے؟
اس کا جواب اس دور کے سائنس دانوں سے متعلق ہے۔ اس دور میں سائنس دان بالعموم اور فرانسیسی سائنس دان بالخصوص جب کوئی کام کرتے تو ہر ممکن طور پر انتہائی دشوار ترین طریقے تلاش کرتے تھے۔ ایک وجہ وہ مسئلہ بھی تھا جو ان سے قبل انگریز ماہرِ فلکیات ایڈمنڈ ہیلی کو بھی پیش آ چکا تھا۔
ہیلی غیرمعمولی شخصیت کا مالک تھا۔ انتہائی تخلیقی کیریئر کے دوران ہیلی نے بحری کپتان، نقشہ نویس، آکسفورڈ یونیورسٹی میں جیومیٹری کے پروفیسر، شاہی ٹکسال کے سربراہ کے نائب، شاہی ماہرِ فلکیات اور گہرے سمندر میں غوطہ خوری کے لیے مشین بنانے جیسے کام کر چکا تھا۔ اس نے مقناطیسیت، سیاراتی حرکات اور گردش اور افیون کے فوائد پر بہت کچھ لکھا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے موسمیاتی نقشے بنانے کا طریقہ، سورج سے زمین کا فاصلہ اور زمین کی عمر جاننے کے بارے، حتیٰ کہ بے موسمی مچھلی کو تازہ رکھنے کے بارے بھی مضامین لکھے۔ البتہ اس نے اپنے نام سے مشہور دمدار ستارہ دریافت نہیں کیا تھا۔ اس نے البتہ یہ بات ضروری بتائی کہ جس دمدار ستارے کو اس نے 1682 میں دیکھا تھا، یہ وہی دمدار ستارہ ہے جو اس سے قبل 1456، 1531 اور 1607 میں دیگر افراد دیکھ چکے تھے۔ ہیلی کی وفات کے 16 سال بعد 1758 میں اسے ہیلی کا دمدار ستارہ کہا جانے لگا۔
تاہم ہیلی کی وجہ شہرت اس کا رابرٹ ہُک اور سر کرسٹوفر ورین کے ساتھ مل کر کام کرنا تھا۔ ہُک نے پہلی بار خلیے کی ساخت بیان کی۔ 1683 میں ہیلی، ہُک اور ورین جب لندن میں کھانا کھا رہے تھے تو ان کی گفتگو کا رُخ اجرامِ فلکی کی طرف ہو گیا۔ اس وقت تک یہ بات عام ہو چکی تھی کہ سیاروں کی گردش بیضوی مدار کی صورت میں ہوتی ہے۔ تاہم اس کی وجہ کسی کو معلوم نہیں تھی۔ ان دونوں میں سے جو اس معمے کو حل کرے گا، ورین اسے 40 شلنگ انعام دے گا۔ اس کی اپنی دو ہفتوں کی تنخواہ کے برابر رقم تھی۔
ہُک کے بارے یہ بات مشہور تھی کہ وہ دوسروں کے کام کو اپنے نام سے مشہور کرا دیتا ہے۔ اس نے فوراً ہی کہا کہ اس نے یہ معمہ حل کر لیا ہے لیکن اسے تب تک خفیہ رکھے گا جب تک دوسرے اس کو حل نہیں کر لیتے۔ ہیلی نے اس بارے کام کرنے کے لیے کیمبرج یونیورسٹی کا رخ کیا جہاں اس نے ریاضی کے پروفیسر آئزک نیوٹن سے مدد مانگی۔
نیوٹن بذاتِ خود بہت عجیب انسان تھا۔ انتہائی ذہین ہونے کے علاوہ تنہائی پسند، خشک اور سنکی بھی تھا۔ اکثر صبح کو اٹھنے کے بعد بستر پر بیٹھا ٹانگیں جھلاتا سوچوں میں گم ہو جاتا۔ اس کی اپنی لیبارٹری تھی جو کیمبرج میں پہلی تھی لیکن بعد میں اس نے عجیب تر کام شروع کر دیئے۔ ایک بار اس نے چمڑا سینے والی لمبی سوئی اپنی آنکھ میں گھسا کر گھمانا شروع کر دی کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ تاہم کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک بار وہ سورج کو کافی دیر تک گھورتا رہا تاکہ انسانی بصارت پر اس کے اثرات جانچ سکے۔ نتیجتاً اسے چند روز تاریک کمرے میں گزارنے پڑے تاکہ آنکھیں واپس اصل حالت پر آ جائیں۔
تاہم ان سب سنکوں کے باوجود نیوٹن انتہائی ذہین بلکہ عبقری تھا ۔ مثال کے طور پر جب دورِ طالبعلمی میں اس نے ریاضی کے روایتی طریقوں سے اُکتا گیا تو اس نے ریاضی کی ایک نئی شاخ ایجاد کی جسے ہم کیلکولس کے نام سے جانتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے اپنی یہ ایجاد 27 سال تک چھپائے رکھی۔ اس کے علاوہ اس نے بصریات اور روشنی پر بہت کام کیا اور سپیکٹروسکوپی کی سائنس کی بنیاد رکھی لیکن اس کام کو بھی 30 سال تک چھپائے رکھا۔
تمام تر ذہانت کے باوجود اصل سائنس نیوٹن کی زندگی کا محض ایک حصہ تھی۔ اس نے اپنی زندگی کا لگ بھگ نصف حصہ الکیمی اور دیگر مذہبی نظریات پر کام کرتے گزارا۔ اس کے علاوہ نیوٹن آریانزم کے نظریے کا بھی خفیہ پیروکار تھا جو مقدس تثلیث کا انکاری ہے۔ یہ بات عجیب لگتی ہے کہ نیوٹن کا کالج جو کیمبرج میں واقع تھا، تثلیث کا پیروکار تھا۔ نیوٹن نے بہت وقت یروشلم میں ہیکل سلیمانی کے فرش کے نقشے کو پڑھنے پر گزارا کیونکہ اس بارے یقین کیا جاتا ہے کہ وہ حضرت عیسٰی کی دوبارہ آمد کے بارے معلومات رکھتا ہے۔ اس دوران نیوٹن نے اصلی مسودات پڑھنے کی غرض سے عبرانی بھی سیکھی۔ الکیمی یعنی سونا بنانے کے عمل سے بھی اسے کافی شغف تھا۔ 1936 میں جب جان مینیارڈ کینز نے نیوٹن کے کاغذات سے بھرا ٹرنک خریدا تو اس سے اجرامِ فلکی کی حرکات کی بجائے الکیمی پر مشتمل مسودات برآمد ہوئے جن میں درج تھا کہ کیسے سستی دھاتوں کو قیمتی دھاتوں میں بدلا جا سکتا ہے۔ 1970 کی دہائی میں نیوٹن کے ایک بال کے معائینے کے دوران پتہ چلا کہ اس میں سیسے کی غیر معمولی مقدار موجود ہے۔ یہ علامت الیکمسٹ حضرات کے علاوہ تھرمامیٹر بنانے والے اور ہیٹ بنانے والوں کی عام نشانی ہے۔ سیسے کی مقدار تقریباً 40 گنا زیادہ تھی۔ ظاہر ہے کہ اسی وجہ سے صبح بیدار ہوتے ہی نیوٹن اتنا غائب مزاج ہوتا تھا۔
اگست 1684 میں ہیلی کن توقعات کے ساتھ نیوٹن سے ملنے پہنچا، اس بارے اندازہ لگانا دشوار ہے۔ تاہم نیوٹن کے ایک دوست نے اس ملاقات کا کچھ حال بتایا ہے:
1684 میں ڈاکٹر ہیلی کیمبرج آیا اور کچھ بات چیت کے بعد ہیلی نے نیوٹن سے پوچھا کہ اس کے خیال میں وہ کُروی حرکت کیسی ہوگی جو سورج کی کشش کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے سیاروں کی ہوتی ہے اور یہ حرکت ان کے درمیانی فاصلے کے مربع کے بالعکس متناسب ہوتی ہے۔
ہیلی کے خیال میں اس سارے مسئلے کے پیچھے ریاضی کی وہ شاخ ہو سکتی تھی جو انورس سکوئر لاء سے متعلق ہے تاہم اسے سو فیصد یقین نہیں تھا۔
آئزک نے فوراً جواب دیا کہ بیضوی۔ ہیلی نے خوشی اور حیرت سے پوچھا کہ اسے کیسے پتہ؟ نیوٹن نے جواب دیا کہ اس نے اس بارے کچھ حساب کتاب کیا ہوا تھا۔ جب ہیلی نے تفصیل پوچھی تو نیوٹن کو متعلقہ کاغذ نہیں ملا۔
یہ بات اتنی حیرت انگیز تھی جیسے کوئی کینسر کا علاج تو دریافت کر لے لیکن اس کا فارمولا جس کاغذ پر لکھا ہو، وہ گم ہو جائے۔ تاہم ہیلی کے اصرار پر نیوٹن نے وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ حساب کر کے ہیلی کو تفصیل بہم پہنچائے گا۔ نیوٹن نے نہ صرف اپنا وعدہ پورا کیا بلکہ اس نے مزید بہت کچھ بھی پیش کیا۔ دو سال کی عرق ریزی کے بعد نیوٹن نے اپنا شاہکار پیش کیا جسے Philosophiae Naturalis Principa Mathematica یا Mathematical Pricniples of Natural Philosophy یا عرفِ عام میں Principia کہا جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں چند بار ہی ایسا ہوا ہے کہ انسانی ذہانت نے ایسی تخلیق پیش کی ہے کہ سننے والے یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں کہ آیا یہ دریافت زیادہ حیرت انگیز ہے یا اس دریافت کا خیال۔ پرنسپیا کی تخلیق بھی ایک ایسا ہی یادگار لمحہ تھا۔ فوراً ہی نیوٹن کی شہرت چہار دانگ پھیل گئی اور مرتے دم تک اسے مسلسل اعزازات اور انعامات سے نوازا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ نیوٹن کا پرانا حریف گوٹ فرائیڈ لیبنیز، جس کا نیوٹن سے کیلکولس کی دریافت پر زبردست جھگڑا چل رہا تھا، نے تسلیم کیا کہ نیوٹن کا یہ کام آج تک کیے ہوئے تمام کاموں سے عظیم تر ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ پرنسپیا کو دنیا کی مشکل ترین کتابوں میں سے ایک بھی مانا جاتا ہے۔ اس کتاب کو مشکل بنانے کی وجہ یہ تھی کہ نوآموز ریاضی دان اسے تنگ نہ کرتے پھریں۔ تاہم جو افراد اسے سمجھ لیتے ہیں، ان کے لیے یہ کتاب مشعلِ راہ ہے۔ اس میں نہ صرف اجرامِ فلکی کی حرکات اور ان کے مدار پر روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ انہیں مدار میں رکھنے والی اصل قوت یعنی تجاذب کے بارے بھی بتایا گیا۔ یکایک کائنات کی ہر حرکت کی وجہ سمجھ آ گئی۔
اس کتاب کا مغز نیوٹن کے تین بنیادی قوانین تھے (اول: تمام اجسام اسی سمت حرکت کرتے ہیں جس میں انہیں تحرک دیا گیا ہو، دوم: تمام متحرک اجسام اس وقت تک ایک ہی سمت میں حرکت جاری رکھیں گے جب تک انہیں دوسری طاقت روک یا موڑ نہ دے، سوم: ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے)۔ جن کے مطابق کائنات کا ہر جسم دوسرے پر کوئی نہ کوئی اثر ڈالتا ہے۔ اگرچہ ہمیں محسوس نہیں ہوتا لیکن اس وقت آپ اپنے اردگرد موجود ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں، چاہے وہ دیواریں ہوں، پنکھا، لیمپ یا چھت وغیرہ۔ اسی طرح یہ تمام چیزیں بھی آپ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ نیوٹن نے اس اصول کے مطابق رچرڈ فین مین نے کہا کہ دو اجسام کی تجاذب کی وقت ان کی کمیت کے مجموعے کے براہ راست اور ان کے درمیانی فاصلے کے مربع کے بالعکس متناسب ہوتی ہے۔ یعنی اگر آپ دو اجسام کا درمیانی فاصلہ دو گنا بڑھا دیں تو ان کی باہمی کشش چار گنا کم ہو جائے گی۔ اس کی مساوات کچھ ایسے ہے:
F=GMm
r2​
یہ مساوات ہم میں سے زیادہ تر افراد کو سمجھ نہیں آتی لیکن پھر بھی اچھی اور مختصر تو ہے۔ دو سہل ضربیں، ایک سادہ سی تقسیم اور آپ چاہے جہاں بھی ہوں، تجاذب کی مقدار جان سکتے ہیں۔ اسے آپ پہلا قدرتی قانون کہہ سکتے ہیں جس کو انسان نے سمجھا تھا۔ اسی وجہ سے نیوٹن کو عالمگیر شہرت ملی۔
پرنسپیا ہیلی کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی کیونکہ اس کی تکمیل کے دوران نیوٹن اور ہُک کا انورس سکوئر لاء کی دریافت پر زبردست جھگڑا شروع ہو گیا اور نیوٹن نے اس کتاب کا تیسرا حصہ پیش کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بغیر پہلے دو حصے کسی کام کے نہیں تھے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنی خوشامد، دشواریوں اور پریشانیوں کے بعد ہیلی نے نیوٹن سے تیسرا حصہ نکلوایا ہوگا۔
ہیلی کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ رائل سوسائٹی نے اس کتاب کو چھپوانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ تاہم مالی مشکلات کا عذر کر کے انہوں نے انکار کر دیا۔ ایک سال قبل انہوں نے مچھلیوں کی تاریخ پر ایک مہنگی مگر ناکام کتاب چھپوائی تھی اور ان کے خیال میں ریاضی جیسے مضمون پر کتاب کا چھاپنا ممکن نہیں تھا۔ اب چھاپنے کی ساری ذمہ داری ہیلی پر آن پڑی جس کی معاشی حالت ویسے بھی کافی پتلی تھی۔ نیوٹن کبھی بھی اس طرح کے کاموں پر اپنا پیسہ لگانے کا قائل نہیں تھا۔ جیسے تیسے کر کے ہیلی نے کتاب چھپوائی۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ انہی دنوں ہیلی نے رائل سوسائٹی میں کلرک کی نوکری حاصل کی تھی۔ سوسائٹی نے اسے بتایا کہ معاشی مشکلات کے سبب سوسائٹی اسے مجوزہ 50 پاؤنڈ دینے سے معذور ہے۔ تاہم انہوں نے اس کے بدلے اسے متذکرہ بالا مچھلیوں کی تاریخ والی کتاب کی کاپیاں دینے کا وعدہ کیا۔
نیوٹن کے قوانین نے بہت ساری باتوں کی وضاحت کی جیسا کہ سمندری لہروں کا مد و جذر، اجرامِ فلکی کی حرکات، توپ کے گولے زمین پر گرنے سے قبل قوس کیوں بناتے ہیں، اگر زمین گول ہے اور سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ (زمین کی رفتار اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ خطِ استوا پر زمین کی رفتار 1600 کلومیٹر فی گھنٹہ جبکہ قطبین پر صفر ہے۔ لندن میں یہ رفتار 998 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے) کی رفتار سے گھوم رہی ہے تو ہم سب اس سے نیچے کیوں نہیں گر جاتے؟ اس کتاب کو سمجھنے میں لوگوں کو کچھ عرصہ لگا۔ تاہم ایک بات شروع سے ہی متنازعہ رہی۔
متنازعہ امر یہ تھا کہ زمین بالکل گول نہیں۔ نیوٹن کے نظریے کے مطابق زمین کی حرکت سے پیدا ہونے والی مرکز گریز قوت کی وجہ سے زمین قطبین پر نسبتاً چپٹی اور خطِ استوا پر نسبتاً پھیلی ہوئی ہونی چاہئے۔ اسی وجہ سے سیارے بالکل گول نہیں بلکہ ہلکے سے بیضوی بن جاتے ہیں۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ سکاٹ لینڈ میں ڈگری کی قیمت اٹلی والی ڈگری سے چھوٹی ہوتی۔ یعنی جوں جوں ہم قطبین کی طرف جاتے جائیں، ڈگری چھوٹی ہوتی جائے گی۔ اب جو لوگ زمین کو مکمل کُرہ سمجھ کر اس کی پیمائش کر رہے تھے، ان کے لیے یہ بری خبر ثابت ہوئی۔
نصف صدی تک لوگ زمین کی پیمائش کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان میں سے ایک انگریز ریاضی دان رچرڈ نارووڈ تھا۔ جوانی میں نارووڈ نے ہیلی کی غوطہ خور مشین سے مماثل مشین کی مدد سے برمودا میں سمندر کی تہہ سے موتی نکالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا کیونکہ نہ تو یہ مشین ٹھیک طرح سے کام کر رہی تھی اور نہ ہی اس جگہ موتی موجود تھے۔ تاہم اسی دوران اس نے ایک اور اچھوتا کام کر دکھایا۔ اس دور میں برمودا کا سفر بحری کپتانوں کے لیے بھیانک خواب کی مانند تھا۔ نہ صرف یہ کہ سمندر بہت وسیع ہے بلکہ برمودا بھی انتہائی چھوٹا ہے اور اس دور میں بحری رہنمائی کے آلات انتہائی بیکار ہوتے تھے۔ اس وقت تک تو بحری میل کی پیمائش پر بھی اتفاق نہیں ہوتا تھا۔ حساب کتاب کی انتہائی معمولی سی غلطی سمندر کے دوسرے کنارے موجود برمودا سے بہت دور لے جاتی تھی۔ نارووڈ کی اصل دلچسپی ٹرگنومیٹری اور زاویوں میں تھی۔ اسی لیے اس نے بحری رہنمائی کے لیے ریاضی سے مدد لینے کا فیصلہ کیا اور ڈگری کی پیمائش کا سوچا۔
اگلے دو سال تک نارووڈ نے ٹاور آف لندن سے شمال میں یارک تک کا 208 میل کا پیدل سفر بار بار طے کیا اور ہر مرتبہ اس نے اپنے پاس موجود زنجیروں سے پیمائش جاری رکھی۔ اس نے زمین کے نشیب و فراز کے علاوہ راستے کے پیچ و خم کو بھی مدِنظر رکھا۔ آخری مرحلے میں اس نے سال کے اسی ماہ اور اسی دن اور اسی وقت یارک میں سورج کا زاویہ ماپا جو اس نے ایک سال قبل لندن میں ماپا تھا۔ اس طرح اس نے ایک ڈگری کی قیمت نکالی اور اس کی مدد سے زمین کے گرد فاصلے کا حساب لگایا۔ یہ کام انتہائی دشوار تھا کہ ایک انتہائی معمولی سی غلطی سے بھی کئی میل کا فرق پڑ سکتا تھا۔ اس نے فخر سے بتایا کہ ایک ڈگری کی قیمت 110.72 کلومیٹر ہے اور غلطی کا اندازہ اس نے زیادہ سے زیادہ چھ سو گز لگایا۔
1637 میں نارووڈ نے اپنا شاہکار The Seaman's Practice چھپوایا جو کامیاب رہا۔ اس کتاب کے 17 ایڈیشن چھپے اور اس کی وفات کے 75 سال بعد بھی یہ کتاب چھپ رہی تھی۔ بعد میں نارووڈ اپنے خاندان سمیت برمودا منتقل ہو گیا اور اس نے زندگی کی نئی شروعات کیں۔ اپنے فارغ وقت میں اس نے ٹرگنومیٹری پر توجہ دی۔ برمودا میں اس نے کل 38 سال گزارے۔ یہ سوچنا دشوار نہیں کہ اس نے وہاں عیش اور سکون کی زندگی گزاری ہوگی۔ تاہم ایسا نہیں۔ لندن سے روانگی کے وقت اس کے دو بیٹے ایک نوجوان پادری کے کمرے میں رہے اور انہوں نے پتہ نہیں کیا کیا کہ پادری نے اپنی بقیہ زندگی نارووڈ کے لیے ہر ممکن مشکل پیدا کرنے میں گزاری۔
نارووڈ کی بیٹیوں نے بھی اپنی شادیوں سے باپ کے لیے کافی مشکلات پیدا کیں۔ ایک کا شوہر جو شاید متذکرہ بالا پادری کا ہی بھیجا ہوا تھا، نے نارووڈ کے خلاف مسلسل چھوٹے چھوٹے الزامات کا سلسلہ جاری رکھا جس کی وجہ سے اسے بار بار برمودا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا پڑتا۔ 1650 کی دہائی میں وچ ہنٹ کا سلسلہ برمودا تک پہنچ گیا اور بقیہ زندگی نارووڈ نے اسی خوف میں گزاری کہ اس کے ٹرگنومیٹری کی علامات کو شیطانی علامات نہ سمجھ لیا جائے۔ اسی وجہ سے ہمیں نارووڈ کی زندگی کے آخری برسوں کے بارے نہ ہونے کے برابر معلومات ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ زمین کی پیمائش کا کام فرانسیسیوں تک آن پہنچا۔ فرانس کے ماہرِ فلکیات جین پیکارڈ نے ٹرائینگولیٹنگ کے لیے انتہائی پیچیدہ اور دقیق طریقہ ایجاد کیا جس میں دائرے کی چوتھائی کی پیمائش، پنڈولم گھڑیاں، اجرامِ فلکی کا مشاہدہ خواں کے عین سر پر ہونا اور دوربینیں (تاکہ مشتری کے چاندوں کی حرکات دیکھی جا سکیں) لازمی ہوتی تھیں۔ یورپ بھر میں دو سال تک اس طرح پیمائش کرنے کے بعد اس نے 1669 میں ایک ڈگری کی درست تر قیمت 110.46 کلومیٹر بتائی۔ اہلِ فرانس کے لیے یہ اعزاز کی بات تھی کہ زمین کا مکمل گول ہونا اس پیمائش کی بنیاد تھا جسے نیوٹن نے ماننے سے انکار کر دیا۔
مزید دشواری یہ پیدا ہوئی کہ پیکارڈ کے طریقے سے دو باپ بیٹے جیوانی اور جیکوئس کیسینی نامی سائنس دانوں نے زمین کی پیمائش نسبتاً بڑے پیمانے پر کی اور بتایا کہ زمین خطِ استوا کی بجائے قطبین پر زیادہ موٹی ہے جو نیوٹن کے نظریے کے عین خلاف تھا۔ اسی وجہ سے اکیڈمی آف سائنس نے جنوبی امریکہ کے لیے مہم روانہ کی تھی۔
اینڈیز پہاڑ اس وجہ سے چنے گئے کہ ایک تو وہ خطِ استوا پر ہیں، دوسرا یہ بھی کہ پہاڑوں کا مشاہدہ آسان تر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اینڈیز کے پہاڑ مستقل بادلوں سے ڈھکے رہتے ہیں اور ایک گھنٹہ مشاہدے کے لیے انہیں کئی کئی ہفتے انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کا چنا ہوا علاقہ دنیا کا سب سے دشوار گزار علاقہ تھا۔ پیرو کے لوگ اس علاقے کو اپنی زبان میں ‘حادثاتی’ علاقہ کہتے ہیں۔ یہ پہاڑ نہ صرف انتہائی دشوار چڑھائی کے تھے بلکہ ان تک پہنچنے کے لیے گھنے جنگلوں، پتھریلے صحراؤں اور بپھرے دریاؤں وغیرہ سے بھی گزرنا پڑتا تھا جس کا نہ تو کوئی نقشہ تھا اور نہ ہی ساز و سامان ملنے کی توقع ہوتی تھی۔ مہم جو پورے ساڑھے نو سال تک ان مشکلات سے نبرد آزما رہے۔ مہم کی تکمیل سے ذرا قبل انہیں اطلاع ملی کہ دوسری فرانسیسی ٹیم نے شمالی سکینڈے نیویا (ان کی بھی اپنی مشکلات تھیں کہ انہیں دلدلوں اور برفانی پانیوں سے گزرنا پڑتا تھا) نے یہ بات ثابت کر دی تھی کہ قطبین کی جانب واقعی ڈگری کی قیمت اسی طرح زیادہ تھی جیسا کہ نیوٹن نے بتایا تھا۔ اگر ہم زمین کو خطِ استوا پر ماپیں تو وہ قطبین پر ماپی گئی مقدار سے 43 کلومیٹر زیادہ ہے۔
اس طرح تقریباً ایک دہائی تک ناپسندیدہ کام کرنے کے بعد، یہ جانتے ہوئے کہ کوئی اور یہ کام پہلے ہی کر چکا ہے، ان کا نتیجہ پہلی ٹیم کے موافق تھا۔ جب انہوں نے واپسی کا رخ کیا تو دونوں سربراہ ابھی تک بات نہیں کرتے تھے اور انہوں نے واپسی کے لیے الگ الگ بحری جہاز پکڑے۔
نیوٹن کی کتاب میں ایک اور دلچسپ بات درج تھی۔ اگرآپ سیسے کے ایک گولے کو کسی بڑے پہاڑ کے پاس لٹکائیں تو وہ معمولی سا پہاڑ کی جانب کھینچا ہوا ہوگا۔ اگر آپ اس پہاڑ کے وزن کی پیمائش کر لیں تو پھر ہم پوری زمین کی تجاذبی قوت کو جان سکتے ہیں اور زمین کا وزن بھی۔
اس مہم نے یہ کوشش بھی کی تھی لیکن تکنیکی مشکلات اور باہمی دشمنی کی وجہ سے ناکام رہے۔ اس پر 30 سال بعد برطانوی ماہرِ فلکیات نیول ماسکلائن نے کام شروع کیا۔ اس نے زمین کا وزن ماپنے کا طریقہ بنایا۔
ماسکلائن نے محسوس کیا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ متناسب قسم کا پہاڑ کیسے تلاش کیا جائے، کیونکہ متناسب پہاڑ کا وزن جاننا آسان ہو جائے گا۔ اس کے کہنے پر رائل سوسائٹی نے ایک قابلِ اعتبار بندہ اس کام کے لیے مقرر کیا جو برطانیہ بھر میں پھر کر ایسا پہاڑ تلاش کرتا۔ ماسکلائن کا ایک جاننے والا چارلس میسن ایسا ہی ماہرِ فلکیات اور معائنہ کار تھا۔ ان کی دوستی 11 سال قبل اس وقت شروع ہوئی تھی جب انہوں نے سورج کے سامنے سے زہرہ کے گزرنے کا مشاہدہ کرنا تھا۔ ایڈمنڈ ہیلی برسوں پہلے بتا چکا تھا کہ اگر زمین کے مختلف مقامات سے اس کا مشاہدہ کیا جائے تو زمین اور سورج کا فاصلہ اور دیگر اجرامِ فلکی کا زمین سے فاصلہ بھی جان سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے زہرہ کا سورج کے سامنے سے گزرنا بہت بے قاعدہ ہے۔ یہ ہمیشہ آٹھ سال کے دوران دو بار ہوتا ہے اور پھر سو سال سے زیادہ وقفہ آ جاتا ہے۔ ہیلی کی زندگی میں ایسا واقعہ نہیں پیش آیا (حالیہ دو بار 8 جون 2004 اور 2012 میں ہوئے ہیں۔ 21ویں صدی میں دوبارہ ایسا نہیں ہوگا)۔ تاہم یہ خیال لوگوں کے ذہن میں رہا اور اگلی بار 1761 میں جب ایسا وقت آیا تو سائنسی دنیا اس کے لیے تیار تھی۔ ہیلی کو مرے 20 برس گزر چکے تھے۔ شاید ہی اس سے قبل کسی فلکیاتی مشاہدے کے لیے دنیا اتنی تیار ہوئی ہو۔
اس دور کے سائنس دانوں نے پوری احتیاط کے ساتھ زمین پر 100 جگہوں کا انتخاب کیا جو سائبیریا، چین، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، وسکونسن، برطانیہ وغیرہ تھے۔ فرانس نے 32، برطانیہ نے 18 ماہرِ فلکیات بھیجے جبکہ سوئیڈن، روس، اٹلی، جرمنی، آئرلینڈ اور دیگر ممالک سے بھی بہت سارے سائنس دان اس کام پر نکلے۔
اسے ہم دنیا کی پہلی مشترکہ سائنسی مہم کہہ سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہر جگہ اسے مشکلات پیش آئیں۔ کئی جگہ سائنس دانوں کا سامنا جنگ، بیماری یا بحری جہاز کی تباہی سے ہوا۔ کئی سائنس دان اپنی منزل پر تو پہنچ گئے لیکن استوائی گرمی سے ان کے آلات خراب یا تباہ ہو چکے تھے۔ فرانسیسیوں کو سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔ ایک فرانسیسی مہینوں تک برف، کشتی اور گھوڑا گاڑی پر سفر کر کے سائبیریا پہنچا۔ راستے بھر اس نے ہر اونچ نیچ پر اپنے آلات کا معائنہ کیا تھا۔ تاہم اس کی منزل کا آخری چھوٹا سا حصہ ناقابلِ عبور دریاؤں سے بھرا ہوا تھا کیونکہ ان دنوں موسمِ بہار کی بارشیں بہت زیادہ ہوئی تھیں۔ مقامی افراد نے اس پر الزام دھرا کہ وہ اپنے عجیب عجیب آلات آسمان کی طرف کیے رہتا تھا جس سے یہ بارشیں ہوئیں۔ اگرچہ اس کی جان تو بچ گئی لیکن کسی قسم کا سائنسی مشاہدہ نہ کر سکا۔
دوسرا فرانسیسی مقررہ وقت سے ایک سال قبل ہی ہندوستان کو روانہ ہوا لیکن یکے بعد دیگر مشکلات کے سبب وہ ابھی راستے میں ہی تھا کہ زہرہ نے سورج کے سامنے اپنا سفر شروع کر لیا۔ سمندر ایسے مشاہدات کے لیے بدترین جگہ ہوتی ہے۔
خیر، چونکہ آٹھ سال بعد اس کا دوبارہ موقع تھا، اس لیے اس نے ہندوستان پہنچ کر انتظار شروع کر لیا۔ آٹھ سالوں کے دوران اس نے بہترین رصد گاہ بنائی اور اسے ہر طرح سے آزمایا۔ تاہم 4 جون 1769 کی صبح کو جب زہرہ نے سورج کے سامنے سے گزرنا تھا، تو سورج کے سامنے بادل کا ایک ٹکڑا آن کر رک گیا۔ یہ ٹکڑا تقریباً 3 گھنٹے، 14 منٹ اور 7 سیکنڈ تک سامنے رہا اور زہرہ نے سورج کے سامنے سے گزرنے پر عین اتنا وقت لگایا۔
مایوس ہو کر جب اس نے اپنا ساز و سامان باندھ کر بندرگاہ کا رخ کیا تو پیچش کا شکار ہو کر ایک سال کے قریب بستر پر پڑا رہا۔ جب صحت یاب ہو کر جہاز سے روانہ ہوا تو افریقہ کے ساحل کے نزدیک ایک سمندری طوفان سے جہاز ڈوبتے ڈوبتے بچا۔ آخرکار جب ساڑھے گیارہ سال بعد خالی ہاتھ گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے رشتہ داروں نے اسے مردہ سمجھ کر اس کی ملکیت آپس میں بانٹ لی تھی۔
برطانویوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ میسن کے ساتھ نوجوان جیرمیاہ ڈکسن تھا جو بہت اچھے دوست بن گیا۔ ان کو ہدایت تھی کہ وہ سماٹرا پہنچ کر مشاہدہ کریں۔ تاہم سمندری سفر کے اگلے روز ہی ان کے جہاز پر فرانسیسی جنگی کشتی نے حملہ کیا۔ میسن اور ڈکسن نے رائل سوسائٹی کو خط بھیجا کہ ان حالات میں ان کا سفر جاری رکھنا غیرضروری اور مہلک ثابت ہو سکتا تھا۔ انہیں جواب ملا کہ قوم اور سائنس دانوں نے ان سے بہت بلند توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں اور ان کی ناکامی پوری قوم کی ناکامی شمار ہوگی اور یہ بھی کہ وہ اپنا معاوضہ پہلے ہی لے چکے ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا لیکن ان کے سماٹرا پہنچنے سے قبل وہاں فرانسیسیوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے راس امید کے مقام پر اس کا ادھورا مشاہدہ کیا۔ واپسی پر جب وہ سینٹ ہیلینا رکے تو ان کی ملاقات ماسکلائن سے ہوئی جس کے مشاہدات بادلوں کی وجہ سے نہ ہو سکے۔ میسن اور ماسکلائن کی گہری دوستی ہو گئی اور انہوں نے سمندری بہاؤ پر کئی ہفتے کام کیا۔
ماسکلائن کی برطانیہ واپسی پر اسے آسٹرانومر رائل بنایا گیا اور اس نے میسن اور ڈکسن کے ساتھ اپنے تجربات کی روشنی میں 4 سالہ سفر پر امریکہ روانہ ہو گئے جہاں انہوں نے 244 میل کے خطرناک علاقے میں ولیم پن اور لارڈ بالٹی مور کی ریاستوں پینسلووینیا اور میری لینڈ کی سرحدوں کا تعین کیا۔ ان کے کام کو آج میسن-ڈکسن حد کہا جاتا ہے جو غلامی کی حامی اور مخالف ریاستوں کی حد بن گئی۔ اس کام کے علاوہ انہوں نے ساتھ ساتھ کئی فلکیاتی مشاہدے بھی کیے اور اس صدی میں ماپی گئی ایک ڈگری کی درست ترین قیمت بھی معلوم کی۔ اس وجہ سے برطانیہ میں ان کی زیادہ عزت کی گئی۔
یورپ میں ماسکلائن اور اس کے جرمن اور فرانسیسی ساتھی اس نتیجے پر پہنچے کہ 1761 میں زہرہ کا مشاہدہ ناکام رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بے شمار افراد مشاہدہ کرتے ہوئے بالکل متضاد نتیجوں پر پہنچے تھے۔ زہرہ کے سورج کے سامنے گزرنے کا درست مشاہدہ کرنے کا سہرہ یارکشائر والے جیمز کُک کے سر بندھا جس نے تاہیتی کے پہاڑوں پر سے کیا تھا۔ پھر کُک نے آسٹریلیا کو تاجِ برطانیہ کے نام پر دریافت کیا۔ واپسی پر اس کے پاس اتنی معلومات تھیں کہ ان کی مدد سے فرانسیسی ماہرِ فلکیات جوزف لالینڈ نے سورج اور زمین کا درمیانی فاصلہ درستگی سے ناپا جو 15 کروڑ کلومیٹر سے کچھ زیادہ تھا۔ اگلی صدی میں زہرہ کے ایسے دو مزید مشاہدوں کے بعد ماہرینِ فلکیات نے یہ فاصلہ 14 کروڑ 95 لاکھ 90 ہزار کلومیٹر معلوم کیا جو آج تک نہیں تبدیل ہوا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ بالکل درست فاصلہ 1,49,59,78,70,691 میٹر ہے۔ آخرکار خلاء میں زمین کا مقام معلوم ہو گیا۔
میسن اور ڈکسن نے انگلستان کا رخ کیا اور گھر پہنچ کر نامعلوم وجوہات کی بناء پر تعلق ختم کر دیا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے مشہور افراد کے بارے کیسے اتنی کم معلومات ہیں۔ ڈکسن کے بارے نیشنل بائیوگرافی ڈکشنری میں درج ہے کہ وہ کوئلے کی کان میں پیدا ہوا۔ کب، کیوں اور کیسے، یہ قاری کے تخیل پر چھوڑ دیا گیا۔ یہ بھی درج ہے کہ اس کی وفات 1777 میں ڈرہم میں ہوئی۔ اس کے نام اور میسن کے ساتھ طویل رفاقت کے علاوہ اس کے بارے کچھ نہیں معلوم۔
میسن کے بارے بھی کچھ زیادہ معلومات نہیں۔ 1772 میں اس نے ماسکلائن کی دعوت پر متناسب پہاڑ کی تلاش کا کام شروع کیا اور آخرکار اس نے وسط سکاٹ لینڈ میں ایسا پہاڑ تلاش کر لیا۔ تاہم وہ کسی قیمت پر بھی اس کے مشاہدے کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس نے پھر کبھی عملی میدان کا رُخ نہیں کیا۔ اس کے بارے اگلی اطلاع 1786 میں ملتی ہے جب اس نے اچانک ہی فلاڈلفیا کا رُخ کیا اور اپنی بیوی اور 18 بچے بھی ساتھ لایا۔ عجیب بات یہ ہے کہ 18 سال قبل سروے کے بعد پہلی بار اس نے امریکہ کا رُخ کیا تھا اور وہاں اس کا نہ تو کوئی دوست تھا اور نہ ہی کوئی جاننے والا۔ وہاں پہنچنے کے چند ہفتے بعد مر گیا۔
میسن نے جب سروے سے انکار کیا تو پہاڑ کا سروے کرنے کا کام ماسکلائن کے ذمے لگا۔ 1774 کے موسم گرما میں چار ماہ تک اس نے یہ کام کیا اور اس دوران اس نے اپنی ٹیم کے افراد کو ہر ممکن طور پر اور ہر ممکن زاویے سے پہاڑ کی پیمائش کا کام کرنے کی ہدایات دیں۔ ان پیمائشوں سے پہاڑ کا وزن معلوم کرنے کا کام انتہائی طویل تھا۔ اس نے ان پیمائشوں کو ترتیب دینے اور آسان بنانے کا طریقہ اپنایا اور اس نے پورے پہاڑ کی شکل بنائی اور اس کے بیرونی خطوط ایجاد کیے ۔
اس کی پیمائشوں سے ہٹن نے زمین کا کل وزن 5 کروڑ ارب کلو نکالا۔ اس کی مدد سے ہم نظامِ شمسی کے دیگر اراکین بشمول سورج کے، کا وزن جان سکتے ہیں۔ بیرونی خطوط کا علم اس کے ساتھ ہمیں اضافی ملا۔
تاہم ہر سائنس دان ان نتائج سے مطمئن نہیں تھا۔ ماسکلائن کی پیمائش کی اصل خامی یہ تھی کہ اس سے ہمیں پہاڑ کے وزن کا اندازہ ہوا۔ اصل وزن نہیں ناپا جا سکا۔ اپنی سہولت کی خاطر ہٹن نے پہاڑ کی کثافت کو عام پتھر کے برابر یعنی پانی سے اڑھائی گنا زیادہ شمار کی۔ تاہم یہ محض اندازہ ہی تھا۔
اس بارے پھر جان مچل نے توجہ دی جو تھورن ہل نامی گاؤں میں رہتا تھا۔ اگرچہ دور دراز جگہ پر رہنے اور کم مواقع کی وجہ سے اسے زیادہ شہرت نہیں ملی لیکن پھر بھی سائنسی حلقوں میں اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔
اس نے سب سے پہلے زلزلوں کی لہر نما نوعیت کو سمجھا اور مقناطیسیت اور تجاذب پر بھی کام کیا۔ اس کے علاوہ اس نے دیگر سائنس دانوں سے لگ بھگ 200 سال قبل بلیک ہول یعنی سیاہ شگافوں کے امکان پر بھی کام کیا۔ بلیک ہول کے بارے تو نیوٹن نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا۔ جب مشہور جرمن موسیقار ولیم ہرشل نے فلکیات میں دلچسپی محسوس کی تو اس نے مچل سے ہی دوربین بنانے میں رہنمائی لی۔ اس وجہ سے فلکیات کی دنیا آج بھی اس کی شکر گزار ہے (1781 میں ہرشل موجودہ دور کا پہلا فرد تھا جس نے سیارہ دریافت کیا۔ پہلے اس نے اس کا نام برطانوی بادشاہ کے نام پر جارج رکھا لیکن پھر اسے یورینس نام دیا گیا)۔
مچل کی کارگزاریوں میں سے زمین کا وزن کرنے والی مشین بنانا ہی سب سے اہم ہے۔ تاہم تجربات کرنے سے قبل ہی اس کی وفات ہو گئی اور اس کی مشین لندن کے ایک سائنس دان ہنری کیونڈش کو ملی۔
کیونڈش بذاتِ خود ایک پوری کتاب ہے۔ منہ میں سونے کا چمچ لیے پیدا ہونے والے کیونڈش کا دادا اور نانا نواب تھے۔ اپنے دور کا سب سے قابل انگریز سائنس دان کہلانے والا کیونڈش عجیب ترین بھی تھا۔ ایک ہم عصر کے مطابق کیونڈش انتہائی شرمیلا اور تنہائی پسند انسان تھا۔ کسی بھی انسان سے اس کا سامنا اس کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث بنتا تھا۔
ایک بار کیونڈش نے دستک پر دروازہ کھولا تو سامنے ایک بندہ کھڑا تھا جو اسی وقت آسٹریا سے آیا تھا۔ کیونڈش کو دیکھتے ہی اس نے تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیئے۔ چند لمحے برداشت کرنے کے بعد کیونڈش نے سیدھا راستے پر دوڑ لگا دی اور اپنے گھر کو کھلا چھوڑ کر دور نکل گیا۔ کئی گھنٹوں بعد اس کی واپسی ہوئی۔ اس کے ملازمین بھی اس سے بذریعہ خط رابطہ کرتے تھے۔
بعض اوقات اسے محفلوں میں بھی جانا پڑتا تھا لیکن یہ بات ہمیشہ دیگر مہمانوں کو بتا دی جاتی تھی کہ وہ کسی بھی قیمت پر کیونڈش سے براہ راست بات نہیں کریں گے اور نہ ہی اس کی طرف دیکھیں گے۔ اگر کسی مدد یا مشورہ درکار ہو تو وہ اس کے قریب ایسے جائیں جیسے اتفاقاً ادھر پہنچے ہوں اور دوسری طرف منہ کر کے اپنا مسئلہ بیان کریں۔ اگر ان کے مسئلے کی کوئی سائنسی اہمیت ہوتی تو شاید منمناہٹ جیسی آواز میں کچھ جواب مل جاتا مگر اکثر اوقات لوگ یہی دیکھتے کہ کیونڈش نے کسی دوسرے پرسکون گوشے کی طرف دوڑ لگا دی ہوتی تھی۔
اپنی دولت اور تنہائی کی وجہ سے اس نے اپنے گھر کو بڑی لیبارٹری میں بدل دیا تھا جہاں اس نے ہر طبعی سائنس پر کام کیا تھا چاہے وہ برقیات ہوں، حرارت، تجاذب، گیس یا کچھ بھی۔ اس صدی کے لوگوں کو مادے کی طبعی خصوصیات میں دلچسپی ہوتی تھی۔ امریکہ میں بنجامن فرینکلن نے اپنی جان داؤ پر لگا کر پتنگ کی مدد سے آسمانی بجلی کو قابو کیا۔ فرانس میں ایک سائنس دان نے اپنے منہ میں ہائیڈروجن بھر کر اسے شعلے پر اگل کر اس کی آتش گیر خاصیت کا مظاہرہ کیا۔ اس تجرے سے یہ بات بھی پتہ چلی کہ ایسے تجربات کے نتیجے میں ممکن ہے کہ بھنویں بھی جل سکتی ہیں۔ کیونڈش نے خود کو بتدریج بڑھتی ہوئی شدت کی بجلی کے جھٹکے دینا شروع کر دیئے اور جب تک ہوش میں رہتا، تجربات جاری رہتے۔
دیگر کامیابیوں کے علاوہ کیونڈش نے سب سے پہلے ہائیڈروجن کو الگ کرنے اور پھر ہائیڈروجن کو آکسیجن سے ملا کر پانی بنانے کے تجربات کیے ۔ تاہم اس کے ہر تجربے میں ہی انفرادیت ہوتی۔ اکثر اپنی تصنیفات میں وہ جو باتیں بیان کرتا، ان تجربات کے بارے اس کے ساتھیوں کو بھی علم نہیں ہوتا تھا۔ رازداری میں وہ نیوٹن سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔ برقی موصل سے متعلق اس کے تجربات ایک صدی قبل از وقت تھے۔ اس کے کام کا زیادہ تر حصہ اگلی صدی کے اواخر میں جا کر جانا گیا جب کیمبرج کے طبعیات دان جیمز کلرک میکسویل نے کیونڈش کے کاغذات کی تدوین شروع کی۔ تب تک اس کے زیادہ تر کاموں کا سہرہ دوسرے سائنس دان لے چکے تھے۔
کسی کو بتائے بناء کیونڈش قانون بقائے توانائی، اوہم کا قانون، ڈالٹن کا قانون برائے جزوی دباؤ، چارلس کا گیسوں کا قانون، برقی موصلیت کے اصولوں وغیرہ کو جان چکا تھا۔ تاہم یہ اس کے کیے ہوئے کاموں کا معمولی سا حصہ ہیں۔ اس نے ڈارون اور کیلون سے قبل زمین کی سست ہوتی ہوئی گردش پر ٹائڈل فرکشن پر بھی کام کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے ایسے اشارے بھی دیئے جن کی بنیاد پر نوبل گیسوں کا گروپ دریافت ہوا۔ ان میں سے بعض اتنی عجیب ہیں کہ آخری گیس 1962 میں جا کر دریافت ہوئی۔ تاہم اس وقت ہماری دلچسپی 1797 میں 67 سال کی عمر میں کیونڈش کے آخری تجربے پر مرکوز ہے جو اس نے جان مچل کی چھوڑی ہوئی مشین پر کیا تھا۔
جب مچل کی مشین کو جوڑا گیا تو وہ ایک بہت بڑی ترازو کی مانند تھی۔ اس میں وزن، ان کا اثر ختم کرنے والےدیگر باٹ، پنڈولم، سلاخیں اور دیگر تاریں وغیرہ تھیں۔ مشین کا اہم ترین حصہ دو 350 پاؤنڈ وزنی سیسے کے گولے تھے جن کے ساتھ دو چھوٹے گولے لٹکائے گئے تھے۔ تجربے کا اصل مقصد چھوٹے گولوں پر بڑے گولوں کا تجاذبی اثر دیکھنا مقصود تھا۔ اس تجربے سے تجاذبی مستقل پتہ چلتا اور تجاذبی مستقل کی مدد سے زمین کی کمیت (طبعیات دانوں کے نزدیک وزن اور کمیت دو الگ باتیں ہیں۔ آپ جہاں بھی ہوں، آپ کی کمیت ایک ہی رہے گی جبکہ وزن زمین یا کسی دوسرے بڑے اجرامِ فلکی سے قربت یا دوری پر بدلتا جائے گا۔ اگر اگر آپ چاند پر جائیں تو آپ کی کمیت وہی رہے گی لیکن وزن کافی کم ہو جائے گا۔ تاہم زمین پر عام استعمال کے دوران وزن اور کمیت میں زیادہ فرق نہیں) نکالی جا سکتی تھی۔
چونکہ تجاذب ہی اجرامِ فلکی کو مدار میں متحرک رکھتی ہے اور اسی کی وجہ سے چیزیں زمین پر گرتی ہیں، ہم اسے بہت طاقتور قوت سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں۔ بحیثیتِ مجموعی یہ قوت بہت طاقتور سہی لیکن اجزاء کی سطح پر اس کی شدت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ ایک طرف تو یہی کشش سیاروں کو سورج کے گرد گردش کرنے پر مجبور کرتی ہے تو دوسری طرف میز پر پڑی کتاب اٹھانے میں ہمیں کوئی دقت نہیں پیش آتی، حالانکہ ہم اس وقت پوری زمین کی کششِ ثقل پر قابو پا رہے ہوتے ہیں۔ کیونڈش کی کوشش یہ تھی کہ اس انتہائی قلیل مقدار والی کشش کی پیمائش کی جائے۔
نزاکت ہی اصل لفظ ہے۔ جس کمرے میں مشین تھی، اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے تھی۔ کیونڈش نے ساتھ والے کمرے میں بیٹھ کر دوربین کی مدد سے دیوار کے سوراخ کے پار مشین کا مطالعہ کیا۔ اس سارے عمل میں 17 مختلف لیکن ایک دوسرے سے منسلک پیمائشیں کرنی تھیں جن پر تقریباً ایک سال لگا۔ تاہم جب تجربہ پورا ہوا تو کیونڈش کے مطابق زمین کی کمیت 6 ارب کھرب مکعب ٹن تھی۔
آج سائنس دانوں کے پاس اتنی جدید مشینیں موجود ہیں کہ وہ ایک بیکٹیریا کا وزن بھی ناپ سکتے ہیں اور ان کی حساسیت اتنی زیادہ ہے کہ 75 فٹ دور جماہی لیتے بندے سے بھی ان کی پیمائش متاثر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس وقت بھی سائنس دان 1797 میں کیونڈش کے بیان کردہ وزن میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کرسکے۔ اس وقت کے اندازے کے مطابق زمین کی کمیت 5.9725 ارب کھرب معکب ٹن ہے جو کیونڈش کی پیمائش سے ایک فیصد کم ہے۔ مزے کی بات یہ کہ کیونڈش اور موجودہ حساب کتاب، دونوں نے 110 سال قبل نیوٹن کی بتائی ہوئی پیمائش کی تصدیق کی ہے جبکہ نیوٹن نے کسی قسم کا تجربہ بھی نہیں کیا تھا۔
جو بھی ہو، 17ویں صدی کے سائنس دان زمین کی شکل و صورت اور سورج اور دیگر سیاروں سے فاصلے وغیرہ سے بخوبی واقف تھے اور اب کیونڈش نے گھر بیٹھے انہیں زمین کی کمیت بھی بتا دی تھی۔ آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ ان سب معلومات کے ساتھ سائنس دانوں کو زمین کی عمر کے بارے جاننا کوئی مشکل نہیں لگا ہوگا۔ حقیقت میں انسان نے ایٹم کو توڑا اور ٹیلی ویژن، نائلن اور انسٹنٹ کافی وغیرہ بھی بنا لی تب کہیں جا کر زمین کی عمر معلوم ہوئی۔
اس کی وجوہات کو جاننے کے لیے آئیے سکاٹ لینڈ چلتے ہیں جہاں ایک غیر معروف بندے نے اپنی ذہانت کے بل پر سائنس کی ایک نئی شاخ متعارف کرائی جسے ہم آج ارضیات کے نام سے جانتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
5 سٹون بریکرز​
جب ہنری کیونڈش لندن میں زمین کی کمیت کے بارے تجربات میں مصروف تھا تو 400 میل دور اینڈنبرگ میں جیمز ہٹن کی وفات کے ساتھ ہی ایک اور اہم واقعہ رونما ہو رہا تھا۔ اگرچہ یہ موت جیمز ہٹن کے لیے بری خبر تھی لیکن سائنسی دنیا کے لیے اچھی خبر تھی کہ ہٹن کی وفات کے ساتھ جان پلے فیئر کے لیے راستہ ہموار ہو گیا اور وہ ہٹن کے کام کو دوبارہ لکھ سکتا۔
ہٹن انتہائی باریک بین اور خوش گفتار تھا اور وہ سُست رفتار عوامل جو زمین کی شکل و صورت بدلتے تھے، کے بارے اس سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ بدقسمتی سے ہٹن ان تمام معلومات کو آسان زبان میں لکھنے سے یکسر عاری تھا۔ اس کی سوانح حیات لکھنے والے ایک بندے کے مطابق اس کی لکھی ہوئی ہر سطر ایک معمہ ہوتی تھی۔ 1975 میں اس کی شاہکار تصنیف A Theory of the Earth with Proofs and Illustration سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
جس زمین پر ہم رہتے ہیں، وہ مادوں سے بنی ہے، تاہم یہ وہ زمین نہیں جو موجودہ دور کی زمین سے قبل ہوتی تھی بلکہ وہ زمین جو موجودہ زمین کی اگلی حالت ہوگی اور اسے ہم تیسری زمین کا نام دیتے ہیں اور یہ وہ زمین ہے جو سطح سمندر سے بلند تھی جبکہ ہماری موجودہ زمین وہ ہے جو اس وقت سمندر کی سطح کےنیچے تھی۔
اس کے باوجود انتہائی ذہانت سے اس نے ارضیات کے علم کی بنیاد رکھی اور زمین سے متعلق ہماری سمجھ بوجھ کو معنی عطا کیے ۔
ہٹن 1726 میں خوشحال سکاٹش خاندان میں پیدا ہوا اور ہر قسم کی سہولت اور عیش سے لطف اندوز ہوا۔ اس نے طب کا علم حاصل کیا لیکن زیادہ پسند نہ آیا اور اسے چھوڑ کر کاشتکاری اپنائی اور اپنی جائیداد پر آسانی اور سہولت سے اس مشغلے کو اپنائے رکھا۔ جب کھیت کھلیانوں اور گلہ بانی سے جی بھر گیا تو اس نے 1768 میں ایڈنبرگ کا رُخ کیا اور کوئلے اور کالک سے سال امونیک کی تیاری کا اچھا کاروبار کیا اور ساتھ ہی ساتھ دیگر سائنسی تجربات بھی جاری رکھے۔ اس دور میں ایڈنبرگ علوم و دانش کا مرکز تھا اور ہٹن نے اس سے ہر ممکن طور پر لطف اٹھایا۔ وہ اویسٹر کلب کا نمایاں رکن بنا اور اپنی شامیں مشہور شخصیات جیسا کہ ماہرِ معاشیات ایڈم سمتھ، کیمیا دان جوزف بلیک اور فلسفی ڈیوڈ ہیوم کے علاوہ کبھی کبھار بنجامن فرینکلن اور جیمز واٹ کے ساتھ گزاریں۔
اس دور کی روایات کے مطابق ہٹن نے ہر ممکن موضوع میں دلچسپی لی جو معدنیات سے تصوف یا روحانیات تک ہر چیز تھی۔ اس نے کیمیائی مرکبات پر تجربات جاری رکھے، کوئلے کی کانکنی کے طریقوں، نہریں بنانا، نمک کی کانوں کی سیر، جینیاتی وراثت، فوسل جمع کرنا اور بارشوں کے متعلق نظریات، فضاء کی ساخت، تحرک کے قوانین وغیرہ پر بھی ہاتھ صاف کیا۔ تاہم اس کی دلچسپی کا اصل محور ارضیات تھی۔
دیگر لوگوں کی مانند اس کے لیے یہ بات معمہ تھی کہ آخر سیپیوں اور دیگر سمندری جانوروں کے فوسل کیسے پہاڑوں کی چوٹیوں سے ملتے ہیں؟ آخر یہ وہاں کیسے پہنچتے ہیں؟ اس بارے دو مختلف آراء تھیں۔ ایک کے خیال میں اس کا جواب سمندروں کی اترتی چڑھتی سطحوں میں پوشیدہ تھی۔ انہیں نیچپونسٹ کہا جاتا تھا۔ ان کے خیال میں عالمگیر سیلابوں کے دوران پہاڑ وغیرہ بھی سب زیرِ آب آ جاتے تھے۔
دوسرے گروہ کو پلوٹونسٹ کہا جاتا ہے اور ان کے خیال میں سمندری سطح کی بجائے آتش فشاں اور زلزلوں کے علاوہ دیگر ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے زمین کی شکل بدلتی رہتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراض اٹھایا کہ جب سیلاب نہیں ہوتے تو یہ پانی کہاں چھپ جاتا ہے؟ مثال کے طور پر اگر اتنا پانی ہے کہ سیلاب سے ایلپس جیسے اونچے پہاڑ ڈوب جاتے ہیں تو پھر بعد میں یہ پانی کہاں چلا جاتا ہے؟ ان کا خیال تھا کہ زمین کے اندر اور اس کی سطح پر بھی مختلف قسم کی قوتیں کام کرتی رہتی ہیں۔ تاہم ان کے پاس بھی اس بات کا کوئی شافی جواب نہیں تھا کہ سمندری جانوروں کے فوسل آخر کیسے اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ جاتے ہیں؟
اس بارے غور و فکر کرتے ہوئے ہٹن کو کئی غیرمعمولی خیالات آئے۔ اس نے اپنی اراضی دیکھی تو صاف دکھائی دیا کہ یہ زمین چٹانوں کے کٹنے سے بنی ہے اور اس کی مٹی مسلسل نہروں اور دریاؤں سے بہہ کر کہیں اور چلی جاتی ہے۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ اگر یہی عمل ساری دنیا میں جاری و ساری رہتا تو اس وقت پوری دنیا ہموار ہو چکی ہوتی جبکہ اس کے آس پاس ہر جگہ پہاڑ بھی موجود تھے۔ اس نے سوچا کہ لازماً کوئی نہ کوئی ایسا عمل ہے جو زمین کی سطح کی تعمیرِ نو کرتا ہے اور پہاڑوں کو اوپر کی طرف اٹھاتا ہے اور یوں یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ اس نے یہ بھی جانا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود بحری جانوروں کے فوسل سیلابوں کی وجہ سے نہیں بلکہ سمندر کی تہہ میں موجود تھے جو بعد میں اوپر کو اٹھ کر پہاڑ بنی۔ اس نے یہ بھی جانا کہ زمین کے اندر موجود حرارت کی وجہ سے ہی نئی چٹانیں بنتی ہیں اور پہاڑی سلسلے بنتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سائنس دانوں کو یہ نظریات سمجھنے میں لگ بھگ دو سو سال لگ گئے اور پلیٹ ٹیکٹانکس کا نظریہ وجود میں آیا۔ اس کے علاوہ ہٹن کے خیال میں زمین میں اتنی بڑی تبدیلیاں راتوں رات نہیں بلکہ ناقابلِ یقین حد تک طویل عرصے میں ہوئیں۔ ان خیالات کی وجہ سے زمین کے بارے ہمارے نظریات بدلے۔
1785 میں ہٹن نے ان خیالات کو جمع کر کے ایک طویل مقالہ تحریر کیا اور پھر اینڈبرگ کی سوسائٹی کی میٹنگوں میں اسے پیش کرتا رہا۔ تاہم کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اس بے توجہی کی وجہ اس کا طرزِ بیان بھی ہے:
ایک صورت میں تشکیل کی وجہ اس چیز کے اندر ہے جو کہ الگ ہوئی، کیونکہ جب یہ چیز حرارت کی وجہ سے متحرک ہوئی تو یہ اس چیز میں موجود اصل مادے کا ردِ عمل تھا کہ جس کھائی میں یہ بنی، اس کی تشکیل ہوئی۔ دوسری صورت میں یہ وجہ اس چیز کے باہر تھی کہ جس کھائی میں یہ پیدا ہوئی۔ اگرچہ شدید ٹوٹ پھوٹ اور توڑ موڑ ہوتی رہی لیکن اس کی وجہ ابھی تک نامعلوم ہے۔ اور یہ کسی شاخ میں بھی نہیں پائی جاتی کیونکہ ہر ٹوٹ پھوٹ ایسی نہیں کہ جس میں معدنیات جمع ہو سکیں جیسا کہ عام ملتی ہیں۔
اب یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ سامعین میں سے کسی کو بھی ہٹن کی بات کی سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے۔ دوستوں نے اس امید پر کہ شاید غلطی سے ہی سہی، اس کا طرزِ بیان کچھ آسان ہو جائے، مشورہ دیا کہ وہ اس نظریے پر مزید کام کرے۔ اس نے اگلے دس سال اس پر کام کرتے گزارے اور 1795 میں اپنی کتاب دو جلدوں میں چھاپی۔
یہ دونوں جلدیں اس کے رجائی دوستوں کی توقعات سے بھی بدتر تھیں کہ اس نے اپنی تصنیف کے نصف حصے میں فرانسیسی اقوال فرانسیسی زبان میں ہی پیش کیے تھے۔ تیسری جلد 1899 میں ہٹن کی وفات کے سو سال بعد جا کر شائع ہوئی۔ چوتھی اور آخری جلد کبھی شائع نہ ہو سکی۔ ہٹن کی کتاب، Theory of Earth سائنس کی دنیا کی اہم ترین مگر سب سے کم پڑھی جانی والی کتب میں سے ایک ہے۔ اگلی صدی کے عظیم ترین ماہرِ ارضیات چارلس لائل نے بھی اعتراف کیا کہ اس کتاب کی اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آئی۔
خوش قسمتی سے ہٹن کا ایک دوست یونیورسٹی آف ایڈنبرگ میں ریاضی کا پروفیسر تھا جو بہت عمدہ نثر نگار تھا۔ ہٹن سے دوستی کی وجہ سے اکثر اسے سمجھ بھی آ جاتی تھی کہ ہٹن کہنا کیا چاہتا ہے۔ ہٹن کی وفات کے 5 سال بعد 1802 میں پلیفیئر نے ہٹن کے اصولوں کو سادہ زبان میں پیش کیا جس کا نام Illustrations of the Huttonian Theory of the Earth تھا۔ اس وقت ارضیات میں دلچسپی رکھنے والے افراد نے اس کتاب کو خوشی خوشی وصول کیا تاہم اس وقت ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ تاہم جلد ہی صورتحال بدل گئی۔ کیسے؟
1837 کے موسم سرما میں 13 ہم خیال افراد لندن میں فری میسن کی عمارت میں جمع ہوئے اور ایک کلب کی بنیاد رکھی۔ اس کلب کا نام جیوگرافیکل سوسائٹی رکھا گیا۔ اس کا مقصد ہر ماہ جمع ہو کر ارضیات سے متعلق گفتگو کرنا تھا اور پھر کھانا کھا کر گھر چلے جاتے۔ اس کھانے کی قیمت جان بوجھ کر 15 شلنگ رکھی گئی جو اس وقت کے حساب سے بہت زیادہ تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہر للو پنجو نہ آئے۔ تاہم جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ اس کلب کو کسی مستقل عمارت میں منتقل کرنا پڑے گا کہ لوگوں کی دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔ بمشکل دس سال میں رکنیت 400 سے بھی بڑھ گئی اور سارے کے سارے افراد طبقہ اشرافیہ سے متعلق تھے اور ایسا لگنے لگا کہ یہ کلب شاید رائل سوسائٹی سے بھی آگے نکل جائے۔
نومبر سے جون تک اراکین کے ہر ماہ دو اجلاس ہوتے اور پھر گرمیوں میں سب عملی میدان کا رخ کرتے۔ یاد رہے کہ ان افراد کو معدنیات سے اس لیے دلچسپی نہیں تھی کہ وہ اس سے پیسہ بناتے یا ان کے پاس جغرافیہ کی تعلیم ہوتی تھی، بلکہ یہ ایسے دولت مند افراد تھے جو اسے بطور شوق پیشہ ورانہ مہارت سے اپناتے تھے۔ 1830 تک ان کی تعداد 745 ہو گئی اور آج تک ایسا اجتماع دوبارہ نہ ہو سکا۔
آج تو یہ تصور کرنا بھی محال ہے لیکن اُس صدی میں ارضیات کے علم نے لوگوں کے تصورات پر اس حد تک قبضہ کر لیا تھا کہ اس طرح کی کوئی سائنس دوبارہ ایسا نہ کرسکی۔ 1839 میں جب روڈرک مرچیسن نے The Silurian System چھپوائی جو ایک خاص قسم کی چٹانوں سے متعلق تھی۔ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بک گئی اور اس کے چار ایڈیشن چھپے۔ اس کی قیمت 8 گنی تھی اور ہٹن کے انداز میں انتہائی ناقابلِ مطالعہ زبان میں لکھی گئی تھی (مرچیسن کے ایک پرستار نے اقرار کیا کہ اس کتاب میں مکمل طور پر ادبیت کا فقدان ہے)۔ 1841 میں جب چارلس لائل بوسٹن میں لیکچر دینے پہنچا تو اس کے ہر لیکچر کی 3,000 نشستیں فوراً بک جاتی تھیں۔
جدید دنیا میں اور خصوصاً برطانیہ میں مردوں کا محبوب مشغلہ شہر سے باہر نکل کر ‘پتھر توڑنا’ ہوتا تھا۔ ان سب افراد کے سر پر ہیٹ اور کالے لباس ہوتے۔ تاہم آکسفورڈ کا پادری بک لینڈ باقاعدہ تدریسی گاؤن پہن کر یہ کام کرتا تھا۔
اس شعبے میں بے شمار غیر معمولی افراد جمع ہوئے۔ مرچیسن نے اگرچہ تیس سال تک لومڑیوں کا پیچھا اور پرندوں کا شکار جاری رکھا اور اس کی ذہانت دی ٹائمز پڑھنے یا تاش کھیلنے تک محدود تھی۔ تاہم جب اس نے ارضیات کا رخ کیا تو بہت کم عرصے میں سب سے آگے نکل گیا۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر جیمز پارکنسن بھی تھا جو شروع میں سوشلٹ ہونے کے علاوہ اشتعال انگیز پمفلٹ چھاپتا تھا۔ 1794 میں اسے بادشاہ جارج کو ہلاک کرنے کی سازش میں پکڑا گیا کہ جب بادشاہ تھیٹر دیکھنے بیٹھتا تو سازشی لوگ اس وقت گُدی میں زہریلا تیر مارتے ۔ پریوی کونسل کے سامنے معاملہ پیش ہوا اور صاف لگ رہا تھا کہ اسے زنجیروں میں جکڑ کر آسٹریلیا بھیج دیا جائے گا لیکن پھر اس کے خلاف تمام الزامات خاموشی سے ختم کر دیئے گئے۔ اس واقعے کے بعد پارکنسن نے اپنی ترجیحات بدل لیں اور ارضیات میں دلچسپی لینے لگا اور جیولاجیکل سوسائٹی کے بانی اراکین میں سے ایک بنا۔ اس نے ارضیات پر ایک اہم کتاب بھی لکھی جس کا نام Organic Remains of a Former World تھا۔ یہ کتاب نصف صدی تک چھپتی رہی۔ اس نے دوبارہ کوئی مشکل نہیں پیدا کی۔ آج ہم اسے پارکنسن نامی بیماری پر کام کے حوالے سے جانتے ہیں جو اس دور میں رعشے کی بیماری کہلاتی تھی (اس کی ایک اور وجہ شہرت بھی ہے کہ شاید وہ دنیا کا واحد انسان ہے جس نے انعام میں ایک نیچرل ہسٹری میوزیم جیتا تھا۔ یہ عجائب گھر سر ایشٹن لیور نے لیسیسٹر سکوائر میں قائم کیا تھا۔ لیور کی عجائبات جمع کرنے کی خواہش نے اس کا دیوالیہ نکال دیا۔ پارکنسن نے 1805 تک اس کی ذمہ داری اٹھائی لیکن پھر جب مزید اخراجات برداشت نہ کر سکا تو اس نے نوادرات بیچ دیئے)۔
ان سب سے زیادہ با اثر چارلس لائل تھا جو ہٹن کی وفات کے سال اور اس سے 70 میل دور پیدا ہوا۔ سکاٹش النسل ہونے کے باوجود اس کی پرورش جنوبی انگلینڈ میں ہوئی کہ اس کی والدہ کے خیال میں سکاٹ لوگ بہت زیادہ شرابی ہوتے ہیں۔ اس دور کے شرفاء سائنس دانوں کی مانند چارلس کا تعلق بھی امیر گھرانے سے تھا اور اسے شاعر دانتے اور کائی پر حرفِ آخر مانا جاتا تھا۔ اپنے باپ کی وجہ سے ہی چارلس کو نیچرل ہسٹری میں دلچسپی ہوئی لیکن آکسفورڈ پہنچ کر اس پر پادری ولیم بک لینڈ کا جادو چل گیا اور پھر لائل کی بقیہ زندگی ارضیات سے متعلق ہو کر رہ گئی۔
بک لینڈ بھی کچھ عجیب سا انسان تھا۔ ایک کامیاب انسان ہونے کے باوجود اس اس کی عجیب عادتوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس کی اصل وجہ شہرت ہر قسم کے جانوروں کو گھر میں کھلا رکھنا اور ہر قسم کے جانور کو کھانا تھا۔ اس کے مہمانوں کے سامنے کبھی گنی پگ، کبھی چوہے، کبھی خارپشت تو کبھی سمندری جانور رکھے جاتے۔ چھچھوندر کے علاوہ ہر جانور میں بک لینڈ کو کوئی نہ کوئی فائدہ دکھائی دیتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے اسے کوپرولائٹ یعنی فاسل فضلے پر حرفِ آخر کا درجہ مل گیا اور اس کے گھر ایک میز پر اس کے اپنے مجموعے کو رکھا گیا تھا۔
سنجیدہ نوعیت کے تجربات کے دوران بھی اس کا رویہ عجیب ہوتا۔ ایک بار رات کو اس نے اپنی بیوی کو جھنجھوڑ کر جگایا اور بتایا کہ جس فوسل شدہ نشانات پر وہ کام کر رہا تھا، وہ بالکل ہی کچھوے کے لگتے ہیں۔ میاں بیوی پھر دوڑے دوڑے باورچی خانے گئے جہاں اس کی بیوی نے آٹے کی لئی بنائی اور اپنے پالتو کچھوے کو اس پر چلایا۔ کچھوے سے بننے والے نشانات واقعی انہی نشانات سے مماثل تھے۔ چارلس ڈارون اسے مسخرہ کہتا تھا لیکن چارلس لائل اسے کافی پسند کرتا تھا۔ اسی کے ساتھ 1824 میں چارلس لائل سکاٹ لینڈ کی سیر کو گیا اور پھر اس نے قانون کو چھوڑ کر کل وقتی ارضیات پکڑ لی۔
لائل کی قریب کی نظر بہت کمزور تھی اور انتہائی بھینگے پن کا شکار تھا (آخرکار اس کی بینائی مکمل طور پر چلی گئی تھی)۔ اس کی ایک اور عجیب عادت یہ تھی کہ جب سوچنے لگتا تو عجیب سی حالت میں کھڑا رہتا یا بیٹھ جاتا۔ مثال کے طور پر دو کرسیوں پر لیٹ جاتا، ایک بار کھڑی حالت میں اس نے کرسی پر سر رکھ دیا۔ کئی بار تو سوچتے سوچتے کرسی سے اتنا پھسل جاتا کہ کولہے زمین کو لگنے والے ہو جاتے۔ زندگی بھر میں لائل کی واحد نوکری 1831 سے 1833 تک کنگز کالج میں ارضیات کے پروفیسر کی تھی۔ اسی دوران اس نے The Principles of Geology لکھی جو ایک طرح سے ایک نسل پہلے والے ہٹن کے خیالات کو جمع کر کے سہل زبان میں پیش کش تھی (اگرچہ لائل نے ہٹن کی اصل کتاب تو نہیں پڑھی تھی لیکن اس نے پلے فیئر کا پیش کردہ خلاصہ بہت دھیان سے پڑھا تھا)۔
ہٹن اور لائل کے درمیان کے عرصے میں ایک نئی ارضیاتی مشکل پیدا ہوئی۔ اکثر لوگ اسے نیپچونیئن-پلوٹونیئن سے جوڑتے ہیں جو کہ غلط فہمی ہے۔ یہ مسئلہ Catastrophism اور uniformitarianism کہلاتا ہے۔ یہ مسئلہ بہت طویل عرصے تک چلتا رہا۔ کیٹاسٹرافسٹ لوگوں کے مطابق زمین کی شکل و صورت بنانے میں شدید نوعیت کے واقعات ذمہ دار ہیں جن میں سیلاب سب سے زیادہ اہم تھے۔ شاید اسی وجہ سے ان دونوں مسائل کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ اس نظریے کے حمایتی زیادہ تر مذہبی افراد تھے کہ طوفانِ نوح جیسے عالمگیر سیلاب کو اس طرح سائنسی بحث میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یونیفارمیٹیرین کے مطابق زمین پر یہ عمل انتہائی سُستی سے اور بہت طویل عرصے تک ہوتے رہے۔ اگرچہ یہ خیال ہٹن کا تھا لیکن لوگ اسے ہٹن کی بجائے لائل کے نام سے زیادہ جانتے ہیں اور اسی وجہ سے ہٹن کی بجائے لائل کو زیادہ تر بابائے ارضیات مانا جاتا ہے۔
لائل کا خیال تھا کہ زمین پر ہونے والی تبدیلیاں مسلسل اور آہستہ آہستہ تھیں اور ماضی کے ہر واقعے کو حالیہ واقعات کے ساتھ ملا کر سمجھا جا سکتا ہے۔ لائل اور اس کے پیروکاروں نے مخالف نظریے کو رد کرنے کی بجائے اسے غلط ثابت کیا۔ کیٹاسٹرافسٹ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ زمین پر مختلف انواع کی معدومیت اچانک تھی اور ان کے بدلے دوسری انواع ایک دم سے نمودار ہو جاتی تھیں۔ شاید جب کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہو تو یہی بہترین جواب ہوتا ہے۔
تاہم لائل کی خامیاں بھی کوئی معمولی نوعیت کی نہیں تھیں۔ وہ یہ بتانے میں ناکام رہا کہ پہاڑی سلسلے کیسے بنتے ہیں اور یہ بھی نہ جان سکا کہ گلیشیئر بھی زمین پر تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ اس نے اگاسز کے برفانی دور کے خیال کو یکسر رد کر دیا۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ قدیم ترین فاسلوں سے بھی ممالیہ جانور مل سکتے ہیں۔ اسے یہ بات سمجھنے میں دشواری ہوتی تھی کہ اچانک کسی نوع کے تمام تر جاندار معدوم ہو سکتے ہیں۔ اس کے خیال میں جانوروں کے تمام اہم گروہ یعنی ممالیہ، خزندے، مچھلیاں وغیرہ سب کی سب وقت کی ابتداء سے ہی چلی آ رہی ہیں۔ ان سب معاملات میں وہ غلط ثابت ہوا۔
تاہم لائل کے اثر کو یکسر رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ The Principles of Geology کے بارہ ایڈیشن لائل کی زندگی میں ہی شائع ہوئے۔ پہلے ایڈیشن کی ایک جلد چارلس ڈارون اپنے بیگل والے بحری سفر پر لے کر گیا تھا اور اس سے بہت متاثر ہوا۔ تاہم 1980 کی دہائی میں لائل کے نظریے کا ایک حصہ رد کرنا پڑا کیونکہ انواع کی معدومیت کے پیچھے شہابِ ثاقب وغیرہ کے زمین سے ٹکراؤ بھی ثابت ہو چکے تھے۔ تاہم اس بارے ہم کسی اور جگہ بات کریں گے۔
اس دوران ارضیات کے لیے بہت سارے ادھورے کام پڑے تھے۔ شروع میں ماہرینِ ارضیات نے چٹانوں کو ان ادوار میں بانٹا جس میں وہ بنی تھیں۔ تاہم اس پر شدید اختلافات عام سی بات تھے۔ سب سے لمبی بحث ‘گریٹ ڈیونیئن’ دور سے متعلق تھی۔ مسئلہ یہ ہوا کہ کیمبرج کے پادری ایڈم سیج ویک نے دعویٰ کیا کہ وہ چٹان کیمبرین دور سے تعلق رکھتی ہے جس کے بارے روڈرک مرچیسن کا خیال تھا کہ یہ سلیورین دور سے ہے۔ یہ بحث کئی سال تک چلتی رہی اور ایک بار تو مرچیسن نے اپنے حریف کو ‘گندا کتا’ کہا۔ اس جھگڑے کا اختتام 1879 میں ہوا جب کیمبرین اور سلیورین ادوار کے بیچ ایک نیا دور اورڈویشین کے نام سے بنایا گیا۔
چونکہ ارضیات کی ابتداء میں برطانوی زیادہ متحرک تھے، اس لیے زیادہ تر نام برطانیہ سے لیے گئے ہیں۔ ڈیونیئن دور انگلستان کے ایک قصبے سے نکلا ہے۔ کیمبرین کا تعلق ویلز کے رومن نام سے جا ملتا ہے۔ اورڈویشین اور سلیورین قدیم ویلش قبائل تھے۔ تاہم جب دنیا بھر سے لوگ ارضیات میں دلچسپی لینے لگے تو غیر برطانوی نام بھی متعارف ہوئے۔ جراسک دور فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر موجود جُرا پہاڑی سلسلے سے نکلا ہے۔ پرمیئن کوہ یورال میں ایک سابقہ روسی قصبے پریم سے نکلا ہے۔ کریٹیشیئس بیلجین ماہرِ ارضیات کی دین ہے۔
ابتداء میں زمین کی تاریخ چار ادوار میں منقسم تھی جو پرائمری، سیکنڈری، ٹرشری اور کواٹرنری تھے۔ تاہم جغرافیہ دانوں کو اتنی سادہ تقسیم پسند نہیں آئی اور مزید تقسیم شروع ہو گئی۔ پرائمری اور سیکنڈری سرے سے بھلا دیئے گئے جبکہ کواٹرنری کو کچھ لوگوں نے رد کیا تو کچھ نے اس کا استعمال جاری رکھا۔ آج ٹرشری دور ہی واحد دور باقی بچا ہے جو ہر جگہ ایک ہی مطلب میں استعمال ہوتا ہے، اگرچہ یہ اصل مطلب سے فرق ہے۔
لائل نے اپنی کتاب میں مزید ادوار متعارف کرائے تھے جن کے نام ڈائنو ساروں کے بعد کے ادوار سے متعلق تھے، مثلاً پلیئوسٹین (جدید ترین)، پلیوسین (نسبتاً جدید)، میوسین (نسبتاً کم جدید) اور مبہم نام اولیگوسین (بہت کم جدید) رکھے۔
آج کے دور میں زمین کی تاریخ کو چار بڑے ادوار یعنی پری کیمبرین، پیلوزوئک، میسوزوئک اور سینوزوئک کہا جاتا ہے۔ ان چاروں کو مزید دس سے بیس چھوٹے گروہوں میں بانٹا گیا ہے۔ تاہم بعض لوگ انہیں مزید کئی ہزار چھوٹے گروہوں میں بانٹتے ہیں (اگرچہ انہیں یاد رکھنا بہت مشکل ہے تاہم آپ ان چار بڑے ادوار کو سال کے چار موسم اور ہر دور کے اندر مزید ادوار کو مہینوں کے ناموں کی طرح یاد کر لیں)۔
مزید مشکل یہ بھی ہے کہ شمالی امریکہ اور یورپ میں ایک ہی دور کے مختلف نام ہوتے ہیں اور ادوار بھی شاید ایک نہیں ہوتے۔
اس کے علاوہ یہ تمام معلومات مختلف کتابوں اور مختلف اشخاص کی زبانی مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ ماہرین کے خیال میں ماضی قریب میں چار ادوار تھے تو دیگر کے خیال میں سات۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ان ادوار کو وقت کے حساب سے بانٹا گیا ہے۔ تاہم چٹانوں اور پتھروں کو الگ الگ نظاموں، سلسلوں اور مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وقت کے اعتبار سے قدیم تر اور جدید تر کے علاوہ پتھر کی اوپری اور نچلی تہہ کو بھی فرق سمجھا جاتا ہے۔
خیر، موجودہ دور میں ہم جدید تکنیک کی مدد سے چٹانوں اور پتھروں کے دور کو جان سکتے ہیں۔ 18ویں صدی میں یہی کام محض اندازوں سے ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کسی چیز کی درست تاریخ معلوم کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے کسی قدیم نمونے کو قدیم تو مانا جاتا تھا لیکن یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ آیا یہ دس ہزار سال پرانا ہے یا دس کروڑ سال پرانا۔
اگرچہ ایسی تکنیک تو نہیں تھی لیکن پھر بھی لوگ اس پر کام کرنے کو تیار تھے۔ چرچ آف آئرلینڈ کے ایک مشہور پادری جیمز اشر نے بائبل اور دیگر مذہبی صحیفوں کے مطالعے کے بعد بتایا کہ زمین 23 اکتوبر 4004 ق م میں دوپہر کے وقت پیدا ہوئی۔ اس خیال پر سائنس دان آج بھی سر دُھنتے نظر آتے ہیں (اشر کا تذکرہ تو بہت کتب میں ملتا ہے لیکن تفصیلات پر اتفاق نہیں۔ بعض کتب میں اس خیال کا سال 1650 لکھا ہے تو کسی جگہ 1654 تو کسی جگہ 1664)۔
یہ غلط فہمی عام ہے کہ 18ویں صدی تک کے نظریات پر اشر کا گہرا اثر تھا جسے پھر لائل نے آن کر درست کیا۔ اس بارے ایک اور پادری بک لینڈ نے بتایا کہ مذہبی صحیفوں میں کہیں یہ درج نہیں کہ خدا نے زمین اور آسمان کو پہلے دن میں بنایا تھا بلکہ وہاں یہ تذکرہ ہے کہ شروع میں پیدا کی گئیں۔ اب یہ شروع کروڑوں سال پر محیط عرصہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہر شخص یہ تو جانتا تھا کہ زمین بہت قدیم ہے پر اس بارے کوئی نہیں جانتا تھا کہ کتنی قدیم ہے۔
زمین کی عمر کے بارے ایڈمنڈ ہیلی نے 1715 میں تجویز پیش کی کہ اگر ہم سمندر میں موجود نمکیات کی موجودہ مقدار جانچ کر پھر یہ دیکھیں کہ ہر سال کتنا نمک بڑھتا ہے تو پھر ہم اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ سمندر کتنا پرانا ہے اور پھر اس سے زمین کی عمر کا اندازہ لگ سکتا ہے۔ تاہم اس وقت کسی کے پاس سمندر میں نمکیات کی مقدار جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اس لیے یہ خیال بھلا دیا گیا۔
اس بارے پہلا تجربہ ایک فرانسیسی نے کیا تاہم اسے ہم سائنسی تجربہ شاید نہ کہہ سکیں۔ اس کے خیال میں زمین کے اندر جتنا نیچے جائیں گے، اتنا گرمی بڑھتی جائے گی جیسا کہ اکثر کانوں میں ہوتا ہے۔ اس نے سوچا کہ اگر حرارت کے اخراج کی مقدار کو جان لیں تو کام آسان ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے دھاتی گولوں کو اتنا گرم کیا کہ وہ سفید ہو گئے۔ پھر اس نے انہیں ہلکے سے چھو کر ان کی حرارت کا اندازہ لگایا۔ اس طرح اس نے زمین کی موجودہ عمر کے متعلق اندازہ لگایا کہ یہ 75,000 سے 1,68,000 سال ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اندازہ انتہائی غلط تھا۔ تاہم اس پر اسے مذہبی شخصیات نے مرتد قرار دینے کی دھمکی دی۔ اس نے فوراً اپنے خیالات پر معذرت کر لی۔
18ویں صدی میں بہت سارے پڑھے لکھے لوگ یہ جان گئے تھے کہ زمین لاکھوں سال پرانی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کروڑوں سال پرانی ہو۔ تاہم اس سے زیادہ وہ نہ جان سکے۔ جب 1859 میں چارلس ڈارون نے اپنی کتاب On The Origin of Species میں بتایا کہ ویلڈ کا علاقہ جو جنوبی انگلستان میں کینٹ، سرے اور سسکس پر مشتمل ہے، کو بننے میں 30,62,66,400 سال لگے تو لوگ بہت حیران ہوئے۔ اتنا لمبا اندازہ لوگوں کی عقل سے باہر تھا (ڈارون کو بالکل درست اعداد معلوم کرنے کا جنون تھا۔ ایک بار اس نے گنتی کی کہ اوسطاً برطانیہ کے ہر ایکڑ میں 53,767 کینچوے پائے جاتے ہیں)۔ اس پر اتنی بحث ہوئی کہ تیسرے ایڈیشن سے ڈارون نے اسے ہٹا دیا۔ تاہم مسئلہ پھر بھی باقی رہا۔ ڈارون اور اس جیسے دیگر سائنس دانوں کے خیال میں زمین کو بہت پرانا ہونا چاہئے لیکن وہ اسے ثابت نہ کر سکتے تھے۔
ڈارون اور اس نظریے کی بدقسمتی کہ اس پر لارڈ کیلون کی نظرِ کرم پڑی۔ اس وقت تک کیلون کو لارڈ نہیں بنایا گیا تھا اور وہ 67 سال کی عمر میں اور اپنے کیریئر کے اختتام پر تھا۔ کیلون 18ویں صدی بلکہ ہر صدی کا عجیب ترین انسان تھا۔ جرمن سائنس دان ہرمین ون ہلم ہولٹز کے مطابق کیلون سے زیادہ ذہین انسان اس نے نہیں دیکھا۔
کیلون اپنے دور کا سپر مین تھا۔ اس کی پیدائش 1824 میں بلفاسٹ میں ہوئی۔ کیلون کا باپ رائل اکیڈیمیکل انسٹی ٹیوٹ میں ریاضی کا پروفیسر تھا۔ کیلون کی پیدائش کے بعد یہ لوگ گلاسگو منتقل ہو گئے۔ وہاں کیلون نے اتنی ذہانت دکھائی کہ محض دس سال کی عمر اسے گلاسگو یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ جب وہ بیس سال سے کچھ زیادہ ہوا تو اس نے لندن اور پیرس سے تعلیم حاصل کی اور کیمبرج سے تعلیم مکمل کی۔ اس نے کیمبرج سے کشتی رانی اور ریاضی میں اعلیٰ وظیفے بھی پائے۔ اس کے علاوہ اسے پیٹر ہاؤس کا رکن بھی بنایا گیا۔ اس نے ریاضی پر درجن بھر مقالے لکھے جو اتنے عمدہ تھے کہ اپنے بڑوں کو ناراض نہ کرنے کے خیال اس نے فرضی نام سے چھپوائے۔ پھر گلاسگو لوٹ کر اس نے نیچرل فلاسفی کے شعبے میں پروفیسر شپ قبول کی اور اس عہدے پر اگلے 53 سال تک کام کرتا رہا۔
87 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوا لیکن اس سے قبل وہ 661 مقالے اور 69 پیٹنٹ کرا چکا تھا اور اس وجہ سے اس کی دولتمندی میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ اس نے سائنس کی تقریباً ہر معلوم شاخ میں اپنا لوہا منوایا۔
اس کے بتائے ہوئے اشاروں کی مدد سے ریفریجریٹر کی ایجاد ممکن ہوئی۔ مطلق درجہ حرارت کا پیمانہ اس نے بتایا جو آج بھی اس کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے ایسی مشینیں بنائی جو بحرِ اوقیانوس کے پار تار کے سگنل بھیج سکتی تھیں۔ اس کے علاوہ اس نے جہاز رانی اور بحری رہنمائی کی خاطر بہت سارے کام کیے۔ اس نے پہلا گہرائی ماپنے والا آلہ بنایا۔ یہ سب اس کے عملی کام تھے۔
