اے خدا

نیرنگ خیال

لائبریرین
بس آج کچھ ایسا ہی فیل ہو رہا تھا

میں سمجھ گیا تھا اسی دن ہی یہ کیفیت قیصرانی بھائی۔۔۔ آپ نے یہ تحریر لکھ کر دل کو ملول کر دیا۔۔۔ ایسے کیسے ہی ان گنت واقعات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔۔۔ ڈر اور ازلی بزدلی کے سبب ایسے موضوعات پر کوشش کے باوجود چند سطور سے زیادہ نہیں لکھ پاتا۔۔۔ لکھوں بھی تو کیسے۔۔۔۔ اور کیا۔۔۔۔ منٹو کا افسانہ "آیا صاحب" تو آپ نے پڑھ ہی رکھا ہوگا۔۔۔ یہ فسانے کہنے کو فسانے ہوتے ہیں۔ حقیقت میں یہ ہمارے معاشرے کا عکس ہوتے ہیں۔۔۔ میرے گھر والوں کا رویہ بالکل اس رویے کے برعکس ہے۔۔۔ ہمارے گھر جو بچے کام کرنے آتے تھے۔۔۔ وہ ہم سے پہلے کھانا کھاتے تھے۔ ہمیں غصہ بھی آتا تھا۔۔ اور جلن بھی ہوتی۔۔۔ کہ ہمارا حق زیادہ ہے۔۔ پر امی ہمیشہ کہتی تھیں۔۔۔ کہ ملازم کے معاملات میں اللہ سے ڈرا کرو۔۔۔ ابو ابھی تک مزارعوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔۔۔ اس لیے یہ عادت مجھ میں بھی رچ بس گئی ہے۔۔۔ لیکن گردونواح یعنی بہت قریبی گھروں میں یہ معاملات دیکھے ہیں۔۔۔۔ جو آپ نے بیان کیے ہیں۔۔ میرا دادا ابو اک انتہائی سخت آدمی تھے۔۔۔۔ وہ بات بے بات اپنی اولاد کی دھنائی کر دیا کرتے تھے۔۔۔ اور ان چیزوں کے بعد میں میں نے بہت منفی اثرات دیکھے۔۔۔ بس اللہ سب کو ہدایت دے۔۔۔ ہمیں ہر رشتے ہر تعلق میں انصاف کرنے کی اور اپنی ذات سے ڈرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔ آمین
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
دیکھیئے، ظلم ہوتا دیکھنا بھی غلط ہے۔ ہمیں یہ چیز اس وقت اپنے والد سے ڈسکس کرنی چاہیئے تھی۔ اس کے علاوہ میری امی مناسب حد تک پڑھی لکھی ہیں، سمجھدار ہیں۔ جب پیار کرتی ہیں تو حد سے زیادہ پیار کرتی ہیں۔ لیکن اگر انہیں غصہ آ جائے تو وہ بھی حد سے زیادہ۔ کبھی ان کے پیار کا یہ حال ہوتا تھا کہ ملازم بچے ہم سے زیادہ پیارے ہو جاتے تھے کبھی اس کے عین برعکس
جی بھیا
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے معاشرے میں ایسی ہی صورتحال ہے۔

لیکن موجودہ دور میں گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں اب ویسی نہیں رہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم قیصرانی بھائی
سچ بولنا اتنا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ مگر یہ سچ ہی روشن شمع کی صورت کئیوں کو راہ دکھاتا ہے ۔
بہت شکریہ بہت دعائیں شراکت پر
 

