مقالہ : دلت مسلمانوں کیلئے تحفظات کا مسئلہ پیچیدہ
مقالہ نگار : ایم نوشاد انصاری (ڈائرکٹر ، مرکز برائے فروغِ پیغامِ عالم ، دہلی) ہندوستان کی سپریم کورٹ میں 25 جنوری 2008ء کو ایک مسلم سماجی ادارے (اکھل مہارشٹرا مسلم کھٹک سماج) نے درخواست داخل کی تھی کہ : مسلم برادری میں بھی دلت پائے جاتے ہیں جنہیں تحفظات کی ضرورت لاحق ہے۔ یہ ایک غیرمتنازعہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں اگرچہ کوئی ذات پات کا نظام نہیں ہوتا۔ قرآن پاک اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ تمام بنی نوع انسان مساوی ہیں۔
زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ بعض مسلمانوں نے اپنے غیرملکی حسب نسب کے سلسلے کے باعث خودساختہ برتری حاصل کر لی اور اشرف ، شرفاء یا عالی نسب کا مقام پا لیا۔ جبکہ بعض مقامی نومسلمین کو عموماً اجلاف یا ذلیل یا گرے پڑے کم درجے کے لوگ کہا جانے لگا۔ چند مسلمان فقہاء بھی اسلامی تعلیمات سے منحرف ہو گئے اور دو خاندانوں کے درمیان (ذات پات کے) فرق کے نام پر مسلمانوں میں ذات پات کے نظام کو قانونی حیثیت دے دی۔
یہی سبب ہے کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ مسلمانوں میں ذات پات کے نظام کی موجودگی کے بارے میں کہتی ہے : موجودہ مسلم معاشرہ 4 اہم گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے 1 : اشراف ، جو اپنے آپ کو بیرونی سرزمین کا سلسلہ قرار دیتے ہیں
2 : اعلیٰ ذات کے ہندو نو مسلم
3 : اوسط طبقہ کے نو مسلم جن کے پیشے روایتی طور پر صاف ستھرے نظر آتے ہیں
4 : اچھوتوں سے تعلق رکھنے والے نومسلم بھنگی ، صفائی کرنے والے ، چمار اور حلال خور وغیرہ
اور سب سے آخری چوتھے درجے کی حالت عام مسلمانوں سے بدتر اسلئے بھی ہے کہ ان میں غربت کی سطح سب سے زیادہ ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ بڑی تعداد میں دلتوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن مذہب کی تبدیلی کے باوجود بھی ان کی سماجی و معاشی حیثیت پہلے ہی کی طرح افلاس زدہ ، پسماندہ اور گری ہوئی رہی۔
بہت سوں نے اپنے روایتی پیشے ، جیسے ہنرمندی ، کھیتی باڑی ، محنت مزدوری کو جاری رکھا۔ سوائے ان لوگوں کے جنہیں شریعت نے نجس اور ناقابل قبول قرار دیا۔
اس کے باوجود مسلمانوں کے بعض ذات پات کے گروہ منظم ہو گئے اور انہوں نے اپنے آپ کو ایک "مسلمان" نام دے لیا۔
مثال کے طور پر ۔۔۔۔
قصابوں نے اپنے آپ کو قریشی کہنا شروع کیا
بنکر ، انصاری بن گئے
خیاط ، ادریس کہلانے لگے
بہشتی ، عباسی ہو گئے
سبزی فروش ، رعین کہلانے لگے
حجام ، سلمانی کہے گئے
بڑھئی اور لوہار ، سیفی کہلانے لگے
مگر ۔۔۔۔۔ مسلمانوں کی صف میں داخل ہو کر یہ لوگ اپنی خداداد صلاحیتوں اور اہلیتوں کو مہمیز نہ لگا سکے کہ وہ دیگر لوگوں سے مساویانہ مسابقت کر سکتے۔
اور اب یہی "دلت مسلمان" ذات پات کی اساس پر دستور کے مطابق حکومت سے تحفظات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں داخل سماجی ادارے کی درخواست کا لب لباب یہی ہے کہ ۔۔۔۔ مسلمانوں میں 35 ذاتیں ایسی ہیں جن کے ماضی کا پس منظر "شیڈول کاسٹ" کا رہا ہے اور روایتی طور پر شیڈول کاسٹ سے وابستہ پیشوں میں یہ لوگ مصروف رہے ہیں۔ جب سکھ اور بدھسٹ شیڈول کاسٹ والوں کو تحفظات دئے جا سکتے ہیں تو مسلمانوں (کی متذکرہ 35 ذاتوں) کو بھی "شیڈول کاسٹ" زمرے میں شامل کر کے تحفظات دئے جانے چاہئے !
لہذا جسٹس رنگناتھ کمیشن نے اسی ضمن میں ایک معقول بات یہ کہی ہے کہ : ذات پات کے نظام کو ہندوستان کے سماج میں ایک عام وصف کی حیثیت سے تسلیم کر لینا چاہئے اور یہ سوال نہیں اٹھانا چاہئے کہ کسی مخصوص مذہب کی فلاسفی یا تعلیمات اسے قبول کرتی ہیں یا نہیں ؟
تحفظات کے اس معاملے میں مسلمان قائدین اور مسلم تنظیمیں بٹی ہوئی ہیں۔ ایک گروپ مطالبہ کرتا ہے کہ من کل حیثیت مسلمانوں کو تحفظات دینا چاہئے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ دستور ، (سماجی) طبقہ کے تناظر میں تحفظاتی امتیاز کی بات کرتا ہے ، ذات کی اساس پر تحفظات فراہم کرنے کی بات نہیں کرتا۔ جبکہ جماعت اسلامی کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالحق انصاری نے سچر کمیٹی کی رپورٹ پر منعقدہ ورکشاپ میں کہا کہ : مسلمانوں کو ذاتوں میں بانٹ دینے کی تجویز ایک "بد ذائقہ" تجویز ہے ! اسی طرح جامع مسجد دہلی کے عالم مولانا سید احمد بخاری نے بھی اسے امت مسلمہ کے مفاد کو نقصان پہنچانے والی تجویز قرار دیا ہے۔ جبکہ آل انڈیا مجلس مشاورت کے صدر سید شہاب الدین کہتے ہیں کہ مذہب کی اساس پر کیوں نہ تمام مسلمانوں کو سماجی اور تعلیمی طور پر محروم اور درکنار طبقہ تصور کیا جائے؟
یہ بات سچ ہے کہ مسلمان برادری ، ذات پات کی اساس پر مختلف زمروں میں تقسیم کی تجویز کو مسترد کرتی ہے۔ اور اسی سبب بہت ممکن ہے کہ مستقبل میں کسی دن تحفظات کا کوٹہ ذات پات کے بجائے غربت و افلاس زدہ حالت کو مدنظر رکھ کر مقرر کیا جائے۔ دلت مسلمان کون ہیں ؟