اے چاند یہاں نہ نکلا کر ۔۔۔۔

میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حکومت دونوں طرح کے کام کرے۔ کرپشن کے خاتمے کو ترجیح دے اور ساتھ ساتھ دوسرے اقدامات بھی کرے جس سے غرباء کے لئے زندگی آسان ہو
اس کے لیے حکومتی اراکین اور اداروں کا کرپٹ اراکین سے پاک ہونا ضروری ہے جو خود کرپشن کرتے ہیں وہ دوسروں کا احتساب کیوں کریں گے اور اگر کریں گے بھی تو کیا ایسا کرنے سے ان کی کرپشن معاف ہو جائے گی۔
 
needy.jpeg
 

تلمیذ

لائبریرین
یار ، بھٹی صاحب۔ براہ کرم بچوں کی ایسی تصاویر پوسٹ نہ کیا کریں۔ دِلوں کو چھلنی کرنے کے لئے دوسری تصاویر کیا کم ہیں؟
 
یار ، بھٹی صاحب۔ براہ کرم بچوں کی ایسی تصاویر پوسٹ نہ کیا کریں۔ دِلوں کو چھلنی کرنے کے لئے دوسری تصاویر کیا کم ہیں؟
سر بہت معذرت اگر آپ کو اچھا محسوس نہیں ہوا۔آئندہ کوشش کروں گا اس سے بچنے کی۔ میرا ارادہ کسی کا دل دکھانا نہیں تھا بلکہ
وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے
 
آخری تدوین:
اس وقت تک (ذاتی تخمینہ) کے مطابق پندرہ سو سے ذائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ مریضوں کے لیے پلنگ دستیاب نہیں ہیں، کراچی کے بڑے ہسپتال جن میں جناح ہسپتال کراچی اور آغا خان ہسپتال شامل ہیں مزید مریضوں کی خدمت کرنے سے قاصر ہو چکے ہیں اور باقاعدہ نئے مریضوں کو داخلہ دینے سے انکار کر چکے ہیں۔ اس لیے چھوٹے ہسپتالوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے ۔ جس کو سنبھالنا چھوٹے ہسپتالوں کے بس کی بات نہیں ، ہر اس مریض کو، جسے تشویشناک تصور کیا جاتا ہے، کسی بڑے ہسپتال کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے۔ جو مریض ہسپتالوں میں آرہے ہیں ان میں بڑی تعداد نوجوان لڑکوں اور خواتین کی ہے ۔ جبکہ مرنے والوں میں بڑی تعداد بزرگوں اور بچوں کی ہے ۔ اس چھوٹے سے تضاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے حالات کی سنگینی کا اندازہ مشکل نہیں کہ مریضوں کی تعداد کا اندازہ مرنے والوں کی تعداد سے نہیں لگایا جا سکتا۔ ہسپتال کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں ۔ شہر میں میت کے لیے سرد خانوں کی پہلے ہی کمی تھی مگر اب تو یہ صورتحال ہے کہ ایدھی کی سرد خانے سے تعفن کی خبر کل رات ہی ایک معتبر صحافی دوست نے دی ہے ۔ لوگ اپنی مردوں کو لیے پورے پورے شہر میں مارے مارے گھوم رہے ہیں۔
تیسرا معاملہ قبرستانوں کا ہے، قبر کے لیے جگہ اول تو دستیاب نہیں اور اگر ہے بھی تو اس کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ جو خبریں موصول ہو رہی ہیں ان کے مطابق قبر کی قیمت چالس ہزار سے دو لاکھ تک گئی ہے ۔ میں اس کی تصدیق نہیں کر سکتا مگر یہ طے ہے کہ قیمت بہت بڑھا کر وصول کی جا رہی ہے ۔ شہر میں بجلی اور پانی کا مسئلہ بہرحال اپنی جگہ موجود ہے ۔ سرد خانوں میں میت کے غسل کے لیے پانی ختم ہوجانے پر لواحقین نے واٹر ٹینکر کی لائن میں لگ کر پرچی حاصل کرنے کے بعد پانی لے کر اپنے مردوں کے غسل کا انتظام کیا ۔ یہ وہی پانی ہے جو آنا تو گھر کے نلوں میں چاہیے تھا مگر "ناگزیر" وجوہات کی بنا پر گھروں ، ہسپتالوں اور سرد خانوں میں اس کی ترسیل روک کر انہی جگہوں پر یہ پانی ٹینکر کے زریعے بیچا جا رہا ہے ۔