نظریاتی سطح پر اس نے برقناطیسیت، حرحرکی یعنی تھرمو ڈائنامکس اور روشنی کے موجی نظریے پر کام کیا (اس نے تھرموڈائنامکس کے دوسرے قانون کی وضاحت کی تاہم ان کی تفصیل پر الگ کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ مختصراً یوں سمجھ لیں کہ تھرموڈائنامکس کے 4 قوانین ہیں جن میں سے تیسرا قانون نمبر دو کے نام سے مشہور ہے اور سب سے پہلے دریافت ہوا۔ پہلا اور صفر قانون بعد میں دریافت ہوئے۔ پہلا قانون دوسرا ہے اور تیسرا شاید الگ سے قانون ہی نہ ہو۔ دوسرا قانون یہ بتاتا ہے کہ توانائی کی معمولی سی مقدار ہمیشہ ضائع ہوتی رہتی ہے۔ آپ کوئی بھی ایسی مشین نہیں بنا سکتے جو مستقل توانائی کی ایک ہی مقدار پر چلتی رہے۔ ایسی ہر مشین ہر بار چلنے پر توانائی کا کچھ نہ کچھ ضیاع کرتی رہے گی اور ایک وقت آئے گا کہ توانائی ختم ہو جائے گی۔ پہلے قانون کے مطابق توانائی پیدا نہیں کی جا سکتی۔ تیسرے کے مطابق آپ کبھی بھی مطلق صفر درجہ حرارت تک نہیں پہنچ سکتے۔ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ حرارت پھر بھی باقی رہ جائے گی۔ ایک اور سائنس دان کے الفاظ میں اول تو یہ کہ آپ کبھی جیت نہیں سکتے، دوم آپ کبھی برابر نہیں ہو سکتے اور تیسرا یہ کہ آپ کھیل ختم بھی نہیں کر سکتے)۔ اس کی ایک ہی خامی تھی کہ اس سے زمین کی عمر نہیں ناپی گئی۔ تاہم یہ سوال اس کی زندگی کے کافی بڑے عرصے تک اسے تنگ کرتا رہا تاہم اسے کامیابی نہ ہوئی۔ 1862 میں اس کے پہلے اندازے کے مطابق زمین کی عمر تقریباً 10 کروڑ سال تھی۔ تاہم اس نے یہ بھی کہا کہ کم از کم 2 کروڑ اور زیادہ سے زیادہ 40 کروڑ سال بھی ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی اس نے یہ بات بھی واضح کر دی کہ بعض ان دیکھے عوامل کی وجہ سے اس کا اندازہ سو فیصد درست شاید نہ ہو۔
وقت کے ساتھ ساتھ کیلون کی درستگی کم ہوتی گئی اور خوش فہمی بڑھتی گئی۔ اس نے اپنے اندازے میں زیادہ سے زیادہ 40 کروڑ سال کو کم کر کے 10 کروڑ سال کر دیا جو بعد میں 5 کروڑ اور پھر 1897 میں محض اڑھائی کروڑ سال رہ گیا۔ اس میں کیلون کا قصور اتنا نہیں تھا کہ اس وقت کی طبعیات میں ایسا کوئی امکان دکھائی نہ دیتا تھا کہ سورج جتنا بڑا ستارہ کروڑوں سال تک اپنا ایندھن جلانے کے باوجود روشن رہ سکے۔ نتیجتاً اس نے فیصلہ سنایا کہ سورج اور سیارے نسبتاً کم عمر ہونے چاہیئں۔
مسئلہ صرف اتنا تھا کہ فوسل شواہد اس کے برعکس بتاتے تھے اور 18ویں صدی میں فوسلوں بہت بڑی مقدار میں دریافت ہونے لگ گئے تھے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
6 سائنس ریڈ ان ٹوتھ اینڈ کلاء​
1787 میں نیو جرسی میں کسی کو ایک نہر کے کنارے سے بہت بڑی ہڈی جھانکتی ہوئی ملی۔ اس جگہ کو وڈبری کریک کہا جاتا ہے۔ یہ بات واضح تھی کہ اس ہڈی کا موجودہ دور کے کسی جاندار سے تعلق نہیں تھا یا اگر تھا بھی تو وہ جانور نیوجرسی میں نہیں پایا جاتا۔ اندازہ لگایا گیا کہ یہ ہڈی بطخ کی چونچ والے ڈائنوسار کی ہوگی جو ہارڈوسار کہلاتا تھا۔ اس وقت تک ڈائنوسار کو کوئی نہیں جانتا تھا۔
یہ ہڈی ملک میں علم الابدان کے ماہر ترین فرد ڈاکٹر کیسپر وسٹر کو بھیجی گئی جس نے اس کے بارے امریکن فلاسفیکل سوسائیٹی کی فلاڈلفیا میں ہونے والی موسمِ خزاں کی میٹنگ میں بات کی۔ بدقسمتی سے وسٹر اس ہڈی کی اہمیت جاننے سے قاصر رہا اور اس نے گول مول الفاظ میں اس پر بات کی۔ اس طرح اس نے دیگر افراد سے پچاس سال قبل ڈائنوسار کی دریافت کا سنہری موقع گنوا دیا۔ اس ہڈی کو اس نے اپنے سٹور روم میں رکھوا دیا جہاں سے وہ کچھ عرصے بعد غائب ہو گئی۔ یعنی ڈائنوسار کی ملنے والی پہلی ہڈی ہی گم ہونے والی پہلی ہڈی بن گئی۔
اس ہڈی کے بارے زیادہ تحقیق نہ ہونا عجیب امر ہے کہ اس دور میں امریکی سائنس دانوں میں قدیم اور دیوہیکل جانوروں کے بارے جاننے کا جنون پیدا ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بفن نے جب گرم کُّروں کی مدد سے زمین کی عمر معلوم کی تو اس نے یہ بھی بتایا کہ قدیم دنیا کے جانور جدید دنیا کے جانوروں سے کہیں بڑے ہوتے تھے۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ امریکی سرزمین پر دلدلیں موجود ہیں اور ان سے اٹھنے والے زہریلے بخارات اور بغیر سورج کے جنگلات اتنے ناکارہ تھے کہ وہاں رہنے والے انسان بھی داڑھی یا جسمانی بالوں سے محروم تھے۔ ان کی عورتوں کے جنسی اعضاء بھی چھوٹے تھے۔
بفن کے نظریات کی تائید دیگر افراد نے بھی کی حالانکہ ان میں سے کوئی بھی امریکہ نہیں گیا تھا۔ ایک ڈچ سائنس دان نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ امریکی انڈین مرد اتنے ناکارہ ہیں کہ ان کی چھاتیوں سے دودھ بہتا ہے۔ یہی نظریات 18ویں صدی تک یورپ کی تحقیقات میں بار بار دہرائے جاتے رہے۔
امریکہ میں ان نظریات پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ تھامس جیفرسن نے انتہائی تلخ انداز میں Notes on the State of Virginia میں ان کی پرزور تردید کی اور اپنے 20 فوجی بھیجے جو جنگل سے نر مُوز کو پکڑ کر لائیں تاکہ دنیا پر ثابت کیا جا سکے کہ امریکی سرزمین زرخیز اور طاقتور ہے۔ مطلوبہ جانور تلاش کرنے میں دو ہفتے لگے اور جب اسے شکار کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس کے سینگ بھی نہیں تھے۔ جیفرسن کے دوست جنرل سلیوان نے مشورہ دیا کہ اس پر ایلک یا بارہ سنگھے کے سینگ لگا کر بھیج دیتے ہیں۔ آخر فرانس والوں کو کیا پتہ چلنا ہے؟
اسی دوران فلاڈیلفیا میں ایک بہت بڑے جانور کی ہڈیاں جمع کی جا رہی تھیں جسے پہلے تو ‘عظیم امریکی نامعلوم جانور’ اور پھر بعد ازاں میمتھ کہا گیا۔ جلد ہی یہ ہڈیاں جگہ جگہ سے ملنے لگ گئیں۔ ایسا لگنے لگا کہ امریکی سرزمین درحقیقت کسی دور میں انتہائی عظیم الجثہ مخلوقات کی سرزمین تھی اور یہ تمام ہڈیاں بفن کی احمقانہ تصانیف کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے کافی تھیں۔
تاہم جوش کے مارے امریکیوں نے اس جانور کے بارے قدرے مبالغے سے کام لیا اور اس کی اونچائی اصل سے چھ گنا بڑھا کر بیان کی اور پاس ملنے والے ایک بہت بڑے سلاتھ کے جبڑے کو بھی اس سے ملا دیا۔ انہوں نے یہ مبالغہ بھی کیا کہ یہ جانور شیر کی طرح خطرناک اور سفاک تھا اور تصویروں میں اسے پتھروں کے اوپر سے اپنے شکار پر چھلانگ لگاتا دکھایا گیا۔ جب اس کے دانت ملے تو انہیں عجیب عجیب طرح سے لگانے کی کوشش کی گئی۔ ایک ماہر نے تو ان دانتوں کو الٹا لگا دیا جس سے اس جانور کی دہشت بڑھ گئی۔ دوسرے ماہر نے دانت الٹے اور گھما کر لگائے کہ یہ جانور شاید آبی ہو اور آرام کرنے کے لیے درختوں سے لٹک جاتا ہو۔ واحد خامی یہ تھی کہ یہ جانور معدوم ہو چکا تھا اور بفن نے فوراً اسی طرف اشارہ کیا کہ یہی امریکی سرزمین کے ناکارہ ہونے کا ثبوت ہے۔
بفن تو 1788میں مر گیا لیکن اس کا فساد جاری رہا۔ 1795 میں ان ہڈیوں کا کچھ حصہ پیرس بھیجا گیا جہاں اس وقت کے ابھرتے ہوئے ماہر نے ان کا معائنہ کیا۔ یہ ماہر جارجس کوئیر تھا۔ کویئر پہلے ہی بے ہنگم ہڈیوں کو ترتیب دے کر جانور بنانے میں ماہر بن چکا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ ایک دانت کی مدد سے کویئر کسی بھی جانور کے خدوخال اور اس کی عادات پر روشنی ڈال سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس جانور کی نوع اور جینس بھی بتا دیتا۔ جب اس نے دیکھا کہ امریکہ میں کسی نے بھی اس جانور کے بارے تعارف نہیں لکھا تو اس نے تعارفی مقالہ لکھا جس کی وجہ سے اسے باقاعدہ دریافت کنندہ کا درجہ مل گیا۔ کویئر نے اسے ماسٹوڈون کہا۔
بفن کے پیدا کردہ مسئلے سے متاثر ہو کر کویئر نے ایک مقالہ لکھا جس کا نام Note on the Species of Living and Fossil Elephants تھا۔ اس نے پہلی بار باقاعدہ طور سے معدومیت کا نظریہ متعارف کرایا۔ اس کا نظریہ تھا کہ وقفے وقفے سے زمین پر ایسی آفتیں آتی رہتی ہیں جن میں مختلف جانوروں کے گروہ مٹ جاتے ہیں۔ مذہبی لوگوں بشمول کویئر کے، نے اسے مسئلہ سمجھا کہ بغیر کسی وجہ کے خدا ایسا کیوں کرتا۔ آخر خدا ایسے جانور پیدا ہی کیوں کرتا جو اس نے خود ہی مار دینے ہوں؟ یہ نظریہ اس بیان کے عین مخالف تھا کہ خدا نے کائنات کی ہر چیز کی خاص مقصد کے لیے بنائی ہے اور ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ جیفرسن بھی یہی کہتا تھا کہ پوری کی پوری کے تمام تر جانور ایک ساتھ نہیں مر سکتے۔ اس لیے جب اسے سیاسی اور سائنسی حوالے سے قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ دریائے مسی سیپی کے پار ایک سائنسی مہم بھیجی جائے جو اس موضوع پر تحقیق کرے تو اس نے فوراً حامی بھر لی۔ اس نے شاید سوچا ہوگا کہ عظیم الجثہ جانور آج بھی ہرے بھرے میدانوں میں گھاس چرتے مل جائیں گے۔ جیفرسن کا معتمدِ خاص اور سیکریٹری اس مہم کا نائب سربراہ بنا جبکہ ولیم کلارک کو سربراہی ملی۔ کسپر وسٹر کے ذمے یہ تھا کہ کن جانوروں پر کام کرنا ہے۔
اسی سال اور اسی ماہ جب کویئر نے یہ نظریہ پیش کیا، انگلش چینل کی دوسری جانب ولیم سمتھ نے ایک اور کام کیا۔ پیشے کے اعتبار سے ولیم کا کام سومرسیٹ کول کینال کی تعمیر کی نگرانی تھی اور یہیں اسے وہ خیال آیا جس سے وہ مشہور ہوا۔ 5 جنوری 1796 کو جب وہ ایک سرائے میں بیٹھا تو اس نے سوچا کہ فوسل سے چٹانوں کی عمر کے بارے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس نے سوچا کہ جب چٹانوں کی تہہ بدلتی ہے تو اس پر موجود فوسل نیچے دب جاتے ہوں گے اور اس کے اوپر نئی تہہ اور نئے فوسل جمع ہوں گے۔ اس لیے ہر تہہ میں موجود جانوروں کے فوسل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون سی چٹان کتنی پرانی ہے۔ اس طرح آپ ایک ہی قسم کی چٹانوں کی عمر کا اندازہ لگا سکتے ہیں، چاہے وہ کہیں بھی پائی جاتی ہوں۔ اپنے علم کی مدد سے اس نے برطانیہ کے چٹانی طبقات کا نقشہ بنانا شروع کر دیا جو بہت عمیق معائنے کے بعد اس نے 1815 میں چھپوایا اور جدید ارضیات کا اہم سنگِ میل بن گیا۔
بدقسمتی سے سمتھ کی دلچسپی چٹانوں تک ہی محدود تھی اور اس نے اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی کہ یہ چٹانیں اس طرح بنتی ہی کیوں ہیں۔ اس نے خود اعتراف کیا کہ اس نے ان طبقات پر توجہ دی اور ان کی ساخت کے بارے سوالات بھلا دیئے کہ وہ اس کے شعبے سے متعلق نہیں تھے۔
سمتھ کے نقشے سے مسائل اور بڑھ گئے۔ اس نے یہ بات ثابت کی کہ خدا نے ایک بار نہیں بلکہ بار بار مختلف انواع کے جانوروں کو اجتماعی طور پر مارا ہے جس سے خدا کا لاپرواہی سے زیادہ سفاک ہونے کا پہلو سامنے آتا تھا۔ اس بات کی وضاحت بھی اب لازم ہو گئی کہ بعض انواع تو معدوم ہوئیں لیکن دیگر کیسے اور کیوں بچ گئیں؟ اس نے سوچا کہ معدوم ہونے کے پیچھے طوفانِ نوح کے علاوہ بھی وجوہات ہونی چاہیئں۔ کویئر نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ طوفانِ نوح انواع کی آخری معدومیت سےمتعلق تھا۔ خدا حضرت موسیٰ کو اس سے قبل کی تباہیوں سے آگاہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوگا۔
18ویں صدی کے اوائل سے ہی لوگ فوسلوں پر توجہ دینے لگے اور اسی وجہ سے وسٹر کی ناکامی کا سبب محض بدقسمتی ہی ہو سکتا ہے کہ اس نے ڈائنوسار کے فوسل پر توجہ نہیں دی۔ وجہ چاہے جو بھی ہو، جگہ جگہ سے فوسل ملنا شروع ہو گئے تھے۔ کئی مواقع پر امریکیوں کو ڈائنوسار کی دریافت کا سہرہ اپنے سر باندھنے کا موقع ملا لیکن تمام مواقع ضائع ہوئے۔ 1806 میں لیوس اور کلارک کی مہم ہل کریک فارمیشن سے گزری جو مونٹانا میں واقع ہے۔ اس جگہ ماہرین ڈائنوسار کی ہڈیوں سے ٹھوکریں کھاتے پھرتے تھے۔ ایک جگہ انہوں نے ڈائنوسار کی بہت بڑی ہڈی چٹان میں پھنسی دیکھی اور اس کا معائنہ بھی کیا لیکن پھر اسے وہیں چھوڑ گئے۔ دریائے کنکٹی کٹ سے بھی ڈائنو سار کے فوسل اور ہڈیاں ملیں مگر بے سود۔ ایک ڈائنوسار کی 1818 میں ملنے والی ہڈیوں کو محفوظ کر کے رکھا گیا اور 1855 میں ان کی شناخت ہوئی۔ 1818 میں کیسپر وسٹر کی وفات ہوئی لیکن ایک ماہرِ نباتات نے اس کے نام پر ایک بیل کا نام رکھا جو آج تک چلا آ رہا ہے۔
اس وقت تک یہ رحجان انگلستان منتقل ہو گیا تھا۔ 1812 میں لائم رجس میں میری ایننگ نامی گیارہ بارہ سالہ بچی نے 17 فٹ طویل ایک سمندری مخلوق کا ڈھانچہ تلاش کیا جو رودبارِ انگلستان کے ایک کنارے کی چٹانوں سے نکلا ہوا تھا۔
یہیں سے ایننگ کا کیریئر شروع ہوا۔ اگلے 35 سال اس نے فوسل جمع کرنے میں گزارے جو وہ سیاحوں کو بیچتی تھی (اسی سے مشہور انگریزی مشکل محاورہ شروع ہوا She sells sea shells on seashore)۔ اس نے ایک اور عظیم الجثہ بحری جانور کا ڈھانچہ تلاش کیا اور پہلے اور بہترین ٹیروڈکٹائل کی دریافت بھی اسی کے سر ہے۔ اگرچہ ان میں سے کوئی بھی تکنیکی اعتبار سے ڈائنوسار نہیں تھا لیکن اس وقت کے لوگ ڈائنوسار کے نام سے ویسے بھی ناواقف تھے۔ اصل یہ بات اہم ہے کہ ہماری زمین پر کبھی اتنے عظیم الجثہ جانور آباد تھے جن کو ہم اب دریافت کرنا شروع ہوئے ہیں۔
ایننگ نہ صرف فوسل تلاش کرنے کی ماہر تھی بلکہ انہیں نکالنے کی مہارت میں بھی بے نظیر تھی۔ لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں قدیم سمندری خزندوں کے فوسل کے سیکشن میں جا کر دیکھئے کہ اس لڑکی نے کتنے بنیادی اوزاروں سے کس قدر محنت کے ساتھ ایسے فوسل نکالے۔ پلیسیوسار نکالنے پر اسے 10 سال تک محنت کرنا پڑی۔ اگرچہ اس نے باقاعدہ تربیت نہیں حاصل کی تھی لیکن پھر بھی وہ عالموں کے لیے بہترین خاکے تیار کر دیتی تھی۔ اگرچہ اس نے بہت محنت کی لیکن اہم دریافتیں کم ہی ہوئیں اور اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ اس نے غربت میں گزارا۔
اگرچہ میری ایننگ سے زیادہ نظرانداز ہونے والا انسان ڈھونڈنا بہت مشکل لگتا ہے لیکن ایسا فرد سسکس کا ایک دیہاتی ڈاکٹر گڈون الجیرنون مینٹل تھا۔
مینٹل میں اگرچہ بہت ساری خامیاں تھیں کہ وہ بے فائدہ، لاپرواہ، خودغرض، خاندان پر توجہ نہ دینے والا وغیرہ وغیرہ تھا لیکن اس سے بہتر شوقیہ ماہر متحجرات نہیں ہے۔ اس کی بیوی بہت فرمانبردار تھی۔ 1822 میں جب ڈآکٹر ایک مریض کو دیکھنے گیا تو اس کی بیوی گھر سے سیر کو نکلی۔ ساتھ ہی سڑک کے گڑھے بھرنے کے لیے پتھر ڈالے گئے تھے جہاں اسے اخروٹ کے برابر ایک گول بھورا پتھر دکھائی دیا۔ چونکہ اسے پتہ تھا کہ اس کے شوہر کو فوسل پسند ہیں تو اس نے وہ پتھر اٹھا لیا۔ مینٹل نے ایک نظر ڈالتے ہی پہچان لیا کہ یہ کسی سبزی خور گزندے کا دانت ہے جو دسیوں فٹ بڑا ہوگا اور یہ بھی کہ اس کا تعلق کریٹیشئس دور سے ہے۔ اس کے یہ تمام اندازے درست تھے لیکن اس وقت کسی کو بھی اس پر یقین نہ آیا کہ اتنی پرانی دریافت پہلی بار ہو رہی تھی۔
چونکہ اس دریافت سے ماضی کے بارے بیش قیمت معلومات مل سکتی تھیں، اس لیے پادری ولیم بک لینڈ نے اسے احتیاط کا مشورہ دیا۔ مینٹل نے تین سال تک انتہائی احتیاط سے تحقیق جاری رکھی۔ اس نے یہ دانت کوئیر کو پیرس بھیجا جس نے خیال ظاہر کیا کہ یہ دانت کسی دریائی گھوڑے کا ہے (بعد میں کوئیر نے اپنی غلطی پر معذرت کر لی تھی)۔ ایک بار لندن کے ایک عجائب گھر میں ایک ماہر سے گفتگو کرتے ہوئے اسے پتہ چلا کہ یہ ماہر جس جانور کے فوسل پر کام کر رہا ہے، یہ دانت اسی کا لگتا ہے۔ یہ جانور جنوبی امریکہ کی اگوانا تھی۔ انہوں نے فوراً ملایا تو بات درست نکلی۔ مینٹل کی یہ دریافت اگوانوڈن کہلائی۔
مینٹل نے فوراً اس پر مقالہ تیار کر کے رائل سوسائٹی کے سامنے پیش کیا۔ بدقسمتی سے کچھ عرصہ قبل اسی طرح کا ایک ڈائنوسار دریافت ہو چکا تھا۔ شومئی قسمت وہ ڈائنوسار اسی بک لینڈ نے دریافت کیا تھا جس نے اسے تین سال تک صبر کی تلقین کی تھی۔ بک لینڈ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ یہ دانت عام چھپکلیوں کی طرح جبڑے میں گڑا نہیں ہوتا تھا بلکہ مگرمچھوں کی طرح جبڑے میں بنی جگہ پر رہتا تھا۔ بک لینڈ یہ اندازہ تو نہ کر سکا کہ یہ بالکل ہی نئی قسم کا جانور تھا لیکن پھر بھی ڈائنوسار کی دریافت اسی سے منسوب کی جاتی ہے حالانکہ اصل سہرہ مینٹل کے سر بندھنا چاہیے تھا۔
اس بات سے بے خبر ہوتے ہوئے کہ مایوسی اس کے مستقبل کا گہرا حصہ بن چکی ہے، اس نے فوسلز کی تلاش جاری رکھی۔ 1833 میں اس نے ایک نیا ڈائنوسار دریافت کیا اور اس نے دیگر افراد سے فوسلز کی خریداری جاری رکھی۔ کہہ سکتے ہیں کہ برطانیہ میں اس سے زیادہ فوسل کسی کے پاس نہیں ہوں گے۔ اگرچہ مینٹل بہترین ڈاکٹر اور فوسل جمع کرنے والا تھا لیکن وہ دونوں کے ساتھ انصاف نہ کر پایا۔ جوں جوں فوسل جمع کرنے کا جنون بڑھتا گیا، ڈاکٹری پر اس کی توجہ کم ہوتی گئی۔ جلد ہی فوسلوں سے اس کا گھر بھر گیا اور آمدنی کا زیادہ تر حصہ فوسلوں کی خریداری پر صرف ہونے لگا۔ بقیہ آمدنی کا بڑا حصہ بھی انہی فوسلز پر کتب لکھنے اور انہیں چھپوانے پر خرچ ہونے لگا جن کے خریدار نہ ہونےکے برابر تھے۔ اس کی کتاب Illustrations of the Geology of Sussex کی کل 50 جلدیں بکیں جبکہ خرچہ 300 پاؤنڈ ہوا جو اس وقت کے مطابق بہت بڑا نقصان تھا۔
مایوسی کے عالم میں اس نے اپنے گھر کو فوسلوں کاعجائب گھر بنانے کا سوچا۔ اس نے داخلہ فیس لینا شروع کی لیکن جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ اس طرح اس کی شرافت اور سائنس دان ہونے پر دھبہ لگ جائے گا۔ اس نے داخلہ مفت کر دیا۔ لوگ جوق در جوق آتے رہے اور اس کی گھریلو زندگی اور اس کی ڈاکٹری، دونوں ہی تباہ ہو کر رہ گئے۔ آخرکار اس نے قرضوں کی ادائیگی کی خاطر زیادہ تر فوسل بیج دیئے۔ جلد ہی اس کی بیوی چاروں بچوں سمیت اسے چھوڑ گئی۔
بدقسمتی سے یہ اس کی مشکلات کی ابتداء تھی۔
جنوبی لندن کے علاقے سڈن ہیم میں ایک جگہ کرسٹل پیلیس پارک کے نام سے مشہور ہے جہاں کبھی لوگ سیر کرنے جاتے تھے۔ اس جگہ کو دنیا پہلا تھیم پارک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس جگہ ڈائنوساروں کے دیوہیکل مجسمے لگے ہوئے تھے۔
تاہم ان ماڈلوں میں بہت ساری غلطیاں بھی ہیں۔ اگوانوڈون کا انگوٹھا اس کے ناک پر لگایا گیا تھا اور اسے چاروں ٹانگوں پر کھڑا دکھایا جاتا تھا جبکہ وہ دو پایہ تھا۔ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا لیکن ڈائنوساروں پر نیچرل ہسٹری کی تاریخ کا سب بڑا اور سب سے نفرت انگیز مسئلہ پیدا ہوا۔
ڈائنوساروں کے ان مجسموں کو بنانے کے دوران سڈن ہیم کو کرسٹل پیلیس کی مشہور عمارت کو بنانے کے لیے چنا گیا کہ یہ بہت وسیع و عریض جگہ تھی۔ لوہے اور شیشے سے بنی یہ عمارت 1851 کی عظیم نمائش کا مرکز بننی تھی۔ اس پارک کا نام اسی سے موسوم ہے۔ ڈائنوسار کنکریٹ سے بنے اور اس سے پارک کی دلچسپی بڑھ گئی۔ 1853 کو سالِ نو کی تقریبات کے لیے 21 مشہور سائنس دانوں کو کھانے پر زیرِ تعمیر اگوانوڈون کے اندر مدعو کیا گیا۔ گڈون مینٹل، جس نے اس اگوانوڈون کو دریافت کر کے پہچانا تھا، کو نہیں بلایا گیا۔ کھانے کی صدارت اس وقت کی پیلنٹالوجی کے ابھرتے ستارے رچرڈ اوون کے پاس تھی اور اس شخص نے کئی برس سے گڈون مینٹل کی زندگی کو جہنم بنایا ہوا تھا۔
اوون شمالی انگلینڈ میں لنکاسٹر میں پلا بڑھا اور اس نے ڈاکٹری کی تعلیم پائی۔ وہ پیدائشی ماہرِ علم الاابدان تھا اور اس نے اپنی تعلیم کے دوران بعض اوقات غیر قانونی طور پر انسانی اعضاء بھی ‘ادھار’ لیتا اور انہیں گھر لا کر آرام سے ان کی چیر پھاڑ کرتا تھا۔ ایک بار اس نے ایک حبشی ملاح کی لاش کا سر اتارا اور تھیلے میں ڈال کر گھر کو روانہ ہوا۔ راستے میں اس کا پیر پھسلا اور تھیلے سے سر نکل کر لڑھکتا ہوا سامنے ایک گھر کے کھلے دروازے کے اندر جا گھسا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ گھر کے مکینوں نے کیا سوچا ہوگا جب پہلے ایک حبشی کا کٹا ہوا سر لڑھک کر اندر آیا اور پھر اس کے پیچھے پیچھے ایک نوجوان بوکھلائے ہوئے انداز میں گھس کر بغیر کچھ کہے اس سر کو اٹھا کر بھاگ گیا۔
1825 میں 21 سال کی عمر میں اوون لندن منتقل ہوا اور جلد ہی رائل کالج آف سرجنز کے لیے جمع شدہ طبی عجائبات کو ترتیب دینے کے کام میں لگ گیا۔ یہ عجائبات زیادہ تر جان ہنٹر کے تھے جو اپنے دور کا مانا ہوا سرجن تھا اور اس نے ایسے عجائبات کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا تھا۔ تاہم اسے ترتیب دینا ایک مسئلہ تھا کہ ہنٹر کے مرتے ہی ان عجائبات سے متعلق کاغذات کہیں کھو گئے تھے۔
اوون نے جلد ہی ہڈیوں کو ترتیب دینے اور ان سے نتائج نکالنے میں ایسی مہارت دکھائی کہ اس کا مقابلہ پیرس کے کویئر سے کیا جانے لگا۔ لندن کے چڑیا گھر کے مرنے والے جانور اس کے گھر معائنے کے لیے بھیجے جانے لگے۔ ایک بار اس کی بیوی گھر آئی تو دیکھا کہ سامنے ہی ایک گینڈے کی لاش پڑی تھی۔ جلد ہی اسے ہر قسم کے زندہ یا مردہ جانوروں پر حرفِ آخر مانا جانے لگا۔ بواریہ میں آرکیوٹیرکس کی دریافت کے بعد اوون نے ہی اس کا مطالعہ کر کے اس پر مقالہ لکھا۔ اسی نے سب سے پہلے ڈوڈو پر نوحہ لکھا۔ مل ملا کر اس نے 600 سے زیادہ مقالے علم الابدان پر لکھے۔
تاہم اوون کو ڈائنوساروں پر تحقیق سے جانا جاتا ہے۔ اسی نے پہلی بار 1841 میں ڈائنوساریا کی اصطلاح متعارف کرائی جس کا مطلب ‘بری چھپکلی’ ہے۔ ڈائنوسار حالانکہ برے ہرگز نہیں تھے اور نہ ہی چھپکلیاں۔ چھپکلیاں درحقیقت ڈائنوساروں سے کم از کم 3 کروڑ سال زیادہ پرانی ہیں۔ اوون کو بخوبی علم تھا کہ ڈائنوسار خزندے ہیں اور اس کے لیے یونانی لفظ ‘ہرپیٹون’ موجود تھا لیکن اوون نے اسے نہیں استعمال کیا۔ ایک اور غلطی بھی اوون سے یہ ہوئی کہ اس نے ڈائنوساروں کو ایک آرڈر میں شمار کیا جبکہ وہ دو آرڈروں میں تھے جن میں سے ایک اڑے والے اور دوسرے چلنے والے تھے۔
اوون کسی طور بھی پُرکشش نہیں تھا، نہ ظاہراً اور نہ ہی قوتِ برداشت کے حوالے سے۔ اس کی ایک تصویر دیکھیں تو اس کی اُبلی ہوئی آنکھیں، لمبے بال اور ڈھانچہ نما جسم دیکھ کر بچے بہ آسانی ڈر سکتے ہیں۔ یہ واحد انسان ہے جس سے چارلس ڈارون نفرت کرتا تھا۔ اوون کے بیٹے، جس نے بعد میں خودکشی کی، اپنے باپ کو قابلِ ملامت اور سرد مہر کہا کرتا تھا۔
اس کی علم الابدان کی مہارت اس کی بدعنوانیوں پر پردہ ڈال دیتی تھی۔ 1857 میں ٹی ایچ ہکسلے چرچل کی میڈیکل ڈکشنری کے ورق گردانی کر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ اوون کا نام گورنمنٹ سکول آف مائنز میں پروفیسر آف کمپیریٹو اناٹومی اینڈ فزیالوجی کے طور پر درج تھا جبکہ یہ عہدہ ہکسلے کو ملا ہوا تھا۔ جب ہکسلے نے چرچل سے پوچھا کہ ایسی فاش غلطی کیوں کر ہوئی تو جواب ملا کہ ڈاکٹر اوون نے یہ معلومات خود دی تھیں۔ اوون کے ہم عصر ہف فالکنر نے ایک بار اپنی ایک دریافت دیکھی جو اوون اپنے نام سے منسوب کر رہا تھا۔ کئی افراد نے الزام لگائے کہ اوون نے ان سے کئی عجائبات ادھار مانگے اور پھر واپسی سے انکار کر دیا۔ شاہی دندان ساز سے اوون کا دانت کی ساخت سے متعلق ایک دریافت کی ملکیت کا جھگڑا ہوا۔
جس بندے کو وہ ناپسند کرتا، اس کے خلاف کاروائی شروع کر دیتا۔ شروع میں اس نے اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے زووآلوجیکل سوسائٹی سے ایک نوجوان رابرٹ گرانٹ کو مشکل میں ڈال دیا جس کا قصور محض اتنا تھا کہ وہ ابھرتا ہوا ماہر تھا۔ اس بے چارے کو یقین نہ آیا کہ جب اس نے تحقیق کی خاطر کچھ نمونے مانگے تو اسے انکار کر دیا گیا۔ تحقیق ادھوری رہ جانے پر وہ منظرِ عام سے غائب ہو گیا۔
تاہم اوون کی وجہ سے گڈون مینٹل سے زیادہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچی۔ جب مینٹل کی بیوی بچوں سمیت اسے چھوڑ گئی، اس کے فوسل بک گئے اور ڈاکٹری ختم ہوگئی تو مینٹل لندن منتقل ہوا۔ 1841 میں جب اوون نے ڈائنوساروں کی رسمی دریافت کی تو مینٹل کو ایک حادثہ پیش آیا۔ ایک جگہ وہ اپنی گھوڑا گاڑی سے نیچے گرا اور باگوں میں پھنس کر سخت زمین پر گھوڑوں کے پیچھے گھسٹتا گیا۔ اس حادثے سے اس کی ریڑھ کی ہڈی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور بقیہ زندگی اس نے تکلیف اور معذوری میں گزاری۔
مینٹل کی معذوری کو دیکھتے ہوئے اوون نے باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے مینٹل کی برسوں قبل دریافتوں پر سے مینٹل کا نام مٹا کر اس پر اپنا نام لکھنا شروع کر دیا۔ مینٹل نے تحقیقات جاری رکھیں لیکن اوون نے اپنے اثر و رسوخ کی بناء پر مینٹل کے زیادہ تر مقالے مسترد کرا دیے۔ 1852 میں دلبرداشتہ ہو کر مینٹل نے خودکشی کر لی۔ طرفہ تماشا دیکھئے کہ اس کی ٹوٹی ہوئی ریڑھ کی ہڈی کو نکال کر رائل کالج آف سرجنز کو بھیج دی گئی جہاں رچرڈ اوون نے اس کا ذمہ لے لیا۔
مینٹل کی بے عزتی ابھی جاری تھی۔ مرنے کے فوراً بعد لٹریری گزٹ نامی رسالے میں ایک مضمون چھپا جس میں مینٹل کو اوسط درجے اور محدود علم والے ماہرِ علم الابدان کے نام سے متعارف کرایا گیا۔ اگوانوڈون کی دریافت کو بھی اس رسالے نے مینٹل کے نام سے ہٹا کر اوون اور کویئر کے نام سے پیش کیا اور اسی طرح کئی دوسرے امور بھی غلط پیش کیے گئے۔ اگرچہ اس مضمون کو لکھنے والے کا نام نہیں دیا گیا تھا پھر بھی طرزِ تحریر بلا شبہ اوون کا تھا جو نیچرل سائنس سے متعلق ہر فرد پہچانتا تھا۔
اس وقت تک اوون کی غیرقانونی حرکات سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اس کا آغاز تب ہوا جب رائل سوسائٹی کی کمیٹی نے اوون کو اپنا اعلیٰ ترین اعزاز یعنی رائل میڈل دینے کا فیصلہ کیا۔ اوون اتفاق سے اس کمیٹی کا سربراہ تھا۔ اس اعزاز کی وجہ اس کا وہ مضمون تھا جو اس نے ایک خاص قسم کی ناپید سیپی پر لکھا تھا۔ ‘اتفاق’ سے یہ مضمون اس کا اپنا نہیں تھا کیونکہ یہ سیپی چار سال قبل ایک شوقیہ نیچرلسٹ چیننگ پیئرس نے دریافت کر کے اس کی اطلاع جیولاجیکل سوسائٹی کو تفصیل سے پہنچا دی تھی اور اس وقت اوون اس میٹنگ میں موجود بھی تھا۔ تاہم رائل سوسائٹی میں اپنا مضمون پیش کرتے وقت نہ صرف اوون نے اس بات کو چھپائے رکھا بلکہ اس نے تو اس جانور کو اپنے نام سے بھی منسوب کر دیا۔ اگرچہ رائل میڈل تو اس سے واپس نہیں لیا گیا لیکن اس کی شہرت اس کے چند بچے کھچے ہمدردوں کے دل میں بھی ہمیشہ کے لیے داغدار ہو گئی۔
آخرکار ہکسلے نے اوون کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اب تک اوون دوسروں کے ساتھ کرتا آیا تھا۔ اس نے زووالوجیکل اور رائل سوسائٹیوں سے اوون کے خلاف ووٹ دلوایا۔ اس کے علاوہ ہکسلے نے رائل کالج آف سرجنز میں اوون کی جگہ پروفیسر شپ سنبھال لی۔
اوون نے پھر کوئی تحقیقی کام نہیں کیا۔ تاہم اس کی زندگی کا آخری حصہ اس کوشش میں گزرا جس کے لیے ہم سب اس کے شکرگزار ہیں۔ 1856 میں وہ برٹش میوزیم میں نیچرل ہسٹری شعبے کا سربراہ بنا اور اسی نے لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی داغ بیل ڈالی۔ یہ میوزیم ساؤتھ کینزنگٹن میں قائم ہے اور 1880 میں یہ عجائب گھر کھلا اور اوون کی بصیرت کا شاہکار ہے۔
اوون سے قبل عجائب گھر بنیادی طور پر امراء کے لیے بنائے جاتے تھے اور اکثر امراء کو بھی داخلے میں مشکل پیش آتی تھی۔ برٹش میوزیم کے ابتدائی دنوں میں لوگوں کو تو باقاعدہ درخواست دینے بعد مختصر انٹرویو بھی دینا پڑتا تھا کہ آیا وہ عجائب گھر میں داخلے کے اہل ہیں بھی یا نہیں۔ دوسرے چکر پر انہیں داخلے کی ٹکٹ دی جاتی تھی یا بتا دیا جاتا تھا کہ وہ داخل نہیں ہو سکتے۔ تیسرے چکر پر وہ عجائب گھر میں داخل ہوتے۔ تاہم اس کے بعد انہیں جماعت کی شکل میں سیر کرائی جاتی اور کہیں زیادہ دیر رکنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اوون نے اس بات کو یقینی بنایا کہ عجائب گھر کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہوں اور ملازم پیشہ افراد کو شام میں آنے کی اجازت بھی ہو اور یہ بھی کہ زیادہ تر جگہ پر عوام کے لیے نمائش پر عجائبات رکھے جائیں۔ اس نے یہ تجویز تک پیش کی کہ عجائبات کے ساتھ کاغذ پر مختصر الفاظ میں یہ بھی لکھ دیا جائے کہ یہ کیا چیز ہے۔ اس بارے ہکسلے نے اس کی مخالفت کی کیونکہ ہکسلے کے خیال میں عجائب گھر محض تحقیق کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اوون کی وجہ سے آج عجائب گھر عام افراد کے لیے کھلے ہیں۔
ان تمام تر باتوں کے باوجود اس کی ذاتی دشمنیاں ہمیشہ جاری رہتی تھیں۔ اس نے نیچرل ہسٹری میوزیم کے ہال میں چارلس ڈارون کے مجسمے کو لگوانے کے خلاف کافی کوششیں کیں مگر ناکام رہا۔ تاہم آج اس کا اپنا مجسمہ نیچرل ہسٹری میوزیم کے بڑے ہال میں لگا ہے جبکہ ہکسلے اور ڈارون کے مجسمے جن جگہوں پر ہیں، وہاں سے وہ لوگوں کو کافی پیتے اور کھانا کھاتے ہی دیکھ سکتے ہیں۔
اگر آپ یہ سوچتے ہوں کہ اوون کی وجہ سے پیلنٹالوجی کے شعبے کو بہت نقصان پہنچا تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ اتنا ہی نقصان دو امریکی سائنس دانوں کی لڑائی سے بھی ہوا۔ ان کے نام ایڈورڈ ڈرنکر کوپ اور اوتھنیئل چارلس مارش تھے۔
دونوں میں کافی باتیں مشترک تھیں۔ دونوں ہی بگڑے ہوئے، خودغرض، جھگڑالو، حاسد، اعتبار نہ کرنے والے اور دکھی آتما تھے۔ تاہم ان دونوں نے مل کر پیلنٹالوجی کی دنیا بدل دی۔
دونوں کا تعلق دوستی سے شروع ہوا جو اتنا بڑھا کہ ایک دوسرے کے نام پر فوسلوں کو نام دینے لگ گئے۔ 1968 میں ایک ہفتہ اکٹھے کام کرتے گزارا۔ پھر کوئی ایسا مسئلہ ہوا کہ اگلے سال ان کی دوستی نفرت میں بدل گئی اور اگلے تیس سال تک جاری رہی۔ اس حد تک کہہ سکتے ہیں کہ نیچرل سائنسز کی تاریخ میں اس سے بڑی دشمنی کسی نے نہیں دیکھی۔
مارش عمر میں کوپ سے آٹھ سال بڑا تھا اور کتابی کیڑا تھا۔ اس نے فیلڈ میں کم وقت گزارا اور شاید ہی کسی اچھی تلاش میں کامیاب ہوا ہو۔ ایک مؤرخ کے مطابق جب مارش کومو بلف کے مشہور میدان میں گیا تو ہر طرف بکھری ہوئی ڈائنوسار کی ہڈیاں تک شناخت کرنے میں ناکام رہا۔ تاہم اس کے پاس اتنی دولت تھی کہ جو چیز چاہتا، خرید لیتا۔ اس کا باپ متوسط قسم کا کسان تھا۔ تاہم اس کا چچا انتہائی امیر انسان تھا ۔ جب مارش نے نیچرل ہسٹری میں دلچسپی دکھائی تو اس کے چچا نے یےل میں اس کے لیے باقاعدہ عجائب گھر بنوایا اور اتنی دولت دی کہ وہ جو چاہے خرید سکتا۔
کوپ امیر گھر میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ فلاڈلفیا کا مشہور تاجر تھا۔ اس کی زیادہ دلچسپی فیلڈ سے متعلق تھی۔ 1876 میں جب وہ مونٹانا میں جس جگہ سے ہڈیاں تلاش کر رہا تھا، اس کے پاس ہی ریڈ انڈین لوگ جارج آرمسٹرانگ کی فوج کو قتل کر رہے تھے۔ جب کسی مشورہ دیا کہ ان حالات میں انڈین لوگوں کی زمین سے ہڈیوں کی تلاش خطرناک کام ہے تو اس نے لمحہ بھر سوچنے کے بعد کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا یہ دورہ انتہائی کامیاب جا رہا تھا۔ ایک بار وہ کرو انڈین لوگوں میں گھر گیا لیکن اپنے مصنوعی دانتوں کو بار بار نکالنے اور لگانے سے وہ ان کو خوش کر کے بچ نکلا۔
ایک دہائی تک ان کی دشمنی چھپی رہی لیکن پھر 1877 میں دونوں ہی پھٹ پڑے۔ اسی سال کولوراڈو کے ایک استاد آرتھر لیکس کو سیر کرتے ہوئے ایک جگہ بہت بڑی ہڈیاں دکھائی دیں۔ اس نے انہیں جمع کر کے مارش اور کوپ کو بھجوا دیا۔ کوپ نے اسی وقت خوشی خوشی 100 ڈالر بھجوا دیئے اور کہا کہ اس بارے کسی کو بھی نہیں بتانا، مارش سے خصوصاً یہ بات چھپائی جائے۔ پریشان ہو کر لیکس نے مارش سے کہا کہ وہ ان ہڈیوں کو کوپ کو بھجوا دے۔ مارش نے ایسا ہی کیا لیکن اپنی شکست برداشت نہ کر سکا۔
ان کی دشمنی بہت گھٹیا حد تک جا پہنچی۔ اکثر ایک کی ٹیم کے اراکین کام کرتی ہوئی دوسری ٹیم پر پتھراؤ کرتے۔ ایک موقع پر کوپ کو مارش کے ڈبے کھولتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ دونوں نے زبانی اور تحریری، ہر طرح سے ایک دوسرے کی بے عزتی کی۔ کبھی کبھار ہی ایسا ہوا ہے کہ دو انسانوں کی لڑائی سے سائنس کو اتنی ترقی ملی ہو۔ اگلے کئی سال تک ان کی لڑائی کے نتیجے میں امریکی ڈائنوساروں کی انواع کی تعداد 9 سے بڑھ کر ڈیڑھ سو ہو گئی۔ عام مشہور تمام تر ڈائنوسار انہی دونوں کی دریافت تھے۔ بدقسمتی سے دشمنی میں اندھے ہو کر وہ پہلے سے دریافت شدہ جانور کو دوبارہ دریافت کر لیتے۔ دونوں نے ایک ہی ڈائنوسار کو کم از کم 22 مرتبہ دریافت کیا۔ ان الجھنوں کو دور کرنے میں برسوں لگے۔ بعض مسائل ابھی تک حل نہیں ہو سکے۔
ان دونوں میں سے کوپ کی سائنسی اہمیت زیادہ ہے کہ اس نے 1400 تحقیقی مقالے لکھے اور فوسل شدہ مختلف جانوروں کی لگ بھگ 1300 انواع متعارف کرائیں۔ یہ مقدار مارش سے دو گنا زیادہ ہے۔ اس کی تحقیق مزید ترقی کرتی لیکن 1875 میں ملنے والی دولت کو اس نے چاندی کی کانوں میں لگایا اور پائی پائی کا محتاج ہو گیا۔ آخری وقت میں اس کے رہنے کے لیے فلاڈلفیا کے بورڈنگ ہاؤس میں صرف ایک کمرہ تھا جس میں کتب، کاغذات اور ہڈیاں جمع تھیں۔ مارش نے ساری زندگی عیش سے گزاری۔ کوپ 1897 اور مارش 1899 میں فوت ہوا۔
تاہم آخری برسوں میں کوپ کو ایک اور شوق ہو گیا۔ اس نے یہ اعلان کیا کہ اس کی موت کے بعد اس کی ہڈیوں کو صاف کر کے ہومو سیپیئنز کا نمائندہ ڈھانچہ بنا دیا جائے۔ اگرچہ کسی بھی نوع کی ملنے والی پہلی ہڈیاں ہی اس کا نمونہ سمجھی جاتی ہیں لیکن انسان کے لیے ابھی تک یہ جگہ خالی تھی۔ کوپ اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ اگرچہ یہ خواہش بہت عجیب تو تھی لیکن بظاہر اس کی مخالفت کا کوئی جواز بھی نہیں تھا۔ آخر میں کوپ نے اپنی ہڈیوں کو وسٹر انسٹی ٹیوٹ کو دینے کی وصیت کی۔ تاہم جب بعد از مرگ اس کی ہڈیوں کو صاف کر کے تیار کیا جانے لگ اتو پتہ چلا کہ ہڈیوں پر آتشک کی بیماری کے نشانات موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس وجہ سے یہ ہڈیاں بیکار سمجھی گئیں۔ اس لیے کوپ کی وصیت کو اس کی ہڈیوں سمیت الماری میں رکھ دیا گیا۔ موجودہ انسان کا ابھی تک کوئی نمونہ کسی عجائب گھر میں موجود نہیں۔
اس ڈرامے کے دیگر کھلاڑیوں میں سے اوون 1892 میں فوت ہوا۔ بک لینڈ دیوانہ ہو کر ایک پاگل خانے میں مرا جو مینٹل کی جائے حادثہ سے زیادہ دور نہیں تھا۔ مینٹل کی ریڑھ کی ٹوٹی پھوٹی ہڈی کم از کم ایک صدی تک نمائش پر لگی رہی جہاں آخر ایک جرمن بم گرا اور اس نے اس کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ مینٹل کے بچے کچھے نوادرات کو 1840 میں اس کا بیٹا والٹر نیوزی لینڈ لے گیا۔ والٹر وہاں جا کر اتنی ترقی کر گیا کہ اسے مقامی آبادی کے امور کا وزیر بنا دیا گیا۔ 1865 میں اس نے اپنے باپ کے جمع کردہ بہترین نمونے، بشمول اگوانوڈین کا دانت، ولنگٹن کے عجائب گھر کو عطیہ کر دیے جو آج بھی وہاں موجود ہیں۔ تاہم اگوانوڈون کا دانت کہ جو پیلنٹالوجی کی سب سے اہم دریافت ہے، اب نمائش سے ہٹ گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ ڈائنوساروں کی تلاش ان کے ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ تو محض آغاز تھا۔ 1898 میں مارش کی متذکرہ بالا جگہ کومو بلف سے چند میل کے فاصلے پر فوسلز کی بہت بڑی مقدار دریافت ہوئی۔ اس جگہ کو بون کیبن کیوری کہا جاتا تھا کیونکہ وہاں اتنی ہڈیاں تھیں کہ لوگوں نے ان سے ایک کیبن بنا دیا تھا اور اسی سے نام مشہور ہوا۔ پہلے دو سالوں میں 1 لاکھ پاؤنڈ ہڈیاں نکالی گئیں اور اگلے پانچ یا چھ سالوں تک مزید لاکھوں پاؤنڈ ہڈیاں نکالی گئیں۔
19ویں صدی کے اوائل تک پیلنٹالوجسٹوں کے پاس ٹنوں کے حساب سے ہڈیاں جمع ہو چکی تھیں۔ تاہم یہ بات ہنوز تحقیق طلب تھی کہ یہ ہڈیاں کتنی پرانی ہیں۔ اس وقت تک زمین کی عمر بھی درست طور پر نہیں جانی جا سکی تھی۔ اگر زمین محض کروڑ سال پرانی ہے تو ڈائنوسار وغیرہ کی آمد اور رخصت میں کوئی خاص وقت نہ لگا ہوگا جو سمجھ سے بالاتر بات تھی۔
کیلون کے علاوہ بھی دیگر سائنس دان زمین کی عمر جاننے کے لیے کام کر رہے تھے تاہم انہیں بھی ناکامی ہوئی۔ مثال کے طور پر ڈبلن کے ٹرینیٹی کالج کے مشہور ارضیات دان سیموئل ہفٹن کے مطابق زمین کی عمر 2.3 ارب سال تھی۔ جب اسے بتایا گیا کہ یہ عمر تو دیگر اندازوں سے کہیں زیادہ ہے تو اس نے یہ مقدار کم کر کے 15 کروڑ سال کے لگ بھگ کر دی۔ جان جالی جو اسی کالج سے متعلق تھا، نے ایڈمنڈ ہیلی کے نظریے کے مطابق سمندری نمکیات کو جانچنے کی کوشش کی لیکن متعدد وجوہات کی بناء پر ناکام رہا۔ تاہم اس کا اندازہ لارڈ کیلون کے اندازے کے نزدیک تر اور حقیقت سے کوسوں دور تھا۔
18ویں صدی میں انہی مشکلات کے پیشِ نظر کیمبرین دور کے بارے مختلف کتب میں مختلف مدتیں درج ہیں۔ کچھ کے خیال میں 30 لاکھ تو کچھ اسے تقریباً دو کروڑ تو کچھ اسے 60 کروڑ تو کوئی اسے لگ بھگ 80 کروڑ اور کچھ اسے اڑھائی ارب سال بتاتے ہیں۔ 1910 تک سب سے معتبر اندازہ امریکی جارج بیکر کا تھا جس نے زمین کی عمر ساڑھے پانچ کروڑ سال بتائی تھی۔
ابھی یہ سب مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہو رہے تھے کہ ایک نئی شخصیت ایک نئی تکنیک کے ساتھ نمودار ہوئی۔ یہ بندہ نیوزی لینڈ میں پیدا ہونے والا ارنسٹ ردرفورڈ تھا اور اسی نے پہلی بار ایسے ثبوت دیئے کہ زمین کی عمر کئی کروڑ سال یا اس سے بھی زیادہ ہے۔
ردرفورڈ کی پیش کردہ تکنیک قدرتی، سائنسی طور پر قابلِ قبول اور غیر روایتی ہونے کے باوجود الکیمی ہی تھی۔ نیوٹن کا اندازہ اتنا غلط بھی نہیں تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
7 بنیادی اجزاء​
جب رابرٹ بوائل نے 1661 میں اپنا مشہور مقالہ The Sceptical Chymist پیش کیا تو کیمیا اور الکیمی کا فرق واضح ہونے کے علاوہ کیمیا کو قابل اعتبار سائنس کا درجہ مل گیا۔ تاہم یہ عمل بہت سست تھا اور 17ویں صدی کے زیادہ تر عالم کیمیا اور الکیمی، دونوں طرح سے بخوبی کام کرتے تھے۔ اس کی بہترین مثال جرمن کیمیا دان جان بیچر تھا جس نے معدنیات کے بارے Physica Subterranea جیسی معلوماتی کتاب لکھی لیکن اسے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یقین تھا کہ اگر اسے مطلوبہ مادے مل جائیں تو وہ خود کو نظروں سے اوجھل کر سکتا ہے۔
ہینگ برانڈ نامی جرمن کی 1675 میں کی گئی دریافت سے زیادہ کیمیائی سائنس میں حادثاتی دریافتوں کے بارے شاید ہی کچھ اور بتا سکے۔ برانڈ کو کسی طرح یہ یقین ہو گیا کہ انسانی پیشاب سے سونا نکالا جا سکتا ہے۔ شاید رنگ کی مماثلت سے ایسا ہوا ہو۔ اس نے انسانی پیشاب کی 50 بالٹیاں جمع کیں اور کئی ماہ تک انہیں اپنے تہہ خانے میں رکھا۔ مختلف مشکل مراحل سے اس نے پہلے پیشاب کو گاڑھے مائع میں بدلا جو بعد میں نیم شفاف اور موم نما مادہ بن گیا۔ تاہم اس سے سونا تو نہیں نکلا لیکن اس کی بجائے کچھ اور ہوا۔ کچھ وقت کے بعد یہ چیز چمکنے لگی۔ اس کے علاوہ جب اسے ہوا لگتی تو اچانک آگ لگ جاتی۔
نتیجتاً اس چیز کو فاسفورس کہا گیا جو لاطینی اور یونانی زبان سے نکلا ہے اور اس کا مطلب ‘روشن’ ہے۔ جلد ہی اس کے تجارتی استعمال دریافت ہونے لگے تاہم اس کی تیاری بہت مشکل تھی۔ ایک اونس فاسفورس کی قیمت 6 گنی تھی جو شاید آج کے دور میں 300 پاؤنڈ کے برابر ہو۔ یہ قیمت سونے سے بھی زیادہ ہے۔
پہلے پہل تو ‘خام مواد’ کے لیے فوجیوں کو بلایا گیا جو زیادہ سود مند نہ تھا۔ 1750 کی دہائی میں سوئیڈش کیمیا دان کارل شیل نے فاسفورس کو بنانے کا ایسا طریقہ ایجاد کیا جس میں پیشاب کی بو سے جان چھوٹ گئی۔ اسی وجہ سے ہی سوئیڈن آج تک فاسفورس اور ماچسوں کی تیاری میں سب سے آگے ہے۔
شیل انتہائی بدقسمت انسان تھا۔ بطور فارماسیسٹ اور عام آلات کی مدد سے اس نے آٹھ مختلف عناصر دریافت کیے جو کلورین، فلورین، میگانیز، بیریئم، مولبیڈیئم، ٹنگسٹن، نائٹروجن اور آکسیجن تھے تاہم ایک عنصر کی دریافت بھی اس سے منسوب نہیں۔ ہر بار یا تو اسے اسے نظرانداز کر دیا جاتا یا پھر اس کی دریافت تب چھاپی جاتی جب پہلے کوئی اور اسے الگ سے دریافت کر کے چھپوا چکا ہوتا۔ اس نے کئی اور مرکبات بھی دریافت کیے جن میں امونیا، گلیسرین اور ٹینیک ایسڈ اہم ہیں اور اس نے سب سے پہلے کلورین کو بلیچ کے طور پر استعمال کرنے کا خیال پیش کیا۔ ان تمام دریافتوں سے دیگر افراد انتہائی امیر بنے۔
شیل کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ وہ جس چیز پر کام کرتا، اس کی معمولی سی مقدار لازمی چکھتا جن میں پارہ، ہائیڈرو سائنک ایسڈ (اس کا اپنا دریافت کردہ) انتہائی زہریلے ہیں۔ شیل کی یہی بے احتیاطی اسے لے ڈوبی۔ 1786 میں 43 سال کی عمر میں اپنی تجربہ گاہ میں مردہ حالت میں پایا گیا اور اس کے آس پاس ہر طرح کے زہریلے مادے بکھرے پڑے تھے جن میں سے کوئی بھی اس کی موت کا سبب ہو سکتا تھا۔
اگر دنیا میں انگریزی کی بجائے سوئیڈش عام بولی جاتی تو اس وقت شیل کی شہرت آسمان کو چھو رہی ہوتی۔ شیل نے 1772 میں آکسیجن دریافت کی تاہم انتہائی دل شکن وجوہات کی بناء پر اس کی دریافت بروقت نہ چھپ سکی اور اس کا سہرہ جوزف پریسٹلے کے سر بندھا جس نے 1774 کے موسمِ گرما میں اسے دریافت کیا۔ کلورین بھی آج تک ہمفری ڈیوی کی دریافت شدہ شمار ہوتی ہے جبکہ اس نے شیل سے پورے 36 سال بعد اسے دریافت کیا تھا۔
اگرچہ نیوٹن اور بوائل کے بعد شیل اور پریسٹلے اور ہنری کیونڈش کے درمیان طویل مدت آ گئی تھی پھر بھی کیمیا کو ابھی بہت مشکلات سے گزرنا تھا۔ اس صدی کے اواخر میں سائنس دانوں نے ایسی چیزیں بھی تلاش کر لی تھیں جو موجود ہی نہیں ہوتیں مثلاً vitiated airs, dephlogisticated marine acids, phloxes, calxes, terraqueous exhalations اور ۔phlogiston آخری چیز کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جلنے کے عمل میں شامل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ‘روح’ کا تصور بھی تھا کہ جو مردہ چیزوں میں جان لاتی ہے۔ اس بارے تو کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ روح کہاں ملے گی، تاہم دو باتیں یقینی تھیں۔ ایک تو یہ کہ بجلی کے جھٹکے سے روح بیدار ہو سکتی ہے اور دوسرا یہ کہ روح بعض چیزوں میں تو پائی جاتی ہے لیکن بعض چیزوں میں نہیں پائی جاتی۔ اسی سے کیمیا کی دو شاخیں پیدا ہوئیں، آرگینک (ایسی چیزیں جن میں روح ہوتی تھی) اور ان آرگینک (ایسی چیزیں جن میں روح نہیں تھی)۔
اس وقت کیمیاکو موجودہ دور تک لانے کے لیے کچھ کاوشوں کی ضرورت تھی جو ایک فرانسیسی نے کیں۔ اس کا نام انٹوئن لاورینٹ لاویئزر تھا۔ 1743 میں لاویئزر کا تعلق زیریں اشرافیہ طبقہ سے تھا۔ 1768 میں اس نے بدنامِ زمانہ جنرل فارم نامی ادارے کے حصص خریدے جس کا کام حکومت کی جانب سے ٹیکس اور فیسیں جمع کرنا تھا۔ اگرچہ لاویئزر خود تو نرم اور معتدل مزاج انسان تھا لیکن اس کی کمپنی انتہائی روکھی اور کمینی تھی۔ اس کا کام امراء کی بجائے صرف غرباء سے ٹیکس وصول کرنا تھا اور یہ کمپنی بار بار مختلف حیلوں سے ٹیکس وصول کرتی تھی۔ لاویئزر کے لیے کمپنی سے صرف ایک مفاد وابستہ تھا کہ اس سے ملنے والے پیسے سے وہ اپنے شوق یعنی سائنس پر کام جاری رکھ سکتا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب اس کی ذاتی آمدنی سالانہ ڈیڑھ لاکھ لیور تک پہنچ گئی تھی۔ آج کے دور کے حساب سے اسے سوا کروڑ پاؤنڈ سمجھ لیں۔
اس سرمایہ کاری کے تین سال بعد اس نے اپنے افسرانِ اعلٰی میں سے ایک کی 14 سالہ بیٹی سے شادی کر لی۔ یہ شادی جسم و جان کا ملاپ تھی۔ اس کی بیوی انتہائی ذہین تھی اور اس نے جلد ہی اپنے شوہر کے ساتھ اسی معیار کا کام شروع کر دیا۔ اپنی نوکری اور سماجی سرگرمیوں کے علاوہ میاں بیوی اکثر پانچ گھنٹے روزانہ سائنس پر خرچ تھے جو دو گھنٹے صبح اور تین گھنٹے شام ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ اتوار کا پورا دن بھی اسی کی نظر ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ لاویئزر کو بارود بنانے کے کارخانے کا سربراہ، پیرس کے گرد دیوار کی تعمیر تاکہ سمگلروں کو دور رکھا جا سکے، میٹرک نظام بنانے میں مدد دینے کے علاوہ ایک کتاب لکھنے کا بھی وقت مل گیا جو آج بھی عناصر کے نام رکھنے کے اصولوں کی مستند ترین کتاب ہے۔
شاہی سائنسی اکیڈمی کا نمایاں رکن ہونے کی وجہ سے اسے اس وقت کے اہم مشاغل سے بھی دلچسپی لینا پڑتی جو ہپناٹزم، جیلوں کی اصلاح، حشرات میں نظامِ تنفس اور پیرس میں پانی کی سپلائی وغیرہ سے متعلق تھے۔ اس طرح کی مصروفیات میں جب اس کے سامنے ایک نظریہ رکھا گیا تو لاویئزر نے اس نظریے کو یکسر مسترد کر دیا۔ اگرچہ یہ نظریہ غلط تھا، لیکن اس کے پیش کنندہ نے لاویئزر کی یہ غلطی معاف نہیں کی۔ اس بندے کا نام جین پال مرات تھا۔
ایک کام جو لاویئزر نے کبھی نہیں کیا، وہ عناصر کی دریافت تھی۔ اس دور میں ایک بیکر، آگ اور کسی قسم کا پاؤڈر ہو تو لوگ بہ آسانی عناصر دریافت کر لیتے تھے اور اس وقت تک دو تہائی عناصر ابھی دریافت نہیں ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ بیکروں کی کمی نہیں ہو سکتی کہ لاویئزر کے پاس 13,000 بیکر تھے۔ اس کے پاس شاید دنیا کی پہلی پرائیوٹ لیبارٹری تھی۔
اس نے دوسروں کی دریافتوں کو اٹھا کر ان کو بامعنی بنایا۔ اس نے فلوگیسٹن (ایسا عنصر جس کے بارے فرض کیا جاتا تھا کہ وہ آگ لگنے کے عمل میں پیدا ہوتا ہے) اور میفیٹک ایئر (بری ہوا) کے نظریات کو رد کیا۔ اس نے آکسیجن اور ہائیڈروجن کو اکٹھا کرنے سے پانی بننے کو ثابت کیا اور ان دونوں کو موجودہ نام عطا کیے ۔ مختصر یہ کہ اس نے کیمیامیں درستگی، شفافیت اور طریقہ کار متعارف کرائے۔
اس کے نفیس آلات سے بہت فائدے بھی حاصل ہوئے۔ مثال کے طور پر ان میاں بیوی نے انتہائی مشکل تجربے سے ثابت کیا کہ زنگ لگنے کے عمل میں لوہے کا وزن کم ہونے کی بجائے زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ لوہے نے ہوا سے مختلف عناصر کے ذرات کو جمع کیا۔ یعنی مادہ ختم نہیں ہو سکتا، البتہ اس کی شکل بدل سکتی ہے۔ یعنی اگر آپ اس کتاب کو جلائیں تو راکھ اور دھواں پیدا ہوگا لیکن کائنات میں موجود تمام تر عناصر کی کل مقدار وہی رہے گی۔ اسے قانون بقائے مادہ کا نام دیا گیا جو بہت انقلابی دریافت تھی۔ بدقسمتی سے اس کا ٹاکرا ایک اور انقلاب سے ہو گیا، جو انقلابِ فرانس کے نام سے مشہور ہے۔ اس انقلاب میں لاویئزر غلط جانب تھا۔
نہ صرف اس لیے کہ وہ قابلِ نفرت فارم جنرل کا رکن تھا بلکہ اس لیے بھی کہ اس نے شہر کے گرد دیوار بنائی تھی۔ یہ دیوار انقلابیوں نے سب سے پہلے تباہ کی۔ مرات نے اپنی دشمنی کو یاد رکھا۔ اب نیشنل اسمبلی میں ہونے کی وجہ سے اس نے مشورہ دیا کہ لاویئزر بہت بوڑھا ہو چکا ہے اور اسے پھانسی دینا مناسب نہیں۔ جلد ہی فارم جنرل بند ہو گئی۔ تاہم اس کے فوراً بعد مرات کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اس کی قاتل ایک نوجوان عورت تھی مگر لاوئزر کو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔
1793 میں خوف کا دور مزید انتہا کو پہنچا۔ اکتوبر میں ملکہ میری کو گلوٹین پر سزائے موت ملی۔ نومبر میں جب لاویئزر اور اس کی بیوی سکاٹ لینڈ فرار ہونے کے منصوبے بنا رہے تھے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اسے اور 31 دوسرے فارم جنرل کے مالکان کو انقلابی ٹربیونل کے سامنے پیش کیا گیا۔ ٹربیونل کی صدارت مرات کا مجسمہ کر رہا تھا۔ ان میں سے آٹھ بری ہوئے جبکہ لاویئز اور دیگر کو گلوٹین کو بھیج دیا گیا۔ پہلے لاویئزر کا سسر اور پھر اسے مارا گیا۔ اس کے تین ماہ سے بھی کم عرصے بعد 27 جولائی کو اس انقلاب کے رہنما کو بھی عین اسی طریقے سے اسی جگہ گلوٹین نصیب ہوئی اور انقلاب اپنی موت آپ مر گیا۔
لاویئزر کی وفات کے سو برس بعد پیرس میں اس کا مجسمہ لگایا گیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ تاہم پھر کسی نے اعتراض کیا کہ یہ مجسمہ اس سے مشابہہ نہیں۔ تفتیش پر مجسمہ ساز نے اعتراف کیا کہ اس نے اس امید پر کہ کون اس غلطی کی نشاندہی کرے گا، ایک اور مشہور ریاضی دان اور فلسفی مارکوئس ڈی کنکارڈکٹ کا سر لگا دیا تھا جو پہلے سے بنا رکھا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم تک یہ غلط مجسمہ لگا رہا اور پھر اسے پگھلا کر لوہا الگ کر دیا گیا۔
1800 کے اوائل میں انگلینڈ میں نائٹرس آکسائیڈ کو سونگھنے کا فیشن بن گیا کہ سونگھنے کے بعد انتہائی لطف آتا تھا۔ اگلی نصف صدی تک نوجوانوں کی پسندیدہ نشہ رہا۔ تھیٹروں میں باقاعدہ شامیں منائی جاتی تھیں جس میں اداکار اس گیس کو سونگھ کر تماشائیوں کو اپنی مزاحیہ حرکات سے محظوظ کرتے تھے۔
1846 میں پہلی بار کسی نے اس گیس کا عملی استعمال دریافت کیا۔ اسے آپریشنوں میں بطور نشہ استعمال کیا جانے لگا۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سے قبل کتنے افراد سرجن کے نشتروں تلے تڑپتے رہے ہوں گے اور کسی کو گیس کا یہ استعمال کرنے کا خیال تک نہیں آیا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ارضیات کی مانند کیمیا بھی ایک صدی انتہائی مقبول رہی تو اگلی صدی کے آغاز سے اس کی مقبولیت ختم ہوتی چلی گئی۔ ایک وجہ تو اس دور کے آلات کی محدودیت تھی اور اس لیے بھی کہ سینٹری فیوج مشینیں اس صدی کے دوسرے نصف جا کر ایجاد ہوئیں اور بہت سارے اہم تجربات اسی وجہ سے رکے رہے۔ اس کے علاوہ سماجی وجہ بھی تھی۔ اس دور میں کیمیاکاروباری افراد کا مشغلہ سمجھا جاتا تھا، ایسے لوگ جو کوئلے، پوٹاش اور رنگوں سے شغل کرتے تھے۔ طبقہ اشرافیہ میں ایسی حرکات کی گنجائش نہیں تھی۔ شرفاء ارضیات، نیچرل ہسٹری اور طبعیات میں دلچسپی لیتے تھے۔ یہ بتانا کافی رہے گا کہ صدی کی اہم ترین دریافتوں میں سے ایک براؤنیئن حرکت کسی کیمیا دان نے نہیں بلکہ ایک سکاٹش نباتات دان رابرٹ براؤن نے دریافت کی تھی اور اسی سے مالیکیولوں کی حرکت کا نظریہ ثابت ہوا تھا (اصل میں 1827 میں رابرٹ براؤن نے مشاہدہ کیا کہ پانی میں جب پولن ڈالے جائیں تو قطع نظر اس بات کے کہ پانی کتنا عرصہ ساکن رکھا رہا ہے، پولن مسلسل حرکت کرتے رہتے ہیں۔ یہ مشاہدہ پہلے سے بھی ہو رہا تھا لیکن براؤن نے پہلی بار یہ بات کہی کہ یہ حرکت دکھائی نہ دینے والے مالیکیولوں کی وجہ سے ہے)۔
صورتحال اس سے کہیں بدتر ہو سکتی تھی اگر ہمارے درمیان کاؤنٹ وُن رمفورڈ نہ ہوتا۔ رمفورڈ 1753 میں میساچوسٹس میں بنجامن تھامپسن کے نام سے پیدا ہوا۔ تھامپسن بہادر اور پرامید انسان ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت اور متناسب جسامت کا مالک بھی تھا۔ انتہائی ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ اسے اخلاقیات سے کوئی خاص شغف بھی نہیں تھا۔ 19 سال کی عمر میں وہ 33 سالہ بیوہ سے شادی کر بیٹھا۔ انقلاب کی جنگ میں اس نے غلطی کرتے ہوئے وفاداروں کا ساتھ دیا اور ان کے لیے جاسوسی بھی کی۔ اس کی گرفتاری پر انعام مقرر ہوا۔ 1776 میں جب مشتعل ہجوم گرم تارکول اور پروں کی ٹوکریاں لیے پر سجانے پہنچے تو وہ اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑ کر بھاگ نکلا۔
پہلے انگلستان اور پھر جرمنی پہنچ کر اس نے قیام کیا اور بویریا کی حکومت کے فوجی مشیر کا کام شروع کر دیا۔ اس کی کارکردگی اتنی عمدہ تھی کہ 1791 میں اسے مقدس رومن ایمپائر کے کاؤنٹ وُن رمفورڈ کا اعزاز دیا گیا۔ اس نے ہی مشہورِ زمانہ انگلش گارڈن نامی باغ بنوایا۔
ان سب کاموں کے علاوہ اس نے وقت نکال کر خالص سائنس پر بھی توجہ دی۔ تھرموڈائنامکس پر اسے حرفِ آخر مانا گیا اور مائع میں حرارت کی منتقلی اور بحری روؤں پر اس نے سب سے پہلے روشنی ڈالی۔ اس نے بہت سارے مفید آلات بھی بنائے جن میں ڈرپ کافی میکر، گرم زیر جامے اور رمفورڈ آتش دان بھی شامل ہیں۔ 1805 میں فرانس میں مختصر قیام کے دوران اس نے مادام لاویئزر سے شادی کر لی۔ تاہم جلد ہی شادی ناکام ہو کر طلاق پر منتج ہوئی۔ 1814 میں جب رمفورڈ کی وفات ہوئی تو اس کی سابقہ بیویوں کو چھوڑ کر باقی پوری دنیا اس کی معترف تھی۔
یہاں اس کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ 1799 میں اپنے مختصر قیام کے دوران اس نے لندن میں رائل انسٹی ٹیوشن قائم کیا جو اس دور کے دیگر اہم اداروں کی طرح ایک تھا۔ کچھ وقت تک یہ واحد ادارہ تھا جو کیمیا کی نئی نئی شاخ پر توجہ دے رہا تھا۔ اس کی وجہ شاید ہمفری ڈیوی ہے جو اس ادارے کے قیام کے فوراً بعد اس میں کیمیا کے پروفیسر کے طور پر مقرر ہوا۔ جلد ہی اس کے بہترین مقرر اور بہترین تجربہ کرنے والے کے طور پر شہرت ہوئی۔
عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد ڈیوی نے یکے بعد دیگر مختلف عناصر دریافت کرنا شروع کردیے جن میں پوٹاشیم، سوڈیم، میگنیشیم، کیلشیم، سٹرونشیم اور المونیم اہم ہیں۔ تاہم اس کامیابی کی وجہ اس کی تجربات سے متعلق سنجیدگی نہیں بلکہ وہ تکنیک تھی جس کی مدد سے وہ پگھلے ہوئے مادوں میں برقی رو گزارتا تھا۔ یہ عمل برق پاشیدگی کہلاتا ہے۔ اس نے کل 12 عناصر دریافت کیے جو اس وقت کے معلوم عناصر کا پانچواں حصہ تھے۔ اس نے اور بھی بہت سارے عناصر دریافت کیے ہوتے مگر وہ نائٹرس آکسائیڈ کا شیدائی ہو گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ ہر روز تین یا چار مرتبہ وہ اس گیس کو استعمال کرتا۔ آخرکار 1829 میں اسی گیس کی زیادہ مقدار سے اس کی ہلاکت ہوئی۔
خوش قسمتی سے زیادہ سنجیدہ لوگ بھی کیمیا میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ 1808 میں جان ڈالٹن نے پہلی بار ایٹم کی ساخت سے واقفیت پیدا کی تو 1811 میں ایک اطالوی نواب لورینزو رومانو اماڈیو کارلو ایوگاڈرو نے بتایا کہ ایک ہی حجم کی کوئی سی بھی دو مختلف گیسیں جو ایک ہی درجہ حرارت اور ایک ہی دباؤ پر رکھی جائیں تو ان کے مالیکیولوں کی تعداد برابر ہوگی۔
ایوگاڈرو کے اصول سے دو باتیں واضح ہو گئیں۔ پہلی تو یہ کہ ایٹم کا حجم اور وزن دریافت کرنا آسان ہو گیا۔ اسی اصول کی مدد سے کیمیا دانوں نے آخرکار یہ جانا کہ عام ایٹم کا قطر 0.000000008 سینٹی میٹر ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ اصول 50 سال تک مخفی رہا (یہ اصول کو بعد میں ایوگاڈرو کے نمبر کے نام سے پہچانا گیا جو کیمیا میں پیمائش کی بنیادی اکائیوں میں سے ایک بنا دیا گیا۔ تاہم یہ کام ایوگاڈرو کی وفات کے بہت برس بعد ہوا۔ یہ نمبر ہائیڈروجن کی 2.016 گرام میں موجود ایٹموں کی تعداد ہے جو 6.0221367x1023 ہے۔ برسوں تک کیمیا کے طلباء نے اس تعداد کو جاننے کی کوشش جاری رکھی۔ یوں سمجھ لیں کہ مکئی کے دانوں کی تعداد جو پورے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو 9 میل اونچائی تک بھر دے یا بحرالکاہل کے پانی کو کپوں میں ماپا جانا یا سوڈے کے کین اگر برابر رکھے جائیں تو پوری زمین پر 200 میل اونچے ہو جائیں گے یا اگر امریکی پینیاں ہر امریکی میں تقسیم کی جائیں تو ہر انسان کھرب پتی بن جائے گا)۔
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ایواگاڈرو خود بھی کافی تنہائی پسند تھا۔ اسے اکیلے کام کرنے کی عادت تھی اور ساتھی سائنس دانوں سے نہ ہونے کے برابر تعلق رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے چند ہی مقالے چھپوائے اور کبھی کسی میٹنگ میں نہیں گیا۔ تاہم اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت نہ تو کوئی میٹنگز ہوتی تھیں اور نہ ہی کیمیاسے متعلق رسائل کی تعداد زیادہ تھی۔ بظاہر یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ صنعتی انقلاب کیمیا کا ہی مرہونِ منت ہے اور دہائیوں تک اس کی تنظیم نہیں کی گئی تھی۔
لندن کی کیمیکل سوسائٹی کا قیام 1841 میں عمل میں آیا اور 1848 میں اس نے پہلا مجلہ شروع کیا۔ اس وقت تک دیگر تمام سوسائٹیوں جیسا کہ ارضیات، جغرافیہ، حیوانات، نباتات وغیرہ کے مجلات چھپتے دو دہائیاں ہو رہی تھیں۔ کیمیاکا دوسرا ادارہ 1877 کو وجود میں آیا۔ چونکہ کیمیا کے علم کو منظم ہونے میں اتنا وقت لگ رہا تھا، اس لیے ایوگاڈرو کی کامیابی کی خبر تب پھیلی جب 1860 میں کیمیاکی پہلی بین الاقوامی کانگریس ہوئی۔
چونکہ کیمیا دان اکیلے رہ کر کام کرتے تھے، اس لیے اصطلاحات کی تشکیل کا عمل بہت سُست رہا۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف عرصے میں H2O2 شاید ایک سائنس دان کو پانی کا فارمولا لگتا تو دوسرے کو ہائیڈروجن پر آکسائیڈ محسوس ہوتا۔ C2H4 کا مطلب ایتھائلین بھی ہو سکتا تھا اور دلدلوں کی گیس بھی۔ شاید ہی کوئی ایسا مالیکیول ہوتا جسے ہر جگہ ایک ہی نام سے جانا جاتا۔
کیمیا دان اکثر خود ساختہ علامات اور مخففات استعمال کرتے۔ سوئیڈن کے کیمیا دان برزیلیس نے انہیں ترتیب دی اور بتایا کہ عناصر کی پہچان ان کے یونانی یا لاطینی نام کے مخفف سے ہونی چاہیے۔ اسی وجہ سے لوہے کی علامت Fe ہے جو لاطینی کے لفظ Ferrum سے نکلی ہے۔ چاندی کو Ag سے ظاہر کرتے ہی جو لاطینی میں Argentumکا مخفف ہے۔ بہت سارے عناصر کے مخفف ان کے انگریزی ناموں سے نکلے محسوس ہوتے ہیں جو درحقیقت انگریزی میں لاطینی سے مستعار لی گئی اصطلاحات ہی ہیں۔ اس طرح کی مثالوں میں ہائیڈروجن کا H، آکسیجن کا O اور نائٹروجن کا N وغیرہ مشہور ہیں۔ برزیلیس نے ہی مالیکیول میں موجود ایٹموں کی تعداد کو ظاہر کرنے کے لیے اوپر چھوٹے نمبر لکھنے شروع کیے جیسا کہ H2O، تاہم بعد میں بغیر کسی وجہ کے، رحجان انہیں نیچے لکھنے کی طرف منتقل ہو گیا اور آج H2O لکھا جاتا ہے۔
18ویں صدی کے دوسرے نصف تک کیمیا کی سائنس میں کوئی نظم و ضبط نہیں تھا۔ اسی وجہ سے جب 1869 میں سینٹ پیٹرز برگ کی یونیورسٹی کے عجیب دکھائی دینے والے پروفیسر دمیتری ایوانووچ مینڈیلیف کو شہرت ملی تو کیمیا دانوں کو تسلی ہوئی۔
مینڈیلیف 1834 میں سائبیریا کے انتہائی مغربی علاقے توبولسک میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کافی خوشحال تھے۔ اس کے بہن بھائیوں کی تعداد اتنی تھی کہ تاریخ دان آج تک ان کی تعداد پر متفق نہیں ہو سکے۔ بعض کے مطابق 14 تو بعض کے مطابق 17 بہن بھائی تھے۔ مینڈیلیف سب سے چھوٹا تھا۔ بدقسمتی سے ابھی مینڈلیف کم سن ہی تھا کہ اس کے والد، جو کہ مقامی سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا، کی بینائی چلی گئی اور اس کی ماں کو معاشی ذمہ داریاں اٹھانی پڑیں۔ اس کی ماں نے انتہائی محنت سے کام کیا اور ایک شیشہ بنانے والی فیکٹری کی مینیجر بنی۔ 1848 میں یہ فیکٹری جل کر راکھ ہو گئی اور مینڈیلیف کا خاندان پائی پائی کو ترس گیا۔ اپنے سب سے چھوٹے بچے مینڈیلیف کو تعلیم دلانے کی دھن میں اس کی بلند حوصلہ ماں اس کے ساتھ چار ہزار میل کا پیدل سفر طے کر کے سینٹ پیٹرزبرگ پہنچی جو استوائی گنی سے لندن تک کا فاصلہ بنتا ہے۔ لسانیات کے ادارے میں اپنے بیٹے کو داخل کرانے کے کچھ عرصہ بعد یہ بلند ہمت خاتون چل بسی۔
پوری لگن سے اپنی تعلیم پوری کرنے کے بعد مینڈیلیف نے مقامی یونیورسٹی میں نوکری کر لی۔ ماہر ہونے کے باوجود مینڈیلیف کوئی انتہائی منفرد کیمیا دان نہ تھا۔ اس کے بال اور داڑھی بکھرے رہتے اور سال میں ایک بار انہیں تراشتا تھا۔
تاہم 1869 میں مینڈیلیف نے عناصر کو ترتیب دینے کا ارادہ کیا۔ اس دور میں عناصر کو ترتیب دینے کے دو طریقے تھے۔ ایک طریقے میں ایواگاڈرو کے اصول کے مطابق ایٹمی وزن کی ترتیب سے اور دوسرے طریقے میں ان کی مشترکہ خصوصیات جیسا کہ دھاتیں، گیس وغیرہ کی بنیاد پر انہیں اکٹھا کیا جاتا تھا۔ مینڈیلیف کا کارنامہ ان دونوں طریقوں کو ملا کر ایک جدول بنانا تھا۔
جیسا کہ سائنس کی دنیا میں اکثر ہوتا ہے، یہ طریقہ انگلستان کے ایک شوقیہ کیمیا دان جان نیولینڈز نے اس سے تین سال قبل اختیار کیا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ جب عناصر کو ایٹمی اوزان کی ترتیب سے رکھا جاتا ہے تو ہر آٹھویں نمبر پر ان کی خصوصیات ایک جیسی ہوتی ہیں۔ نیولینڈز نے اسے ‘ہشتے کے قوانین’ کہا۔ اس کی بات میں شاید کچھ وزن تھا لیکن اس کے نظریے کا ہر جگہ مذاق اڑایا گیا۔ دلبرداشتہ ہو کر نیولینڈز نے یہ خیال ہی بھلا دیا۔
مینڈیلیف نے تھوڑے سے فرق سے یہی تکنیک استعمال کی۔ اس نے عناصر کو 7، 7 کے گروہوں میں بانٹا تو ہر چیز بامعنی ہو گئی۔ چونکہ خصوصیات بار بار دہرائی جاتی ہیں، اس لیے یہ دوری جدول کے نام سے مشہور ہوئی۔
کہا جاتا ہے کہ مینڈیلیف تاش میں سالیٹیئر یا پیشنس کے کھیل سے متاثر تھا۔ اس کھیل میں تاش کے پتے اپنی علامت کے اعتبار سے افقی اور قیمت کے اعتبار سے عمودی طور پر رکھے جاتے ہیں۔ اسی خیال کو وسیع پیمانے پر استعمال کرتے ہوئے مینڈیلیف نے عناصر کو افقی قطاروں یعنی ادوار اور عمودی کالموں یعنی گروہوں میں رکھا۔ جب عناصر کو دائیں سے بائیں دیکھا جاتا تو ان کی کچھ خصوصیات مشترک ہوتیں اور اگر اوپر سے نیچے دیکھا جاتا تو کچھ اور خصوصیات مشترک ہوتیں۔ اس لیے تانبہ چاندی کے اوپر اور سونا چاندی کے اوپر اس لیے ہیں کہ یہ سب دھاتیں ہیں۔ اسی طرح ہیلیم، نیون اور آرگان کو ایک ہی کالم میں رکھا گیا ہے کہ یہ سب گیسیں ہیں۔ یہ ترتیب ویلنسی کے مطابق ہوتی ہے۔ افقی قطاروں میں عناصر کو ان کے مرکزے میں موجود پروٹانوں کی تعداد کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے جو ایٹمی نمبر کہلاتا ہے۔
ایٹموں کی ساخت اور پروٹانوں کی اہمیت پر اگلے باب میں بات کریں گے۔ ابھی آپ یوں سمجھ لیں کہ اس سے ترتیب آسان ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن کے مرکزے میں ایک پروٹان ہے اس لیے اس کا ایٹمی وزن بھی ایک ہے۔ اور اسے دوری جدول میں پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ یورینیم کے مرکزے میں 92 پروٹان ہیں اور اسے دوری جدول کے آخر کے قریب رکھا گیا ہے کیونکہ اس کا ایٹمی نمبر 92 ہے۔ اس طرح سے فلپ بال کے مطابق کیمیا گنتی کا کام بن گیا ہے۔ ایٹمی نمبر اور ایٹمی وزن میں یہ فرق ہے کہ ایٹمی نمبر مرکزے میں پروٹانوں کی تعداد کو جبکہ ایٹمی وزن مرکزے کے پروٹان اور نیوٹران، دونوں کے مشترکہ وزن کو ظاہر کرتا ہے۔
ابھی بھی بہت کچھ یا تو معلوم نہیں تھا یا اس کی وجوہات کے بارے کوئی نہیں جانتا تھا۔ ہائیڈروجن ہماری کائنات کا سب سے عام عنصر ہے تاہم یہ بات 30 سال بعد جا کر پتہ چلی۔ ہیلیم دوسرا عام ترین عنصر ہے اور اس کی دریافت دوری جدول سے ایک سال قبل ہوئی اور یہ دریافت زمین پر نہیں بلکہ سورج گرہن کے مشاہدے سے پتہ چلی۔ اس کی موجودگی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ یونانی زبان میں سورج دیوتا کو ہیلیوس کہتے ہیں اور ہیلیم اسی سے نکلا ہے۔ 1895 میں اسے الگ کیا گیا۔ پھر بھی مینڈیلیف کی وجہ سے کیمیا کی بنیاد مضبوط ہو گئی۔
ہم لوگوں کے لیے دوری جدول ایک صاف ستھرا جدول ہے لیکن کیمیا دانوں کے لیے یہ بات اس سے زیادہ اہم ہے۔ ایک کیمیا دان رابرٹ کریبس نے اپنی کتاب The History and Use of Our Earth's Chemical Elements میں لکھا ہے کہ دوری جدول آج تک بنائے گئے تمام جدولوں سے بہتر ہے۔ کیمیا کی تاریخ اسی طرح کی تعریفوں سے بھری ہوئی ہے۔
آج ہمارے پاس کل 120 کے لگ بھگ عناصر ہیں جن میں سے 92 قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں جبکہ دیگر کو لیبارٹری میں بنایا جاتا ہے۔ اصل تعداد کے بارے ہم صد فیصد یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ان کی پیدائش اور فناء کا درمیانی وقت ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصے پر ہی محیط ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ کیمیا دان بھی بعض اوقات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے عنصر کو دیکھا بھی ہے کہ نہیں۔ مینڈیلیف کے وقت میں دریافت شدہ عناصر کی تعداد 63 تھی لیکن اسے یہ بھی علم تھا کہ ابھی مزید عناصر دریافت ہونے باقی ہیں۔ اس لیے اس کے جدول میں کئی خانے خالی تھے جنہیں بالکل درستگی سے مطلوبہ جگہوں کو بعد ازاں بھرا گیا۔
کوئی نہیں جانتا کہ کل عناصر کی تعداد کیا ہے لیکن اندازہ ہے کہ 168 سے آگے کے ایٹمی وزن محض تخیل ہی ہیں۔ تاہم یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جوں جوں یہ عناصر دریافت ہوتے جائیں گے، مینڈیلیف کے دوری جدول میں انہیں درستگی سے رکھا جا سکے گا۔
18ویں صدی میں کیمیا دانوں کے لیے ایک نئی چیز بچی ہوئی تھی۔ 1896 میں جب ہنری بیکرل نے پیرس میں یورینیم کے ایک نمونے کو جب دراز میں رکھا تو اس کے نیچے فوٹوگرافک پلیٹ بھی لپٹی ہوئی رکھی تھی۔ کچھ عرصے بعد جب اس نے فوٹوگرافک پلیٹ نکالی تو اس پر یورینیم کا نقش ثبت تھا۔ ایسا لگا جیسے پلیٹ پر روشنی پڑی ہو۔ یورینیم سے شعاعیں نکل رہی تھیں۔
اس دریافت کی اہمیت سے قطع نظر، بیکرل نے عجیب کام یہ کیا کہ اس نے پولینڈ سے آئی ہوئی اپنی طالبہ میری کیوری کو تحقیق پر لگا دیا۔ اپنے شوہر پیئری کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس نے دریافت کیا کہ کئی قسم کی چٹانیں مستقل اور غیر معمولی مقدار میں توانائی خارج کرتی رہتی ہیں جبکہ ان کے حجم یا وزن پر بظاہر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ چٹانیں دراصل مادے کو توانائی میں انتہائی عمدہ طریقے سے تبدیل کر رہی تھیں۔ اگلی دہائی میں آئن سٹائن نے اس کی وضاحت کی تھی۔ میری کیوری نے اپنی اس دریافت کو ریڈیو ایکٹوٹی یعنی تابکاری کا نام دیا۔ اس دوران میاں بیوی نے دو نئے عناصر پولونیم اور ریڈیم بھی دریافت کیے۔ پولونیم کا نام اس نے اپنے آبائی ملک پولینڈ کے نام پر رکھا۔ 1903 میں بیکرل اور میری کیوری اور اس کے شوہر کو مشترکہ طور پر طبعیات کا نوبل انعام دیا گیا۔ 1911 میں میری کیوری کو کیمیا میں بھی نوبل انعام دیا گیا۔ طبعیات اور کیمیا میں نوبل انعام پانے والی یہ واحد انسان ہے۔