تلمیذ

لائبریرین
آپ اور نین نے اس دھاگے پر دونوں قسم کے رویوں کی نشان دہی کر دی ہے۔ انسانی فطرت، عادات و خصائل اور رویوں میں اتنا تنوع ہے کہ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔ اور ایک عمومی رائے قائم نہیں کی جا سکتی، کیونکہ اس میں بہت سار ےعوامل مثلا معاشی اورطبقاتی تفاوت، ماحول اور رسم ورواج، تعلیم کا فقدان وغیرہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اور میرے خیال میں یہ چیز دنیا کے تمام معاشروں میں پائی جاتی ہے۔
منصور جی، چونکہ آپ زندگی کے اس حصے میں خود بےا ختیار تھے اس لئے ملازم بچوں کے ساتھ کی گئی ان نا انصافیوں کے لئے آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں آتی لیکن آپ کی اپنی طبیعت میں جو انسان دوستی اور جذبہ ترحم موجود ہے اس نے آپ سے یہ سب کچھ لکھوایا ہے۔ اور فی الحقیقت آ پ نے یہ بہت اچھا کیا ہے۔ اس سے ایک تو خود آپ کا اپنا کتھارسس ہو گیا ہے ، دوسرے، جو لوگ ایساکرتے ہیں وہ بھی یہ پڑھ کرشایدخود میں کچھ تبدیلی لائیں (ویسے مجھے یقین ہے، اہل محفل میں سے خودتو شاید ہی کوئی ایسا ہو لیکن وہ اپنے ارد گرد والوں پر کچھ اثر ڈال سکتے ہیں)۔
بہر حال، آپ نے یہ سب کچھ لکھ کر ایک بڑا بولڈ قدم اٹھایا ہے، اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کوسر عام تسلیم کرنا ایک مشکل امر ہے۔ مجھے امیدہے کہ آپ کی یہ تحریر قارئیں پر ایک مثبت تآثر چھوڑے گی۔
شراکت کے لئے شکریہ، جزاک اللہ!!
 
بہت عمدہ تحریر قیصرانی بھائی
اللہ آپ کو ہر جگہ نا انصافی اور غلط اقدام کی نفی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسی طرح باقیوں کی رہنمائی کی بھی توفیق عطا فرمائے آمین۔
 

نیلم

محفلین
عمدہ تحریر قیصرانی بھائی لیکن یہ شائد پرانی روایات ہو آج کل ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے
اللہ کا شکر ہے ہمارے گھر میں ملازم کے ساتھ ایسا رویہ نہیں رکھا جاتا ہماری کام والی باجی ہمارے ساتھ ڈائینگ ڈیبل پہ کھانا کھاتی ہے۔:)
 

عسکری

معطل
اور پھر آپ مجھے برا بھلا کہتے ہو ۔ ماں باپ یا بزرگ ہونے کا مطلب ہم پر ان کا احترام ان کی ہر بات ماننا اور ان کی تقلید کرنا ضروری نہیں اور کچھ تو ہمیشہ کے لیے نظروں سے دل سے گر جاتے ہیں جیسے میرے والے مجھے ان کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کیونکہ اس سے کئی گنا بد تر حالات کا سامنہ مجھے کرنا پڑا ۔ اگر کوئی اور ہوتا تو تشدد پسند یا زہنی مریض بن جاتا ۔
 