کہتے ہیں شہر کراچی کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے اس اعتبار سے شہر میں حادثاتی اموات کی تعداد اگر پندرہ سو ہے ، تو یہ شہر کی آبادی کی ایک فیصد بھی نہیں ۔ مگر اس حادثہ سے اس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انتظامیہ کے پاس کسی بھی طرح کے انسانی المیہ سے نمٹنے کے لیے کس قدر تیاری ہے ۔ ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ خدا نا خواستہ کو وبا پھوٹ نکلے تو شائد شہر میں کوئی ایک ہسپتال بھی ایسا نہ ہو جو کسی مریض کو داخل کر سکے۔ شہر کی آبادی کے لحاظ سے نہ تو یہاں ہسپتال موجود ہیں اور نہ ہی کسی حادثے سے نمٹنے کے لیے تیاری یا سامان موجود ہے۔ کسی بھی آفت ( اللہ نہ کرے) کی صورت میں نقصان ، ہمارے اور آپ کے اندازے سے بے پناہ زیادہ ہو سکتا ہے۔
ادب دوست بھائی آپ کے مراسلے کا اقتباس ادھر شئیر کیا ہے امید ہے آپ کو برا محسوس نہیں ہو گا۔
 
قبروں کیلیے جگہ نایاب، گورکن فی قبر10 سے50ہزار روپے تک وصول کرنے لگے
ناصر الدین بدھ 24 جون 2015
369500-qabrustanneatandcleanpp-1435093269-349-640x480.jpg

میتوں کی تدفین کے لیے حکومت کو خصوصی انتظام اور اضافی عملہ تعینات کرنا چاہیے تھا،شہر کاکوئی وارث نہیں ،شہری فوٹو : پی پی آئی

کراچی: شہر کے قبرستانوں میں تدفین کیلیے قبریں نایاب اور گورکن مافیا سرگرم ہو گئی ہے، قبرستانوں میں قبروں کے حصول کیلیے لوگوں کی لائنیں لگ گئیں جب کہ فی قبر 10 ہزار سے50 ہزار روپے تک وصول کیے جارہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق شہر میں شدید گرمی اور حبس کے نتیجے میں 1200 سے زائد ہلاکتوں کے بعد لوگ اپنے پیاروں کی تدفین کیلیے مارے مارے پھر رہے ہیں، قبرستان قبروں سے مکمل طور پر بھرگئے ہیں اور قبرستانوں میں قبروں کیلیے جگہ دستیاب نہیں ہے، قبرستانوں میں بھی سفارشی کلچر عام ہے اور صرف رشوت دے کر قبروں کیلیے جگہ فراہم کی جارہی ہے۔

گزشتہ کو بھی شہر کے قبرستانوں سخی حسن قبرستان، پاپوش نگر قبرستان ، عیسیٰ نگری قبرستان ، میوہ شاہ قبرستان، ماڈل کالونی قبرستان، ریڑھی گوٹھ قبرستان، ابراہیم حیدری قبرستان، کورنگی قبرستان، نیوکراچی، شاہ فیصل کالونی و دیگر قبرستانوں میں لوگوں کا رش دیکھنے میں آیا۔

لوگ اپنے پیاروں کی تدفین کیلیے قبرستان آئے لیکن ان کو بتایا گیا کہ قبرستان قبروں سے بھرچکے ہیں اور تدفین کیلیے جگہ دستیاب نہیں ہے۔ جس کے بعد لوگ اپنے پیاروں کی میتوں کو لیکر دوسرے قبرستانوں کی طرف روانہ ہوگئے لیکن ان قبرستانوں میں جن لوگوں نے بھاری رشوت دینے کی پیشکش کی گورکنوں نے رشوت لیکر ان کو قبروں کی جگہ فراہم کردی۔ لوگوں نے شکایت کی کہ عیسیٰ نگری قبرستان میں فی قبر50 ہزار روپے تک رشوت وصول کی گئی۔ شہر کے بیشتر قبرستانوں کے باہر بورڈ لگادیے گئے ہیں کہ قبرستان قبروں سے بھرچکے ہیں لہٰذا میتوں کو دوسرے قبرستانوں کو لے جایا جائے۔
 