مانٹریال کی میک گل یونیورسٹی میں نیوزی لینڈ سے آئے ہوئے ارنسٹ ردرفورڈ نے تابکار عناصر میں دلچسپی لینا شروع کی۔ اپنے ساتھی فریڈرک سوڈی کے ساتھ مل کر ردرفورڈ نے دریافت کیا کہ مادے کی چھوٹی مقدار میں انتہائی بڑی مقدار میں توانائی پوشیدہ ہے اور انہی تابکار عناصر سے پیدا ہونے والی توانائی زمین کو گرم رکھتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ تابکار عناصر انحطاط سے گزر کر دوسرے عناصر بناتے ہیں۔ یعنی ایک دن اگر ہمارے پاس یورینیم کا ایک ایٹم ہے تو دوسرے دن وہ سیسے کا ایٹم بن جائے گا۔ یہ دریافت انتہائی اہم تھی۔ یہی چیز الکیمی تھی جس کے بارے کسی کو شبہ تک نہیں تھا کہ یہ کام فطرت میں خودبخود بھی ہوتا ہے۔
عملی انسان نہ ہونے کے باوجود ردرفورڈ نے اس کا عملی استعمال دیکھا۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ کسی بھی خاص عنصر کی نصف مقدار ہمیشہ ایک مخصوص وقت کے بعد انحطاط کا شکار ہوتی ہے۔ اسے ہاف لائف (اگر آپ کو یہ بات سمجھ نہ آئے کہ کون سے نصف ایٹم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہوں نے انحطاط پذیر ہونا ہے اور کون سے نصف نہیں، تو یہ اصطلاح محض ایک شماریاتی اصطلاح ہے۔ یعنی اگر ایک نمونے کی ہاف لائف 30 سیکنڈ ہے تو ایسا نہیں کہ پورے 30 سیکنڈ بعد آدھے ایٹم انحطاط پذیر ہوجائیں گے۔ کسی ایٹم میں یہ کام دو سیکنڈ میں بھی ہو سکتا ہے اور کسی میں برسوں بعد بھی نہ ہو۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی نمونے میں دیے گئے ایٹموں کی نصف تعداد ہر تیس سیکنڈ بعد انحطاط کا شکار ہوتی جائے گی۔ تاہم یہ عام اصول ہے اور اسے کہیں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے حساب لگا کر بتایا ہے کہ امریکی ڈائم کی ہاف لائف 30 سال ہے) کہا جاتا ہے۔ یہ عمل اتنا قابلِ اعتبار ہے کہ اسے وقت کی پیمائش کے لیے بھی استمعال کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی عنصر میں تابکاری کی موجودہ مقدار کو جانچ کر اور یہ دیکھ کر کہ انحطاط کی کیا شرح ہے، ہم کسی بھی مادے کی عمر کا تعین کر سکتے ہیں۔ اس نے پچ بلینڈ کے ایک نمونے کو جانچا جو یورینیم سے متعلق ہے اور اس نے اس کی عمر کا اندازہ 70 کروڑ سال لگایا۔ اس وقت زمین کی عمر اس سے کہیں کم مانی جاتی تھی۔
1904 کے موسمِ بہار میں ردرفورڈ لندن گیا تاکہ رائل انسٹی ٹیوشن میں اپنا مقالہ پیش کر سکے۔ ردرفورڈ وہاں انحطاط پر بات کرنے گیا تھا اور پچ بلینڈ کا ٹکڑا بھی ساتھ لے گیا۔ وہاں کیلون بھی موجود تھا۔ ردرفورڈ کی خوش قسمتی کہ کیلون پہلے ہی بتا چکا تھا کہ زمین کی حرارت سے متعلق کسی نئے ذریعے کی تلاش سے اس کا نظریہ باطل ہو جائے گا۔ اس طرح ردرفورڈ نے کیلون کے نظریے کو رد کر دیا جس کے مطابق زمین کی عمر اڑھائی کروڑ سال تھی۔
کیلون نے ردرفورڈ کے نظریے کی داد تو دی لیکن اسے قبول نہیں کیا۔ مرتے دم تک اسے اپنے حساب کتاب پر ہی بھروسہ تھا اور اس کے خیال میں حرحرکی قوانین میں کیے گئے کام کی نسبت یہ کام زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔
ہر سائنسی انقلاب کی طرح ردرفورڈ کے نظریے کو بھی ہر جگہ پذیرائی نہیں ملی۔ ڈبلن کے جان جولی نے 1930 کی دہائی تک پرزور طریقے سے کہنا جاری رکھا کہ زمین کی عمر 9 کروڑ سال سے ذرا کم ہے اور مرتے دم تک وہ اسی پر قائم رہا۔ ردرفورڈ کے حامی بھی یہ سوچنے لگے کہ کہیں ردرفورڈ نے بہت زیادہ تو عمر نہیں بتا دی۔ اس تکنیک کو ریڈیومیٹرک پیمائش کا نام دیا گیا اور اس میں کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد ہم آج یہ بتانے کے قابل ہو گئے ہیں کہ زمین کی عمر کتنی ہے اور اس میں غلطی کا امکان ایک ارب سال کی کمی بیشی تک کا ہے۔ سائنس درست راستے پر تو چڑھ گئی تھی لیکن ابھی بھی منزل بہت دور تھی۔
کیلون نے 1907 میں وفات پائی۔ اسی سال دمیتری مینڈیلیف بھی فوت ہوا۔ کیلون کی نسبت مینڈیلیف کی ڈھلتی عمر کا کام زیادہ متنازعہ ہوتا گیا۔ مثال کے طور پر اس کا خیال تھا کہ تابکاری کا کوئی وجود نہیں اور الیکٹران یا دیگر کوئی ایسے ذرات بھی موجود نہیں جن کا سمجھنا دشوار ہو۔ آخری برسوں میں اسے بار بار لیکچر ہالوں اور لیبارٹریوں سے خفا ہو کر نکلتے دیکھا گیا۔ 1955 میں 101 نمبر والے عنصر کو اس کے نام پر مینڈیلیویم کہا گیا۔ شومئی قسمت، یہ عنصر غیر مستحکم ہے۔
تابکاری پر کام جاری و ساری رہا۔ 1900 کے اوائل میں پیئری کیوری میں تابکاری سے متعلق بیماری کی علامات شروع ہو گئیں جن کی علامات ہڈیوں میں درد اور طبعیت کی خرابی اہم تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بیماریاں بڑھتی گئیں۔ تاہم اس بارے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ 1906 میں پیرس کی ایک سڑک عبور کرتے ہوئے گاڑی کے نیچے آ کر اس کی ہلاکت ہوئی۔
میری کیوری نے اپنی بقیہ زندگی انتہائی وقار اور کامیابی سے تحقیق کرتے گزاری۔ اس نے پیرس کی یونیورسٹی میں 1914 میں مشہورِ زمانہ ریڈیم انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی۔ اپنے دو نوبل انعامات کے باوجود اسے اکیڈمی آف سائنس کے لیے کبھی منتخب نہیں کیا گیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ اپنے شوہر کی ہلاکت کے بعد میری کیوری نے ایک شادی شدہ طبعیات دان سے معاشقہ شروع کر دیا تھا۔
بہت طویل عرصے تک عام سمجھا جاتا تھا کہ تابکاری جیسی حیرت انگیز چیز بہت مفید ہوگی۔ برسوں تک ٹوتھ پیسٹ اور قبض کشاء ادویات میں تابکار تھوریم شامل کی جاتی رہی۔ 1920 کی دہائی میں گلین سپرنگز ہوٹل جو نیویارک کے علاقے میں قائم تھا، فخریہ انداز میں ‘تابکار معدنی چشمے’ کے عنوان سے اپنی مشہوری کرتا رہا۔ 1938 میں صارفین کے استعمال کی چیزوں میں تابکار عناصر کے استعمال کو بند کیا گیا۔ تاہم اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی کہ میری کیوری کا انتقال 1934 میں لیکومیا سے ہوا۔ تابکاری کے انتہائی طویل عرصے تک خطرناک ہونے کا اندازہ یہاں سے لگائیے کہ میری کیوری کے 1890 کی دہائی کے کاغذات، حتیٰ کہ اس کی کھانا بنانے کی تراکیب والی کتب سیسے سے بنے ڈبوں میں بند ہیں کہ ابھی تک ان میں موجود تابکاری کی مقدار خطرناک حد تک بلند ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل کے برسوں میں کیے گئے اولین تابکاری کے ماہرین کے کام کی بدولت ان کی جانوں کو تو خطرہ لاحق ہوا لیکن انہوں نے بتایا کہ زمین سچ میں بہت پرانی ہے۔ اگرچہ اس بات کا تعین کرنے میں مزید پچاس سال لگے کہ زمین کتنی پرانی ہے۔ اسی دوران سائنس نے ایک نئی جہت اختیار کی جسے ایٹمی دور کا نام دیا جاتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حصہ سوم: نیو ایج ڈانز​
طبعیات دان دراصل ایٹموں کی طرح ایٹموں کے بارے سوچنے کا طریقہ ہے
نامعلوم



8 آئن سٹائن کی کائنات​
جب اٹھارہویں صدی کا اختتام قریب پہنچا تو سائنس دانوں کا خیال تھا کہ انہوں نے طبعی دنیا کی تقریباً ساری ہی قوتوں کو مسخر کر لیا ہے۔ بجلی، مقناطیسیت، گیسیں، بصریات، آواز، حرکیات اور شماریاتی میکانیات بھی اس فہرست میں شامل تھیں۔ انہوں نے ایکس رے، کیتھوڈ رے، الیکٹران اور تابکاری، اوہم کی ایجاد، واٹ، کیلون، جاؤل، ایمپیئر اور ارگ بھی ایجاد کر لیے تھے۔
اگر کسی چیز کو تھرتھرایا، رفتار بڑھانا، مشتعل کرنا، تقطیر کرنا، ملانا، وزن کرنا یا گیس بنایا جانا ممکن تھا تو سائنس دان یہ سب کر چکے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عالمگیر قوانین کی ایسی فہرست بھی مرتب کر لی تھی جسے ہم ابھی تک بڑے حروف سے ظاہر کرتے ہیں۔ The Electromagnetic Field Theory of Light, Richter's Law of Reciprocal Proportions, Charles's Law of Gates, the Law of Combining Volumes, the Zeroth Law, the Valence Concept, the Laws of Mass Actions اور اسی طرح کے بے شمار دیگر قوانین۔ ہر طرف ان کی آوازیں اور ان کے بنائے ہوئے آلات چھائے ہوئے تھے۔ بہت سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا خیال تھا کہ اب سائنس کے پاس کچھ نیا کرنے کو باقی نہیں بچا۔
1875 میں نوجوان جرمن میکس پلانک کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ آیا وہ ریاضی کا انتخاب کرے یا طبعیات کا تو اسے ہر کسی نے یہی مشورہ دیا کہ طبعیات میں اب کچھ کرنے کو باقی نہیں بچا، اس لیے اسے ریاضی کا انتخاب کرنا چاہیئے۔ اسے یقین دلایا گیا کہ اگلی صدی میں کوئی نئی چیز نہیں ایجاد ہونی بلکہ پہلے سے موجود علوم کو ترتیب دی جائے گی۔ تاہم پلانک نے اس مشورے پر کان نہیں دھرے۔ اس نے نظریاتی طبعیات کی تعلیم پائی اور دل و جان سے انٹراپی پر تحقیق میں جُٹ گیا۔ یہ عمل حرحرکیات کی جان ہوتا ہے اور نئے محقق کے لیے اس میں کرنے کو بہت کچھ تھا (درحقیقت یہ کسی نظام میں موجود بے ترتیبی کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈیرل ایبنگ نے اپنی کتاب General Chemistry میں اچھی مثال دی ہے کہ تاش کے پتوں کی نئی گڈی میں سارے پتے ترتیب سے رکھے ہوتے ہیں۔ یہ ترتیب شدہ حالت ہے۔ جب آپ اسے پھینٹتے ہیں تو بے ترتیبی پیدا ہو جاتی ہے۔ اینٹراپی موجودہ بے ترتیبی کو ماپنے اور مزید پھینٹنے سے ممکنہ بے ترتیبی کو جاننے کے عمل کا نام ہے)۔ 1891 میں اس نے جب اپنی تحقیق کے نتائج پیش کیے تو اسے یہ جان کر بہت مایوسی ہوئی کہ سارا اہم کام اس سے قبل امریکی یےل یونیورسٹی کے ولارڈ گبز نے کر لیا ہے۔
گبز اپنے دور کے ان ذہین ترین سائنس دانوں میں سے ایک ہے جس کے بارے لوگ نہ ہونے کے برابر جانتے ہیں۔ اس نے اپنی ساری زندگی ماسوائے تین سال کے، یےل یونیورسٹی کے نیو ہیون، کنکٹی کٹ کیمپس اور اپنے گھر کے درمیان محض تین بلاک کے علاقے میں گزارا۔ یہ تین سال اس نے یورپ میں حصولِ تعلیم میں گزارے تھے۔ یونیورسٹی میں پہلے دس سال تو اس نے اپنی تنخواہ تک نکالنے کی ضرورت نہیں محسوس کی کہ اس کے پاس کافی دولت تھی۔ 1871 میں یونیورسٹی میں پروفیسر کا عہدہ سنبھالنے سے لے کر 1903 میں اپنی وفات تک اس کے پاس ہر سمسٹر میں بمشکل چند طلباء ہی ہوتے تھے۔ اس کا تحریری کام بھی بہت مشکل زبان میں اور اس کے اپنی ذاتی کوڈ میں لکھا ہوتا تھا۔ زیادہ تر ناقابلِ فہم تحاریر میں انتہائی ذہانت چھپی ہوئی ہوتی تھی۔
1875 تا 1878 گبز نے مقالہ جات لکھے جن کو On the Equilibrium of Heterogeneous Substances کہا گیا۔ ان میں نہ صرف حرحرکی قوانین بلکہ گیسوں، آمیزوں، سطحوں، ٹھوس، حالت کی تبدیلیاں، کیمیائی تعامل، الیکٹروکیمیکل سیلز، سیڈیمنٹیشن اور اوسموسس پر بھی انتہائی واضح انداز میں لکھا گیا تھا۔ مختصراً یوں کہہ لیں کہ گبز نے ثابت کیا کہ حرحرکی قوانین سٹیم انجن کی حرارت اور توانائی تک محدود نہیں بلکہ کیمیائی تعاملات میں ایٹمی سطح پر بھی اسی طرح لاگو ہوتے ہیں۔ گبز کے ان مقالہ جات کو حرحرکیات کی Principia کہا گیا۔ حیرت کی بات یہ کہ گبز نے اپنے مقالہ جات کو چھپوانے کے لیے ایک مقامی جریدے کا انتخاب کیا جو کنکٹی کٹ میں بھی کم پڑھا جاتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے پلانک نے ان کے بارے کبھی نہ سنا تھا۔
ہمت نہ ہارتے ہوئے پلانک نے اپنی توجہ دیگر امور پر مرکوز کر لی (پلانک زندگی بھر بدقسمت رہا۔ پہلے 1909 میں اس کی بیوی نوجوانی میں مر گئی۔ چھوٹا بیٹا پہلی جنگِ عظیم میں مارا گیا۔ اسے اپنی جڑواں بیٹیوں سے بہت پیار تھا۔ ان میں سے ایک زچگی کے دوران مر گئی۔ بچے کی دیکھ بھال کرنے جب دوسری بہن گئی تو اسے اپنے سابقہ بہنوئی سے محبت ہو گئی۔ شادی کے دو سال بعد دوسری بیٹی بھی زچگی کے دوران مر گئی۔ 1944 میں 85 سالہ پلانک کے مکان پر اتحادیوں کا بم گرا اور اس کا سارا ساز و سامان بمع کاغذات، ڈائریاں اور سب کچھ تباہ ہو گیا۔ اگلے سال اس کا دوسرا بیٹا ہٹلر کے قتل کی سازش میں گرفتار ہوا اور اسے سزائے موت دی گئی)۔ ان کے بارے ہم کچھ دیر میں پڑھیں گے۔ ابھی ہم کلیولینڈ، اوہائیو چلتے ہیں، جہاں کیس سکول آف اپلائیڈ سائنسز ہمارا منتظر ہے۔ اس ادارے میں 1880 میں طبعیات دان البرٹ مچلسن نے اپنے دوست اور کیمیاء دان ایڈورڈ مورلے کی مدد سے ایسے تجربات کیے جن کے نتائج نے مستقبل میں بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔
مچلسن اور مورلے کے تجربات نے انجانے میں ایتھر کے نظریے کو باطل ثابت کیا۔ ایتھر کے بارے فرض کیا جاتا تھا کہ یہ روشنی پیدا کرنے والا، مستحکم، ناقابلِ مشاہدہ، بے وزن اور رگڑ کے بغیر ہوتا ہے۔ اس کے بارے سب سے پہلے دیکارت نے نظریہ پیش کیا جسے نیوٹن نے اپنایا اور پھر اس وقت سے اٹھارہویں صدی تک ہر سائنس دان نے ایمان رکھا۔ اس مادے کی وجہ سے روشنی خلاء میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی تھی۔ اس صدی میں برقناطیسیت اور روشنی کو موج کی شکلیں سمجھا جاتا تھا جنہیں منتقل ہونے کے لیے کسی مادے کی ضرورت ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ 1909 میں برطانوی طبعیات دان جے جے تھامپسن نے اصرار کیا ‘ایتھر کسی فلسفی کا دلچسپ خیال نہیں بلکہ یہ ہمارے لیے ویسے ہی اہم ہے جیسے سانس لینے کو ہوا’۔ یہ بیان اس واقعے کے چار سال بعد سامنے آیا جس کی مدد سے ایتھر کا فرضی ہونا ہر طرح سے ثابت ہو چکا تھا۔ یعنی لوگ اس کے عادی ہو گئے تھے۔
اگر آپ امریکہ کو امید کی سرزمین کہتے ہیں تو اس کے لیے مچلسن سے بہتر کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ 1852 میں جرمن-پولینڈ کی سرحد پر غریب یہودی خاندان میں پیدا ہوا اور پھر اس کا پورا خاندان امریکہ منتقل ہوا اور اس نے کیلیفورنیا میں سونے کی دوڑ کے دوران کان کنی والے کیمپ میں پرورش پائی۔ غربت کی وجہ سے کالج نہ جا سکا تو اس نے واشنگٹن ڈی سی کا رخ کیا جہاں اس نے وائٹ ہاؤس کے سامنے مٹرگشت کی عادت اختیار کی۔ مقصد یہ تھا کہ جب امریکی صدر گرانٹ وہاں سے گزرے تو اس سے ملاقات کر سکے۔ جب ملاقات ہوئی تو اس نے صدر کو اپنے حالات بتا کر متاثر کیا اور صدر نے اسے نیول اکیڈمی میں طبعیات کی تعلیم کے لیے مفت جگہ دلوا دی۔
دس سال بعد کیس سکول میں پروفیسر کی حیثیت سے مچلسن نے ایتھر کے بہاؤ کو ماپنے کا ارادہ کیا۔ نیوٹن کے نظریات کے مطابق روشنی کی رفتار اس بات پر انحصار کرتی ہے کہ اس کا مشاہدہ کرنے والا روشنی کی طرف جا رہا ہے یا اس سے دور ہٹ رہا ہے۔ تاہم اس کی پیمائش کرنے کا طریقہ کسی کو نہیں معلوم تھا۔ مچلسن نے یہ جانا کہ آدھا سال زمین سورج کی طرف اور آدھا سال سورج سے دور حرکت کرتی ہے۔ اس خیال کی وجہ یہ تھی کہ اگر آپ مختلف موسموں میں روشنی کی رفتار ناپیں تو دونوں کا فرق آپ کو ایتھر کے بہاؤ کے بارے معلومات دے سکتا ہے۔
مچلسن نے الیگزنڈر گراہم بیل سے رابطہ کیا اور اس سے مطلوبہ آلات کی تیاری کے لیے رقم مانگی۔ گراہم بیل انہی دنوں ٹیلی فون کی ایجاد سے امیر ہوا تھا۔ یہ نیا آلہ مچلسن کا اپنا ڈیزائن کردہ تھا اور اسے انٹرفیرومیٹر کا نام دیا گیا۔ اس کا کام روشنی کی رفتار کو انتہائی درستگی کی حد تک ماپنا تھا۔ جب یہ آلہ تیار ہوا تو گوشہ نشین مورلے کی مدد سے اس نے برسوں پر محیط طویل اور صبر آزما تجربات شروع کیے ۔ یہ کام بہت نفیس اور تھکا دینے والا تھا۔ 1887 میں ان تجربات کے نتائج آ گئے۔ تاہم یہ تجربات ان دونوں کی توقعات کے برعکس تھے۔
کالٹک کے آسٹرو فزسٹ کے مطابق ‘نتائج سے ثابت ہوا کہ روشنی کی رفتار ہر سمت اور ہر وقت ایک جیسی رہتی ہے’۔ دو سو سال میں پہلی بار ثابت ہوا کہ نیوٹن کے قوانین ہر جگہ اور ہر وقت نافذ نہیں ہوتے۔ بعض سائنس دانوں کے مطابق مچلسن اور مورلے کے نتائج طبعیات کی تاریخ کے اہم ترین منفی نتائج تھے۔ تاہم مچلسن کو طبعیات کا نوبل انعام حاصل کرنے میں 20 برس لگ گئے۔ مچلسن پہلا امریکی تھا جسے یہ اعزاز ملا۔ یہ نتائج منفی تاثر کی طرح طویل عرصے تک سائنس دانوں کے ذہن پر چھائے رہے۔
ان تمام تر کاوشوں کے باوجود مچلسن کا خیال تھا کہ اس صدی میں سائنس اپنی انتہا کو پہنچنے والی ہے اور محض چند ہی امور پر کام ہونا باقی ہے۔
درحقیقت اس وقت سائنس کی دنیا ایک نئی جہت میں داخل ہونے جا رہی تھی جہاں بہت سارے لوگوں کو بہت ساری چیزوں کی اور کسی بھی انسان کو تمام تر چیزوں کے بارے پوری سمجھ نہیں تھی۔ جلد ہی سائنس دان ذرات اور ضد ذرات کی دنیا میں ششدر دیکھنے لگے جہاں ذرات کا عدم سے وجود اور وجود سے عدم کا سفر اتنے مختصر وقت میں تمام ہو جاتا تھا کہ نینو سیکنڈ بھی انتہائی طویل عرصہ لگتا۔ سائنس اب میکرو طبعیات کی دنیا سے نکل کر کہ جہاں آپ چیزوں کو دیکھ اور ماپ سکتے ہیں، خوردبینی طبعیات کی دنیا میں داخل ہو رہی تھی کہ جہاں ذرات کی جسامت اور ان کی مقدار تخیل سے بھی کہیں پرے تھی۔ اب ہم کوانٹم فزکس کی دنیا میں داخل ہو رہے تھے اور اس دنیا میں داخلے کا راستہ میکس پلانک نے کھولا تھا۔
1900 میں نظریات طبعیات دان کی حیثیت سے یونیورسٹی آف برلن میں کام کرتے ہوئے پلانک نے نیا ‘کوانٹم نظریہ’ پیش کیا جس کے مطابق توانائی مسلسل نہیں ہوتی جیسے پانی بہہ رہا ہو، بلکہ توانائی چھوٹے چھوٹے ڈبوں کی شکل میں ہوتی ہے۔ ہر ڈبہ یا پیکٹ کوانٹا کہلاتا ہے۔ یہ نظریہ اچھوتا اور بہترین تھا۔ اس طرح فوری طور پر مچلسن اور مورلے کے تجربہ کے نتائج کی وضاحت ہو سکتی تھی یعنی روشنی کا موج کی شکل میں ہونا لازمی نہیں تھا۔ طویل مدتی فائدہ یہ تھا کہ جدید طبعیات کی از سرِ نو بنیاد پڑی۔
1905 میں جب جرمن جریدے میں سوئس پیٹنٹ دفتر کے ایک دفتری ملازم کی جانب سے باقاعدگی سے مضامین چھپنے لگے جو کسی یونیورسٹی سے بھی متعلق نہیں تھا اور نہ ہی لیبارٹری یا کسی خصوصی لائبریری تک رسائی رکھتا تھا۔ اس کا عہدہ درجہ سوئم کا معائنہ کار کا تھا اور درجہ دوم میں ترقی کی درخواست حال ہی میں مسترد ہوئی تھی۔
اس کا نام البرٹ آئن سٹائن تھا اور ایک سال میں اس نے طبعیات پر پانچ مضامین لکھے جنہیں بعض محقق طبعیات کی دنیا کے اہم ترین مضامین میں شمار کرتے ہیں۔ ایک مضمون میں میکس پلانک کے کوانٹم نظریے کے تحت فوٹو الیکٹرک افیکٹ کا جائزہ لیا گیا تھا، دوسرے میں معلق حالت میں ذرات کی حرکت، جسے ہم براؤنین حرکت کے نام سے جانتے ہیں اور تیسرا مضمون میں اضافیت کے خصوصی نظریے پر تھا۔
پہلے مضمون کی بنیاد پر آئن سٹائن کو نہ صرف نوبل انعام ملا بلکہ روشنی کی نوعیت بھی واضح ہوئی اور ٹیلی ویژن وغیرہ بھی اسی سے ایجاد ہوئے (آئن سٹائن کو یہ اعزاز ‘نظریاتی طبعیات کے لیے خدمات’ پر دیا گیا لیکن اسے 16 سال تک انتظار کرنا پڑا۔ اگرچہ یہ عرصہ بہت طویل محسوس ہوتا ہے لیکن ذرا سوچئے کہ فریڈریک رینز نے 1957 میں نیوٹرینو دریافت کیے لیکن اسے 38 سال بعد 1995 میں نوبل انعام دیا گیا۔ جرمن سائنس دان ارنسٹ رسکا، جس نے 1932 میں الیکٹران مائیکروسکوپ بنائی، کو 1986 میں نوبل انعام ملا۔ چونکہ نوبل انعام صرف زندہ انسان کو ہی دیا جاتا ہے، اس لیے ذہانت کے علاوہ لمبی عم بھی اس کے حصول کے لیے اہم ہے)، دوسرے مضمون سے ایٹموں کا وجود ثابت ہوا، جو اس مضمون کے لکھے جانے تک مشکوک تھا جبکہ تیسرے مضمون نے تو پوری دنیا ہی بدل دی۔
آئن سٹام جرمنی کے جنوبی شہر اُلم میں 1879 میں پیدا ہوا اور میونخ میں پرورش پائی۔ ابتدائی زندگی سے کسی کو بھی اس کے مستقبل کے بارے خوش فہمی نہیں تھی۔ تین سال کی عمر تک تو اس نے بولنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ 1890 کی دہائی میں جب اس کے باپ کے بجلی کے ساز و سامان کی تجارت ڈوب رہی تھی تو ان کا خاندان میلان منتقل ہو گیا لیکن آئن سٹائن نے سوئٹزرلینڈ جا کر تعلیم جاری رکھی۔ تاہم پہلی بار امتحان میں اسے ڈگری نہیں ملی۔ 1896 میں اس نے جبری لام بندی سے بچنے کے لیے جرمن شہریت ترک کر دی اور زیورچ کے پولی ٹیکنیک ادارے میں 4 سال کے کورس میں داخلہ لیا جو ہائی سکول کے سائنس پڑھانے والے اساتذہ کو تیار کرتا تھا۔ ذہین تو تھا لیکن غیر معمولی ذہانت نہیں تھی۔
1900 میں اس ادارے میں داخلے کے چند ماہ بعد ہی اس نے مندرجہ بالا مضامین لکھنا شروع کر دیئے۔ اس کا پہلا مضمون تیل میں مائع کی حرکت سے متعلق تھا۔ یہ مضمون اسی شمارے میں چھپا جس میں میکس پلانک کا کوانٹم نظریہ چھپا تھا۔ 1902 سے 1904 تک اس نے شماریاتی میکانیات پر لگاتار کئی مضامین لکھے اور اسے پھر پتہ چلا کہ یہ کام 1901 میں کنکٹی کٹ کے گبز نے پہلے ہی لکھ کر چھپوا لیے تھے۔
اسی دوران آئن سٹائن کو اپنی ساتھی طالبہ میلیوا میرک سے محبت ہو گئی۔ 1901 میں ان کی قبل از شادی ایک بیٹی پیدا ہوئی جسے انہوں نے گود لینے کے لیے خفیہ طور پر کہیں بھیج دیا۔ آئن سٹائن نے اس بچی کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ دو سال بعد ان دونوں کی شادی ہو گئی۔ اسی دوران 1902 میں سوئس پیٹنٹ دفتر میں آئن سٹائن نے نوکری کر لی جو 7 سال جاری رہی۔ اسے اپنا کام پسند تھا کہ یہ کام اسے مصروف تو رکھتا تھا لیکن طبعیات کے لیے بھی اسے کافی وقت مل جاتا تھا۔ اس پسِ منظر کے ساتھ 1905 میں اضافیت کے خصوصی نظریے کی پیدائش ہوئی۔
‘متحرک اجسام کی الیکٹروڈائنامکس’ پر لکھا ہوا مضمون سائنسی لحاظ سے اہم ترین مضامین میں سے ایک ہے۔ اس کی اہمیت اور اس کو پیش کرنے کا انداز، دونوں ہی منفرد تھے۔ اس پر نہ تو کوئی حاشیے تھے، نہ ہی فٹ نوٹ، نہ ہونے کے برابر ریاضی اور نہ ہی اس سے قبل ہوئے ایسے کام کا کوئی حوالہ تھا اور صرف اپنے ایک دفتری ساتھی مچل بیسو کے تعاون کا ذکر تھا۔ ایک محقق کے مطابق آئن سٹائن نے محض اپنے تخیل کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا۔
اس کی مشہور مساوات E=mc2 اس مضمون کا حصہ نہیں تھی بلکہ چند ماہ بعد لکھے جانے والے اضافی متن میں شامل تھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ E سے مراد توانائی، m سے مراد کمیت اور c2 سے مراد روشنی کی رفتار کا مربع ہے۔
سادہ الفاظ میں اس مساوات میں مادے اور توانائی کے درمیان موجود توازن کے بارے بتایا گیا ہے۔ یعنی مادہ اور توانائی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ توانائی مادے سے نکلتا ہے تو مادہ توانائی کے پیدا ہونے سے پہلے کی حالت ہے۔ روشنی کی رفتار کا مربع بہت بڑی رقم بنتی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ ہر مادی شئے میں کتنی بڑی مقدار میں توانائی چھپی ہوئی ہے (c کیسے اس مساوات میں روشنی کی رفتار کو ظاہر کرتا ہے، ذرا حل طلب معاملہ ہے۔ ایک سائنس دان کے مطابق یہ لاطینی لفظ celeritas سے نکلا ہے جس کا مطلب ‘سریع’ ہے۔ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری جو کہ آئن سٹائن کے نظریے سے ایک دہائی قبل چھپی تھی، میں c سے متعلق اشیاء میں کاربن سے لے کر کرکٹ تک سب لکھا ہے لیکن روشنی یا سرعت کے بارے کوئی تذکرہ نہیں)۔
عام حجم کے انسان ہونے کی حیثیت سے آپ کو محسوس نہیں ہوگا لیکن آپ کے اندر کم از کم 7 x 1018 جاؤل جتنی توانائی چھپی ہے جو بہت بڑے 30 ہائیڈروجن بموں سے نکلنے والی توانائی کے برابر ہے۔ ہر شئے میں ایسی ہی توانائی چھپی ہوتی ہے۔ ہمیں اس توانائی کو نکالنے کا طریقہ نہیں آتا۔ ایک ایٹم بم جو ہمارے لیے مادے سے توانائی پیدا کرنے کی سب سے بہترین تکنیک ہے، اصل مادے کے ایک فیصد سے بھی کم حصے کو توانائی میں بدلتی ہے۔
آئن سٹائن کے نظریے سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ تابکار مادے اتنی بڑی مقدار میں توانائی پیدا کرتے رہنے کے باوجود بھی پگھلتی ہوئی برف کی طرح چھوٹے نہیں ہوتے۔ قدرتی تابکاری آئن سٹائن کی مساوات کے مطابق بہترین طور پر مادے کو توانائی میں بدلتی ہے۔ اسی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کیسے ستارے اربوں سال تک اپنا ایندھن جلاتے رہتے ہیں اور ختم نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ روشنی کی رفتار سب سے زیادہ اور ہمیشہ یکساں رہتی ہے۔ کوئی بھی چیز روشنی سے آگے نہیں نکل سکتی۔ اس سے ہمیں کائنات کی حقیقت کو سمجھنے میں سہولت ہوئی اور اسی سے ایتھر کا غیرضروری ہونا ثابت ہو گیا۔ آئن سٹائن نے ہمیں جو کائنات دی، اس میں ایتھر کی کوئی گنجائش تھی اور نہ کوئی ضرورت۔
طبعیات دان سوئس پیٹنٹ آفس کے کلرکوں کے مقالہ جات پر توجہ نہیں دیتے اور مفید ہونے کے باوجود شاید ہی کسی نے ان پر توجہ دی ہو۔ کائنات کے گہرے ترین اسراروں میں سے کئی کو حل کرنے کے بعد آئن سٹائن نے یونیورسٹی لیکچرار کی نوکری کے لیے درخواست دی اور ناکام رہا۔ پھر اس نے ہائی سکول استاد کے لیے درخواست دی جو مسترد ہوئی۔ آئن سٹائن واپس اپنی پرانی نوکری پر چلا گیا لیکن اس نے سوچنا جاری رکھا۔ ابھی اس کے لیے بہت کچھ کرنا باقی تھا۔
ایک بار جب آئن سٹائن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے خیالات کو کسی نوٹ بک پر لکھتا ہے تو اس نے حیران ہو کر جواب دیا کہ شاذ و نادر ہی اسے کوئی نیا خیال سوجھتا ہے۔ یاد رہے کہ آئن سٹائن کو آنے والے خیالات انتہائی بلکہ بعض کے خیال میں تو سب سے زیادہ اہم ترین خیالات ہوتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ خیالات انسانی ذہانت کی انتہا ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ 1907 میں یا اس کے لگ بھگ آئن سٹائن نے ایک مزدور کو چھت سے نیچے گرتے دیکھا تو اس نے تجاذب پر غور شروع کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسے یہ خیال کرسی پر بیٹھے بیٹھے سوجھا تھا۔
اصل میں آئن سٹائن کے ذہن میں تجاذب نہیں بلکہ اس کے حل کے بارے خیال آیا تھا کہ اس کے اضافیت کے خصوصی نظریے میں تجاذب غائب تھی۔ اضافیت کے خصوصی نظریے میں خاص بات یہ ہے کہ یہ ایسے متحرک اجسام کے بارے ہے جن کو کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی۔ تاہم اگر ایسی کسی چیز مثلاً روشنی کا سامنا کسی رکاوٹ مثلاً تجاذب سے ہو؟ اگلی دہائی کا زیادہ تر وقت آئن سٹائن نے اسی بارے سوچتے گزارا۔ اسی غور و فکر کا نتیجہ 1917 کے اوائل میں چھپنے والے ‘Cosmological Considerations on the General Theory of Relativity’ کی صورت میں سامنے آیا۔ اگرچہ اضافیت کا خصوصی نظریہ انتہائی اہم اور انقلابی دریافت تھی لیکن ایک محقق کے خیال میں اس کا وقت آ چکا تھا اور اگر آئن سٹائن اسے نہ بھی دریافت کرتا تو بھی پانچ سال میں کوئی اور اسے ضرور دریافت کر لیتا۔ تاہم اضافیت کا عمومی نظریہ یکسر مختلف شئے ہے۔ اسی محقق کے خیال میں اگر آئن سٹائن اسے نہ دریافت کرتا تو آج بھی ہم اس کے بغیر ہوتے۔
اپنے پائپ، پسِ منظر میں رہنے کی عادت اور کھڑے بالوں کی وجہ سے آئن سٹائن کا ہمیشہ گمنام رہنا ناممکن امر تھا اور 1919 میں جب پہلی جنگِ عظیم ختم ہوئی تو دنیا کو اچانک اس کے وجود کا علم ہوا۔ فوراً لوگوں کو یہ خیال آیا کہ اضافیت کے نظریے عام لوگوں کی سمجھ سے بہت اوپر کی چیز ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جب نیو یارک ٹائمز نے اس نظریے سے متعلق آئن سٹائن کا انٹرویو کرنے کا سوچا تو انہوں نے اپنے گالف کے نمائندہ ہنری کراؤچ کو انٹرویو کرنے بھیجا۔
کراؤچ بے چارہ اس صورتحال میں بے بس تھا اور اسے کسی بات کی سمجھ نہ آ سکی۔ دیگر غلطیوں کے علاوہ اس نے یہ بھی لکھا کہ اگرچہ اس کتاب کو پوری دنیا میں محض بارہ افراد سمجھ سکتے ہیں، پھر بھی آئن سٹائن کو اپنی کتاب چھپوانے کے لیے پبلشر بھی مل گیا ہے ۔ ایسی کوئی کتاب تھی نہ کوئی پبلشر اور نہ ہی ایسے بارہ افراد، تاہم لوگوں میں یہ غلط فہمی پھیل گئی۔ جلد ہی لوگوں کے خیال میں ایسے افراد کی تعداد مزید گھٹ گئی اور سائنسی حلقے اس غلط فہمی کے ازالے کی بجائے خاموش رہے۔
جب ایک صحافی نے برطانوی ماہرِ فلکیات سر آرتھر ایڈنگٹن سے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ آئن سٹائن کے اضافیت کے نظریات کو دنیا میں محض تین افراد سمجھتے ہیں تو ایک لمحہ خاموش رہ کر اس نے جواب دیا کہ، ‘میں سوچ رہا ہوں کہ تیسرا انسان کون ہو سکتا ہے۔‘ ان نظریات میں کوئی بہت زیادہ مشکل ریاضی یا دیگر علوم شامل نہیں بلکہ اس کو سمجھنے میں مشکل اس لیے پیش آتی ہے کہ یہ نظریات بغیر کسی پسِ منظر کے اور محض عقلی دلائل سے پیدا ہوئے تھے۔
اضافیت کے نظریے کی بنیاد یہ ہے کہ وقت اور مقام مطلق نہیں بلکہ مشاہدہ کرنے والے پر منحصر ہوتے ہیں۔ مشاہدہ کرنے والا جتنا تیزی سے حرکت کرے گا، مشاہدات اتنا ہی تیز ہوتے جائیں گے۔ ہم کبھی روشنی کی رفتار کو نہیں پہنچ سکتے اور جتنا ہم تیز ہوتے جائیں گے، مشاہدہ کرنے والے کے لیے ہم اتنے ہی دھندلے ہوتے جائیں گے۔
فوراً ہی سائنس دانوں نے ان نظریات کو عام فہم بنانے پر کام شروع کر دیا۔ ان میں سے زیادہ مشہور اور کاروباری لحاظ سے کامیاب کوشش برٹرنارڈ رسل کی تھی۔ رسل کی بنائی ہوئی تصویر آج تک استعمال ہو رہی ہے۔ رسل نے کہا کہ فرض کریں کہ 100 گز لمبی ٹرین ہے جو روشنی کی رفتار کے 60 فیصد پر حرکت کر رہی ہے۔ پلیٹ فارم سے گزرتے ہوئے وہاں پر کھڑے فرد کو یہ ٹرین 80 گز لمبی دکھائی دے گی اور اس میں موجود ہر چیز اسی طرح اپنے اصل حجم کا 80 فیصد دکھائی دے گی۔ اگر ہم ٹرین پر سوار افراد کی آوازیں سنیں تو وہ ایسے ہوں گی جیسے ریکارڈ کو ذرا کم رفتار پر چلایا جا رہا ہو اور ان کی حرکات بھی اسی تناسب سے دکھائی دیں گی۔ اسی طرح ٹرین پر موجود گھڑیاں بھی اصل رفتار کا 4/5 تیزی سے حرکت کر رہی ہوں گی۔
تاہم ٹرین پر موجود افراد کو ان تبدیلیوں کو علم نہیں ہوگا۔ ان کے لیے ہر چیز بالکل درست ہوگی۔ البتہ انہیں پلیٹ فارم پر موجود ہر چیز چھوٹی اور سُست دکھائی دے رہی ہوگی۔ یعنی سارا کمال مشاہدہ کرنے والے کے مقام پر ہے۔
جب بھی آپ حرکت کرتے ہیں تو یہی اثر پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ امریکہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہوائی جہاز سے سفر کریں تو وہ افراد جو پیچھے رہ گئے تھے، آپ سے ایک سیکنڈ کے ایک کھربویں حصے جتنا کم عمر ہوں گے۔ کمرے میں ایک جگہ سے دوسری جاتے وقت آپ کی حرکت سے بھی وقت اور مکاں میں تبدیلی آتی ہے۔ اس بات کا حساب لگایا گیا ہے کہ ایک بیس بال جسے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکا جائے تو دورانِ سفر اس کے وزن میں 0.000000000002 گرام جتنا اضافہ ہو چکا ہوگا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اضافیت کے اثرات حقیقی ہیں اور ان کی پیمائش کی جاتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں انتہائی معمولی ہوتی ہیں۔ تاہم کائنات میں دیگر اشیاء جیسا کہ روشنی، تجاذب اور کائنات بذاتِ خود، پر ان چیزوں کا کافی اثر ہوتا ہے۔
اگر ہمیں اضافیت کے نظریات عجیب لگتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عام زندگی میں ان اثرات کو نہیں دیکھ پاتے۔ تاہم اس سلسلے میں آواز سے متعلق ہمارا روزمرہ تجربہ سامنے آتا ہے۔ اگر آپ کسی پارک میں ہوں اور وہاں بلند آواز میں موسیقی چل رہی ہو تو آپ اس سے جتنا دور ہوتے جائیں گے، آواز اتنی کم ہوتی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ موسیقی تو اسی طرح چل رہی ہے، فرق محض ہمارے مقام کی وجہ سے پڑا ہے۔ تاہم کوئی ایسا جاندار مثلاً گھونگھا جو تیزی سے حرکت نہ کر سکتا ہو، اس کے لیے یہ خیال ہی انتہائی اچھوتا اور ناقابلِ فہم ہوگا۔
اضافیت کے عمومی نظریے کا سب سے مشکل اور ناقابلِ فہم حصہ وہ ہے جس میں وقت کو مکاں کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ ہم وقت کو مطلق، ازلی اور مسلسل جاری عمل سمجھتے ہیں جس کو روکنا ممکن نہیں۔ حقیقت میں آئن سٹائن کے خیال میں وقت متغیر اور مسلسل بدل رہا ہے۔ اس کی باقاعدہ شکل بھی ہے۔ سٹیفن ہاکنگ کے خیال میں وقت سے ہمارا تعلق ایسے پیچیدہ طریقے سے جڑا ہوا ہے کہ جس سے فرار ممکن نہیں اور یہ بھی کہ مکاں کے تین عام ابعاد ہیں اور چوتھی بُعد سپیس ٹائم یعنی وقت-مکاں کہلاتی ہے۔
سپیس ٹائم کو سمجھنے کے لیے ایک گدے کی مثال لیتے ہیں جو چپٹا لیکن لچکدار ہے اور اس پر لوہے کی ایک بھاری گیند رکھی ہے۔ اس گیند کے وزن کی وجہ سے نیچے موجود گدے میں ہلکا سا خم پیدا ہوتا ہے۔ یہی اثر کسی بھی بھاری اجرامِ فلکی مثلاً سورج سے پیدا ہوتا ہے۔ اب آپ اس گدے پر کوئی ہلکے وزن کی گیند لڑھکائیں تو حرکت کے قانون کے مطابق اسے سیدھی لکیر میں حرکت کرنی چاہئے۔ لیکن بھاری گیند سے پیدا شدہ ڈھلوان کی جانب کھنچتے ہوئے چھوٹی گیند بڑی گیند کی طرف بڑھتی جائے گی۔ اسی عمل کو ہم تجاذب کا نام دیتے ہیں جو سپیس ٹائم میں پیدا ہونے والے خم کا نتیجہ ہے۔
کاسموس میں ہر چیز اپنی کمیت کے مطابق خم یا جھکاؤ پیدا کرتی ہے۔ تجاذب کوئی قوت نہیں بلکہ سپیس ٹائم کے جھکاؤ کا نتیجہ ہے۔
خم والے گدے کی تشبیہ ہمیں وقت کے اثرات کے بارے نہیں بتاتی لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس سے آگے سمجھ ہی نہیں سکتے۔ تاہم اس بات پر سب اتفاق کریں گے کہ پیٹنٹ آفس کے نوجوان کلرک کی یہ سوچ بہت آگے کی تھی۔
آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے مطابق کائنات یا تو پھیل رہی ہے یا سکڑ رہی ہے۔ تاہم چونکہ آئن سٹائن ماہرِ فلکیات نہیں تھا، اس لیے اس نے اس دور کے عام نظریے کو قبول کیا جس کے مطابق کائنات ازلی اور ساکن ہے۔ اس نے شاید اسی وجہ سے فلکیاتی مستقل کو اپنی مساوات میں شامل کر دیا تاکہ تجاذب کے اثر کو معطل کر سکے۔ سائنسی تاریخ کی کتب آئن سٹائن کی اس غلطی کو نظرانداز کر دیتی ہیں لیکن آئن سٹائن اسے جانتا تھا اور اسے اپنی زندگی کی سب سے بھیانک غلطی قرار دیتا تھا۔
قسمت دیکھئے کہ جب تجاذب کے اثر کو ختم کرنے کے لیے آئن سٹائن اضافیت کے نظریے میں ایک مستقل کا اضافہ کر رہا تھا تو اسی وقت لوویل کی رصد گاہ میں ویسٹو سلائیفر نامی ماہرِ فلکیات ایسے مشاہدے کر رہا تھا جن کے مطابق دور کے ستارے ہم سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ کائنات ساکن نہیں تھی۔ سلائیفر کے مشاہدے والے ستارے ڈاپلر اثر کو ظاہر کرتے تھے۔ عین اسی اثر کے مطابق کار دوڑ میں آپ کو اپنی طرف آتی کار کی آواز میں اس وقت اچانک تبدیلی محسوس ہوتی ہے جب کار آپ کے پاس سے گزر کر جاتی ہے (اس اثر کا نام آسٹریا کے طبعیات دان جوہن کرسچیان ڈاپلر کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ جب متحرک جسم کسی ساکن جسم کی طرف جاتا ہے تو آواز کی لہریں ساکن جسم کی طرف جاتے ہوئے سکڑتی جاتی ہیں جس کی وجہ سے آواز باریک ہوتی جاتی ہے۔ جب متحرک جسم ساکن جسم کے پاس سے گزر جاتا ہے تو آواز کی لہریں پھر پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں اور آواز بھاری اور مدہم ہوتی جاتی ہے)۔ یہی عمل روشنی کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور ہم سے دور ہوتی کہکشاؤں کی روشنی سرخ جھکاؤ یعنی ریڈ شفٹ کا شکار ہوتی ہے۔ ہم سے قریب ہوتی کہکشاں کی روشنی طیف کے نیلے رنگ کی طرف منتقل ہوتی محسوس ہوگی۔
سلائیفر نے روشنی کا یہ اثر سب سے پہلے محسوس کیا اور کائنات کی حرکات سے متعلق اس کی اہمیت بھی جانی۔ بدقسمتی سے کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ سلائیفر کو آئن سٹائن کے بارے اور دنیا کو سلائیفر کے کام کے بارے کچھ علم نہ تھا۔
اس دریافت کا سہرہ ایڈون ہبل کے سر بندھا۔ ہبل 1889 میں آئن سٹائن کے دس سال بعد پیدا ہوا اور شکاگو کے باہر ویٹن نامی مضافاتی علاقے میں پرورش پائی۔ اس کا باپ کامیاب انشورنس افسر تھا اور ہبل کے لیے زندگی ہمیشہ ہی آسان رہی تھی۔ ہبل نہ صرف بہترین کھلاڑی تھا بلکہ پُرکشش، ذہین اور انتہائی خوبصورت بھی تھا۔ اس کے علاوہ لائف گارڈ، فرانس کے میدانِ جنگ میں خوفزدہ افراد کو محفوظ جگہ تک پہنچانا، عالمی چیمپئن باکسروں کو نمائشی میچوں میں انتہائی آسانی سے ہرا دینا اس کے لیے عام سی بات تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود ہبل پیدائشی جھوٹا تھا۔
پیدائش سے ہی ہبل کی انتہائی ذہانت ظاہر تھی۔ ایک بار ہائی سکول کے کھیلوں میں 1906 میں ہبل نے پول والٹ، شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو، ہیمر تھرو، سٹینڈنگ ہائی جمپ اور رننگ ہائی جمپ کے علاوہ ریلے ٹیم میں سات کھیلوں میں پہلے نمبر پر اور لانگ جمپ میں تیسرے نمبر پر آیا۔ اسی سال اس نے ایلنوائس میں ہائی جمپ کا ریاستی ریکارڈ بنایا۔
تعلیمی لحاظ سے بھی اس کی کامیابیاں ظاہر تھیں۔ اسے یونیورسٹی آف شکاگو میں داخلے میں کوئی مشکل نہ ہوئی اور وہاں اس نے طبعیات اور فلکیات کی تعلیم پائی۔ اسے آکسفورڈ میں اولین رہوڈز سکالرز میں سے ایک بنایا گیا۔ بعد میں اس نے کینٹکی میں قانون کی پریکٹس کے علاوہ ہائی سکول کے استاد اور باسکٹ بال کے کوچ کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ بعد میں اس نے اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی اور فوج میں بھی مختصر عرصہ گزارا جو جنگ بندی کے ایک ماہ بعد فرانس میں گزرا۔
1919 میں 30 سال کی عمر میں ہبل کیلیفورنیا منتقل ہوا اور ماؤنٹ ولسن کی رصدگاہ میں نوکری کر لی جو لاس اینجلس کے پاس ہے۔ کچھ ہی عرصے میں اس نے اپنی شناخت اس صدی کے بہترین ماہرِ فلکیات کے طور پر کرا لی۔
ذرا دیکھتے ہیں کہ اس وقت کائنات کے بارے کتنی کم معلومات ہوتی تھیں۔ آج کے ماہرینِ فلکیات کے مطابق ہماری قابلِ مشاہدہ کائنات میں 140 ارب کہکشائیں ہیں جو ناقابلِ فہم حد تک بڑی تعداد ہے۔ اگر ہر کہکشاں کو ہم مٹر کا دانہ سمجھ لیں تو یہ تعداد ایک بڑے آڈیٹوریم کو بھرنے کو کافی ہیں اور یہ حساب ایک آسٹروفزسٹ بروس گریگری لگا چکا ہے۔ 1919 میں جب ہبل نے دوربین کی مدد سے کائنات کا مشاہدہ شروع کیا تو اس وقت کائنات میں موجود کہکشاؤں کی معلوم تعداد صرف ایک تھی جو ہماری اپنی کہکشاں ہے۔ اس کے علاوہ دکھائی دینے والی ہر چیز یا تو ہماری کہکشاں کا ہی کوئی دور واقع حصہ ہیں یا محض گیسی مجموعے۔ ہبل نے اس غلط فہمی کو دور کیا۔
اگلی دہائی کے دوران ہبل نے کائنات سے متعلق دو اہم ترین سوالات پر کام کیا کہ کائنات کتنی پرانی ہے اور کتنی بڑی۔ ان دونوں سوالات کا جواب دینے کے لیے دو باتیں جاننا لازمی تھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ مخصوص کہکشائیں ہم سے کتنی دور ہیں اور یہ کہ ان کے دور جانے کی کیا رفتار ہے۔ ریڈ شفٹ سے ہمیں کہکشاں کی دور ہونے کی رفتار کا پتہ چلتا ہے لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہکشاں ہم سے کتنی دور ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ‘معیاری موم بتیوں’ یعنی سٹینڈرڈ کینڈلز کی ضرورت پڑتی ہے جو ایسے ستارے ہوتے ہیں جن کی روشنی کو ہم درست طور پر ماپ سکتے ہیں اور ان کی روشنی کے حوالے سے دیگر ستاروں کی روشنی اور ان کا فاصلہ جان سکتے ہیں۔
ہبل کی خوش قسمتی دیکھئے کہ کچھ ہی عرصہ قبل ہینریٹا سوان لیووٹ نامی ایک ذہین خاتون نے ان ستاروں کا فاصلہ جاننے کا طریقہ وضع کیا تھا۔ یہ خاتون ہارورڈ کالج کی رصدگاہ میں بطور کمپیوٹر کام کرتی تھی۔ ان کمپیوٹروں کا کام فوٹوگرافک پلیٹوں کا معائنہ کر کے ستاروں کے بارے مختلف حساب کتاب کرنا ہوتا تھا۔ ان دنوں خواتین کو ہارورڈ یا کسی بھی جگہ اس سے زیادہ بڑا عہدہ نہیں دیا جاتا تھا۔ اس نظام کی خامیوں سے قطع نظر، اس کے کئی غیر متوقع فوائد بھی تھے۔ ایک پہلو یہ بھی تھا کہ ذہین ترین افراد کی آدھی تعداد ایسے کام کو کرتی تھی جسے بصورتِ دیگر کرنے کے لیے کوئی تیار نہ ہوتا اور یہ بھی کہ کائنات کی خوبصورتی کو سمجھنا عورتوں کے لیے آسان تھا جو مرد شاید کبھی نہ سمجھ پاتے۔
ہارورڈ کی ایک کمپیوٹر این جمپ کینن نے مختلف ستاروں کو بار بار دیکھتے رہنے سے ان کی درجہ بندی کا ایک نظام وضع کیا جو آج تک استعمال ہو رہا ہے۔ لیووٹ کا کردار اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس نے یہ بات جانی کہ سیفائیڈ ویری ایبل نامی ستارے کے جھلملانے کا ایک مخصوص دورانیہ ہے۔ اسے اجرامِ فلکی کی دھڑکن کہا جاتا ہے۔ سفیائیڈ ستارے بہت کم پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے ایک ستارہ ہم سب جانتے ہیں جو قطبی ستارہ ہے۔
آج ہم جانتے ہیں کہ سیفائیڈ ستارے اپنے عروج کا وقت گزار کر اب سرخ دیو بن چکے ہوتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ یہ ستارے اپنا بقیہ ایندھن اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ نتیجتاً باقاعدہ وقفوں سے روشن اور مدھم ہوتے ہیں۔ لیووٹ نے یہ سوچا کہ اس طرح کے ہر ستارے کے روشن اور مدھم ہونے کے دورانیے کا مشاہدہ کر کے ہم ایسے مختلف ستاروں کا باہمی فاصلہ جان سکتے ہیں۔ لیووٹ نے ہی سٹینڈرڈ کینڈل کی اصطلاح وضع کی جو آج تک استعمال ہو رہی ہے۔ تاہم اس طرح ان ستاروں کا باہمی فاصلہ تو جانا جا سکتا ہے لیکن زمین سے ان کا فاصلہ جاننا ممکن نہیں۔ تاہم کائنات کے وسیع فاصلوں کو ماپنے کا پہلا طریقہ وضع ہو چکا تھا۔
ذرا سوچئے کہ جب یہ لیووٹ اور کینن فوٹوگرافک پلیٹوں پر موجود معمولی روشن دھبوں کی مدد سے کائنات کی بنیادی خصوصیات پر کام کر رہی تھیں تو اس وقت ہارورڈ کا ماہرِ فلکیات ولیم پِکرنگ (جس کی دسترس میں بہترین دوربینیں تھیں) اس نظریے پر کام کر رہا تھا کہ چاند پر موجود تاریک دھبے دراصل موسم کے ساتھ ہجرت کرتے ہوئے پتنگوں کے غول ہیں۔
لیووٹ کے حساب کتاب اور ویسٹو سلائیفر کے ریڈ شفٹ کو ملا کر ہبل نے نئے سرے سے کائنات کے مختلف حصوں کو دیکھنا شروع کیا۔ 1923 میں اس نے ثابت کیا کہ اینڈرومیڈا میں دکھائی دینے والا ننھا سا جالا دراصل ایک کہکشاں ہے جو 1 لاکھ نوری سال وسیع اور ہم سے کم از کم 9 لاکھ نوری سال دور ہے۔ اس وقت کے تصور کے برعکس کائنات انتہائی وسیع نکلی۔ 1924 میں ہبل نے اپنے مشہورِ زمانہ مقالے Cepheids in Spiral Nebulae میں واضح کیا کہ کائنات میں محض ہماری کہکشاں ہی نہیں بلکہ بے شمار دوسری کہکشائیں بھی ہیں جن میں سے بہت ساری ہماری کہکشاں سے بڑی اور بہت دور بھی ہیں۔
اکیلی یہی دریافت ہبل کو امر کر دینے کو کافی تھی مگر اس نے اس سے بھی زیادہ اہم دریافت کی۔ ہبل نے دور دراز کی کہکشاؤں کے طیف کو ماپنا شروع کیا۔ اس نے ماؤنٹ ولسن کی نئی 100 انچ والی ہُکر دوربین کی مدد سے کام کرتے ہوئے 1930 کی دہائی تک یہ بات واضح جان لی کہ ہمارے مقامی مجموعے کے علاوہ باقی تمام کہکشائیں ہم سے دور جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا فاصلہ اور ان کی رفتار براہ راست متناسب ہیں یعنی جو کہکشاں جتنی دور ہے، اتنی تیزی سے حرکت کر رہی ہے۔
یہ دریافت حیران کن تھی کہ کائنات نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ یہ پھیلاؤ ہر سمت میں یکساں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر کائنات آج پھیل رہی ہے تو ماضی میں کسی وقت وہ ایک ہی جگہ ایک مقام پرجمع ہوگی جہاں سے یہ پھیلاؤ شروع ہوا۔ یعنی ازل سے موجود، مستحکم اور مستقل کائنات کی بجائے اب کائنات کو نکتہ آغاز مل گیا تھا۔ اس سے یہ بھی امکان پیدا ہوتا ہے کہ اگر کائنات کا آغاز ہے تو اس کا انجام بھی ممکن ہے۔
سٹیفن ہاکنگ نے اس امر پر حیرت ظاہر کی ہے کہ پھیلتی کائنات کے بارے پہلے کسی نے سوچا تک نہ تھا۔ نیوٹن اور دیگر تمام ماہرینِ فلکیات کو یہ بات سمجھنی چاہئے تھی کہ ساکن کائنات سمٹ کر اپنے اندر سما جائے گی۔ اس کے علاوہ اگر کائنات ازل ہے تو اس میں موجود ستاروں کی پیدا کردہ حرارت سے کائنات کا مجموعی درجہ حرارت انتہائی بڑھ چکا ہوتا۔ اس مسئلے کو پھیلتی کائنات کے نظریے نے حل کر دیا تھا۔
ہبل سوچنے سے زیادہ مشاہدہ کرنے میں کامیاب رہتا تھا اور اسی وجہ سے اسے اس بات کو سمجھنے میں وقت لگا کہ اس نے کیا دریافت کیا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اسے آئن سٹائن کے عمومی نظریہ برائے اضافیت کے بارے علم نہیں تھا حالانکہ آئن سٹائن اور اس کا نظریہ اب پوری دنیا میں مشہور ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ 1929 میں البرٹ مچلسن نے ماؤنٹ ولسن میں روشنی کی رفتار کو اپنے آلے سے ماپنے کی ذمہ داری اٹھا لی تھی اور اندازہ ہے کہ اس نے لازمی طور پر آئن سٹائن کے نظریے کو اپنی دریافتوں پر لاگو کرنے کے بارے بات کی ہوگی۔
بہرحال، وجہ جو بھی ہو، ہبل نظریاتی اعتبار سے کوئی بڑی تبدیلی لانے میں ناکام رہا اور یہ نظریہ بعد میں بیلجین پادری اور عالم جارجز لیماتر پر منکشف ہوا۔ لیماتر ایم آئی ٹی سے پی ایچ ڈی کر چکا تھا۔ اس نے ان دونوں نظریات کو ملا کر اپنا نظریہ پیش کیا کہ کائنات کی ابتداء ایک وحدت سے ہوئی جو اب مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔ جدید دور کے بگ بینگ کا پیش خیمہ سمجھ سکتے ہیں لیکن یہ بات اتنی قبل از وقت تھی کہ لیماتر کو تاریخ میں ایک یا دو سطروں جتنی جگہ ہی ملتی ہے۔ کئی دہائیوں اور کاسمک بیک گراؤنڈ ریڈی ایشن کی دریافت کے بعد جا کر ہی بگ بینگ کو ٹھوس نظریہ سمجھا گیا۔
ہبل اور آئن سٹائن، دونوں اس سے محروم رہ گئے۔ اگرچہ اس وقت لوگوں کو علم نہیں تھا لیکن یہ دونوں اپنا اپنا کردار ادا کر چکے تھے۔
1936 میں ہبل نے مشہور کتاب لکھی جس کا نام The Realm of the Nebulae تھا جس میں ہبل نے اپنے کارناموں کی خوب تعریف کیں۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ ہبل کو آئن سٹائن کے نظریات سے کچھ نہ کچھ آگہی ضرور تھی کہ اس نے 200 صفحات کی کتاب کے 4 صفحات اس کے لیے مختص کیے تھے۔
ہبل 1953 میں دل کے دورے سے فوت ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کی بیوی نے آخری رسومات ادا کرنے سے انکار کیا اور آج تک یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے کہ آخر اس کی لاش کا کیا ہوا۔ اگر آپ کو ہبل کی یادگار دیکھنی ہو تو آسمان کی طرف منہ کر کے ہبل خلائی دوربین کو دیکھ لیجئے جو 1990 میں چھوڑی گئی تھی اور ہبل سے منسوب ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
9 طاقتور ایٹم​
جب آئن سٹائن اور ہبل کائنات کے بنیادی ڈھانچے کو بے نقاب کرنے میں لگے تھے تو دیگر سائنس دان ننھے اور حیران کن ایٹم پر کام جاری رکھے ہوئے تھے۔
کالٹیک کے رچرڈ فین مین نے ایک بار لکھا کہ اگر آپ تمام تر سائنسی تاریخ کو ایک فقرے میں بیان کرنا چاہیں تو یہ فقرہ کافی رہے گا ‘تمام چیزیں ایٹموں سے بنی ہیں۔’ ہر جگہ ایٹم موجود ہیں اور ہر چیز انہی سے بنتی ہے۔ اپنے اردگرد دیکھیں، ہر طرف ایٹم ہی ایٹم ہیں۔ نہ صرف ٹھوس اجسام جیسا کہ میز، کرسی وغیرہ بلکہ ہوا بھی ایٹموں سے بنی ہے۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
ایٹموں سے بننے والی بنیادی اکائی مالیکیول کہلاتی ہے جو لاطینی زبان کا لفظ ہے، یعنی ‘چھوٹی جسامت’۔ مالیکیول دو یا دو سے زیادہ ایٹموں سے مل کر بنتا ہے۔ ہائیڈروجن کے دو اور آکسیجن کا ایک ایٹم ملائیں تو پانی کا ایک مالیکیول بن جاتا ہے۔ کیمیا دان ایٹموں کی بجائے عناصر کو مالیکیول کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے آپ لکھتے ہوئے حروف کی بجائے الفاظ کے بارے سوچتے ہیں۔ مالیکیولوں کی تعداد بھی انتہائی زیادہ ہے۔ سطح سمندر پر صفر ڈگری سینٹی گریڈ پر ایک مکعب سینٹی میٹر ہوا میں 45 ارب ارب مالیکیول ہوتے ہیں۔ یہ تعداد آپ کے اردگرد موجود آپ تک پہنچنے سے قبل یقیناً کئی ستاروں اور کروڑوں جانداروں کا حصہ بھی رہ چکی ہوگی۔ انسان کے مرتے ہی ایٹموں کی اتنی بڑی مقدار خارج ہو کر دوبارہ استعمال ہوتی ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ہمارے جسم میں موجود تقریباً ایک ارب ایٹم شاید شیکسپیئر کا حصہ رہ چکے ہوں۔ اتنے ہی ایٹم مہاتما بدھ اور اتنے ہی چنگیز خان اور دیگر تاریخی شخصیات سے آئے ہوں گے۔ یاد رہے کہ ایٹموں کو دوبارہ استعمال ہونے میں کئی دہائیاں لگتی ہیں۔ اسی وجہ سے شاید ایلوس پریسلے کے ایٹم ہم تک نہیں پہنچے۔
کہا جا سکتا ہے کہ ہم سب ہی تناسخ ہیں۔ جب ہم مریں گے تو ایٹم آزاد ہو کر پھر کسی اور چیز کو بنانے میں لگ جائیں گے، چاہے وہ گھاس کا پتہ ہو، انسان یا شبنم کا قطرہ۔ تاہم ایٹم ایک طرح سے لازوال ہوتے ہیں۔ مارٹن ریس کے مطابق ایٹموں کی اوسط عمر 1035 سال ہوتی ہے جو اتنا بڑا نمبر ہے کہ میں بھی اسے اس طرح لکھتے ہوئے خوش ہوں۔
اس کے علاوہ ایٹم انتہائی ننھا سا ہوتا ہے۔ ایک انسانی بال جتنی چوڑی جگہ پر پانچ لاکھ ایٹم بہ آسانی سما سکتے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کی جسامت کا اندازہ کرنا آسان تو نہیں لیکن کوشش کر کے دیکھتے ہیں۔
ملی میٹر سے شروع کرتے ہیں جو . کے برابر ہے۔ اس لکیر کو ہم 1000 برابر حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ہر حصہ ایک مائیکرون کہلاتا ہے۔ میٹھے پانی میں موجود یک خلوی جاندار جیسا کہ پیرامیشیم دو مائیکرون کے برابر ہوتے ہیں یعنی 0.002 ملی میٹر۔ اگر آپ خوردبین کے بغیر پیرامیشم کو پانی کے قطرے میں تیرتا دیکھنا چاہتے ہیں تو اس قطرے کو 12 میٹر جتنا بڑا کرنا پڑے گا۔ تاہم اگر آپ اسی قطرے میں ایک ایٹم کو دیکھنا چاہیں تو اسی قطرے کو 24 کلومیٹر چوڑا کرنا پڑے گا۔
ایٹموں کی جسامت انتہائی مختصر ہوتی ہے۔ اگر آپ ایٹم کا حجم دیکھنا چاہتے ہیں تو مندرجہ بالا ایک مائیکرون کو مزید 10,000 حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا۔ یعنی ایک ملی میٹر کا ایک کروڑواں حصہ۔ ذرا تصور کیجئے کہ ایک ایٹم کو اگر ایک کاغذ کی موٹائی سمجھا جائے تو ایک ملی میٹر اس تناسب سے ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کے برابر ہوگا۔
ایٹموں کی اس مختصر جسامت کے باوجود ان کی کثرت اور ان کی طویل عمر ہی انہیں فائدہ مند بناتی ہے۔ انتہائی مختصر جسامت کی وجہ سے ان کا مطالعہ اور ان کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایٹموں کی تین خوبیاں یعنی چھوٹے، بکثرت اور ناقابلِ شکست ہونے کی وجہ سے جان ڈالٹن ہی پہلا انسان تھا جس نے یہ بتایا کہ تمام چیزیں ایٹموں سے بنتی ہیں۔
جان ڈالٹن 1766 میں برطانیہ میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوا۔ شروع سے ہی وہ انتہائی ذہین طالبعلم تھا۔ 12 سال کی عمر میں اسے سکول کا انچارج بنا دیا گیا۔ اسی عمر میں اس نے نیوٹن کی Principia کا لاطینی زبان میں مطالعہ شروع کر دیا اور اسی نوعیت کے دیگر سنجیدہ سائنسی موضوعات کو پڑھا۔ 15 سال کی عمر میں سکول ماسٹری کرتے ہوئے اس نے نزدیکی قصبے میں بھی ملازمت اختیار کر لی۔ دس سال بعد اس نے مانچسٹر کا رخ کیا اور بقیہ زندگی وہیں گزاری۔ مانچسٹر پہنچ کر اس نے ذہانت کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اس نے مسلسل کتب اور مقالہ جات چھپوانا شروع کر دیے جو موسمیات سے لے کر گرائمر تک، بے شمار موضوعات پر تھے۔ رنگ کوری پر اس کی تحقیقات کی وجہ سے اس بیماری کو طویل عرصے تک ڈالٹنیزم کے نام سے بھی جانا جاتا رہا کہ ڈالٹن خود بھی رنگ کوری کا شکار تھا۔ تاہم اس کی شہرت کا اصل سبب 1808 میں چھپنے والی کتاب A New System of Chemical Philosophy تھی۔
900 سے زائد صفحات کی کتاب میں سے محض پانچ صفحات پر ڈالٹن نے پہلی بار ایٹموں کے موجودہ نظریے کو بیان کیا۔ ڈالٹن کی سوچ یہ تھی کہ تمام تر مادہ انتہائی چھوٹے اور ناقابلِ تقسیم ایٹموں سے بنا ہے۔ اس نے لکھا کہ ہائیڈروجن کے ایک ایٹم کو بنانا یا ختم کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ہمارے نظامِ شمسی کے کسی سیارے کو تباہ کرنا یا کسی نئے سیارے کو بنانا۔
تاہم ایٹم کا نظریہ یا نام کوئی نئی بات نہیں۔ یونانی ان دونوں کو متعارف کرا چکے تھے۔ ڈالٹن کا کارنامہ ان کی ساخت، جسامت اور باہمی تعامل جاننا تھا۔ اسے علم تھا کہ ہائیڈروجن کا ایٹم سب سے ہلکا ہوتا ہے اس لیے اس نے ہائیڈروجن کا ایٹمی وزن ایک رکھا۔ اس کا خیال تھا کہ پانی میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کا تناسب 1 اور 7 ہے۔ اس طرح ڈالٹن نے معلوم عناصر کے اوزان کے بارے اندازے لگائے۔ تاہم اس نے بہت غلطیاں بھی کیں، مثلاً آکسیجن کا وزن 7 نہیں بلکہ 16 ہے۔ تاہم اس کا بنیادی خیال نہ صرف جدید کیمیا بلکہ جدید سائنس کی بھی بنیاد بنا۔
اس کام کی وجہ سے ڈالٹن کو کچھ شہرت ملی۔ 1826 میں جب فرانسیسی کیمیا دان پیلٹیئر نے مانچسٹر جا کر اپنے ہیرو سے ملنے کا فیصلہ کیا تو اسے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ ڈالٹن کسی بہت مشہور ادارے سے وابستہ ہونے کی بجائے ایک گلی میں چھوٹے سے سکول میں بچوں کو بنیادی ریاضی پڑھا رہا تھا۔
اگرچہ ڈالٹن نے ہر ممکن طور پر شہرت سے بچنے کی کوشش کی لیکن اسے رائل سوسائٹی کا رکن بنا دیا گیا۔ اس پر تمغوں کی برسات ہوئی اور معقول سرکاری پنشن بھی ملی۔ جب 1844 میں وفات پائی تو اس کے آخری دیدار کے لیے 40,000 افراد جمع ہوئے اور جنازے کی لمبائی 2 میل تھی۔ ڈکشنری آف نیشنل بائیوگرافی میں ڈالٹن کی تفصیل طویل ترین تفاصیل میں سے ایک ہونے کے علاوہ طوالت میں محض ڈارون اور لائل سے کم ہے۔
ڈارون کے نظریے کے سو سال بعد تک ایٹموں کی موجودگی محض نظریاتی تھی اور کئی بڑے سائنس دان جیسا کہ ارنسٹ ماخ (جس کے نام پر آواز کی رفتار رکھی گئی ہے) وغیرہ تو اس خیال سے بالکل ہی منکر تھے۔ ماخ نے لکھا کہ ایٹموں کو حواسِ خمسہ سے نہیں جانا جا سکتا، اس لیے یہ محض تخیلاتی ہیں۔ اس دور میں جرمن بولی جانے والی سائنسی دنیا میں ایٹموں کی موجودگی کے بارے ایسے ہی نظریات پائے جاتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ اسی مخالفت کی وجہ سے مشہور نظریاتی طبعیات دان لڈویک بولٹزمین نے 1906 میں خودکشی کر لی تھی۔
آئن سٹائن نے 1905 میں براؤنین حرکت کے بارے اپنے مضمون میں ایٹموں کی موجودگی کا یقینی ثبوت دیا۔ تاہم اس پر کم ہی توجہ دی گئی اور آئن سٹائن جلد ہی اضافیت کے نظریات پر کام میں مصروف ہو گیا۔ اس طرح ایٹمی دور کا سب سے اہم فرد ارنسٹ ردرفورڈ بنا۔
ردرفورڈ 1871 میں نیوزی لینڈ میں سکاٹ لینڈ سے ہجرت کر کے آنے والے خاندان میں پیدا ہوا جن کے پاس تھوڑی زمین اور ڈھیر سارے بچے تھے۔ اس کی رہائش گاہ انتہائی دور دراز علاقے میں تھی جہاں اس کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن اس نے 1895 میں وظیفہ جیتا اور کیمبرج یونیورسٹی کی کیونڈش لیبارٹری میں تعلیم حاصل کرنے آن پہنچا۔ یہ جگہ طبعیات کے حوالے سے دنیا کو حیران کرنے والی تھی۔
طبعیات دان دوسرے مضامین کے سائنس دانوں سے دور بھاگتے ہیں۔ جب آسٹریا کے طبعیات دان ولف گینگ پاؤلی کی بیوی اسے چھوڑ کر کیمیا دان کے ساتھ بھاگ گئی تو پاؤلی کو یقین نہ آیا۔ اس کے تاثرات یہ تھے ‘اگر وہ بُل فائٹر کے ساتھ بھی بھاگ جاتی تو میں سمجھ سکتا تھا لیکن کیمیا دان۔ ۔ ۔ ؟’
ایک بار ردرفورڈ نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ‘سائنس یا تو طبعیات ہے یا پھر ٹکٹ جمع کرنا’۔ شومئی قسمت کہ 1908 میں ردرفورڈ کو ملنے والا نوبل انعام طبعیات کا نہیں بلکہ کیمیا کا تھا۔
ردرفورڈ کی خوش قسمتی کہ اس کے ذہین ہونے کے علاوہ اس کے دور میں کیمیا اور طبعیات ایک دوسرے سے بہت قریب تھے۔ اس کے بعد سے دونوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
تمام تر کامیابیوں کے باوجود ردرفورڈ بہت ذہین نہیں تھا اور ریاضی میں اسے مشکل پیش آتی تھی۔ اکثر لیکچر کے دوران اپنی ہی لکھی ہوئی مساواتوں میں الجھ جاتا اور آخر طلباء کو کہتا کہ وہ اپنے آپ ہی ان مساوات کو حل کر لیں۔ اس کے قریبی ساتھی جیمز چیڈوِک کے مطابق (جس نے نیوٹران دریافت کیا تھا) کا خیال تھا کہ ردرفورڈ تجربات کرنے میں زیادہ ذہین نہیں تھا۔ اس کی اصل خوبی مستقل مزاجی اور کھلے ذہن کا مالک ہونا تھا۔ ذہانت کی کمی کو اس نے اپنے اطوار سے پورا کیا۔ اس کی سوانح حیات لکھنے والے ایک فرد کے مطابق ردرفورڈ ہمیشہ انتہائی دور کی سوچتا تھا جو اسے دیگر ہم عصروں سے ممتاز کرتی تھی۔ جتنا مشکل مسئلہ پیش آتا، اتنا ہی محنت اور سخت جانی سے وہ اس پر کام کرتا اور ہر قسم کے غیر روایتی نظریات کو بھی قبول کرنے کو تیار رہتا۔ سکرین کے سامنے بیٹھ کر انتہائی جانفشانی سے گھنٹوں الفا ذرات سے پیدا ہونے والے جھماکوں کو گنتا رہتا۔ ایٹم میں چھپی طاقت کو دیکھنے والا شاید وہ پہلا انسان تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ اگر اس طاقت کو قابو کر لیا جائے تو ان بموں سے پوری دنیا کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔
جسمانی طور پر بہت بڑا اور بھاری آواز کا مالک تھا۔ ایک بار جب کسی نے بتایا کہ ردرفورڈ بحرِ اوقیانوس کے پار ریڈیو کے سگنل بھیجنے لگا ہے تو اس کے ساتھی نے رسان سے پوچھا، ‘اس کام کے لیے ریڈیو کی کیا ضرورت۔’ اس کے علاوہ اس کی برجستگی بھی قابلِ تعریف تھی۔ ایک بار کسی نے پوچھا ‘آپ ہمیشہ موج پر سوار رہتے ہیں۔’ تو اس نے فوراً جواب دیا ‘موج کو میں نے ہی دریافت کیا تھا نا’۔ ایک بار اسے یہ کہتے سنا گیا ‘میں روز چوڑائی اور عقل، دونوں میں بڑھتا ہوں’۔
1895 میں جب وہ کیونڈش پہنچا تو اس کی موٹائی اور شہرت، دونوں ہی اس سے آگے بڑھ چکی تھیں۔ یہ دور سائنس کے لیے یادگار تھا۔ اسی سال ویل ہل رونتگن نے ایکس رے دریافت کیں، اگلے سال ہنری بیکرل نے تابکاری دریافت کی۔ کیونڈش کے عروج کا طویل دور شروع ہونے والا تھا۔ 1897 میں جے جے تھامپسن نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے الیکٹران دریافت کیا۔ 1911 میں ولسن نے پہلا پارٹیکل ڈیٹکٹر بنایا اور 1932 میں جیمز چیڈوِک نے نیوٹران دریافت کیا۔ 1953 میں جیمز واٹسن اور فرانسز کرک نے ڈی این اے کی ساخت کیونڈش میں ہی دریافت کی۔
ابتدا میں ردرفورڈ نے ریڈیائی لہروں پر کام کیا اور ایک میل سے بھی زیادہ فاصلے تک بہترین سگنل بھیجے جو اس دور کے اعتبار سے بہت بڑی کامیابی تھی۔ تاہم جب اس کے سینئر نے اسے بتایا کہ ریڈیو کا کوئی مستقبل نہیں تو اس نے اسے چھوڑ دیا۔ تین سال تک کیونڈش میں رہنے کے بعد اس نے سوچا کہ آگے بڑھنے کے لیے یہاں سے نکلنا ہوگا اور اس نے مانٹریال کی میکگل یونیورسٹی میں نوکری کر لی۔ یہاں اس کے عروج کا آغاز ہوا۔ نوبل انعام ملنے تک (عناصر کی تقسیم پر تحقیق اور تابکار عناصر کی کیمیا پر کیا گیا کام) وہ مانچسٹر یونیورسٹی منتقل ہو چکا تھا اور وہیں اس نے اپنی زندگی کا اہم ترین کام کیا جو ایٹم کی ساخت اور اس کی بناوٹ پر تھا۔
19ویں صدی تک یہ بات واضح ہو چلی تھی کہ ایٹم مزید چھوٹے ذرات سے بنتے ہیں۔ تھامسن نے الیکٹران کی دریافت سے یہ بات ثابت کر دی تھی۔ تاہم ایٹم میں موجود ذرات کی تعداد اور ان کی شکل اور ان کے ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح جڑتے ہیں، کے بارے کچھ معلوم نہ تھا۔ کچھ طبعیات دان کے خیال میں ایٹم مکعب شکل کے ہو سکتے تھے کہ اس طرح وہ ایک دوسرے کے ساتھ بغیر جگہ کے جڑ سکتے ہیں۔ تاہم عام نظریہ یہ تھا کہ ایٹم کی ساخت کشمش والے بن جیسی ہے جو ٹھوس ہو اور اس میں مثبت چارج موجود ہو اور جگہ جگہ منفی چارج بھی، جیسے بن میں کشمش ہوتی ہے۔
1910 میں ردرفورڈ نے اپنے طالبعلم ہانس گائیگر (جس نے تابکاری جانچنے والا آلہ گائیگر بنایا تھا) کی مدد سے آئیونائزڈ ہیلئم ایٹموں یعنی الفا پارٹیکلز کو سونے کی پتلی سی تہہ پر فائر کیا۔ ردرفورڈ کی حیرت دیکھیے کہ بعض الفا پارٹیکل ایسے واپس مڑے جیسے کسی ٹھوس چیز سے ٹکرائے ہوں۔ بقول اس کے، یہ ایسے ہی تھا جیسے آپ پندرہ انچ دہانے کی توپ کاغذ پر چلائیں اور توپ کا گولہ ٹکرا کر واپس مڑ جائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ بہت غور و خوض کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ یہ ایٹم ضرور کسی ٹھوس لیکن انتہائی مختصر حجم کی چیز سے ٹکرائے ہوں گے جو ایٹم کے اندر ہوگی۔ جبکہ الفا ذرات کی اکثریت سیدھی گزر گئی۔ ردرفورڈ نے جانا کہ ایٹم زیادہ تر خالی ہوتا ہے اور اس کے عین درمیان انتہائی کثیف مرکزہ ہوتا ہے۔ یہ بہت عظیم دریافت تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ تمام تر روایتی طبعیات کی رو سے ایٹم کو ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔
ذرا دیر کو یہاں رک کر ہم دیکھتے ہیں کہ ایٹم کی ساخت ہمارے موجودہ علم کے مطابق کیسی ہے۔ ہر ایٹم تین بنیادی ذرات سے مل کر بنتا ہے جو مثبت بار والے پروٹان، منفی بار والے الیکٹران اور بغیر کسی بار کے نیوٹران ہیں۔ پروٹان اور نیوٹران مرکزے کے اندر ٹھسے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ الیکٹران اس کے باہر گردش کرتے ہیں۔ پروٹان کی تعداد سے ایٹم کو اس کی کیمیائی شناخت ملتی ہے۔ ایک پروٹان والا ایٹم ہائیڈروجن کا ہوتا ہے، دو والا ہیلیم، تین والا لیتھیم اور اسی طرح دیگر عناصر ہیں۔ ہر مرتبہ مرکزے میں نئے پروٹان کے اضافے سے نیا عنصر بن جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ہر بار پروٹان کے اضافے کے ساتھ ہی توازن کی خاطر الیکٹران کا بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔ بعض اوقات الیکٹرانوں کی تعداد سے بھی اسے ظاہر کیا جاتا ہے کہ الیکٹران اور پروٹان کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ الیکٹران سے ایٹم کی شخصیت اور پروٹان اسے ایٹم کی شناخت بنتی ہے۔
نیوٹران سے ایٹم کی شناخت پر تو فرق نہیں پڑتا البتہ اس کا وزن ضرور بڑھ جاتا ہے۔ نیوٹران کی تعداد عام طور پر پروٹان کی تعداد کے برابر ہی ہوتی ہے تاہم بعض اوقات کچھ فرق بھی ہو سکتی ہے۔ ایک یا دو نیوٹران کے اضافے یا کمی سے ہم جاء پیدا ہوتے ہیں۔ مختلف اشیاء کی عمر کا اندازہ لگانے کے لیے ہم جاء استعمال ہوتے ہیں اور آپ نے بھی کاربن 14 کا نام بہت بار سنا ہوگا۔ اس کاربن میں چھ پروٹان اور آٹھ نیوٹران ہوتے ہیں اور ان کا مجموعہ 14 ہوتا ہے۔
نیوٹران اور پروٹان مل کر ایٹم کا مرکزہ بناتے ہیں۔ مرکزہ پورے ایٹم کے ایک دس لاکھ اربویں حصے کے برابر لیکن انتہائی کثیف ہوتا ہے اور ایٹم کا سارا وزن یہیں ہوتا ہے۔ ایک سائنس دان نے بتایا کہ اگر ایٹم کو ایک بہت بڑے گرجا گھر کے برابر بڑا کر دیا جائے تو مرکزے کی جسامت ایک مکھی جتنی ہوگی۔ ایٹم کے اندر اتنی وسیع اور خالی جگہ کی وجہ سے ہی ردرفورڈ کو 1910 میں اپنے مشاہدے پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔
آج بھی ہمیں یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اگر ایٹموں میں اتنی جگہ خالی ہوتی ہے تو ہمیں اپنے اردگرد کوئی چیز ٹھوس کیسے محسوس ہوتی ہے؟ جب دو اجسام آپس میں ٹکراتے ہیں جیسا کہ بلیئرڈ کی دو گیندیں، تو دونوں ایک دوسرے کو چھوتی نہیں بلکہ دونوں گیندوں کے مجموعی منفی چارج انہیں انتہائی قریب آنے پر ایک دوسرے سے دور دھکیل دیتے ہیں۔ اگر چارج نہ ہوتے تو دونوں گیندیں ایک دوسرے سے ایسے گزر جاتیں جیسے دو کہکشائیں قریب آنے پر ایک دوسرے سے آر پار گزر جاتی ہیں۔ جب آپ کرسی پر بیٹھتے ہیں تو دراصل آپ کرسی کی سطح سے ایک آنگسٹروم یعنی سینٹی میٹر کے دس کروڑیں حصے کے برابر اوپر ہوتے ہیں کیونکہ آپ کے اور کرسی کے الیکٹران اس سے زیادہ قربت برداشت نہیں کر سکتے۔
