اے عشق جنوں پیشہ۔۔۔ احمد فراز کی آخری کتاب سے انتخاب

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں خوش ہوں راندۂ افلاک ہو کر
مرا قد بڑھ گیا ہے خاک ہو کر

مرا دل دُکھ گیا، لیکن وہ آنکھیں
بہت اچھی لگیں نمناک ہو کر

تکلف بر طرف اے جانِ خوباں
کبھی ہم سے بھی مل بیباک ہو کر

اٹھا لے جا یہ اپنا دام و دانہ
مجھے مت صید کر چالاک ہو کر

سجی ہے کس قدر اے سرو قامت
ردائے گل تری پوشاک ہو کر

اگر اتنی پرانی دوستی تھی
تو پھر کر وار بھی سفاک ہو کر

فرازؔ احساں ہے یاروں کا کہ یہ دل
گریباں بن گیا ہے چاک ہو کر
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تجھے ہے مشقِ ستم کا ملال ویسے ہی
ہماری جان تھی جاں پر وبال ویسے ہی

چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا
سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی

ہم آ گئے ہیں تہہِ دام تو نصیب اپنا
وگرنہ اُس نے تو پھینکا تھا جال ویسے ہی

میں روکنا ہی نہیں چاہتا تھا وار اُس کا
گری نہیں مرے ہاتھوں سے ڈھال ویسے ہی

زمانہ ہم سے بھلا دشمنی تو کیا رکھتا
سو کر گیا ہے ہمیں پائمال ویسے ہی

مجھے بھی شوق نہ تھا داستاں سنانے کا
فرازؔ اُس نے بھی پوچھا تھا حال ویسے ہی
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کسی کو بھی محبت میں مِلا کیا
تو پھر اُس دشمنِ جاں سے گلہ کیا

نہ عشق آساں نہ ترکِ عشق آساں
سو ہم سے بزدلوں کا حوصلہ کیا

کوئی بستی یہاں بسنے نہ پائے
یہ دل ہے خوابگاہِ زلزلہ کیا

وصال و ہجر بس کیفیتیں ہیں
وگرنہ قرب کیسا فاصلہ کیا

فرازؔ اب بھی وہی دیوانگی ہے
تو قائم ہے پرانا سلسلہ کیا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
احساں کئے تھے اُس نے جور عتاب کر کے
ہم کس قدر ہیں نادم اُس سے حساب کر کے

اُس سے کِیا تقاضا ہم عبث وفا کا
اچھی بھلی محبت رکھ دی عذاب کر کے

کس درجہ بد مزہ تھا واعظ کا وعظ یوں تو
کچھ چاشنی سی آئی ذکرِ شراب کر کے

رندوں نے صدقِ دل سے زاہد کو بھی پِلا دی
اب سخت ہیں پشیماں کارِ ثواب کر کے

یوں دلکش و مرصّع جیسے کوئی صحیفہ
ہم کو تو اُس کا چہرہ پڑھنا کتاب کر کے

احوال اہلِ غم کا سننا نہ تھا کہ تُو نے
ہم کو ڈبو دیا ہے آنکھیں پُر آب کر کے

غالبؔ کی پیروی میں یہ دن تو دیکھنے تھے
ہم بھی ہوئے ہیں رسوا شعر انتخاب کر کے

احمد فرازؔ ہو یا وہ میرؔ و میرزاؔ ہوں
اے عشق تو نے چھوڑا سب کو خراب کر کے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
خواب ہی خواب ہر اک شام میں لے آتی ہیں
اپسرائیں جو ہمیں دام میں لے آتی ہیں

پہلے پہلے تو کریں عہدِ وفا کی باتیں
پھر کسی کوچۂ بدنام میں لے آتی ہیں

یہ جو آ جاتی ہیں افسانہ سنانے والی
اور قصے بھی ترے نام میں لے آتی ہیں

تیری آنکھیں کہ بھُلا دیتی ہیں ساری دنیا
آخرش گردشِ ایّام میں لے آتی ہیں

چاہتیں کتنی بھی آغاز میں پیاری ہوں فرازؔ
پھر وہی تلخیاں انجام میں لے آتی ہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وادیِ عشق سے کوئی نہیں آیا جا کر
آؤ آوازہ لگائیں سرِ صحرا جا کر