ملک کا سب سے بڑا شہر سرکاری ایمبولینس سروس سے محروم
طفیل احمد بدھ 24 جون 2015
369453-AmbulancePhotoExpressx-1435085369-800-640x480.jpg

فلاحی اداروں کی ایمبولینسیں 24 گھنٹے مریضوں کو اسپتال پہنچانے اورلاشیں اٹھانے میں مصروف ہیں،۔ فوٹو: محمد جاوید / فائل
کراچی: 2 کروڑ سے زائد آبادی والے شہر قائد سرکاری ایمبولینس سروس سے محروم ہے ،کراچی میں سرکاری سردخانے اور مردہ خانے بھی قائم نہیں کیے گئے ہیں، سابق سٹی ناظم مصطفی کمال نے اپنے دور میں 1122 ریسکیو ایمبولینس سروس متعارف کرائی تھی لیکن سروس کوغیر فعال کردیا گیااور گاڑیاں نامعلوم مقام پر پہنچا دی گئیں۔

کراچی کے عوام کے لیے 65سال گزرنے کے بعد بھی سرکاری سطح پرکوئی ایمبولینس سروس کی سہولت مہیا نہیں کی گئی، کراچی میں4دن سے شدیدگرمی میں ہیٹ اسٹروک اور ڈائریا سے ہونے والی اموات کا سلسلہ بدستور جاری ہے، ہنگامی صورتحال میں حکومت مریضوں اور میتوں کو لانے اور لے جانے کیلیے کوئی بندوبست نہیں کرسکی۔

مریضوں اور متوفیان کے لواحقین ایمبولینس اور میت گاڑیوں کیلیے مارے مارے پھرتے رہے،فلاحی اداروں نے ہی مریضوں کوا سپتال پہنچایا جاں بحق ہونے والوں کے پیاروں نے ایمبولینس نہ ملنے کی صورت میں شہزور ٹرک اوردیگر گاڑیوں پر رکھ کر میتیں اپنے مقام پر پہنچائیں ، سندھ حکومت بے حسی کامظاہرہ ہی کرتی رہی،کراچی میں گزشتہ 4دن کے دوران ہیٹ اسٹروک اور ڈائریاکی وجہ سے ہزاروں افراد متاثرہ ہوئے اس دوران مریضوں کواسپتال لانے اور لے جانے کیلیے شہر میں موجود ایدھی، چھیپا، خدمت خلق فاؤنڈیشن سمیت دیگر فلاحی اداروں کی ایمبولینسوں نے اپنی خدمات فراہم کیں لیکن اس دوران تجارتی بنیادوں پر چلائی جانے والی ایمبولینسوں نے متاثرہ مریضوں کومن مانی رقم کے عوض اسپتال پہنچارہے ہیں۔

گزشتہ 4دن کے دوران ہزاروں افراد ہیٹ اسٹروک اورڈائریا سے متاثرہوکر اسپتالوں میں پہنچے ہیں اس دوران شہر میں ایمبولینس کی شدید قلت پیدا ہوگئی، 4دن سے ہونے والی اموات نے سرکاری سطح پر سرد خانے ، مردہ خانے نہ ہونے کی وجہ سے لواحقین روزے میں نڈھال اور پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگتے رہے، کراچی میں ایدھی، چھیپا، خدمت خلق فاؤنڈیشن، الخدمت، امن فاؤنڈیشن سمیت دیگر فلاحی اداروں کی ایمبولینس سروسزاپنا قومی فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔

فلاحی اداروں کی ایمبولینسیں 24 گھنٹے مریضوں کو اسپتال پہنچانے اورلاشیں اٹھانے میں مصروف ہیں، دوسری جانب اسپتالوں میں موجود ایمبولینس مبینہ طور پر اسپتال کے افسران کے استعمال ہیں،گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العبادخاں نے ڈاؤ یونیورسٹی کوایمبولینس سروس شروع کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن اس اعلان پر کوئی عملدرآمدنہیں کیاجاسکا اس طرح کراچی میں عوام کیلیے آج تک سرکاری سطح پر ایمبولینس سروسز شروع ہی نہیں کی گئی جس کاخمیازہ عوام کو بگھتنا پڑرہا ہے۔
 
ملک کا سب سے بڑا شہر سرکاری ایمبولینس سروس سے محروم
طفیل احمد بدھ 24 جون 2015
369453-AmbulancePhotoExpressx-1435085369-800-640x480.jpg