ہر انسان کے ذہن میں ایٹم کی عمومی شکل کچھ یوں ہوتی ہے جیسے الیکٹران مرکزے کے گرد ایسے گھوم رہے ہوں جیسے نظامِ شمسی میں سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ دراصل یہ تصویر 1904 میں ایک جاپانی طبعیات دان ہانتارو ناگواکا نے اندازے سے بنائی تھی۔ اگرچہ یہ تشبیہ بالکل غلط ہے لیکن اسے عام قبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ آئزک اسیموو کے مطابق، اسی تصویر کے نتیجے میں سائنس فکشن لکھنے والوں نے اس موضوع پر بہت لکھا ہے کہ ایٹم کے اندر پورا نظامِ شمسی موجود ہے اور اس میں موجود ہر ایٹم کے اندر اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے اور یہ بھی کہ ہمارا نظامِ شمسی دراصل ایک ایٹم پر مشتمل ہے جو خود ایک اور نظامِ شمسی کا حصہ ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔ یورپی ادارہ برائے ایٹمی تحقیقات کی ویب سائٹ پر یہی تصویر آویزاں ہے۔ طبعیات دانوں کو جلد ہی علم ہو چکا تھا کہ ایٹم سیاروں کی مانند اپنے مرکزے کے گرد نہیں گھومتے بلکہ ان کی حرکت پنکھے کے گردش کرتے پروں کی مانند ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ پنکھے کے پر محض ہر جگہ محسوس ہوتے ہیں جبکہ الیکٹران ہر وقت ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔
اب یہ کہنا تو ضروری نہیں کہ 1910 میں اور اس کے بعد کے برسوں تک کسی کو اس بات کاعلم نہیں تھا۔ ردرفورڈ کی دریافت کا پہلا نقصان اس معمے کی صورت میں سامنے آیا کہ ایٹم میں الیکٹران مرکزے میں گرے بنا کیسے اپنی گردش جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس دور کی الیکٹروڈائنامک نظریے کے مطابق گردش کرتے الیکٹرانوں کی توانائی تھوڑی دیر میں ختم ہو جانی چاہئے اور الیکٹران مرکزے میں جا گریں اور دونوں تباہ ہو جائیں۔ یہ بھی مسئلہ تھا کہ مثبت بار والے الیکٹران کیسے اتنی چھوٹی سی اور تنگ جگہ میں ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنے چھوٹے پیمانے کی دنیا پر ہماری عام دنیا کے طبعیاتی اصول لاگو نہیں ہوتے۔
جب طبعیات دانوں نے ایٹمی پیمانے پر کام شروع کیا تو یہ بات واضح ہو گئی کہ اس دنیا میں ہر چیز نہ صرف ہماری دنیا سے مختلف ہے بلکہ ہمارے تصور سے بھی کہیں زیادہ مختلف ہے۔ رچرڈ فین مین کے خیال میں ‘چونکہ ایٹمی پیمانے پر دنیا اتنی مختلف ہے کہ وہ نو وارد اور ماہر، دونوں کو انتہائی عجیب اور ناقابلِ فہم لگتی ہے۔’ یاد رہے کہ مندرجہ بالا بیان سے قبل سائنس دان کم از کم 50 برس ایٹم پر تحقیق کر چکے تھے۔ اب سوچیے کہ 1910 میں ردرفورڈ اور اس کے ساتھیوں کو یہ سمجھنے میں کتنی دشواری پیش آئی ہوگی۔
ردرفورڈ کے ساتھیوں میں سے ایک خاموش طبع ڈینش نوجوان نیلس بوہر بھی تھا۔ 1913 میں ایٹم کی ساخت پرغور کرتے ہوئے بوہر کو ایک ایسا اچھوتا خیال آیا کہ اس نے اپنا ماہِ عُسل ملتوی کر کے مشہورِ زمانہ مقالہ لکھنا شروع کر دیا۔
چونکہ طبعیات دان ایٹم جیسی چھوٹی چیز کو نہیں دیکھ سکتے، اس لیے انہیں ایٹم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے اس کے رویے سے اس کی ساخت کا اندازہ لگانا پڑا۔ یہی کام ردرفورڈ نے سونے کی باریک تہہ پر الفا ذرات کی بوچھاڑ کر کے کیا تھا۔ کافی عرصے سے ہائیڈروجن کی طیف میں طولِ موج کے مشاہدے کی بے قاعدگیاں تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ بعض طولِ موج میں ہائیڈروجن کے ایٹم توانائی خارج کرتے تھے اور بعض طولِ موج میں نہیں۔ یہ ایسے ہی تھا کہ آپ کسی شخص کی نگرانی کر رہے ہوں اور وہ مختلف جگہوں پر تو دکھائی دے لیکن ان کے درمیان سفر کرتا نہ دکھائی دے۔ کسی کو بھی اس کی وجہ نہیں معلوم تھی۔
اسی پر غور کرتے ہوئے بوہر کو وہ خیال آیا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ مقالے کا عنوان تھا On the Consitutions of Atoms and Molecules۔ اس مقالے میں یہ بات بتائی گئی تھی کہ الیکٹران کو گرنے سے بچنے کے لیے مخصوص مداروں میں گردش کرنا ہوتی ہے۔ جب الیکٹران کو ایک مدار سے دوسرے میں جانا ہو تو وہ پہلے مدار سے غائب ہو کر بغیر درمیانی جگہ سے گزرے اچانک دوسرے مدار میں نمودار ہو جائے گا۔ اس نظریے کو ‘کوانٹم لیپ’ کا نام دیا گیا۔ اس سے نہ صرف الیکٹرانوں کے مرکزے میں نہ گرنے کا مسئلہ حل ہوا بلکہ مخصوص طولِ موج پر ہائیڈروجن سے خارج ہونے والی توانائی کا معمہ بھی حل ہو گیا۔ الیکٹران مخصوص مداروں میں اس لیے ظاہر ہوتے ہیں کہ وہ ہوتے ہی مخصوص مداروں میں ہیں۔ اس دریافت کی وجہ سے 1922 میں بوہر کو طبعیات کا نوبل انعام ملا۔ 1921 میں آئن سٹائن کو نوبل انعام ملا تھا۔
اس دوران کیمبرج میں ردرفورڈ نے جے جے تھامپسن کی مدد سے ایک ماڈل تیار کیا کہ آخر ایٹم کا مرکزہ کیوں پاش پاش نہیں ہوتا۔ اس نے سوچا کہ ایٹم میں مثبت بار والے ذرات کے ساتھ کوئی تعدیلی چیز ہونی چاہئے اور اسے نیوٹران کا نام دیا۔ اگرچہ یہ خیال سادہ اور پُرکشش تھا لیکن اسے ثابت کرنا آسان نہیں تھا۔ ردرفورڈ کے ساتھی جیمز چیڈوِک نے نیوٹران کی تلاش میں 11 سال صرف کیے اور آخر نیوٹران کو پا ہی لیا۔ اسے 1935 میں طبعیات کا نوبل انعام ملا۔ کچھ مؤرخین کے خیال میں نیوٹران کی دریافت میں اتنی تاخیر مثبت بات تھی کیونکہ نیوٹران کو اچھی طرح سمجھے بغیر ایٹم بم بنانا ممکن نہیں تھا (نیوٹران پر چونکہ کوئی بار نہیں ہوتا، اس لیے نیوٹران کو ایٹمی مرکزے پر مارا جاتا ہے جس سے مرکزے کی تباہی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس عمل کو فشن یعنی انشقاق کا نام دیتے ہیں)۔ اگر نیوٹران 1920 کی دہائی میں قابو کر لیا گیا ہوتا تو پہلا ایٹم بم جرمنی میں بنتا۔
یورپ بھر میں الیکٹران کو سمجھنے کی کوششیں جاری تھیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ بعض اوقات الیکٹران بطور ذرہ اور بعض اوقات بطور موج کے دکھائی دیتا تھا۔ اس دُہریت نے سائنس دانوں کو دیوانہ بنایا ہوا تھا۔ اس بارے یورپ بھر سے کوششیں ہوئیں اور طرح طرح کے نظریات پیش کیے گئے۔ فرانس میں پرنس لوئیس وکٹر ڈی بروگلی نے دیکھا کہ اگر الیکٹران کو موج کی صورت دیکھا جائے تو ایک مدار سے غائب ہو کر دوسرے تک پہنچنے میں کئی بے قاعدگیاں پائی جاتی ہیں۔ اس سے آسٹرین طبعیات دان ایروِن شروڈنگر نے ایک نیا نظام تیار کیا جو موجی میکانیات کے نام سے مشہور ہوا۔ تقریباً اسی وقت جرمن طبعیات دان ورنر ہائیزنبرگ نے میٹرکس میکانیات کے نام سے نظریہ پیش کیا۔ یہ نظریہ اتنا مشکل تھاکہ خود ہائیزنبرگ کو بھی پوری طرح سمجھ نہ آیا تاہم اس سے شروڈنگر کے نظریے کے کئی مسائل حل ہو گئے۔
اب طبعیات میں دو مختلف نظریات تھے جو ایک ہی طرح کے نتائج سے اخذ کیے گئے تھے جو ناممکن صورتحال تھی۔
آخرکار 1926 میں ہائزنبرگ نے کوانٹم میکینکس کے نام سے اپنا مشہورِ زمانہ نظریہ پیش کیا جو بعد میں طبعیات کی الگ شاخ بنی۔ اس کی بنیاد ہائیزنبرگ کا غیر یقینی کا نظریہ تھا (جرمن زبان میں ہائیزنبرگ کے لکھے ہوئے لفظ کے کئی معنی ہو سکتے ہیں لیکن مترجم نے ٬غیر یقینی’ چنا۔ بعض افراد کے خیال میں ‘ناقابلِ پیمائش’ زیادہ بہتر متبادل ہے)۔ اس کے مطابق الیکٹران ذرات ہوتے ہیں لیکن انہیں بطور موج بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ غیر یقینی اس بات کی ہے کہ ہمیں الیکٹران کی گردش کا مدار معلوم ہوتا ہے یا ہم کسی خاص وقت پر الیکٹران کسی خاص جگہ موجود ہونے کے بارے تو جان سکتے ہیں لیکن دونوں باتیں ایک ساتھ معلوم نہیں ہو سکتیں۔ جب آپ ایک چیز معلوم کرنے کی کوشش کریں گے تو دوسری متاثر ہوگی۔ یہ مسئلہ اس وجہ سے نہیں پیدا ہوتا کہ ہمارے پاس مناسب آلات نہیں بلکہ یہ کائناتی خاصیت ہے۔
اب اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ کبھی یہ پیشین گوئی نہیں کر سکتے کہ کسی خاص وقت میں الیکٹران کس جگہ موجود ہوگا۔ البتہ ہمارے پاس امکانات ہو سکتے ہیں کہ الیکٹران کہاں کہاں ہو سکتا ہے۔ ڈینس اووربائی کے مطابق ‘جب تک الیکٹران کا مشاہدہ نہ کر لیا جائے، اس کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ جب تک الیکٹران کا مشاہدہ نہ ہو جائے، وہ ہر جگہ ہوتا ہے اور کہیں بھی نہیں۔’
اگر آپ کو یہ بات سمجھنے میں دشواری ہو تو کوئی بات نہیں۔ شروع شروع میں طبعیات دانوں کو بھی یہ بات سمجھنے میں بہت دقت ہوئی۔ بوہر نے ایک بار کہا ‘جو بندہ کوانٹم نظریے کو سنتے ہی غصے نہ ہو، اسے اس کی سمجھ ہی نہیں آئی ہوگی۔‘ ہیزنبرگ سے پوچھا گیا کہ ایٹم کا تصور کیسے کیا جائے تو اس کا جواب تھا ‘کوشش بھی مت کرنا۔’
ایٹم کا تصور عام تصور کے برعکس نکلا۔ الیکٹران مرکزے کے گرد ایسے نہیں گھومتے جیسے سیارے سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں، بلکہ بادل کی شکل میں مسلسل اور ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ایٹم کا ‘خول’ کوئی سخت چمکدار قسم کا خول نہیں بلکہ الیکٹرانوں کے بادل نما شکل کا بیرونی سرا ہوتا ہے۔ تاہم یہ منفی بار والا بادل محض ایک امکان ہی ہے اور یہ اس علاقے کو ظاہر کرتا ہے جہاں سے الیکٹران شاید ہی کبھی باہر نکلتا ہو۔ یعنی اگر آپ ایٹم کو دیکھ سکیں تو ایک بہت دھندلی سی ٹینس کی گیند کی طرح دکھائی دے گا، اگرچہ ایٹم ایسی کوئی چیز نہیں جو آپ نے پہلے کبھی دیکھی ہو۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے معمہ الجھتا ہی جا رہا ہو۔ ایک سائنس دان کے مطابق ‘ہمارے سامنے کائنات کا وہ حصہ آ گیا تھا جسے سمجھنے کے لیے ہمارے دماغ بنائے ہی نہیں گئے تھے۔’ فین مین کے مطابق ‘چھوٹے پیمانے کی دنیا بڑے پیمانے کی دنیا سے انتہائی مختلف ہے۔’ جوں جوں طبعیات دان اس کی گہرائی میں اترتے گئے، حیران کن انکشافات ہوتے گئے کہ نہ صرف الیکٹران ایک مدار سے دوسرے مدار تک درمیانی فاصلے سے گزرے بنا جا سکتے ہیں بلکہ مادہ بھی عدم سے وجود اور وجود سے عدم تک آتا جاتا رہتا ہے۔ جو چیز جتنی عجلت سے پیدا ہوگی، اتنی ہی تیزی سے غائب بھی ہوگی۔
شاید کوانٹم امکانات میں سب سے عجیب یہ خیال ہے جو وولف گینگ پاؤلی نے 1925 میں Exclusion Principle کے نام سے متعارف کرایا تھا۔ اس کے مطابق مخصوص سب اٹامک ذرات کے جوڑوں کو جب الگ الگ کر کے ایک دوسرے سے بہت دور بھی بھیج دیے جائیں تو بھی دونوں کو فوری پتہ چل جاتا ہے کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ ان ذرات میں گھماؤ کی ایک خاصیت ہوتی ہے۔ جب آپ ایک ذرے کو گھماتے ہیں تو اس کا جڑواں ذرہ چاہے جتنی بھی دور ہو، عین اسی وقت پہلے ذرے کی مخالف سمت اور اسی رفتار سے گھومنا شروع ہو جائے گا۔
یوں سمجھئے کہ اگر پول کی دو گیندیں ہیں جن میں سے ایک امریکہ اور دوسری فجی میں ہو اور جب آپ پہلی کو ضرب لگائیں تو عین اسی وقت دوسری گیند مخالف سمت ٹھیک اسی رفتار سے چلنا شروع ہو جائے۔ یاد رہے کہ 1997 میں اسے تجرباتی طور پر ثابت کیا جا چکا ہے اور اس تجربے میں ایسے دو فوٹانوں کو ایک دوسرے سے 7 میل دور بھیجا اور جب پہلے ذرے پر جونہی کوئی تبدیلی آئی، دوسرے ذرے سے فوراً متوقع جواب آیا۔
نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک کانفرنس میں نیل بوہر نے بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ نظریہ پاگل پن تو ہے، مگر اصل بات یہ معلوم کرنی ہے کہ کتنا پاگل پن ہے۔ کوانٹم کی دنیا کے بارے شروڈنگر نے مشہور مثال دی۔ اس نے کہا کہ ایک فرضی بلی کو آپ ایک ڈبے میں بند کر کے اس کے ساتھ ہائیڈرو سائینک ایسڈ کی شیشی کو ایک تابکار ایٹم کے ساتھ جوڑ دیں۔ اگر ایک گھنٹے کے دوران وہ ایٹم انحطاط کا شکار ہوا تو ٹوٹ پھوٹ کے بعد زہر شیشی سے نکل آئے گا اور بلی مر جائے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو بلی زندہ رہے گی۔ جب تک ہمیں حقیقت کا علم نہ ہو، سائنسی اعتبار سے ہمیں بلی کو بیک وقت سو فیصد زندہ اور سو فیصد مردہ سمجھنا پڑے گا۔ سٹیفن ہاکنگ نے اسے دیکھ کر کہا تھا ‘جب تک ہم کائنات کو اس کی موجودہ حالت میں نہیں جان سکتے، ہم مستقبل کے بارے کیسے سو فیصد درستگی سے کوئی بات کر سکتے ہیں۔’
اپنی انہی عجیب باتوں کی وجہ سے اکثر طبعیات دانوں کو کوانٹم نظریہ یا اس کے کچھ پہلو پسند نہیں۔ ان میں آئن سٹائن سرِفہرست تھا۔ اندازہ کیجئے کہ یہ آئن سٹائن ہی تھا جس نے اپنی کتاب Annus Mirabilis میں 1905 میں لکھا تھا کہ روشنی کے فوٹان بعض حالات میں ذرات اور بعض حالات میں موج کی طرح ہوتے ہیں۔ اس کا بعد میں تبصرہ تھا کہ ‘کوانٹم نظریہ ہر طرح سے اس قابل ہے کہ اس پر غور کیا جائے، لیکن خدا پانسہ نہیں کھیلتا’ (اصل میں آئن سٹائن کا تبصرہ یہ تھا ‘خدا کے پتوں کو چوری چوری دیکھنا ممکن نہیں لگتا۔ لیکن اگر خدا تاش کھیلتا اور خیال خوانی کرتا ہے تو مجھے اس پر بالکل یقین نہیں’)۔
آئن سٹائن کبھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ خدا ایسی کائنات بنائے گا کہ جس کے کئی پہلو ہمیشہ کے لیے ناقابلِ فہم رہیں۔ اس کے علاوہ کھربہا میل کی دوری پر موجود دو ذرات کیسے ایک دوسرے سے کیسے منسلک رہ سکتے ہیں کہ یہ اضافیت کے خصوصی نظریے کی خلاف ورزی ہے کہ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں ہو سکتی لیکن پھر بھی طبعیات دان اصرار کر رہے تھے کہ سب اٹامک سطح پر معلومات ایسا کر سکتی ہیں( آج تک یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔ ایک مشہور طبعیات دان یاکر اہارانوف کے مطابق ‘طبعیات دانوں نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ اس کے بارے نہ سوچا جائے‘)۔
مزید یہ بھی کہ کوانٹم طبعیات نے مزید الجھنیں پیدا کر دی تھیں۔ اب ہمیں کائنات کی وضاحت کے لیے دو نظریات کی ضرورت تھی۔ ایک کوانٹم نظریہ جو انتہائی چھوٹی دنیا کی اور دوسرا اضافیت جو اس سے بڑی ہر چیز کی وضاحت کرتا ہے۔ اضافیت میں تجاذب سے اس بات کی بہترین وضاحت ہوتی ہے کہ سیارے سورج کے گرد کیوں گردش کرتے ہیں یا کہکشائیں جھرمٹ کی شکل کیوں اختیار کر لیتی ہیں۔ لیکن ذرات کی سطح پر یہ نظریہ فضول تھا۔ ایٹم کو یکجا رکھنے کے لیے اضافی قوتیں درکار تھیں۔ 1930 میں ان میں سے دو دریافت ہوئیں جن کو سٹرانگ نیوکلیئر فورس اور وِیک نیوکلیئر فورس کا نام دیا گیا۔ سٹرانگ فورس کا کام ایٹموں کو ثابت رکھنا تھا اور اسی کی وجہ سے پروٹان مرکزے میں جمع رہتے ہیں۔ وِیک نیوکلیئر فورس متفرق کام کرتی ہے جن میں تابکاری کی مختلف اقسام کی شرح وغیرہ کا تعین کرنا۔
اپنے نام کے برعکس وِیک نیوکلیئر فورس تجاذب سے دس ارب ارب ارب گنا زیادہ طاقتور ہے اور سٹرانگ نیوکلیئر فورس اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ تاہم یہ قوتیں انتہائی مختصر فاصلے تک ہی کام کرتی ہیں۔ سٹرانگ فورس کی پہنچ ایٹم کی چوڑائی کے ایک لاکھویں حصے تک محدود رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایٹم کے مرکزے اتنے کثیف اور چھوٹے ہوتے ہیں اور بھاری عناصر کے مرکزے کیوں اتنے غیر مستحکم ہوتے ہیں۔ سٹرانگ فورس ان تمام پروٹانوں کو ایک ساتھ ہمیشہ کے لیے نہیں جمع رکھ پاتی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طبعیات اب دو مختلف قوانین میں منقسم ہوگئی۔ ایک انتہائی چھوٹی دنیا کے قوانین جبکہ دوسرا انتہائی بڑی دنیا کے قوانین۔ آئن سٹائن کو یہ بات پسند نہیں تھی اور اس نے اپنی بقیہ زندگی گرینڈ یونیفیکیشن تھیوری کی تلاش میں صرف کر دی یعنی انہیں یکجا کر کے ایک نظریہ بنایا جا سکے، مگر وہ ناکام رہا۔ اسے کئی بار ایسا لگا کہ اس نے یہ راز پا لیا ہے مگر جلد ہی اس کی خوشی ختم ہو جاتی۔ ساتھیوں کے خیال میں اس نے اپنی آخری نصف زندگی ضائع کی تھی۔
تاہم دیگر جگہوں پر کام جاری تھا۔ 1940 کی دہائی کے وسط تک سائنس دان ایٹم کے بارے بہت کچھ جان چکے تھے اور انہوں نے 1945 میں ایٹم بم چلا کر اس کا واضح ثبوت بھی دیا۔
اس مقام پر سائنس دان یہ کہنے لگے گئے تھے کہ انہوں نے ایٹم کو تسخیر کر لیا ہے۔ درحقیقت پارٹیکل فزکس کی دنیا اب الجھنے والی تھی۔ تاہم اس کو شروع کرنے سے قبل ہم زمین کی عمر کے تعین کی تفصیل دیکھتے ہیں جس میں کئی غیرضروری اموات، بری سائنس، دھوکہ، دولت کی بھوک وغیرہ شامل ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
10 گیٹنگ دی لیڈ آؤٹ​
1940 کی دہائی میں یونیورسٹی آف شکاگو کے ایک طالبعلم کلیئر پیٹرسن نے سیسے کے ایک ہم جاء کی مدد سے پیمائش کر کے زمین کی عمر کا درست اندازہ لگانے کا طریقہ وضع کیا۔ بدقسمتی سے اس کے پاس موجود پتھروں کے تمام تر نمونوں میں ملاوٹ ہو چکی تھی جس کی مقدار ناقابلِ یقین حد تک بلند تھی۔ بعض نمونوں میں ملاوٹ اندازے سے 200 گنا سے بھی زیادہ تھی۔ بہت عرصے بعد جا کر پیٹرسن کو علم ہوا کہ اس ملاوٹ کی وجہ اوہائیو کا ایک نالائق موجد تھامس مجلے جونیئر تھا۔
مجلے پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھا اور اگر وہ انجینئر ہی رہتا تو دنیا بہت بہتر مقام ہوتی ۔ تاہم مجلے نے کیمیا کے صنعتی اطلاق پر کام شروع کر دیا۔ 1921 میں جنرل موٹرز ریسرچ کارپوریشن، اوہائیو میں کام کرتے ہوئے اس نے ٹیٹرا ایتھائل لیڈ پر تجربات کیے اور پایا کہ اس سے انجن ناک ڈرامائی حد تک کم ہو جاتی ہے۔
اگرچہ اس وقت تک ہر کوئی جانتا تھا کہ سیسہ خطرناک ہے پھر بھی 19ویں صدی میں ہر طرح کی مصنوعات میں سیسہ پایا جاتا تھا۔ خوراک کے ڈبوں کو سیسے کے قاویے سے بند کیا جاتا تھا۔ پانی کو سیسے کی تہہ لگے ٹینکوں میں رکھا جاتا تھا۔ لیڈ آرسینیٹ کو پھلوں پر بطور کُرم کش دوا چھڑکا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوبوں میں بھی سیسہ استعمال ہوتا تھا۔ شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو صارفین کی زندگی میں سیسے کی مقدار میں اضافہ نہ کرتی ہو۔ تاہم انسانی زندگی پر سب سے خطرناک اور طویل مدتی اثرات سیسے کو ایندھن میں ملانے سے پیدا ہوئے۔
سیسہ نیوروٹاکسن (اعصابی زہر) ہے یعنی ایسا زہر جو انسانی اعصاب کو متاثر کرتا ہے۔ اگر اس کی زیادہ مقدار جسم کے اندر چلی جائے تو دماغ اور مرکزی نظامِ اعصاب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ سیسے کے مضر اثرات میں اندھا پن، نیند نہ آنا، گردوں کا فیل ہونا، بہرہ پن، کینسر، رسولیاں بننا اور دورے پڑنا شامل ہیں۔ انتہائی شدید حالت میں انسان کو ہذیان کے اچانک اور شدید دورے پڑنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد کوما اور پھر موت واقع ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی اپنے جسم میں سیسے کی زیادہ مقدار پسند نہیں کرتا۔
دوسری جانب سیسے کو نکالنا اور اس کو استعمال کرنا انتہائی سستا تھا اور ٹیٹرا ایتھائل لیڈ کے استعمال سے انجن ناکنگ بالکل بند ہو گئی۔ اس لیے 1923 میں امریکہ کے تین بڑے اداروں جنرل موٹرز، ڈو پونٹ اور سٹینڈرڈ آئل آف نیوجرسی نے انضمام کر کے ایک ادارے ایتھائل گیسولین کارپوریشن کی بنیاد رکھی جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ ٹیٹرا ایتھائل لیڈ تیار کرنا تھا۔ انہوں نے اپنے اس آمیزے کو ٹیٹرا ایتھائل لیڈ کی بجائے ایتھائل کہا کیونکہ سیسے کا ذکر ذرا برا لگتا تھا۔ اسے یکم فروری 1923 کو فروخت کے لیے پیش کیا گیا۔
تقریباً اسی وقت اس ادارے کے کارکنوں میں بیماریاں شروع ہونے لگیں اور ساتھ ہی ادارے نے اس بارے بالکل خاموش انکار کا رویہ اختیار کر لیا جو کئی دہائیوں تک جاری رہا۔ ایک فیکٹری کے ملازمین جب ناقابلِ علاج حد تک بیمار ہو گئے تو فیکٹری کے بڑوں نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ شاید یہ بہت زیادہ محنت سے کام کرنے کی وجہ سے بیمار ہو گئے ہیں۔ شروع کے دنوں میں ہی کم از کم 15 ملازمین ہلاک ہوئے اور ان گنت ملازمین شدید بیمار ہوئے لیکن انتظامیہ ہمیشہ ہی معاملے کو ٹھنڈا کرانے میں کامیاب رہی۔ تاہم 1924 میں چند دنوں کے وقفے سے ایک ہی فیکٹری کے 5 ملازمین ہلاک ہوئے اور 35 لاعلاج حد تک بیمار ہو گئے تو خبروں کو روکنا کمپنی کے لیے ممکن نہ رہا۔
جب اس نئی چیز کے نقصانات کے بارے افواہیں پھیل گئیں تو اس کے موجد تھامس مجلے نے پریس کے سامنے ایک عملی مظاہرہ کرنے کا سوچا۔ اس نے رپورٹروں کے سامنے کمپنی کے حفاظتی معیار کے بارے بات کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں پر ٹیٹرا ایتھائل چھڑکا اور اس کے بیکر کو اپنی ناک سے ایک منٹ تک لگائے رکھا اور دعویٰ کیا کہ وہ ہر روز کئی بار ایسا کرنے کو تیار ہے۔ مجلے سے زیادہ اس کیمیکل کے نقصان کے بارے کوئی نہیں جانتا تھا کہ چند ماہ قبل ہی اسی سے شدید بیمار ہو کر بمشکل صحت یاب ہوا تھا۔ اب نمائش سے ہٹ کر وہ کسی قیمت پر اس کیمیکل کے قریب تک جانے کو تیار نہ تھا۔
اس خطرناک کیمیکل سے فارغ ہو کر مجلے نے اپنی توجہ اس دور کے ایک تکنیکی مسئلے پر مرکوز کی۔ 1920 کی دہائی میں ریفریجریٹرز میں انتہائی خطرناک اور زہریلی گیسیں استعمال ہوتی تھیں جو بعض اوقات پھیل جاتی تھیں۔ اوہائیو کے ایک ہسپتال میں ہونے والے لیک سے سو سے زیادہ افراد 1929 میں ہلاک ہوئے تھے۔ مجلے نے سوچا کہ ایسی گیس تیار کی جائے جو مستحکم ہو، آتش گیر نہ ہو، زنگ پیدا نہ کرے اور سانس لینے میں خطرناک نہ ہو۔ بدقسمتی سے اس نے سی ایف سی یعنی کلورو فلورو کاربن ایجاد کر لی۔
بدقسمتی سے شاید ہی کوئی اور صنعتی شئے کو اتنی تیزی اور اتنی خوشی سے قبولیت ملی ہو۔ سی ایف سی 1930 کی دہائی میں بننا شروع ہوئیں اور ہر جگہ اس کے استعمال شروع ہو گئے۔ کار ایئر کنڈیشنر سے لے کر ڈیوڈرنٹ تک استعمال ہوتے رہے۔ نصف صدی بعد جا کر علم ہوا کہ سی ایف سی ہماری اوزون کی تہہ کو کھائے جا رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
اوزون آکسیجن کی ایک شکل ہے جس میں آکسیجن کے مالیکیول میں دو کی جگہ تین ایٹم ہوتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ سطح زمین پر اوزون انتہائی زہریلی ہے لیکن بالائی فضاء میں اس کا کام انتہائی خطرناک بالائے بنفشی شعاعوں کو جذب کرنا ہے۔ اتنی مفید ہونے کے باوجود اوزون بکثرت نہیں ملتی۔ اگر ہم اوزون کو بالائی فضاء میں یکساں پھیلا دیں تو نتیجتاً بننے والی تہہ 2 ملی میٹر جتنی موٹی ہوگی۔ اتنی باریک تہہ ہونے کی وجہ سے اتنی آسانی سے متاثر ہو سکتی ہے۔
سی ایف سی بھی زیادہ نہیں پائی جاتیں بلکہ فضاء میں ایک ارب ذرات میں ان کا ایک ذرہ ہوتا ہے لیکن انتہائی تباہ کن ہوتی ہیں۔ ایک کلو سی ایف سی اوزون کی 70,000 کلو مقدار کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ سی ایف سی تقریباً سو سال تک موجود رہ کر تباہی پھیلاتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں حرارت کو جذب کرنے کی صلاحیت انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ سی ایف سی کا ایک مالیکیول کاربن ڈائی آکسائیڈ کے 10,000 مالیکیولوں کے برابر حرارت کو جذب کرتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ بذاتِ خود حرارت جذب کرنے میں بہت تیز ہے۔ سی ایف سی شاید انیسویں صدی کی بدترین ایجاد ہے۔
مجلے کو ان سب نقصانات کا علم تک نہ ہو سکا کیونکہ ان کا علم ہونے سے قبل ہی اس کی وفات ہو چکی تھی۔ اس کی وفات بذاتِ خود ایک عجوبہ تھی۔ پولیو کا شکار ہونے کے بعد مجلے نے خود کو بستر پر کروٹ بدلوانے اور اٹھانے بٹھانے کے لیے ایک مشین ایجاد کی۔ 1944 میں وہ اس مشین کی تاروں میں الجھ کر دم گھٹنے سے مر گیا۔
اگر آپ کو مختلف اشیاء کی عمر کا تعین کرنے میں دلچسپی ہو تو 1940 کی دہائی میں یونیورسٹی آف شکاگو اس کے لیے بہترین جگہ تھی۔ ویلارڈ لبی نے ریڈیو کاربن سے عمر کے تعین کا طریقہ کار وضع کیا تھا جس سے سائنس دانوں کو ہڈیوں اور دیگر نامیاتی مواد کی عمر کے تعین میں آسانی ہوئی۔ اس وقت تک قابل اعتبار طور پر سب سے پرانی چیز کی عمر کا تعین 3000 ق م تھا جو فراعینِ مصر کے دور سے تعلق رکھتی تھی۔ تاہم کوئی اس بارے روشنی نہ ڈال سکتا تھا کہ آخری بار برفانی تہہ کب ہٹی تھی یا فرانس میں کرو میگنن لوگوں نے غاروں میں تصاویر بنانا شروع کی تھیں۔
لبی کا خیال اتنا مفید تھا کہ اسے 1960 میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ بنیادی خیال یہ تھا کہ ہر زندہ چیز میں کاربن کا ہم جاء جو کاربن 14 کہلاتا ہے، جمع ہوتا رہتا ہے۔ جونہی وہ جاندار مرتا ہے تو اسی لمحے سے کاربن 14 انحطاط پذیر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ کاربن 14 کی نصف عمر یعنی ہاف لائف 5,600 سال ہے۔ اگر آپ کسی جاندار کی باقیات میں موجود کاربن 14 کی مقدار جانچ لیں تو ایک خاص حد تک آپ اس کی عمر کا تعین کر سکتے ہیں۔ آٹھ ہاف لائف کے بعد 0.39 فیصد اصل کاربن 14 بچتی ہے جس کی پیمائش کرنا ممکن نہیں رہتا۔ یعنی ریڈیو کاربن کی مدد سے زیادہ سے زیادہ 40,000 سال پرانی چیزوں کی عمر کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
جونہی اس تکنیک کو قبولیت ملی، اس کی خامیاں سامنے آنے لگیں۔ سب سے پہلے تو انحطاط کی شرح تین فیصد غلط نکلی۔ اس وقت تک دنیا بھر سے ہزاروں نمونوں کی پیمائش کی جا چکی تھی۔ بجائے اس کے کہ سائنس دان ان کی تصحیح کرتے، انہوں نے غلط شرح کو ہی مستقل قرار دے دیا۔ یعنی ہر نمونہ جس کی پیمائش کی جاتی ہے، وہ اصل سے 3 فیصد کم عمر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ کاربن 14 کی مقدار بیرونی ملاوٹ سے فوراً تبدیل ہو جاتی ہے۔ یعنی اگر آپ اصل نمونہ لیتے وقت غلطی سے تھوڑی سی سبزی یا کسی اور چیز کو مکس کر جاتے ہیں تو اس سے فرق پڑ سکتا ہے۔ 20,000 سال سے کم عمر نمونوں میں معمولی ملاوٹ سے زیادہ فرق نہیں پڑتا لیکن پرانے نمونوں میں جہاں کاربن 14 کے محض چند ہی ایٹم ہوتے ہیں، پر یہ غلط نتائج دیتی ہے۔ یوں سمجھئے کہ پہلی صورت میں آپ 1,000 روپے کی گنتی کرتے وقت ایک روپے کی غلطی کرتے ہیں تو دوسری صورت میں جب دو روپے گننے ہوں اور آپ ایک روپیہ غلط گن جائیں۔
لبی کے کلیے میں یہ بات بھی فرض کی گئی تھی کہ ریڈیو کاربن کی مقدار فضاء میں ہمیشہ یکساں رہی ہے اور ہر جاندار اسے ایک ہی شرح سے جذب کرتا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اب ہمیں یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ ریڈیو کاربن کی مقدار زمین کے مقناطیسی میدان پر منحصر کرتی ہے کہ وہ کتنی مقدار میں کاسمک شعاعیں منعکس کرتا ہے۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر یہ تکنیک ہمیشہ سے مسائل کا شکار رہی ہے۔
مزید یہ بھی کہ کئی دوسرے عوامل بھی ریڈیو کاربن کی مقدار میں فرق پیدا کر سکتے ہیں۔ مثلاً جن ہڈیوں کا معائنہ کیا جا رہا ہو، اس جاندار کی خوراک کیا رہی تھی۔ ایک نئی بحث کا موضوع یہ ہے کہ آتشک کی بیماری نئی دنیا میں ہوئی یا پرانی دنیا میں۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے ‘ہل’ میں رہائشی قبرستان کے راہبوں میں یہ بیماری کولمبس کے سفر سے قبل پائی جاتی تھی۔ تاہم پھر پتہ چلا کہ انہوں نے مچھلی بہت زیادہ کھائی تھی جس سے ان کی ہڈیاں زیادہ پرانی دکھائی دیتی ہیں۔ اب انہیں یہ بیماری کب اور کیسے لاحق ہوئی، یہ بات معمہ ہے۔
کاربن 14 کی انہی خامیوں کی وجہ سے سائنس دانوں نے نئے طریقے دریافت کیے جن میں تھرمو لیومینیسنس یعنی چکنی مٹی میں پھنسے الیکٹرانوں کی پیمائش اور الیکٹران سپسن ریزونینس، جس میں نمونے پر برقناطیسی موجیں ڈال کر الیکٹرانوں کی تھرتھراہٹ کی پیمائش کرنا بھی شامل ہیں۔ تاہم یہ سب طریقے 2 لاکھ سال سے زیادہ پرانے نمونوں پر کام نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ غیر نامیاتی مواد پر یہ تکنیک بالکل کارآمد نہیں۔ زمین کی عمر جاننے کے لیے ہمیں انہی غیر نامیاتی چیزوں کی عمر کے بارے جاننا ہوتا ہے۔
پتھروں کی عمر جاننے میں اتنے مسائل پیش آئے کہ پوری دنیا کے سائنس دانوں نے اسے چھوڑ دیا۔ اگر انگریز پروفیسر آرتھر ہومز نہ ہوتا تو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکا ہوتا۔
ہومز کی وجہ شہرت نہ صرف رکاوٹوں پر قابو پانا بلکہ نتائج حاصل کرنا بھی ہے۔ 1920 کی دہائی میں جب ہومز عروج پر تھا تو ارضیات کی جگہ طبعیات کو قبولِ عام کا درجہ مل چکا تھا۔ ارضیات کو ہر جگہ کی طرح برطانیہ میں بھی وسائل کی شدید کمی کا سامنا تھا۔ بہت برسوں تک ڈرہم یونیورسٹی میں ہومز کی ذات ہی ارضیات کا پورا ڈیپارٹمنٹ تھا۔ اپنی تحقیق جاری رکھنے کے لیے اسے یا تو دوسروں سے مشینیں ادھار لینی پڑتیں یا اپنی مشینوں کی ٹھوک پیٹ کر کے کام چلانا ہوتا۔ ایک مرتبہ پورا سال تحقیقی کام محض اس وجہ سے رکا رہا کہ یونیورسٹی کے پاس کیلکولیٹر دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ بعض اوقات اسے تعلیمی سلسلے سے وقفہ لینا پڑتا تاکہ اپنے خاندان کے لیے کچھ کمائی کر سکے۔ کچھ عرصہ اس نے نوادرات کی دکان چلائی اور بعض اوقات اس کے پاس جیولاجیکل سوسائٹی کی سالانہ 5 پاؤنڈ کی فیس بھی برداشت نہ کر سکتا تھا۔
ہومز کی تکنیک سادہ اور آسان تھی۔ یہ تکنیک وہی تھی جو ردرفورڈ نے 1904 دریافت کی تھی کہ بعض عناصر ایک مخصوص رفتار سے انحطاط کا شکار ہو کر دوسرے عنصر میں بدل جاتے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ پوٹاشیم 40 کتنے عرصے بعد آرگان 40 بن جاتا ہے اور آپ کسی نمونے میں ان کی مقدار جان لیں تو اس نمونے کی عمر آسانی سے معلوم ہو سکتی ہے۔ ہومز کا کارنامہ یورینیم کے سیسے میں انحطاط پذیر ہونے کی شرح کی پیمائش کرنا تھا جس سے چٹانوں اور پھر زمین کی عمر جاننا آسان ہو گیا۔
تاہم اس بارے کئی تکنیکی مسائل سامنے آئے۔ سب سے پہلے تو ہومز کو انتہائی نفیس آلات درکار تھے جن کی مدد سے وہ انتہائی قلیل مقدار میں موجود نمونوں کی پیمائش کر سکے جبکہ ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ سادہ سے کیلکولیٹر کا حصول کتنا مشکل تھا۔ ہومز کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ اس نے 1946 میں کسی حد تک درستگی کے ساتھ اعلان کیا کہ زمین کی عمر 3 ارب سال یا اس سے زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے اس کے اپنے ساتھیوں کی تنگ نظری سے قبولیت کا مسئلہ پیدا ہوا۔ انہوں نے تکنیک کی تو بہت تعریف کی لیکن اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ یہ عمر زمین کی نہیں بلکہ ان چٹانوں کی ہے جن کی پیمائش اس نے کی تھی۔
عین اسی دوران یونیورسٹی آف شکاگو کے ہیریسن براؤن نے سیسے کے ہم جاء کی پیمائش ایسے پتھروں میں کرنے کا طریقہ وضع کیا جو حرارت سے بنتی ہیں۔ اسے اندازہ تھا کہ اس کا کام انتہائی مشقت طلب ہوگا، اس نے یہ کام کلیئر پیٹرسن کو سونپا اور کہا کہ انتہائی آسان کام ہے۔ تاہم اس پر برسوں لگ گئے۔
پیٹرسن نے اس کام کو 1948 میں شروع کیا۔ سات سال تک پہلے یونیورسٹی آف شکاگو اور پھر کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اور صاف لیبارٹری میں کام کرتے ہوئے، احتیاط سے چنے ہوئے نمونوں سے اور انتہائی احتیاط سے یورینیم اور سیسے کو ماپتا رہا۔
زمین کی عمر جاننے کے لیے آپ کو جن پتھروں کی ضرورت تھی، وہ بہت پرانے ہونے چاہیئں اور ان میں یورینیم اور سیسے کی قلمیں بھی موجود ہوں اور ان کا زمین جتنا قدیم ہونا بھی لازمی امر ہے۔ زمین سے کم عمر پتھروں کا معائنہ کرنے سے زمین کی عمر کا غلط اندازہ لگتا۔ تاہم انتہائی قدیم پتھروں کا حصول بہت مشکل تھا۔ 1940 کی دہائی تک یہ بات معمہ بنی رہی کہ زمین پر انتہائی قدیم پتھر یا چٹانیں کیوں نہیں ملتیں۔ اندازہ کیجئے کہ خلائی دور تک پہنچنے کے باوجود ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ ہماری اپنی زمین پر موجود انتہائی قدیم پتھر کہاں جاتے ہیں (اس کا جواب پلیٹ ٹیکٹانکس تھا جس پر بعد میں بات کرتے ہیں)۔ پیٹرسن کو انتہائی قلیل مقدار میں شواہد سے نتائج نکالنے کا اہم کام سونپا گیا تھا۔ آخرکار اس نے سوچا کہ زمین پر موجود پتھروں کو چھوڑ کر باہر سے آئی ہوئی چٹانوں سے کام لیا جائے۔ اس مقصد کے لیے اس نے شہابِ ثاقب چنے۔
اس کا اندازہ تھا کہ شہابِ ثاقب دراصل نظامِ شمسی کے اولین دور میں بنے تھے اور یہ سیاروں کے بننے کے عمل کے دوران فالتو بچ گئے تھے۔ یعنی ان کی کیمیائی ساخت زمین جیسی ہی ہوگی۔ اس کا اندازہ درست نکلا۔ ان چٹانوں کی عمر کا تعین کرنے سے ہمیں زمین کی عمر کا انتہائی عمدہ اندازہ ہو جائے گا۔
ہمیشہ کی طرح یہ کام بھی سیدھا سادا یا آسان نہ نکلا۔ شہابِ ثاقب عام نہیں ملتے اور ان کا نمونہ حاصل کرنا مزید مشکل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ براؤن کی تکنیک میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ پیٹرسن کے نمونوں میں بہت بڑی مقدار میں فضائی سیسے کی مقدار بھی شامل ہو جاتی تھی۔ اس وجہ سے اس نے سٹیرائل لیبارٹری بنائی تھی تاکہ ہوا سے سیسے کی ملاوٹ ختم ہو جائے۔
فائنل ٹیسٹنگ کے لیے نمونوں کی تلاش اور ان کی چھان بین کرنے میں سال لگ گئے۔ 1953 کے موسمِ بہار میں وہ اپنے نمونوں کو لے کر آرگون نیشنل لیبارٹری، النوائے گیا جہاں اسے جدید ماس سپیکٹروگراف پر وقت دیا گیا اور یہ مشین انتہائی درستگی کے ساتھ نمونوں میں موجود یورینیم اور سیسے کی پرانی قلموں کو گننے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ جب نتائج نکلے تو اتنے حیران کن تھے کہ پیٹرسن نے سیدھا اپنے بچپن والے گھر کا رخ کیا اور اپنی ماں سے کہا کہ وہ اسے ہسپتال داخل کرائے کہ اسے کہیں دل کا دورہ تو نہیں پڑ رہا۔
تاہم جلد ہی وسکونسن میں ایک میٹنگ میں پیٹرسن نے زمین کی عمر کا محتاط تخمینہ پیش کیا جو ساڑھے چار ارب سال تھا۔ غلطی کا اندازہ 7 کروڑ سال تھا۔ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی یہ اندازہ آج تک درست سمجھا جاتا ہے۔ دو سو سال کی کوششوں کے بعد آخرکار زمین کی عمر کا تعین ہو گیا۔
پھر پیٹرسن نے فضاء میں سیسے کی مقدار پر توجہ دی۔ وہ یہ جان کر ششدر رہ گیا کہ انسانی صحت پر سیسے کے اثرات کے بارے یا تو معلومات ہی نہیں تھیں اور جو تھیں، وہ انتہائی حد تک غلط تھیں۔ عجیب ‘اتفاق’ دیکھیئے کہ پچھلے چالیس برسوں سے ایسی ہر تحقیق کے بارے رقم انہی کمپنیوں نے دی تھی جو ایندھن میں سیسہ ملانے کا کام کرتی تھیں۔
ایک ایسے ہی مطالعے میں ایک ڈاکٹر نے، کہ جس کا کیمیکل پیتھالوجی کا کوئی علم نہیں تھا، کو پانچ سالہ پروگرام دیا گیا جس میں اس نے رضاکاروں کو سونگھنے اور نگلنے کے لیے سیسے کی غیر معمولی مقداریں دیں اور پھر ان کے بول و براز کو چیک کیا۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ سیسہ فضلے کے راستے کبھی خارج نہیں ہوتا۔ سیسہ ہماری ہڈیوں اور خون میں جمع ہوتا ہے اور ڈاکٹر نے خون اور ہڈیوں کا معائنہ کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔ نتیجتاً سیسے کو صاف چھوٹ مل گئی۔
پیٹرسن نے جانا کہ ہماری فضاء میں بہت بڑی مقدار میں سیسہ موجود ہے اور اس کا کم از کم 90 فیصد حصہ گاڑیوں کے دھوئیں سے آیا ہے۔ یہ سیسہ کبھی ختم نہیں ہوتا کہ سیسہ از خود ختم نہیں ہوتا۔ تاہم اسے ثابت کرنے میں اسے کافی مشکل پیش آئی۔ تاہم جب اس نے فضاء میں سیسے کی موجودہ مقدار کا مقابلہ قبل از 1923 سے کرنا چاہا کہ جب ٹیٹرا ایتھائل لیڈ کی صنعتی پیمانے پر تیاری شروع ہوئی تھی، تو اسے خیال آیا کہ برفانی تہوں سے شاید کوئی مدد مل سکے۔
اس وقت تک یہ بات جانی جا چکی تھی کہ گرین لینڈ جیسی جگہوں پر سالانہ برفباری الگ الگ تہوں کی شکل میں محفوظ ہوتی ہے کہ موسمی حرارتی تبدیلیوں سے ہر تہہ کا رنگ دوسری سے کچھ فرق ہو جاتا ہے۔ ان تہوں کی گنتی کرنے اور ان میں موجود سیسے کی مقدار جاننے سے ہم سابقہ نہ صرف سینکڑوں بلکہ ہزاروں سالوں کی مقدار جان سکتے ہیں۔ یہ دریافت آئس کور نامی سائنسی شاخ کی بنیاد بنی جو موجودہ موسمیاتی تعلیم کی اہم بنیاد ہے۔
پیٹرسن کو علم ہوا کہ 1923 سے قبل فضاء میں سیسے کی مقدار نہ ہونے کے برابر تھی اور اس کے بعد سے ہر سال اس کی سطح مستقل بڑھتی گئی۔ اب پیٹرسن نے اپنا مقصدِ حیات بنا لیا کہ وہ سیسے کی پیٹرول میں ملاوٹ کے خلاف مہم چلائے جو وقت کے ساتھ ساتھ تیز تر ہوتی چلی گئی۔
تاہم یہ کام انتہائی دشوار تھا۔ ایتھائل بہت طاقتور اور عالمگیر ادارہ تھا اور اس کے وفادار اہم مقامات پر کام کرتے تھے (اس کے ڈائریکٹروں میں اس وقت کے سپریم کورٹ کا جج لیوس پاؤل اور نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کا گلبرٹ گراس وینور بھی شامل تھے)۔ پیٹرسن کو اچانک احساس ہوا کہ اس کی تحقیقات کے لیے رقم کا حصول یا تو رک گیا ہے یا اس میں بہت مشکل پیش آ رہی ہے۔ امریکی پیٹرولیم ادارے نے ایک تحقیقاتی منصوبے کو پیٹرسن سے واپس لے لیا۔ یہی کچھ امریکی عوامی صحت کے محکمے نے بھی کیا جو کہ غیر جانبدار ادارہ تھا۔ دی نیشن میں 2000 میں لکھے گئے مضمون میں جیمی لنکن نے انکشاف کیا ہے کہ ایتھائل کے ذمہ داران نے اس شرط پر کالٹیک میں ایک مستقل شعبے کے قیام کے لیے مالی وسائل دینے کی پیشکش کی کہ پیٹرسن کو نوکری سے نکال دیا جائے۔ 1971 میں نیشنل ریسرچ کاؤنسل نے جب فضاء میں سیسے کے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے پینل بنایا تو پیٹرسن کو اس سے خارج کر دیا گیا حالانکہ اس وقت تک پیٹرسن اس موضوع پر امریکہ بھر میں سب سے زیادہ دسترس رکھتا تھا۔
تاہم پیٹرسن کو شاباش کہ اس نے ہمت نہ ہاری اور 1970 میں صاف ہوا کا قانون منظور ہوا اور امریکہ بھر میں گاڑیوں کے ایندھن میں سیسے کی ملاوٹ کو 1986 میں روک دیا گیا۔ اس کے فوراً ہی بعد امریکیوں کے خون میں سے سیسے کی مقدار میں 80 فیصد تک کی کمی دیکھی گئی ہے۔ تاہم چونکہ سیسہ خود سے ختم نہیں ہوتا، اس لیے آج کل امریکیوں کے خون میں 100 سال قبل کی نسبت 625 گنا زیادہ سیسہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ فضاء میں سیسے کی مقدار مستقل بڑھ رہی ہے جو سالانہ ایک لاکھ ٹن کے برابر ہے۔ یہ مقدار کان کنی، دھاتوں کو جلانے اور دیگر صنعتی عوامل سے آتی ہے۔ امریکہ نے گھر کے اندر والے پینٹ سے سیسے کو تب ہٹایا جب یورپ میں اس پر پابندی لگے 44 سال گزر چکے تھے۔ تاہم زہریلے ہونے کے باوجود 1993 میں جا کر امریکی خوراک کے ڈبوں سے سیسے کے قاویے ہٹائے گئے۔
ایتھائل کارپوریشن نے اپنا کام جاری رکھا لیکن جنرل موٹرز، سٹینڈرڈ آئل اور ڈو پونٹ نے اپنے حصص ایک اور کمپنی کو 1962 میں بیچ دیے۔ فروری 2001 میں ایتھائل کا کام جاری تھا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ تحقیق سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ سیسہ ملا پیٹرول انسانی صحت یا ماحول کے لیے کوئی نقصان کا سبب بنتا ہے۔ اپنی ویب سائٹ پر تاریخ کے حصے میں نہ تو سیسے کا ذکر ہے اور نہ ہی تھامس مجلے جونیئر کا، بلکہ انہوں نے اپنی تیار کردہ چیز کو ‘چند مخصوص کیمیائی اجزا’ کا مرکب قرار دیا ہے۔
اگرچہ ایتھائل اب ٹیٹرا ایتھائل لیڈ نہیں بناتی لیکن انہوں نے اپنے 2001 کے حسابات میں بتایا ہے کہ 2000 میں کل 795 ملین ڈالر کی فروخت سے انہیں 25.1 ملین ڈالر ٹیٹرا ایتھائل لیڈ سے ملے ہیں اور یہ مقدار پچھلے سال یعنی 1999 سے دس لاکھ ڈالر زیادہ ہے۔ تاہم 1998 میں یہ فروخت 117 ملین ڈالر رہی تھی۔ دنیا بھر میں ٹیٹرا ایتھائل لیڈ کی فروخت کم ہونے کے باوجود کارپوریشن اس سے زیادہ سے زیادہ کمانے کا اعلان کر رہی ہے۔ برطانیہ کی کمپنی ایسوسی ایٹڈ آکٹل لمیٹڈ کے ذریعے معاہدے کے تحت ٹیٹرا ایتھائل لیڈ کو دنیا بھر میں بیچا جاتا ہے۔
جہاں تک رہی تھامس مجلے کی چھوڑی ہوئی دوسری مصیبت، یعنی کلورو فلورو کاربن، تو ان کی فروخت امریکہ میں 1974 میں ممنوع قرار پائی۔ اس سے قبل کی بنائی گئی سی ایف سی آج بھی اور ہمارے مرنے کے بعد بھی اوزون کو کھاتی رہے گی۔ مزید یہ بھی اہم بات ہے کہ آج بھی سی ایف سی کی بھاری مقدار فضاء میں پہنچتی ہے۔ وائن بڈل کے مطابق سی ایف سی کی تقریباً پونے تین کروڑ کلوگرام جتنی مقدار جس کی مالیت ڈیڑھ ارب ڈالر بنتی ہے، ہر سال بیچی جاتی ہے۔ اسے کون تیار کرتا ہے؟ ہم، یا ہمارے بڑے تجارتی ادارے بیرون ملک اسے تیار کراتے ہیں۔ 2010 میں اسے عالمی سطح پر ممنوع قرار دیا جائے گا۔
کلیئر پیٹرسن 1995 میں فوت ہوا۔ اس کے کام کے لیے اسے کوئی نوبل انعام نہیں ملا۔ ماہرینِ ارضیات کو کبھی نوبل انعام نہیں دیا جاتا ہے۔ نصف صدی کی بے لوث کاوش کے باوجود اسے نہ تو شہرت ملی اور نہ ہی اسے عام پہچان ملی۔ ہاں ہم اسے 19ویں صدی کا بہترین ماہرِ ارضیات کہہ سکتے ہیں۔ پھر بھی، کیا ہم نے کبھی اس کا نام سنا؟ زمین کی تاریخ پر لکھی گئی دو حالیہ کتب میں اس کے نام کے ہجے غلط لکھے گئے ہیں۔ 2001 کے شروع میں رسالے ‘نیچر’ نے ایک اور بھیانک غلطی کی کہ اس نے پیٹرسن کو خاتون ظاہر کیا۔
تاہم پیٹرسن کا شکریہ کہ 1953 میں ہماری زمین کو ایک عمر مل گئی جس پر ہر کوئی متفق تھا۔ تاہم مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ یہ عمر اس وقت کے اندازے کے مطابق کائنات سے کہیں زیادہ پرانی تھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
11مارک کے کوارک​
1911 میں برطانوی سائنس دان ولسن سکاٹ لینڈ کے ایک مشہور مرطوب پہاڑ پر بادلوں کا مطالعہ کر رہا تها تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ یہی کام تجربہ گاہ میں کیا جائے۔ اس نے کیمبرج کی کیونڈش تجربہ گاہ میں سادہ سا چیمبر بنایا جہاں وہ ہوا کو مرطوب اور نم کر کے مناسب حد تک بادل کا نمونہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
یہ آلہ ٹهیک کام کر رہا تها اور اس کا ایک اور فائدہ بهی اتفاق سے دریافت ہو گیا۔ جب اس نے چارج شدہ الفا ذرات کو اس سے گزارا تو وہ پیچهے باقاعدہ ایسے نشان چھوڑ گئے جیسے ہوائی جہاز چھوڑتا ہے۔ اس نے دنیا کا اولین پارٹیکل ڈیٹیکٹر بنا لیا تها۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سب اٹامک ذرات حقیقی ہیں۔
آخر کار کیونڈش کے ہی دو اور سائنس دانوں نے مزید طاقتور پروٹان بیم ڈیوائس بنائی جبکہ کیلیفورنیا میں برکلے میں ارنسٹ لارنس نے سائیکلوٹران بنایا جسے عرصے تک ایٹم سمیشر کے نام سے جانا جاتا رہا۔ ابهی تک یہ آلے ایک ہی اصول پر کام کر رہے ہیں کہ پروٹان یا کسی اور چارج بردار ذرے کو انتہائی تیزی سے گول یا سیدهے راستے پر چلا کر دوسرے ذرے سے ٹکرا کر دیکھا جائے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اگرچہ یہ کام کوئی بہت مشکل سائنس نہیں لیکن پهر بهی مناسب کام کرتا ہے۔ جب طبعیات دانوں نے مزید طاقتور مشینیں بنانا شروع کیں تو ایسے نئے ذرات کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے مثلاً میوان، پائیون، ہائپران، میسون، کے میسون، ہگس بوسون، انٹرمیڈیٹ ویکٹر بوسون، بریان اور ٹائیکون وغیرہ۔ ان کی تعداد اتنی ہوگئی کہ طبعیات دان بهی الجھ گئے۔
آج ان آلات کے نام سائنسی سے زیادہ جنگی لگتے ہیں جیسا کہ دی سپر پروٹان سنکروٹان، دی لارج الیکٹران-پازیٹران کولائیڈر، دی لارج ہیڈرون کولائیڈر، دی ریلیٹوسٹک ہیوی آئن کولائیڈر وغیرہ۔ انتہائی زیادہ توانائی کو استعمال کرتے ہوئے ان ذرات کو اتنی تیزی سے چلایا جاتا ہے کہ ایک الیکٹران ایک سیکنڈ سے بهی کم وقت میں 7 کلومیٹر طویل سرنگ کے 47,000 چکر لگا سکتا ہے۔ اس بارے کچھ سائنس دان پریشان ہیں کہ اس عمل میں کہیں غلطی سے بلیک ہول نہ بن جائے یا کوئی ایسا عجیب کوارک نہ بن جائے جو دیگر ذرات کے ساتھ عمل کرتے ہوئے قابو سے باہر ہو جائے۔ اگر آپ یہ فقرہ پڑھ رہے ہیں تو ایسا ابهی نہیں ہوا۔
ذرات کو تلاش کرنے میں بہت توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ صرف ان کا حجم مختصر اور رفتار تیز ہوتی ہے بلکہ ان کا وجود بهی بہت کم وقت کے لیے ہوتا ہے۔ یہ ذرات 10-24 سیکنڈ میں عدم سے وجود میں آ کر اور پهر ختم ہو سکتے ہیں۔ سب سے سست ذرات بهی 10-7 سیکنڈ میں ظاہر ہو کر غائب ہو سکتے ہیں۔
بعض ذرات انتہائی چکنے ہوتے ہیں۔ ہر سیکنڈ دس ہزار کهرب کهرب ایسے بے وزن نیوٹرینو ہماری زمین اور ہمارے وجود سے ایسے گزرتے ہیں جیسے خلا سے گزر رہے ہوں۔ ان ذرات کی اکثریت سورج سے آتی ہے۔ ان میں سے چند ذرات کو قابو کرنے کے لیے سائنس دانوں کو 57,000 مکعب میٹر بهاری پانی کے تالابوں کی ضرورت ہوتی ہے جو زیر زمین ہوتے ہیں تاکہ دیگر ذرات نہ پہنچ سکیں۔
کبهی کبهار ایک ایسا ذرہ کسی ایٹمی مرکزے سے ٹکراتا ہے تو ہلکا سا جهماکہ ہوتا ہے۔ انہی جهماکوں کی گنتی کر کے سائنس دان کائنات کے بنیادی ذرات کے بارے کچھ مزید معلومات پا لیتے ہیں۔ 1998 میں جاپانی سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ نیوٹرینوں کا بهی وزن ہوتا ہے جو کہ ایک الیکٹران کے ایک کروڑویں حصے کے برابر ہے۔
ان ذرات کو تلاش کرنے کے لیے بہت پیسہ درکار ہوتا ہے۔ جتنا چهوٹا ذرہ تلاش کرنا ہو، اتنی بڑی مشینیں اور آلات درکار ہوتے ہیں۔ یورپی ایٹمی تحقیقاتی ادارہ سرن ایک چهوٹا سا شہر ہے جو فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر ہے۔ اس میں 3,000 افراد کام کرتے ہیں اور اس کا رقبہ کئی مربع کلومیٹر ہے۔ اس میں موجود مقناطیسوں کا وزن آئفل ٹاور سے زیادہ ہے اور اس کی زیرِ زمین سرنگ 26 کلومیٹر طویل ہے۔
ایٹم توڑنا آسان ہے۔ جب آپ فلوریسنٹ لائٹ جلاتے ہیں تو یہی کام ہوتا ہے۔ تاہم ایٹم کا مرکزہ توڑنا بہت مشکل، مہنگا اور توانائی طلب کام ہے۔ ایٹمی ذرات کو بنانے والے کوارک تک جانے کے لیے کهربوں وولٹ بجلی اور چهوٹے موٹے ملک کے بجٹ جتنا پیسہ درکار ہوتا ہے۔ سرن کی نئی لارج ہیڈرون کولائڈر کے بنانے پر ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ لگے جبکہ چلانے کو 14 کهرب وولٹ بجلی درکار ہوتی ہے (اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ورلڈ وائڈ ویب ایجاد ہوا جو سرن کی ہی ایجاد ہے۔ اسے سرن کے سائنس دان سر ٹم برنرز لی نے 1989 میں ایجاد کیا)۔
تاہم یہ تو اس کے مقابلے کچھ بهی نہیں جو امریکہ میں ٹیکساس میں بنائے جانے والے سپر کنڈکٹنگ سپر کولائئڈر پر خرچ ہونے تهے۔ اس کا مقصد 84 کلومیٹر طویل سرنگ میں 99 ارب وولٹ کی مدد سے ذرات کو اس سطح پر لے جانا تها جہاں وہ بگ بینگ کے ابتدائی سیکنڈ کے دس ہزار کهربویں حصے جیسے ہو جاتے۔ اس پر پہلے 8 اور بعد میں 10 ارب ڈالر کا تخمینہ تھا اور چلانے پر سالانہ کروڑوں ڈالر الگ۔ کانگریس نے یہ منصوبہ روک دیا۔
کہہ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ یعنی 2 ارب ڈالر ایک گڑهے میں ڈالے گئے یعنی 22 کلومیٹر طویل سرنگ کهودی گئی اور پهر منصوبہ ختم ہو گیا۔ اس وقت ٹیکساس کی وجہ افتخار کائنات کا سب سے مہنگا گڑها ہے۔ اس سارے علاقے میں زمین صاف کی گئی ہے اور سرنگ کے اوپر جگہ جگہ مایوس قصبے ہیں۔ اس منصوبے سے مایوس ہو کر اب طبعیات دان نسبتاً سستے منصوبے بنا رہے ہیں۔ تاہم نسبتاً چھوٹے منصوبے بھی حیران کن حد تک مہنگے ہوتے ہیں۔ ایک نیوٹرینو مشاہدہ گاہ کی تجویز پیش کی گئی ہے جو ساؤتھ ڈکوٹا میں ایک پرانی اور متروک کان میں بنائی جانی تھی۔ اس کو بنانے کی قیمت 50 کروڑ ڈالر ہے اور وہ بھی اس لیے کہ کان پہلے سے کھدی ہوئی ہے۔ اسے چلانے کے سالانہ اخراجات کا ابھی حساب نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ ‘جنرل کنورژن کاسٹ’ کے نام سے 28 کروڑ ڈالر سے زیادہ الگ سے مختص ہوں گے۔ النوائس کے ایک پارٹیکل ایکسلریٹر کو دوبارہ محض نصب کرنے کا خرچہ 26 کروڑ ڈالر تھا۔
پارٹیکل فزکس انتہائی مہنگی سائنس ہے لیکن اس کے بہت کچھ فائدے بھی ہیں۔ آج تک دریافت شدہ سب ایٹمی ذرات کی تعداد 150 سے تجاوز کر چکی ہے اور مزید 100 سے زیادہ کے بارے امید ہے کہ وہ بھی موجود ہوں گے۔ رچرڈ فین مین کے مطابق ‘بدقسمتی سے ان ذرات کے باہمی تعلقات کو سمجھنا انتہائی دشوار ہے اور یہ بھی کہ ان کا مقصد کیا ہے۔’ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہر بار جب ہم ایک صندوق کھولتے ہیں تو اس کے اندر ایک اور بند صندوق ملتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹائیکون نام کے ذرات بھی موجود ہیں جو روشنی سے بھی تیز ہو سکتے ہیں۔ کچھ سائنس دان گریویٹان کو تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں جو ان کے خیال میں کششِ ثقل کی بنیاد ہے۔ یہ کہنا آسان نہیں کہ کب ایسے ذرات سامنے آئیں گے جن کو مزید تقسیم کرنا ممکن نہ رہے۔ کارل ساگان نے اپنی کتاب ‘کوسموس’ میں یہ امکان پیش کیا تھا کہ اگر آپ الیکٹران کے اندر کا سفر کریں تو عین ممکن ہے کہ اس کے اندر ایک پوری کائنات چھپی ہوئی ہو۔ اس امکان کے بارے 1950 کی دہائی میں سائنس فکشن میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس نے لکھا تھا کہ عین ممکن ہے کہ ہر الیکٹران کے اندر موجود کائنات کے ہر ایٹم کے الیکٹران میں پھر مزید کائنات چھپی ہو اور یہ سلسلہ اسی طرح لامتناہی طور پر چلتا رہے۔ اور یہی سلسلہ اوپر کی جانب بھی لامتناہی ہو کہ ہماری پوری کائنات کسی دوسری سطح پر ایک الیکٹران ہو؟
یہ دنیا ہم میں سے زیادہ تر کے خواب و خیال سے بھی باہر ہے۔ پارٹیکل فزکس کی بنیادی معلومات جاننے کے لیے جو درسی مواد آپ پڑھیں گے وہ انتہائی ادق اصطلاحات اور مشکل زبان پر مشتمل ہوگا۔ ایسی کتب عام قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔
1960 میں کالٹیک کے طبعیات دن مرے جیل من نے سادگی متعارف کرانے کی خاطر ایک تجویز دی کہ وہ تمام ذرات جوسٹرانگ نیوکلیئر فورس سے متعلق ہیں، انہیں ایک مشترکہ نام دے دیا جائے۔ اس کے ساتھی رچرڈ فین مین نے تجویز پیش کی ان ذرات کو پارٹنز کہا جائے لیکن اسے مسترد کر کے ‘کوارک’ نام رکھا گیا۔
اگرچہ ابتداء میں کوارک کو بہت سادہ سمجھا گیا لیکن اس میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہونے لگ گئیں اور مزید شاخیں بنانی پڑیں۔ کوارک اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی رنگ، ذائقہ یا دیگر طبعی خصوصیات نہیں ہوتیں لیکن پھر بھی ان کی شناخت کے لیے ان کی چھ قسمیں بنائی گئیں، اوپر، نیچے، عجیب، جادوئی، بالائی اور تہہ دار۔ طبعیات دان ان ناموں کو ذائقہ سمجھتے ہیں اور انہیں مزید آگے سرخ، سبز اور نیلے رنگوں میں بانٹا ہوا ہے۔
ان سب کو ملا کر جو نتیجہ نکلا، اسے سٹینڈرڈ ماڈل یعنی معیاری نمونہ کہتے ہیں۔ اسے آپ سب ایٹمی ذرات کی فرہنگ کہہ لیں۔ اس ماڈل میں چھ کوارکس، چھ لیپٹان، پانچ معلوم اور ایک فرض شدہ بوسون (چھٹا بوسون ہگز بوسون ہے جو حال ہی میں دریافت ہوا ہے) اور چار طبعی قوتوں میں سے تین یعنی سٹرانگ اینڈ ویک نیوکلیئر فورسز اور برقناطیسیت ظاہر کی گئی ہیں۔
ترتیب کچھ اس طرح سے ہوئی کہ مادے کے بنیادی ذرات کوارک کہلاتے ہیں۔ انہیں گلُوآن نے ایک دوسرے سے جوڑا ہوا ہے۔ گلُوآن مل کر پروٹان اور نیوٹران یعنی ایٹم کا مرکزہ بناتے ہیں۔ لیپٹان سے الیکٹران اور نیوٹرینو بنتے ہیں۔ کوارک اور لیپٹان ایک ساتھ مل کر فرمیون کہلاتے ہیں۔ بوسون ایسے ذرات ہیں جو مختلف قوتوں کو پیدا کرتے ہیں اور ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس میں فوٹان اور گلُیوآن شامل ہیں۔ اس ماڈل کا مقصد وزن رکھنے والے ذرات کو بیان کرنا تھا۔
اگرچہ یہ ماڈل بہت آسان یا سادہ نہیں لیکن پھر بھی ذرات کی دنیا کی وضاحت کرتا ہے۔ زیادہ تر پارٹیکل فزسسٹ کے خیال میں اس ماڈل میں سادگی اور نفاست کی کمی ہے۔ فزکس ایک بنیادی سادگی کی تلاش کا نام ہے۔ ابھی تک ہم نے سادگی کی بجائے پیچیدگی ہی بڑھائی ہے۔
تاہم یہ ماڈل پُروقار نہ ہونے کے علاوہ مکمل بھی نہیں۔ اس میں کششِ ثقل کے بارے کچھ نہیں بیان کیا گیا۔ یعنی اگر آپ میز پر کچھ رکھیں تو وہ اڑ کر چھت کو کیوں نہیں جا چپکتا۔ ذرات کو کمیت دینے کی غرض سے فرض کیا گیا ہے کہ ہگس بوسون موجود ہونا چاہئے (یہ ذرہ اس کتاب کے لکھے جانے کے بعد دریافت ہوا ہے)۔
معاملہ سادہ بنانے کی غرض سے طبعیات دانوں نے سپر سٹرنگ نظریہ پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق کوارک اور لیپٹان جو پہلے ذرات سمجھے جاتے تھے، دراصل سٹرنگ یعنی لڑیاں ہیں۔ توانائی کی یہ لڑیاں 11 مختلف سمتوں میں تھرتھراتی ہیں۔ ان میں سے تین سمتیں ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں، چوتھی سمت وقت اور سات مزید سمتیں جن کے بارے عام انسان کو کچھ علم نہیں۔ یہ لڑیاں انتہائی چھوٹی ہیں۔
اضافی سمتوں کی وجہ سے طبعیات دانوں نے کوانٹم قوانین اور کششِ ثقل کو ملا کر ایک نسبتاً مختصر نمونہ بنا لیا ہے۔ تاہم یہ سب نظریات اتنے عجیب ہیں کہ اگر کوئی اجنبی بندہ آپ سے اس طرح کی کوئی بات کہے تو آپ اسے سنکی سمجھ کر اس سے دور ہو جائیں۔ مثال کے طور پر مشہور طبعیات دان ماچیو کاکو نے سپر سٹرنگ نظریے کے حوالے سے کائنات کی ساخت کچھ ایسے بیان کی:
ایک مخلوط لڑی دراصل ایک بند لڑی پر مشتمل ہے جس میں دو اقسام کی تھرتھراہٹ پائی جاتی ہے یعنی گھڑیال موافق اور گھڑیال مخالف۔ دونوں کو الگ الگ دیکھا جاتا ہے۔ گھڑیال موافق تھرتھراہٹ مکاں میں 10 مختلف سمتوں میں ہوتی ہے۔ گھڑیال مخالف تھرتھراہٹ 26 مختلف سمتوں میں ہوتی ہے جن میں سے 16 سمتوں کو ملا کر ایک سمت بنا دی جاتی ہے۔
اسی طرح کا متن لگ بھگ 350 صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔
سٹرنگ تھیوری آگے چل کر ایم تھیوری بناتی ہے جس کے بارے میرے الفاظ ختم ہو گئے ہیں۔ بہتر ہے کہ اسے یہیں روک دیا جائے۔
طبعیات میں علم اب جس سطح پر پہنچ گیا ہے، اس بارے ‘نیچر’ میں پال ڈیویز نے لکھا ہے ‘اب عام قاری کے لیے یہ فرق کرنا ممکن نہیں رہا کہ کون سی بات حقیقت میں عجیب ہے اور کون سی بات نرا پاگل پن۔’ 2002 میں دو فرانسیسی جڑواں بھائیوں ایگور اور گریچکا بوگڈانوف نے کثافت کا ایک ایسا نظریہ پیش کیا جس میں ‘فرضی وقت’ جیسے نظریات شامل تھے اور یہ نظریہ عدم کی وضاحت کرتا ہے کہ بگ بینگ سے قبل کیا تھا (چونکہ طبعی قوانین اور طبعیات کا آغاز بگ بینگ کے بعد ہوا تھا، اس لیے بظاہر طبعیات اس عدم کے بارے کچھ بھی نہیں کہہ سکتی)۔
فوراً ہی طبعیات دان اس بات پر بحث کرنے لگ گئے کہ یہ عام سی بات ہے، ذہانت کا شاہکار یا محض دھوکہ بازی؟ کولمبیا یونیورسٹی کے طبعیات دان پیٹر ووئٹ کے مطابق ‘سائنسی اعتبار سے تو یہ بالکل احمقانہ ہے لیکن آج کل ایسی باتوں کو جانچنا بہت مشکل ہو گیا ہے’۔
سٹیون وائن برگ نے کارل پوپر کو موجودہ سائنسی فلاسفروں کا رہنما گردانا ہے اور اس رہنما کے خیال میں ‘کوئی نظریہ آخری نہیں بلکہ ہر نظریے کی وضاحت کے لیے مزید نظریات لانا پڑیں گے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا’۔ دوسرے الفاظ میں یہ علم ہماری سمجھ سے باہر ہی رہے گا۔ تاہم وائن برگ کے مطابق ‘ابھی ذہانت ختم نہیں ہوئی، اس لیے امید باقی ہے’۔
اس بات پر مزید تحقیق ہونا بظاہر لازم امر ہے اور جو بھی ہوگا، وہ ہم میں سے زیادہ تر کی سمجھ سے ویسے بھی باہر ہوگا۔
پچھلی صدی کے وسط میں سائنس دان ابھی انتہائی چھوٹے پیمانے والی دنیا پر کام کر رہے تھے تو فلکیات دان کائنات کو پورا نہ سمجھ سکنے پر کام کر رہے تھے۔
جب ہم نے ایڈون ہبل کا تذکرہ کیا تھا تو بات یہاں تک پہنچی تھی کہ اس وقت تقریباً تمام ہی کہکشائیں ہم سے دور جا رہی تھیں اور جو کہکشاں جتنی دور تھی، اتنی تیزی سے جا رہی تھی۔ ہبل نے اس ساری بات کو ایک مساوات کی مدد سے ظاہر کیا جو یہ ہے
Ho=v/d​
Ho ایک مستقل ہے، v کہکشاں کی رفتار اور d کہکشاں سے ہمارا فاصلہ۔ Ho کو ہبل کا مستقل اور اس مساوات کو ہبل کا قانون کہتے ہیں۔ اس مساوات کی مدد سے ہبل نے کائنات کی عمر 2 ارب سال بتائی۔ یہ بات کچھ عجیب سی تھی کیونکہ اسی صدی کے آغاز سے معلوم ہو چکا تھا کہ کائنات کے بعض اجرامِ فلکی بشمول زمین کے، اس سے زیادہ پرانے ہیں۔ کائنات کی عمر کے بارے نظریات مسلسل بہتر ہو رہے ہیں۔
ہبل کے مستقل کے بارے ایک بات پکی ہے کہ اس پر اختلافات مستقل بڑھ رہے ہیں۔ 1956 میں ماہرینِ فلکیات نے سیفائیڈ متغیرات کے بارے یہ جانا کہ وہ ان کی توقعات سے بڑھ کر متغیر ہیں۔ ان کی ایک نہیں بلکہ دو اقسام ہیں۔ اس وجہ سے سارا حساب کتاب دوبارہ کرنا پڑا اور اب کائنات کی عمر 7 سے 20 ارب سال کے درمیان ہے۔ اگرچہ یہ اندازہ بہت بڑا فرق رکھتا ہے لیکن پھر بھی یہ زمین کی عمر سے مطابقت رکھتا ہے۔
ہبل کے جانشین سینڈیج نے پوری احتیاط سے حساب کتاب کر کے معلوم کیا کہ ہبل کے مستقل کی قیمت 50 ہے۔ عین اسی طرح یونیورسٹی آف ٹیکساس کے فرانسیسی نژاد ماہرِ فلکیات کے انتہائی محتاط حساب کتاب کے مطابق اس کی قیمت 100 ہے (آپ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ 50 یا 100 سے کیا مراد ہے۔ اس کا جواب فلکیاتی پیمائش کی اکائی ہے۔ بحث سے ہٹ کر سائنس دان نوری سال کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے بلکہ parsec یعنی Parallax اور second کا مخفف۔ یہ 3.26 نوری سال کے برابر ہوتا ہے۔ بہت بڑے فاصلے، جیسا کہ کائنات کا طول و عرض میگا پارسیک میں ظاہر کرتے ہیں۔ یہ مستقل کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک کو ظاہر کرتا ہے۔ جب ہبل کے مستقل کی قیمت 50 ہو تو یہ 50 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک کو اور 100 ہو تو 100 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک کو ظاہر کرتا ہے)۔ یعنی دونوں ماہرین کے اندازے میں دگنا فرق پایا جاتا ہے۔ 1994 میں خلائی دوربین ہبل سے کی گئی پیمائش کے مطابق کچھ طبعیات دانوں نے کائنات کی عمر 8 ارب سال بتائی ہے جو ان کے اپنے خیال میں کائنات کے کئی ستاروں کی عمر سے کم ہے۔ 2003 میں ناسا کی ایک ٹیم نے ایک نئے اور دور تک پیمائش کرنے والے مصنوعی سیارے کی مدد سے کائنات کی عمر 13.7 ارب سال اخذ کی ہے۔ تاہم اس میں 10 کروڑ سال کی کمی بیشی ممکن ہے۔ ابھی اس کے بعد کوئی نظریہ نہیں آیا۔
ان مشکلات کا سبب یہ بھی ہے کہ مختلف اندازے لگانے میں بہت گنجائش نکل آتی ہے۔ فرض کریں کہ آپ رات کو کسی کھیت میں کھڑے ہو کر دور دکھائی دینے والی دو روشنیوں کا فاصلہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب اگر آپ عام فلکیاتی اصول اپنائیں اور فرض کریں کہ دونوں یکساں دکھائی دینے والے دو بلب ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے دو گنا دور ہے۔ اب یہ کہنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا نزدیکی بلب 58 واٹ والا ہے جو ہم سے 37 میٹر دور ہے یا کہ 61 واٹ کا بلب ہے جو کہ 36.5 میٹر دور ہوگا۔ اس کے علاوہ مزید یہ بھی کہ کرہ ہوائی میں موجود مختلف ذرات ، کہکشاؤں کے بیچ موجود گرد، سامنے موجود ستاروں کی روشنی اور دیگر بہت سارے عوامل بھی اس فاصلے کو متاثر کر سکتے ہیں۔ یعنی یوں کہہ لیں کہ آپ کا اندازہ مسلسل فرض کردہ مقداروں پر مبنی ہے۔ اگر ایک بھی فرض کردہ مقدار غلط ہو تو اس کے نتیجے میں آگے والی تمام مقداریں بھی خودبخود غلط ہو جائیں گی۔ مزید یہ بھی خیال رہے کہ دوربینوں پر وقت لینا بہت دشوار ہے اور سرخ جھکاؤ یعنی ریڈ شفٹ کو ماپنا کافی مہنگا کام ہے۔ نتیجتاً ماہرین بعض اوقات انتہائی معمولی شواہد کی بنیاد پر اندازے لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایک صحافی جیفری کار کے مطابق ‘چوہے کے بل جتنے شواہد پر نظریات کا پہاڑ کھڑا کر دیا جاتا ہے’۔ مارٹن ریس کے خیال میں ‘ہمارا موجودہ علم ہمارے نظریات کی درستگی کی بجائے شواہد کی قلت کو ظاہر کرتا ہے’۔
نتیجتاً یہ مشکلات نہ صرف بلکہ کائنات کے سروں پر موجود چیزوں پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔ ڈونلڈ گولڈ سمتھ کے مطابق ‘جب فلکیات دان کہتے ہیں کہ ایم 87 کہکشاں ہم سے 6 کروڑ نوری سال دور ہے تو ان کے کہنے کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ کہکشاں ہم سے 4 سے 9 کروڑ نوری سال دور ہے۔ 4، 6 اور 9 کروڑ نوری سال کا فرق بہت زیادہ ہے۔‘
ایک نئے نظریے کے مطابق یہ کائنات اتنی بڑی نہیں جتنی ہم سمجھ رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ دور پار کی کہکشائیں دراصل پاس موجود کی کہکشاں کا عکس ہوں؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ بنیادی سطح پر بھی بہت کچھ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ کائنات کس چیز سے بنی ہے۔ جب بھی ماہرین کائنات کو جمع رکھنے والی کشش کی پیمائش کے لیے مادے کا شمار کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ مطلوبہ مقدار سے کہیں کم نکلتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہماری کائنات کا 90 سے 99 فیصد حصہ زویسکی والے ‘تاریک مادے’ سے بنا ہو۔ اس بات سے بہت مایوسی ہوتی ہے کہ ہم جس کائنات میں رہتے ہیں، اس کا انتہائی بڑا حصہ ہم دیکھ بھی نہیں سکتے۔ تاہم اس سے دو نظریات سامنے آتے ہیں کہ یہ ناقابلِ مشاہدہ حصہ یا تو WIMP یعنی بگ بینگ کے بعد رہنے والے آوارہ مادے یا MACHO یعنی سیاہ شگافوں، بھورے بونوں اور دیگر انتہائی مدھم ستاروں پر مشتمل ہے۔
ذراتی طبعیات دانوں کے خیال میں یہ WIMP ہے تو فلکیاتی طبعیات دانوں کا زور MACHO پر ہے۔ کچھ عرصے تک MACHO کو برتری رہی لیکن چونکہ ان کی اکثریت کا مشاہدہ نہیں ہو سکا، اس لیے اب اکثریت WIMP کے حق میں ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ WIMP آج تک نہیں ملے۔ چونکہ ان کی باہمی قوتیں بہت کمزور ہوتی ہیں، اس لیے انہیں دیکھنا اتنا ہی مشکل۔ کائناتی شعاعیں بہت خلل پیدا کر سکتی ہیں۔ سائنس دانوں کو زمین کے بہت اندر جا کر تجربات کرنے پڑتے ہیں۔ زمین پر سطح پر ٹکرانے والے ذرات کی تعداد 1 کلومیٹر گہرائی پر 10 لاکھ گنا کم ہو جاتی ہے۔ تاہم ان سب کو جمع کرنے کے بعد بھی کائنات کا دو تہائی حصہ نہیں ملتا۔ فی الوقت ہم انہیں DUNNOS کہہ دیتے ہیں یعنی مدھم، منعکس نہ کرنے والے، نہ محسوس ہونے والے اجسام جو کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔
حالیہ مشاہدات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نہ صرف کہکشائیں ہم سے دور ہو رہی ہیں بلکہ یہ بھی کہ ان کی رفتار وقت کے ساتھ ساتھ تیز ہوتی جا رہی ہے جو کہ تمام توقعات کے برعکس ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کائنات میں نہ صرف تاریک مادہ بلکہ تاریک توانائی بھی موجود ہے۔ سائنس دان اسے بعض اوقات خلائی توانائی کہتے ہیں۔ وجہ جو بھی ہو، کسی کو اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔ نظریہ یہ بھی بتاتا ہے کہ خلاء یکسر خالی نہیں۔ اس میں مادہ اور ضد مادہ پیدا ہوتا اور گم ہوتا رہتا ہے اور اسی وجہ سے کہکشاؤں کے دور جانے کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے۔ مزے کی بات یہ دیکھیں کہ اس ساری الجھن کی وضاحت کرنے کو آئن سٹائن کا وہ مستقل موجود ہے جو اس نے اپنے عمومی نظریہ اضافت سے یہ کہہ کر خارج کر دیا تھا کہ یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔ شاید یہ غلطی، غلطی نہیں تھی؟
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم جس کائنات میں رہتے ہیں، ہمیں اس کی عمر کا علم نہیں، ہمارے آس پاس موجود ستاروں کا ہم سے یا باہمی فاصلہ ہم نہیں ناپ سکتے، ایسے مادے سے بھری کائنات ہے جو ہم پہچان نہیں سکتے، ایسے قوانین پر چل رہی ہے جس کے بارے ہمیں کوئی سمجھ نہیں۔
اب اسے یہیں چھوڑ کر ہم کرہ ارض کی جانب واپس لوٹتے ہیں جس کے بارے ہمیں کچھ تو علم ہے۔ اگرچہ ہمیں اس کے بارے بہت کچھ معلوم نہیں اور جو کچھ علم ہے وہ بھی کچھ عرصہ قبل پتہ چلا ہے۔
12زمین حرکت کرتی ہے​
1955 میں اپنی وفات سے قبل البرٹ آئن سٹائن نے مشہور ماہرِ ارضیات چارلس ہیپ گڈ کی کتاب Earth's Shifting Crust: A Key to Some Basic Probelms of Earth Science کا مختصر مگر بہترین پیش لفظ لکھا۔ یہ کتاب اس نظریے کی بہترین نفی تھی کہ براعظم حرکت کر رہے ہیں۔ ہلکے پھلکے انداز میں ہیپ گڈ نے بتایا کہ ‘چند سادہ لوح افراد براعظموں کے کناروں کے درمیان تعلق دیکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں براعظم جنوبی امریکہ براعظم افریقہ کے ساتھ منقطبق ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کے خیال میں بحرِ اوقیانوس کے دونوں کناروں کی چٹانیں تک ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہیں۔’
ہیپ گڈ نے ایسی کسی بھی بات کو رد کیا اور کہا کہ اپنے وقت کے مشہور ماہرینِ ارضیات کے ای کیسٹر اور جے سی مینڈس نے بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب کی چٹانوں پر طویل تحقیق کی ہے اور انہیں ایسی کوئی مماثلت نہیں ملی۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان ماہرین نے کن چٹانوں کا مشاہدہ کیا تھا کیونکہ دونوں اطراف کی چٹانیں مماثل نہیں بلکہ ایک ہی ہیں۔