الحمدللہ ، اچھے والدین کے لیے ۔۔۔ میرے پیرنٹس اور گرینڈ پیرنٹس انسانوں اور جانداروں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت ترغیب دیتے ہیں ۔ ہمیشہ ہمیں وہ حدیث سنائی جاتی کہ ایک عورت کو صرف اس وجہ سے عذاب ہوا کہ اس نے بلی کو باندھ دیا اور وہ بھوکی و پیاسی رہی ۔اور یہ کہ ہر جاندار سے حسن سلوک کا اجر ہے ۔ قربانی کا بکرا دو ہفتے پہلے لا کر ابو جان ہماری عملی تربیت کرتے تھے ۔ ذبح سب مل کر کرتے تھے اس لیے ذبح کے حقوق بھی بچپن سے یاد ہیں ۔
میری امی جان ایک بار بیمار ہوئیں اور طویل عرصہ بستر پر رہیں ، تب میں ان کے پاس گھر پر ہوتی تھی تو پتہ چلا کہ ہماری امی جان چپکے سے کتنے انسانوں کی مدد کرتی ہیں۔ ہر دوسرے دن نیا بندہ آ کر کہتا باجی کو بلا دیں ، میں پوچھتی مجھے بتائیں تو پتہ چلتا باجی ہمیں یہ دیتی تھیں وہ دیتی تھیں، ایک روز میں نے امی جان کے راز اپنی بہن سے شئیر کیے تو وہ رو پڑی اور اس نے بھی مجھے ایسے راز بتائے ۔ اس وقت امی بہت بیمار تھیں ،ہمیں کافی اندیشہ تھا ۔ ان رازوں میں سے صرف ایک واقعہ : ایک روز سخت گرمی میں میرے اور بھائی کے ساتھ گاڑی میں آ رہی تھیں ، دیکھا سیکیورٹی گارڈ کی وردی والا ایک آدمی عام نل سے پانی لے رہا ہے جس پر دھوپ پڑ رہی تھی ۔ بولیں : غضب خدا کا اتنا گرم پانی پیے گا تو بیمار پڑے گا ۔میں سوچتی ہوں ائیر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر مجھے یہ نکتہ کبھی سوجھ نہیں سکتا، یہ ضرورتیں ایک ماں کا دل ہی جانتا ہے ۔ گاڑی رکوائی ۔ بھائی سے کہلوایا کہ یہیں رکو ابھی ٹھنڈا پانی بھجواتے ہیں ۔ پتہ چلا وہ ہمارے پڑوسیوں کا گارڈ ہے ۔ میرا خیال تھا چند دن بھائی پانی دے آئیں گے پھر اکتا جائیں گے ۔ویسے بھی وہ گھر پر نہیں ہوتے تھے۔ بھائی اکتا گیا ،ہم بھول گئے لیکن امی جان نہیں بھولیں ۔ روز صبح دوپہر شام دیوار پرایک ٹھنڈے پانی کی اور ایک برف جمی بوتل رکھ دیتیں اور گارڈ اٹھا لیتا کیوں کہ میری امی پردہ کرتی ہیں ۔ جب بیمار ہوئیں تو مجھے پتہ چلا یہ کام جاری ہے ۔ باقاعدگی سے کہتیں کہ دیوار پر بوتل رکھ دینا ۔پھر وہ گارڈ چلا گیا ۔ ہم نے گھر بدل لیا ۔ بھائی نے دوسرے شہر میں ایک سوسائٹی میں گھر لیا ۔ ایک روز بھائی جان نے امی جان کو بتایا کہ وہ گارڈ ملا تھا ۔ آپ کو سلام کا کہتے ہوئے رو پڑا ۔اب کسی دوسری سیکیورٹی ایجنسی میں ہوتا ہے جہاں ڈیوٹی کے حالات بہتر ہیں ۔
 
بھائی جان مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ اس پر کیا تبصرہ کروں ،میں آپ کی تعریف کروں آپ کی امی کی یا ۔۔۔ ۔۔
کچھ باتیں ان کہی رہ جائیں تو زیادہ بہتر ہوتی ہیں
ہم کسی بھی انسان کی زندگی کے ایک پہلو سے آگاہ ہو سکتے ہیں سب سے نہیں ۔ انسانوں کے اعمال ناموں کا اصل علم اللہ کو ہے وہ بہتر جانتا ہے کون کیا ہے ۔ ماں کا رتبہ بہت بڑا ہے ۔
 