فلاحی اداروں کی ایمبولینسیں 24 گھنٹے مریضوں کو اسپتال پہنچانے اورلاشیں اٹھانے میں مصروف ہیں،۔ فوٹو: محمد جاوید / فائل
کراچی: 2 کروڑ سے زائد آبادی والے شہر قائد سرکاری ایمبولینس سروس سے محروم ہے ،کراچی میں سرکاری سردخانے اور مردہ خانے بھی قائم نہیں کیے گئے ہیں، سابق سٹی ناظم مصطفی کمال نے اپنے دور میں 1122 ریسکیو ایمبولینس سروس متعارف کرائی تھی لیکن سروس کوغیر فعال کردیا گیااور گاڑیاں نامعلوم مقام پر پہنچا دی گئیں۔

کراچی کے عوام کے لیے 65سال گزرنے کے بعد بھی سرکاری سطح پرکوئی ایمبولینس سروس کی سہولت مہیا نہیں کی گئی، کراچی میں4دن سے شدیدگرمی میں ہیٹ اسٹروک اور ڈائریا سے ہونے والی اموات کا سلسلہ بدستور جاری ہے، ہنگامی صورتحال میں حکومت مریضوں اور میتوں کو لانے اور لے جانے کیلیے کوئی بندوبست نہیں کرسکی۔

مریضوں اور متوفیان کے لواحقین ایمبولینس اور میت گاڑیوں کیلیے مارے مارے پھرتے رہے،فلاحی اداروں نے ہی مریضوں کوا سپتال پہنچایا جاں بحق ہونے والوں کے پیاروں نے ایمبولینس نہ ملنے کی صورت میں شہزور ٹرک اوردیگر گاڑیوں پر رکھ کر میتیں اپنے مقام پر پہنچائیں ، سندھ حکومت بے حسی کامظاہرہ ہی کرتی رہی،کراچی میں گزشتہ 4دن کے دوران ہیٹ اسٹروک اور ڈائریاکی وجہ سے ہزاروں افراد متاثرہ ہوئے اس دوران مریضوں کواسپتال لانے اور لے جانے کیلیے شہر میں موجود ایدھی، چھیپا، خدمت خلق فاؤنڈیشن سمیت دیگر فلاحی اداروں کی ایمبولینسوں نے اپنی خدمات فراہم کیں لیکن اس دوران تجارتی بنیادوں پر چلائی جانے والی ایمبولینسوں نے متاثرہ مریضوں کومن مانی رقم کے عوض اسپتال پہنچارہے ہیں۔

گزشتہ 4دن کے دوران ہزاروں افراد ہیٹ اسٹروک اورڈائریا سے متاثرہوکر اسپتالوں میں پہنچے ہیں اس دوران شہر میں ایمبولینس کی شدید قلت پیدا ہوگئی، 4دن سے ہونے والی اموات نے سرکاری سطح پر سرد خانے ، مردہ خانے نہ ہونے کی وجہ سے لواحقین روزے میں نڈھال اور پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگتے رہے، کراچی میں ایدھی، چھیپا، خدمت خلق فاؤنڈیشن، الخدمت، امن فاؤنڈیشن سمیت دیگر فلاحی اداروں کی ایمبولینس سروسزاپنا قومی فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔

فلاحی اداروں کی ایمبولینسیں 24 گھنٹے مریضوں کو اسپتال پہنچانے اورلاشیں اٹھانے میں مصروف ہیں، دوسری جانب اسپتالوں میں موجود ایمبولینس مبینہ طور پر اسپتال کے افسران کے استعمال ہیں،گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العبادخاں نے ڈاؤ یونیورسٹی کوایمبولینس سروس شروع کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن اس اعلان پر کوئی عملدرآمدنہیں کیاجاسکا اس طرح کراچی میں عوام کیلیے آج تک سرکاری سطح پر ایمبولینس سروسز شروع ہی نہیں کی گئی جس کاخمیازہ عوام کو بگھتنا پڑرہا ہے۔