یہ نظریہ اس دور کے اکثر ماہرینِ ارضیات کے عتاب کا شکار رہا تھا۔ ہیپ گڈ نے جس نظریے کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ نظریہ 1908 میں ایک امریکی شوقیہ ماہرِ ارضیات فرینک برسلے ٹیلر نے پیش کیا تھا۔ ٹیلر کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا جس کی وجہ سے اسے تعلیمی یا مالی مشکلات کا سامنا کیے بغیر اس میدان میں غیر روایتی انداز سے کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ ان افراد میں تھا جن کی توجہ سب سے پہلے افریقہ اور جنوبی امریکہ کے براعظموں کی ساخت کی جانب مبذول ہوئی اور اسی سے اس نے اندازہ لگایا کہ براعظم کبھی حرکت میں تھے۔ اس نے یہ بھی درست اندازہ لگایا براعظموں کی حرکت کی وجہ سے ہی دنیا کے پہاڑی سلسلے بلند ہوئے ہیں۔ تاہم وہ شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے سائنسی دنیا میں اس کے نظریات کو دیوانہ پن کہہ کر مسترد کر دیا گیا۔
تاہم جرمنی میں ایک نظریاتی سائنس دان اور یونیورسٹی آف ماربورگ کے ماہرِ موسمیات الفریڈ ویگنر نے قبول کیا۔ اس نے یہ تحقیق کی تھی کہ نباتات اور حیوانات کے فاسلوں میں پائی جانے والی عدم یکسانیت کے بارے موجودہ ارضیاتی نظریہ خاموش ہے اور اگر اسے لاگو کرنے کی کوشش کی جائے تو کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ جانوروں کے فوسل مسلسل سمندر کے دونوں اطراف میں پائے جاتے ہیں جبکہ سمندر اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی جانور اسے تیر کر عبور نہیں کر سکتا تھا۔ اسے حیرت تھی کہ کیا تھیلی دار جانور جنوبی امریکہ سے آسٹریلیا تک سفر کر کے پہنچے؟ سکینڈے نیویا اور نیو انگلینڈ میں ایک ہی نسل کے گھونگھے کیسے پہنچے؟ اسی طرح اس بات کی وضاحت کیسے کی جائے کہ سپیٹس برگن کے مقام پر پایا جانے والا کوئلے کا ذخیرہ جو قدیم جنگلات سے بنا ہے، ناروے سے 600 کلومیٹر میں شمال میں کیسے پیدا ہو گیا؟ کیا یہ جنگل کبھی گرم علاقے میں نہیں تھا جو زمین کی حرکت کے ساتھ شمال کو چلا گیا؟
ویگنر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ دنیا کے تمام براعظم پہلے پہل ایک بڑے زمینی قطعے کی شکل میں ایک جگہ موجود تھے جسے پنجائیا کہا گیا۔ اس مقام پر حیوانات اور نباتات ہر جگہ پھیل گئے اور جب یہ زمین موجودہ براعظموں کی شکل میں الگ ہوئی تو یہ نباتات اور حیوانات بھی اس کے ساتھ پھیل کر موجودہ مقامات تک پہنچ گئے۔ اس نے اس موضوع پر کتاب لکھی جس کا نام Die Entstehung der Kontinente und Ozeane یا The Origina of Continents and Oceans تھا۔ یہ کتاب 1912 میں جرمن زبان میں چھپی اور پہلی جنگِ عظیم کے باوجود انگریزی میں تین سال بعد چھپی۔
جنگ کی وجہ سے پہلے پہل تو اس نظریے پر کسی نے توجہ نہیں دی لیکن 1920 میں جب نظرِ ثانی اور اضافے کے بعد اس کتاب کو دوبارہ پیش کیا گیا تو ہر جگہ اس پر بحث شروع ہو گئی۔ اس بات پر عمومی اتفاق تھا کہ براعظم اوپر نیچے کو حرکت کرتے ہیں، اطراف میں نہیں۔ عمودی حرکات کا یہ نظریہ Isostasy کہلاتا ہے اور کئی نسلوں سے ارضیاتی اہمیت رکھتا ہے لیکن اس بارے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کب اور کیسے ہوا۔ میرے سکول کے دور تک ایک نظریہ جو درسی کتب میں شامل تھا، کو آسٹریا کے ایڈورڈ سوئیز نے پچھلی صدی کے اختتام پر پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق پگھلی ہوئی زمین جب ٹھنڈی ہوئی تو اس پر ایسے سلوٹیں پڑ گئیں جیسے آپ کسی سیب کو پکائیں تو پڑتی ہیں۔ اس طرح پہاڑی سلسلے اور سمندر بنے۔ اگرچہ اس سے بہت پہلے ہٹن یہ بات ثابت کر چکا تھا کہ ایسی کی سبھی صورتحال میں زمین محض ایک کرہ بن جاتا کہ کٹاؤ کی وجہ سے سارے اونچے اور نیچے مقامات برابر ہو جاتے۔ اس کے علاوہ ردرفورڈ اور سوڈی اس بات کو صدی پہلے بتا چکے تھے کہ زمینی عناصر میں کتنی گرمی چھپی ہوئی ہے جو اتنی زیادہ ہے کہ زمین اس طرح کبھی ٹھنڈی ہو ہی نہیں سکتی جیسا کہ سوئیز نے بتایا۔ بہرحال، اگر سوئیز کا نظریہ درست بھی ہوتا تو پہاڑی سلسلے پوری زمین پر یکسانیت سے پائے جاتے جو حقیقت کے برخلاف ہے۔ اس کے علاوہ ان کی عمریں بھی کم و بیش برابر ہوتیں جبکہ یہ بات 18ویں صدی میں واضح ہو چکی تھی کہ کچھ پہاڑی سلسلے جیسا کہ یورال اور اپلاچین کی عمر ایلپس اور راکیز سے کئی کروڑ سال زیادہ ہے۔ ظاہراً نئے نظریے کے لیے میدان ہموار ہو چکا تھا۔ بدقسمتی سے ویگنر جیسے بندے کی طرف سے ایسے نظریے کا پیش کیا جانا ماہرین ارضیات کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
سب سے پہلے تو یہ بات قابلِ اعتراض تھی کہ ویگنر کے ‘احمقانہ‘ نظریے نے ان کے علم کی پوری بنیاد ہی ہلا دی تھی، جو سامعین سے داد وصول کرنے کا سب سے برا طریقہ ہے۔ ایسا کوئی نظریہ ماہرِ ارضیات بھی پیش کرتا تو وہ بھی تکلیف دہ ہوتا جبکہ ویگنر ماہرِ ارضیات بھی نہیں تھا۔ اس کی تعلیم موسمیات سے متعلق تھی۔ ماہرِ موسمیات اور وہ بھی جرمن۔ یہ صورتحال تو بالکل ہی ناقابلِ قبول تھی۔
اس طرح ہر ممکن کاوش سے ماہرینِ ارضیات نے ویگنر کو جھٹلانے کی کوشش کی۔ فوسل کی یکسانیت سے پیچھا چھڑانے کے لیے انہوں نے ہر ممکن جگہ پر زمینی راستے یا پل ظاہر کرنا شروع کر دیے۔ جب ایک قدیم نسل کا گھوڑا فرانس اور فلوریڈا، دونوں جگہ فاسل حالت میں پایا گیا تو ان ماہرین نے بحرِ اوقیانوس پر ایک پل بنا دیا۔ جب ٹیپر کی ایک نسل جنوب مشرقی ایشیاء اور جنوبی امریکہ میں ایک ساتھ پائی گئی تو ایک پل وہاں بنا دیا گیا۔ کچھ ہی عرصے میں ان فرضی پلوں سے تقریباً سارے سمندر بھر گئے۔ یہ پل شمالی امریکہ سے یورپ، برازیل سے افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا سے آسٹریلیا اور آسٹریلیا سے انٹارکٹکا تک پھیلے ہوئے تھے۔ یہ پل نہ صرف بوقتِ ضرورت کہیں بھی نمودار ہو سکتے تھے بلکہ ان کے غائب ہونے پر ان کے تمام تر نشانات بھی مٹ جاتے تھے۔ اگرچہ ان سب کے پیچھے کوئی شواہد نہیں تھے لیکن پھر بھی اگلی نصف صدی تک یہی نظریات علم الارضیات کی بنیاد بنے رہے۔
تاہم زمینی پلوں سے بھی ہر مشکل کی وضاحت نہ ہو پائی۔ مثال کے طور پر ٹریلوبائٹس کی ایک نسل یورپ اور نیو فاؤنڈ لینڈ، دونوں جگہوں پر پائی جاتی ہے۔ تاہم نیو فاؤنڈ لینڈ جزیرے کے ایک سرے پر تو یہ ملتے ہیں، دوسرے پر نہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ٹریلوبائٹس بپھرے سمندر میں 3,000 کلومیٹر سفر طے کر کے نیوفاؤنڈ لینڈ تو جا پہنچے ہوں لیکن محض 300 کلومیٹر کا سفر کر کے اس جزیرے کے دوسرے سرے تک نہ پہنچ پائے ہوں؟ ٹریلو بائٹس کی ایک قسم یورپ کے علاوہ شمالی امریکہ میں بحرِ الکاہل کے مشرقی ساحل پر تو پائی گئی لیکن درمیان میں ان کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ اس کے باوجود 1964 کے انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں مختلف نظریات پر بات کرتے ہوئے ویگنر کے نظریات کے بارے محض یہ درج ہے کہ اس میں شدید نظریاتی مشکلات پائی جاتی ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ ویگنر کے نظریات میں غلطیاں تھیں۔ مثال کے طور پر اس نے بتایا کہ گرین لینڈ 1.6 کلومیٹر سالانہ مغرب کو سرک رہا ہے جبکہ اصل میں یہ ایک سینٹی میٹر سالانہ ہے۔ اس کے علاوہ اس نے یہ بھی وضاحت نہیں کی کہ آخر زمین کے اتنے بڑے قطعے کیوں سرکتے ہیں۔ اس نظریے کو ماننے کا مطلب یہ تھا کہ خشکی کے بڑے بڑے قطعے زمین کی بالائی سطح سے ایسے گزرتے ہیں جیسے کھیت میں ہل چلاتے ہیں۔ تاہم ان کا کوئی نشان نہیں باقی بچتا۔ ان عظیم سرکاؤ کی کوئی معقول وجہ نہیں مل سکی تھی۔
آرتھر ہومز وہ انگریز ماہرِ ارضیات تھا جس نے نہ صرف زمین کی عمر جاننے کے لیے کافی کام کیا تھا بلکہ اس نے ایک رائے پیش کی۔ ہومز پہلا سائنس دان تھا جس نے جانا کہ تابکاری سے پیدا ہونے والی حدت کی وجہ سے زمین کے اندر لہریں پیدا ہو سکتی ہیں۔ نظریاتی اعتبار سے یہ لہریں اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ زمین کی سطح پر موجود براعظموں کو سرکا سکیں۔ اپنی 1944 میں چھپنے والی مشہور کتاب Principles of Physical Geology میں اس نے براعظموں کے سرکاؤ کا نظریہ پیش کیا جو بنیادی طور پر آج تک مانا جاتا ہے۔ تاہم یہ نظریہ قبل از وقت تھا اور اس کی سب سے زیادہ مخالفت ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہوئی۔ ایک ناقد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہومز اپنے نظریات اور دلائل کو اتنے واضح اور پر زور انداز میں پیش کرتا ہے کہ اس کے طلباء کو شاید ان پر یقین بھی آ جاتا ہو۔ تاہم دیگر جگہوں پر محتاط لیکن مثبت انداز میں اس نظریے کو قبول کیا گیا۔ 1950 میں سائنس کی ترقی کی سالانہ میٹنگ میں رائے شماری سے پتہ چلا کہ کم از کم نصف افراد اب اس نظریے کو اپنا چکے ہیں (ہیپ گڈ نے اس رائے شماری پر رائے دی کہ برطانوی ماہرِ ارضیات کتنے بھٹک گئے ہیں)۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہومز خود بھی بعض اوقات شکوک کا شکار ہو جاتا تھا۔ 1953 میں اس نے اس بات کا اعتراف بھی کیا۔
امریکہ میں کچھ لوگ براعظمی سرکاؤ یعنی کانٹی نینٹل ڈریفٹ کے حق میں بھی تھے۔ ہارورڈ کے ریگنالڈ ڈالی نے اس کے حق میں بات کی لیکن شاید آپ کو یاد ہوگا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے کہا تھا کہ چاند کیسے بنا تھا۔ اس کے نظریات کے بارے عام خیال یہی تھا کہ وہ دلچسپ تو ہیں لیکن ان پر سنجیدگی سے غور کرنا فضول ہے۔ اس طرح زیادہ تر امریکی تعلیمی ادارے اس بات پر قائم رہے کہ براعظم شروع سے ہی موجودہ مقامات پر تھے اور ان کے کناروں کی ساخت سرکاؤ کی بجائے کسی اور وجہ سے ایسی تھی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ برسوں سے تیل کمپنیوں کے ماہرینِ ارضیات اس بات کو جانتے تھے کہ تیل کی تلاش کے کام میں آپ کو جن باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے، وہ صرف اور صرف پلیٹ ٹیکٹانکس سے ہی پیدا ہو سکتی ہیں۔ تاہم تیل کمپنیوں کے ماہرینِ ارضیات کبھی اس طرح کے مقالہ جات نہیں لکھتے۔ ان کا کام تیل تلاش تک محدود رہتا ہے۔
زمین کے حوالے سے پیش کردہ نظریات میں ایک بہت بڑا جھول تھا جو معمہ بنا ہوا تھا۔ جھول یہ تھا کہ آخر سمندری تلچھٹ جاتی کہاں ہے۔ ہر سال دریا بہت بڑی مقدار میں تلچھٹ سمندر میں لا کر ڈالتے ہیں۔ اس میں صرف کیلشیم کی مقدار 50 کروڑ ٹن ہوتی ہے۔ اگر اتنی بڑی مقدار میں تلچھٹ یا گاد جمع ہوتی رہے تو اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اس کی مقدار ناقابلِ یقین حد تک بڑھ چکی ہوتی۔ اندازہ ہے کہ اس وقت سمندر کی تہہ میں کم از کم 20 کلومیٹر اونچی تہہ ہوتی یا یہ کہ تمام تر سمندری تہیں اب سطح سمندر سے زیادہ بلند ہو چکی ہوتیں۔ سائنس دانوں نے اس مسئلے کا انتہائی خوبصورت حل نکالا۔ انہوں نے اس بات کو سرے سے نظر انداز کر دیا۔ تاہم پھر ایسا وقت بھی آیا کہ وہ اسے مزید نظر انداز نہ کر سکتے تھے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہر معدنیات ہیری ہیس کو ایک جنگی مال بردار جہاز کا سربراہ بنا دیا گیا۔ یہ جہاز یو ایس ایس کیپ جانسن تھا۔ اس جہاز پر گہرائی ماپنے والا آلہ فیدو میٹر بھی نصب تھا۔ اس آلے کا بنیادی مقصد ساحل پر فوجی اور سامان اتارتے ہوئے زیرِ آب چھپی چٹانوں کو دیکھنا تھا۔ ہیس نے محسوس کیا کہ اس سے سائنسی کام بھی لیا جا سکتا ہے اور اس نے گہرے سمندر اور حالتِ جنگ میں بھی اس آلے کو چلائے رکھا۔ اسے ملنے والے نتائج ناقابلِ یقین تھے۔ عام نظریے کے مطابق اگر سمندری تہیں قدیم تھیں تو ان پر تلچھٹ کی بہت بڑی مقدار موجود ہوتی، جو کہ جھیلوں اور دریاؤں میں عام پائی جاتی ہے۔ ہیس کے پیمائشوں کے مطابق کہیں بھی تلچھٹ دکھائی نہیں دی۔ ہر جگہ کھائیاں، خندق نما جگہیں اور سلوٹیں سی موجود تھی۔ بہت ساری جگہوں پر زیرِ آب آتش فشاں پہاڑ بھی موجود تھے جنہیں اس نے پرنسٹن کے ایک ماہرِ ارضیات آرنلڈ گاؤٹ کے نام پر گاؤٹ کہا۔ اگرچہ یہ سب باتیں عجیب تو تھیں لیکن ہیس کے سامنے جنگ تھی۔ اس لیے اس نے یہ سوچیں بعد کے لیے چھوڑ دیں۔
جنگ کے بعد ہیس پرنسٹن لوٹا اور پڑھانے میں مشغول تو ہو گیا لیکن سمندری تہہ سے متعلق سوالات اس کے ذہن پر چھائے رہے۔ 1950 کی دہائی میں اوشیانوگرافر سمندری تہوں کے بہتر نقشے تیار کرنے میں لگے ہوئے تھے اور اس عمل میں انہیں مزید حیران کن معلومات ملیں۔ دنیا کے سے بڑے اور سب سے اونچے پہاڑی سلسلے سمندروں میں چھپے ہوئے تھے۔ یہ سلسلے سمندروں کے نیچے ایسے پھیلے ہوئے تھے جیسے ٹینس کی گیند پر نشان ہوتے ہیں۔ اگر آپ آئس لینڈ سے شروع کریں تو یہ سلسلہ بحرِ اوقیانوس کے وسط سے ہوتا ہوا افریقہ کے گرد گھوم کر بحرِ ہند اور دیگر جنوبی سمندروں سے گزرتا ہوا آسٹریلیا کے نیچے سے گزرتا ہوا بحرالکاہل کو مڑ کر باجا کیلیفورنیا کو جاتا اور وہاں سے امریکہ کے ساحل سے ہوتے ہوئے الاسکا تک جاتا ہے۔ جگہ جگہ اس کی اونچی چوٹیاں پانی کی سطح سے اوپر نکل کر جزیرے یا جزائرکے مجموعے مثلاً بحرِ اوقیانوس میں ازور اور کناری جزائر اور بحرالکاہل میں ریاست ہوائی اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ تاہم زیادہ تر حصے پانی کی گہرائیوں میں پوشیدہ رہتے ہیں۔ اگر ہم ان تمام پہاڑی سلسلوں کو اکٹھا کریں تو ان کی لمبائی 75,000 کلومیٹر بنتی ہے۔
اس وقت تک ان پہاڑوں کے بارے شاید ہی کسی کو کچھ علم ہو۔ 18ویں صدی میں سمندر کی تہہ میں تار بچھانے والے لوگ جانتے تھے کہ بحرِ اوقیانوس کے وسط میں کہیں نہ کہیں پہاڑ موجود ہیں لیکن انہیں ان پہاڑوں کے حجم یا ان کے تسلسل کے بارے کوئی معلومات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ایسی تھیں جن کی کوئی وضاحت ممکن نہیں تھی۔ بحرِ اوقیانوس کے درمیان 20 کلومیٹر تک چوڑی ایک دراڑ اس پہاڑی سلسلے میں موجود تھی اور اس کی لمبائی 19,000 کلومیٹر تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے زمین دو حصوں میں تقسیم ہو رہی ہو۔ اگرچہ ایسا خیال ناممکن اور تکلیف دہ تھا لیکن تمام تر شواہد یہی بتا رہے تھے۔
1960 کی دہائی میں لیے گئے نمونوں سے پتہ چلا کہ اس دراڑ پر موجود تلچھٹ زیادہ پرانی نہیں۔ لیکن جوں جوں اس سے دور ہوتے جائیں تو تلچھٹ پرانی ہوتی جاتی ہے۔ ہیری ہیس نے اس بارے سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ سمندر کی نئی سطح اس دراڑ سے نمودار ہو رہی ہے اور پہلے سے موجود سطح کو دور دھکیلتی جاتی ہے۔ یعنی بحرِ اقیانوس کی سطح پر دو کنویئر بیلٹیں چل رہی ہیں جو شمالی امریکہ اور یورپ کی طرف نئی سمندری تہہ بکھیر رہی ہیں۔ اس عمل کو سمندری تہہ کا پھیلاؤ کہا جاتا ہے۔
جب یہ تہہ پھیلتے ہوئے اس جگہ پہنچتی ہے جہاں خشکی کی تہہ سمندر سے ملتی ہے تو یہ نئی تہہ خشکی کے نیچے گُھستی ہے جسے سب ڈکشن کہتے ہیں۔ اس عمل سے وضاحت ہوتی ہے کہ پرانی تلچھٹ کہاں جاتی ہے۔ یہ تلچھٹ واپس زمین کی نچلی سطح کو لوٹ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے سمندروں کی تہہ نسبتاً کم پرانی ہے۔ آج تک کہیں بھی سمندر کی سطح ساڑھے 17 کروڑ سال سے زیادہ پرانی نہیں مل سکی جبکہ سطح زمین پر موجود پتھروں اور چٹانوں میں اربوں سال پرانے نمونے مل جاتے ہیں۔ اس طرح ہیس کو یہ جواب ملا کہ سمندری سطح محض اتنی ہی پرانی ہو سکتی ہے جتنا وقت اسے اس دراڑ سے کنارے تک پہنچنے میں لگتا ہے۔ اس خوبصورت نظریے سے بہت ساری باتوں کی وضاحت ہو گئی تھی۔ ہیس نے اس بارے بہت اہم مقالہ لکھا لیکن کسی نے اس پر توجہ نہ دی۔ بعض اوقات دنیا کسی اچھے خیال کے لیے تیار نہیں ہوتی۔
اس دوران دو محقق جو الگ الگ کام کر رہے تھے، نے کئی دہائیاں قبل دریافت شدہ حقائق کی بنیاد پر زمین کی تاریخ کے بارے حیران کن انکشافات کرنا شروع کر دیے۔ 1906 میں فرانسیسی طبعیات دان برنارڈ برن ہیس نے دیکھا کہ زمین کا مقناطیسی میدان اپنا رخ بدلتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت مختلف پتھروں میں موجود لوہے کے انتہائی باریک ذرات کے رخ سے ملتے ہیں۔ جب چٹان ٹھنڈی ہو کر جمتی ہے تو اس وقت اس میں موجود یہ ذرات جس طرح ہوتے ہیں، ویسے ہی جم کر رہ جاتے ہیں اور اپنی تخلیق کے وقت مقناطیسی قطب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 1950 کی دہائی میں یونیورسٹی آف لندن کے پیٹرک بلیکیٹ اور یونیورسٹی آف نیو کیسل کے ایس کے رنکارن نے برطانیہ کی قدیم چٹانوں میں ایسے ذرات کا جائزہ لیا تو انتہائی حیران کن انکشافات ہوا کہ جیسے ماضی بعید میں برطانیہ جیسے اپنے مرکز پر گھوم کر اور تھوڑا سا شمال کو سرک گیا ہو۔ مزید برآں اگر آپ یورپ کے ایسے نقشے کو امریکہ کے اسی دور کے ایسے ہی نقشے سے ملائیں تو دونوں ایک دوسرے سے ایسے فٹ ہوتے ہیں جیسے ایک ہی ہوں۔ تاہم ان کی دریافت بھی نظرانداز ہوئی۔
آخرکار کیمبرج کے جیو فزسٹ ڈرمنڈ میتھیوز اور اس کے طالبعلم فریڈ وائن نے مل کر سارے نظریات جمع کیے ۔ 1963 میں انہوں نے بحرِ منجمد شمالی کی تہہ کے مقناطیسی مطالعے سے دکھایا کہ سمندری تہہ عین اسی طرح پھیل رہی ہے جیسے کہ ہیس نے پیشین گوئی کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ براعظم حرکت کر رہے ہیں۔ عین اسی وقت ایک بدقسمت کینیڈین ماہرِ ارضیات عین اسی نتیجے پر پہنچا لیکن اپنا تحقیقی مقالہ بروقت چھپوانے میں ناکام رہا۔ اس وقت جرنل آف جیو فزیکل ریسرچ نامی رسالے کے ایڈیٹر نے اسے بتایا ‘ایسے نظریات کاک ٹیل پارٹی میں ہی دلچسپ محسوس ہوتے ہیں۔ تاہم سائنسی حلقوں میں ایسی باتیں چھپوانا مستحسن نہیں۔‘ بعد میں ایک ماہرِ ارضیات کے مطابق ‘سائنسی تاریخ میں شاید یہ اہم ترین مقالہ تھا جسے شائع کرنے سے انکار کیا گیا۔‘
اصل بات یہ ہے کہ اس وقت تک زمین کی اوپری سطح کا حرکت کرنے کا خیال اتنا عام ہو چکا تھا کہ یہ خیال کسی نہ کسی کو آ ہی جاتا۔ رائل سوسائٹی کی 1964 کی ایک میٹنگ میں سائنس کی اس شاخ کے اہم ترین افراد جمع ہوئے اور اچانک ہی ہر کوئی اس پر یقین کرنے لگا۔ میٹنگ میں اس بات پر ہر کسی نے اتفاق کیا کہ زمین کی سطح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ٹکڑوں سے مل کر بنی ہےجس کی وجہ سے اتنے بڑے بڑے ارضیاتی حادثات پیش آتے ہیں۔
کانٹی نینٹل ڈریفٹ یعنی براعظمی سرکاؤ کا لفظ جلد ہی اپنا معنی کھو بیٹھا کہ نئی تحقیق نے بتایا کہ صرف برِاعظم ہی نہیں بلکہ تمام تر اوپری تہہ حرکت کر رہی ہے۔ تاہم نئے نام کے لیے فوری اتفاق نہ ہو سکا۔ کچھ لوگوں نے ‘کرسٹل بلاکس’ کہا تو کچھ نے اسے ‘پیوونگ سٹونز’۔ تاہم 1968 میں تین امریکی سائزمالوجسٹس نے جرنل آف جیوفزیکل ریسرچ میں ایک مضمون چھپوایا۔ اس مضمون میں ان ٹکڑوں کو پلیٹس کا نام دیا گیا اور اس مضمون نے متعلقہ علمی شاخ کو پلیٹ ٹیکٹانکس کا نام دیا۔
چونکہ پرانے نظریات سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان نہیں، اس لیے اس نئے خیال کو ماننے والے افراد کی تعداد آہستہ آہستہ ہی بڑھی۔ 1970 کی دہائی میں ارضیات کے موضوع پر انتہائی اہم اور پراثر کتاب The Earth میں ہیرلڈ جیفریز نے پورے یقین سے پلیٹ ٹیکٹانکس کے نظریے کو یہ کہہ کر جھٹلایا کہ طبعی طور پر ایسا ممکن ہی نہیں۔ عین یہی نظریہ اس نے اسی کتاب کے 1924 کے پہلے ایڈیشن میں بھی ایسے ہی پیش کیا تھا۔ زمین کے اندر حرارت کی منتقلی ہو یا سمندروں کی پھیلتی تہہ، دونوں ہی ناممکن تھے۔ 1980 میں اپنی کتاب Basin and Range میں جان میکفی نے بتایا کہ ہر آٹھ میں سے ایک امریکی ارضیات دان پلیٹ ٹیکٹانکس پر یقین نہیں کرتا۔
آج ہم جانتے ہیں کہ زمین کی اوپری سطح آٹھ سے بارہ بڑی (اس بات پر منحصر ہے کہ آپ بڑی کسے کہتے ہیں) جبکہ بیس چھوٹی پلیٹوں پر مشتمل ہے۔ جتنی بڑی پلیٹ ہوگی، اتنی کم اور جتنی چھوٹی پلیٹ ہوگی، اتنا ہی تیز حرکت کرے گی۔ اتفاق سے ان کے نام بھی وہی ہیں جو ان کے اوپر موجود زمین کے مقامات کے نام ہیں۔ نارتھ امریکن پلیٹ برِاعظم شمالی امریکہ سے بہت بڑی ہے۔ یہ پلیٹ شمالی امریکہ کے مغربی ساحل سے شروع ہوتی ہے (اسی وجہ سے یہ جگہ زلزلوں کے حوالے سے کافی متحرک ہے) اور بحرِ اوقیانوس کے وسط میں موجود عظیم دراڑ تک جاتی ہے۔ آئس لینڈ کا نصف حصہ شمالی امریکی اور نصف حصہ یورپی پلیٹ پر موجود ہے۔ نیوزی لینڈ بحرِ ہند کی پلیٹ پر رکھا ہے حالانکہ وہ بحرِہند سے کہیں دور واقع ہے۔ زیادہ تر پلیٹیں ایسی ہی ہیں۔
موجودہ اور سابقہ زمینی مقامات کے رابطے ہر کسی کی توقع سے بھی زیادہ گنجلک نکلے۔ مثال کے طور پر قزاقستان کبھی ناروے اور نیو انگلینڈ سے جڑا تھا۔ اسی طرح سٹیٹن آئی لینڈ کا ایک کنارہ یورپ میں ہے۔ اسی طرح نیو فاؤنڈ لینڈ کا ایک حصہ یورپ سے ہے۔ میساچوسٹس کے ساحل سے ایک کنکر اٹھائیے اور اس کا دوسرا ‘رشتہ دار’ آپ کو افریقہ سے ملے گا۔ سکاٹ لینڈ کاپہاڑی علاقہ اور سکینڈے نیویا کا زیادہ تر حصہ امریکی ہے۔ انٹارکٹکا کی شیکلٹن رینج کے بارے خیال ہے کہ وہ مشرقی امریکہ کے اپلانچین پہاڑی سلسلے کا حصہ رہ چکا ہے۔
مستقل حرکت کی وجہ سے متحرک پلیٹیں کبھی ایک جگہ جمع ہو کر ایک ساکن پلیٹ نہیں بنا سکتیں۔ بحرِ اوقیانوس مسلسل پھیل رہا ہے اور انجام کار بحر الکاہل سے بڑا ہو جائے گا۔ کیلیفورنیا کابڑا حصہ الگ ہو کر ایک طرح سے امریکہ کا مڈغاسکر بن جائے گا۔ افریقہ شمال میں یورپ میں گھس جائے گا اور بحیرہ روم ختم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ پیرس سے کلکتہ تک ہمالیہ جتنا بلند پہاڑی سلسلہ پیدا ہو جائے گا۔ آسٹریلیا شمالی جزائر سے جڑتے جڑتے ایشیاء سے جڑ جائے گا۔ تاہم یہ سب پیشین گوئیاں ہیں، لازمی نہیں کہ ایسا ہی ہو۔ تاہم ان کی ابتداء ہو چکی ہے۔ آج کے جی پی ایس سسٹم کی مدد سے ہمیں پتہ چل رہا ہے کہ براعظم یورپ اور براعظم شمالی امریکہ اس رفتار سے الگ ہو رہے ہیں جس سے انسانی ناخن اگتا ہے، یعنی عام انسان کی زندگی میں دو میٹر جتنا۔ نقشے پر جب آپ زمین کو دیکھتے ہیں تو براعظموں کے موجودہ مقامات زمین کی تاریخ کے ایک فیصد کے بھی دسویں حصہ کے برابر موجودہ مقامات پر ہیں۔
پتھریلے سیاروں میں سے زمین ہی واحد سیارہ ہے جس میں ٹیکٹانکس پائی جاتی ہیں جو سائنس دانوں کے لیے قدرے اچھنبے کی بات ہے۔ حجم یا جسامت سے فرق نہیں پڑتا کہ زہرہ اور زمین تقریباً جڑواں سیارے ہیں لیکن زہرہ پر ٹیکٹانکس نہیں پائی جاتیں۔ شاید زمین جس مادے سے بنی ہے، اس کی نوعیت اور مقدار بالکل درست ہے، تبھی ہمارا سیارہ ٹیکٹانکس رکھتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ٹیکٹانکس کسی بھی سیارے پر زندگی کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ ایک ماہر طبعیات اور لکھاری جیمز ٹریفل نے لکھا ہے ‘یہ سوچنا محال ہے کہ ٹیکٹانکس کی مسلسل حرکت کا زمین پر موجود زندگی کی پیدائش پر کوئی اثر نہیں ہوا۔’ اس کے خیال میں ٹیکٹانکس سے پیدا شدہ تبدیلیاں جیسا کہ موسم کی تبدیلی، ذہانت کی ابتداء کے لیے انتہائی اہم رہی ہوں گی۔ بعض کے خیال میں براعظموں کا سرکاؤ زمین پر ہونے والے مختلف معدومیت کے واقعات کا اہم سبب ہو سکتا ہے۔ نومبر 2002 میں کیمبرج یونیورسٹی کے ٹونی ڈکسن نے سائنس نامی رسالے میں رپورٹ چھپوائی کہ زمین کی چٹانوں اور زندگی کی تاریخ میں تعلق ہو سکتا ہے۔ اس کے خیال میں ہماری دنیا کے سمندروں میں پچھلے نصف ارب سال سے اچانک ڈرامائی تبدیلیاں آتی رہی ہیں جو کہ ہماری حیاتیاتی تاریخ کے بہت سے اہم واقعات سے وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر انگلستان کے جنوبی ساحل پر ایسے ننھے جانداروں کی بہت بڑی تعداد کا اچانک نمودار ہو جانا جنہوں نے چاک والی چٹانیں بنائیں یا پھر کیمبرین دور میں سمندری جانوروں کے بنائے گئے خول وغیرہ۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ سمندروں کی کیمسٹری میں اچانک کس وجہ سے اتنی بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔ تاہم بحری دراڑوں کا کھلنا اور بند ہونا ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔
تاہم پلیٹ ٹیکٹانکس نے نہ صرف زمین کی متحرک سطح کی وضاحت کی بلکہ اوربھی بہت کچھ بتایا۔ زلزلے، جزائر کے سلسلے، کاربن چکر، پہاڑوں کے مقامات، برفانی ادوار کا آنا جانا، زندگی کی ابتداء، غرض کون سا ایسا اہم مسئلہ تھا جس کی وضاحت اس نظریے سے نہ ہوئی ہو۔ میکیفی کے مطابق ‘ارضیات دانوں کو یہ جان کر اچانک چکر آنے لگ گئے کہ پورا کرہ ارض اچانک بامعنی ہو گیا۔‘
تاہم ایک حد تک۔ مثال کے طور پر پرانے دور کے براعظموں کی تقسیم وغیرہ کے معاملے ایسے ہیں کہ وہاں شاید جیو فزکس کی دنیا میں ایک رائے ملے۔ جارج گیری لارڈ سمپسن نے اپنی کتاب Fossils and the History of Life میں لکھا ہے کہ قدیم دور کے جانوروں اور پودوں کی انواع اچانک وہاں ملتی ہیں جہاں انہیں نہیں ہونا چاہیئے تھا اور وہاں سے اچانک غائب ہوجاتی ہیں کہ جہاں انہیں موجود رہنا چاہیے تھا۔
ایک عظیم براعظم گونڈوانا تھا جس میں آسٹریلیا، افریقہ، انٹارکٹکا اور جنوبی امریکہ موجود تھے، اس میں فرن کی ایک قسم پائی جاتی تھی جو ہر اس جگہ ملتی ہے جہاں اس کا ہونا ممکن تھا۔ تاہم بہت عرصے بعد جا کر پتہ چلا کہ یہ پودا ان جگہوں پر بھی بکثرت پایا جاتا تھا کہ جن کا گونڈوانا سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ تاہم اس نوعیت کے اہم مسائل عموماً نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک خزندے کے آثار ہمیں انٹارکٹکا سے ایشیاء تک تو ملتے ہیں لیکن جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا ان سے یکسر خالی ہیں، حالانکہ جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا اس دور میں اسی بڑے برِ اعظم کا حصہ سمجھے جاتے تھے۔
اس کے علاوہ بہت سارے زمینی آثار ایسے ہیں کہ جن کی وضاحت ٹیکٹانکس سے ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر ڈینور کو دیکھیں۔ اس کی سطح سمندر سے بلندی ایک کلومیٹر سے کچھ کم ہے۔ تاہم اس کا ابھار ماضی قریب میں ہوا ہے۔ جب ڈائنو سار زمین پر آباد تھے تو یہ خطہ سمندر کی تہہ کا حصہ اور سطح سمندر سے کئی ہزار میٹر نیچے تھا۔ اس کے باوجود ڈینور جن چٹانوں پر قائم ہے، ان میں ٹوٹ پھوٹ اور دباؤ کے کوئی آثار نہیں ملتے کہ پلیٹ ٹیکٹانکس سے ابھرا ہو؟ ویسے بھی ڈینور پلیٹ کے کنارے سے اتنا دور ہے کہ ایسا ہونا ممکن بھی نہیں تھا۔ یہ کچھ ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ بچھے ہوئے قالین کے ایک حصے کو آگے کو دھکیلیں تو قالین کا دوسرے سرے پر رکھی بھاری چیز اونچی ہونے لگ جائے۔ تعجب کی بات ہے کہ کروڑوں سالوں سے ڈینور ایسے ابھر رہا ہے جیسے خمیر والا آٹا۔ یہی کچھ جنوبی افریقہ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اس کا 1,600 کلومیٹر کا ایک حصہ پچھلے دس کروڑ سال میں لگ بھگ ڈیڑھ کلومیٹر اوپر کو اٹھا ہے جبکہ اس کی بظاہر کوئی وجہ بھی ممکن نہیں۔ آسٹریلیا جھک اور ڈوب رہا ہے۔ پچھلے دس کروڑ سال میں اس کا رخ شمال کی جانب ایشیاء کی جانب ہے اور اس کا اگلا کنارہ تقریباً دو سو میٹر ڈوب چکا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انڈونیشیا آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے اور اپنے ساتھ آسٹریلیا کو بھی لے جا رہا ہے۔ ٹیکٹانکس نظریے میں کوئی بھی بات اس کی وضاحت نہیں کر سکتی۔
الفریڈ ویگنر اپنے نظریات کو سچا ثابت ہونے تک زندہ نہ رہا۔ اپنی پچاسویں سالگرہ کے وقت 1930 میں اکیلی مہم پر گرین لینڈ گیا ہوا تھا۔ ایک روز وہ فضاء سے گرائی جانے والی راشن کی سپلائی دیکھنے نکلا اور واپس نہ لوٹا۔ چند روز بعد اس کی جمی ہوئی لاش ملی۔ اسی جگہ اسے دفن کیا گیا۔ تاہم اس کی موت کے وقت سے لے کر اب تک اس کی لاش شمالی امریکہ سے ایک میٹر زیادہ قریب ہو چکی ہے۔
آئن سٹائن اپنی غلطی کا اندازہ لگانے سے قبل ہی اس جہان سے گزر گیا تھا۔ درحقیقت 1955 میں پرنسٹن میں جب اس کا انتقال ہوا تو اس وقت چارلس ہیپ گڈ کی کتاب ابھی چھپی بھی نہیں تھی۔
ٹیکٹانکس کے نظریے کا ایک اور اہم کردار ہیری ہیس اس وقت پرنسٹن میں تھا اور اس نے اپنی بقیہ زندگی وہیں گزاری۔ یہاں اس کا ایک انتہائی ہونہار طالبعلم والٹر الوارز تھا جس نے انتہائی الگ انداز سے سائنس کی دنیا بدل دی۔
ارضیات کے لیے تباہی کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا اور اس کی ابتداء کرنےو الا الوارز ہی تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حصہ چہارم: خطرناک سیارہ
زمین کی تاریخ فوجی کی زندگی جیسی ہوتی ہے کہ جس میں طویل عرصے تک کچھ نہیں ہوتا اور مختصر عرصے کی دہشت۔
برطانوی ماہرِ ارضیات ڈیریک وی ایگر


13 دھماکہ​
بہت عرصے سے لوگ جانتے تھے کہ آئیووا میں مینسن کے نیچے کچھ عجیب سا موجود ہے۔ 1912 میں ایک بندہ شہر کے لئے پانی کا کنواں کھود رہا تھا کہ اسے عجیب سی شکل کی چٹان ملی۔ بعد میں سرکاری رپورٹ میں اس چٹان کو crystalline clast breccia with a melt matric اور overturned ejecta flapکہا گیا۔ پانی بھی عجیب نکلا کہ یہ پانی بارش کے پانی کی مانند میٹھا تھا۔ آئیووا میں پہلے کبھی قدرتی طور پر میٹھا پانی نہیں ملا تھا۔
اگرچہ شروع میں یہ میٹھا پانی اور عجیب شکل کی چٹان لوگوں کے لئے محض دلچسپی کا سبب بنی رہی لیکن پھر 41 سال بعد یونیورسٹی آف آئیووا کی ایک ٹیم تحقیقات کرنے آئی۔ اس وقت اس قصبے کی آبادی 2٫000 افراد کے لگ بھگ تھی۔ 1953 میں تجرباتی کھدائیوں کے بعد یونیورسٹی کے ماہرینِ ارضیات کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ اس جگہ واقعی عجیب طرح سے بگڑی ہوئی شکل کی چٹانیں موجود ہیں جو قدیم ہونے کے علاوہ کسی نامعلوم آتش فشانی نوعیت کی ہیں۔ یہ خیال اس وقت کے نظریات کے عین مطابق لیکن حقیقت سے بہت دور تھا۔
میسن کی جغرافیائی تبدیلیوں کے پیچھے موجود وجہ زمین سے کم از کم 10 کروڑ میل دور سے آئی تھی۔ ماضی بعید میں کسی وقت موجودہ وقت کا مینسن کم گہرے سمندر کے کنارے پر تھا کہ ڈیڑھ میل چوڑی ایک چٹان جس کا وزن دس ارب ٹن ہوگا، آواز کی رفتار سے دو سو گنا زیادہ تیزی سے سفر کرتے ہوئے اتنی شدت سے آن گری کہ جس کا تصور بھی کرنا ممکن نہیں۔ مینسن کے موجودہ مقام پر تین میل گہرا اور بیس میل چوڑا گڑھا پڑ گیا۔ آئیووا میں ہر جگہ کھارے پانی کی وجہ بننے والا چونے کا پتھر بھاپ بن کر تحلیل ہو گیا۔ اسی وجہ سے 1912 میں کھدائی کرنے والا پریشان تھا۔
مینسن ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سرزمین پر ہونے والا کسی بھی نوعیت کا سب سے عظیم واقعہ تھا۔ اس کے نتیجے میں بننے والے گڑھے کے طول و عرض کے بارے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اتنا بڑا ہوگا کہ روشن دن میں ایک سرے پر کھڑے ہو کر دوسرے سرے کا نظارہ مشکل سے دکھائی دیتا ہوگا۔ گرینڈ کینین اس کے سامنے بونی لگتی ہوں گی۔ بدقسمتی سے اس واقعے کے بعد 25 لاکھ سال تک برفانی تہوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اس گڑھے میں زرخیز مٹی بھرتی گئی پھر برفانی تہوں کے گزرنے کی وجہ سے اوپری سطح چھل کر ہموار ہو گئی۔ آج مینسن اور اس کے آس پاس کا علاقہ بالکل ہموار ہے۔ شاید اسی وجہ سے کسی نے مینسن گڑھے کے بارے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
مینسن کی لائبریری میں آپ کو اخباری مضامین اور 1991 تا 1992 کے ڈرلنگ پروگرام کے دوران لیے گئے نمونوں کو بخوشی دکھایا جائے گا مگر اس کے لئے آپ کو خود پوچھنا پڑے گا کہ وہاں کوئی مستقل نمائش نہیں جاری رہتی۔
مینسن میں لوگوں کی یاداشت میں پیش آنے والا سب سے بڑا واقعہ 1979 کا طوفانی بگولا یعنی ٹارنیڈو تھا جس نے مرکزی گزرگاہ میں تباہی پھیلائی تھی۔ آس پاس کی مسطح زمین ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ ایسی آفت کو دور سے آتا دیکھ سکتے ہیں۔ سارا قصبہ مرکزی گزرگاہ کے ایک سرے پر جمع ہو کر نصف گھنٹے تک ٹارنیڈو کو اس امید سے اپنی طرف آتا دیکھتا رہا کہ شاید اس کا راستہ بدل جائے۔ تاہم جب راستہ نہ بدلا تو بھگدڑ مچ گئی۔ تاہم چار افراد تیز نہ بھاگ سکے اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہر جون میں ایک ہفتے کے لئے کریٹز ڈیز منائے جاتے ہیں تاکہ اس حادثے کی یاد بھلائی جا سکے۔ تاہم اس تہوار کا مینسن کریٹر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جو گڑھا دکھائی بھی نہیں دیتا، اسے کیسے مشہور کیا جائے۔
بعض اوقات لوگ آن کر پوچھتے ہیں کہ کریٹر کہاں سے دکھائی دیتا ہے تو مقامی لوگ انہیں بتاتے ہیں کہ کریٹر نام کی کوئی جگہ موجود نہیں اور لوگ مایوس لوٹ جاتے ہیں۔ مقامی لوگ بھی اس کریٹر کے نام سے بخوبی واقف نہیں اور ماہرینِ ارضیات بھی محض حاشیے میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ تاہم 1980 کی دہائی میں ارضیات کے حوالے سے یہ جگہ دنیا میں سب سے مشہور ہو گئی تھی۔
کہانی کی ابتداء 1950 کی دہائی کے اوائل سے ہوتی ہے جب یوجین شومیکر نامی ذہین اور نوجوان ماہرِ ارضیات نے ایریزونا میں شہابِ ثاقب سے بننے والے گڑھے کا دورہ کیا تھا۔ شہابِ ثاقب سے بننے والا یہ مقام آج دنیا بھر میں مشہور اور سیاحوں کا بڑا مرکز ہے۔ تاہم ماضی میں زیادہ سیاح نہیں آتے تھے اور اسے بیرنگر کریٹر کہا جاتا تھا کہ ایک امیر بندے ڈینیل ایم بیرنگر نے 1903 میں اس جگہ پر اپنا دعویٰ کیا تھا۔ بیرنگر کا خیال تھا کہ اس جگہ ایک کروڑ ٹن وزنی شہابِ ثاقب گرا ہے جس میں لوہا اور نکل کی بھاری مقدار موجود ہوگی۔ اس کا خیال تھا کہ ان دھاتوں کی کھدائی سے اچھی دولت کمائی جا سکتی ہے۔ اسے علم نہیں تھا کہ ٹکراؤ کے ساتھ ہی پورا شہابِ ثاقب بخارات میں تبدیل ہو کر ضائع ہو گیا تھا۔ 26 سال تک کھدائی کرتے کرتے اس نے بہت بڑی رقم ضائع کی۔
آج کے اعتبار سے 1900 کی دہائی میں کی جانے والے گڑھوں کی تحقیقات کافی بنیادی نوعیت کی تھی۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ایک نمایاں محقق گلبرٹ نے اس تجربے کو آٹے اور کنچوں کی مدد سے دہرایا اور یہ تجربہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر تجربہ گاہ کی بجائے ہوٹل کے کمرے میں کیا گیا تھا۔ اسی تجربے سے گلبرٹ نے نتیجہ اخذ کیا کہ چاند کے گڑھے بھی اسی طرح بنے ہوں گے لیکن زمینی گڑھے ایسے نہیں بنتے۔ یہ بات انتہائی تعجب سے دیکھی گئی۔ زیادہ تر سائنس دانوں نے تو اپنی سوچ کو اس حد تک محدود کر لیا تھا کہ چاند کے گڑھے محض قدیم آتش فشانوں کی یادگار کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ زمین کے بعد گڑھوں کے لیے عجیب عجیب تاویلات پیش کی گئی تھیں۔
شومیکر کی آمد تک یہ بات سوچ لی گئی تھی کہ یہ گڑھا زیرِ زمین بھاپ کے دھماکے سے بنا ہے۔ شومیکر کو ان زیرِ زمین دھماکوں کے بارے کوئی علم نہیں تھا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ تاہم اسے بلاسٹ زون یعنی دھماکوں سے پیدا ہونے والے مقامات کے بارے اچھا علم تھا۔ کالج سے نکلنے کے بعد اس کی پہلی ملازمت نیواڈا میں یُکا فلیٹس کے ایٹمی دھماکے والی جگہ پر دھماکے سے بننے والے دائروں پر تحقیق کرنا تھا۔ بیرنگر کی طرح اس نے بھی یہ نتیجہ نکالا کہ یہ گڑھا آتش فشاں سے نہیں بنا ہے۔ اس کے دعوے کے ثبوت کے لئے اس مقام پر سیلیکا اور میگنیٹائٹ کی بہت بڑی مقدار موجود تھی۔ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکنے پر اس نے فارغ وقت میں اس پر تحقیق جاری رکھی۔
پہلے اپنے ساتھی ایلینور ہیلین اور پھر اپنی بیوی کیرولن اور دوست ڈیوڈ لیوی کے ساتھ مل کر شومیکر نے اندرونی نظامِ شمسی کا باقاعدہ معائنہ شروع کر دیا۔ انہوں نے ہر ماہ ایک ہفتہ کیلیفورنیا کی پالمر رصدگاہ میں ایسے شہابِ ثاقب اور دیگر اجرامِ فلکی کی تلاش جاری رکھی کہ جن کا راستہ زمین کے مدار سے ہو کر گزرتا ہو۔
کئی سال بعد ٹیلی ویژن انٹرویو میں شومیکر نے بتایا ‘جب ہم نے کام شروع کیا تو اس وقت تک پوری سائنسی تاریخ میں اس جیسے دس یا بارہ اجرامِ فلکی دریافت ہوئے تھے۔ انیسویں صدی میں فلکیات دانوں نے نظامِ شمسی کو سرے سے بھلا دیا تھا۔ ان کی نظر ستاروں اور کہکشاؤں پر مرکوز ہو چکی تھی۔‘
شومیکر اور اس کے ساتھیوں کی تحقیق نے ہمیں بتایا کہ خلاء میں موجود خطرات ہمارے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ بڑے ہیں۔
شہابِ ثاقب کے بارے زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ مریخ اور مشتری کے درمیان موجود یہ پتھریلے اجسام بے ترتیبی سے پھیلے ہوئے ہیں۔ تصاویر میں تو یہ سارے اجسام ایک انتہائی کثیف شکل میں دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں ہر دو اجسام کا درمیانی فاصلہ اوسطاً پندرہ لاکھ کلومیٹر ہے کہ نظامِ شمسی انتہائی وسیع ہے۔ اس بات کا درستگی سے اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں کہ ایسے کُل کتنے اجسام ہوں گے تاہم ایک ارب سے کم تو ممکن ہی نہیں۔ یہ شاید کسی ایسے سیارے کا حصہ ہیں جو کبھی سیارہ نہ بن سکا کہ مشتری کی کششِ ثقل بہت طاقتور تھی۔
اٹھارہویں صدی کی پہلی کی دہائی میں جب شہابِ ثاقب دریافت ہوئے۔ درحقیقت اس صدی کے پہلے روز ہی پہلا شہابِ ثاقب سسلی کے ایک رہائشی جیو سیپی پیاتزی نے دریافت کیا۔ انہیں شروع میں چھوٹے سیارے سمجھا گیا اور پہلے دو کے نام سیریس اور پالِس رکھے گئے۔ بعد میں تحقیقات سے ماہرِ فلکیات ولیم ہرشل نے جانا کہ ان کا حجم سیاروں سے کہیں چھوٹا ہے۔ اس نے ان کو اسٹیرائیڈ یعنی شہابِ ثاقب کہا جو لاطینی میں ‘ستارہ نما‘ بنتا ہے، حالانکہ ان کا ستاروں سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بعض اوقات انہیں سیارے نما یعنی پلینیٹائڈز بھی کہا جاتا ہے۔
18ویں صدی میں شہابِ ثاقب کی تلاش مشغلہ بن گئی اور صدی کے اختتام تک ہزار کے لگ بھگ تلاش کیے جا چکے تھے۔ تاہم ان کی معلومات کو کہیں ترتیب سے جمع نہیں کیا گیا تھا۔ 19ویں صدی کے آغاز میں یہ بتانا ناممکن ہو چلا تھا کہ آیا جو شہابِ ثاقب اب دیکھا گیا ہے، کیا وہ پہلے بھی دیکھا جا چکا ہے یا پہلی بار دکھائی دیا ہے۔ تاہم اس وقت تک فلکیات کا شعبہ اتنی ترقی کر گیا تھا کہ چند ہی فلکیات دان ایسی معمولی چیزوں پر کام کرنے کو تیار ہوئے۔ ان میں سے سب سے مشہور ولندیزی جیرارڈ کوئیپر تھا جس کے نام سے کوئیپر کی پٹی مشہور ہے۔ ٹیکساس میں میک ڈونل رصدگاہ میں اس کے کیے ہوئے کام اور اس کے بعد دوسروں کے کام کے علاوہ سنسنیاٹی کے مائنر پلینیٹ سینٹر اور ایریزونا کے سپیس واچ پراجیکٹ کے بعد بیسویں صدی تک ماسوائے 719 البرٹ، تمام شہابِ ثاقب تلاش کر لیے گئے تھے۔ اکتوبر 1911 میں دیکھا جانے والا یہ شہابِ ثاقب آخرکار 89 سال گم رہنے کے بعد 2000 میں مل گیا۔
بیسویں صدی میں شہابِ ثاقبوں پر ہونے والا کام زیادہ تر ان کو ترتیب دینے تک محدود رہا۔ محض پچھلے چند برسوں سے ماہرین فلکیات نے نئے شہابِ ثاقب کی تلاش پر پھر سے توجہ مرکوز کی ہے۔ جولائی 2001 تک 26,000 ایسے اجرامِ فلکی دریافت اور شناخت ہو چکے ہیں جن میں سے نصف محض دو سال میں تلاش کیے گئے ہیں۔ ایک ارب اجرامِ فلکی کی تلاش کا کام محض شروع ہوا ہے۔
اس سے کوئی خاص فرق تو نہیں پڑے گا۔ ایک شہابِ ثاقب کو تلاش کر لینے سے اس کا خطرہ نہیں ٹل جاتا۔ اگر ہمیں نظامِ شمسی میں موجود تمام تر شہابِ ثاقبوں کے نام اور ان کے مداروں کا علم بھی ہو جائے تو بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کن وجوہات کی بناء پر ان کے مدار میں گڑبڑ پیدا ہو سکتی ہے اور ان کا رُخ ہماری جانب ہو جائے گا۔ ہم تو اپنی زمین پر موجود چٹانوں کے بارے کچھ کہنے کے قابل نہیں۔ انہیں خلاء میں آزاد چھوڑ دیں تو کوئی بھی کہنے کے قابل نہیں رہے گا کہ ان کا کیا اثر ہوگا۔ کوئی بھی شہابِ ثاقب کسی بھی وقت ہماری جانب رُخ کر سکتا ہے۔
زمین کے مدار کو آپ کسی شاہراہ سمجھیں جس پر ہم اکیلی گاڑی ہیں۔ تاہم اس شاہراہ کو مسلسل پیدل افراد عبور کرتے ہیں اور دائیں بائیں دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے۔ ان میں سے کم از کم 90 فیصد کا ہمیں علم تک نہیں۔ ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ وہ کہاں رہتے ہیں، کس وقت کہاں ملیں گے یا کس وقت ہمارا راستہ کاٹیں گے۔ ہمیں صرف اتنا پتہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت ان کا رخ ہمارے راستے کی جانب ہو جائے گا جہاں ہم لگ بھگ ایک لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے سٹیون اوسٹرو کے مطابق ‘اگر ہم بٹن دبا کر اپنے آس پاس روشنی کر دیں کہ جس میں زمین کے مدار کو عبور کرنے والے دس میٹر یا اس سے بڑے اجرامِ فلکی دکھائی دیں تو ہمیں کم از کم دس کروڑ ایسے اجرامِ فلکی دکھائی دیں گے۔‘ یعنی ہمیں محض دو ہزار ٹمٹاتے ستارے نہیں دکھائی دیں گے بلکہ کروڑوں کی تعداد میں بے ترتیبی سے گھومتے ہوئے ایسے اجسام دکھائی دیں گے ‘جو کسی وقت بھی زمین سے ٹکرا سکتے ہیں اور ہر ایک کا رخ اور رفتار دوسرے سے معمولی سی فرق ہے۔‘ ظاہر ہے کہ یہ بات پریشان کن ہے۔ آپ پریشان ہو سکتے ہیں کہ یہ تمام اجسام یہیں موجود ہیں۔ بس آپ انہیں دیکھ نہیں سکتے۔
چاند پر بننے والے گڑھوں کی شرح کو دیکھ کر اندازہ لگایا گیا ہے کہ کم از کم 2,000 اتنے بڑے شہابِ ثاقب کہ جو زمین پر انسانیت کے لئے خطرہ بن سکیں، مستقل طور پر ہمارے مدار سے گزرتے رہتے ہیں۔ لیکن چھوٹے شہابِ ثاقب، جیسا کہ عام گھر جتنے بھی ہوں تو وہ پورا شہر تباہ کر سکتے ہیں۔ ان کی تعداد شاید لاکھوں یا کروڑوں میں بھی ہو سکتی ہے لیکن ان کا پیچھا کرنا ممکن نہیں۔
اس طرح کا پہلا شہابِ ثاقب 1991 میں پہلی بار اس وقت دیکھا گیا جب وہ ہمارے پاس سے گزر چکا تھا۔ اسے 1991 BA کہا گیا اور یہ ہم سے 1,70,000 کلومیٹر کے فاصلے سے گزرا تھا۔ فلکیاتی اعتبار سے ایسے سمجھیں کہ گولی آپ کے بازو کو چھوئے بنا آپ کی آستین سے گزرے۔ تین سال بعد اس سے نسبتاً بڑا شہابِ ثاقب محض 65,000 میل کے فاصلے سے گزرا۔ یہ سب سے قریب ترین تھا۔ اس کا مشاہدہ بھی اس کے گزرنے کے بعد ہوا جبکہ اس کے آنے کی ہمیں کوئی خبر ہی نہیں تھی۔ نیو یارکر میں ٹموتھی فیرس کے مطابق ‘شاید ہر ہفتے دو یا تین بار شہابِ ثاقب ہمارے اتنے قریب سے گزرتے ہوں اور ہمیں خبر تک نہ ہوتی ہو۔‘
سو میٹر سے چھوٹا شہابِ ثاقب زمین پر موجود دوربینوں سے اس وقت دکھائی دے گا جب وہ ہم سے چند روز کے فاصلے پر رہ جائے گا اور وہ بھی تب دکھائی دے گا اگر دوربین بطورِ خاص اس کے رخ پر ہو۔ ایسا ہونا ممکن نہیں کہ ایسے افراد بہت کم ہیں جو ایسے اجرامِ فلکی تلاش کر رہے ہیں۔ ان کی تعداد کی تشبیہ ایک عام میک ڈونلڈ ریستوران کے عملے سے دی جاتی ہے کہ عملے کی تعداد زیادہ ہوتی ہے (اب یہ تعداد معمولی سی بڑھ گئی ہے)۔
جب جین شومیکر دنیا کو اندرونی نظامِ شمسی کے خطرات کے بارے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو اٹلی میں کولمبیا یونیورسٹی میں لامونٹ ڈوہرٹی لیبارٹری کے ایک نوجوان ماہرِ ارضیات نے بظاہر اس سے قطعی غیر متعلق تحقیق پر کام شروع کیا۔ 1970 کی دہائی کے اوائل میں والٹر الوریز گبیو کے پہاڑی قصبے کے پاس بوٹاشیئن جارج نامی جگہ پر فیلڈ ورک کر رہا تھا۔ اس کی توجہ اس سرخی مائل مٹی کی باریک تہہ پر مرکوز ہوئی جو چونے کی دو قدیم تہوں کے درمیان موجود تھی۔ ایک تہہ کریٹیشیس جبکہ دوسری ٹرشری دور سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ پٹی ارضیات کی زبان میں K-T حد (سی ٹی ہونا چاہیئے تھا لیکن سی پہلے سے کیمبرین کے لئے مختص ہے) کہلاتی ہے اور اس وقت سے تعلق رکھتی ہے جب ساڑھے چھ کروڑ سال قبل ڈائنوسار اور دنیا کے جانوروں کی لگ بھگ نصف انواع فاسل ریکارڈ سے اچانک مٹ گئیں۔ الوریز اس بات پر حیران ہوا کہ محض چھ ملی میٹر موٹی یہ تہہ کیا واقعی جانوروں کی اتنی بڑی معدومیت کا سبب ہو سکتی ہے؟
اس وقت عام فہم یہی تھی کہ ڈائنوسارز دسیوں لاکھ سال پر مشتمل طویل عرصے کے دوران معدوم ہوئے۔ تاہم مٹی کی یہ تہہ بتا رہی تھی کہ ایسا عمل اچانک ہوا تھا۔ بدقسمتی سے 1970 کی دہائی میں ایسا کوئی ٹیسٹ نہیں تھا کہ جس سے اس تہہ کے جمع ہونے کے عرصے کی نشاندہی کی جا سکتی۔
عام طور پر یہی سوچا جا سکتا تھا کہ الوریز نے اس کی فکر چھوڑ دی ہوگی لیکن الوریز کی رسائی ارضیات سے باہر ایک اور غیر متعلق فرد تک تھی جو اس کی مدد کر سکتا تھا۔ یہ فرد لوئیس الوریز اس کا باپ اور اپنے دور کا مشہور ایٹمی طبعیات دان تھا اور چند سال قبل اسے نوبل انعام مل چکا تھا۔ اسے ہمیشہ اپنے بیٹے کی ارضیات میں دلچسپی سے الجھن ہوتی لیکن اس نئے مسئلے نے اسے بھی الجھا دیا۔ اس نے سوچا کہ ہو نہ ہو، یہ تہہ خلاء سے آئی ہے۔
زمین پر ہر سال 30,000 ٹن خلائی مٹی گرتی ہے۔ اگر اسے ساری سطح زمین سے ایک جگہ پر اکٹھا کر دیا جائے تو بہت بڑا ڈھیر بن جائے گا۔ اس مٹی میں وہ نایاب عناصر بھی ملتے ہیں جو زمین پر ویسے نہیں پائے جاتے۔ ان میں سے ایک عنصر اریڈیم ہے جو زمین کی نسبت خلاء میں ہزاروں گنا زیادہ پایا جاتا ہے (خیال ہے کہ زمین کا زیادہ تر اریڈیم زمین کے شروع کے دور میں مرکزے میں دھنس گیا تھا)۔
لوئیس الوریز کا ایک ساتھی اس وقت کیلیفورنیا کی لارنس برکلے لیبارٹری میں کام کرتا تھا۔ اس کانام فرینک اسارو تھا اور اس نے نیوٹران ایکٹیویشن اینالسز کی تکنیک ایجاد کی تھی کہ جس کی مدد سے کسی بھی تہہ کی کیمیائی ساخت کو انتہائی درستگی سے جانچا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں ایک چھوٹے نیوکلیئر ری ایکٹر میں نمونوں پر نیوٹران کی بوچھاڑ کر کے ان سے نکلنے والی گاما شعاعیں گنی جاتی تھیں۔ اسارو نے یہ تکنیک مٹی کے برتنوں پر آزمائی تھی لیکن الوریز کو یقین تھا کہ اگر اس کے بیٹے کے نمونے کی پیمائش کا مقابلہ جب سالانہ شرح سے کیا جائے گا تو یہ جاننا آسان ہو جائے گا کہ وہ تہہ کتنے عرصے میں بنی ہوگی۔ اکتوبر 1977 میں الوریز نے نمونے دے کر کہا کہ اس پر مطلوبہ ٹیسٹ کیے جائیں۔
بظاہر یہ انتہائی احمقانہ مطالبہ تھا کہ اسارو کئی ماہ لگا کر اور انتہائی محنت سے کام کرتے ہوئے وہ بات بتائے جو صاف دکھائی دے رہی ہے کہ اتنی پتلی تہہ بہت کم وقت میں ہی بنی ہوگی۔ تاہم اس سے کسی نئی بات کی توقع کسی کو نہیں رہی ہوگی۔
اسارو نے 2002 میں انٹرویو میں بتایا ‘دونوں باپ بیٹا بہت متجسس اور اچھے تھے۔ ان کا بتایا ہوا کام ایک طرح سے مجھے دشوار لگا اور میں نے قبول کر لیا۔ بدقسمتی سے میرے پاس کام زیادہ تھا اور یہ کام آٹھ ماہ بعد جا کر شروع ہوا۔‘ اپنی ڈائری دیکھ کر اس نے بتایا ‘21 جون 1978 کو دن پونے دو بجے ہم نے نمونے کو ڈیٹیکٹر میں ڈالا۔ یہ ٹیسٹ 224 منٹ تک چلا اور ہمیں جونہی پتہ چلا کہ نتائج بہت دلچسپ ہیں تو ہم نے رک کر ان کا جائزہ لینے کا سوچا۔‘
نتائج اتنے فرق تھے کہ تینوں سائنس دانوں کا پہلا خیال یہی تھا کہ کچھ گڑبڑ ہو گئی ہے۔ الوریز کے نمونوں میں اریڈیم کی مقدار معمول سے 300 گنا زیادہ تھی۔ اگلے کئی ماہ تک یہ ٹیسٹ چلتے رہے اور بعض اوقات انہیں 30 گھنٹے لگاتار کام کرنا پڑتا کہ ٹیسٹ شروع ہو جائے تو اسے روکا نہیں جا سکتا۔ نمونوں کو لگاتار جانچا جاتا رہا لیکن ہر بار نتیجہ ایک ہی رہا۔ انہوں نے یہ ٹیسٹ ڈنمارک، سپین، فرانس، نیوزی لینڈ اور انٹارکٹکا کے نمونوں پر بھی کیا اور ہر جگہ انہیں اریڈیم کی انتہائی زیادہ مقدار ملی جو بعض اوقات معمول سے پانچ سو گنا زیادہ تھی۔ ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ غیر معمولی ہوا ہوگا۔
بہت سوچ بچار کے بعد الوریز ایک ہی نتیجے پر پہنچے کہ زمین پر شہابِ ثاقب یا دمدار ستارے کا ٹکراؤ ہوا ہوگا۔
زمین پر خلاء سے آنے والے ایسے تباہ کن ٹکراؤ کا نظریہ کافی پرانا ہے۔ 1942 میں نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے آسٹرو فزسٹ رالف بالڈوِن نے پاپولر آسٹرانومی نامی میگزین میں یہ مقالہ لکھا تھا۔ اس کا مقالہ کسی بھی تعلیمی جریدے نے چھاپنے سے انکار کیا تھا۔ اس کے علاوہ مشہور ماہرِ فلکیات ارنسٹ اوپیک اور نوبل انعام یافتہ کیمیا دان ہیرلڈ اُرے نے بھی کئی بار ایسا نظریہ پیش کیا تھا۔ پیلنٹالوجسٹس بھی اس نظریے سے واقف تھے۔ 1956 میں اوریگان سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈی لابن فیلس نے جریدے جرنل آف پیلنٹالوجی میں الوریز کے نظرے سے پہلے ہی یہ لکھا تھا کہ ڈائنو سار شاید بیرونی خلاء سے آنے والے ایسے حادثے کی وجہ سے معدوم ہوئے ہوں گے۔ 1970 میں امریکی پیلنٹالوجی سوسائٹی کے صدر ڈیوی میکلارن نے سالانہ کانفرنس میں خیال پیش کیا کہ شاید فراسنیان معدومیت کی وجہ بھی ایسا کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔
یہ نظریہ اتنا عام ہو چلا تھا کہ 1979 میں ہالی ووڈ سٹوڈیو نے ایک فلم Meteor بنائی (پانچ میل چوڑا اور 30,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آ رہا ہے اور بچاؤ کی کوئی جگہ نہیں) اور اس میں ہینری فونڈا، نتالی ووڈ، کارل مالڈن اور ایک بہت بڑی چٹان دکھائے گئے تھے۔
جب 1980 کے پہلے ہفتے میں امریکن ایسوسی ایشن برائے ترقی سائنس میں الوریزوں نے بتایا کہ ان کے خیال میں ڈائنوساروں کی معدومیت لاکھوں یا کروڑوں سال طویل عمل نہیں بلکہ اچانک اور حادثاتی واقعہ تھا، تو بظاہر اسے قبولِ عام ملنا چاہیئے تھا۔
تاہم ہر جگہ بالعموم اور پیلنٹالوجیکل دنیا میں اس کی سخت مخالفت کی گئی۔
اسارو نے بتایا ‘آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اس فیلڈ میں اناڑی تھے۔ والٹر ماہر ارضیات تھا، لوئیس طبعیات دان اور میں نیوکلیئر کیمسٹ۔ اور اب ہم انہیں بتا رہے تھے کہ ہم نے ان کا ایک صدی پرانے اور انتہائی بڑے مسئلے کو ان سے پہلے حل کر چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کی مخالفت تو ہونی ہی تھی۔‘ لوئیس الوریز نے مذاق کیا ‘ہم بغیر اجازت ارضیات سے کھیلتے پکڑے گئے تھے۔‘
تاہم اس ٹکراؤ کے نظریے میں بنیادی مسائل بھی تھے۔ نیچرل ہسٹری کے بنیادی نظریات میں سے ایک یہ تھا کہ زمین پر ہونے والے تمام تر عمل آہستگی سے ہوتے ہیں۔ لائل کے بعد 1980 کی دہائی میں حادثات والے نظریات اتنے پرانے ہو گئے تھے کہ لوگوں نے ان پر کان دھرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ یوجین شومیکر کے مطابق ‘ٹکراؤ کا ایسا نظریہ ان کے سائنسی عقائد کے خلاف تھا۔‘
لوئیس الوریز نے تو کھلے عام سائنسی دنیا میں پیلنٹالوجسٹوں کے کردار پر انگلی اٹھائی۔ اس نے نیو یارک ٹائمز میں لکھا ‘یہ لوگ محض ٹکٹ جمع کرنے والے ہیں۔‘ اس مضمون کی کسک آج تک محسوس کی جاتی ہے۔
الوری کے نظریے کے مخالفین نے اریڈیم کی مقدار کی وضاحت کرنے کے لئے ہر ممکن تاویل پیش کی جن میں سب سے مشہور یہ نظریہ تھا کہ ہندوستان میں دکن کے طویل آتش فشانی عمل سے اریڈیم آئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی عام کہا گیا کہ ڈائنوساروں کی معدومیت اور اریڈیم کے اجتماع کے درمیان کوئی تعلق نہیں۔ الوریز کے بڑے مخالفین میں سے ایک ڈارٹ ماؤتھ کالج کا چارلس آفیسر بھی تھا۔ ایک بار اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے بتایا کہ اریڈیم آتش فشانی عمل سے جمع ہوا تھا اور ساتھ ہی اعتراف کیا کہ اگرچہ اس کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ 1988 تک نصف سے زیادہ امریکی پیلنٹالوجسٹس اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ڈائنوساروں کی معدومیت میں شہابِ ثاقب یا دمدار ستارے کے ٹکراؤ کا کوئی عمل دخل نہیں۔
تاہم الوریز کے نظریے کی حمایت میں سب سے بہتر جو ثبوت ہوتا وہ ایسے ٹکراؤ سے بننے والا گڑھا ہوتا۔ تاہم انہیں ایسا کوئی گڑھا نہیں ملا۔ عین اس وقت یوجین شومیکر نمودار ہوتا ہے جس کا آئیووا سے تعلق ہے کہ اس کی بہو یونیورسٹی آف آئیووا میں پڑھی تھی اور اسے میسن کریٹر کے بارے بھی علم تھا۔ شومیکر کی وجہ سے ساری دنیا کی توجہ اب آئیووا کی جانب مبذول ہو گئی۔
ارضیات کی نوعیت مقامات کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ آئیووا کی ریاست انتہائی مسطح اور پرسکون ہے۔ یہاں کوئی اونچے اونچے پہاڑ یا بڑے گلیشیئر نہیں ہیں اور نہ ہی تیل یا قیمتی معدنیات کے ذخیرے اور نہ ہی لاوے کے نشان۔ اگر آپ ریاستی سطح پر بطور ماہرِ ارضیات کام کر رہے ہیں تو زیادہ تر وقت آپ Manure Management Plans پر صرف کریں گے۔ یہاں سؤروں کے فارم بنے ہوئے ہیں اور لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ سور پالے جاتے ہیں۔ آئیووا کے پانی کو صاف رکھنا ایک بہت بڑا اور بہت اہم کام ہے جو ہر قسم کی روایتی مشکلات سے پاک ہے۔ اس طرح آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب دنیا بھر کے ماہرینِ ارضیات کی توجہ مینسن اور اس کے گڑھے پر مرکوز ہوئی تو آئیووا کے قدرتی ذخائر کے محکمے میں کتنی ہلچل مچی ہوگی۔
ٹرون برج ہال اس صدی کے اوائل میں بنی سرخ پتھروں کی عمارت ہے جس میں آئیووا یونیورسٹی کا ارضیاتی سائنسی ڈیپارٹمنٹ پرچھتی میں قائم ہے۔ اس بارے تو کوئی نہیں جانتا کہ سرکاری سائنس دانوں کو تعلیمی ادارے میں کب اور کیوں رکھا گیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر نچلی چھتوں والے کمرے میں ایسی جگہ رکھا گیا ہے جہاں جانے کے لئے شاید آپ کو چھت کے ذریعے لٹک کر کھڑکی سے جانا ہو۔
رے اینڈرسن اور برائن وٹزک نے اپنی ساری زندگی یہیں کام کرتے گزاری ہے اور ہر جگہ کاغذات، جرائد، چارٹ اور پتھروں کے انبار لگے ہیں۔ اگر آپ کو کرسی رکھنی ہو، بجتا فون اٹھانا ہو، کافی کا کپ رکھنا ہو یا کوئی بھی کام بھی ہو، کاغذات کے انبار ہٹانے پڑیں گے۔
جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو ایندڑسن نے بتایا ‘اچانک پوری دنیا کی توجہ ہم پر مرکوز ہو گئی۔ کتنا اچھا وقت تھا۔‘
جب میں نے ان سے جین شومیکر کے بارے پوچھا تو وٹزک نے فوراً جواب دیا ‘بہت اچھا انسان تھا۔ اگر وہ نہ ہوتا تو یہ پورا سلسلہ شروع ہونے سے قبل ہی تھم جاتا۔ اس کی مدد کے باوجود بھی ہمیں دو سال لگ گئے کام شروع کرتے کرتے۔ ڈرلنگ بہت مہنگا کام ہے۔ اُس وقت ایک فٹ کھدائی کی قیمت 35 ڈالر تھی جو آج اس سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ ہمیں کم از کم 3,000 فٹ جتنی کھدائی کرنی ہوتی تھی۔
اینڈرسن نے بتایا ‘کئی بار تو اس سے بھی گہرائی تک جانا ہوتا تھا’۔
وٹزک نے اتفاق کیا ‘کئی بار ہمیں اس سے بھی گہرا جانا ہوتا تھا اور کئی کئی جگہوں پر کھدائی کرنی پڑتی تھی جو ہمارے سالانہ بجٹ سے بھی کہیں زیادہ مہنگا کام تھا۔
اس طرح آئیووا کے جیولاجیکل سروے اور امریکی جیولاجیکل سروے کے درمیان تعاون کا معاہدہ ہوا۔
اینڈرسن نے لقمہ دیا، ‘ہمارے خیال میں تو یہ معاہدہ ہی تھا۔‘
وٹزک نے بات جاری رکھی، ‘ہمارے لئے سیکھنے کو بہت کچھ تھا۔ بری سائنس چل رہی تھی۔ لوگ ایسے نتائج پیش کر رہے تھے کہ جن کو درست ثابت کرنا ممکن نہیں تھا۔‘ ایسی ہی ایک مثال امریکی جیوفزیکل یونین کے اجلاس میں 1985 میں پیش کی گئی۔ پوری دنیا کی توجہ اس پر مبذول ہو گئی۔ بدقسمتی سے یہ انکشاف قبل از وقت تھا۔ بعد میں تمام تر شواہد کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ مینسن والا واقعہ نہ صرف بہت چھوٹا تھا بلکہ 90 لاکھ سال پہلے ہوا تھا۔
اینڈرسن اور وٹزک کو اس بارے اس وقت پتہ چلا جب وہ ساؤتھ ڈکوٹا میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنے پہنچے تو لوگوں نے انہیں دیکھتے ہی ہمدردی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ ان کے لئے یہ بات نئی تھی کہ عزت اور دیگر ماہرین نے کچھ دیر قبل ہی اپنے نتائج کی تصحیح کر کے انہیں پیش کیا تھا۔
اینڈرسن نے بتایا، ‘یہ بہت حیران کن تھا۔ ابھی ہمارے پاس انتہائی اہم چیز تھی اور اچانک ہی ہم سے لے لی گئی اس سے بھی برا یہ ہوا کہ جو لوگ ہمارے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے، نے ہمیں بتانے کی زحمت تک نہ گوارا کی۔‘
‘کیوں’؟
شانے اچکاتے ہوئے اس نے جواب دیا ‘کوئی نہیں جانتا۔ خیر، یہ بات ہمیں واضح ہو گئی کہ سائنس بعض سطحوں پر انتہائی خشک ہو کر رہ جاتی ہے۔
تحقیق کا مرکز بدل گیا۔ اتفاق سے 1990 میں یونیورسٹی آف ایریزونا کے ایلن ہلڈ برانڈ نامی محقق کی ملاقات ہیوسٹن کرانیکل کے رپورٹر سے ہوئی اور اسے ایک بڑے اور ناقابلِ توجیہ دائرے کے بارے پتہ چلا جو 193 کلومیٹر چوڑا اور 48 کلومیٹر گہرا تھا۔ یہ دائرہ میکسیکو میں یوکاٹین کے جزیرہ نما میں تھا۔ یہ جگہ نیو اورلینز سے 950 کلومیٹر جنوب میں تھی۔ اس جگہ کو 1952 میں میکسیکو کی تیل کی کمپنی پیمیکس نے دریافت کیا تھا۔ یہ وہی سال تھا جب یوجین شومیکر نے ایریزونا کے گڑھے کا چکر لگایا تھا۔ تاہم اس کمپنی کے ماہرینِ ارضیات نے سوچا کہ یہ گڑھا آتش فشاں سے بنا ہے اور اس وقت کے حساب سے یہ سوچ درست تھی۔ ہلڈ برانڈ نے اس جگہ کا چکر لگایا اور فوراً ہی پہچان گیا کہ یہ ان کا مطلوبہ گڑھا ہے۔ 1991 تک تقریباً سبھی فریقین اس پر متفق ہو چکے تھے۔
تاہم بہت سارے لوگوں کو ابھی بھی یہ اندازہ لگانے میں دشواری ہو رہی تھی کہ آخر اس نوعیت کے ٹکراؤ کی شدت کتنی ہوگی۔ سٹیفن جے گولڈ کے مطابق ‘مجھے یاد ہے کہ میں حیران ہو رہا تھا کہ محض چھ میل چوڑے شہابِ ثاقب سے 8,000 میل قطر کے کرہ ارض پر کیسے اتنا بڑا اثر پڑ سکتا ہے’۔
اتفاق کی بات دیکھیئے کہ کچھ ہی عرصے بعد اس کا ثبوت بھی مل گیا۔ شومیکرز اور لیوی نے شومیکر لیوی 9 شہاب ثاقب دریافت کیا اور جانا کہ اس کا رخ مشتری کی جانب ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا کوئی ٹکراؤ ہونے والا تھا اور ہبل خلائی دوربین اس کے مشاہدے کے لئے تیار ہو گئی۔ تاہم زیادہ تر ماہرینِ فلکیات کے خیال میں مشتری جیسے بڑے سیارے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہ ایک بڑا شہابِ ثاقب نہیں بلکہ 21 چھوٹے ٹکڑے ہو چکے تھے۔ جرائد میں بھی اسی طرح کی باتیں چھپیں۔
16 جولائی 1994 کو ٹکراؤ شروع ہوا اور ایک ہفتے تک جاری رہا۔ اس کی شدت کا اندازہ شاید شومیکر کے علاوہ اور کسی نے بھی نہیں لگایا تھا۔ ایک ٹکڑا جسے مرکزہ جی کہا گیا، کے ٹکراؤ کی شدت 60 لاکھ میگا ٹن کے برابر تھی جو زمین پر موجود تمام تر اقسام کے اسلحے سے بھی 75 گنا زیادہ تھی۔ مرکزہ جی ایک چھوٹے پہاڑ کے حجم کا تھا لیکن مشتری کی سطح پر پیدا ہونے والا گڑھا زمین کے حجم کے برابر تھا۔ الوریز کے نظریے کے ناقدین کے لئے یہ اختتام ثابت ہوا۔
لوئیس الوریز کو میکسیکو کے گڑھے اور شومیکر لیوی شہابِ ثاقب کے بارے کبھی پتہ نہ چل سکا کیونکہ اس کا انتقال 1988 میں ہو گیا تھا۔ شومیکر بھی اس سے پہلے فوت ہوا۔ شومیکر کی عادت تھی کہ وہ مختلف جگہوں پر ایسے گڑھوں کو تلاش کرتا تھا جو شہابِ ثاقب کے ٹکراؤ سے بنے ہوں۔ آسٹریلیا میں تنامی صحرا میں، جو کہ دنیا میں خالی ترین جگہوں میں سے ایک ہے، پر چھوٹا ٹیلہ عبور کرتے ہوئے شومیکر کی گاڑی سامنے سے آنے والی گاڑی سے ٹکرائی۔ شومیکر جائے حادثہ پر جاں بحق ہوا اور اس کی بیوی زخمی ہوئی۔ شومیکر کی کچھ راکھ لیونر پروسپکٹر نامی خلائی جہاز کے ذریعے چاند پر بھیجی گئی اور بقیہ راکھ کو Meteor Crater کے گرد بکھیر دیا گیا۔
اینڈرسن اور وٹزک کے پاس ڈائنوسار معدوم کر دینے وال گڑھا تو نہیں بچا لیکن ان کے الفاظ میں ‘ہمارے پاس اس وقت ریاست ہائے متحدہ کا سب سے بہترین محفوظ شدہ گڑھا موجود ہے۔ دوسرے گڑھے اس سے بہت بڑے تو ہیں لیکن یا تو وہ ادھورے ہیں یا پھر پانی میں۔ میکسیکو والا گڑھا دو یا تین کلومیٹر چونے کی تہہ میں چھپا ہوا ہے جبکہ مینسن والا گڑھا بالکل سامنے رکھا ہوا ہے اور دفن ہونے کی وجہ سے بہترین حالت میں ہے۔
میں نے پوچھا کہ اس طرح کے واقعات کے بارے ہمیں کتنا پیشگی علم ہو سکے گا؟
اینڈرسن نے کہا، ‘بالکل بھی نہیں۔ جب کرہ فضائی میں داخل ہو کر شہابِ ثاقب جلنے لگے گا تو ہمیں احساس ہوگا۔ اس وقت زمین سے اس کا ٹکراؤ محض ایک سیکنڈ دور ہوگا۔ ہم جس چیز کی بات کر رہے ہیں، وہ تیز ترین گولی سے بھی کئی ہزار یا لاکھ گنا زیادہ تیزی سے حرکت کر رہی ہوگی۔ اگر کسی دوربین سے اسے قبل از وقت نہ دیکھ لیا گیا تو ہمیں اس کی آمد کا پتہ بھی نہیں چلے گا’۔
اس طرح کے ٹکراؤ کی شدت کا انحصار بہت سارے عناصر پر ہے جن میں داخلے کا زاویہ، رفتار، ٹریجکٹری، سیدھا یا پہلو سے ٹکراؤ ، ٹکرانے والے جسم کی کمیت اور کثافت وغیرہ اہم ہوتے ہیں تاہم ان کے بارے کروڑوں سال بعد جاننا ممکن نہیں رہتا۔ تاہم سائنس دان جو کر سکتے ہیں اور جو اینڈرسن اور وٹزک نے بھی کیا، وہ گڑھے کی پیمائش کر کے خارج ہونے والی توانائی کی مقدار کا تخمینہ لگا کر ان حالات کا منظر پیش کرنا تھا کہ یہ کیسے ہوا یا اگر مستقبل میں ہوا تو کیسے ہوگا۔
جب انتہائی تیزی سے حرکت کرتا ہوا شہابِ ثاقب زمین کی فضاء میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ اس کے نیچے موجود ہوا کو ہٹنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ دبنے لگ جاتی ہے۔ ایسے ہی جیسے سائیکل کے پمپ میں ہوا دبتی ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ جب ہوا دبتی ہے تو تیزی سے گرم ہوتی جاتی ہے۔ اس طرح گرتے ہوئے شہابِ ثاقب کے نیچے ہوا کا درجہ حرارت لگ بھگ 60,000 کیلون تک پہنچ جاتا ہے جو سورج کی سطح سے دس گنا زیادہ ہے۔ داخلے کے وقت اس شہابِ ثاقب کے راستے میں آنے والی تمام چیزیں، چاہے وہ انسان ہوں، گھر، فیکٹریاں یا کچھ بھی، جل کر راکھ ہوتے جائیں گے۔
منٹوں میں بہت بڑا علاقہ جو ڈینور سے ڈیٹرائٹ تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں شکاگو، سینٹ لوئیس، کینساس سٹی، دی ٹوئن سٹی، یعنی پورا مڈ ویسٹ اور اس پر موجود ہر چیز یا تو تباہ ہو جائے گی یا جل کر راکھ ہو جائے گی۔ 1,500 کلومیٹر کے دائرے میں موجود افراد کے پیر اکھڑ جائیں گے اور اڑنے والے ملبے سے ان کے جسم چھلنی ہو جائیں گے۔ 1,500 کلومیٹر کے دائرے سے باہر نقصانات کی شدت کم ہو جاتی جائے گی۔
تاہم یہ محض ابتدائی شاک ویو تھی۔ اس کے بعد ہونے والی تباہی کا محض اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سریع اور عالمگیر ہوگی۔ قوی امکانات ہیں کہ اس ٹکراؤ کے بعد تباہ کن زلزلوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ دنیا بھر کے آتش فشاں پھٹنے لگ جائیں گے۔ سونامیوں سے آنے والی تباہیاں بھی ہوں گی۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر پورے کرہ ارض پر تاریکی کا بادل چھا جائے گا۔ جلتی ہوئی چٹانیں اور دیگر ملبہ ہر جگہ گرے گا اور زیادہ تر زمین پر آگ لگ جائے گی۔ اندازہ ہے کہ پہلے روز کے اختتام پر ڈیڑھ ارب انسان جان سے ہاتھ دھو چکے ہوں گے۔ آئنو سفیئر کو ہونے والے بے پناہ نقصان سے مواصلاتی نظام تباہ ہو جائیں گے اور باقی بچنے والے انسانوں کو کوئی اندازہ نہیں ہو سکے گا کہ یہ کیا ہو رہا ہے یا یہ کہ پناہ کہاں ملے گی۔ اس سے شاید ہی کوئی فرق پڑے۔ ایک مبصر کے مطابق ‘بھاگنے کا مطلب سریع موت کی بجائے سسک سسک کر مرنا ہوگا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ زمین پر زندگی کے لئے سازگار حالات نہ ہونے کے برابر ہوں گے’۔
ٹکراؤ کے بعد پیدا ہونے والے دھوئیں اور اڑتی ہوئی راکھ سے کئی ماہ یا شاید کئی سال تک سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچے گی جس سے زراعت متاثر ہوگی۔ 2001 میں کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین کو ٹی ٹکراؤ والے گڑھے سے ہیلیم آئسو ٹوپس کا جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ اس حادثے کے بعد زمین کا موسم کم از کم 10,000 سال تک متاثر رہا ہوگا۔ اس کو ڈائنوساروں کے اچانک معدوم ہونے کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم لفظ ‘اچانک’ ہم ارضیاتی اعتبار سے استعمال کرتے ہیں۔ اب اس بارے ہم محض اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا تو بنی نوع انسان اس سےکیسے نمٹ پائے گی۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ ایسا واقعہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے پیش آئے گا۔