میرے بچپن کی بات ہے کہ ہمارے گھر میں ملازم بچے رکھنے کا رواج شروع ہوا۔ بات یہیں تک رہتی تو بہت بہتر ہوتا۔ لیکن ہمارے ہاں یہ رواج بھی چل نکلا کہ اس ملازم کو ملازم تو درکنار اسے انسان کا درجہ بھی دینا گوارا نہ ہوا۔ عام طور پر یہ ملازم بچے جن کی عمر چھ سے بارہ سال تک ہوتی تھی، اپنے گھر والوں سے دور، حقیقت میں کالے پانی دور آتے تھے۔ ان میں بچیاں بھی ہوتی تھیں اور بچے بھی۔ ان کے والدین سے وعدہ ہوتا کہ بچوں کو تعلیم، کپڑے اور اچھا کھانا دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ماہانہ تنخواہ بھی ہوگی۔ بدلے میں ان بچوں کو گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے ہوں گے۔
ڈیل یہاں تک تو بہت معقول تھی۔ خرابی یہ نکلی کہ ہماری رشتہ دار، جو اپنے مزارعوں سے یہ ڈیل کر کے آتی تھیں، وہ ہمیں الٹا سبق پڑھاتیں کہ انہیں تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں۔ روٹی گھر انہیں ملتی نہیں تھی، یہاں اگر باسی بھی مل جائے تو ان کے لئے غنیمت ہے۔ سالن اگر ساتھ ہوا تو یوں سمجھئے کہ من و سلوی مل گیا۔ جب سال دو سال بعد یہ بچے گھر جاتے تو ان کی آدھی تنخواہ رکھ لی جاتی کہ بچے واپس آئے تو یہ تنخواہ ملے گی۔ ورنہ نہیں۔ سال یا دو سال سے قبل تو ان بچوں کے جانے کا سوال ہی نہیں ہوتا تھا۔ شاید عرب کفیلوں نے ہم سے یہ رویہ سیکھا ہے کہ پاس پورٹ رکھوا لیتے ہیں
جیسا کہ عام انسان کی عادت ہے، اچھی بات سیکھتے سیکھتے برسوں بیت جاتے ہیں، بری بات بندہ فوراً چند ہی منٹوں میں اپنا لیتا ہے۔ ہمارے گھر میں یہ رواج شروع ہوا کہ یہ محض انسان کی شکل کے جانور یا غلام ہیں۔ ان کے کوئی حقوق نہیں اور نہ ہی ان کو اپنے برابر تو کجا انسان یا انسان کا بچہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے۔ ورنہ یہ "سر چڑھ" جائیں گے۔ اب ان کی ڈیوٹی کیا ہوتی ہے، ذرا نوٹ کیجئے:
صبح جب امی نے جاگنا تو انہیں بھی جگا دینا۔ اس کے بعد وہ ناشتہ تیار کرنے میں امی کی مدد کرتے، فرج سے کچن تک چیزیں لانا، لے جانا، ہم بہن بھائیوں کے بستے تیار کرنا، ہمیں ناشتہ لا کر دینا، خالی برتن لے جانا (یہ سوچنا تو محض حماقت ہی ہوگی کہ ہمیں جو ناشتہ ملتا، وہ ان بے چاروں کے لئے کتنا مرغوب ہوتا، لیکن وہ اسے دیکھ سکتے، چھو نہ سکتے)، پھر انہیں ناشتہ دیا جاتا جو بالعموم پچھلی رات کی بچی ہوئی روٹی ہوتی، جسے توے پر سینک کر ہلکا سا گھی لگا کر رات کے سالن کے ساتھ، اگر سالن نہ ہوتا تو پانی یا چائے کے ساتھ دی جاتی۔ اس کے بعد گھر کی صفائی شروع ہوتی۔ سارے گھر کے فرش پر جھاڑو پھیرنا، پھر پوچا لگانا، پھر سبزی وغیرہ لانا (جو کئی کلومیٹر دور سے لانی ہوتی)، پھر اگر موسم گرما ہوتا تو دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں جا کر تندور سے روٹیاں لگوا لانا بھی انہی بچوں کے ذمے ہوتا۔ بعض اوقات یہ بچے دو بہن بھائی، دو بھائی یا دو بہنیں ہوتے۔ پھر سب گھر والے الگ اور یہ بچے الگ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ پھر قیلولہ ہوتا جو یہ بچے بھی انجوائے کرتے۔ شام کو یہی روٹین ہوتی، بس فرق یہ تھا کہ شام کو تندور پر روٹیاں لگوانے کا رواج نہیں تھا۔ رات کو جب سب سوتے تو ان بچوں کو بھی سونے کی اجازت ملتی۔