بزمِ جاناں میں تو سب اہلِ طلب جاتے ہیں
کبھی مقتل میں بھی دکھلائیں تماشا جا کر

کن زمینوں پہ مری خاک لہو روئے گی
کس سمندر میں گریں گے مرے دریا جا کر

ایک موہوم سی اُمید ہے تجھ سے ورنہ
آج تک آیا نہیں کوئی مسیحا جا کر

دیکھ یہ حوصلہ میرا مرے بُزدل دشمن
تجھ کو لشکر میں پکارا تنِ تنہا جا کر

اُس شہِ حُسن کے در پر ہے فقیروں کا ہجوم
یار ہم بھی نہ کریں عرضِ تمنا جا کر

ہم تجھے منع تو کرتے نہیں جانے سے فرازؔ
جا اُسی در پہ مگر ہاتھ نہ پھیلا جا کر
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
گماں یہی ہے کہ دل خود اُدھر کوجاتا ہے
سو شک کا فائدہ اُس کی نظر کوجاتا ہے

حدیں وفا کی بھی آخر ہوس سے ملتی ہیں
یہ راستہ بھی اِدھر سے اُدھر کوجاتا ہے

یہ دل کا درد تو عمروں کا روگ ہے پیارے
سو جائے بھی تو پہر دو پہر کوجاتا ہے

یہ حال ہے کہ کئی راستے ہیں پیشِ نظر
مگر خیال تری رہگذر کوجاتا ہے

تو انوریؔ ہے نہ غالبؔ تو پھر یہ کیوں ہے فرازؔ
ہر ایک سیلِ بلا تیرے گھر کوجاتا ہے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جو بھی پیرایۂ اظہار نظر آتا ہے
سامنے تُو بھی ہو تو بیکار نظر آتا ہے

کس قدر خوگرِ آزار ہیں ہم بھی کہ یہیں
جو ستمگر ہو وہ غم خوار نظر آتا ہے

دیکھ یہ بے مہریِ دنیا کا عالم ہے ہے
تُو بھی بے یار و مدد گار نظر آتا ہے

شاید آ جائے کوئی میرؔ سا آرام طلب
ابھی کچھ سایۂ دیوار نظر آتا ہے

کیا کہیں جب سے مسیحا کوئی آیا ہے ادھر
شہر کا شہر ہی بیمار نظر آتا ہے

اب بھی ناپید نہیں مسلکِ منصور فرازؔ
کوئی کوئی تو سرِ دار نظر آتا ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ضبطِ گریہ سے تو کچھ اور بیکل ہوئے ہم
پھر جو تنہائی میں روئے ہیں تو جل تھل ہوئے ہم

یہی تہذیبِ دل و جاں ہے، محبت کیا ہے
تم نے دیوانہ کہا ہم کو تو پاگل ہوئے ہم

زندگی ترا پیمانِ محبت تو نہ تھا
پھر تو یوں ٹوٹ کے بکھرے ہیں کہ پَل پَل ہوئے ہم

یار اغیار سبھی اہلِ تماشا نکلے
کتنے تنہا تھے کہ جب داخلِ مقتل ہوئے ہم

یہ کہانی کسی اک موڑ پہ رُک جاتی تھی
تُو ہُوا شاملِ قصّہ تو مکمل ہوئے ہم

دم بھی لینے نہ دیا ضربتِ دنیا نے فرازؔ
پھر جو مسمار ہوئے ہیں تو مسلسل ہوئے ہم
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کہاں سے لائیں مئے ناب بیچنے والا
تمام شہر ہے زہراب بیچنے والا