فرض کریں کہ اگر ہم ایسے کسی جرمِ فلکی کو آتا دیکھ لیتے ہیں۔ پھر کیا ہوگا؟ ہر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ہم فوراً ایک ایٹم بم بھیجیں گے جو اسے تباہ کر دے گا۔ تاہم ایسا ممکن نہیں۔ جان لیوس کے مطابق ‘ہمارے ایٹمی میزائل خلاء میں چلنے کے لئے نہیں بنائے گئے۔ وہ کششِ ثقل پر قابو نہیں پا سکتے۔ اگر کسی طرح وہ خلاء میں پہنچ بھی جائیں تو بھی کروڑوں کلومیٹر کے سفر پر انہیں خلاء میں اپنی مرضی سے نہیں چلایا جا سکتا۔ اس بات کے مزید کم امکانات ہیں کہ ہم ‘آرماگیڈن’ فلم کی طرح خلائی جہاز میں خلاء بازوں کو بھیج کر اسے تباہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس اب اتنے طاقتور راکٹ نہیں رہے جو انسان کو چاند تک بھی پہنچا سکیں۔ ایسا آخری راکٹ سیٹرن 5 تھا جو برسوں قبل متروک ہوا اور اس کی جگہ دوسرا کوئی راکٹ تیار نہیں۔ نہ ہی ایسا کوئی راکٹ عجلت میں تیار ہو پائے گا کہ سیٹرن لانچر کے نقشے ناسا کے پروگرام کے مطابق تباہ کئے جا چکے ہیں۔
اگر ہم کسی طرح ایٹم بم کو شہابِ ثاقب تک پہنچا کر اسے توڑ بھی لیں تو بھی یہ شہابِ ثاقب عین اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر گرے گا جیسے شومیکر لیوی مشتری پر گرا تھا۔ فرق صرف اتنا ہوگا کہ یہ تمام ٹکڑے انتہائی تابکار ہوں گے۔ ایک ماہر کے مطابق اگر ہمیں ایک سال کا وقت بھی مل جائے تو بھی تیاری کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ زیادہ امکانات اسی بات کے ہیں کہ ایسا کوئی بھی جرمِ فلکی ہمیں اس وقت دکھائی دے گا جب وہ چھ ماہ سے کم فاصلے پر رہ گیا ہوگا۔ شومیکر لیوی 1929 سے مشتری کے گرد انتہائی واضح انداز سے چکر لگا رہا تھا لیکن نصف صدی بعد جا کر کسی نے اسے دیکھا۔
چونکہ یہ سب چیزیں جاننا انتہائی مشکل ہے اور پھر بھی غلطی کا بہت زیادہ امکان رہ جاتا ہے، اس لئے ہمیں ایسے کسی جرمِ فلکی کے زمین سے ٹکراؤ کے بارے سو فیصد یقین اس وقت ہوگا جب وہ ہم سے دو ہفتے دور رہ گیا ہوگا۔ زیادہ تر وقت ہم غیر یقینی کی کیفیت میں رہیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔ شاید انسانی تاریخ کے انتہائی دلچسپ ترین چند ماہ ہوں گے۔ اور اگر ایسا ٹکراؤ ٹل گیا تو اس پر کتنی خوشیاں منائی جائیں گی۔
میں نے نکلنے سے قبل اینڈرسن اور وٹزک سے پوچھا، ‘مینسن نوعیت کے ٹکراؤ کتنے عرصے بعد ہوتے ہیں’؟
وٹزک نے جواب دیا، ‘اوسطاً ہر دس لاکھ سال بعد’۔
‘یاد رہے کہ یہ نسبتاً چھوٹا واقعہ تھا۔ اندازہ کریں کہ اس واقعے سے کتنی انواع معدوم ہوئیں’؟ اینڈرسن نے پوچھا۔
میں نے جواب دیا ‘معلوم نہیں’۔
‘ایک بھی نہیں’۔ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔
فوراً ہی اینڈڑسن اور وٹزک نے بتایا کہ اس طرح کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی تباہی دنیا کے زیادہ تر حصوں پر پھیل جائے گی اور ٹکراؤ کے مقام سے سینکڑوں کلومیٹر کے دائرے میں موجود تمام تر چیزیں تباہ ہو جائیں گی۔ تاہم حیات بہت سخت جان ہوتی ہے اور ہر نوع کے بے شمار جاندار بچ جائیں گے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ کسی نوع کی معدومیت کی خاطر انتہائی زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ بری خبر یہ ہے کہ اس اچھی خبر پر ہمیشہ یقین نہیں کیا جا سکتا۔ مزید براں یہ بھی کہ ایسی تباہی محض خلا سے آنا لازم نہیں۔ ابھی ہم آگے چل کر دیکھتے ہیں کہ کرہ ارض کے اندر موجود اپنے خطرات بھی اس کام کے لئے کافی ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
14 ہمارے نیچے کی آگ​
1971 کی گرمیوں میں ایک نوجوان مائیک وُورہیز مشرقی نبراسکا میں گھاس کے میدانوں میں پھر رہا تھا جو آرچرڈ کے چھوٹے سے قصبے کے پاس ہے۔ ایک ڈھلوان کھائی سے گزرتے ہوئے اس نے چمکتی ہوئی کوئی چیز دیکھی جو اس نے معائنے کے لیے اٹھائی۔ یہ چیز ایک نوعمر گینڈے کی کھوپڑی تھی جو بہترین حالت میں محفوظ تھی اور حالیہ بارشوں کے نتیجے میں نکل آئی تھی۔
اس سے چند گز آگے شمالی امریکہ میں فوسلز کا بہترین مقام دریافت ہوا جو کسی زمانے میں جانوروں کے پانی پینے کا مقام تھا۔ یہ جگہ بے شمار جانوروں کی موت کا مقام بنا جن میں گینڈے، زیبرا نما گھوڑے، نوکیلے دانتوں والے ہرن، اونٹ اور کچھوے وغیرہ تھے۔ ایک کروڑ بیس لاکھ سال قبل اچانک یہ سب جانور نامعلوم وجہ سے مرے تھے۔ ارضیات کی زبان میں اس وقت کو مائیوسین کہا جاتا ہے۔ ان دنوں نبراسکا وسیع اور گرم مسطح زمین تھا جیسا کہ افریقہ کا سرنگیٹی کا میدان ہے۔ یہ جانور تین میٹر گہری آتش فشانی راکھ میں دبے ہوئے تھے۔ اصل معمہ یہ بات ہے کہ نبراسکا میں نہ تو کوئی آتش فشاں اب ہے اور نہ ہی ماضی میں کبھی تھا۔
آج وُورہیز کے دریافت کردہ مقام کو ایش فال فاسل بیڈز سٹیٹ پارک کہا جاتا ہے۔ اس میں پُرکشش عجائب گھر اور سیاحوں کے لیے مرکز بنا ہوا ہے اور ماضی کے حالات کے تخیلاتی مناظر بھی بنائے گئے ہیں۔ لیبارٹری میں شیشے کی دیوار بنائی گئی ہے اور سیاح اس کے پار ماہرین کو ہڈیوں پر کام کرتے دیکھ سکتے ہیں۔ جب میں وہاں گیا تو اکیلا ماہر جو وہاں کام کر رہا تھا، وہ وُورہیز تھا۔ اس جگہ زیادہ سیاح نہیں آتے کہ یہ جگہ بہت دور افتادہ ہے۔ وُورہیز نے مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں اس نے پہلی ہڈی دریافت کی تھی۔
اس نے خوشی خوشی بتایا، ‘اس جگہ ہڈیوں کی تلاش احمقانہ کام تھا۔ لیکن میں ہڈیاں نہیں تلاش کر رہا تھا۔ میں اس وقت مشرقی نبراسکا کا ارضیاتی نقشہ بنا رہا تھا۔ اگر میں اس کھائی تک نہ جاتا یا حالیہ بارشوں سے یہ ہڈی باہر نہ نکلی ہوتی تو شاید ہم کبھی بھی اسے دریافت نہ کر پاتے’۔ اس نے ساتھ موجود ایک جگہ دکھائی جہاں چھت بنی ہوئی تھی اور وہاں اس وقت ہڈیوں کی تلاش جاری تھی۔ اس جگہ تقریباً 200 جانور اکٹھے ملے۔
میں نے پوچھا کہ اس جگہ ہڈیاں تلاش کرنا کیسے احمقانہ کام ہوا؟ اس نے بتایا، ‘ہڈیوں کی تلاش ایسی جگہ کی جاتی ہے جہاں چٹانیں یا پتھر دکھائی دے رہے ہوں۔ اسی وجہ سے فوسلز کی تلاش ہمیشہ گرم اور خشک جگہوں پر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں زیادہ ہڈیاں ہوتی ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یہاں ہڈیاں دکھائی دینے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ ہڈیاں تو کسی بھی جگہ ہو سکتی ہیں۔ لیکن سطح پر دکھائی دے رہی ہوں تو تلاش شروع کرنے میں سہولت ہو جاتی ہے’۔
پہلے پہل سوچا گیا کہ یہ تمام جانور زندہ دفن ہوئے ہوں گے اور 1981 میں نیشنل جیوگرافک کے مضمون میں اس جگہ کو ‘قبل از تاریخ جانوروں کا پومپی’ لکھا گیا۔ تاہم بعد میں واضح ہوا کہ یہ تمام جانور اچانک نہیں مرے بلکہ وہ پھپھڑوں میں پانی بھرنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ گرد آلود ہوا میں سانس لیتے ہیں۔ اُس وقت تو سینکڑوں میل تک کئی فٹ موٹی راکھ کی تہہ تھی۔ اس نے زمین سے خاکستری مائل چکنی مٹی ہاتھ میں لے کر اسے مسلا اور میرے ہاتھ پر رکھ دی۔ مٹی میں معمولی سی ریت شامل تھی۔ ‘سانس لینے کو انتہائی بری چیز۔ اگرچہ یہ گرد بہت باریک ہے لیکن یہ بہت تیز دھار بھی ہے۔ اس لیے جو بھی اس جگہ پیاس بجھانے آتا، بے بسی سے مر جاتا۔ اس راکھ سے ہر چیز تباہ ہو گئی ہوگی۔ ساری گھاس، سارے پتے، سب کچھ اس کے نیچے دب کر رہ گیا ہوگا’۔
ہورائیزن ڈاکومنٹری کے مطابق نبراسکا میں اتنی راکھ غیر معمولی امر تھا۔ درحقیقت نبراسکا کے راکھ کے یہ ڈھیر بہت عرصے سے مشہور ہیں۔ سو سال سے زیادہ عرصے سے کھدائی کر کے اس مٹی کو نکالا جاتا ہے اور اس سے برتن دھونے کے پاوڈر بنتے ہیں۔ تاہم اس بات پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا کہ آخر یہ مٹی آئی کہاں سے۔
وُورہیز نے بتایا، ‘جب مجھ سے پہلی بار نیشنل جیوگرافک کے ایڈیٹر نے اس مٹی کے بارے پوچھا کہ یہ کہاں سے آئی ہوگی، تو یقین کریں مجھے اس کا جواب معلوم نہیں تھا۔ شاید کوئی بھی اس کا جواب نہ جانتا ہوگا’۔
وُورہیز نے اس مٹی کے نمونے اپنے جاننے والے ماہرین کو پورے مغربی امریکہ بھیجے اور ان سے رائے مانگی کہ یہ کیا ہو سکتی ہے۔ کئی ماہ بعد ایڈاہو جیولاجیکل سروے کے ماہرِ ارضیات بل بونیچسن رابطہ کیا اور بتایا کہ جنوب مغربی ایڈاہو میں موجود ایک آتش فشاں سے نکلی راکھ اور یہ نمونے مماثل ہیں۔ نبراسکا میں ان جانوروں کی ہلاکت کا سبب بننے والی یہ آتش فشانی راکھ دراصل اتنے بڑے آتش فشانی عمل سے پیدا ہوئی تھی کہ جس کا تصور کرنا محال ہے۔ تاہم یہ دھماکہ اتنا بڑا تھا کہ 1,600 کلومیٹر دور مشرقی نبراسکا تک اس نے راکھ کی 3 میٹر موٹی تہہ بنا دی تھی۔ آخر یہ بات پتہ چلی کہ مغربی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نیچے لاوے اور آتش فشاں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اور یہ ذخیرہ اوسطاً ہر چھ لاکھ سال بعد پھٹتا ہے۔ آخری بار یہ چھ لاکھ سال قبل پھٹا تھا۔ یہ جگہ ابھی تک متحرک ہے اور آج کل اسے ‘ییلو سٹون نیشنل پارک’ کہا جاتا ہے۔
ہمیں اپنے قدموں کے نیچے کی زمین میں واقع ہونے والے واقعات کے بارے انتہائی کم معلومات ہیں۔ فورڈ کمپنی کے کاریں بنانا شروع کرنے اور نوبل انعامات کی تقسیم شروع ہونے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ زمین کا ایک مرکزہ بھی ہے۔ براعظموں کی حرکت یعنی پلیٹ ٹیکٹانکس محض ایک نسل پہلے پتہ چلی تھی۔ رچرڈ فین مین کے مطابق، ‘یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ہمیں زمین کے اندر کی نسبت سورج کے اندر موجود مادے کی تقسیم کے بارے زیادہ جانتے ہیں’۔
زمین کی سطح سے مرکز تک کا فاصلہ لگ بھگ 6,370 کلومیٹر بنتا ہے جو زیادہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ زمین کے مرکزے تک کنواں کھود کر اس میں ایک اینٹ گرائیں تو 45 منٹ میں وہ مرکزے تک پہنچ جائے گی (اگرچہ وہاں وہ گرے گی نہیں بلکہ معلق ہو جائے گی کہ کششِ ثقل اس وقت اس کے نیچے نہیں بلکہ ہر جانب ہوگی)۔ زمین کے مرکزے کی طرف جانے کی ہماری کوششیں بہت معمولی ہیں۔ جنوبی افریقہ میں سونے کی ایک یا دو کانیں محض 3 کلومیٹر گہرائی تک پہنچی ہیں جبکہ زیادہ تر کانیں محض 400 میٹر کی گہرائی پر ختم ہو جاتی ہیں۔ اگر زمین کو سیب سے تشبیہ دیں تو کہہ لیجئے کہ ابھی تک ہم سیب کے چھلکے سے نیچے نہیں گئے۔ بلکہ ہم نے چھلکے کو بھی عبور نہیں کیا۔
سو سال قبل زمین کے اندر کے بارے اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنس دان کی معلومات کوئلے کے کان کن سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔ یعنی زمین کو کھودتے جائیں اور ایک وقت آئے گا کہ پتھر آ جائیں گے اور بس۔ پھر 1906 میں آئرش ماہرِ ارضیات اولڈہیم نے گوئٹے مالا کے زلزلے سے متعلق سائزموگراف کی لکیروں کو پڑھنا شروع کیا تو اس نے دیکھا کہ زلزلے کی بعض لہریں زمین کے بہت اندر تک جاتی ہیں اور پھر ایک خاص زاویے پر دوبارہ اوپر کو اٹھتی ہیں کہ جیسے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ آ گئی ہو۔ اس نے نتیجہ نکالا کہ زمین کے اندر مرکزہ بھی موجود ہے۔ تین سال بعد کروشیئن سائزمالوجسٹ آندریا موہورووچ زغرب کے زلزلے کے گراف کو دیکھ رہا تھا کہ اس نے اسی طرح کی ایک چیز بہت کم گہرائی پر دیکھی۔ اس نے زمین کی سطح اور نیچے والی تہہ کی حد دریافت کر لی تھی۔ اس دریافت کو آج تک اسی کے نام سے موہورووچ کی رکاوٹ یا موہو کہا جاتا ہے۔
اس وقت ہمیں زمین کے اندرونی حصے کے تہہ دار ہونے کے بارے معمولی سا علم ہونا شروع ہوا۔ 1936 میں ڈینش سائنس دان انگے لہمن نے جب نیوزی لینڈ کے زلزلوں کی پیمائشی لکیریں پڑھیں تو دریافت ہوا کہ زمین کا ایک نہیں بلکہ دو مرکزے ہیں اور آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ اندرونی مرکزہ ٹھوس ہے اور اس کے گرد موجود دوسرا مرکزہ مائع حالت میں اور مقناطیسیت کا مرکز ہے۔
لہمن کی دریافت کے ساتھ ساتھ کالٹیک، کیلیفورنیا میں دو سائنس دان ایک زلزلے اور اس کے بعد آنے والے دوسرے زلزلے کے تقابل کے بارے کام کر رہے تھے۔ ان کے نام چارلس ریکٹر اور بینو گُٹن برگ تھے تاہم پھر بھی ان کا بنایا ہوا پیمانہ ریکٹر سکیل کہلاتا ہے (اس میں ریکٹر کا بھی کوئی قصور نہیں۔ اس نے اس پیمانے کو کبھی اپنے نام سے نہیں متعارف کرایا بلکہ وہ اسے ‘شدت ماپنے والا پیمانہ’ کہتا تھا)۔
ریکٹر سکیل کو شروع سے ہی غلط سمجھا گیا ہے۔ شروع شروع میں ریکٹر کے دفتر لوگ آ کر پوچھتے کہ ‘ریکٹر سکیل کہاں رکھا ہے۔’ جیسے یہ کوئی مشین ہو۔ حقیقت میں مشین کی بجائے یہ ایک نظریہ ہے جو زمین کے اندر ہونے والی حرکات کو زمین کی سطح پر ماپتا ہے۔ اس کی شدت متناسب انداز سے بڑھتی ہے۔ اس طرح 7.3 شدت کا زلزلہ 6.3 سے دس گنا زیادہ طاقتور اور 5.3 سے سو گنا زیادہ طاقتور ہوگا۔
نظریاتی طور پر زلزلے کی زیادہ سے زیادہ شدت کوئی مقرر نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی کوئی کم سے کم شدت۔ یہ پیمانہ زلزلے کی شدت کو ماپتا ہے لیکن اس سے ہونے والی تباہی کو نہیں۔ مثال کے طور پر 650 کلومیٹر گہرائی میں ہونے والے 7 شدت کے زلزلے سے زمین کی سطح پر شاید ہی کوئی تباہی ہو لیکن اس سے بہت کم شدت کا زلزلہ اگر سطح زمین کے پاس اگر 6 یا 7 کلومیٹر گہرائی پر ہو تو اس سے ہونے والی تباہی بہت شدید ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس جگہ زمین کی نوعیت، زلزلے کے دورانیے، ثانوی جھٹکوں کی شدت اور تعداد کے علاوہ اس جگہ موجود تعمیرات بھی زلزلے سے ہونے والی تباہی میں اہم عنصر ہوتی ہیں۔
اس سکیل کی ایجاد کے بعد سے اب تک آنے والا شدید ترین زلزلہ (اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس ذریعے کو دیکھتے ہیں) یا تو پرنس ولیم ساؤنڈ، الاسکا میں مارچ 1964 میں آیا تھا جس کی شدت 9.2 ریکارڈ کی گئی تھی۔ دوسرا زلزلہ 1960 میں چلی کے ساحل سے پرے بحرالکاہل میں آیا تھا جس کی شدت ابتدا میں 8.6 اور پھر بعض ذرائع بشمول امریکی جیولاجیکل سروے نے دوبارہ تحقیق کے بعد 9.5 مقرر کی۔ یعنی آپ درست سمجھے ہیں کہ زلزلوں کی شدت کو ماپنا کوئی آسان یا سیدھا کام نہیں ہے اور یہ کام اس وقت اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب ان زلزلوں کو دور دراز مقامات پر ماپنا پڑے۔ تاہم یہ دونوں ہی زلزلے انتہائی شدید تھے۔ 1960 کے زلزلے نے نہ صرف جنوبی امریکہ کے ساحلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی بلکہ اس سے پیدا ہونے والی سونامی اتنی شدید تھی کہ تقریباً 10,000 کلومیٹر کا سفر طے کر کے بحرالکاہل کے دوسرے کنارے تک جا پہنچی اور ہوائی میں ہیلو کے شہر کے زیادہ تر کاروباری علاقے کو بہا لے گئی جہاں 500 عمارتیں تباہ ہوئیں اور 60 افراد بھی ہلاک ہوئے۔ اسی طرح کی لہروں سے جاپان اور فلپائن تک اموات ہوئیں۔
اگر صرف تباہی کو دیکھا جائے تو شاید پرتگال کے شہر لزبن میں یکم نومبر 1755 کو آنے والا زلزلہ سب سے بڑا تھا۔ اس دن آل سینٹس ڈے منایا جاتا ہے اور صبح دس بجے سے ذرا قبل شہر کو اچانک زور کا جھٹکا لگا جو پورے سات منٹ تک جاری رہا۔ اس زلزلے کی شدت کا تخمینہ 9.0 لگایا گیا ہے۔ جب یہ جھٹکے رکے تو لوگوں کو محض تین منٹ سکون کا سانس لینے کا وقت ملا اور پھر دوسرا زلزلہ آیا جس کی شدت پہلے سے ذرا سی کم تھی۔ تیسرا اور آخری زلزلہ بھی آیا۔ ان کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ شہر کی بندرگاہ سے پانی باہر نکل آیا اور لہروں کی اونچائی 15 میٹر سے زیادہ تھی جس سے بھی کافی تباہی ہوئی۔ زلزلے سے کل 60,000 افراد ہلاک ہوئے اور میلوں تک کوئی عمارت ثابت نہ بچی۔ مقابلے کے لیے دیکھتے ہیں کہ سان فرانسسکو میں آنے والے 1906 کے زلزلے کی شدت 7.8 تھی اور دورانیہ نصف منٹ سے بھی کم۔
زلزلے معمول کی بات ہیں۔ دنیا میں ہر روز 2.0 یا اس سے زیادہ شدت کے اوسطاً دو زلزلے آتے ہیں۔ اگر آپ اس مقام سے قریب ہوں تو خاصا جھٹکا محسوس کر سکتے ہیں۔ اگرچہ زلزلے عموماً مخصوص جگہوں پر ہی مرکوز ہوتے ہیں جن میں بحرالکاہل کے کنارے اہم ہیں، تاہم کہیں بھی آ سکتے ہیں۔ امریکہ میں فلوریڈا، مشرقی ٹیکساس اور بالائی مڈ ویسٹ میں ابھی تک زلزلے نہ ہونے کے برابر آئے ہیں۔ نیو انگلینڈ میں سابقہ 200 سالوں میں 6.0 یا اس سے زیادہ شدت کے دو زلزلے آ چکے ہیں۔ اپریل 2002 میں اس جگہ 5.1 شدت کا زلزلہ آیا جس کا مرکز لیک چیمپلین تھا جو نیو یارک اور ورمونٹ کی سرحد کے قریب ہے۔ مقامی طور پر اس سے کافی نقصان پہنچا اور نیو ہمپشائر تک دیواروں سے تصاویر اور بچوں کا بستروں سے گرنا دیکھا گیا۔
زلزلوں کی عام قسم وہ ہے جو دو پلیٹوں کے مقامِ اتصال پر آتی ہے جیسے کیلیفورنیا میں سینٹ اینڈریاس فالٹ پر۔ جب پلیٹیں ایک دوسرے کو دھکیلتی ہیں تو ان کے درمیان دباؤ بڑھتا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایک پلیٹ دوسری کو راستہ دے دیتی ہے۔ عام طور پر جتنا زیادہ عرصہ دباؤ بڑھتا رہے، اتنا ہی شدید زلزلہ آتا ہے۔ ٹوکیو کے لیے یہ انتہائی پریشانی کی بات ہے کہ آفات کے ایک ماہر بل میگوئیر جو کہ یونیورسٹی کالج لندن میں کام کرتے ہیں، کے مطابق ‘ٹوکیو شہر موت کا منتظر ہے’۔ ٹوکیو کے نیچے تین پلیٹیں ملتی ہیں اور جاپان میں ویسے بھی زلزلے آنا معمول کی بات ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1995 میں کوبے شہر میں آنے والے 7.2 شدت کے زلزلے سے 6,394 افراد ہلاک ہوئے تھے اور نقصان کا اندازہ 99 ارب ڈالر تھا۔ تاہم ٹوکیو پر آنے والے متوقع زلزلے کے آگے تو یہ کچھ بھی نہیں۔
موجودہ دور میں ٹوکیو میں ایک بار شدید زلزلہ آ چکا ہے۔ یکم ستمبر 1923 کو دوپہر سے ذرا قبل آنے والے زلزلے کو، کہ جس کا نام گریٹ کانٹو کواک رکھا گیا ہے، کی شدت کوبے کے زلزلے سے دس گنا زیادہ تھی۔ دو لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے بعد سے ٹوکیو حیران کن حد تک پرسکون ہو چکا ہے۔ یعنی تقریباً اسی سال سے ٹوکیو کے نیچے پلیٹوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ 1923 میں ٹوکیو کی کل آبادی تیس لاکھ تھی۔ آج ٹوکیو کی آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ انسانی جانوں کے ضیاع کے بارے تو کچھ کہنا ممکن نہیں لیکن معاشی نقصان کا اندازہ 7 کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔
اس سے بھی زیادہ پریشان کن زلزلے وہ ہوتے ہیں جن کے بارے معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ کہیں بھی آ سکتے ہیں۔ انہیں انٹرپلیٹ زلزلے کہا جاتا ہے۔ یہ زلزلے پلیٹوں کے کناروں سے دور آتے ہیں اور ان کے آنے کے بارے کسی قسم کی معلومات کا حصول ممکن نہیں۔ چونکہ یہ زلزلے انتہائی گہرائی پر آتے ہیں، اس لیے ان کے اثرات بہت بڑے علاقے پر پڑتے ہیں۔ امریکی سرزمین پر آنے والا ایسا سب سے شدید زلزلہ 1811 اور 1812 کے موسمِ سرما میں نیو میڈریڈ میں تین بار آیا تھا۔ 16 دسمبر کو نصف شب سے ذرا قبل لوگوں کو جانوروں میں ہونے والی بھگدڑ کی آوازوں نے جگا دیا (زلزلوں سے قبل جانوروں کا پریشان ہونا سائنسی طور پر ثابت شدہ ہے اگرچہ اس کی وجہ کا علم نہیں) اور پھر زمین کے اندر سے سماعت شکن آواز آتی سنائی دی۔ جب لوگ پریشان ہو کر گھروں سے نکلے تو دیکھا کہ زمین میں ایک میٹر جتنی بلند لہریں پیدا ہو رہی ہیں اور زمین پھٹ رہی ہے۔ سلفر کی بہت تیز بو بھی محسوس کی گئی تھی۔ یہ زلزلہ چار منٹ تک جاری رہا اور عمارات کو شدید نقصان پہنچا۔ عینی شاہدین میں مشہور آرٹسٹ جان جیمز آڈوبن بھی شامل تھا۔ یہ زلزلہ اتنی شدت سے پھیلا کہ 600 کلومیٹر دور سنسنیاٹی میں گھروں کی چمنیاں گر گئیں اور ایک خبر کے مطابق تو واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل بلڈنگ کے گرد لگایا ہوا تعمیراتی ڈھانچہ بھی گر گیا۔ اسی طرح کے زلزلے 23 جنوری اور 4 فروری کو بھی آئے اور اس کے بعد سے نیو میڈرڈ اب تک خاموش ہے۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا زلزلہ اس سے قبل کبھی ایک جگہ دو بار نہیں آیا۔ ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ ان کی پیشین گوئی کرنا ممکن نہیں۔ ایسا اگلا زلزلہ شکاگو، پیرس یا کنساشا میں بھی آ سکتا ہے۔ ابھی کسی نے اس بارے اندازہ لگانا بھی شروع نہیں کیا۔ انٹرپلیٹ مقام پر ایسا کیا ہوتا ہے کہ یہ زلزلے آتے ہیں؟ شاید زمین کی گہرائی میں کچھ ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ ہمیں علم نہیں۔
1960 کی دہائی میں سائنس دان اس بات پر مسلسل پریشان ہوتے رہے کہ ان کا زمین کے بارے علم کتنا محدود ہے اور انہوں نے اس بارے کچھ کرنے کی ٹھانی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ سمندر کی تہہ میں سوراخ کیا جائے (زمین پر یہ تہہ بہت موٹی ہوتی) اور پھر زمین کے مرکزے کا حصہ نکال کر اسے آرام سے جانچا جائے۔ اس کے پسِ پردہ یہ خیال تھا کہ اگر انہیں زمین کے اندر موجود چٹانوں کی ساخت کے بارے علم ہو جائے تو وہ ان چٹانوں کے باہمی تعامل کو سمجھنے کے قابل ہو سکتے ہیں اور پھر زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات کے بارے پیشین گوئی کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔
اس منصوبے کو ‘موہول’ کا نام دیا گیا اور اس کا نتیجہ بھیانک نکلا۔ منصوبے کے مطابق میکسیکو کے ساحل سے دور بحرالکاہل میں 4,000 میٹر کی گہرائی تک ڈرل کو اتار جائے جو 5,000 میٹر جتنی کھدائی کرے کیونکہ اُس جگہ زمین کی تہہ زیادہ موٹی نہیں تھی۔ تاہم ایک اوشیانوگرافر کے مطابق ‘کھلے سمندر میں جہاز پر کھڑے ہو کر کھدائی کرنا ایسے ہی ہے جیسے آپ ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی چھت پر کھڑے ہو کر سپاگیٹی کی مدد سے نیچے زمین کی سطح پر سوراخ کرنے کی کوشش کریں’۔ ہر کوشش ناکامی پر منتج ہوئی۔ زیادہ سے زیادہ 180 میٹر کی گہرائی تک کھدائی ہو سکی۔ موہول کو ‘نو ہول’ کے نام سے جانا جانے لگا۔ 1966 میں بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے کانگریس نے اس منصوبے کو روک دیا۔
چار سال بعد روسی سائنس دانوں نے اس تجرے کو اپنے انداز میں کرنے کا سوچا۔ ان کا منصوبہ زمین پر کھدائی کرنے کا تھا۔ انہوں نے روس میں جزیرہ نما کولا جو کہ فن لینڈ کی سرحد کے قریب واقع ہے، پر کھدائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا ارادہ پندرہ کلومیٹر گہرائی تک جانے کا تھا۔ تاہم یہ کام ان کے اندازوں سے زیادہ مشکل نکلا مگر روسی دھن کے پکے تھے۔ 19 سال بعد جب انہوں نے کام روکا تو اس وقت تک وہ 12,262 میٹر کی گہرائی تک پہنچ چکے تھے۔ یاد رہے کہ زمین کی بالائی سطح کل کمیت کا محض 0.3 فیصد ہے۔ کولا کا یہ گڑھا اس سطح کے ایک تہائی سے بھی کم گہرائی تک پہنچا تھا۔ زمین کے مرکزے کو سمجھنا آج بھی ہمارے بس سے باہر ہے۔
اگرچہ یہ سوراخ کوئی بہت غیر معمولی نہیں تھا لیکن اس سے متعلق ہر بات عجیب تر نکلی۔ سائزمک مطالعے سے سائنس دان پُریقین تھے کہ پہلے 4,700 میٹر کی گہرائی تک چٹانیں ہیں اور اگلے 2,300 میٹر تک گرینائٹ اور پھر اس سے نیچے بسالٹ ہے۔ پہلی تہہ اندازے سے ڈیڑھ گنا نکلی جبکہ بسالٹ کی تہہ آج تک نہیں مل سکی۔ اس کے علاوہ اتنی گہرائی پر حدت اندازے سے کہیں زیادہ تھی۔ 10,000 میٹر کی گہرائی پر درجہ حرارت 180 ڈگری سینٹی گریڈ تھا جو اندازے سے تقریباً دوگنا نکلا۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنی گہرائی پر چٹانوں میں پانی بھرا ہوا تھا جو اب سے پہلے ناممکن بات سمجھی جاتی تھی۔
چونکہ ہم زمین کے اندر دیکھ نہیں سکتے، اس لیے ہم مختلف تکنیکیں آزماتے ہیں جن کی اکثریت میں مختلف لہروں کو زمین کے اندر کی طرف بھیج کر دیکھا جاتا ہے کہ وہاں کیا ملتا ہے۔ ہماری معلومات کا بڑا حصہ حصہ کمبرلائٹ پائپ سے آیا ہے۔ اس جگہ ہیرے بنتے ہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ زمین کے اندر انتہائی گہرائی میں ایک دھماکہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں میگما یا پگھلی ہوئی چٹانوں کا ایک گولہ سا زمین کی سطح کی طرف آواز سے بھی زیادہ تیز رفتار سے نکلتا ہے۔ یہ عمل کہیں بھی اور کبھی بھی ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ابھی آپ کے باغیچے میں ابھی کمبرلائٹ پائپ پھٹ جائے۔ عموماً ایسے پائپوں میں 200 کلومیٹر کی گہرائی سے ہر قسم کی چیزیں اوپر پہنچتی ہیں جو عام طور پر زمین کی سطح یا اس کے قریب نہیں پائی جاتیں۔ عموماً اس میں ایک قسم کی چٹان پیریڈائٹ، اولی وائن کی قلمیں اور سو میں سے ایک پائپ میں ہیرے اوپر پہنچتے ہیں۔ کمبرلائٹ سے بڑی مقدار میں کاربن خارج ہوتی ہے لیکن زیادہ تر بخارات بن کر یا گریفائٹ کی شکل میں بدل جاتی ہے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ایسا مادہ بالکل ٹھیک رفتار سے نکلتا اور درست رفتار سے ٹھنڈا ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ ہیرا بنتا ہے۔ ایسے ہی ایک پائپ کی وجہ سے جنوبی افریقہ دنیا میں ہیروں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ بنا ہے۔ اس سے بھی زیادہ ہیرے کہیں بھی موجود ہو سکتے ہیں جن کے بارے ہمیں کوئی علم نہیں۔ ماہرینِ ارضیات کو علم ہے کہ شمال مشرقی انڈیانا میں کہیں ایسا ہی ایک یا ایک سے زیادہ پائپ موجود ہیں جن میں ہیروں کی انتہائی بڑی مقدار موجود ہو سکتی ہے لیکن ابھی تک وہ اسے پا نہیں سکے۔ البتہ اس علاقے میں 20 قیراط یا اس سے بڑے ہیرے بکثرت ملے ہیں۔ جان میکفی کے مطابق ‘عین ممکن ہے کہ ایسا پائپ کسی گلیشیئر کی لائی ہوئی مٹی کے نیچے دفن ہو جیسا کہ آئیوا میں مینسن کے گڑھے میں ہوا تھا یا پھر عظیم جھیلوں کے نیچے ہو’۔
ہم زمین کے اندر کے بارے کتنا جانتے ہیں؟ بہت کم۔ سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ زمین کی چار تہیں ہیں، بیرونی پتھریلی سطح، کثیف اور گرم چٹانوں والی مینٹل، اندرونی مائع مرکزہ اور اندرونی ٹھوس مرکزہ (اس بارے مزید تفصیل جاننے کے خواہش مند قاریوں کے لیے مزید تفصیل یہ ہے جس میں اوسط اعداد و شمار اپنائے گئے ہیں: 0 سے 40 کلومیٹر تک بیرونی تہہ ہے۔ 40 سے 400 کلومیٹر تک بالائی مینٹل۔ 400 سے 650 کلومیٹر تک ٹرانزیشن زون ہےجو بالائی اور زیریں مینٹل کو ملاتا ہے۔ 650 سے 2,700 کلومیٹر تک زیریں مینٹل ہے۔ 2,700 سے 2,890 کلومیٹر تک موجود سطح کا نام D ہے۔ 2,890 سے 5,150 کلومیٹر تک کی تہہ بیرونی کور اور اس کے بعد 5,150 سے 6,370 کلومیٹر تک اندرونی تہہ)۔ ہمیں علم ہے کہ زمین کی سطح پر سیلیکیٹ کی کثرت ہے جو ہلکی ہوتی ہے اور زمین کا وزن اس سے اتنا نہیں ہو سکتا۔ نیتجتاً زیادہ بھاری مادہ اندر موجود ہونا چاہیے۔ مقناطیسی میدان کے لیے کہیں درمیان میں پگھلی ہوئی دھاتیں بھی موجود ہونا چاہیئں۔ اس بات پر ہر کسی کا اتفاق ہے۔ تاہم اس کے بعد صرف اختلافات شروع ہوتے ہیں جیسا کہ یہ تہیں ایک دوسرے سے کیسے تعامل کرتی ہیں، تعامل کی وجہ کیا ہے، مستقبل میں ان کے تعامل کیسے ہوں گے، پر صرف اختلافات پائے جاتے ہیں۔
زمین کی بیرونی تہہ جو ہمیں دکھائی دیتی ہے، میں بہت اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ارضیات کی تقریباً تمام تر کتب میں درج ہے کہ سمندروں کے نیچے اس کی موٹائی 5 سے 10 کلومیٹر، براعظموں کے نیچے 40 کلومیٹر اور اونچے پہاڑوں کے نیچے 65 سے 95 کلومیٹر تک ہے۔ تاہم اس میں بہت ساری غیر معمولی باتیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً سیئرا نیواڈا پہاڑوں کے نیچے زمین کی یہ تہہ محض 30 سے 40 کلومیٹر موٹی ہے اور کسی کو علم نہیں کہ کیوں۔ جیوفزکس کے تمام تر قوانین کے مطابق سیئرا نیواڈا ایسے زمین میں دھنسنا چاہیئے جیسے کہ دلدل میں ڈوب رہا ہو (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پہاڑ ڈوب رہے ہیں)۔
زمین کی بیرونی تہہ کب اور کیوں بنی، اس کے جواب کی تلاش میں ماہرینِ ارضیات کے دو گروہ ہو جاتے ہیں۔ ایک کا خیال ہے کہ ایسا اچانک اور زمین کی پیدائش کے ابتدائی زمانے میں ہوا، دوسرے سمجھتے ہیں کہ ایسا بہت طویل عرصے میں اور بہت بعد میں جا کر ہوا۔ ایسے معاملات میں جذبات بہت گہرے ہوتے ہیں۔ یےل کے رچرڈ آرمسٹرانگ نے 1960 کی دہائی میں پہلا نظریہ پیش کیا اور بقیہ زندگی اس کی صفائیاں دیتے گزاری۔ اس کا انتقال 1991 میں کینسر سے ہوا اور مرتے دم تک اس کی تلخیاں جاری رہیں۔
زمین کی بیرونی سطح اور مینٹل کا بیرونی حصہ مل کر لتھو سفیئر (یونانی لفظ لتھوس یعنی ‘پتھر’) کہلاتے ہیں۔ اس کے نیچے موجود تہہ نرم پتھروں سے بنی ہے جسے استھینو سفیئر (یونانی لفظ، جس کا مطلب ‘طاقت کے بغیر‘ بنتا ہے) کہتے ہیں۔ تاہم ایسی اصطلاحات سے ماہرین کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ اب مندرجہ بالا تعریفوں سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اوپر والی تہہ نچلی تہہ پر تیر رہی ہو جو کہ غلط تصور ہے۔ اسی طرح پتھروں کا بہاؤ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جیسےکوئی مائع بہہ رہا ہو۔ پتھر کا بہنا ایسے ہی ہے جیسے شیشے کا بہنا۔ ایسا محسوس تو نہیں ہوتا لیکن زمین پر موجود ہر شیشہ کششِ ثقل کی وجہ سے نیچے کو بہہ رہا ہے۔ کسی پرانے یورپی گرجا گھر کی کھڑکی سے شیشہ اتاریں تو اس کا نچلا حصہ اوپری حصے کی نسبت کافی موٹا ہوگا (اس طرح کی باتیں اکثر جگہ لکھی ہوئی ہیں۔ تاہم اس کتاب کی اشاعت کے بعد 2003 کے موسمِ گرما میں برازیل کے سائنس دان پروفیسر ای ڈی زنوٹو نے ثابت کیا ہے کہ شیشہ چاہے جتنا بھی پرانا ہو، اس کے بہاؤ کو انسانی آنکھ نہیں ماپ سکتی)۔ اس قسم کے بہاؤ کے بارے ہم بات کر رہے ہیں۔ مینٹل کی چٹانوں کا ‘بہاؤ’ گھڑیال میں گھنٹے کی سوئی کی حرکت سے دس ہزار گنا سُست ہوتا ہے۔
یہ حرکات محض افقی ہی نہیں ہوتیں جیسا کہ زمینی پلیٹیں حرکت کرتی ہیں بلکہ یہ عمودی بھی ہوتی ہیں جیسا کہ چٹانیں اوپر نیچے ہوتی ہیں۔ اس عمل کو انگریزی میں Convection کہتے ہیں۔ اس عمل کے بارے سب سے پہلے سترہویں صدی کے کاؤنٹ وان رمفورڈ نے بتایا تھا۔ ساٹھ سال بعد ایک انگریز پادری اوسمونڈ فشر نے تجویز کیا کہ زمین کا اندرونی حصہ اتنا مائع شکل میں ہو سکتا ہے کہ وہ حرکت کرے۔ تاہم اس خیال کو جڑ پکڑنے میں بہت عرصہ لگا۔
1970 کے اوائل میں جب جیوفزسٹ سائنس دانوں کو علم ہوا کہ زمین کے اندر کتنی ہلچل مچی ہوئی ہے تو انہیں اس سے کافی جھٹکا لگا۔ اس بارے شانا وگل نے بہت مزے کا تبصرہ اپنی کتاب Naked Earth: The New Geophysics میں لکھا: یہ ایسے ہی ہے جیسے سائنس دان کئی دہائیوں سے زمین کی فضا میں ٹروپوسفیئر، سٹریٹوسفیئر وغیرہ پر کام کرتے رہے ہوں اور پھر اچانک انہیں علم ہو کہ ہوا بھی موجود ہے۔
تاہم اس بارے ابھی تک اتفاق نہیں ہو پایا کہ کنوکشن کا عمل کتنی گہرائی تک جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ 650 کلومیٹر کی گہرائی سے شروع ہوتا ہے جبکہ دوسروں کے خیال میں 3,000 کلومیٹر کی گہرائی سے۔ جیمز ٹریفل کے بقول، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس دو مختلف شعبوں سے آنے والے دو ڈیٹا ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے سے فرق ہیں۔ جیو کیمسٹس کے بقول زمین کی سطح پر موجود کئی معدنیات بالائی تہہ کی بجائے گہرائی سے آئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بالائی اور نچلی تہہ، دونوں بعض اوقات ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ جبکہ سائزمالوجسٹس کے مطابق اس کے کوئی شواہد موجود نہیں۔
یقین سے محض اتنا کہا جا سکتا ہے کہ جب ہم زمین کے مرکزے کی طرف جائیں تو ایستھینو سفیئر سے نکلتے ہی ہم مینٹل میں گھس جاتے ہیں۔ یہ حصہ زمین کے حجم کا 82 فیصد جبکہ کمیت کا 65 فیصد ہے۔ تاہم اس میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لیتا کیونکہ سائنس دانوں اور عام افراد کی دلچسپی کے مراکز یا تو بہت گہرائی میں ہیں جیسا کہ مقناطیسیت، یا پھر سطح کے قریب تر، جیسا کہ زلزلے۔ ہمیں علم ہے کہ ڈیڑھ سو کلومیٹر کی گہرائی پر مینٹل میں Peridotite نامی چٹانیں عام پائی جاتی ہیں لیکن اگلے 2,650 کلومیٹر تک کیا ہے، اس بارے ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ نیچر کی ایک رپورٹ کے مطابق شاید یہ Peridotite نہیں، لیکن اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں جانتے۔
مینٹل کے نیچے دو مرکزے ہیں۔ اندرونی مرکزہ ٹھوس ہے اور اس کے باہر ایک مائع مرکزہ۔ اب یہ کہنے کی تو شاید ضرورت نہ پڑے کہ ان مرکزوں کے بارے ہماری معلومات بالواسطہ ہیں لیکن سائنس دان مناسب حد تک اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ زمین کے مرکز میں دباؤ بہت زیادہ ہے جو سطح کی نسبت شاید 30 لاکھ گنا تک زیادہ ہے جس سے وہاں موجود ہر چٹان ٹھوس ہو جاتی ہے۔ انہیں زمین کی تاریخ (اور دیگر شواہد) سے یہ بھی علم ہے کہ اندرونی مرکزہ حرارت کو اپنے تک محدود رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ محض اندازہ ہی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ 4 ارب سال میں اس کا درجہ حرارت محض 110 ڈگری سینٹی گریڈ جتنا گرا ہے۔ زمین کے مرکزے کے اصل درجہ حرارت کے بارے تو کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن اندازہ ہے کہ 4٫000 سے 7٫000 ڈگری تک ہوگا، جو کہ سورج کی سطح کے برابر گرم ہے۔
بیرونی مرکزے کے بارے ہماری معلومات اس سے بھی کم ہیں۔ اگرچہ اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ بیرونی مرکزہ مائع حالت میں ہے اور یہ بھی کہ مقناطیسیت یہیں سے پیدا ہوتی ہے۔ 1949 میں کیمبرج یونیورسٹی کے ای سی بلارڈ نے نظریہ پیش کیا کہ مرکزے کا یہ مائع حصہ اس طرح گھومتا ہے کہ جیسے برقی موٹر گھومتی ہو، اور اس طرح مقناطیسیت پیدا کرتا ہے۔ یہ بھی بتایا کہ کنوکٹنگ فلوئڈز (کسی مائع میں موجود گرم اور ہلکے حصے کا اوپر کو اٹھنا اور کم گرم یا سرد اور بھاری حصے کا نیچے کو جانا) بجلی کی لہروں کی طرح کام کرتے ہیں۔ تاہم یہ عمل کیسے ہوتا ہے، اس بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم یہ کہنا بے جا نہیں کہ اس کا تعلق مرکزے کی گردش اور اس کے مائع ہونے سے ہے۔ ایسے اجرامِ فلکی جن میں مائع مرکزہ نہیں، جیسا کہ چاند اور مریخ، پر مقناطیسیت نہیں پائی جاتی۔
ہمیں علم ہے کہ زمینی مقناطیسی میدان کی طاقت وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے: ڈائنوساروں کے عہد میں یہ آج کی نسبت تین گنا زیادہ تھی۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ اوسطاً ہر پانچ لاکھ سال بعد اس کی سمت بدل جاتی ہے۔ یہ اوسط محض اوسط ہی ہے کہ پچھلی بار یہ تبدیلی ساڑھے سات لاکھ سال قبل ہوئی تھی۔ بعض اوقات اسے سمت بدلنے میں کروڑوں سال بھی لگ سکتے ہیں۔ سب سے طویل عرصہ لگ بھگ 3 کروڑ 70 لاکھ سال تھا۔ تاہم دوسری جانب بعض اوقات اس تبدیلی میں محض 20,000 سال لگے۔ پچھلے دس کروڑ سال میں یہ کم از کم 200 بار تبدیل ہوئی ہے اور ہمیں اس بارے کوئی علم نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اسے جغرافیائی سائنس کا سب سے بڑا معمہ قرار دیا جاتا ہے۔
شاید اس وقت بھی یہ تبدیلی جاری ہے۔ زمین کے مقناطیسی میدان میں پچھلی ایک صدی کے دوران 6 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ مقناطیسی کشش میں پیدا ہونے والی کمی بری خبر ہے کیونکہ یہ محض فریج پر نوٹ چپکانے یا کمپاس سے سمت دیکھنے کے ہی کام نہیں آتی بلکہ یہ ہمیں زندہ رکھنے کے لیے بہت اہم ہے۔ خلاء میں خلائی شعاعیں بھری پڑی ہیں اور اگر مقناطیسیت ختم ہو جائے تو یہ شعاعیں ہمارے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گی اور ہمارے ڈی این اے کا بہت بڑا حصہ بیکار ہو جائے گا۔ مقناطیسی میدان ان شعاعوں کو موڑ کر زمین کے قریب کے خلاء میں دو پٹیوں کی شکل میں بھیج دیتا ہے جسے ‘وان ایلم بیلٹس’ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بالائی فضاء میں یہی ذرات ‘انوارِ قطبی’ پیدا کرنے کا کام بھی کرتے ہیں۔
ہماری لاعلمی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ زمین کے اوپر اور اندر ہونے والے عوامل کو کبھی یکجا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ شانا ووگل کے مطابق ‘جغرافیہ دان اور جیو فزسٹ کبھی ایک میٹنگ میں نہیں آتے اور نہ ہی کسی مسئلے پر ایک ساتھ کام کرتے ہیں’۔
زمین کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کے بارے ہماری لاعلمی کی سب سے بڑی مثال شاید 1980 میں واشنگٹن کی ریاست میں سینٹ ہیلنز کے پھٹنے سے متعلق ہے۔
اس وقت نچلی 48 ریاستوں میں آتش فشاں پھٹے 65 سال گزر چکے تھے۔ اس لیے جب حکومت نے سینٹ ہیلنز کی نگرانی اور پیشین گوئی کے لیے آتش فشانوں کے ماہرین کو ملک بھر سے بلایا تو ان کا مشاہدہ محض ہوائی تک محدود تھا۔ جیسا کہ بعد میں علم ہوا، وہ بالکل ہی الگ نوعیت کے آتش فشاں ہیں۔
20 مارچ کو سینٹ ہیلنز میں ہلچل شروع ہوئی۔ اسی ہفتے میگما نکلنا شروع ہو گیا تاہم اس کی مقدار زیادہ نہیں تھی۔ میگما نکلنے کا عمل دن میں سو بار تک بھی دیکھا گیا۔ زلزلے بھی مسلسل محسوس ہوتے رہے۔ 13 کلومیٹر تک کے فاصلے سے لوگوں کو نکال لیا گیا۔ جوں جوں سینٹ ہیلنز کی ہلچل بڑھتی گئی سیاحوں کا رش لگنے لگا۔ اخباروں میں ہر روز مشاہدے کے لیے بہترین مقامات کی فہرستیں چھپنے لگیں۔ ٹی وی رپورٹر ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر کیمروں کے ساتھ پہاڑ کے اوپر جانے لگے اور کئی لوگ تو پیدل پہاڑ پر چڑھتے پائے گئے۔ ایک دن تو ستر ہیلی کاپٹر اور چھوٹے جہازوں نے چوٹی کا چکر لگایا۔ تاہم جوں جوں دن گزرتے گئے اور آتش فشاں نہ پھٹا تو لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی گئی۔ عام خیال تھا کہ آتش فشاں نہیں پھٹے گا۔
19 اپریل کو شمالی سرے پر ایک بڑا ابھار نمودار ہوا۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی بھی ذمہ دار فرد ایسا نہ تھا کہ جو اس کو پہلوئی دھماکے کی نشانی سمجھتا۔ ماہرین کا مشاہدہ ہوائی کے آتش فشانوں تک محدود تھا جو کبھی بھی پہلو سے نہیں پھٹتے۔ صرف ایک فرد، جسے دھماکے کا اندازہ ہوا، وہ ٹاکوما کے کمیونٹی کالج میں جغرافیہ کا پروفیسر جیک ہائیڈ تھا۔ اس نے بتایا کہ چونکہ سینٹ ہیلنز پر ہوائی کے آتش فشانوں کی مانند کوئی کھلا شگاف نہیں، اس لیے اس کے اندر کا دباؤ بے پناہ ہوگا اور اس سے پیدا ہونے والی تباہی بھی اسی حساب سے بہت بڑی ہوگی۔ چونکہ ہائیڈ سرکاری ٹیم کا حصہ نہیں تھا، اس لیے کسی نے اس کی بات کو سننے کی زحمت نہیں کی۔
آگے کیا ہوا، تاریخ کا حصہ ہے۔ 18 مئی کو صبح 8:32 پر اتوار کے روز شمالی سمت اپنی جگہ سے کھسکی اور اپنے ساتھ بے پناہ مقدار میں مٹی اور پتھر ساتھ لے کر نیچے کو تقریباً 250 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھسلی۔ انسانی تاریخ میں زمین کھسکنے کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔ اس کی مقدار اتنی تھی کہ پورے مین ہٹن کو 120 میٹر اونچائی تک بھر دیتی۔ ایک منٹ بعد جب پہاڑ کا پہلو کمزور ہوا تو سینٹ ہیلنز پھٹا تو اس کی شدت 27,000 ہیروشیما والے ایٹم بموں کے برابر تھی۔ انتہائی گرم بادل 1,050 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے نکلا جس سے بچ کر بھاگنا ممکن نہیں تھا۔ اکثر لوگ جو پہاڑ سے دور اور نظروں سے اوجھل تھے، بے خبری میں مارے گئے۔ کل 75 افراد ہلاک ہوئے۔ 23 لاشیں نہیں مل سکیں۔ اگر اتوار نہ ہوتا تو شاید ہلاکتیں کہیں زیادہ ہوتیں۔ عام طور پر اس کے پاس بہت سارے لکڑہارے بھی کام کر رہے ہوتے تھے۔ 30 کلومیٹر دور موجود لوگ بھی زندہ نہ بچ سکے۔
اس دن خوش نصیب ترین انسان ایک طالبعلم ہیری گلیکن تھا۔ وہ پہاڑ سے نو کلومیٹر دور مشاہدہ گاہ سے پہاڑ کا مشاہدہ کر رہا تھا لیکن 18 مئی کو اسے کیلیفورنیا ایک انٹرویو کو جانا پڑا۔ اس کی جگہ ڈیوڈ جانسٹسن آیا۔ اس نے سب سے پہلے آتش فشاں کے پھٹنے کی اطلاع دی اور چند لمحے بعد اپنی جان گنوا بیٹھا۔ اس کی لاش بھی کبھی نہیں مل پائی۔ گلیکن کی قسمت دیکھیے کہ گیارہ سال بعد وہ 43 سائنس دانوں اور صحافیوں کی اس ٹیم کا حصہ تھا جو جاپان میں ‘ماؤنٹ اُنزین’ پھٹنے کے نتیجے میں انتہائی گرم راکھ، گیسوں اور پگھلی چٹانوں کے بہاؤ میں پھنس کر اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اس آتش فشاں کو بھی انتہائی غلط سمجھا گیا۔
آتش فشانی ماہرین شاید پیشین گوئیاں کرنے میں سب سے برے نہ بھی ہوں لیکن انہیں اپنی پیشین گوئیوں کے بھیانک نتائج کا شاید ہی اندازہ ہوتا ہو۔ اُنزین والے مندرجہ بالا واقعے کے دو سال سے بھی کم عرصے کے بعد یونیورسٹی آف ایریزونا کے سٹینلے ولیمز کی سربراہی میں کولمبیا کے گالیراس آتش فشاں کے مشاہدے کے لیے ایک ٹیم اس کے منہ میں اتری۔ حالیہ اموات کے باوجود سولہ افراد میں محض دو افراد ہیلمٹ یا کسی اور طرح کے حفاظتی آلات اٹھائے ہوئے تھے۔ پہاڑ پھٹا اور 6 سائنس دان اور 3 سیاح، جو ان کے پیچھے آ رہے تھے، مارے گئے۔ ولیمز سمیت کئی دیگر شدید زخمی ہوئے۔
انتہائی حد تک خود پر تنقید سے گریز کرتے ہوئے ولیمز نے اپنی کتاب Surviving Galeras میں لکھا کہ ‘میں محض حیرت سے سر پکڑے بیٹھ گیا٬ جب اسے دنیا بھر سے آتش فشانوں کے دیگر ماہرین نے بتایا کہ کیسے اس نے اہم ترین علامات اور نشانیوں کو نظرانداز کیا تھا۔ واقعہ رونما ہونے کے بعد اس پر تنقید کرنا کتنا سہل ہے۔ آج کے علم کی روشنی میں 1993 میں رونما ہونے والے حادثے کو دیکھنا’۔ اس کے خیال میں اس کی غلطی محض اتنی سی تھی کہ اس نے نیچے اترنے کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا، عین اسی وقت قدرت نے آتش فشاں کو پھاڑا۔ ‘مجھ سے غلطی ہوئی اور اس کی ذمہ داری میرے سر ہے۔ تاہم اپنے ساتھیوں کی موت کی ذمہ داری میری نہیں اور نہ ہی مجھے شرمندگی ہے۔ وہ لوگ میری وجہ سے نہیں بلکہ آتش فشاں پھٹنے سے مرے تھے’
خیر، واشنگٹن واپس چلتے ہیں۔ ماؤنٹ سینٹ ہیلنز کا اوپری 400 میٹر جتنا حصہ غائب ہو گیا اور 600 مربع کلومیٹر پر مشتمل جنگل تباہ ہوا۔ اس جنگل کی لکڑی سے ڈیڑھ سے تین لاکھ گھر بنائے جا سکتے تھے۔ مالی نقصانات کا تخمینہ تقریباً 2.7 ارب ڈالر لگایا گیا۔ دھوئیں اور راکھ کا بادل دس منٹ میں 18,000 میٹر تک بلند ہو گیا۔ 48 کلومیٹر دور سے گزرنے والے ایک ہوائی جہاز پر کنکروں کی بوچھاڑ ہوئی۔
دھماکے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد واشنگٹن میں یاکیما کے مقام پر راکھ کا بادل برسنے لگا۔ یہاں پچاس ہزار لوگ رہتے تھے اور یہ جگہ دھماکے سے 130 کلومیٹر دور تھی۔ راکھ کی وجہ سے دن کو بھی رات کا سماں پیدا ہو گیا اور ہر چیز سے چپک گیا۔ کاروں کے انجن بند ہو گئے، جنریٹر اور دیگر برقی آلات ناکارہ ہو گئے، پیدل چلنے والے افراد کا دم گھٹنے لگا اور ہر چیز رک سی گئی۔ ایئرپورٹ اور شاہراہیں بند کرنی پڑیں۔
واضح رہے کہ یہ سب کچھ دھماکے والی جگہ سے نیچے کی جانب ہو رہا ہے جہاں ہوا کے رخ سے راکھ کا بادل پہنچا۔ یہ آتش فشاں دو ماہ سے گڑگڑا رہا تھا۔ یاکیما میں اس طرح کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ شہر میں ہنگامی حالات سے آگاہ کرنے والے نشریاتی نظام کو خودبخود چلنا چاہیئے تھا لیکن اس روز والا عملہ اسے چلانے میں ناکام رہا۔ مسلسل تین روز تک شہر کا رابطہ باقی دنیا سے کٹا رہا اور ایئرپورٹ اور سڑکیں بند رہیں۔ بحیثیتِ مجموعی شہر پر اوسطاً ڈیڑھ سینٹی میٹر جتنی راکھ کی تہہ گری۔ سوچیے کہ ییلو سٹون اگر پھٹے تو کیا آفت آئے گی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
15 خطرناک حسن​
1960 کی دہائی میں یونائیٹڈ سٹیٹس جیولاجیکل سروے کے باب کرسچیئنسن کو ییلو سٹون نیشنل پارک کے مطالعے کے دوران اس وقت شدید حیرت ہوئی جب اسے پارک کا آتش فشاں نہ مل سکا۔ مزید حیرت اس امر پر تھی کہ یہ بات پہلے کسی نے محسوس نہیں کی۔ طویل عرصے سے یہ بات واضح ہے کہ ییلو سٹون کی نوعیت آتش فشانی ہے جو کہ اس کے گرم پانی کے چشموں اور فواروں سے صاف ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ آتش فشاں دور سے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم کرسچیئنسن کو پارک کا آتش فشاں نہ مل پایا۔ سائنسی زبان میں یوں کہہ لیں کہ اسے کالڈرا نہیں ملا۔
ہم میں سے زیادہ تر افراد جب آتش فشاں کا سوچتے ہیں تو ذہن میں جاپان کے ماؤنٹ فیوجی یا افریقہ کے کلے منجارو جیسی مخروطی شکل آتی ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب آتش فشاں لاوے کو ہر سمت میں یکساں خارج کرے۔ ان کے بننے کا عمل بہت تیز بھی ہو سکتا ہے۔ 1943 میں میکسیکو میں ایک کسان نے اپنے کھیت سے دھواں اٹھتا دیکھا۔ ایک ہفتے بعد اس جگہ 152 میٹر اونچی مخروطی کون بن چکی تھی۔ دو سال میں اس کی اونچائی 430 میٹر تک جا پہنچی۔ دنیا میں ایسے دس ہزار سے زیادہ آتش فشاں ہیں جن میں سے اب محض چند سو ہی باقی رہ گئے ہیں۔ تاہم آتش فشاں کی ایک اور شکل بھی ہوتی ہے جو پہاڑ جیسی نہیں دکھائی دیتی۔ ایسے آتش فشاں جب پھٹتے ہیں تو اپنے پیچھے ایک بہت بڑا گڑھا چھوڑ جاتے ہیں۔ ییلو سٹون اسی دوسری قسم سے تعلق رکھتا ہے تاہم کرسچیئنسن کو کالڈرا نہیں مل سکا۔
اتفاق دیکھیے کہ انہی دنوں ناسا نے انتہائی بلندی پر کام کرنے والے چند نئے کیمروں کے امتحان کی غرض سے ییلو سٹون کی تصاویر کھینچیں اور کسی نے وہ تصاویر پارک کی انتظامیہ کو بھی بھجوا دیں۔ جونہی کرسچیئنسن نے ان تصاویر کو دیکھا، اسے فوراً علم ہو گیا کہ اسے کالڈرا کیوں نہیں ملا۔ درحقیقت پورے کا پورا پارک جو لگ بھگ 9,000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، کالڈرا ہے۔ دھماکے کے بعد پیدا ہونے والا گڑھا 65 کلومیٹر وسیع ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی شئے کو زمین پر کھڑے ہو کر تو نہیں دیکھا جا سکتا۔ ماضی میں کبھی ییلو سٹون جس قوت سے پھٹا ہوگا، اس کے بارے اندازہ لگانا ممکن نہیں۔
ییلو سٹون عام آتش فشاں نہیں بلکہ سپر آتش فشاں ہے۔ اس کے نیچے بہت بڑا حرارتی مقام موجود ہے جس میں پگھلی ہوئی چٹانیں سطح سے لگ بھگ 200 کلومیٹر نیچے موجود ہیں جو اوپر سطح تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس گرم مقام کی وجہ سے ییلو سٹون کے تمام گیزر اور گرم چشمے بنے ہیں۔ سطح کے نیچے میگما کا خانہ 72 کلومیٹر وسیع ہے جو پارک کے کل رقبے کے برابر ہے۔ بعض جگہوں پر اس کی موٹائی 13 کلومیٹر ہے۔ اندازہ کیجیے کہ اتنے بڑے رقبے پر 13 کلومیٹر اونچا بارود یا ڈائنامائٹ کا ڈھیر موجود ہو جو اونچے بادلوں سے بھی اوپر تک گیا ہو، تو آپ کو اندازہ ہو سکے گا کہ ییلو سٹون کے نیچے کیا بلا چھپی ہے۔ اس حرارت کے بے پناہ دباؤ کی وجہ سے ییلو سٹون آس پاس کے مقامات کی نسبت آدھا کلومیٹر زیادہ اونچا ہے۔ اگر یہ آتش فشاں پھٹا تو اس سے ہونے والی تباہی کا اندازہ لگانا ہمارے بس کی بات نہیں۔ یونیورسٹی کالج آف لندن کے پروفیسر بِل میک گوئر کے مطابق جب یہ آتش فشاں پھٹ رہا ہوگا تو اس کے ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ قریب جانا ممکن نہیں ہوگا۔ تاہم پھٹنے کے بعد پیدا ہونے والی تباہی کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ ییلو سٹون جیسے آتش فشاں کی شکل جام جیسی ہوتی ہے۔ نیچے سے اوپر جاتے ہوئے ان کی چوڑائی کم ہوتی ہے لیکن سطح کے قریب جا کر یہ بہت پھیل جاتے ہیں جس میں موجود میگما یعنی لاوا متحرک رہتا ہے۔ بعض مقامات پر ان کی چوڑائی 1900 کلومیٹر تک بھی ہو سکتی ہے۔ موجودہ نظریات کے مطابق یہ پہاڑ دھماکے سے پھٹنے کی بجائے مسلسل لاوے کو باہر پھینکتے رہتے ہیں۔ ساڑھے چھ کروڑ سال قبل انڈیا میں دکن کے مقام پر ایسا ہی آتش فشاں پھٹا تھا جس سے نکلنے والا لاوا پانچ لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیل گیا اور ڈائنو ساروں کے خاتمے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ ان سے نکلنے والی زہریلی گیسوں سے بہت نقصان ہوا ہوگا۔ ان کی وجہ سے ہی شاید عظیم کھائیاں بنتی ہوں گی جو براعظم توڑنے کا سبب بنتی ہیں۔
ایسے اجسام نایاب نہیں۔ اس وقت زمین پر 30 سے زیادہ ایسے زندہ اجسام موجود ہیں اور انہی کی وجہ سے دنیا کے بہترین جزائر کے سلسلے وجود میں آئے ہیں، مثلاً آئس لینڈ، ہوائی، آزور، کناری اور گیلاپیگوس وغیرہ۔ تاہم ییلو سٹون کے علاوہ باقی تمام تر زیرِ آب ہیں۔ اس بارے کسی کو علم نہیں کہ ییلو سٹون کیسے برِاعظمی پلیٹ کے نیچے بنا۔ دو باتیں تو واضح ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ییلو سٹون کے نیچے کی تہہ بہت پتلی ہے اور یہ کہ اس کے نیچے کی دنیا بہت گرم ہے۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تہہ نیچے موجود گرم مواد کی وجہ سے پتلی ہے یا پھر یہ کہ گرم مواد اس لیے یہاں جمع ہوا ہے کہ اس کے اوپر کی تہہ پتلی ہے۔ براعظمی تہہ کی نوعیت سے ان سپر آتش فشانوں کے پھٹنے پر بھی فرق پڑتا ہے۔ دیگر سپر آتش فشاں آہستہ آہستہ اور مستقل رفتار سے لاوا اگلتے ہیں لیکن ییلو سٹون انتہائی بڑے دھماکے سے پھٹتا ہے۔ اگرچہ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے لیکن جب ہوتا ہے تو اس کی تباہی سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ہماری معلومات میں سب سے پہلے ییلو سٹون 1 کروڑ 65 لاکھ سال قبل پھٹا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک لگ بھگ سو مرتبہ پھٹ چکا ہے لیکن آخری تین مرتبہ جب پھٹا تو اس کے بارے ہمیں زیادہ معلومات ہیں۔ آخری بار یہ ماؤنٹ سینٹ ہیلنز سے لگ بھگ 1,000 گنا زیادہ، اس سے قبل اس کی شدت 280 گنا جبکہ اس سے پہلے والے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس کے بارے کوئی اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ شاید 2,500 سے 8,000 گنا زیادہ بڑا دھماکہ ہوا ہو۔
اس کا مقابلہ کرنے کو ہمارے پاس کوئی پیمانہ نہیں۔ حالیہ تاریخ میں ہونے والا سب سے بڑا دھماکہ انڈونیشیا میں کراکاٹو میں اگست 1883 میں ہوا تھا اور اس کی گونج نو دن تک دنیا کے گرد گھومتی رہی۔ زلزلے کی شدت سے رودبارِ انگلستان یعنی انگلش چینل کا پانی کناروں سے چھلک گیا۔ اب فرض کریں کہ کراکاٹو سے نکلنے والے مواد کی مقدار اگر گولف کی گیند کے برابر ہو تو ییلو سٹون سے نکلنے والے مواد سے بننے والی گیند آپ کے قد سے زیادہ بڑی ہوگی۔ اس پیمانے پر ماؤنٹ ہیلنز سے نکلنے والے مواد کی مقدار محض مٹر کے دانے کے برابر ہوگی۔
20 لاکھ سال قبل ییلو سٹون کے پھٹنے سے نکلنے والے مواد سے نیو یارک کی پوری ریاست پر راکھ کی تہہ 20 میٹر یا پھر کیلیفورنیا پر یہ تہہ 6 میٹر اونچی ہوتی۔ راکھ کی اسی تہہ نے مائیک ورہیز والے مشرقی نبراسکا والے متحجرات کے میدان یعنی فاسل بیڈ بنائے۔ لاکھوں سال قبل جب یہ دھماکہ ہوا تو یہ مقام آج کے ایڈاہو کے نیچے تھا۔ تاہم بعد میں اڑھائی سینٹی میٹر سالانہ کی رفتار سے زمین کی سطح اس پر حرکت کرتی رہی اور آج یہ شمال مغربی وایومنگ کے نیچے ہے (اصل مقام تو اسی جگہ رہتا ہے، اوپری سطح حرکت کرتی ہے)۔ اس حرکت کے نتیجے میں انتہائی زرخیز مٹی جمع ہوتی رہتی ہے جس پر آلو کی بہترین فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایڈاہو کے کسانوں کو یہ بات طویل عرصے سے معلوم ہے۔ ماہرینِ ارضیات مذاق میں کہتے ہیں کہ اگلے بیس لاکھ سال میں ییلو سٹون میں میک ڈونلڈز کے فرنچ فرائیز اگیں گے اور مونٹینا میں بلنگز کے رہائشی لوگ گرم پانی کے چشموں پر کودتے پھر رہے ہوں گے۔
ییلو سٹون کے آخری دھماکے سے نکلنے والی راکھ کی تہہ نے اس وقت امریکہ کی مغربی 19 ریاستوں کو کلی یا جزوی طور پر ڈھانپ لیا اور کینیڈا اور میکسیکو کے کچھ علاقے بھی متاثر ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ علاقہ امریکہ میں زراعت کا مرکز ہے اور دنیا بھر میں پیدا ہونے والے غلے کا نصف یہاں سے آتا ہے۔ یہ راکھ کوئی برف نہیں ہوتی کہ موسم بدلتے ہی پگھل جائے گی۔ اگر آپ راکھ سے متاثرہ علاقے میں پھر سے کاشتکاری کرنا چاہیں تو آپ کو یہ ساری راکھ ہٹانی ہوگی۔ یاد رہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دو ارب ٹن سے بھی کم وزن کے ملبے کو ساڑھے چھ ہیکٹر رقبے سے صاف کرنے کے لیے ہزاروں کارکنوں نے آٹھ ماہ لگائے۔ اندازہ کریں کہ اگر یہ صفائی کینساس جیسی پوری ریاست میں کرنی ہو۔
ابھی تو ہم نے ایسے واقعے سے ماحول پر ہونے والے اثرات کی بات نہیں سوچی۔ کرہ ارض پر آخری بار سپر آتش فشاں 74,000 سال قبل ٹوبا کے مقام پر شمالی سماٹرا میں پھٹا تھا۔ اس کی شدت کا درست اندازہ لگانا تو ممکن نہیں لیکن یہ انتہائی عظیم شدت سے پھٹا تھا۔ گرین لینڈ میں برفانی تہوں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ٹوبا کے دھماکے کے بعد کم از کم چھ سال تک ‘آتش فشانی سردیاں’ رہیں یعنی گرمیاں آئی ہی نہیں۔ اس کے بعد کتنے برس تک فصلوں کی اگائی کا موسم متاثر رہا ہوگا، کچھ کہنا ممکن نہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دھماکے سے نسلِ انسانی معدومیت کے کنارے تک پہنچ گئی تھی اور پوری دنیا میں محض چند ہزار افراد ہی باقی بچے۔ یعنی آج ہر زندہ انسان اسی چھوٹے سے گروہ سے نکلا ہے۔ انسانی جین میں تغیر کا نہ ہونا اسی بات کا ثبوت ہے۔ چند شواہد اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اگلے کئی ہزار سال تک انسانی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہو پائی۔ اب یہ کہنا بیکار ہے کہ محض ایک آتش فشاں کے ایک بار پھٹنے کے بعد حالات معمول پر آنے پر اتنا عرصہ لگا۔
اس بات کو محض ایک نظریے کے طور پر اہمیت دی جاتی تھی لیکن 1973 میں ہونے والے ایک واقعے نے سارے معاملے کو اچانک مشہور کر دیا۔ ییلو سٹون جھیل جو کہ پارک کے عین وسط میں ہے، کے ایک کنارے سے پانی بہنے لگا اور دوسرے کنارے سے پانی کی سطح اچانک نیچی ہونے لگی۔ ماہرینِ ارضیات نے عجلت میں معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ پارک کے ایک بڑے حصے میں ابھار نمودار ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے جھیل کا ایک کنارہ اونچا اور ایک نیچا ہو گیا۔ 1984 تک پارک کا وسطی علاقہ جو کہ سو مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ وسیع ہے، 1924 کے آخری سروے کی نسبت ایک میٹر زیادہ اونچا ہو چکا تھا۔ 1985 میں پارک کا یہ حصہ اچانک 8 انچ جتنا دھنس گیا۔ اب یہ پھر ابھر رہا ہے۔ ماہرینِ ارضیات کے خیال میں محض یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ اس کے نیچے میگما کا متحرک خانہ ہے۔ یاد رہے کہ ییلو سٹون کسی پرانے آتش فشاں کی یادگار نہیں بلکہ زندہ آتش فشاں ہے۔ اس کے علاوہ سائنس دانوں نے تحقیق کی ہے کہ ییلو سٹون اوسطاً ہر چھ لاکھ سال بعد پھٹتا ہے۔ اس بار اس کو پھٹے ہوئے 6 لاکھ 30 ہزار سال ہو چکے ہیں۔ یعنی کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔
ییلو سٹون پارک کے ماہرِ ارضیات پال ڈوس نے اپنے ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکل سے اتر کر مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا، ‘اگرچہ آپ کو ایسا محسوس نہیں ہوگا لیکن اس وقت آپ دنیا کے سب سے بڑے اور زندہ آتش فشاں پر کھڑے ہیں’۔ ہماری یہ ملاقات ییلو سٹون نیشنل پارک کے مرکزی دفتر میمتھ ہاٹ سپرنگز پر جون کے اوائل میں ہوئی۔ ڈوس خود تو انڈیانا سے تعلق رکھتا ہے لیکن نرم لہجے میں بات کرنے والا یہ مہربان شخص کسی طور بھی نیشنل پارک سروس سے متعلق نہیں لگتا۔ اس کی داڑھی میں سفید بال آنے لگ گئے ہیں اور لمبے بالوں کی پونی بنائی ہوئی ہے۔ ایک کان میں بالی بھی پہن رکھی ہے۔ یونیفارم میں پیٹ ہلکا سا نکلا ہوا ہے۔ سرکاری ملازم سے زیادہ موسیقار لگتا ہے اور درحقیقت موسیقار ہے بھی۔ تاہم اس کی اصل محبت ارضیات کا علم ہے۔ پرانی جیپ میں جب ہم ‘اولڈ فیتھ فل’ کی جانب روانہ ہوئے تو اس نے کہا، ‘مجھے ارضیات کے علم سے محبت ہے اور میں اس علم کے لیے دنیا کے بہترین مقام پر کام کر رہا ہوں’۔ ہم نے طے کیا تھا کہ میں ایک دن اس کے ساتھ گزاروں گا تاکہ دیکھ سکوں کہ اس پارک کے ماہرِ ارضیات کون سے کام روزانہ کرتے ہیں۔ آج اس کا پہلا کام نئے بھرتی ہونے والے گائیڈوں سے تعارفی بات چیت تھی۔
ییلو سٹون کے بارے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ انتہائی دلفریب اور خوبصورت ہے جس میں جگہ جگہ خوبصورت پہاڑ، جنگلی بھینسوں سے بھرے گھاس کے میدان، بہتی نہریں، نیلے رنگ کی جھیل اور جنگلی حیات شمار سے باہر ہے، موجود ہیں۔ ڈوس نے بتایا، ‘اگر آپ ماہرِ ارضیات بھی ہوں تو یہ جگہ جنت سے کم نہیں ہے۔ یہاں ایک جگہ آپ کو تقریباً تین ارب سال پرانی چٹانیں ملتی ہیں جو زمین کی پیدائش سے اب تک کے وقت کے تین چوتھائی کے برابر ہیں، گرم معدنی چشمے بھی ہیں جہاں آپ ان چٹانوں کو جنم لیتا دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر چیز جس کا آپ تصور کر سکیں، یہاں موجود ہے۔ ارضیات کے لیے اس سے بہتر اور خوبصورت جگہ کا تصور ممکن نہیں ہے’۔
میں نے پوچھا، ‘آپ کو یہ پسند ہے؟’
‘بہت زیادہ۔ اگرچہ سردیوں کا موسم سخت ہوتا ہے اور تنخواہ زیادہ اچھی نہیں لیکن پھر بھی۔ ۔ ۔ ‘ اس نے جواب دیا۔
اچانک اس نے ایک چڑھائی پر گاڑی روک کر مجھے افق پر موجود ایک منظر کی طرف متوجہ کیا جو چڑھائی چڑھتے ہوئے اچانک سامنے آیا۔ دو پہاڑی سلسلے میں ایک بہت بڑا سوراخ سا دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس جگہ کو ‘گلاٹینز’ کہتے ہیں۔ ‘اس سوراخ کا قطر ساٹھ یا ستر میل ہے۔ عرصے تک کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ یہ سوراخ یہاں کیوں ہے۔ تاہم باب کرسچینسز کو علم ہو گیا کہ اس جگہ پہاڑ تھے جو آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے مٹ گئے۔ اندازہ کریں کہ اس آتش فشاں کی تباہی کی نوعیت کیا ہوگی کہ جس کے پھٹنے سے ساٹھ میل جتنے پہاڑ صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہوں۔ کرسیچنسز کو یہ معمہ حل کرنے میں چھ سال لگے’۔
میں نے پوچھا کہ ییلو سٹون آتش فشاں کے پھٹنے کی کیا وجہ رہی ہوگی۔
‘معلوم نہیں۔ کسی کو بھی علم نہیں۔ آتش فشاں بہت عجیب ہوتے ہیں۔ کسی کو بھی ان کی سمجھ نہیں آتی۔ مثال کے طور پر اٹلی میں ویسی ویوس نامی آتش فشاں مسلسل تین سو سال تک زندہ رہا اور 1944 میں پھٹنے کے بعد سے اچانک خاموش ہو گیا ہے۔ بعض ماہرین کے خیال میں یہ پہاڑ اب زیادہ بڑی شدت سے پھٹنے کی تیاری میں ہے۔ اس پہاڑ کے آس پاس بیس لاکھ سے زیادہ افراد رہتے ہیں۔ تاہم کوئی نہیں جانتا’۔
‘آپ کے خیال میں ییلو سٹون کے پھٹنے سے کتنا پہلے ہمیں انتباہ مل سکتا ہے’؟
کندھے اچکاتے ہوئے اس نے جواب دیا، ‘پچھلی بار جب یہ پھٹا تو کوئی یہاں نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں ہرگز اندازہ نہیں ہے کہ انتباہی علامات کیسی ہوں گی۔ عین ممکن ہے کہ کافی زلزلے آئیں، بعض جگہوں پر زمین اوپر نیچے ہو اور شاید گرم فواروں کا رویہ بدل جائے۔ تاہم کوئی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا’۔
‘یعنی بغیر کسی انتباہ کے یہ پھٹ سکتا ہے’؟
اس نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلایا۔ پھر اس نے وضاحت کی کہ عام طور پر آتش فشاں کے پھٹنے سے قبل کی جو انتباہی علامات ہوتی ہیں، وہ سب کی سب کم و بیش پہلے سے ہی ییلو سٹون میں موجود ہیں۔ ‘کسی آتش فشاں کے پھٹنے سے قبل زلزلے ایک عام بات ہوتی ہے لیکن ییلو سٹون میں اب پچھلے سال کے دوران 1260 زلزلے آئے۔ ان کی اکثریت اتنی معمولی ہوتی ہے کہ انہیں محسوس نہیں کر سکتے لیکن پھر بھی وہ زلزلے تو ہوتے ہی ہیں’۔
گیزر کے معمول میں آنے والی تبدیلی بھی اچھی علامت ہوتی ہے لیکن ان کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ پارک کے مشہور ترین گیزروں میں سے ایک ایکسلسیئر گیزر تھا جو باقاعدگی سے پھٹتا اور پانی کو سو میٹر تک کی بلندی تک اچھالتا۔ تاہم 1890 میں اچانک رک گیا۔ 1985 میں پھر چلنے لگا اور اس کی بلندی اب محض 25 میٹر رہ گئی۔ سٹیم بوٹ گیزر دنیا کا سب سے بڑا گیزر ہے جو پانی کو 120 میٹر تک اچھالتا ہے لیکن بعض اوقات یہ چار روز کے بعد پھٹتا ہے تو کبھی پچاس برس کے بعد۔ ‘اگر یہ آج پھٹے اور پھر اگلے ہفتے بھی، تو بھی ہمیں اندازہ نہیں کہ اگلی بار اس کے ایک ہفتے بعد پھٹے گا کہ بیس برس بعد’۔ ڈوس نے کہا۔ ‘پورا پارک اس حالت میں ہے کہ کسی بھی واقعے سے نتیجہ نکالنا ممکن نہیں’۔
ییلو سٹون سے انخلا کبھی آسان کام نہیں رہا۔ پارک میں ہر سال 30 لاکھ سے زیادہ سیاح آتے ہیں جن کی اکثریت گرمیوں کے تین ماہ میں آتی ہے۔ پارک کی سڑکیں چند ایک ہیں اور ان کو جان بوجھ کر تنگ رکھا گیا ہے تاکہ ٹریفک تیز نہ ہو یا پھر خوبصورتی کو برقرار رکھنا ہو یا پھر یہ کہ اس مقام پر زیادہ کھلی سڑک ممکن نہیں ہوتی۔ گرمیوں کے دوران پارک سے گزرنے میں نصف دن لگ جاتا ہے اور پارک کے اندر ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے میں گھنٹوں لگتے ہیں۔ ‘لوگوں کو جہاں بھی جنگلی حیات دکھائی دیتی ہے، وہ وہیں رک جاتے ہیں۔ کبھی ریچھ کی وجہ سے، کبھی جنگلی بھینسوں کی وجہ سے تو کبھی بھیڑیوں کی وجہ سے ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔’ ڈوس نے بتایا۔
2000 کی خزاں میں امریکی محکمہ ارضیات اور نیشنل پارک سروسز کے نمائندوں نے بعض تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر ییلو سٹون وولکینک آبزرویٹری بنائی۔ ہوائی، کیلیفورنیا اور الاسکا میں ایسے ادارے پہلے سے موجود ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے آتش فشاں پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ تاہم یہ آبزرویٹری کوئی باقاعدہ محکمہ نہیں بلکہ ایک معاہدہ ہے کہ یہ سب افراد مل کر پارک کی متنوع جیالوجی پر نگاہ رکھیں گے۔ ان کا پہلا کام یہ تھا کہ پارک میں زلزلوں اور آتش فشانی صورتحال میں کام کرنے کے لیے پلان بنانا تھا کہ ایسے کسی حالات سے کیسے نمٹا جائے۔
‘کیا ایسا کچھ پہلے سے موجود نہیں تھا’؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔
‘نہیں۔ لیکن امید ہے کہ جلد ہی ہو جائے گا’۔
‘کچھ زیادہ تاخیر سے نہیں بن رہا’؟
اس نے مسکرا کر جواب دیا، ‘یوں کہہ لیں کہ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی’۔
جب پلان بن جائے گا تو تین لوگ، جن میں سے کیلیفورنیا کے مینلو پارک سے کرسچیئنسن، یونیورسٹی آف یوٹاہ سے پروفیسر رابرٹ بی سمتھ اور پارک سے ڈوس، تینوں مل کر کسی بھی ہنگامی صورتحال کی شدت کا جائزہ لیں گے کہ خطرے کی نوعیت اور شدت کیا ہے اور پھر پارک کے سپرنٹنڈنٹ کو مشورہ دیں گے۔ سپرنٹنڈنٹ فیصلہ کرے گا کہ آیا پارک کو خالی کرنا ہے یا نہیں۔ تاہم آس پاس کے علاقوں کے لیے کوئی منصوبہ نہیں۔ جب کسی ہنگامی صورتحال میں پارک کے گیٹ سے نکلیں گے تو اپنی صوابدید پر ہوں گے۔ تاہم اگر ییلو سٹون پوری شدت سے پھٹا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا۔
عین ممکن ہے کہ ایسی صورتحال کئی ہزار سال بعد پیش آئے۔ ڈوس کے خیال میں ایسا دن کبھی نہیں آئے گا۔ ‘اگر یہ آتش فشاں ماضی میں ایک ترتیب سے پھٹتا رہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آئندہ بھی ایسے ہی ہوگا۔ ایسے شواہد ہیں کہ بہت مرتبہ تباہ کن انداز سے پھٹنے کے بعد آتش فشاں لمبے عرصے کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ابھی ایسا ہی کوئی وقفہ چل رہا ہو۔ اس بات کے شواہد ہیں کہ میگما چیمبر ٹھنڈا ہوتے ہوئے قلمی شکل اختیار کر رہا ہے۔ اس کے بخارات استعمال ہو رہے ہیں۔ پھٹنے کے لیے بخارات کو جمع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے’۔
اس کے علاوہ بھی ییلو سٹون کے اندر اور آس پاس دیگر کئی خطرات بھی ہیں۔ 17 اگست 1959 کی رات کو ہیبگن جھیل پر اچانک شدید زلزلہ آیا۔ اس کی شدت 7.5 تھی۔ اگرچہ یہ زلزلہ مقامی نوعیت کا تھا لیکن اس سے پہاڑ کی ایک پوری جانب گر گئی۔ اس وقت گرمیوں کا موسم تھا لیکن خوش قسمتی سے زیادہ سیاح نہیں تھے۔ 8 کروڑ ٹن پتھر اور چٹانیں 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پہاڑ سے گرے اور اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ یہ ملبہ درمیانی وادی عبور کر کے دوسرے کنارے کے پہاڑ پر 120 میٹر تک جا چڑھا۔ اس کے راستے میں راک کریک کیمپنگ کی جگہ آئی تھی۔ 28 کیمپر ہلاک ہوئے جن میں 19 اتنے گہرے دفن ہوئے کہ آج تک ان کی لاشیں نہیں مل پائیں۔ تباہی انتہائی سریع سہی لیکن کسی وقت بھی دوبارہ رونما ہو سکتی ہے۔ تین بھائی ایک خیمے میں سو رہے تھے جو بچ گئے لیکن دوسرے خیمے میں ان کے والدین ملبے میں بہہ گئے اور ان کی لاشیں کبھی نہیں مل پائیں۔