یہاں تک کی روٹین تو شاید کئی گھروں کی عام داستان ہو۔ اصل اذیت ناک یاد یہ ہے کہ امی کی عادت تھی کہ ان بچوں کے ساتھ کبھی بہت سختی اور کبھی بہت نرمی کرتیں۔ اس معاملے میں وہ اپنے بچوں اور ان بچوں میں ذرا فرق نہ کرتیں۔ یعنی بات بے بات جس طرح ہماری دھنائی ہوتی، یہ بچے بھی اسی شفقت سے پٹتے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ امی کا جی نہیں چاہ رہا یا بہت سخت مار پڑوانی ہو تو امی ہم بہن بھائیوں سے ان بچوں کو پٹواتی تھیں۔ ہم بہن بھائی چونکہ خود بھی اکثر پٹتے تھے، ہمیں علم تھا کہ کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ ہم بہن بھائی ان بچوں کو امی سے نظر بچا کر کبھی کبھی انسان سمجھ لیا کرتے۔ کبھی انہیں کوئی ٹافی دے دی، کبھی چیونگ گم اور کبھی کچھ اور۔ ہماری عمریں ایک جتنی ہی ہوتی تھیں۔ ہم کھیلتے بھی ایک ساتھ ہی تھے۔ اس لئے امی جب بھی ہمیں کہتیں کہ اس بچے یا بچی کو مارو تو ہم ہمیشہ انہیں لے کر دور کونے میں یا دوسرے کمرے میں چلے جاتے۔ ہم بہن بھائیوں اور ان بچوں کے درمیان ایک ان کہا معاہدہ ہوتا تھا کہ ہم صرف یہ شو کریں گے کہ ہم مار رہے ہیں اور وہ شو کریں گے کہ وہ مار کھا رہے ہیں۔ امی اتنی دور ہوتیں کہ انہیں مارنے کی آواز تو نہ سنائی دیتی، لیکن بچوں کے شور کو سن کر مطمئن ہو جایا کرتی تھیں کہ خوب پٹائی ہو رہی ہے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ امی نے مجھے خاص تاکید کی کہ اس بچے کو اچھی طرح مارو کہ اس نے برتن دھونے سے انکار کیا ہے۔ شومئ قسمت، امی کا موڈ بہت خراب تھا۔ تاکید ہوئی کہ میرے سامنے مارو۔ میں نے پس و پیش کیا تو مجھے مار پڑنے لگی۔ ظاہر ہے کہ میں کوئی فرشتہ نہیں، اپنی جان سب کو پیاری ہوتی ہے، اگر کسی دوسرے کو مار پڑنی ہے تو مجھے کیا، میری تو جان چھوٹ جائے گی۔ اس دن پہلی اور آخری بار میں نے ملازم بچے پر ہاتھ اٹھایا۔ دو تھپڑ مارے۔ یقین کیجئے کہ وہ بچہ جو ڈنڈے سے مار کھا کر بھی کبھی سر نہ اٹھاتا، تھپڑ لگتے ہی اس نے سر اٹھایا اور سیدھا میری آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ بچہ جیسے پوچھ رہا ہو، اے خدا، کیا تو واقعی وجود رکھتا ہے؟ اس وقت امی کا ڈنڈا میری کمر پر پڑا کہ لات مارو۔ اس وقت میں نے پوری ہمت جمع کی اور لات ماری۔ اس رات نہ امی سو سکیں اور نہ میں۔ میرے پیر کی تین ہڈیاں فریکچر ہوئی تھیں کہ وہ لات میں نے دیوار پر ماری تھی۔مجھے درد سے اور امی کو پتہ نہیں ہمدردی، ممتا یا شاید غصے کی وجہ سے نیند نہیں آئی ہوگی؟
پس نوشت: نیرنگ خیال بھائی، جب میں نے ماں والے دھاگے پر وکٹم والی بات کی تھی، تو اس کے پیچھے یہ اور اسی جیسے ان گنت واقعات ہیں
اختتام پر نم پلکوں کے ساتھ سوچ ہرا ہوں کہ کیا تبصرہ کروں
آپ کی عزت میرے دل میں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے
اللہ آپ کو دنیا جہاں کی خوشیاں عطا فرمائے آمین
 