یہ ہم کہ جان ہتھیلی پہ رکھ کے پھرتے ہیں
کوئی ہے بس ادب آداب بیچنے والا

عجب نہیں کہ اگر سرد مہر ہے گاہک
یہ دیکھ کر کہ ہے بیتاب بیچنے والا

سنا ہے آج وہ تیر و کماں کا تاجر ہے
جو کل تھا بربط و مضراب بیچنے والا

پھرے ہے راتوں کو سرگشتہ و چراغ بکف
وہی فرازؔ وہی خواب بیچنے والا
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کوئی ہزار اکیلا ہو پر نہیں تنہا
سو کیوں کہیں کہ ترے ساتھ ہمیں تنہا

یہ زندگی ہے شب و روز کٹ ہی جاتے ہیں
کبھی کبھی کوئی محفل کہیں کہیں تنہا

ہر اک نے اپنی ہی دنیا بسائی ہوتی ہے
سو خلوتوں میں بھی رہتا نہیں کوئی تنہا

دل و جگر کا بھی احوال پوچھ لینا تھا
تری نگاہ میں ہیں جیب و آستیں تنہا

کدھر گیا ترے کوچے سے پھر خدا جانے
فرازؔ گھوم رہا تھا یہیں کہیں تنہا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اب تو اتنا بھی ہو نہیں پائے
رونا چاہا تو رو نہیں پائے

ہم سے تعبیرِ خواب پوچھتے ہو
زندگی بھر جو سو نہیں پائے

مدتوں غم کی پرورش کی ہے
یہ صِلے آج تو نہیں پائے

جستجو رائیگاں نہیں تھی مگر
جن کو چاہا تھا وہ نہیں پائے

کیوں گلہ ہم سے ہو کسی کو فرازؔ
ہم تو اپنے بھی ہو نہیں پائے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جو سادہ دل ہوں بڑی مشکلوں میں ہوتے ہیں
کہ دوستوں میں کبھی دشمنوں میں ہوتے

ہَوا کے رخ پہ کبھی بادباں نہیں رکھتے
بلا کے حوصلے دریا دِلوں میں ہوتے ہیں

پلٹ کے دیکھ ذرا اپنے رہ نوردوں کو
جو منزلوں پہ نہ ہوں راستوں میں ہوتے ہیں

پیمبروں کا نسب شاعروں سے ملتا ہے
فرازؔ ہم بھی انہیں سلسلوں سے ملتے ہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سامنے اُس کے کبھی اُس کی ستائش نہیں کی
دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی

اہلِ محفل پہ کب احوال کھُلا ہے اپنا
ہم بھی خاموش رہے اُس نے بھی پُرشش نہیں کی

جس قدر اُس سے تعلق تھا چلے جاتا ہے
اس کا کیا رنج ہو جس کی کبھی خواہش نہیں کی

یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے
اُس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی

اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا
اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی

ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں
ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی

اے مرے ابرِ کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں
کیا کسی دشت پہ تُو نے کبھی بارش نہیں کی

کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتلِ شہر میں ٹھہرے رہے جُنبش نہیں کی

وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فرازؔ
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جن کو دوست سمجھتے تھے وہ دوست نما کہلاتے تھے
ہم میں کچھ اہلِ دل بھی اہلِ دنیا کہلاتے تھے

لوگو ایک زمانہ تھا جب ہم کیا کیا کہلاتے تھے
دردِ آشوب سے پہلے ہم تنہا تنہا کہلاتے تھے

جتنے بھی محبوب تھے ان کو عہد شکن یاروں نہ کہا
جتنے بھی عشاق تھے سارے اہلِ وفا کہلاتے تھے

ہم تو دیارِ جاناں کو کہتے ہیں دیارِ جاناں بس
پہلے دلداروں کے قریے شہرِ سبا کہلاتے تھے

تیرے لئے اب کیوں نہ کوئی تازہ تشبیہ تلاش کریں
چاند فسانہ تھا تو دلبر ماہ لقا کہلاتے تھے

تیرے خرام کو نسبت دیتے کبکِ دری کی چال سے لوگ
گل جب چاک گریباں ہوتے تیری قبا کہلاتے تھے

آؤ خاک سے رشتہ جوڑیں، وہم فلک افلاک ہوئے
ہاتھ قلم ہونے سے پہلے دستِ دعا کہلاتے تھے