‘ایک بڑا، حقیقت میں بہت بڑا زلزلہ کسی وقت بھی آ سکتا ہے۔ یقین کریں۔ یہ جگہ بہت بڑی فالٹ زون پر واقع ہے۔’ ڈوس نے بتایا۔
ہیبگن جھیل اور اس جیسے دیگر واقعات اور خطرات کے باوجود ییلو سٹون میں مستقل سائزمومیٹر 1970 کی دہائی میں نصب کیے گئے۔
جغرافیائی عوامل کتنے طاقتور ہوتے ہیں، اس کی مثال ییلو سٹون نیشنل پارک کے باہر جنوبی سمت موجود ٹیٹون پہاڑی سلسلہ دیکھیں۔ آج سے 90 لاکھ سال قبل اس جگہ گھاس کے میدان تھے۔ پھر اچانک زمین کے اندر 64 کلومیٹر لمبا فالٹ نمودار ہوا اور اس کے بعد اوسطاً ہر نو سو سال بعد بہت بڑا زلزلہ آتا ہے جو ان پہاڑوں کو دو میٹر جتنا مزید بلند کر دیتا ہے۔ اس طویل عرصے میں انہی جھٹکوں کی وجہ سے یہ پہاڑ موجودہ بلندی تک پہنچے ہیں جو 2,000 میٹر کے لگ بھگ ہے۔
دو ماہرین رابرٹ بی سمتھ اور لی جے سیگل نے اپنی کتاب Windows into the Earth میں لکھا ہے کہ یہ 900 سال محض ایک اوسط ہے۔ پچھلی بار اس جگہ بہت بڑا زلزلہ 5,000 سے 7,000 سال پہلے آیا تھا۔ آج دنیا میں یہ سب سے زیادہ تاخیر کا شکار زلزلہ ہے۔
شدید گرم پانی کا اچانک اخراج بھی ایک خطرہ ہے جو بغیر اطلاع دیے کہیں بھی اور کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ جب ہم اولڈ فیتھ فل کو دیکھ کر فارغ ہوئے تو ڈوس نے بتایا, ‘ہم جان بوجھ کر سیاحوں کو تھرمل بیسن میں جمع کرتے ہیں۔ وہ لوگ یہی چیزیں دیکھنے آتے ہیں۔ آپ کو علم ہے کہ ییلو سٹون کے گیزر اور گرم پانی کے چشموں کی تعداد باقی دنیا بھر کے گیزروں اور گرم پانی کے چشموں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے’؟
‘مجھے علم نہیں تھا’۔
‘دس ہزار۔ اور آج بھی کوئی نہیں جانتا کہ کہاں نیا سوراخ کھل جائے’۔
پھر ہم گاڑی پر سوار ہو کر ڈک لیک پہنچے۔ اس جگہ دو سو میٹر چوڑی جھیل تھی۔ ‘یہ بالکل سادہ سی جھیل لگتی ہے لیکن پندرہ ہزار سال قبل یہ یہاں نہیں تھی۔ یہاں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا جس میں کروڑوں ٹن وزنی پتھر اور مٹی کے علاوہ شدید گرم پانی آواز سے بھی تیز رفتار سے نکلا ہوگا۔ اب سوچیں کہ اگر یہی واقعہ آج پارک کی پارکنگ کے نیچے ہو جائے تو۔’ اس نے اداسی سے کہا۔
‘بغیر کسی تنبیہ کے’؟
‘ہمم۔ پارک میں آخری بار ایسا دھماکہ پورک چاپ گیزر میں 1989 میں ہوا۔ نتیجے کے طور پر پانچ میٹر چوڑا گڑھا بنا۔ اگر آپ اس کے پاس کھڑے ہوتے تو جان بھی جا سکتی تھی۔ خوش قسمتی سے اس وقت کوئی پاس نہیں تھا تاہم یہ دھماکہ بغیر کسی انتباہ کے ہوا۔ ماضی قدیم میں ایسے دھماکے بھی ہوئے تھے کہ جن کے نتیجے میں بننے والے گڑھے ایک میل چوڑے تھے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلی بار یہ دھماکہ کب اور کہاں ہوگا۔ دعا کیجیے کہ آپ اس وقت وہاں موجود نہ ہوں’۔
بڑی چٹانوں کے گرنے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ ایک ایسی چٹان 1999 میں گارڈینر کینین میں گری لیکن خوش قسمتی سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ سہہ پہر کو ڈوس اور میں ایک جگہ رکے جہاں پارک کی مصروف سڑک کے عین اوپر ایک بڑی چٹان جھکی ہوئی تھی۔ ڈوس نے کہا، ‘یہ کسی بھی وقت گر سکتی ہے’۔
‘مذاق نہ کریں’ میں ںے کہا کیونکہ اس کے نیچے سے مسلسل کاریں گزر رہی تھیں اور ہر کار میں لوگ ٹھنسے ہوئے تھے۔
‘ارے نہیں۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ایسا ہوگا، یہ محض ایک امکان کی بات تھی۔ عین ممکن ہے کہ کئی دہائیوں تک نہ گرے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ لوگوں کو اپنی مرضی سے یہ خطرہ قبول کرنا ہوتا ہے’۔
جب ہم واپس اس کی گاڑی کو لوٹے تاکہ پارک کے دفتر جا سکیں تو اس نے بتایا، ‘اصل بات یہ ہے کہ عام طور پر کوئی حادثہ نہیں ہوتا۔ پتھر نہیں گرتے۔ زلزلے نہیں آتے۔ زمین میں نئے سوراخ نہیں ہوتے۔ تمام تر عدم استحکام کے باوجود ایسا کیوں نہیں ہوتا، کہنا مشکل ہے’۔
میں نے کہا، ‘زمین کی مانند’؟
اس نے جواب دیا، ‘بالکل’۔
یہ خطرات سیاحوں کے لیے اور پارک کے عملے کے لیے بھی یکساں ہوتے ہیں۔ پانچ سال قبل ڈوس کو اس پارک میں آتے ہی پہلے ہفتے میں ایک خوفناک واقعہ سننے کو ملا۔ تین عارضی ملازمین رات گئے گرم چشموں میں نہانے جیسی غیر قانونی حرکت کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ پارک والے کبھی کسی سیاح کو یہ تو نہیں بتاتے کہ ہر چشمہ خطرناک حد تک گرم نہیں ہوتا۔ بعض تو انتہائی خوشگوار حد تک گرم ہوتے ہیں۔ بعض عارضی ملازمین کا یہ معمول تھا کہ رات گئے وہ لوگ ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان چشموں پر نہانے جاتے تھے۔ بدقسمتی سے ایک روز وہ اپنے ساتھ ٹارچ لانا بھول گئے جو کہ انتہائی خطرناک بات تھی کیونکہ اکثر گرم چشموں کے کناروں کی مٹی انتہائی بھربھری ہوتی ہے اور اگر ٹوٹ جائے تو بندہ سیدھا انتہائی گرم چشمے میں جا گرتا ہے۔ خیر یہ لوگ مطلوبہ چشمے تک پہنچ تو گئے لیکن واپسی کے سفر میں انہیں وہ چھوٹی ندی دکھائی دی جسے پھلانگ کر وہ آئے تھے۔ تینوں تھوڑا سا پیچھے ہٹے اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر تینوں نے بھاگ کر ندی عبور کرنے کے لیے چھلانگ لگائی۔ ان کے سامنے چھوٹی سی ندی نہیں بلکہ ابلتے ہوئے پانی کا تالاب تھا۔ شاید اندھیرے کی وجہ سے وہ راستہ بھول گئے تھے۔ تینوں میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا۔
اگلے روز اپر گیزر بیسن میں واقع ایمارلڈ پول کو فون کرتے وقت میں اسی واقعے کے بارے سوچ رہا تھا۔ وقت کی کمی کے باعث ڈوس مجھے وہاں نہ لے جا سکا تھا۔ تاریخی مقام ہونے کی وجہ سے میرا خیال تھا کہ ایک چکر لگاتا جاؤں۔
1965 میں میاں بیوی ماہرینِ حیاتیات تھامس اور لوئیز بروک نے اپنے گرمائی تحقیقاتی دورے میں ایک عجیب کام کیا۔ انہوں نے اس تالاب کے کنارے جمی ہوئی زرد رنگ کی تہہ کو کھرچا تاکہ اس میں کسی زندہ جاندار کو تلاش کر سکیں۔ پہلے ان کی اور پھر پوری دنیا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہیں اس میں زندہ خوردبینی جاندار ملے۔ انہوں نے دنیا کے پہلے Extremophiles تلاش کر لیے تھے۔ ایسے جاندار جو ایسے پانی میں رہتے ہوں جنہیں بہت زیادہ گرم یا تیزابی یا گندھک سے بھرپور سمجھا جاتا ہے اور جہاں زندگی ممکن نہیں سمجھی جاتی تھی۔ ایمارلڈ پول میں کم از کم دو مختلف بیکٹیریا ملے جو Sulpholobus acidocaldarius اور Thermophilus aquaticus تھے۔ اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ کوئی بھی جانور 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ گرم ماحول میں زندہ نہیں رہ پاتا۔ یہاں موجود بیکٹیریا اس سے تقریباً دو گنا گرم پانی میں زندہ اور خوش تھے جبکہ پانی کافی تیزابی بھی تھا۔
تقریباً بیس سال تک بروکس کے دریافت کردہ بیکٹیریا میں سے ایک Thermophilus aquaticus لیبارٹری کی حد تک معمہ بنا رہا۔ ایک دن کیلیفورنیا کے ایک سائنس دان کیری بی مولیس نے کو پتہ چلا کہ اس کے اندر موجود خامروں کی مدد سے ایک انوکھا کام کیا جا سکتا ہے۔ اس خامرے کی مدد سے انتہائی کم مقدار میں موجود ڈی این اے کو بہت بڑی مقدار میں بڑھایا جا سکتا ہے۔ بعض حالات میں تو محض ایک مالیکیول سے بھی یہ کام لیا جا سکتا ہے۔ اس عمل کو ایک طرح سے جینیاتی فوٹو کاپی بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر جینیاتی سائنس نے ترقی کی ہے اور تعلیمی اداروں سے لے کر پولیس کے فورنزک کاموں تک اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی دریافت کی وجہ سے مولیس کو 1993 میں کیمسٹری کا نوبل انعام ملا۔
اس دوران سائنس دان اس طرح کے مزید جاندار تلاش کر رہے تھے جو 80 ڈگری یا اس سے زیادہ درجہ حرارت پر زندہ رہ سکتے ہوں۔ ابھی تک سب سے زیادہ درجہ حرارت پر زندہ رہنے والے جو جاندار ملے ہیں، انہیں Pyrolobus fumarii کہا جاتا ہے۔ ان کے بارے فرانسز ایش کرافٹ نے اپنی کتاب Life at the Extremes میں ذکر کیا ہے۔ یہ جاندار سمندری حرارتی شگافوں یعنی تھرمل وینٹس کے کناروں پر چپکے ہوتے ہیں جہاں درجہ حرارت 113 ڈگری رہتا ہے۔ آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ 120 ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت پر کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا تاہم یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ تاہم بروکس کی دریافت سے زندگی کے بارے ہمارے نظریات مکمل طور پر بدل کر رہ گئے ہیں۔ ناسا کے ایک سائنس دان جے برگ سٹارل کے مطابق، ‘دنیا میں ہم جہاں بھی مائع پانی اور کسی قسم کی کیمیائی توانائی کے ذریعے کو پاتے ہیں تو زندگی اس سے زیادہ دور نہیں ہوتی’۔
زندگی ناممکن حد تک نہ صرف ذہین ہے بلکہ مختلف حالات میں رہنے کے قابل بھی ہوتی ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کیونکہ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، وہ ہرگز ہمیں نہیں رکھنا چاہتی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حصہ پنجم: زندگی بذاتِ خود
میں اس کائنات کو جتنا پرکھتا اور اس کی تفصیلات کو جانتا ہوں، اتنا ہی مجھے یقین ہوتا جاتا ہے کہ اسے کسی نہ کسی طور ہمارے آنے کا علم تھا۔
فری مین ڈائسن​


16 تنہا سیارہ​
جاندار ہونا کوئی آسان کام نہیں۔ پوری کائنات میں ہمارے علم کے مطابق اس وقت ملکی وے کہکشاں میں انتہائی دور دراز واقع ایک کونے میں موجود زمین پر ہی زندگی ملتی ہے۔ اس زمین پر ہی آپ اور میں رہتے ہیں، اگرچہ زمین ہمارے ہونے پر اتنی خوش نہیں۔
سمندر کی گہری ترین کھائی سے لے کر فلک بوس پہاڑوں تک، زندگی کے لیے سازگار ماحول محض 20 کلومیٹر موٹا ہے۔ اگر اسے کائنات کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کچھ بھی نہیں۔
انسانوں کے لیے اور بھی مسئلہ ہے کہ انسانوں کے جدِ امجد نے لگ بھگ 40 کروڑ سال قبل سمندر کو چھوڑ کر خشکی کا رخ کر لیا تھا۔ نتیجتاً ایک سروے کے مطابق حجم کے اعتبار سے ہماری زمین کے قابلِ رہائش حصے کا 99.5 فیصد حصہ ہمارے رہنے کے قابل نہیں رہا۔
مسئلہ صرف اتنا ہی نہیں کہ ہم پانی میں سانس نہیں لے سکتے بلکہ یہ بھی ہے کہ ہم اتنا دباؤ بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ پانی ہوا کی نسبت 1,300 گنا زیادہ بھاری ہے اور جوں جوں آپ پانی کی گہرائی میں اترتے جائیں، ہر دس میٹر کے بعد پانی کا دباؤ دو گنا بڑھ جاتا ہے۔ اگر آپ خشکی پر 150 میٹر کی اونچائی پر چڑھیں تو آپ کو شاید ہی کوئی فرق محسوس ہو۔ لیکن پانی کے اندر اتنی گہرائی میں جانے کا مطلب ہے کہ آپ کے پھیپھڑے پچک کر کوک کے ایک کین کے برابر ہو جائیں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ بعض لوگوں کو یہ بہت پسند ہے اس لیے وہ گہرے پانی میں بغیر اضافی آکسیجن کے غوطہ خوری کرتے ہیں۔ خیر، سطح پر واپسی پر آپ کے اندرونی اعضاء واپس اپنی اصل شکل میں لوٹ آتے ہیں۔ تاہم اتنی گہرائیوں تک پہنچنے کے لیے غوطہ خوروں کو مختلف بھاری اوزان استعمال کرنے پڑتے ہیں تاکہ وہ تیزی سے مطلوبہ گہرائی تک پہنچ سکیں۔ بغیر کسی سہارے کے آج تک سب سے گہرائی تک جا کر صحیح سلامت واپس لوٹنے والے فرد کا ریکارڈ 72 میٹر ہے (اس کتاب کے چھپنے کے بعد یہ ریکارڈ نیوزی لینڈ کے ایک بندے نے توڑا ہے جس کا نام ولیم ٹروبرج ہے اور وہ اپریل 2008 میں 86 میٹر کی گہرائی تک گیا تھا)۔ اس ریکارڈ کو ایک اطالوی امبرٹو پلیزاری نے 1992 میں قائم کیا تھا جو اس گہرائی پر انتہائی مختصر وقفے کو رک کر واپس سطح آب پر لوٹا۔ خشکی پر دیکھیں تو فٹبال کا میدان 72 میٹر سے زیادہ لمبا ہوتا ہے۔ اب اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ہمیں سمندروں پر کتنا کنٹرول ہے۔
تاہم دیگر جاندار پتہ نہیں کیسے سمندری گہرائیوں میں زندہ رہ لیتے ہیں۔ سمندر میں سب سے گہرا مقام آج تک جو دریافت ہوا ہے، وہ ماریانا ٹرنچ کہلاتا ہے۔ اس کی گہرائی تقریباً 11.3 کلومیٹر ہے۔ اس جگہ پانی کا دباؤ 16٫000 پاونڈ فی مربع انچ ہوتا ہے۔ آج تک اتنی گہرائی میں صرف ایک بار تھوڑی دیر کے لیے انسان انتہائی سخت مشین میں سوار ہو کر گیا ہے۔ تاہم یہاں چپٹے جسم والے سمندری حشرات پائے جاتے ہیں جن پر کوئی حفاظی خول نہیں ہوتا۔ اگرچہ زیادہ تر سمندر اتنے گہرے نہیں ہوتے لیکن پھر بھی 4 کلومیٹر نیچے پانی کا دباؤ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے سیمنٹ سے لدے 14 ٹرکوں کے نیچے دب جائیں۔
زیادہ تر لوگ بشمول سمندری علوم پر کتابوں کے مصنف بھی یہ سوچتے ہیں کہ اتنے زیادہ دباؤ کے نیچے انسانی جسم پچک کر رہ جائے گا تاہم ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے جسم کا زیادہ تر حصہ پانی سے بنا ہے اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے فرانسس ایش کرافٹ کے بقول، ‘پانی کو پچکایا نہیں جا سکتا اور ہمارا جسم انتہائی گہرائی میں بھی اس دباؤ یعنی بیرونی پانی کے برابر ہی رہے گا’۔ تاہم اصل مسئلہ گیسوں کا ہوتا ہے، خصوصاً پھیپھڑوں میں موجود گیسیں دباؤ کے تحت پچک سکتی ہیں، تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ کس دباؤ پر یہ پچکاؤ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل تک یہ عام تصور تھا کہ 100 میٹر سے زیادہ گہرائی تک جانے والے بندے کے پھیپھڑے پھٹ جائیں گے یا سینے کی دیوار پھٹ جائے گی اور وہ مر جائے گا۔ تاہم فری ڈائیورز اکثر اس سے زیادہ گہرائی تک جاتے رہتے ہیں۔ ایش کرافٹ کے بقول، ‘انسان وہیل اور ڈولفن سے غیر متوقع حد تک مماثل ہیں’۔
تاہم اور بہت کچھ خراب ہو سکتا ہے۔ جب غوطہ خوری کے لباس ہوتے تھے تو انہیں سطح آب پر پائپ کے ذریعے جوڑا جاتا تھا۔ بعض اوقات گڑبڑ ہو جاتی تھی۔ اگر سطح پر موجود پمپ خراب ہو جائے تو غوطہ خوری کے لباس سے ہوا انتہائی شدت سے نکلتی اور بدقسمت غوطہ خور ہوا کی شدت کے ساتھ کھینچ کر ہیلمٹ اور پائپ میں چلا جاتا۔ جب انہیں باہر نکالا جاتا تو ‘لباس کے اندر محض ہڈیاں اور گوشت کے چند لوتھڑے ہی بچتے تھے۔ 1947 میں ماہرِ حیاتیات جے بی ایس ہالڈین نے لکھا کہ، ‘ایسا حقیقت میں کئی بار ہو چکا ہے’۔
(اصلی ہیلمٹ جو کہ 1823 میں انگریز موجد چارلس ڈین نے ایجاد کیا، کو غوطہ خوری کے لیے نہیں بلکہ آگ بجھانے کے عملے کے لیے ایجاد کیا گیا تھا۔ اسے سموک ہیلمٹ کہا جاتا تھا۔ دھاتی ہونے کی وجہ سے یہ گرم اور بھاری تھا اور جلد ہی ڈین کو علم ہو گیا کہ آگ بجھانے والے افراد کو ہرگز ایسے ہیلمٹ سے کوئی دلچسپی نہیں کہ جسے پہن کر وہ جلتی ہوئی عمارات میں داخل ہوں تو گرمی کے مارے ان کا اپنا دماغ کھولنے لگے۔ اپنے سرمائے کو بچانے کے لیے اس نے اس ہیلمٹ کو زیرِ آب آزمایا تو اسے کامیاب پایا۔ )
گہرائی کا اصل خطرہ دراصل مروڑ تھے، اس وجہ سے نہیں کہ وہ تکلیف دہ تھے بلکہ اس وجہ سے بھی وہ بکثرت ہوتے تھے۔ ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں، اس میں 80 فیصد نائٹروجن ہوتی ہے۔ جب انسانی جسم پر دباؤ پڑتا ہے تو یہ نائٹروجن بلبلوں کی شکل میں تبدیل ہو کر دورانِ خون کے راستے عضلات تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر یہ دباؤ بہت تیزی سے بدلا جائے جیسا کہ غوطہ خور انتہائی تیزی سے سطح کو واپس لوٹے تو جسم کے اندر موجود یہ بلبلے پھٹنا شروع ہو جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شریانیں بند ہو جاتی ہیں اور خلیوں کو آکسیجن کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے۔ نیتجتاً اتنا سخت درد ہوتا ہے کہ جیسے انسان کو کوئی نچوڑ رہا ہو۔
اس کیفیت کا سامنا موتیوں کو نکالنے والے غوطہ خور عرصہ قدیم سے کر رہے تھے لیکن مغربی دنیا کو اس بارے 19ویں صدی میں علم ہوا۔ یہ لوگ زیرِ آب جا کر پلوں کے ستون تعمیر کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ہوا بند خانے بنائے جاتے تھے جن سے پانی کو نکال دیا جاتا تھا اور دباؤ والی ہوا ڈال دی جاتی تھی۔ جب یہ لوگ واپس سطح آب پر لوٹتے تو انہیں اکثر جلد پر ہلکی سی گدگدی یا خارش سی محسوس ہوتی۔ تاہم بعض افراد ایسے بھی تھے کہ جنہیں جوڑوں میں شدید درد ہوتا اور بعض اوقات وہ درد کی شدت سے گر جاتے اور کبھی نہ اٹھ پاتے۔
یہ باتیں بہت حیران کن تھیں۔ بعض اوقات جب مزدور سونے جاتے تو بالکل ٹھیک ہوتے اور جب اٹھتے تو مفلوج ہوتے۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا کہ وہ بیدار ہی نہ ہوتے۔ ایش کرافٹ نے ایک بار لکھا کہ دریائے تھیمز کے نیچے ایک زیرِ آب سرنگ کی تعمیر کے بعد جب کمپنی کے افسران نے جا کر ایک رسمی تقریب منائی۔ تاہم جب انہوں نے شیمپئن کی بوتل کھولی تو جھاگ نہ بنی۔ لوگ اس پر کافی متعجب ہوئے۔ تاہم جب وہ سرنگ سے نکل کر بیرونی فضاء میں پہنچے تو جھاگ بننے کا عمل اچانک شروع ہو گیا اور ان کے نظامِ انہضام کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔
اگر بلند دباؤ والے ماحول سے یکسر کنارہ کرنا ممکن نہ ہو تو پھر مروڑ سے بچنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ گہرائی میں انتہائی کم وقت گزارا جائے تاکہ دباؤ میں آنے والی تبدیلی زیادہ دیر نہ رہ سکے۔ اسی وجہ سے فری ڈائیورز پانی کے اندر ڈیڑھ سو میٹر کی گہرائی تک بھی چلے جاتے ہیں اور انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی کہ ان کا قیام اتنے مختصر وقت کو ہوتا ہے کہ خون میں موجود نائٹروجن کو بلبلے بننے اور پھٹنے کا وقت نہیں ملتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ واپسی کے سفر میں جگہ جگہ رک کر دباؤ کو سہا جائے۔ اس طرح جو بلبلے تھوڑی مقدار میں بنتے بھی ہیں، وہ آسانی سے پھٹتے ہیں اور تکلیف کا سبب نہیں بنتے۔
آج بھی انتہائی دباؤ میں زندہ رہنے کے لیے ہمارے زیادہ تر علم کا سہرا دو غیر معمولی سائنس دان باپ بیٹے کو جاتا ہے۔ برطانوی اعتبار سے بھی یہ دونوں انتہائی سنکی تھے۔ باپ 1860 میں سکاٹش نواب کے ہاں پیدا ہوا۔ تاہم اس نے زیادہ تر وقت آکسفورڈ میں علم الابدان کے پروفیسر کے طور پر گزارا۔ اس کی غائب دماغی مشہور تھی۔ ایک بار اس کی بیوی نے دعوت کی خاطر اسے اوپری منزل پر لباس تبدیل کرنے بھیجا تو موصوف اوپر بستر پر جا کر سو گئے۔ جب بیدار کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ چونکہ اوپر پہنچ کر اس نے خیال کیا کہ وہ کپڑے اتار رہا تھا تو اس لیے سونے کا وقت ہو گیا ہوگا۔ تعطیلات کے بارے اس کا خیال تھا کہ یہ وقت کارنوال جا کر کان کنوں میں پھٹنے کا وقت پیٹ کے کیڑوں پر تحقیق کرنے پر لگانا چاہیے۔ آلڈس ہکسلے جو کہ مشہورِ زمانہ ٹی ایچ ہکسلے کا پوتا تھا، ان دنوں ان باپ بیٹوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اکثر ان کی نقلیں اتارتا تھا اور اپنے ایک ناول میں اس کا مضحکہ اڑایا تھا۔
غوطہ خوری پر اس کا احسان یہ تھا کہ اس نے وہ وقفے دریافت کیے کہ جن پر رکتے ہوئے اگر غوطہ خور سطح کو پہنچیں تو وہ مروڑ سے بچ جائیں گے۔ تاہم ہالڈین کے مشاغل علم الابدان سے متعلق تھے جو کوہ پیماؤں کو بلندی پر ہونے والی بیماری سے لے کر صحرائی علاقوں میں لوگوں کو لُو لگنے تک محیط تھے۔ اس کا خاص مشغلہ زہریلی گیسوں کے انسانی جسم پر مرتب ہونے والے اثرات کا مطالعہ کرنا بھی تھا۔ کانوں میں کاربن مونو آکسائیڈ کے پھیلنے سے کان کنوں کے مرنے کی وجوہات کا مطالعہ کرنے کے لیے اس نے خود کو منظم طریقے سے اس گیس کا عادی کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ خون میں گیس کی مقدار چیک کرتا رہا۔ جب تک اس کے تمام عضلات جواب دینے کے مرحلے پر نہ پہنچتے، اس کا تجربہ جاری رہتا۔ ٹریور نارٹن نے اپنی کتاب Stars beneath the Sea میں لکھا ہے کہ اس وقت خون میں کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار 56 فیصد تک پہنچ جاتی تھی جو یقینی مہلک مقدار سے انتہائی معمولی سی کم ہوتی تھی۔
ہیلڈن کا بیٹا جیک عجیب انسان تھا۔ اس نے اپنے والد کی تحقیقات میں بچپن سے ہی دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ تین سال کی عمر میں ایک بار اسے اپنے باپ سے یہ کہتے سنا گیا، ‘کیا یہ آکسی ہیموگلوبن ہے یا کارباکسی ہیموگلوبن؟’ کم عمری میں اس نے اپنے باپ کے تجربات میں مدد کی۔ لڑکپن میں باپ بیٹا گیس کی ٹیسٹنگ میں باریاں لیتے کہ کون کتنی دیر میں بیہوش ہوتا ہے۔
جیک نے کبھی سائنسی تعلیم تو نہیں حاصل کی (اس نے آکسفورڈ سے کلاسیکس کی ڈگری لی تھی)، تاہم وہ ایک بہترین سائنس دان بنا۔ اس کا زیادہ تر کام حکومت کے لیے اور کیمبرج میں ہوتا تھا۔ حیاتیات دان پیٹر میڈیور نے ساری زندگی انتہائی ذہین افراد کے درمیان گزاری، کے خیال میں، ‘زندگی بھر ہالیڈین سے زیادہ چالاک انسان نہیں دیکھا’۔ ہکسلے نے اپنے ناول Antic Hay میں اس کا بھی مضحکہ اڑایا۔ تاہم اس نے اپنے نئے ناول Brave New World کی بنیاد کے لیے اس کے نظریات بھی استعمال کیے۔ دیگر کارناموں کے علاوہ اس کا اہم کارنامہ ڈارون کے ارتقائی نظریہ کو گریگر مینڈل کے کام سے ملا کر ‘ماڈرن سنتھیسز’ بنانا تھا۔
انسانی نکتہ نظر سے یہ بات شاید بہت عجیب لگے، لیکن شاید نوجوان ہالڈین واحد انسان تھا جس نے پہلی جنگِ عظیم سے بہت حِظ اٹھایا اور کھلے عام اقرار کیا کہ ‘انسانوں کو قتل کرنے میں بہت مزہ آیا۔‘ دو بار وہ خود بھی زخمی ہوا۔ جنگ سے فارغ ہو کر اس نے خود کو سائنس کی ترویج کے لیے وقف کر دیا اور کل 23 کتب اور 400 سے زیادہ مقالے بھی لکھے۔ آج بھی اس کی کتب بہت دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں اور مشکل سے ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے مارکسی نظریات کو اپنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ سوویت یونین میں پیدا ہوا ہوتا تو کٹر مونارکسٹ ہوتا۔ عموماً اس کے مضامین سب سے پہلے کمیونسٹ ڈیلی ورکر میں چھپتے۔
جہاں باپ کی دلچسپی کا محور کان کنی اور اس سے متعلق زہریلے واقعات تھے، بیٹے کو آبدوزوں اور غوطہ خوروں کو ان کے کام سے متعلق مشکلات دور کرنے کا جنون تھا۔ بحریہ کے پیسوں سے اس نے ایک ڈی کمپریشن چیمبر خریدا اور اسے ‘پریشر پاٹ‘ کا نام دیا۔ اس دھاتی سلنڈر میں بیک وقت تین افراد بیٹھ سکتے تھے اور انہیں وہاں قید کر کے ان پر مختلف تجربات کیے جاتے تھے۔ یہ تجربات ہمیشہ تکلیف دہ اور تقریباً ہمیشہ ہی خطرناک ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر رضاکاروں کو برفاب پانی میں بٹھا کر خاص ہوا میں سانس لینے کو کہا جاتا یا پھر دباؤ کو تیزی سے تبدیل کیا جاتا۔ ایک تجربے میں ہالڈین نے خود پر اس طرح کا تجربہ کیا کہ اگر وہ بہت تیزی سے سمندر کی گہرائی سے اوپر اٹھے تو کیا ہوگا۔ اس کے دانتوں میں بھرا ہوا سکہ پھٹ گیا۔ نارٹن کے مطابق ‘تقریباً ہر تجربے کے بعد کسی نہ کسی کو یا تو دورہ پڑتا، جریانِ خون ہوتا یا پھر الٹی کرتے نکلتے۔ چونکہ یہ خانہ ہوا بند تھا اس لیے کسی بھی مشکل کے لیے اندر موجود افراد کو چھوٹی سی کھڑکی کے تحریر لکھ کر لگانی ہوتی یا پھر اندرونی دیوار کو مسلسل بجا کر اشارہ کرنا ہوتا۔
ایک اور موقعے پر ہالڈین نے آکسیجن کی اونچی مقدار میں سانس لینے کی کوشش کی اور نتیجتاً پڑنے والا دورہ اتنا شدید تھا کہ اس کی کمر کے کئی مہرے پچک گئے اور چھ سال تک اس کا نچلا دھڑ بیکار رہا۔
ہالڈین کے مشاغل میں سے ایک نائٹروجن کے مضر اثرات کو سمجھنے کی کوشش بھی تھا۔ ابھی تک ان وجوہات کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکا لیکن لگ بھگ 30 میٹر سے زیادہ گہرائی پر نائٹروجن نشہ آور بن جاتی ہے۔ اسی وجہ سے گہرائیوں میں پہنچ کر غوطہ خور مچھلیوں کو گیس ماسک دینے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر سگریٹ پینے کی کوشش کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسان کا مزاج اچانک بدلنے لگ جاتا ہے۔ ایک ٹیسٹ میں ہالڈین نے دیکھا کہ ‘متعلقہ فرد مسلسل خوشی اور یاس کی کیفیات سے دوچار ہو رہا تھا۔ ایک لمحے اگر وہ اس ٹیسٹ کو ختم کرنے کے لیے درخواست کر رہا تھا کہ اسے بہت برا محسوس ہو رہا ہے تو دوسرے لمحے خوشی سے قہقہے لگاتے ہوئے وہ اپنے ساتھی کے کام کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ متعلقہ فرد پر ہونے والے اثر کی پیمائش کرنے کے لیے ممتحن کو بھی ساتھ ہی چیمبر میں جانا پڑتا تھا اور چند ہی منٹ بعد متعلقہ فرد اور اس کا ممتحن، دونوں ہی ہوش کھو بیٹھتے اور ممتحن کبھی سٹاپ واچ کو چلانا یا روکنا بھول جاتا یا پھر اس کی لکھی ہوئی یاداشتیں بیکار ہوتیں۔ اس عجیب صورتحال کی وضاحت ابھی تک نہیں کی جا سکی۔ اندازہ ہے کہ نائٹروجن اسی طرح مدہوشی طاری کرتی ہے جیسے شراب، تاہم اصل وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو پائی۔ انتہائی احتیاط کے بغیر اگر آپ خشکی چھوڑتے ہیں تو آپ کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس طرح ہم واپس اس جگہ لوٹتے ہیں جہاں ہم پہلے بھی اشارتاً بتا چکے ہیں کہ اگرچہ زمین واحد معلوم مقام ہے کہ جہاں حیات پائی جاتی ہے لیکن یہ بھی کہ زمین حیات کی نشوونما کے لیے بہترین جگہ نہیں۔ کرہ ارض پر خشکی کی مقدار پانی سے کم ہے اور اس جگہ پر بھی اکثر جگہیں یا تو بہت گرم ہیں یا پھر بہت سرد، بہت ڈھلوان یا پھر بہت اونچی، اس لیے ہم وہاں نہیں رہ پاتے۔ اس میں زیادہ تر قصور ہمارا ہی ہے۔ ماحول میں ڈھلنے کی صلاحیت کی بات کی جائے تو بنی نوع انسان انتہائی نکمی ہے۔ بہت گرم جگہوں پر رہنے کے قابل نہیں ہیں کہ ہمیں پسینہ بہت آتا ہے اور جلد ہی لُو لگ سکتی ہے۔ بدترین حالات میں اگر انسان گرم صحرا میں چلا جائے تو محض سات یا آٹھ گھنٹوں میں لوگ ذہنی طور پر بہک کر گر جاتے ہیں کبھی دوبارہ نہیں اٹھ پاتے۔ اسی طرح سردی کا سامنا بھی نہیں کر پاتے۔ دیگر ممالیہ جانوروں کی مانند انسان بھی حرارت تو پیدا کرنے کے ماہر ہیں لیکن چونکہ انسانی جسم پر بال زیادہ نہیں ہوتے، اس لیے ہم اس حرارت کو محفوظ نہیں رکھ پاتے۔ ہلکی سی سردی کے وقت بھی ہمارے جسم کے آدھے سے زیادہ حرارے ہمیں گرم رکھنے پر خرچ ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ گرم کپڑے پہن کر اور کسی عمارت میں چھپ کر ہم اس مقدار کو کم کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود زمین کے وہ مقامات جہاں ہم رہنے کو تیار ہیں یا رہ سکتے ہیں، بہت معمولی مقدار میں ہیں۔ خشکی کا محض بارہ فیصد اور پورے کرہ ارض کا محض چار فیصد رقبہ ایسا ہے جہاں ہم رہنے کے قابل ہیں۔
معلوم کائنات میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا حالات ہیں تو ہمیں اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ ہم اپنے سیارے کا کتنا معمولی حصہ استعمال کرتے ہیں بلکہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ہمیں ایسا سیارہ مل کیسے گیا کہ جس کا کچھ حصہ ہمارے لیے قابلِ استعمال ہے۔ اگر ہم اپنے نظامِ شمسی میں ہی دیکھیں یا بلکہ زمین کے ماضی کے کچھ ادوار کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر مقامات ہماری زمین کے برعکس زندگی کے انتہائی مخالف ہیں۔
تا دمِ تحریر سائنس دانوں نے ہمارے نظامِ شمسی سے باہر 250 سے زیادہ سیارے تلاش کیے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے اربوں کھربوں سیارے اور بھی موجود ہوں گے لیکن اس بارے یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ تاہم ایسا سمجھا جاتا ہے کہ حیات کے لیے مناسب سیارہ انتہائی نایاب ہوتا ہے اور حیات جتنی ترقی یافتہ ہوگی، ایسا سیارہ اتنی ہی مشکل سے ملے گا۔ بہت سارے محققین نے لگ بھگ دو درجن اہم ترین واقعات کو ہمارے سیارے سے منسلک کیا ہے تاہم ذیل میں اس کو چار حصوں میں منقسم کر دیا گیا ہے۔
بہترین مقام۔ انتہائی خوش قسمتی سے ہم بالکل درست قسم کے ستارے سے بالکل درست قسم کے فاصلے پر موجود ہیں۔ یہ سیارہ اتنا بڑا تو ہے کہ بہت ساری حرارت پیدا کرتا ہے لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کہ اپنا سارا ایندھن مختصر وقت میں صرف کر لیتا۔ طبعیات کا یہ عجیب پہلو ہے کہ جتنا بڑا ستارہ ہوگا، اتنی جلدی اپنا ایندھن خرچ کر جائے گا۔ اگر ہمارا سورج اپنے حجم سے دس گنا زیادہ بڑا ہوتا تو دس ارب سال کی بجائے محض ایک کروڑ سال میں اپنا ایندھن خرچ کر چکا ہوتا اور حیات اتنی ترقی نہ کر پاتی۔ اگر سورج اور زمین کا فاصلہ بہت کم ہوتا تو پورا کرہ ارض ابل کر مر جاتا۔ اگر ہم بہت دور ہوتے تو ہر چیز جم کر مر جاتی۔
1978 میں ایک فلکیات دان مائیکل ہارٹ نے تحقیق کر کے بتایا کہ اگر زمین اور سورج کا فاصلہ محض ایک فیصد زیادہ یا پانچ فیصد کم ہوتا تو یہاں حیات نہ پنپ سکتی۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی معمولی سی مقدار ہے۔ بعد میں اس تحقیق کو مزید بہتر بنا کر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ فاصلہ پانچ فیصد قریب یا پندرہ فیصد دور ہوتا تو حیات نہ پنپ سکتی۔ تاہم یہ فاصلہ انتہائی محدود ہے (ییلو سٹون کے ابلتے چشموں میں موجود ایکسٹریموفائلز کی دریافت سے سائنس دانوں نے یہ بات جان لی ہے کہ حیات کے لیے کوئی بھی چیز مشکل نہیں۔ عین ممکن ہے کہ پلوٹو کی یخ بستہ سطح کے نیچے بھی حیات موجود ہو؟ تاہم ہم یہاں ان شرائط کی بات کر رہے ہیں جن کی موجودگی پیچیدہ حیات کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے)۔
یہ فاصلہ کتنا کم ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے ہم زہرہ کو دیکھتے ہیں۔ زہرہ ہماری نسبت سورج سے اڑھائی کروڑ میل قریب ہے۔ سورج کی روشنی اور حرارت ہم تک زہرہ کی نسبت دو منٹ دیر سے پہنچتی ہے۔ اس کا حجم اور ساخت زمین سے مماثل ہے لیکن مدار کا فرق ہی اصل میں اہم ہے۔ بظاہر نظامِ شمسی کے اوائل میں زہرہ پر درجہ حرارت زمین سے ذرا سا زیادہ گرم تھا اور وہاں شاید سمندر بھی تھے۔ لیکن چند ڈگری کی اضافی حدت سے زہرہ پر پانی نہ رک سکا اور بخارات کی شکل میں اڑ گیا اور زہرہ کا کرہ ہوائی تباہ ہو گیا۔ ہائیڈروجن کے ایٹم خلاء میں نکل گئے اور آکسیجن نے کاربن سے مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فضا بنائی جو سبز مکانی گیس ہے۔ یہاں سے زہرہ کی تباہی شروع ہو گئی۔ میرے ہم عمر افراد کو یاد ہوگا کہ ہمارے بچپن میں سائنس دان توقع رکھتے تھے کہ زہرہ پر گہرے بادلوں کے نیچے حیات مل جائے گی۔ تاہم اب ہم جانتے ہیں کہ زہرہ کا درجہ حرارت اتنا زیادہ ہے کہ کوئی بھی جاندار شاید وہاں زندہ نہیں رہ پائے گا۔ زہرہ کی سطح کا درجہ حرارت 470 ڈگری سیلسیس ہے۔ اس حدت پر سیسہ بھی پگھل جاتا ہے۔ اس کی سطح پر ہوا کا دباؤ زمین سے 90 گنا زیادہ ہے جو انسانی جسم برداشت نہیں کر سکتا۔ ہماری موجودہ ٹیکنالوجی کے مطابق ایسے خلائی لباس یا خلائی جہاز بنانا ممکن نہیں جو زہرہ پر اتر سکیں۔ زہرہ کی سطح کے بارے ہماری معلومات دور سے لیے گئے ریڈار کے مطالعے پر مشتمل ہیں یا پھر 1972 میں زہرہ کی سطح پر اترنے والے روسی خلائی جہاز کے چند مشاہدات ہیں جو سطح پر اترنے کے ایک گھنٹے کے اندر ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گیا تھا۔
جب آپ سورج سے روشنی کی رفتار کے حساب سے دو منٹ قریب ہوں تو یہ ہوتا ہے۔ جتنے دور ہوتے جائیں، مسئلہ گرمی کی بجائے ٹھنڈ کا بن جاتا ہے۔ مریخ یخ بستہ سیارہ ہے۔ کبھی یہاں بھی موسم مناسب حد تک گرم ہوتا تھا لیکن اپنا کرہ فضائی کھو دینے کے بعد یہ محض ایک یخ بستہ اور بیکار ہو کر رہ گیا ہے۔
تاہم سورج سے فاصلہ ہی اہم نہیں، ورنہ تو چاند پر بھی اس وقت جنگلات ہوتے۔ اس کے لیے ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہے:
درست قسم کا سیارہ۔ پتہ نہیں کہ جب جیو فزسٹ سے پوچھا جائے کہ ہمیں کون کون سی نعمتیں ملی ہوئی ہیں تو آیا وہ اس چیز کو بھی شمار کرتے ہیں کہ ہمارے سیارے کا اندرونی حصہ پگھلے ہوئے مادے پر مشتمل ہے۔ تاہم مرکزے میں گردش کرتے ہوئے میگما کے بغیر ہمارے سیارے پر حیات ممکن نہیں تھی۔ دیگر باتوں کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے اسی میگما سے نکل کر قشرِ ارض تک پہنچنے والی گیسوں نے ہمارے سیارے کے کرہ فضائی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہی کرہ فضائی ہمیں کاسمک تابکاری سے بچاتا ہے۔ اس کے علاوہ پلیٹ ٹیکٹانکس بھی اسی کی وجہ سے ہیں جس سے زمین کی سطح مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ اگر زمین بالکل مسطح ہوتی تو ہر جگہ پانی کی بلندی چار کلومیٹر ہوتی۔ سمندر میں زندگی تو ممکن ہوتی لیکن فٹ بال تو نہ کھیلی جا سکتی۔
مفید مرکزے کے علاوہ بھی ہمیں درست عناصر کی درست مقدار درکار ہوتی ہے۔ لغوی معنوں میں کہہ سکتے ہیں کہ ہم بالکل ٹھیک عناصر سے بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات اتنی اہم ہے کہ کچھ آگے چل کر ہم اس پر تفصیل سے بات کریں گے لیکن ابھی ہم باقی کے دور اہم عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جن میں سے پہلے کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے:
ہم جڑواں سیارہ ہیں۔ ہم میں سے کم ہی کوئی چاند کو ہمارا ساتھی سیارہ سمجھتا ہے جبکہ چاند ہمارا ساتھی سیارہ ہے۔ عموماً سیارے کے حجم کے مقابلے میں ان کے چاند بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر مریخ کے چاند فوبوس اور ڈیموس کا قطر محض دس کلومیٹر ہے۔ ہمارا چاند زمین کے قطر کے چوتھائی سے بھی زیادہ بڑا ہے اور اس وجہ سے کرہ ارض ہمارے نظامِ شمسی میں اپنے حجم کے تناسب اتنا بڑا چاند رکھنے والا سیارہ ہے۔ یہاں ہم پلوٹو کو شمار نہیں کر رہے کہ پلوٹو بذاتِ خود انتہائی ننھا سا ہے۔ اس کے علاوہ چاند کے کافی اثرات ہمارے کرہ ارض پر پڑتے ہیں۔
چاند کے استحکام بخش اثر کے بناء زمین ایسے گھومتی جیسے رفتار کم ہوتا ہوا لٹو گھومتا ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ ہمارے موسموں اور ہمارے ماحول پر اس کے کیا اثرات ہوتے۔ چاند کی کشش کے باعث زمین کی اپنے محور پر گردش اور رفتار درست رہتی ہے جس کی وجہ سے زمین پر حیات کی پیدائش ہوئی ہے اور اسی کی وجہ سے ہی حیات موجودہ ترقی یافتہ شکل تک پہنچ پائی ہے۔ تاہم ایسا ہمیشہ نہیں رہے گا۔ چاند ہر سال چار سینٹی میٹر کی رفتار سے ہم سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اگلے دو ارب سالوں میں چاند ہم سے اتنی دور جا چکا ہوگا کہ اس کے اثرات زمین تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ تب ہمیں شاید کوئی اور حل نکالنا پڑے گا۔ تاہم تب تک آپ اسے آسمان پر موجود ایک خوبصورت جرمِ فلکی سمجھ سکتے ہیں۔
بہت عرصے تک فلکیات دان یہ سمجھتے رہے تھے کہ چاند یا تو زمین کے ساتھ ہی پیدا ہوا تھا یا پھر پاس سے گزرتے ہوئے چاند کو زمین کی کشش نے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔ اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 4.4 ارب سال قبل مریخ کے حجم کا ایک جرمِ فلکی زمین سے ٹکرایا اور اس سے نکلنے والا مادہ چاند کی شکل اختیار کر گیا۔ پہلے ایک باب میں ہم اس پر بات کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے حساب سے یہ اچھا ہی ہوا تھا اور مزید اچھا پہلو یہ ہے کہ ایسا بہت عرصہ قبل ہوا۔ اگر یہ واقعہ پچھلی صدی یا پچھلے ہفتے ہوا ہوتا تو ظاہر ہے کہ اس میں ہمیں کیا اچھائی دکھائی دینی تھی۔ اب وقت ہے چوتھے اور سب سے اہم عنصر کو دیکھنے کا:
بروقت۔ ہماری کائنات انتہائی تیزی سے بدلتی رہتی ہے اور ہر طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اگر انتہائی طویل اور ناقابلِ یقین حد تک پیچیدہ واقعات کا سلسلہ پچھلے 4.6 ارب سال سے اس خاص طریقے سے اور بروقت نہ ہوتا آیا ہوتا تو ہم آج یہاں نہ ہوتے۔ اب سوچیے کہ اگر شہابِ ثاقب کی وجہ سے ڈائنوسارز ختم نہ ہوئے ہوتے تو آج ہم محض چند سینٹی میٹر حجم کے ہوتے اور دم بھی ہوتی اور ہم کسی بِل میں گھسے سو رہے ہوتے۔
ہمیں یہ تو پوری طرح علم نہیں کیونکہ کسی اور چیز سے اپنے وجود کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن ایسا لگتا ہے اگر آپ غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ موجودہ ترقی یافتہ مہذب معاشرے تک پہنچنے کے لیے آپ کو انتہائی زیادہ مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچنا ہوگا اور اس کے علاوہ ہمیں سکون اور پھر دباؤ کے مرحلوں سے بھی مسلسل گزرنا پڑا ہوگا (برفانی دور اس ضمن میں بہت مفید ہیں) اور شدید تباہی کا نہ آنا خصوصاً فائدہ مند رہا ہوگا۔ ابھی ہم دیکھیں گے کہ پہنچنے میں ہماری خوش نصیبی کتنی ہے۔
اب ہم ان عناصر کو دیکھتے ہیں جو ہمارے وجود کے لیے لازمی ہیں۔
قدرتی طور پر کل 94 عناصر پائے جاتے ہیں۔ لگ بھگ دو درجن مزید عناصر تجربہ گاہ میں تیار کیے جاتے ہیں لیکن ابھی ہم ان کے بارے بات نہیں کریں گے۔ زیادہ تر عناصر کے بارے ہماری معلومات انتہائی محدود ہیں۔ ایسٹاٹین کی مثال لیتے ہیں۔ اس کے بارے آج تک کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ عناصر کے دوری جدول پر ماری کیوری والے پلونیم کے ساتھ اس کا نام اور مقام تو موجود ہے لیکن اس کے علاوہ شاید ہی اس کے بارے ہمیں کچھ علم ہو۔ مسئلہ یہ نہیں کہ سائنس دان اس سے بے توجہی برتتے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عنصر انتہائی نایاب ہے۔ تاہم سب سے عجیب عنصر شاید فرانشیم ہے۔ یہ عنصر اتنا نایاب ہے کہ کہا جاتا ہے کہ پورے کرہ ارض پر ایک وقت میں اس عنصر کے 20 سے کم ایٹم پائے جاتے ہیں۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے کل عناصر میں سے شاید 30 عناصر ایسے ہیں جو ہماری زمین پر بکثرت پائے جاتے ہیں اور ان میں سے بمشکل نصف درجن ہی حیات کے لیے لازمی ہیں۔
آپ کو اندازہ تو ہوگا ہی کہ زمین پر سب سے زیادہ پایا جانے والا عنصر آکسیجن ہے جو قشرِ ارض کے تقریباً نصف کے برابر ہے۔ تاہم یہ بہت بڑی مقدار ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ زمین پر دوسرا سب سے زیادہ پایا جانے والا عنصر سیلیکان ہے اور ٹائٹینیم دسویں نمبر پر ہے۔ کسی بھی عنصر کی کثرت کا اس کے بارے معلومات یا اس کی افادیت کا اندازہ نہیں لگ سکتا۔ بہت کم پائے جانے والے عناصر کے بارے شاید ہم بہت زیادہ جانتے ہوں گے۔ زمین پر تانبے کی نسبت سیریئم زیادہ پایا جاتا ہے، کوبالٹ اور نائٹروجن کی نسبت نیوڈائمیم اور لنتھانم زیادہ پائے جاتے ہیں۔ جست بمشکل ہی پہلے پچاس میں جگہ پاتا ہے جبکہ پراسیوڈیمم، سماریم، گڈولینیئم اور ڈائسپروسیم اس سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔
بکثرت پایا جانا اور اس کی تلاش میں بھی کوئی مماثلت نہیں۔ المونیم چوتھا بکثرت عنصر ہے ہمارے قدموں تلے موجود زمین کا دسواں حصہ اسی سے بنا ہے لیکن اس کے بارے سب سے پہلے ہمفری ڈیوی نے انیسویں صدی میں انکشاف کیا۔ طویل عرصے تک اسے نایاب اور قیمتی دھات سمجھا جاتا رہا۔ ایک بار امریکی کانگریس نے تو فیصلہ کر لیا تھا کہ واشنگٹن کی یادگار کے اوپر المونیم کی تہہ چڑھا دی جائے تاکہ دنیا کو امریکہ کی امارت پر کوئی شبہ نہ رہے۔ اسی دور میں فرانسیسی شاہی خاندان نے چاندی کے برتنوں اور چھری کانٹوں کو پھینک کر المونیم کا سامان اپنا لیا۔ فیشن کتنا ہی جدید کیوں نہ رہا ہو، چھریاں چاقو بالکل کند ہو کر رہ گئے تھے۔
کسی چیز کی کثرت سے بھی اس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ کاربن پندرھواں کثیر عنصر ہے اور قشرِ ارض کا محض 0.048 فیصد حصہ کاربن سے بنا ہے۔ تاہم کاربن کے بناء حیات کا تصور بھی ممکن نہیں۔ کاربن کی خوبی کا ہرجائی پن ہے کہ یہ ہمیشہ بہت سارے دوسرے عناصر کے ساتھ ملنے کو تیار رہتا ہے۔ کاربن کا ہر ایٹم بے شمار دیگر ایٹموں اور اپنے جیسے دوسرے کاربن کے ایٹموں سے جڑ کر انتہائی پیچیدہ اشکال اختیار کرتا ہے اور یہی چیز پروٹین اور ڈی این اے کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ پال ڈیویز نے لکھا، ‘اگر کاربن نہ ہوتی تو حیات کی موجودہ شکل ممکن نہیں تھی۔ شاید کسی قسم کی زندگی بھی ممکن نہیں۔‘ کاربن اتنا بھی عام نہیں حالانکہ ہمارا سارا انحصار اسی پر ہے۔ ہمارے جسم کے ہر 200 ایٹموں میں سے 126 ہائیڈروجن، 51 آکسیجن اور باقی میں سے محض 19 کاربن کے ایٹم ہوتے ہیں (بقیہ 4 ایٹموں میں سے 3 نائٹروجن اور باقی ایک ایٹم تمام دیگر عناصر کے لیے بچتا ہے)۔
دیگر کچھ عناصر حیات کی تخلیق کی بجائے اس کو دوام بخشنے کے کام آتے ہیں۔ ہمیں ہیموگلوبن بنانے کے لیے فولاد درکار ہے اور اس کے بناء ہم زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ کوبالٹ ہمیں حیاتین ب 12 کے لیے درکار ہوتا ہے۔ پوٹاشیم اور معمولی مقدار میں سوڈیم ہمارے اعصاب کے لیے لازمی ہیں۔ مولبڈیم، مینگانیز اور وینیڈیم کی مدد سے ہمارے خامرے پیدا ہوتے ہیں۔ جست کی مدد سے شراب کا اثر ختم ہوتا ہے۔
ہم نے مختلف اشیاء کو مفید بنانا یا انہیں برداشت کرنا سیکھ لیا ہے۔ ورنہ ہمارے لیے زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔ اس کے باوجود بھی ہماری حیات انتہائی تنگ حدوں میں رہ رہی ہے۔ سیلینیم ہمارے لیے لازمی ہے لیکن اگر آپ اس کی زیادہ مقدار کھا لیں تو موت بھی آ سکتی ہے۔ کوئی جاندار کس چیز کو کتنی حد تک برداشت کر سکتا ہے، وہ اس کے ارتقائی مراحل پر منحصر ہے۔ بھیڑ اور مویشی بظاہر ایک ہی جیسی خوراک کھاتے ہیں لیکن دونوں کی غذائی ضروریات ایک دوسرے سے بہت فرق ہیں۔ موجودہ مویشیوں کو بہت زیادہ مقدار میں تانبہ درکار ہوتا ہے کہ ان کا ارتقاء یورپ اور افریقہ میں ہوا ہے جہاں تانبہ عام ملتا ہے۔ بھیڑیں ایشیائے کوچک سے آئی ہیں جہاں تانبے کی قلت ہوتی ہے۔ حیرت کی بات دیکھیے کہ کسی عنصر کو برداشت کرنے کی صلاحیت اس عنصر کی کثرت سے منسلک ہوتی ہے۔ بہت سارے عناصر کو معمولی مقدار میں برداشت کرنا ہماری ارتقائی مجبوری ہے کہ جو گوشت ہم کھاتے ہیں، ان میں ان عناصر کی معمولی مقدار موجود ہوتی ہے۔ اکثر تو یہ عناصر ہمارے لیے مفید بھی ہوتے ہیں۔ تاہم انتہائی معمولی مقدار سے اگر ہم تھوڑا سا بھی تجاوز کر جائیں تو موت سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں ان کے بارے زیادہ علم بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آرسینک کی معمولی سی مقدار ہماری بقا کے لیے ضروری ہے یا نہیں۔ بعض سائنس دان ہاں کہتے ہیں تو کچھ کا جواب نہ میں ہوتا ہے۔ تاہم ہر ایک کا اتفاق ہے کہ آرسینک کی زیادہ مقدار مہلک ہوتی ہے۔
عناصر کو جب دوسرے عناصر سے ملایا جاتا ہے تو ان کی خصوصیات بدل جاتی ہیں۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کی مثال لے لیں۔ دونوں آگ لگانے اور اسے جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دونوں کو ملائیں تو آگ بجھانے والا پانی بن جاتا ہے (آکسیجن خود تو آتش گیر نہیں لیکن دیگر چیزوں کو جلنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر آکسیجن آتش گیر ہوتی تو ماچس جلاتے ہی ہمارے ارد گرد فضاء کو آگ لگ جاتی۔ ہائیڈروجن بلا شبہ آتش گیر ہے جیسا کہ 6 مئی 1937 کے روز ہنڈن برگ کے حادثے سے ہمیں پتہ چلا تھا اور 36 آدمی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے)۔ سوڈیم کے جوڑ اور بھی عجیب تر ہوتے ہیں۔ سوڈیم قدرتی طور پر پائے جانے والے عناصر میں سے انتہائی غیر مستحکم سمجھا جاتا ہے اور جب اسے انتہائی زہریلی کلورین سے ملایا جائے تو ہمارے کھانے کا نمک بنتا ہے۔ خالص سوڈیم کے ٹکڑے کو پانی میں پھینک دیں تو دھماکے سے پھٹے گا۔ کلورین انتہائی خطرناک گیس ہے۔ بہت کم مقدار میں اس کی مدد سے پانی میں موجود خوردبینی جاندار مارے جا سکتے ہیں (بلیچ سے آنے والی بو کلورین کی ہوتی ہے)، زیادہ مقدار میں کلورین ہمارے لیے مہلک ہے۔ پہلی جنگِ عظیم میں کیمیائی ہتھیاروں میں کلورین کو بہت زیادہ استعمال کیا گیا تھا۔ پانی کے تالاب میں نہانے جائیں تو آنکھیں جلتی ہیں کیونکہ پانی میں انتہائی معمولی مقدار میں کلورین ملی ہوتی ہے۔
موٹا اصول یہ سمجھ لیں کہ اگر کوئی عنصر قدرتی طور پر ہمارے اندر نہیں پہنچتا یا یوں کہہ لیں کہ وہ پانی میں نہیں گھلتا تو ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ سیسے کو ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سیسے کو پانی کے پائپوں اور خوراک کے ڈبوں میں استعمال کرنا شروع ہوئے ہیں (سیسے کو لاطینی مخفف Pb یعنی plumbum سے ظاہر کیا جاتا ہے اور اسے لفظ Plumbing نکلا ہے)۔ رومن اپنی شراب میں سیسہ ملاتے تھے۔ اس کے علاوہ پارہ، کیڈمیم اور دیگر صنعتی آلودگیوں سے ہم روزانہ اپنے آپ کو زہر کھلاتے ہیں۔ اگر کوئی عنصر قدرتی طور پر زمین پر نہیں ملتا تو ہم اس کو بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتے اور وہ انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔ پلوٹونیم کی کوئی بھی مقدار ایسی نہیں جو آپ کو بیمار نہ کر دے۔
مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے لیے زمین اتنی فائدے مند اس لیے ہے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ارتقاء کے عمل سے گزرے ہیں۔ یعنی زمین زندگی کے لیے نہیں بنی بلکہ زندگی نے زمین پر جینا سیکھ لیا ہے۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن سے زندگی کا وجود ممکن ہوا ہے، چاہے وہ مناسب فاصلے پر موجود مناسب حجم کا سورج ہو، چاند ہو، ہرجائی کاربن ہو کہ زمین کے اندر موجود پگھلا ہوا لاوا، ہم ان سب سے فائدہ اٹھانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
عین ممکن ہے کہ دیگر دنیاؤں میں پارے کی سنہری جھیلیں ہوں اور مخلوقات امونیا کے بادلوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہوں۔ ان کی زمین میں کوئی پلیٹ ٹیکٹانکس نہیں اور نہ ہی لاوا اگلتے آتش فشاں ہیں۔ بلکہ ان کی زندگی انتہائی امن اور سکون سے گزرتی ہے۔ اگر ایسی کوئی مخلوق زمین پر آئی تو شاید یہ دیکھ کر حیران رہ جائے کہ نائٹروجن جیسی بے ضرر گیس سے بنی فضاء میں ہم کیسے رہ لیتے ہیں اور جہاں آکسیجن جیسی آگ جلانے میں مدد دینے والی گیس بھی پائی جاتی ہے؟ اس سے زیادہ حیرت انہیں شاید آکسیجن میں سانس لینے والی مخلوق کو دیکھ کر ہو کہ جو خریداری اور فلموں کی شوقین ہے۔ ہمارے کھانے اس مخلوق کے لیے زہر کا درجہ رکھتے ہوں گے کہ زمین کے عناصر ان کے لیے نئے ہوں گے۔ ان کے لیے زمین پر رہنا عذاب سے کم نہیں ہوگا۔
مشہور طبعیات دان رچرڈ فین مین جانی ہوئی حقیقت سے ممکنہ صورتحال کی طرف جانے کا لطیفہ سناتے تھے۔ مثال کے طور پر ‘آج میں نے ایک کار دیکھی جس کی نمبر پلیٹ ARW 357 تھی۔ اس ریاست میں موجود لاکھوں کاروں میں سے مجھے یہ کار کیسے دکھائی دے گئی؟ ہے نا معجزہ؟‘ ان کا مقصد یہ تھا کہ عام سی بات کو بھی چاہیں تو بڑھا چڑھا کر پیش کر سکتے ہیں۔
یعنی یہ بات عین ممکن ہے کہ جن وجوہات اور شرائط کے تحت زمین پر حیات وجود میں آئی، شاید وہ اتنی عجیب نہ ہوں۔ چاہے وہ وجوہات عجیب ہوں یا نہ ہوں، جب تک بہتر متبادل نہ ملے، ہمیں انہی پر گزارا کرنا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
17 بالائی فضاء میں​
شکر ہے کہ فضا موجود ہے جو ہمیں گرم رکھتی ہے۔ اس کے بغیر ہمارا کرہ ارض بے جان اور برف ہوتا اور اس کا اوسط درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سیلسیس ہوتا۔ اس کے علاوہ ہماری فضا کائناتی شعاعوں، بار دار ذرات، بالائے بنفشی شعاعوں وغیرہ کو بھی روکتی ہے۔ سارے کرہ فضائی کی موٹائی تقریباً ساڑھے چار میٹر موٹی کنکریٹ کی تہہ کے برابر حفاظتی تہہ بناتی ہے۔ اس کے بغیر یہ نادیدہ ذرات ہمارے جسموں کو ننھے منے خنجروں کی طرح چھیدتے ہوئے گزر جاتے۔ اگر فضا سے گزرتے ہوئے بارش کے قطرے بھی سُست نہ پڑتے تو ان کی چوٹ سے ہم بے ہوش ہو سکتے تھے۔
ہماری فضا کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بہت ہی معمولی سی مقدار میں ہے۔ زمین کی سطح سے 190 کلومیٹر بلندی تک یہ پھیلی ہوئی ہے۔ اگر ہم زمین پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو یہ موٹائی کافی زیادہ دکھائی دیتی ہے مگر دور سے دیکھا جائے جب زمین ایک عام گلوب کے برابر ہو تو یہ موٹائی پینٹ کی محض دو تہوں کے برابر ہے۔
سائنسی اعتبار سے ہماری فضا کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ٹروپوسفیئر، سٹریٹوسفیئر، میسوسفیئر اور آئنوسفیئر (اسے اب تھرموسفیئر بھی کہا جاتا ہے)۔
ٹروپوسفیئر ہمارے لیے سب سے اہم ہے کیونکہ اسی سے ہمیں حدت اور آکسیجن ملتی ہے جس سے ہم سانس لیتے اور اپنے کام کرتے ہیں۔ تاہم جب ہم اوپر کی طرف حرکت کرتے ہیں تو یہی تہہ زندگی کے لیے ناموافق ہوتی جاتی ہے۔ زمین سے اس کی انتہائی بلندی خطِ استوا پر لگ بھگ 16 کلومیٹر جبکہ معتدل علاقوں پر جہاں زیادہ تر انسانی آبادی بستی ہے، اس کی موٹائی 10 سے 11 کلومیٹر ہوتی ہے۔ اس تہہ کو گھومتی تہہ بھی کہا جاتا ہے۔ ہماری فضا کی کمیت کا 80 فیصد حصہ اسی تہہ میں موجود ہے۔ تمام تر آبی بخارات اور موسم سے متعلق تمام چیزیں اسی تہہ میں موجود ہیں۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ معدومیت اور ہمارے درمیان موجود فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ٹروپوسفیئر کے بعد والی تہہ سٹریٹوسفیئر کہلاتی ہے۔ جب طوفان کے اٹھتے ہوئے بادل بلندی پر جا کر اچانک پھیل جاتے ہیں تو وہ مقام دراصل ان دونوں تہوں کی درمیانی حد کو ظاہر کرتا ہے۔ اس غیر مرئی تہہ کو Stratopause کہتے ہیں اور اسے 1902 میں ایک فرانسیسی de Bort نے غبارے میں پرواز کرتے ہوئے دریافت کیا تھا۔ Pause کا مطلب عارضی طور پر رکنا نہیں بلکہ یہ مستقل حد ہوتی ہے۔ اس لفظ کی جڑیں لاطینی کے menopause سے نکلی ہیں۔ ٹروپوسفیئر کوئی بہت موٹی تہہ نہیں بلکہ اگر جدید لفٹ میں بیٹھ کر اوپر کو جانا ممکن ہو تو بیس منٹ میں آپ وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ تاہم ایسے سفر کے لیے آپ کو بہت محتاط رہنا ہوگا۔ بغیر دباؤ کے اگر آپ اتنی بلندی کا سفر اتنی تیزی سے طے کریں گے تو پھیپھڑوں اور دماغ میں سوجن ہوسکتی ہے یعنی ان میں خطرناک حد تک مائعات جمع ہو جائیں گے۔ جب اوپر پہنچ کر لفٹ کے دروازے کھلیں گے تو لفٹ میں موجود ہر انسان یا تو مر چکا ہوگا یا پھر مرنے ہی والا ہوگا۔ اگر آپ آہستہ آہستہ بھی اوپر جائیں تو بھی کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا کہ سطح سے دس کلومیٹر بلندی کا درجہ حرارت منفی 57 ڈگری سیلسیس ہوگا۔ اس وقت آپ کو اضافی آکسیجن کی بھی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہوگی۔
جب آپ ٹروپوسفیئر سے نکلتے ہیں تو درجہ حرارت تیزی سے بڑھنے لگتا ہے اور چار ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جو اوزون کے حرارت جذب کرنے کے عمل سے ہوتا ہے۔ یہ بھی مندرجہ بالا فرانسیسی سائنس دان نے دریافت کیا تھا۔ پھر درجہ حرارت دوبارہ منفی 90 ڈگری سیلسیس تک گرتا ہے اور پھر تھرموسفیئر میں یہ درجہ حرارت اچانک 1500 ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ اس جگہ دن اور رات میں درجہ حرارت کا فرق 500 ڈگری سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ تاہم اتنی بلندی پر درجہ حرارت کی محض علامتی اہمیت رہ جاتی ہے۔ درجہ حرارت بنیادی طور پر مالیکیولوں کی حرکت کو ظاہر کرتا ہے۔ سطح سمندر پر ہوا کی کثافت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مالیکیول کو حرکت کرنے کے لیے انتہائی معمولی جگہ ملتی ہے جو ایک سینٹی میٹر کے اسی لاکھویں حصے کے برابر ہوتی ہے، اور پھر وہ دوسرے مالیکیول سے ٹکرا جاتا ہے۔ چونکہ کھربوں کی تعداد میں مالیکیول ہر وقت ٹکرا رہے ہوتے ہیں، اس لیے بہت ساری توانائی منتقل ہوتی ہے۔ تھرموسفیئر کی انتہائی بلندی پر، جو کہ 80 کلومیٹر یا اس سے زیادہ بلندی پر ہوتی ہے، ہوا اتنی ہلکی ہوتی ہے کہ مالیکیولوں کا درمیانی فاصلہ کئی کلومیٹر پر محیط ہوتا ہے۔ اس لیے چاہے مالیکیول کتنے ہی گرم کیوں نہ ہوں، حرارت کو ایک مالیکیول سے دوسرے میں منتقلی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ یہ بات مصنوعی سیاروں اور خلائی جہازوں کے لیئے بہت مفید ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو مدار میں موجود خلائی جہازوں اور مصنوعی سیاروں کو گردش کی وجہ سے آگ لگ جاتی۔
اس کے باوجود بھی مدار سے زمین کو لوٹتے وقت خلائی جہازوں کو انتہائی احتیاط کرنی پڑتی ہے جیسا کہ فروری 2003 میں کولمبیا خلائی شٹل کی تباہی سے ظاہر ہے۔ اگرچہ اس جگہ فضا انتہائی ہلکی ہے، مگر اس میں داخل ہوتے وقت اگر خلائی جہاز کا زاویہ بہت ڈھلوان ہو یعنی چھ ڈگری سے زیادہ ہو تو اس سے ٹکرانے والے مالیکیول اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ خلائی جہاز کو آگ لگ سکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر یہ زاویہ چھ ڈگری سے کافی کم ہو تو خلائی جہاز ایسے اچٹ جائے گا جیسے پانی پر پتھر پھینکا جائے تو وہ اچھلتا جاتا ہے۔
تاہم زمین سے اپنی قربت کے بارے جاننے کے لیئے آپ کو خلا تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں رہنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ہمیں زمین سے بہت بلندی پر جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارا جسم مشکلات کا شکار ہونے لگ جاتا ہے۔ تجربہ کار کوہ پیما انتہائی صحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ اور اضافی آکسیجن کے باوجود بھی بلندی پر جاتے ہی الجھن، متلی، تھکاوٹ، فراسٹ بائٹ، ہائپو تھرمیا، سردرد، بھوک نہ لگنا اور دیگر بے شمار مسائل کا شکار ہونے لگ جاتے ہیں۔ ہر ممکن طریقے سے ہمارا جسم ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں سطح سمندر سے بہت زیادہ اوپر نہیں جانا چاہیے۔
تجربہ کار کوہ پیما پیٹر ہیبلر نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چڑھائی کے بارے لکھا، ‘انتہائی سازگار حالات میں بھی اتنی بلندی پر ہر قدم انتہائی سخت عزم مانگتا ہے۔ ہر حرکت کے لیے آپ خود کو مجبور کرتے ہیں۔ ہر وقت انتہائی شدید تھکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘ اپنی کتاب The Other Side of Everest میں برطانوی کوہ پیما اور فلم ساز میٹ ڈکنسن نے 1924کی برطانوی مہم کے دوران ہاورڈ سمرویل کے بارے لکھا ہے کہ ‘اچانک اس کی سانس رک گئی اور انتہائی شدید کوشش کے بعد اس نے جو چیز کھانس کر نکالی، وہ اس کے گلے کی میوکس ممبرین تھی۔‘
7500 میٹر کی بلندی پر جسمانی دباؤ مشہور ہے۔ کوہ پیما اس علاقے کو ‘موت کا علاقہ’ کہتے ہیں۔ تاہم 4500 میٹر کی بلندی پر ہی بے شمار لوگ انتہائی شدید بیمار ہو جاتے ہیں۔ اس چیز کا صحت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ بوڑھے افراد جن بلندیوں پر کدکڑے مارتے پھر رہے ہوتے ہیں، ان کے پوتے پوتیاں اسی بلندی پر لاچار اور بے بس ہو کر حرکت کرنے سے معذور ہو جاتے ہیں اور انہیں اٹھا کر نیچے کم بلندی پر لانا پڑتا ہے اور پھر جا کر وہ ٹھیک ہوتے ہیں۔
جس انتہائی بلندی پر انسانوں کے لیئے مستقل طور پر قیام پذیر ہونا ممکن ہے، وہ 5٫500 میٹر سمجھی جاتی ہے۔ تاہم اس جگہ رہنے والے افراد بھی اس بلندی پر بہت زیادہ وقت نہیں گزار سکتے۔ فرانسز ایش کرافٹ نے اپنی کتاب Life at the Extremes میں لکھا ہے کہ انڈیز میں گندھک کی کانیں 5٫800 میٹر کی بلندی پر ہیں لیکن کان کن ہر روز 460 میٹر کی بلندی طے کر کے کام کرنے جاتے ہیں اور سونے کے لیے پھر واپس 460 میٹر نیچے اترتے ہیں تاکہ اس بلندی پر مستقل نہ رہنا پڑے۔ بلندی پر رہنے والے لوگوں کی بے شمار نسلیں ہزاروں سال سے اتنی بلندی پر رہنے کے لیے ارتقا کے عمل سے گزرتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کے سینے چوڑے اور پھپیھڑے بڑے ہوتے ہیں اور خون کے سرخ خلیات کی تعداد عام انسانوں سے تقریباً ایک تہائی زیادہ ہوتی ہے کہ اس سے زیادہ مقدار میں اگر سرخ خلیے ہوں تو خون اتنا گاڑھا ہو جائے گا کہ اس کی گردش میں مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ 5٫500 میٹر سے زیادہ بلندی پر عورت چاہے جتنی بھی صحت مند کیوں نہ ہو، اپنے پیٹ میں موجود بچے کو اتنی آکسیجن نہیں دے پاتی کہ بچہ حمل کا دورانیہ پورا کر کے پیدا ہو سکے۔
1780 کی دہائی سے جب سے لوگوں نے یورپ میں گیس کے غباروں کی مدد سے بلندی کا سفر طے کرنا شروع کیا، تب سے انہیں ایک مستقل مسئلے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جتنی بلندی پر آپ جائیں گے، درجہ حرارت اتنا ہی کم ہوتا جائے گا۔ ہر 1٫000 میٹر کی بلندی پر درجہ حرارت 1.6 ڈگری کم ہو جاتا ہے۔ عقل تو یہ کہتی ہے کہ آپ جتنا زیادہ حرارت کے منبع کے نزدیک ہوتے جائیں گے، اتنا ہی آپ کو گرمی لگنی چاہیے۔ تاہم اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اس طرح حرارت کے منبع کے نزدیک نہیں ہو رہے ہوتے۔ سورج اور زمین کا فاصلہ 9 کروڑ 30 لاکھ کلومیٹر ہے۔ اگر آپ چند سو یا چند ہزار میٹر قریب تر ہو بھی جائیں تو بھی یہ ایسا ہی ہے کہ آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کا دھواں آپ امریکہ میں چند قدم اس سمت میں چل کر سونگھنے کی کوشش کریں۔ دوسرا یہ بھی ہے کہ حرارت کا انحصار فضا میں موجود مالیکیولوں کی کثافت پر بھی ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی جب ایٹموں پر پڑتی ہے تو ان کو توانائی ملتی ہے اور پھر ایٹم ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے یہ توانائی ایک دوسرے کو منتقل کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب ہمارے جسم پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو ہمیں حدت سی محسوس ہوتی ہے۔ تاہم جتنا بلندی پر جائیں تو وہاں ایٹموں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے اور اسی وجہ سے وہاں ایٹموں کے ٹکراؤ میں بھی کمی ہوتی جاتی ہے۔ ہوا بہت دھوکے باز ہے۔ سطح سمندر پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہوا کا کوئی وزن نہیں۔ درحقیقت ہوا کا وزن بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس کا اثر بھی وقتاً فوقتاً محسوس ہوتا رہتا ہے۔ بحری سائنس دان ویوائل تھامسن نے ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ قبل لکھا تھا: ‘صبح کو جب ہم اٹھتے ہیں تو بیرو میٹر پر ایک انچ کا اضافہ بتا رہا ہوتا ہے کہ رات بھر میں ہمارے اوپر 500 کلو جتنا ہوا کا وزن بڑھ چکا ہے۔ تاہم اس سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ ہمیں اچھا لگتا ہے کہ ہمیں کثیف ہوا میں حرکت کرنے میں کم محنت کرنی پڑتی ہے۔‘ ہمیں اس لیے دباؤ نہیں محسوس ہوتا کہ ہمارے جسم کا زیادہ تر حصہ مائع پر مشتمل ہے اور اسی وجہ سے سمندر کا دباؤ اسے نہیں پچکا سکتا۔
تاہم اگر اسی ہوا کو حرکت دی جائے، جیسا کہ ہری کین یا تیز جھکڑ میں ہوتا ہے تو آپ کو ہوا کے وزن کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے کرہ ارض پر فی مربع میل کل اڑھائی کروڑ ٹن وزنی ہوا موجود ہے۔ پوری دنیا پر کل وزن 5٫200 ملین ملین ٹن ہو جاتا ہے۔ جب کئی کروڑ ٹن وزنی ہوا کو 50 یا 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت دی جائے تو گھروں کی چھتیں اور درخت کی شاخیں ٹوٹنا عام سی بات ہے۔ انتھونی سمتھ نے لکھا ہے کہ عام طوفان میں 75 کروڑ ٹن سرد ہوا پر دس ارب ٹن جتنی گرم ہوا کا دباؤ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
ہمارے ارد گرد توانائی کی کوئی کمی نہیں۔ ایک عام طوفان کے بارے حساب لگایا گیا ہے کہ اس میں چھپی ہوئی توانائی پورے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی چار روز کی توانائی کے برابر ہے۔ مناسب حالات میں طوفانی بادل دس سے پندرہ کلومیٹر کی بلندی تک اٹھتے ہیں اور ان میں ہوا کے لہریں اوپر نیچے ڈیڑھ سو کلومیٹر کی رفتار سے پیدا ہوتی ہیں۔ اکثر اوپر اور نیچے جانے والی لہریں پہلو بہ پہلو ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے پائلٹ ان میں سے جہاز کو نہیں گزارنا چاہتے۔ بادلوں کے اندر موجود مختلف ذرات برقی بار جمع کرتے جاتے ہیں۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر ہلکے ذرات مثبت اور بھاری ذرات منفی بار والے بن جاتے ہیں۔ مثبت بار والے ذرات اوپر کی جانب جبکہ منفی بار والے ذرات بادلوں کے نچلے سرے پر جمع ہو جاتے ہیں۔ منفی ذرات مثبت بار والی زمین کو لپکنے کو بے تاب ہوتے ہیں اور ان کے درمیان آنے والی ہر چیز کا برا حشر ہوتا ہے۔ آسمانی بجلی زمین کی طرف لگ بھگ 4٫35٫000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرتی ہے۔ اس بجلی کے آس پاس کا درجہ حرارت 28٫000 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جو سورج کی سطح کے درجہ حرارت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بیک وقت کرہ ارض پر کم از کم 1٫800 طوفان بنتے ہیں جو روزانہ 40٫000 کے لگ بھگ بنتے ہیں۔ دن رات، ہر سیکنڈ میں کم از کم سو مرتبہ آسمانی بجلی گرتی ہے۔ آسمان اتنا بھی پرسکون نہیں۔
فضا کی بلندی کے بارے ہمیں حال ہی میں پتہ چلا ہے۔ مثال کے طور پر جیٹ سٹریم جو کہ 9 سے 10 کلومیٹر کی بلندی پر ملتی ہیں، کی رفتار لگ بھگ 300 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے اور پورے پورے براعظموں کے موسم پر اثر انداز ہوتی ہیں، کے بارے ہمیں تب پتہ چلا جب دوسری جنگِ عظیم میں جنگی پائلٹوں نے اس بلندی پر جہاز اڑانے شروع کیے۔ آج بھی فضائی عوامل کے بارے ہم بہت کم جانتے ہیں۔ صاف موسم میں ہونے والی فضائی ٹربولینس بعض اوقات پروازوں کو پریشان کرتی ہے۔ سالانہ کم از کم 20 اتنے شدید واقعات ہوتے ہیں جن کے بارے رپورٹ کرنی پڑتی ہے۔ یہ ٹربولینس نہ تو کسی بادل کی وجہ سے ہوتی ہے اور نہ ہی اسے کسی ریڈار پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بہترین موسم میں اچانک ہی یہ پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک ایسے ہی واقعے میں سنگاپور سے سڈنی کو جانے والی پرواز جب وسط آسٹریلیا پر پہنچی تو اسی وجہ سے 90 میٹر نیچے گری۔ جو افراد حفاظتی بند کے بغیر تھے، وہ اڑ کر چھت سے جا ٹکرائے۔ بارہ افراد زخمی ہوئے جن میں سے ایک شدید زخمی تھا۔ کسی کو بھی علم نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
ہوا کو فضا میں گردش دینے کا عمل وہی ہے جو زمین کے اندر موجود مرکزے کو گردش دینے کا کام کرتا ہے۔ اس عمل کو کنوکشن کہتے ہیں۔ اس عمل میں گرم مادہ اوپر کو اٹھتا ہے اور نسبتاً ٹھنڈا مادہ سکڑ کر نیچے کو جاتا ہے۔ مرطوب اور گرم ہوا استوائی علاقوں سے اوپر کو اٹھتی ہے اور اوپر ٹروپو پاز پر پہنچ کر پھیل جاتی ہے۔ جوں جوں یہ ہوا خطِ استوا سے دور ہوتی جاتی ہے، سرد ہوتی جاتی ہے اور نیچے کو گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ جب سطح زمین پر پہنچتی ہے تو ہوا کے کم دباؤ کو تلاش کر کے واپس خطِ استوا کو لوٹ جاتی ہے جس سے یہ سلسلہ پورا ہو جاتا ہے۔