شوکت پرویز

محفلین
قیصرانی بھائی !
اللہ آپ کو جزائے خیر دے، آمین۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اے ايمان والو تم اللہ كے ليے عدل و انصاف كے ساتھ سچى گواہى دينے والے بن جاؤ چاہے وہ تمہارى اپنى جانوں كے خلاف ہى ہو، يا والدين اور رشتہ داروں كے خلاف ہو، اگر وہ مالدار ہو يا فقير تو دونوں كے ساتھ اللہ تعالى كو زيادہ تعلق ہے، اس ليے تم خواہش كے پيچھے پڑ كر انصاف كو نہ چھوڑ دينا، اور اگر تم نے كج بيانى يا پہلو تہى كى تو يہ جان لو كہ جو تم كر رہے ہو اللہ تعالى اس سے خبردار ہے ﴾ النساء ( 135 ).

لیکن غالب گمان یہی ہے کہ آپ کی والدہ بھی نرم دل خاتون ہی ہوں گی،
اور آپ کے درج ذیل مراسلہ سے تو یہ بالکل ہی واضح ہے۔
میری امی مناسب حد تک پڑھی لکھی ہیں، سمجھدار ہیں۔ جب پیار کرتی ہیں تو حد سے زیادہ پیار کرتی ہیں۔ لیکن اگر انہیں غصہ آ جائے تو وہ بھی حد سے زیادہ۔ کبھی ان کے پیار کا یہ حال ہوتا تھا کہ ملازم بچے ہم سے زیادہ پیارے ہو جاتے تھے کبھی اس کے عین برعکس

رہی بات ملازم بچوں کو مارنے کی، تو ماں اپنے بچوں کو بھی مارتی ہے، اس میں تشدد سے زیادہ تربیت کا عنصر پنہاں ہوتا ہے

اور رہی بات ملازم بچوں کو آپ سے مار کِھلوانے کی، تو مائیں کبھی کبھی بڑے بھائی بہنوں کو بھی چھوٹے بھائی بہن کو مارنے کے لئے کہتی ہیں۔

خیر؛ آپ اپنی والدہ کو اپنے جذبات بتائیں، اور اگر وہ آپ سے متفق ہوں تو انہیں توبہ کرنے کے لئے کہیں؛ ورنہ غالب گمان تو یہی ہے کہ یہ (نا انصافی، تشدد) صرف آپ کا اندازہ ہو اور درحقیقت ایسی کوئی بات ہی نہ ہو۔
 
ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز نہیں ہوتی ۔
اور پھر آپ مجھے برا بھلا کہتے ہو ۔ ماں باپ یا بزرگ ہونے کا مطلب ہم پر ان کا احترام ان کی ہر بات ماننا اور ان کی تقلید کرنا ضروری نہیں اور کچھ تو ہمیشہ کے لیے نظروں سے دل سے گر جاتے ہیں جیسے میرے والے مجھے ان کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کیونکہ اس سے کئی گنا بد تر حالات کا سامنہ مجھے کرنا پڑا ۔ اگر کوئی اور ہوتا تو تشدد پسند یا زہنی مریض بن جاتا ۔
 

بھلکڑ

لائبریرین
بچپن واقعی بچپن ہوتا۔۔۔۔۔۔کبھی نہ لوٹ کر آنے والا بچپن۔۔۔۔۔۔سب کا پیاری یادوں والا بچپن۔۔۔۔۔۔!
بہت خوبصورت تحریر قیصرانی بھائی۔۔۔
 
ہمارے گھر میں ایسا ماجرہ نہیں تھا۔ ۔ ابو نے ایک 10 سال کا بچہ رکھا تھا کچھ عرصے کے لئے تاکہ 2 سال کی چھوٹی بہن کو (جو ذرا دیر سے چلی تھی ) سنبھالا جاسکے لیکن وہ ہم عمر ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ زیادہ وقت کھیلتا اور کھاتا پیتا رہتا تھا امی بھی اس پر سختی نہیں کرتی تھی لیکن ابو کے سامنے ذرا احتیاط سے کام وام لے لیا کرتیں تھیں۔ ایک 14 سے 15 سال کا لڑکا ابو نے دوکان کے اور گھر کے باہر کے کاموں کے لئے رکھا تھا ، امی کہتی تھی تھیں اسکی ماں نے اسے میرے حوالے کیا تھا کہ اب آپ اسکی شہر والی امی ہیں۔۔ہماری امی اسکے بھی لاڈ اٹھاتی تھیں امی کو پتا تھا کہ وہ کیا کھاتا ہے کیا نہیں اگر کچھ اسکی پسند کے مطابق نہیں بنا ہوتا تو کچھ الگ سے بناتی تھیں ، جو کچھ ہم لوگوں کے لئے بنتا اسکے لئے بھی بنتا تھا۔ وہ آج بھی (شادی شدہ اور ببچوں کا باپ ہے) اب بھی کبھی ملتا ہے تو میری مرحومہ ماں کو یاد کرکے روتا ہے ۔ جب اسکی شادی ہورہی تھی تو گاوں سے کہہ کر شہر والی امی اور ہمارے دیگر گھر والوں کو لینے خود آیا تھا ۔۔ ایک بڑی عمر کی ماسی بھی تھی گھر میں جو کام تو دو تین گھرو ں میں اور کرتی تھی لیکن ناشتہ اور کھانا صرف امی کے ہاتھ کا اور کبھی کبھار ساتھ بیٹھ کر کرتی تھی۔۔۔
 
Top