فاروق احمد بھٹی بھائی ایک چیز کی نشاندہی اور ضروری سمجھتا ہوں ۔ جسے ایمبولینس کہا جائے وہ سروس صرف امن فاؤنڈیشن والوں کی ہے جس کی تعداد شائد پندرہ بیس سے زیادہ نہ ہو ۔ باقی تمام سروسز کو " کئرینگ سروس" کہنا زیادہ مناسب ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ادارے کی ایمبولینس میں نہ تو فرسٹ ایڈ موجود ہے نہ ہی کوئی میڈیکل آفیسر ایسی صورت میں ایمبولینس اس گاڑی کو کہا جائے گا جس میں ایک مریض کے لیٹنے کی جگہ ہو اور اس گاڑی پر ایمبولینس لکھا ہو ۔
واضح رہے کہ یہ بیان مذکورہ بالا تنظیموں پر تنقید نہیں ہے۔ بلکہ اہلِ شہر ان اداروں کے شکر گزار ہیں کہ ان فلاحی اداروں نے مل کر ایک پوری ریاست کی زمہ داری سنبھالی ہوئی ہے جس میں سب سے بڑا نام ایدھی کا ہے ۔ مزید یہ بھی واضح رہے کہ جن فلاحی اداروں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ بھی کئی ایک ادارے اس سلسلے میں اپنی خدمات بہم پہچاتے رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ کے پاس واقعی "ایمبولینس" بھی ہے۔
 
فاروق احمد بھٹی بھائی ایک چیز کی نشاندہی اور ضروری سمجھتا ہوں ۔ جسے ایمبولینس کہا جائے وہ سروس صرف امن فاؤنڈیشن والوں کی ہے جس کی تعداد شائد پندرہ بیس سے زیادہ نہ ہو ۔ باقی تمام سروسز کو " کئرینگ سروس" کہنا زیادہ مناسب ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ادارے کی ایمبولینس میں نہ تو فرسٹ ایڈ موجود ہے نہ ہی کوئی میڈیکل آفیسر ایسی صورت میں ایمبولینس اس گاڑی کو کہا جائے گا جس میں ایک مریض کے لیٹنے کی جگہ ہو اور اس گاڑی پر ایمبولینس لکھا ہو ۔
واضح رہے کہ یہ بیان مذکورہ بالا تنظیموں پر تنقید نہیں ہے۔ بلکہ اہلِ شہر ان اداروں کے شکر گزار ہیں کہ ان فلاحی اداروں نے مل کر ایک پوری ریاست کی زمہ داری سنبھالی ہوئی ہے جس میں سب سے بڑا نام ایدھی کا ہے ۔ مزید یہ بھی واضح رہے کہ جن فلاحی اداروں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ بھی کئی ایک ادارے اس سلسلے میں اپنی خدمات بہم پہچاتے رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ کے پاس واقعی "ایمبولینس" بھی ہے۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات ہے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں تو میڈیکل آفیسر زیادہ تر ہسپتالوں میں بھی نہیں ملتے۔۔۔۔۔۔ایمبولینس نام کی گاڑی مل جانا بھی غنیمت ہے۔
 
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات ہے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں تو میڈیکل آفیسر زیادہ تر ہسپتالوں میں بھی نہیں ملتے۔۔۔۔۔۔ایمبولینس نام کی گاڑی مل جانا بھی غنیمت ہے۔

جی اللہ کا شکر ہے، کہ کم از کم یہ تو موجود ہے فلاحی اداروں کے تعاون سے ۔
 
جی اللہ کا شکر ہے، کہ کم از کم یہ تو موجود ہے فلاحی اداروں کے تعاون سے ۔
دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اس سونے جیسے ملک کا حلیہ بگاڑا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان سے نجات کی کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی۔۔۔۔۔۔
 
علم میں یہ بات بھی آئی کہ کچھ مریضوں کو کھلی ( بغیر ہڈوالی ) سوزوکی میں چار پائی پر ڈال کر ہسپتال لایا جا رہا ہے ۔ کیونکہ ایمبولینس کی دستیابی میں بھی دشواری ہے۔
 
علم میں یہ بات بھی آئی کہ کچھ مریضوں کو کھلی ( بغیر ہڈوالی ) سوزوکی میں چار پائی پر ڈال کر ہسپتال لایا جا رہا ہے ۔ کیونکہ ایمبولینس کی دستیابی میں بھی دشواری ہے۔
یہی نہیں جن ٹرکوں میں مویشی لادے جاتے ہیں ان میں مریضوں کو ہسپتال لایا جا رہا ہے۔
 
Top