خطِ استوا پر کنوکشن کا عمل مستحکم ہوتا ہے اور موسم کی پیشین گوئی کرنا بھی سہل ہوتا ہے۔ لیکن معتدل علاقوں میں موسم کی مناسبت سے یہ عمل بدلتا رہتا ہے اور ہوا کے کم دباؤ اور زیادہ دباؤ کے درمیان مستقل جدوجہد جاری رہتی ہے۔ ہوا کا کم دباؤ اوپر اٹھنے والی ہوا سے پیدا ہوتا ہے اور اپنے ساتھ آبی بخارات لے جاتا ہے جس سے بادل بنتے ہیں اور پھر بارش ہوتی ہے۔ ٹھنڈی ہوا کی نسبت گرم ہوا زیادہ بخارات جذب کر سکتی ہے اور اسی وجہ سے استوائی علاقے اور گرمیوں کے طوفان زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اس ہی وجہ سے ہوا کے کم دباؤ والے علاقوں پر بادل بنتے اور بارش کا سبب بنتے ہیں۔ ہوا کے زیادہ دباؤ کا مطلب صاف مطلع اور اچھا موسم ہوتا ہے۔ جب ایسے دو دباؤ والے مقامات ملتے ہیں تو بادل بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر سٹریٹس بادل جن سے مطلع ابر آلود ہوتا ہے، اس وقت پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا سبب وہ مرطوب ہوا ہوتی ہے جو اپنے اوپر ہوا کی مستحکم تہہ کو توڑنے میں ناکام رہتی ہے اور وہیں پھیل جاتی ہے۔ اگر آپ کسی کو کمرے میں سگریٹ پیتے دیکھیں تو دھوئیں سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پہلے پہل دھواں سیدھا اوپر کو اٹھتا ہے اور پھر لہروں کی شکل میں اِدھر اُدھر پھیلنے لگ جاتا ہے۔ انتہائی محتاط پیمائش کےبعد دنیا کا طاقتور ترین کمپیوٹر بھی سو فیصد یقین سے یہ نہیں بتا سکتا کہ اوپر اٹھنے کے بعد دھواں کس طرح کی شکل اختیار کرے گا۔ اب اندازہ کریں کہ ماہرینِ موسمیات کو دنیا کے موسم کے بارے پیشین گوئی کرنی ہو تو یہ کام کتنا مشکل ہو جائے گا۔
ہمیں یہ علم ہے کہ سورج کی روشنی زمین پر بے ترتیبی سے پڑتی ہےاور مختلف جگہوں پر ہوا کا دباؤ مختلف ہوتا ہے۔ ہوا اس چیز کو برداشت نہیں کر سکتی۔ ہوا اس لیے چلتی ہے کہ زیادہ دباؤ والی جگہ سے کم دباؤ والی جگہ پر پہنچ کر اس فرق کو ختم کر سکے (سلنڈر سے نکلنے والی گیس، غبارے سے نکلتی ہوئی گیس اور بلندی پر اڑتے ہوئے جہاز کی کھڑکی یا دروازہ کھول دیا جائے تو تیزی سے ہوا باہر نکلنا شروع ہو جاتی ہے)۔ ہوا کے دباؤ میں جتنا زیادہ فرق ہوگا، چلنے والی ہوا اتنی ہی تیز ہوگی۔
یہ بات واضح رہے کہ مختلف چیزوں کی طرح ہوا کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ جو ہوا 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہو، وہ 30 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار والی ہوا سے دس گنا نہیں بلکہ سو گنا زیادہ طاقتور اور تباہ کن ہوگی۔ کئی کروڑ ٹن وزنی ہوا جب تیزی سے چلتی ہے تو نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ عام استوائی طوفان میں جتنی توانائی 24 گھنٹہ میں خارج ہوتی ہے، اتنی توانائی برطانیہ یا فرانس ایک سال میں استعمال کرتے ہیں۔
ہوا کی جانب سے ہر جگہ دباؤ برابر رکھنے کے بارے سب سے پہلے ایڈمنڈ ہیلی نے بتایا۔ یہ وہی مشہور ایڈمنڈ ہیلی ہے جو ان دنوں ہر جگہ موجود ہوتا تھا۔ اس کا ساتھی جارج ہیڈلے تھا جس نے سب سے پہلے بتایا کہ ہوا کے اٹھتے اور گرتے ستونوں کی وجہ سے سیل یعنی خانے بنتے ہیں (اس وقت سے انہیں ہیڈلے سیل کہا جاتا ہے)۔ پیشے کے لحاظ سے تو ہیڈلے وکیل تھا لیکن اس کی اصل دلچسپی کا محور موسم تھا۔ اس نے سب سے پہلے تجویز پیش کی کہ ان خانوں، زمین کی گردش اور ہوا کی تبدیلیوں کی وجہ سے تجارتی ہوائیں جنم لیتی ہیں۔ تاہم ان ہواؤں کے بارے اصل تحقیق 1835 میں ایک فرانسیسی انجینئرنگ پروفیسر نے کی تھی جس کا نام گستاؤ گیسپرڈ ڈی کوریولس تھا۔ اسی وجہ سے ہم انہیں کوریولس افیکٹ کہتے ہیں۔ (کوریولس کا دوسرا کارنامہ ٹھنڈے پانی کے کولر ایجاد کرنا تھا، جنہیں کوریوس کہا جاتا ہے)۔ زمین خطِ استوا پر لگ بھگ 1٫675 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کرتی ہے۔ تاہم قطبین کی طرف گردش کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے اور لندن اور پیرس میں یہ رفتار 900 کلومیٹر کے لگ بھگ رہ جاتی ہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ جب آپ خطِ استوا پر کھڑے ہوتے ہیں توزمین کی ایک گردش پوری ہونےکے لیے 40٫000 کلومیٹر کا سفر طے کرنا ہوگا، تبھی آپ واپس اپنی اصل مقام پر پہنچیں گے۔ اور اگر آپ قطب شمالی پر کھڑے ہوں تو چکر پورا کرنے کے لیے آپ کو محض چند میٹر جتنی حرکت کرنی ہوگی۔ تاہم دونوں جگہوں پر یہ چکر پورا کرنے میں چوبیس گھنٹے ہی لگیں گے۔ اس وجہ سے آپ جتنا بھی خطِ استوا کے قریب ہوں گے، اتنا ہی تیز تر حرکت کریں گے۔
کوریولس افیکٹ ہمیں بتاتا ہے کہ جب شمالی نصف کرے میں کوئی چیز سیدھی حرکت کرے اور اس کی حرکت مناسب وقت تک جاری رہے تو وہ دائیں جانب مڑنے لگ جائے گی۔ جنوبی نصف کرے پر اس حرکت کا رخ بائیں جانب ہوگا۔ اس کو کچھ ایسے سمجھیے کہ اگر آپ بڑے سے جھولے پر کھڑے ہیں اور جھولا چل رہا ہے۔ جب آپ کسی بندے کی طرف گیند پھینکتے ہیں تو وہ بندہ تو اسی جگہ کھڑا ہوتا ہے لیکن جھولے کی حرکت کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ وہ بندہ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے۔ گیند اس سے دور جا کر گرے گی اور آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے گیند نے قوس سی بنائی ہو۔ یہی چیز کوریولس افیکٹ کہلاتی ہے اور اسی کی وجہ سے سمندری طوفان کسی لٹو کی طرح گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ہی وجہ سے بحری جہاز کی توپ سے چلایا جانے والا گولہ ہمیشہ دائیں یا بائیں طرف کر کے پھینکا جاتا ہے۔ ورنہ 15 میل کے فاصلے پر داغا گیا یہ گولہ اپنے نشانے سے سو گز دائیں یا بائیں جا گرے گا۔
ہر انسان کے لیے موسم کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ موسمیات کو سائنس کا درجہ اٹھارہویں صدی میں آن کر ملا، حالانکہ موسمیات یعنی meteorology کا لفظ 1626 میں پہلی بار ٹی گرینگر نے اپنی کتاب میں استعمال کیا۔
موسم سے متعلق کامیاب پیشین گوئی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ درجہ حرارت کی بالکل درست پیمائش کی جائے اور عرصہ دراز تک تھرما میٹر بنانا کارِ دارد سمجھا جاتا تھا۔ پیمائش کے لیے شیشے کی نالی میں بالکل یکساں قطر کا سوراخ کرنا لازمی تھا جو آسان کام نہیں تھا۔ اس مسئلے پر سب سے پہلے ولندیزی سائنس دان گیبرئیل فارن ہائیٹ نے 1717 میں قابو پایا۔ تاہم بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس نے 32 ڈگری کو نقطہ انجماد اور 212 ڈگری کو پانی کے ابلنے کے لیے مقرر کیا۔ اس چیز سے بہت سارے لوگوں کو الجھن ہوئی اور آخرکار 1742 میں اینڈرس سیلسیس، جو سوئیڈش ماہرِ فلکیات تھا، نے متبادل پیمانہ بنایا۔ اکثر موجد کچھ نہ کچھ کھسکے ہوئے ہوتے ہیں، اسی لیے سیلسیس نے نقطہ ابال کو صفر اور نقطہ انجماد کو 100 ڈگری رکھا تاہم جلد ہی ان کے مقامات بدل دیے۔
جدید موسمیات کا بانی برطانوی فارماسسٹ لیوک ہوارڈ کو مانا جاتا ہے جس نے اٹھارہویں صدی میں اپنی پہچان آپ بنائی۔ اس کا اصل کارنامہ 1803 میں بادلوں کی اقسام کو ان کے نام دینا ہے۔ لنیان سوسائٹی کا سرگرم رکن ہونے کے باوجود بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہوارڈ نے ایسکیشین سوسائٹی میں اپنی سکیم پیش کی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یہ سوسائٹی نائٹرس آکسائیڈ کی دیوانی تھی۔
ہوارڈ نے بادلوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا: سٹریٹس بادل وہ ہیں جو تہہ دار ہوتے ہیں، کمولوس (اگر آپ کو دیگر بادلوں کے برعکس کمولوس بادلوں کے انتہائی واضح کناروں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہو تواس کا جواب یہ ہے کہ ان بادلوں کی مرطوبیت اور اس کے باہر کی خشک ہوا ایسا ممکن بناتی ہے۔ نمی کا جو بھی مالیکیول بادلوں سے باہر نکلتا ہے، اسے خشک ہوا لے اڑتی ہے۔ اس کے برعکس سیرس بادل کے اوپر موجود ہوا میں زیادہ فرق نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ان کے کنارے اتنے واضح نہیں ہو پاتے) وہ بادل جو روئی کے گالوں کی مانند دکھائی دیتے ہیں اور سیرئس بادل وہ جو پنکھ جیسے ہوتے ہیں اور عموماً سرد موسم کی نشانی ہوتے ہیں۔ بعد میں اس نے چوتھی قسم نیمبس کا اضافہ کیا جو بارش والے بادل تھے۔ ہوارڈ کے نظام کی انفرادیت یہ ہے کہ کسی بھی دو قسم کے بادلوں کو ملا کر نئی قسم بنائی جا سکتی ہے اور اس کی مدد سے تمام بادلوں کی شناخت ہو سکتی ہے جیسا کہ سٹریٹو کومولس، سیروسٹریٹس، کمولونیمبس وغیرہ۔ یہ نیا نظام انگلستان میں بھی اور انگلستان سے باہر بھی فوری مقبول ہو گیا۔ جرمن شاعر گوئٹے نے اس پر چار نظمیں ہوارڈ سے منسوب کیں۔
ہوارڈ کے نظام میں مسلسل تبدیلیوں کا عمل جاری ہے۔ انٹرنیشنل کلاؤڈ اٹلس جو دو دجلدوں میں چھپاتا ہے، میں ہوارڈ کے نظام کے علاوہ بھی بہت سے اضافے کیے گئے ہیں لیکن انہیں ماہرینِ موسمیات کے علاوہ تو کیا، ماہرین موسمیات سے بھی انتہائی کم توجہ مل پائی ہے ۔ اس اٹلس کا پہلا ایڈیشن جو کہ بہت مختصر تھا، میں بادلوں کی دس بنیادی اقسام بتائی گئی تھیں۔
بہت بڑے حجم کے باوجود طوفانی بادل حقیقت میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ ایک بادل کے کئی سو میٹر چوڑے ٹکڑے میں بمشکل سو سے ڈیڑھ سو لیٹر جتنا پانی ہوتا ہے جو جیمز ٹریفل کے بقول، ‘نہانے کے ٹب کو ہی بھر پائے گا’۔ جب آپ دھند میں چلتے ہیں تو درحقیقت آپ بادلوں میں ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ دھند بادل ہی ہے جو اوپر اٹھنے میں ناکام رہتا ہے۔ جیمز ٹریفل کے بقول، ‘اگر آپ عام دھند میں سو میٹر چلیں تو آپ کے جسم سے ٹکرانے والے پانی کی مقدار محض نصف کیوبک انچ ہوگی، جو آپ کی پیاس بھی نہیں بجھا سکتا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بادلوں میں پانی کا کوئی بڑا ذخیرہ نہیں ہوتا۔ ویسے بھی زمین کے میٹھے پانی کا محض 0.035 فیصد حصہ بادلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
پانی کا مالیکیول جہاں گرتا ہے، اس کی مناسبت سے اس کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ قطرہ زرخیز زمین پر گرے تو پودوں میں جذب ہو کر یا براہ راست بخارات میں تبدیل ہو کر چند گھنٹوں یا چند دنوں میں واپس بادلوں تک پہنچ جائے گا۔ تاہم اگر یہ پانی ہوتا ہوا زیرِ زمین آبی ذخائر تک پہنچ جائے تو پھر کئی سال سے کئی ہزار سال تک سورج کی روشنی نہیں دیکھ پائے گا۔ جب آپ کسی جھیل کو دیکھتے ہیں تو پانی کے ان مالیکیولوں کی اوسط عمر دس سال ہوتی ہے۔ سمندر میں موجود مالیکیولوں کی عمر صدیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر بارش کے پانی کا 60 فیصد حصہ ایک یا دو دن میں بخارات کی شکل میں واپس فضا میں پہنچ جاتا ہے۔ بخارات بننے کے بعد یہی پانی ہفتے یا دو ہفتوں میں پھر بارش کی شکل میں زمین پر لوٹ آتا ہے۔
عملِ تبخیر بہت تیز ہے۔ گرم دن میں کسی چھوٹے سے گڑھے میں بھرے پانی سے آپ یہ اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ بحیرہ روم میں اگر مسلسل پانی نہ جمع ہوتا رہے تو ہزار سال میں خشک ہو جائے گا۔ آج سے تقریباً ساٹھ لاکھ سال قبل ایسا ہی ایک واقعہ ہوا تھا جسے Messinian Salinity Crisis کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دوران جبرالٹر کے مقام پر زمین کی حرکت سے آبنائے بند ہو گئی تھی۔ جب یہ سمندر خشک ہوا تو بخارات بادلوں کی شکل میں دیگر سمندروں پر گرے اور ان کے نمکیات کی مقدار معمولی سی کم ہو گئی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ سمندر زیادہ بڑے رقبے پر جمنا شروع ہو گئے۔ اس طرح زمین پر آنے والی سورج کی روشنی کا زیادہ حصہ منعکس ہو کر واپس جانے لگا اور زمین پر برفانی دور شروع ہو گیا۔ کم از کم نظریہ یہی کہتا ہے۔
تاہم یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ زمین کے نظام میں آنے والی معمولی سی تبدیلی کے اثرات بھی ہمارے وہم و گمان سے باہر ہو سکتے ہیں۔ آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ شاید ایسے ہی کسی واقعے کی وجہ سے ہم وجود میں آئے۔
ہماری زمین کی سطح پر اثر انداز ہونے والے اہم عوامل میں سمندر اہم ترین ہیں۔ اسی وجہ سے ماہرینِ موسمیات سمندروں اور فضا کو ایک ہی نظام شمار کرتے ہیں۔ اس لیے ہم ابھی اس بارے کچھ مزید دیکھتے ہیں۔ حرارت کو جذب کرنے اور منتقل کرنے میں پانی بہت تیز ہے۔ خلیجی بحری رو ہر روز جتنی مقدار میں حرارت یورپ کی طرف لاتی ہے، وہ دس سال میں دنیا بھر کے کوئلے کی پیداوار کے برابر ہے۔ اسی وجہ سے برطانیہ اور آئرلینڈ میں موسمِ سرما روس اور کینیڈا کی نسبت کہیں معتدل رہتا ہے۔ تاہم پانی آہستہ آہستہ گرم ہوتا ہے اور اسی وجہ سے انتہائی گرم دن میں بھی پانی کے تالاب اور جھیلوں کا پانی ہمیں ٹھنڈا لگتا ہے۔ اسی وجہ سے موسم کیلنڈر پر تو جلدی بدل جاتے ہیں لیکن یہ تبدیلی انسانوں کو دیر سے محسوس ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شمالی نصف کرے میں موسمِ بہار کا رسمی آغاز تو مارچ سے ہوتا ہے لیکن اپریل میں جا کر ہمیں اصل میں موسمِ بہار محسوس ہوتا ہے۔
سمندر میں ہر جگہ درجہ حرارت، نمکینی اور کثافت وغیرہ ہر جگہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے ان کے حرارت منتقل کرنے میں بھی فرق ہوتا ہے اور موسم پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔ بحرِ اوقیانوس کا پانی بحرالکاہل کی نسبت زیادہ نمکین ہے جو کہ بہت اچھی بات ہے۔ نمکین پانی زیادہ بھاری ہوتا ہے اور نیچے کو بیٹھتا ہے۔ اس اضافی نمک کے بوجھ کے بناء سمندری روئیں سیدھی قطب شمالی تک جاتیں اور یورپ کو حرارت نہ مل پاتی۔ یہ عمل اصل میں سمندری گہرائیوں پر ہوتا ہے اور اس کے بارے سب سے پہلے کاؤنٹ وون رمفورڈ نے 1797 میں بتایا۔ زمین پر حرارت کی منتقلی کے اصل عمل کا نام Thermohaline گردش ہے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ جب گرم بحری رو یورپ کے پاس پہنچتی ہے تو بھاری اور کثیف ہو کر انتہائی گہرائی کو ڈوبنا شروع ہو جاتی ہے۔ ڈوبتے ہوئے اس کا واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ جب یہ پانی انٹارکٹکا پہنچتے ہیں تو سرکمپولر رو میں پھنس کر اوپر کو اور بحرالکاہل کی جانب بھیج دیے جاتے ہیں۔ یہ عمل بہت سست ہے اور شمالی بحرِ اوقیانوس سے بحرالکاہل کے وسط تک پہنچنے میں اسے ڈیڑھ ہزار سال لگ سکتے ہیں، لیکن جتنی مقدار میں پانی اور حرارت اس عمل سے منتقل ہوتی ہے، وہ بہت زیادہ ہے اور ماحول پر پڑنے والے اثرات بھی اسی حساب سے ہوتے ہیں۔
(اگر آپ کو یہ سوال پریشان کر رہا ہو کہ سائنسدانوں کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ ایک سمندر سے پانی کا قطرہ دوسرے سمندر تک کیسے پہنچتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ سائنس دان پانی میں موجود مختلف کیمیائی اجزاء جیسا کہ کلوروفلوروکاربن وغیرہ کی مقدار کو مختلف جگہوں پر پیمائش کر کے پانی کی حرکت تقریباً ٹھیک ٹھیک ماپ سکتے ہیں۔)
تھرموہیلائن گردش سے نہ صرف حرارت منتقل ہوتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی لہروں سے غذائی اجزاء بھی اوپر نیچے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے سمندروں کا بڑا حصہ مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کے لیے سازگار رہتا ہے۔ تاہم یہ عمل بہت نازک ہے اور آسانی سے اسے متاثر ہو سکتا ہے۔ کمپیوٹر پر بنائے گئے ماڈلوں کی مدد سے پتہ چلا ہے کہ سمندر کی نمکینی میں ہونے والی معمولی سی تبدیلی سے بھی یہ سارا عمل تباہ ہو سکتا ہے۔ اس معمولی سی تبدیلی کے لیے گرین لینڈ کی برف کا پگھلنا کافی رہے گا۔
ہمیں سمندروں کا ایک اور بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ سمندر فضائی کاربن کی بہت بڑی مقدار جذب کر کے اسے طویل عرصے کے لیے قید کر لیتے ہیں۔ ہمارے نظامِ شمسی کی عجیب بات ہے کہ ابتداء میں سورج آج کی نسبت 25 فیصد زیادہ روشن تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہونا چاہیے تھا۔ برطانوی ماہرِ ارضیات آبرے میننگ کے مطابق ‘یہ بہت بڑی تبدیلی کرہ ارض کے لیے تباہ کن تھی مگر بظاہر ہماری زمین پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔‘
تو پھر زمین کیسے مستحکم اور ٹھنڈی رہ پاتی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ کھربوں کی تعداد میں پائے جانے والے ننھے سمندری جاندار، مثلاً فورامنی فیرانس، کوکولتھس اور کالکیروس الجی وغیرہ بارش کے پانی میں جذب ہو کر آنے والی فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر چیزوں کو ملا کر اپنے ننھے ننھے خول بناتے ہیں۔ اس طرح ان کے خول میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ طویل عرصے کے لیے قید ہو جاتی ہے اور سبز مکانی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ جب یہ جاندار مرتے ہیں تو سمندر کی تہہ میں ڈوب کر دباؤ سے چونا بن جاتے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ انگلینڈ میں ڈوور کے مقام پر موجود سفید چٹانیں دراصل انہی مردہ جانداروں کے بیرونی خولوں سے بنی ہیں۔ اب سوچیے کہ اس عمل سے کتنی بڑی مقدار میں کاربن کو کتنے طویل عرصے کے لیے قید کر دیا گیا ہے۔ چھ مکعب انچ جتنی چٹان میں لگ بھگ ایک ہزار لٹر جتنی مضر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو دبا کر قید کر دیا گیا ہے۔ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 80,000 گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس طرح ارضی چٹانوں میں قید کر دی گئی ہے۔ زیادہ تر چونا جلد یا بدیر آتش فشانی عمل سے گزرے گا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں پہنچ کر بارش کے پانی میں حل ہو کر پھر سمندر تک پہنچے گی۔ اسے طویل مدتی کاربن چکر کہا جاتا ہے۔ یہ عمل بہت طویل ہے اور ایک مالیکیول عموماً 5 لاکھ سال میں یہ چکر مکمل کرتا ہے۔ لیکن اگر مداخلت نہ کی جائے تو یہ عمل کرہ ارض پر کاربن کی مقدار کو قابو میں رکھنے کے قابل ہے۔
بدقسمتی سے حضرتِ انسان اس کاربن کے چکر سے بے پروائی برتتا ہے اور یہ سوچے بنا ڈھیروں کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کرتا رہتا ہے کہ آیا سمندری خوردبینی جاندار اس مقدار کو استعمال بھی کر سکیں گے یا نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 1850 سے اب تک فضا میں لگ بھگ 100 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ ہو چکا ہے جو سالانہ 7 ارب ٹن بنتا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی یہ کوئی خاص اضافہ نہیں کیونکہ 200 ارب ٹن سالانہ کے برابر کاربن ڈائی آکسائیڈ آتش فشانوں اور مردہ نباتات کے گلنے سڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔ تاہم بڑے شہروں پر چھائی ہوئی زہریلی دھند کو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اس نظام کو کس طرح برباد کر رہے ہیں۔
قدیم برفانی نمونوں سے ہم جانتے ہیں کہ مختلف اوقات میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کیا مقدار رہی ہوگی۔ صنعتی دور سے قبل یہ مقدار دس لاکھ میں 280 ذرات تھی۔ 1958 میں جب اس مسئلے پر پہلی بار توجہ دی گئی تو اس وقت 315 ذرات تک بات پہنچ چکی تھی۔ آج یہ مقدار 360 ذرات فی دس لاکھ ہے اور ہر چار سال بعد اس میں ایک فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بیسویں صدی کے اختتام تک یہ مقدار شاید 560 ذرات تک پہنچ چکی ہو۔
ابھی تک تو زمین کے جنگلات اور سمندروں نے کاربن کی بہت بڑی مقدار سے ہماری جان بچائے رکھی ہے۔ برطانوی محکمہ موسمیات کے پیٹر کوکس کے مطابق, ‘جلد ہی وہ مرحلہ آنے والا ہے جب سمندر اور جنگلات ہمیں کاربن سے بچانے کا کام چھوڑ کر حقیقت میں کاربن میں اضافے کا کام شروع کر دیں گے۔‘ اندیشہ ہے کہ اس وقت زمین کے درجہ حرارت میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس کو نہ اپنا سکنے کی وجہ سے جنگلات اور نباتات مرنے لگیں گے اور اس سے مزید کاربن پیدا ہوگی۔ ایسے کئی بار ماضی میں انسان کے بغیر بھی ہو چکا ہے۔ تاہم فطرت بہت عجیب شئے ہے اور کاربن کا چکر کچھ عرصے بعد خود کو دوبارہ عام سطح پر لے آئے گا اور صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ یہ کام آج سے 60,000 سال قبل آخری بار ہوا تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
18 دی باؤنڈنگ مین​
تصور کریں کہ آپ کسی ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ہر طرف ڈائی ہائیڈروجن آکسائیڈ موجود ہے جو ایسا کیمیائی مادہ ہے جس کی نہ تو کوئی بو ہے اور نہ ہی کوئی ذائقہ۔ اکثر اوقات یہ انتہائی مجہول سا رویہ اختیار کرتا ہے تو کبھی انتہائی مہلک بن جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں آپ کو جلا سکتا ہے تو بعض صورتوں میں آپ کو جما سکتا ہے۔ مخصوص نامیاتی سالموں کی موجودگی میں کاربونک ایسڈ بن جاتا ہے جو اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ درختوں کی چھال اور سنگی مجسموں کی اوپری سطح کو بھی خراب کر دیتا ہے۔ بڑی مقدار میں جب یہ حرکت کرنے لگے تو کوئی بھی انسانی چیز اسے نہیں روک سکتی۔ حتٰی کہ جو جاندار اس میں رہنے کا ہنر سیکھ چکے ہیں، ان کے لیے بھی اکثر مہلک ثابت ہوتا ہے۔ ہم اسے پانی کے نام سے جانتے ہیں۔
پانی ہر جگہ ہے۔ آلو میں 80 فیصد، گائے میں 74 فیصد، بیکٹیریا کا 75 فیصد، ٹماٹر میں 95 تک پانی ہوتا ہے۔ انسانوں میں 65 فیصد پانی ہوتا ہے۔ یعنی ہم ٹھوس سے زیادہ مائع ہیں۔ پانی بہت عجیب چیز ہے۔ اس کی کوئی شکل نہیں اور شفاف ہوتا ہے مگر ہمیں پھر بھی اچھا لگتا ہے۔ پانی بے ذائقہ ہے لیکن ہمیں اس کا ذائقہ بہت پسند ہے۔ لمبے سفر کر کے اور اچھی خاصی رقم خرچ کر کے ہم سمندر کنارے چھٹیاں منانے جاتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی ہر سال پانی میں ڈوب کر ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، پھر بھی اس میں کھیلنے سے باز نہیں آتے۔
چونکہ پانی اتنا عام پایا جاتا ہے، اس لیے ہم اسے نظرانداز کر جاتے ہیں کہ یہ کتنا منفرد مائع ہے۔ اسے دیکھ کر دوسرےکسی بھی مائع کے رویے کے بارے پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی کسی دوسرے مائع کی خصوصیات اس پر منطبق ہوتی ہیں۔ اگر آپ پانی سے انجان ہوں اور اس سے ملتے جلتے کسی دوسرے مائع سے اس کی خصوصیات جاننا چاہیں، جیسا کہ ہائیڈروجن سیلینائڈ یا ہائیڈروجن سلفائیڈ، پانی منفی 93 ڈگری پر ابل کر گیس بنتا اور عام درجہ حرارت پر ہمیشہ گیس کی شکل میں ملتا۔
زیادہ تر مائعات جب ٹھنڈے ہوتے ہیں تو دس فیصد سکڑ جاتے ہیں۔ پانی بھی ایک خاص حد تک تو سکڑتا ہے، مگر پھر انتہائی عجیب بات کہ پھیلنے لگ جاتا ہے۔ جب یہ جمتا ہے تو اپنے اصل حجم سے تقریباً دس فیصد پھیل چکا ہوتا ہے۔ چونکہ پانی جم کر پھیلتا ہے، اس لیے برف ہمیشہ پانی کی سطح پر تیرتی ہے۔ جان گریبن نے اسے کو ‘انتہائی عجیب خاصیت‘ قرار دیا ہے۔ اگر پانی میں یہ خاصیت نہ ہوتی تو جھیلیں اور سمندر کا پانی جم کر تہہ میں ڈوبتا جاتا اور سطح پر غیر موصل برف نہ ہونے کی وجہ سے حرارت اڑ جاتی اور پانی سرد تر ہوتا اور جمتا جاتا۔ اس طرح سمندر بھی پوری طرح جم جاتے اور بہت طویل عرصے تک، شاید ہمیشہ کے لیے جمے رہ جاتے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورتحال میں حیات تو پنپنے سے رہی۔ شکر ہے کہ پانی کیمیا یا طبعیات کے عمومی اصولوں سے مبرا ہے۔
عام فہم بات ہے کہ پانی کا فارمولا H20 ہے یعنی ایک بڑا آکسیجن کا ایٹم ہائیڈروجن کے دو چھوٹے ایٹموں سے جڑا ہوا ہے۔ ہائیڈروجن آکسیجن کے ایٹم سے مضبوطی سے جڑا ہونے کے علاوہ وقتاً فوقتاً پانی کے دیگر مالیکیولوں سے بھی جڑتا رہتا ہے۔ اس طرح مالیکیول حرکت کرتے ہوئے نت نئے جوڑے بناتا اور انہیں چھوڑ کر آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پانی کے ایک گلاس میں بظاہر تو کوئی حرکت نہیں ہو رہی ہوتی لیکن اس میں ہر مالیکیول ہر سیکنڈ میں اربہا مرتبہ جوڑے بدل رہا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پانی کے مالیکیول ایک دوسرے سے جڑ کر تالاب اور جھیلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ تاہم ضرورت پڑنے پر الگ بھی ہو جاتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ کسی معین وقت پر محض پندرہ فیصد مالیکیول ایک دوسرے کو چھو رہے ہوتے ہیں۔
ایک لحاظ سے تو یہ تعلق بہت مضبوط ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پانی کے مالیکیول نلکی میں اوپر کو اٹھتے ہیں اور تیز رفتار کار کی ونڈ سکرین پر بارش کے دوران پانی کے قطرے اوپر کی جانب لکیروں کی شکل میں حرکت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پانی کا ہر مالیکیول ہوا کی نسبت اپنے نیچے اور آس پاس کے پانی کے دیگر مالیکیولوں سے زیادہ طاقت سے جڑا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پانی کی سطح قائم رہتی ہے جس پر کیڑے مکوڑے بھی چل سکتے ہیں اور ترچھے پھینکے گئے پتھر کئی بار اچٹ کر ڈوبتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب آپ پانی میں پیٹ کے بل چھلانگ لگائیں تو تکلیف محسوس ہوتی ہے۔
اب یہ کہنے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ پانی کے بناء ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ پانی کے بغیر ہمارے جسم میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ چند دنوں میں ہونٹ ایسے غائب ہو جائیں گے جیسے کسی نے کاٹ ڈالے ہوں، مسوڑھے کالے ہو جائیں گے، ناک آدھی رہ جائے گی اور پُتلیاں اتنی سکڑ جائیں گی کہ آنکھ جھپکانا ممکن نہیں رہے گا۔ اتنی اہمیت کے پیشِ نظر ہم اکثر یہ بات بھلا دیتے ہیں کہ کرہ ارض پر موجود پانی کی انتہائی کم مقدار کے سوا باقی تمام پانی ہمارے لیے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سمندری پانی کی یہ خاصیت اس میں موجود نمکیات کی وجہ سے ہوتی ہے۔
ہمیں زندہ رہنے کے لیے نمک کی انتہائی معمولی مقدار کی ضرورت ہے۔ سمندری پانی میں موجود نمک کی مقدار ہماری ضروریات سے کہیں زیادہ، لگ بھگ ستر گنا زیادہ ہوتی ہے۔ عام سمندری پانی کے ایک لٹر میں تقریباً اڑھائی چائے کے چمچ جتنا کھانے کا نمک ہوتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ دیگر معدنیات، مرکبات اور اجزاء کی بہت بڑی مقدار بھی شامل ہوتی ہے جنہیں محض ‘نمکیات‘ کہا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے جسم میں سمندری پانی کئی جگہوں پر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے آنسو ہوں یا ہمارا پسینہ، سمندری پانی سے مماثل ہوتا ہے۔ لیکن جسم سے اخراج ہمارے لیے مفید ہے تو جسم میں اس کی آمد زہر۔ جب آپ بہت سارا نمک کھا لیں تو آپ کے جسم کا میٹا بولزم یعنی تحول اچانک بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہر خلیے سے پانی کے مالیکیول اس طرح نکل کر بھاگتے ہیں جیسے آگ بجھانے کا عملہ آگ بجھانے کے لیے عجلت کرتا ہے تاکہ نمک کو اپنے اندر حل کر کے جسم سے باہر نکال سکے۔ اس طرح خلیوں میں پانی کی شدید کمی ہو جاتی ہے اور ان کے ضروری کام رکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یعنی خلیے خشک ہونے لگتے ہیں۔ شدید حالات میں پانی کی کمی سے دورے پڑتے ہیں جو بیہوشی اور انجام کار موت پر منتج ہوتے ہیں۔ اسی دوران خون کے خلیے اضافی نمک کو گردوں تک لے جاتے ہیں تاکہ پیشاپ کے راستے نمک نکل سکے۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے گردے اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں۔ گردوں کے کام چھوڑنے کا مطلب یقینی موت ہے۔ اسی وجہ سے ہم سمندری پانی نہیں پی سکتے۔
کرہ ارض پر اس وقت کل 1.3 ارب مکعب کلومیٹر پانی ہے اور اس سے زیادہ ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ مزید پانی نہ تو آ سکتا ہے اور نہ ہی جا سکتا ہے۔ جو پانی آپ پیتے ہیں، وہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ قدیم دور میں زمین بننے کے بعد پیدا ہوا تھا۔ اندازہ ہے کہ لگ بھگ 3.8 ارب سال قبل سمندروں کا موجودہ حجم حاصل ہو گیا تھا۔
پانی کی دنیا کو ہائیڈروسفیئر کہا جاتا ہے اور تقریباً ساری کی ساری ہی سمندری ہے۔ کرہ ارض پر موجود پانی کا 97 فیصد حصہ سمندروں پر مشتمل ہے۔ اس کا بڑا حصہ بحرالکاہل میں پایا جاتا ہے جو باقی تمام سمندروں کے مجموعی حجم سے زیادہ ہے اور 51.6 فیصد بنتا ہے۔ بحرِ اوقیانوس میں 23.6 فیصد اور بحرِ ہند میں 21.2 فیصد ہے۔ باقی تمام سمندر مل ملا کر 3.6 فیصد بنتے ہیں۔ سمندروں کی اوسط گہرائی 3.86 کلومیٹر ہے تاہم بحرالکاہل کی اوسط گہرائی بحرِ اوقیانوس اور بحرِ ہند سے 300 میٹر زیادہ ہے۔ سمندروں کے 60 فیصد حصے کی گہرائی 1.6 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ فلپ بال نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ‘ہمیں کرہ ارض کو زمین کی جگہ پانی کہنا چاہیے۔‘
زمین کے کل پانی کا محض 3 فیصد میٹھا ہے اور اس کی اکثریت برفانی تہوں میں پوشیدہ ہے۔ اس کا انتہائی قلیل حصہ جو کہ 0.036 فیصد ہے، جھیلوں، دریاؤں اور آبی ذخائر کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ اس کا مزید چھوٹا حصہ جو کہ 0.001 فیصد بنتا ہے، آبی بخارات اور بادلوں کی شکل میں ہے۔ کرہ ارض کی برف کا تقریباً 90 فیصد حصہ قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں پایا جاتا ہے اور باقی کی بڑی مقدار گرین لینڈ میں ہے۔ قطب جنوبی پر آپ جائیں تو آپ دو میل اونچی برف کی تہہ پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر یہ تمام پگھل جائے تو تمام سمندروں کی سطح میں 200 فٹ کا اضافہ ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر تمام بادلوں کا پانی ایک ساتھ بارش کی شکل میں ہر جگہ ایک جیسی مقدار میں برسے تو سمندروں کی سطح میں محض دو سینٹی میٹر اضافہ ہوگا۔
سطح سمندر ایک علامتی اصطلاح ہے۔ سمندر کی سطح ہر جگہ یکساں نہیں ہوتی۔ لہریں، ہوائیں اور کوریولس افیکٹ اور دیگر مل ملا کر مختلف سمندروں کے مابین اور حتٰی کہ ایک ہی سمندر کی سطح میں فرق پیدا کرتے ہیں۔ بحرالکاہل اپنے مغربی کنارے پر ڈیڑھ فٹ زیادہ اونچا ہے۔ ایسا زمین کی گردش سے پیدا ہونے والی مرکز گریز قوت کے تحت ہوتا ہے۔ جیسے پانی سے بھرے ٹب کو آپ اپنی طرف کھینچتے ہیں تو پانی دوسرے کنارے سے چھلکنے لگتا ہے، عین اسی طرح مشرق کی سمت زمین کی گردش سے پانی سمندر کے مغربی کنارے پر اونچا ہوتا ہے۔
ایک طرف سمندروں کی ہماری زندگی میں اتنی زیادہ اہمیت ہے تو دوسری طرف یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ سائنس دانوں نے کتنی تاخیر سے ان کا مطالعہ شروع کیا۔ 18ویں صدی تک سمندر کے بارے ہمارا علم محض اس حد تک محدود تھا کہ لہروں کے ساتھ بہہ کر کیا چیز ساحل پر پہنچتی ہے یا ماہی گیری کے جالوں میں کیا پھسنتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر معلومات شواہد کے بناء اور محض سنی سنائی پر مبنی ہوتی تھیں۔ 1830 کی دہائی میں برطانوی نیچرلسٹ ایڈورڈ فوربس نے بحر اوقیانوس اور بحرِ روم کا سروے کیا اور بیان دیا کہ چھ سو میٹر سے زیادہ گہرائی پر کوئی حیات نہیں پائی جاتی۔ اس وقت یہ بیان کافی معقول سمجھا گیا۔ چونکہ اتنی گہرائی تک سورج کی روشنی نہیں پہنچتی، اس لیے وہاں نباتات نہیں پائی جاتیں اور پانی کا دباؤ یہاں ویسے بھی بے پناہ ہوتا تھا۔ 1860 میں جب پہلی بار بحرِ اوقیانوس کے پار بچھائی گئی ٹیلیگراف کی تاریں مرمت کی غرض سے تین کلومیٹر سے بھی زیادہ گہرائی سے نکالی گئیں تو ان پر مونگے، سیپیوں اور دیگر جاندار کی موٹی تہہ موجود تھی۔
1872 میں پہلی بار سمندر کی چھان بین پر نکلنے والی مہم برٹش میوزیم اور رائل سوسائٹی کے علاوہ برطانوی حکومت کے تعاون سے پورٹس ماؤتھ سے پرانے جنگی جہاز ایچ ایم ایس چیلنجر پر روانہ ہوا۔ ساڑھے تین سال تک یہ جہاز دنیا بھر کے سمندروں میں پھرتا رہا اور پانی کے نمونے لینے کے ساتھ ساتھ ماہی گیری کے جال سے سمندروں کی تہہ بھی چھانتا رہا۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بہت اُکتا دینے والا تھا۔ 240 سائنس دانوں اور عملے کے افراد میں سے ایک چوتھائی افراد نے مختلف مواقع پر جہاز اور نوکری چھوڑی دی جبکہ آٹھ افراد یا تو مر گئے یا پاگل ہو گئے۔ اندازاً اس جہاز نے 70٫000 بحری میل جتنا سمندر چھانا اور بحری جانداروں کی 4٫700 سے زائد نئی انواع دریافت کیں اور پچاس جلدوں پر مشتمل رپورٹ بنائی جسے جمع کرنے میں انیس سال لگے۔ اس سے ایک نئی سائنسی شاخ ایجاد ہوئی جسے اوشیانوگرافی کہتے ہیں۔ گہرائی ماپنے والے آلات کی مدد سے یہ بھی جانا گیا کہ بحرِ اوقیانوس کے وسط میں زیرِ آب پہاڑ پائے جاتے ہیں۔ اس پر چند افراد نے بعجلت فیصلہ کر لیا کہ اٹلانٹس کا گمشدہ براعظم مل گیا ہے۔
چونکہ اداراتی سطح پر سمندروں کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے اس لیےزیادہ تر اناڑی اور سر پھرے ہی ہوتے ہیں جو ہمیں سمندر کے اندر موجود چیزوں کے بارے بتاتے ہیں۔ جدید دور میں سمندر کی گہرائی کے بارے مہم جوئی کی ابتداء چارلس ولیم بیب اور اوٹس بارٹن نے 1930 میں کی۔ اگرچہ دونوں کا کردار یکساں تھا لیکن پھر بھی بیب کو ہمیشہ تحاریر میں زیادہ توجہ ملی ہے۔ بیب 1877 میں نیویارک شہر میں امیر گھر میں پیدا ہوا۔ اس نے کولمبیا یونیورسٹی سے علم الحیوانات یعنی زوالوجی کی تعلیم حاصل کی اور پھر نیویارک کے چڑیا گھر میں پرندوں کے نگران کے طور پر ملازمت شروع کر دی۔ تاہم اس ملازمت سے اکتا کر اس نے مہم جوئی اختیار کی اور اگلے پچیس برس اس نے ایشیا اور جنوبی امریکہ میں گزارے جہاں اس کے ساتھ خوبصورت لڑکیاں بطور نائب کام کرتی تھیں۔ ان مہمات کے اخراجات کے لیے اس نے مقبولِ عام کتب بھی لکھیں۔ تاہم اس نے پرندوں اور جنگلی حیات پر قابلِ قدر کتب بھی پیش کیں۔
1920 کی دہائی کے وسط میں گیلا پیگوس جزائر کی سیر کے دوران اس نے سمندر کی گہرائی میں غوطہ خوری شروع کی۔ جلد ہی اس کی ملاقات بارٹن سے ہوئی جس کا تعلق مزید امیر گھرانے سے تھا اور وہ بھی کولمبیا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا اور اسے بھی مہم جوئی پسند تھی۔ اگرچہ بارٹن نے پہلی بار باتھی سفیئر کا نقشہ بنایا اور اس کو بنانے کے لیے 12٫000 ڈالر بھی اپنی جیب سے دیے مگر عموماً بیب کو ہی زیادہ تر باتوں کا سہرا ملا۔ یہ مشین ڈیڑھ انچ موٹے فولاد سے بنائی گئی تھی اور دونوں جانب دو چھوٹی کھڑکیاں تھیں جوتین انچ موٹے کوارٹز سے بنائی گئی تھیں۔ اس میں دو آدمیوں کے پھنس کر بیٹھنے کی جگہ تھی۔ اُس وقت کے اعتبار سے بھی یہ مشین زیادہ جدید نہیں تھی۔ اس مشین کو خود سے حرکت نہیں دی جا سکتی تھی بلکہ اسے ایک لمبی تار سے نیچے پانی میں ڈبویا جاتا تھا اور عملِ تنفس کے لیے انتہائی بنیادی انتظام تھا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کے لیے چونے کے ڈبے کھولے جاتے اور نمی جذب کرنے کے لیے کیلشیم کلورائیڈ استعمال ہوتا۔
تاہم یہ بے نام مشین اپنے مقصد میں کامیاب رہی۔ 30 جون 1930 کو بہاماس میں پہلے غوطے کے دوران بارٹن اور بیب نے 183 میٹر کی گہرائی تک پہنچ کر ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔ 1934 میں ان کا یہ ریکارڈ 900 میٹر سے زیادہ گہرائی تک پہنچ گیا اور دوسری جنگِ عظیم تک کوئی اسے نہ توڑ پایا۔ بارٹن کا خیال تھا کہ یہ مشین 1٫400 میٹر کی گہرائی تک کام کر سکتی ہے تاہم جوں جوں گہرائی تک مشین اترتی جاتی، اس کے ہر جوڑ اور ہر پیچ پر پڑنے والا دباؤ صاف سنائی دیتا تھا۔ کسی بھی گہرائی پر کیا جانا والا ہر تجربہ اپنی جگہ بہادری اور خطرے کی علامت تھا۔ 900 میٹر پر بیرونی مناظر دیکھنے کی خاطر بنائی جانےو الی کھڑکیوں پر فی مربع انچ پڑنے والے دباؤ کی شدت لگ بھگ 19 ٹن ہوتی تھی۔ اگر وہ اس مشین کی برداشت سے زیادہ دباؤ والی جگہ پہنچ جاتے تو اتنی گہرائی پر آنے والی موت فوری ہوتی۔ بیب نے اپنی بہت ساری کتب، مضامین اور ریڈیو پروگراموں میں اس خطرے کا ذکر کیا ہے۔ تاہم ان کی پریشانی کا اصل منبع وہ جرِ ثقیل یا کرین تھی جو بحری جہاز پر ان کی مشین کے علاوہ دو ٹن وزنی سٹیل کی تار کو بھی اٹھانے کا کام کرتی تھی۔ اگر یہ جرِ ثقیل ٹوٹ جاتی تو ان کی مشین سمندر کی گہرائیوں میں ڈوب جاتی اور انہیں کسی طرح بچانا ممکن نہ رہتا۔
ان کے غوطوں میں ہمیشہ ایک چیز کی کمی رہی ہے کہ اس سے سائنسی طور پر کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا۔ اگرچہ انہوں نے بے شمار ایسی سمندری مخلوقات دیکھیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھیں لیکن کھڑکی کے مختصر ہونے اور دونوں کا ماہر اوشیانوگرافر نہ ہونا ہی وہ رکاوٹیں تھی کہ وہ اپنی اکثر دریافتوں کو درست طور پر بیان نہ کر پائے جبکہ سائنس دانوں کو اسی چیز کی ہی ضرورت تھی۔ اس مشین میں کوئی بیرونی روشنی نہیں لگی ہوتی تھی اور اندر بھی 250 واٹ کا ایک بلب تھا جسے پکڑ کر کھڑکی کے سامنے لایا جاتا۔ تاہم 150 میٹر کی گہرائی پر پانی شفاف نہیں رہتا اور کسی بھی مخلوق کو دیکھنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ مخلوق اس تین انچ جتنی کھڑکی کے بالکل قریب ہوتی۔ نتیجتاً ان کے بیان کردہ باتوں سے ایک ہی بات پتہ چلی کہ سمندر کی گہرائیوں میں کافی دلچسپ مخلوقات پائی جاتی ہیں۔ ایک بار ایسے ہی غوطے کے دوران 1934 میں بیب نے بتایا کہ ‘بیس فٹ سے زیادہ لمبا سمندری سانپ دکھائی دیا جو بہت چوڑا بھی تھا۔‘ سائے کی طرح یہ سانپ اس مشین کے قریب سے گزر گیا۔ چاہے یہ چیز کچھ بھی رہی ہو، نہ تو بیب سے قبل اور نہ ہی اس کے بعد کسی نے ایسی چیز دیکھی ہے۔ اس طرح کے مبہم بیانات کی وجہ سے تعلیمی اداروں نے ان کی دریافتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔
1934 کے ریکارڈ ساز غوطے کے بعد بیب کی توجہ غوطہ خوری سے ہٹ گئی اور اس نے دوسری قسم کی مہم جوئی اختیار کر لی جبکہ بارٹن نے اپنا کام جاری رکھا۔ بیب کی یہ خوبی اپنی جگہ کہ جو بھی اس سے پوچھتا، وہ بلا جھجھک بتا دیتا کہ اس منصوبے کا اصل محّرک بارٹن ہے، مگر بارٹن کبھی بھی سامنے نہ آ سکا۔ بارٹن نے بھی ان غوطوں کے بارے سنسنی خیز کتابیں لکھیں اور ہالی ووڈ کی فلم Titans of the Deep بھی اس کی کتاب پر بنائی گئی جس میں باتھی سفیئر کو بھی دکھایا گیا اور فلمی انداز میں دیو ہیکل سکوئیڈ سے اس کی لڑائی دکھائی گئی تھی۔ اس نے کیمل سگریٹ کے اشتہار میں بھی کام کیا۔ 1948 میں بارٹن نے اپنے ریکارڈ کو مزید بہتر کیا اور کیلیفورنیا کے قریب بحرالکاہل میں 1٫370 میٹر کی گہرائی تک غوطہ لگایا لیکن کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ ایک اخباری تنقید نگار نے تو Titans of the Deep کے بارے سوچا کہ بیب ہی اس فلم کا ہیرو ہے۔ آج کل قسمت سے ہی کسی کو بارٹن کا نام یاد آ تا ہے۔
خیر، کچھ بھی ہو، بارٹن کا نام ویسے بھی گہنا جانا تھا کہ سوئٹزرلینڈ سے ایک باپ بیٹے آگسٹ اور جیکوئس پیکارڈ کی ٹیم نے ایک نئی باتھی سکیف (گہری کشتی) قسم کی مشین بنائی اور اسے ٹریسٹ کا نام دیا۔ یہ مشین دراصل اٹلی کے ٹریسٹ نامی شہر میں بنائی گئی تھی اور اس میں خود سے حرکت کرنے کی گنجائش بھی تھی۔ تاہم یہ کشتی اوپر نیچے جانے کے علاوہ کم ہی کوئی اور حرکت کر سکتی تھی۔ 1954 میں اپنے ابتدائی غوطوں میں یہ کشتی 4٫000 میٹر سے زیادہ گہرائی تک اتری جو کہ بارٹن کے چھ سال قبل کے ریکارڈ سے تقریباً تین گنا زیادہ تھا۔ تاہم سمندر کی گہرائی میں غوطہ لگانی والی مشین بنانا بہت مہنگا کام تھا اور پیکارڈ آہستہ آہستہ دیوالیہ ہو رہے تھے۔
1958 میں انہوں نے امریکی بحریہ سے معاہدہ کیا جس کے تحت ان کی مشین کی ملکیت تو امریکی بحریہ کے پاس چلی گئی لیکن مشین ان کے استعمال میں رہی۔ بہت زیادہ رقم ہاتھ آنے کے بعد باپ بیٹے نے نئی مشین بنائی جس کی دیواریں تقریباً 13 سینٹی میٹر موٹی اور 5 سینٹی میٹر چوڑی کھڑکیاں تھیں۔ تاہم اب مشین انتہائی مضبوط ہو گئی تھی اور بہت زیادہ دباؤ برداشت کرنے کے قابل تھی۔ جنوری 1960 میں جیکوئس پیکارڈ اور لیفٹننٹ ڈون والش (امریکی بحریہ) نے سمندر کے گہرے ترین مقام یعنی ماریانا کھائی کا رخ کیا جو گوام سے 400 کلومیٹر دور مغربی بحرالکاہل میں واقع ہے۔ چار گھنٹے بعد یہ لوگ 10٫918 میٹر کی گہرائی تک پہنچے جو تقریباًسات میل بنتی ہے۔ اس گہرائی پر فی مربع انچ پڑنے والا دباؤ تقریباً 17٫000 پاؤنڈ کے برابر ہوتا ہے، پھر بھی انہوں نے دیکھا کہ ان کی مشین کو سطح پر رکتا محسوس کر کے وہاں لیٹی ہوئی ایک چپٹی مچھلی ڈر کر ان سے دور ہو گئی۔ اس وقت ان کے پاس کیمرہ نہیں تھا، اس لیے اس کی تصاویر نہیں لی جا سکیں۔
اس مقام پر بیس منٹ رکنے کے بعد انہوں نے واپس سطحِ سمندر کا رخ کیا۔ یہ واحد موقع تھا جب انسان اتنی گہرائی تک پہنچا۔
چالیس سال بعد یہ سوال پھر سے اٹھا: انسان دوبارہ وہاں کیوں نہیں گیا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ وائس ایڈمرل ہائمن جی رِک اوور نے سختی سے مزید غوطوں کی مخالفت کی۔ اسی کے پاس اختیار تھا اور رقم بھی اسی نے جاری کرنی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ زیرِ آب مہم جوئی کا فوج کو کوئی فائدہ نہیں اور بحریہ ویسے بھی کوئی تحقیقاتی ادارہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر خلائی سفر کا جنون پیدا ہو چکا تھا اور انسان کو چاند پر بھیجنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں اور سمندر میں غوطہ خوری اب پرانی بات ہو گئی تھی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ٹریسٹ کے اس غوطے سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا تھا۔ کئی سال بعد بحریہ کے ایک افسر نے کچھ یوں تبصرہ کیا: ‘اس تجربے سے ہمیں کیا فائدہ پہنچا؟ محض یہ بات کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں؟ تو پھر وہی کام دوبارہ کیوں کیا جائے؟‘ یعنی اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اتنی رقم خرچ کر کے اتنا دور جا کر اگر محض ایک چپٹی مچھلی ہی دیکھنی ہے تو پھر کیا فائدہ؟ اگر یہی کام آج کے دور میں کیا جائے تو اس پر کم از کم 10 کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔
جب محققینِ زیرِ آب کو پتہ چلا کہ بحریہ اپنے وعدے سے پھر رہی ہے تو انہوں نے بہت شور مچایا۔ انہیں چپ کرانے کی خاطر بحریہ نے ایک اور آبدوز بنانے کی منظوری دی جو ہر طرح سے حرکت کرنے کے قابل ہوتی مگر بہت زیادہ گہرائی تک نہ جا پاتی۔ اسے میسا چوسٹس کے ووڈز ہول اوشیانوگرافک انسٹی ٹیوشن نے چلانا تھا۔ اس کا نام ایلوِن رکھا گیا جو مشہور بحری محقق ایلن سی وائن سے منسوب تھا۔ اب صرف ایک مسئلہ رہ گیا تھا۔ اسے بنائے گا کون۔ ولیکم جے براڈ نے اپنی کتاب The Universe Below میں لکھا ہے: ‘جنرل ڈائنامکس جیسی بڑی کمپنی جو بحریہ کے لیےآبدوزیں بناتی تھی، کسی قیمت پر بھی بحریہ کے جہاز سازی کے ادارے اور ایڈمرل ریک اوور کی دشمنی نہیں مول لینا چاہتی تھی۔ ‘ آخرکار قرعہ فال جنرل ملز کے سر نکلا جو اس وقت تک ناشتے کے دلیے بنانے کی مشینیں تیار کرتی تھی۔
سمندر کی سطح کے نیچے کیا ہے، اس بارے ہماری معلومات انتہائی محدود ہیں۔ 1950 کی دہائی تک بحری محققین کے پاس موجود نقشوں میں موجود معلومات کا انتہائی کم حصہ 1929 کی مہم سے آیا تھا اور باقی سب اندازوں سے تیار کیا گیا تھا۔ بحریہ کے پاس انتہائی بہترین نقشے تھے کہ جن کی مدد سے اس کی آبدوزیں کھائیوں سے ہو کر اور چٹانوں سے بچ کر گزرتی تھیں لیکن روسیوں سے ان معلومات کو بچانے کی خاطر یہ تمام معلومات اور نقشے انتہائی رازداری سے رکھےجاتے تھے۔ اس لیے محققین کو یا تو قدیم نقشوں پر گزار کرنا تھا یا پھر اندازے لگاتے۔ آج بھی ہماری معلومات سمندر کی تہہ سے متعلق ادھوری ہیں۔ اگر آپ عام دوربین کی مدد سے چاند کو دیکھیں تو اس پر موجود گڑھوں کے نام اکثر شوقیہ فلکیات دانوں کو معلوم ہوتے ہیں۔ اگر یہی گڑھے زمین پر ہوتے تو شاید ہی ان کا نام کسی نے سنا ہوتا۔ ہمارے پاس اپنے سمندروں سے کہیں بہتر نقشے مریخ کے ہیں۔
سطحِ سمندر پر ہونے والی تحقیقات بھی کوئی خاص نہیں۔ 1994 میں بحرالکاہل میں آنے والے طوفان کے باعث کوریا کے ایک مال بردار بحری جہاز سے آئس ہاکی کے 34٫000 دستانے بہہ گئے۔ بعد میں یہ دستانے وینکوور سے ویتنام تک، ہر جگہ پہنچے۔ اس طرح سمندری ماہرین کو بحری روؤں کی حرکات کے بارے زیادہ بہتر پتہ چلا۔
آج ایلوِن کو بنے چالیس سال ہو گئے ہیں لیکن آج بھی اس کی اہمیت مسّلمہ ہے۔ تاہم آج بھی کوئی آبدوز نما ایسی مشین نہیں جو ماریانا گھاٹی تک پہنچ سکے۔ ایلوِن کو ملا کر آج محض پانچ مشینیں ایسی ہیں جو سمندر کی تہہ (3٫000 سے 6٫000 میٹر کی گہرائی) تک پہنچ سکیں، حالانکہ یہ تہہ کرہ ارض کے نصف سے زیادہ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس طرح کی مشینوں کو چلانے کا ایک روز کا خرچہ 25٫000 ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس لیے انہیں اوّل تو استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور جب کیا جاتا ہے تو اس کے پیچھے ٹھوس سائنسی مقاصد ہوتے ہیں۔ بغیر منصوبہ بندی کے انہیں بھیجنے کا مطلب ایسا ہی ہے کہ تاریکی میں پانچ افراد چھوٹے ٹریکٹر پر بیٹھ کر دنیا کا نقشہ بنانے نکلیں۔ رابرٹ کُنزیگ کے مطابق ‘انسان نے شاید سمندر کے ایک کروڑیں یا ایک اربویں حصے کو ہی دیکھا ہے۔ یا شاید اس سے بھی کہیں کم۔ ‘
تاہم سمندری ماہرین انتہائی مستقل مزاج ہوتے ہیں اور اپنے محدود وسائل سے بھی پوری طرح کام لینے کا گر جانتے ہیں۔ 1977 میں صدی کی اہم ترین حیاتیاتی دریافت کا سہرہ انہی کے سر ہے۔ اس سال ایلوِن نے گیلاپیگوس کے پاس سمندری گہرائی میں آتش فشانی سوراخوں کے پاس اتر کر دیکھا کہ وہاں تین میٹر لمبے کیڑے، ایک فٹ چوڑی سیپیاں، بے شمار گھونگھے اور جھینگے موجود تھے۔ ان کا وجود ان آتش فشانی سوراخوں سے خارج ہونے والے ہائیڈروجن سلفائیڈ پر پلنے والے بیکٹیریا پر تھا جو اس سے توانائی حاصل کرتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سطحِ سمندر پر ہائیڈروجن سلفائیڈ جانداروں کے لیے سمِ قاتل ہے۔ ہائیڈروجن سلفائیڈ ان آتش فشانی سوراخوں سے مسلسل نکلتا رہتا ہے۔ اس جگہ زندگی کا انحصار سورج کی روشنی پر نہیں اور نہ ہی آکسیجن یا زندگی سے متعلق کسی بھی دیگر عام فہم وجہ پر۔ یہ پورا نظام ضیائی تالیف کی بجائے کیمیائی تالیف پر چل رہا تھا۔ اس دریافت سے قبل اگر ایسا کوئی نظریہ پیش بھی کیا جاتا تو سائنس دان اس پر ہنستے۔
ان سوراخوں سے نکلنے والی توانائی اور حرارت کی مقدار انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے دو درجن سوراخوں سے نکلنے والی توانائی ایک بڑے پاور سٹیشن کے برابر ہوتی ہے اور ان کے آس پاس موجود حرارت بھی بہت زیادہ۔ ان سوراخوں پر درجہ حرارت 400 ڈگری کے قریب ہوتا ہے اور دو میٹر کی دوری پر درجہ حرارت محض دو یا تین ڈگری رہ جاتا ہے۔ ایک قسم کے کیڑے جنہیں ایلوِنلائیڈز کہا جاتا ہے، عین اس کے کنارے پر پائے جاتے ہیں۔ ان کے سر اور دم والے پانیوں کے درجہ حرارت کا فرق لگ بھگ 78 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ اس سے قبل سوچا جاتا تھا کہ 54 ڈگری سے زیادہ گرم پانی پر کوئی جاندار زندہ نہیں رہ پاتا۔ ان کیڑوں کے سر کی جگہ پر پانی 54 ڈگری سے کہیں زیادہ گرم اور ان کی دموں پر کہیں زیادہ سرد تھا۔ اس دریافت سے زندگی کی بنیادی ضروریات کے بارے ہمارے نظریات یکسر بدل گئے۔
اس نے سمندری سائنس کے سب سے بڑے معمّوں میں سے ایک کو بھی حل کیا۔ تاہم اس وقت تک کسی کو اس بارے اندازہ نہیں تھا کہ سمندر وقت کے ساتھ ساتھ نمکین سے نمکین تر کیوں نہیں ہو رہے؟ سمندروں میں موجود نمکیات کو اگر زمین کی خشک سطح پر پھیلایا جائے تو تمام تر زمین پر نمک کی لگ بھگ 150 میٹر اونچی تہہ چڑھ جائے گی۔ صدیوں سے یہ بات عام فہم سمجھی جاتی ہے کہ دریاؤں کے پانی سے بہہ کر بے شمار معدنیات سمندر تک پہنچتے ہیں اور سمندری پانی کے آئنوں سے مل کر نمکیات بناتے ہیں۔ یہاں تک تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ اتنے عرصے سے سمندری نمکیات کا تناسب یکساں ہے۔ روزانہ کروڑوں گیلن پانی سمندروں سے آبی بخارات کی شکل میں اڑتا ہے اور اپنے پیچھے نمکیات چھوڑ جاتا ہے۔ بظاہر تو عقل یہی کہتی ہے کہ اس وجہ سے سمندری پانی کو ہر سال زیادہ نمکین ہونا چاہیے، مگر ایسا ہوتا نہیں۔ ہر سال جتنے اضافی نمکیات پہنچتے ہیں، اتنا ہی سمندر سے کسی وجہ سے نکل جاتے ہیں۔ طویل عرصے تک کسی کو اس کی وجہ کا علم نہیں ہو پایا۔
ایلوِن کے دریافت کردہ سمندری سوراخ اس کا جواب تھے۔ جیو فزسٹس کو پتہ چلا کہ یہ سوراخ ایسے ہی سمندری پانی کی صفائی کرتے ہیں جیسے ایکوریم میں موجود فلٹر پانی کو صاف کرتا ہے۔ نمکین پانی سمندر کی تہہ میں جذب ہوتا ہے اور وہاں اس سے نمکیات نکال لیے جاتے ہیں اور صاف پانی پھر ان سوراخوں سے نکلتا ہے۔ یہ عمل زیادہ تیز نہیں اور پورے سمندر کی صفائی میں 1 کروڑ سال لگ سکتا ہے لیکن اگر جلدی نہ ہو تو یہ عمل بہترین کام کرتا ہے۔
سمندروں کی گہرائی کے بارے ہماری سائنسی جہالت کا اندازہ اس ایک بیان سے لگا لیجیے جو 1957/58 کے سال کے مقصد کے طور پر اوشیانوگرافرز کو دیا گیا: ‘سمندر کی گہرائیوں کو تابکاری فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے کیسے استعمال کیا جائے۔‘ واضح رہے کہ یہ کوئی خفیہ راز نہیں تھا بلکہ اسے فخر سے عوامی طور پر بیان کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ بات زیادہ کھلے عام نہیں بتائی گئی تھی لیکن اس سے ایک دہائی قبل سے ہی سمندروں میں کھلے عام تابکار فضلے کو ٹھکانے لگائے جانے کا کام پورے جوش و خروش سے جاری تھا۔ 1946 سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ 55 گیلن والے ڈرموں میں تابکار فاضل مادے بھر کر کیلیفورنیا سے 50 کلومیٹر دور ایک جزیرے کے ساحل کے پاس پھینک رہا تھا۔
یہ سارا سلسلہ ہی بے ڈھنگا تھا۔ زیادہ تر ڈرم عام استعمال والے تھے جن میں تابکاری سے بچاؤ کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ جب یہ ڈرم پانی میں تیرنے لگ جاتے (جو کہ عام بات تھی) تو نیوی کے جوان مشین گنوں سے اس کو گولیوں سے چھلنی کرتے تھے تاکہ پانی اندر گھسے اور یہ ڈرم ڈوب جائیں (اور سارے تابکار مادے جیسا کہ پلوٹونیم، سٹرانشیم، یورینیم وغیرہ باہر نکل آئیں)۔ یہ سلسلہ 1990 کی دہائی میں جا کر رکا۔ اس دوران ایسے کئی لاکھ ڈرم پچاس مختلف سمندری مقامات پر پھینکے گئے تھے۔ پچاس ہزار کے قریب ڈرم تو مندرجہ بالا جزیرے کے پاس پھینکے گئے تھے جو کیلیفورنیا کے پاس ہے۔ تاہم یہ کام کرنے والا امریکہ واحد ملک نہیں تھا بلکہ روس، چین، جاپان، نیوزی لینڈ اور یورپ کی تقریباً تمام اقوام بھی اس عمل میں اپنے طور سے شامل تھیں۔
ان تابکار عناصر کا سمندری حیات پر کیا اثر ہوا ہوگا؟ امید ہے کہ نہ ہونے کے برابر۔ تاہم اس بارے کوئی یقین سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ سمندری مخلوقات کے بارے ہمارا علم بہت مختصر ہے۔ نیلی وہیل جیسے عظیم الجثہ جانور کے بارے ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ڈیوڈ اٹینبرو کے الفاظ میں، ‘نیلی وہیل کی زبان کا وزن ہاتھی جتنا، اس کا دل کار کے برابر اور بعض شریانیں اتنی بڑی ہیں کہ آپ ان میں تیر سکتے ہیں۔ بشمول ڈائنوسارز، اس سے زیادہ بڑا جانور کرہ ارض پر کبھی نہیں پیدا ہوا۔ اس کے باوجود نیلی وہیل کی زندگی کا زیادہ تر وقت کہاں اور کیسے گزرتا ہے، ہم کچھ نہیں جانتے۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ افزائشِ نسل کے لیے یہ وہیل کہاں جاتی ہیں اور کن راستوں سے گزرتی ہیں۔ نیلی وہیل کے بارے ہمیں جتنی بھی معلومات ہیں، وہ ان کے گانوں کو سن کر اخذ کی گئی ہیں جس میں مزید اسرار پوشیدہ ہیں۔ نیلی وہیل بعض اوقات گانے کو ادھورا چھوڑ دیتی ہیں اور چھ ماہ بعد اسی جگہ لوٹ کر اسی گانے کو وہیں سے دوبارہ شروع کر دیتی ہیں۔ بعض اوقات وہ ایک بالکل ہی نیا گانا شروع کرتی ہیں جو اس خاندان کے کسی فرد نے پہلے نہیں سنا ہوتا، مگر سب اسے پہلے سے جانتے ہوتے ہیں۔ ایسا کیسے ممکن ہے، کے بارے ابھی تک کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔ حالانکہ وہیل ایسا جانور ہے جسے سانس لینے کی خاطر متواتر سطح سمندر پر آنا پڑتا ہے۔
جو جانور سطح پر نہیں آتے، ان کا وجود ہمارے لیے مزید خفیہ ہے۔ مثال کے طور پر عظیم سکوئڈ دیکھیں۔ یہ جانور اگرچہ نیلی وہیل جتنا بڑا تو نہیں، مگر اس کی آنکھیں فٹبال جتنی بڑی اور لمبے بازوؤں کی لمبائی 18 میٹر اور وزن ایک ٹن تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ کرہ ارض پر پایا جانے والا سب سے بڑا غیر فقاریہ جانور ہے۔ اگر چھوٹے سوئمنگ پول میں ڈالا جائے تو مزید کسی چیز کی جگہ نہیں بچے گی۔ تاہم، آج تک کسی سائنس دان تو کجا، کسی انسان نے بھی اسے زندہ نہیں دیکھا۔ ماہرینِ حیوانات نے پوری زندگیاں اس جانور کی تلاش میں گزاری ہیں لیکن کبھی اسے پکڑ نہ پائے۔ ہمیں اس جانور کے بارے جب بھی اطلاع ملتی ہے، وہ یہی ہوتی ہے کہ یہ جانور مردہ حالت میں بہہ کر ساحل سمندر پر آن پہنچا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان جانوروں کی بھاری اکثریت نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرے کے ساحل پر ملتی ہے۔ ان کی تعداد کافی زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ یہ جانور سپرم وہیل کی خوراک کا بڑا حصہ ہیں اور سپرم وہیل بہت پرخور جانور ہے(اس عظیم سکوئڈ کے وہ اعضا جو ہضم نہیں ہو پاتے بالخصوص ان کی چونچ، سپرم وہیل کے معدوں میں جمع ہوتے رہتے ہیں جہاں ان کی شکل ایمبرگریس کی ہوتی ہے۔ اسے پرفیوم میں بطور Fixative استعمال کیا جاتا ہے)۔
ایک اندازے کے مطابق 3 کروڑ سے زیادہ انواع کے جاندار سمندر میں رہتے ہیں لیکن ان کی اکثریت ابھی تک دریافت نہیں ہو پائی۔ سمندر کی تہہ چھاننے والی مشین کی ایجاد 1960 کی دہائی میں ہوئی۔ اس مشین کی مدد سے نہ صرف سمندر کی تہہ بلکہ اس کے نیچے چھپی ہوئی مخلوق بھی پکڑی جا سکتی تھی۔ ڈیڑھ کلومیٹر کی گہرائی پر براعظمی تہہ پر جب اسے چلایا گیا تو ایک گھنٹے کے اندر اس مشین نے 25٫000 جانور پکڑے جو 365 انواع سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں کیڑے، ستارہ مچھلیاں، سمندری کھیرے، سبھی شامل تھے۔ پانچ کلومیٹر کی گہرائی پر جب یہ مشین چلائی گئی تو 3٫700 جانور پکڑے گئے جو تقریباً 200 انواع سے تعلق رکھتے تھے۔ واضح رہے کہ یہ مشین محض ان جانوروں کو پکڑ سکتی تھی جو یا تو بہت سست رفتار تھے یا پھر اتنے احمق کہ اس مشین کے سامنے سے نہ ہٹتے۔ 1960 کی ہی دہائی میں بحری سائنس دان جان آئزاک نے چارہ لگا کر ایک کیمرہ سمندر کی گہرائی میں اتارا تو اس سے مزید جاندار دریافت ہوئے جن میں بام مچھلی سے ملتی جلتی مخلوق بھی تھی اور دیگر اقسام کی مچھلیوں کے غول بھی دکھائی دیے۔ جب اچھی تعداد میں خوراک ملے، جیسا کہ وہیل مر کر سمندر کی تہہ میں ڈوب جائے تو سمندر کی تہہ پر 390 مختلف انواع کے جانور بھی اس سے پیٹ بھرتے دیکھے گئے ہیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ ان کی اکثریت ایسی مخلوقات کی تھی جو 1٫600 کلومیٹر دور واقع سمندری سوراخ سے یہاں پہنچی تھی۔ ان میں ایسے گھونگھے اور سیپیاں بھی شامل تھے جو زیادہ طویل فاصلے کا سفر کرنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ شاید ان مخلوقات کے لاروے سمندری رو سے بہہ کر یہاں تک پہنچے ہوں اور کسی کیمیائی مادے کی موجودگی جان کر یہاں پیٹ بھرنے کو رک گئے ہوں۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر سمندر اتنے ہی وسیع ہیں تو پھر ہم اس کی مخلوقات کو کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ سمندروں میں ہر جگہ آبی مخلوقات کی تعداد یکساں نہیں۔ مل ملا کر سمندر کا محض 10 فیصد حصہ بھی زرخیز نہیں۔ زیادہ تر آبی مخلوقات کم گہرے پانی میں رہنا پسند کرتی ہیں جہاں سورج کی روشنی اور حرارت ملتی ہے اور اسی کی وجہ سے ہی غذائی چکر چلتا رہتا ہے۔ کورل ریف یا مونگے کی چٹانیں کل سمندروں کا محض ایک فیصد بھی نہیں، لیکن یہاں موجود مچھلیاں پورے سمندروں کی چوتھائی کے برابر ہیں۔
اس کے علاوہ سمندر میں ہر جگہ حیات کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا کو دیکھیں کہ اس کا ساحل 36٫735 کلومیٹر بنتا ہے اور دو کروڑ تیس لاکھ مربع کلومیٹر سمندری پانی بھی اس کی ملکیت ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود ٹم فلینری کے بقول ‘آسٹریلیا مچھلی پیدا کرنے والے پہلے پچاس ممالک میں بھی شامل نہیں۔‘ اس کی بجائے آسٹریلیا مچھلیاں وغیرہ درآمد کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسٹریلیا کی سرزمین کی مانند اس کے سمندروں کا بڑا حصہ بنجر یا صحرائی ہے (تاہم کوئینز لینڈ کے پاس موجود گریٹ بیریئر ریف کا علاقہ انتہائی زرخیز ہے)۔ چونکہ آسٹریلیا کی سرزمین بنجر ہے اس لیے یہاں سے بہہ کر سمندر جانے والے نمکیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس کے علاوہ جہاں سمندری حیات پائی جاتی ہے، اس سے چھیڑ چھاڑ کرنا بہت آسان ہے۔ 1970 کی دہائی میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کچھ ماہی گیروں کو 800 میٹر کی گہرائی میں رہنے والی ایک عجیب سی مچھلی کے بہت بڑے غول ملے۔ انہیں اورنج رفی کہا گیا اور ان کا ذائقہ اچھا تھا اور تعداد بھی بہت زیادہ۔ فوراً ہی ماہی گیری کے جہازوں نے سالانہ 40٫000 ٹن جتنی مچھلی پکڑنا شروع کر دی۔ پھر سمندری سائنس دانوں نے خطرناک چیز دریافت کی۔ یہ مچھلی بہت طویل عمر پاتی ہے اور آہستگی سے بڑی ہوتی ہے۔ چونکہ سمندر میں نمکیات کی کمی ہے، اس لیے اس کی بڑھوتری بہت سست ہوتی ہے۔ بعض مچھلیاں تو ڈیڑھ سو سال پرانی بھی ہو سکتی ہیں۔ یہاں موجود بعض مچھلیاں تو زندگی بھر میں ایک بار افزائش نسل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی مچھلیوں کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے جب اس بات کا انکشاف ہوا، ان کی تعداد بہت کم ہو چکی تھی۔ ابھی بھی اگر ان کی مناسب دیکھ بھال کی جائے اور تحفظ مہیا کیا جائے تو بھی تعداد کو خطرے کی سطح سے نکلنے میں کئی دہائیاں لگیں گی، اگر خطرے سے نکل پائی تو۔
دیگر جگہوں پر سمندری حیات کا استحصال غلطی سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر بہت سارے ماہی گیر شارک کے ‘پر‘ کاٹ لیتے ہیں۔ یعنی زندہ شارک کو پکڑ کر اس کے پر کاٹے اور مچھلی کو واپس سمندر میں مرنے کے لیے ڈال دیا۔ 1998 میں مشرقِ بعید میں شارک کے پروں کی قیمت 110 ڈالر فی کلو تھی۔ ٹوکیو میں شارک کے پر سے بنا سوپ کا ایک پیالہ 100 ڈالر کا ملتا ہے۔ 1994 میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے اندازے کے مطابق سالانہ 4 کروڑ سے 7 کروڑ شارکوں کے پر کاٹے جاتے ہیں۔
1995 میں صنعتی پیمانے والے 37٫000 بحری جہاز اور لاکھوں چھوٹی کشتیاں مچھلیاں پکڑنے میں جٹی ہوئی تھیں۔ اس وقت پکڑی جانے والی مچھلی کی تعداد پچیس سال پہلے سے دو گنا تھی۔ بعض ٹرالر تو بڑے کروز جہازوں کے برابر ہوتے ہیں اور ان کے جال اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ دس بارہ جمبو جیٹ سما جائیں۔ بعض جہاز تو مچھلیوں کو تلاش کرنے کے لیے ہوائی جہاز بھی استعمال کرتے ہیں۔
تخمینے کے مطابق پکڑی جانے والی مچھلی کی ایک چوتھائی بیکار ہوتی ہے۔ یعنی ایسی مچھلی جو یا تو بہت چھوٹی ہے یا پھر غلط قسم کی ہے یا پھر غلط موسم میں پکڑی جاتی ہے۔ The Economist کو ایک مبصر نے بتایا کہ ‘ہم آج بھی تاریک دور میں رہتے ہیں۔ آج بھی ہم سمندر میں جال پھینک کر دیکھتے ہیں کہ نیچے کن اقسام کی مچھلیاں موجود ہیں۔ ہر سال 2 کروڑ 20 لاکھ ٹن ایسی فالتو مچھلی سمندر میں واپس ڈال دی جاتی ہے۔ اس کی اکثریت مردہ ہوتی ہے۔ ایک کلو جھینگے کو پکڑنے کی خاطر 4 کلو مچھلی اور دیگر مخلوقات جان سے جاتی ہیں۔
شمالی سمندر کی تہہ کو ہر سال سات مرتبہ صاف کیا جاتا ہے، اتنی زیادہ مداخلت کوئی بھی ایکو سسٹم برداشت نہیں کر سکتا۔ شمالی سمندر کی دو تہائی انواع کی مچھلیوں کا ضرورت سے زیادہ شکار کیا جا چکا ہے۔ تاہم بحرِ اوقیانوس کے دوسرے کنارے پر بھی کوئی خاص بہتری نہیں۔ ہالی بٹ نامی مچھلی کسی زمانے میں نیو انگلینڈ کے پاس بے تحاشا پائی جاتی تھی اور ماہی گیروں کی کشتیاں 20٫000 پاؤنڈ روزانہ یہ مچھلی پکڑتی تھیں۔ آج امریکہ کے شمال مشرق ساحل پر یہ مچھلی ناپید ہو چکی ہے۔
تاہم کاڈ جیسی بد قسمت مچھلی اور کوئی نہیں۔ 15ویں صدی میں مہم جو جان کابٹ نے شمالی امریکہ کے مشرقی ساحل پر اس کی بے تحاشا تعداد دیکھی۔ یہاں پانی کم گہرا تھا اور کاڈ اس کی تہہ پر پائی جاتی تھی۔ کابٹ کے مطابق یہ مچھلی اتنی زیادہ تھی کہ مچھیرے اور ملاح ٹوکری ڈال کر پکڑ لیتے تھے۔ میساچوسٹس کی ریاست کا ساحل اور سمندری رقبہ ریاست سے بڑا ہے۔ نیو فاؤنڈ لینڈ اس سے بھی بڑا ہے۔ صدیوں تک سمجھا جاتا رہا کہ کاڈ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ اب یہ غلط فہمی دور ہو چکی ہے۔
1960 میں شمالی بحرِ اوقیانوس میں افزائش نسل کے لیے آنے والی کاڈ کے بارے اندازہ لگایا گیا کہ اس کی تعداد سولہ لاکھ ٹن بچ گئی ہے۔ 1990 میں یہ تعداد 22٫000 ٹن رہ گئی تھی۔ تجارتی اعتبار سے کاڈ ناپید ہو چکی ہے۔ مغربی بحرِ اوقیانوس سے شاید کاڈ ہمیشہ کے لیے ناپید ہو چکی ہے۔ 1992 میں ان ساحلوں پر کاڈ کا شکار یکسر ختم ہو گیا تھا اور 2002 کے موسمِ خزاں میں نیچر کی ایک رپورٹ کے مطابق مچھلی کی تعداد ابھی تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ کرلانسکی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ‘فش فنگر میں اصل میں کاڈ مچھلی استعمال ہوتی تھی اور آج کل جو بھی مل جائے۔‘
دیگر سمندری خوراک کے بارے بھی یہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔ نیو انگلینڈ میں رہوڈ آئی لینڈ سے پرے کبھی 9 کلو وزنی لابسٹر پکڑنا عام سی بات تھی۔ بعض اوقات تو ان کا وزن 13 کلو تک پہنچ جاتا تھا۔ اگر لابسٹر کا شکار نہ کیا جائے تو ستر سال تک زندہ رہ سکتے ہیں اور ان کی نشونما کبھی نہیں رکتی۔ آج کل شاید ہی کوئی لابسٹر ایک کلو سے زیادہ وزنی ہوتا ہو۔ نیویارک کی رپورٹ کے مطابق ‘ماہرینِ حیاتیات کے اندازے کے مطابق 90 فیصد لابسٹر قانونی عمر کو پہنچتے ہی پکڑ لیے جاتے ہیں۔ یہ حد 6 سال ہے۔‘ کم ہوتے ہوئے شکار کے باوجود نیو انگلینڈ کے ماہی گیروں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ انہیں ایک طرح سے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ بڑی کشتیاں خرید کر مزید سمندروں کو چھانیں۔ آج کل میساچوسٹس کے ماہی گیروں کو بام مچھلی سے ملتی جلتی ایک مچھلی پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے کہ مشرقِ بعید میں اس کی کچھ طلب ہے۔ تاہم ان کی تعداد بھی اب کم ہوتی جا رہی ہے۔
ہمیں سمندری حیات کے دورانِ حیات کو چلانے والے تحرک کے بارے بہت کم معلومات ہیں۔ جن علاقوں میں ضرورت سے زیادہ مچھلی پکڑی گئی ہے، کہیں مچھلیوں کی تعداد شکار سے بہت کم ہے تو جہاں پانی بنجر ہیں، وہاں موجود بحری حیات کی مقدار اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔ انٹارکٹکا کے جنوبی سمندر میں دنیا بھر کے پلانکٹون کا محض تین فیصد حصہ پیدا ہوتا ہے جو کسی بھی قسم کے پیچیدہ نظامِ حیات کے لیے کافی نہیں سمجھا جاتا لیکن اس کے باوجود وہاں ایسا نظام موجود ہے۔ اکثر لوگوں نے کبھی کیکڑے کھانے والی سیل کے بارے نہیں سنا ہوگا مگر انسانوں کے بعد کرہ ارض پر سب سے زیادہ پایا جانے والا جانور ہے۔ انٹارکٹکا کے برفزار پر ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ یہ جانور رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ 20 لاکھ ویڈل سیل، پانچ لاکھ شاہی پینگوئن اور شاید 40 لاکھ ایڈلی پینگوئن بھی یہاں پائے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ شکاری جانوروں کے ہوتے ہوئے معلوم نہیں کہ یہ نظام کیسے چل رہا ہے۔
گھوم پھر کر یہی بات سامنے آتی ہے کہ ہم زمین کے سب سے بڑے نظام کے بارے کتنا کم جانتے ہیں۔ اب اگلے صفحات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں حیات کے بارے بہت کم علم ہے اور اس سے بھی کم معلومات اس کی ابتداء کے بارے ہمیں معلوم ہیں۔
 
Top