اپنی ویراں آنکھوں کا اب کس سے حال احوال کہیں
اب جو صحرا دیکھتے ہو آگے دریا کہلاتے تھے

جو نایافت تھی اُس خوشبو کی کھوج میں ہم صحرا صحرا
لہو لہان پھرا کرتے تھے آبلہ پا کہلاتے تھے

دل پاگل تھا یونہی پکارے جاتا تھا جاں جاناں
پر جو بیت بھی ہم کہتے تھے ہوشربا کہلاتے تھے

بے آواز گلی کوچوں میں عشق دہائی دیتا تھا
بستی بستی اہلِ نوا زنجیر بپا کہلاتے تھے

گلیوں گلیوں لئے پھرے نابینا شہر میں آئینہ
شاعر تھے پر شعر اپنے حرفِ عیسا کہلاتے تھے

پس انداز سبھی موسم تھے اہلِ چمن کے توشے میں
عہدِ خزاں کے جھونکے بھی جب بادِ صبا کہلاتے تھے

اب بھی خوابِ گل ہے پریشاں اب بھی اسیر عنادل ہیں
کل بھی باغ میں گلچیں اور صیاد خدا کہلاتے تھے

غزل بہانہ کرتے کرتے لفظ ہی بے توقیر ہوئے
سازِ سخن کو بھول چکے جو نغمہ سرا کہلاتے تھے

جب سے فرازؔ تخلص رکھا ملکوں ملکوں رسوا ہیں
ورنہ ہم بھی اوّل اوّل احمد شا کہلاتے تھے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
چشمِ گریاں میں وہ سیلاب تھے اے یار کہ بس
گرچہ کہتے رہے مجھ سے مرے غم خوار کہ بس

زندگی تھی کہ قیامت تھی کہ فرقت تیری
ایک اک سانس نے وہ وہ دیے آزار کہ بس

اس سے پہلے بھی محبت کا قرینہ تھا یہی
ایسے بے حال ہوئے ہیں مگر اِس بار کہ بس

اب وہ پہلے سے بلا نوش و سیہ مست کہاں
اب تو ساقی سے یہ کہتے ہیں قدح خوار کہ بس

لوگ کہتے تھے فقط ایک ہی پاگل ہے فرازؔ
ایسے ایسے ہیں محبت میں گرفتار کہ بس
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
فرازؔ تم نے عبث شوق سے سجائے سخن
کہاں وہ قامتِ جاناں کہاں قبائے سخن

بیان اُس گلِ رعنا کا بے قیاس نہ کر
کہ عندلیب کا دل چاہیے برائے سخن

کہ ذکرِ یار تو جان و جگر کا سودا ہے
کہ خونِ دل تو نہیں ہے فقط بہائے سخن

اُسی کے دھیان سے روشن ہیں دل کی قندیلیں
اُسی کی یاد سے منسوب ہر شعاعِ سخن

اُسی کے دم سے ہیں سر سبز زخم عمروں کے
اُسی کے دم سے صبا آشنا، فضائے سخن

اُسی کے ہہجر میں لکھے ہیں مرثیے دل کے
اُسی کے وصل میں دیکھے ہیں عشوہ ہائے سخن

اُسی کے قرب سے گویا سکوت ِ لالہ و گل
اُسی کے لطف سے لب بستگی، بجائے سخن

تم اپنے عجز کو سمجھتے ہوئے ہو اوجِ ہنر
سو اِس تضاد پہ غالبؔ کا یاد آئے سخن

"نہ شعلے میں وہ کرشمہ نہ برق میں وہ ادا"
تو کیا بیان سراپا ہو کیا بنائے سخن

"ز فرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم"
نظر تو چیز ہے کیا ہے نہ تاب لائے سخن

وہ یاد آئے تو الہام بن کے شعر اترے
وہ بھول جائے تو پھر کس کو یاد آئے سخن

کبھی کبھی ہی دل و جاں سے آنچ اُٹھتی ہے
فرازؔ ہم نہیں کہتے سخن برائے سخن
٭٭٭​
 
Top