زبانِ اُردُو میں ’’رستم و سہراب‘‘ حشرکی کامیاب ڈرامہ نگاری کے سفر کا لگ بھگ آخری ، وگرنہ اواخرسنگ ہاے میل شمار ہوتا ہے۔گرجتے ہوئے مکالمے، گونجتے ہوئے نعرے،پندو نصائح میں بھی زوردار دھمک،عشق و محبت کے موقعوں پر بھی طاقت اور جاہ و جلال کا رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تو اِسے ڈرامہ کم رزم نامہ ہی کہوں گا۔۔۔۔۔

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
سہراب اور رستم کی کہانی کو بھی اگر قاضی عبد الستار لکھتے تو شاہکار ہوتا۔مگر بطور ناول، ڈرامہ نہیں
 
شاید آغاحشر کاشمیری اپنی طبیعت سے مجبور یا تھیٹر کے تقاضوں سے معذور تھے جو یہ گرجتا ہوا ڈھنگ اور بھڑکتا ہوا رنگ اختیار کیا۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ضرب المثل ، کہاوت اور محاورے کا فرق:
ضرب المثل:
ایک ایسا واقعہ جس کی نظیر پہلے مفقود تھی مگر اِس کے وقوع ہوتے ہی مثال کے طور پر قائم ہوگئی تو یہ ضرب المثل ہے جیسے 9/11کا واقعہ جسے تباہی اور بربادی نیز دہشت گردی کا استعارہ بنا کر پیش کیاجاتا ہے ضرب المثل کی موٹی سی مثال ہے ۔ اب اِسے اپنی گفتگومیں استعمال کرنا ہے تو یوں کریں گے ۔بیگم تم نے تو گھر میں 9/11مچا رکھی ہے وغیرہ ۔
کہاوت:
یہ کہانی کی طرح کی ایک چیز ہےجو مشہورہوجائے توعنوان دیکر حوالے کے کام آتی ہے جیسے بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے اور اِس کے ضمن میں پوری کہانی یا سچا قصہ ہے وغیرہ۔
محاورہ:
الفاظ کا اہلِ علم کا مختص کردہ مجموعہ جس میں ایک اسم ہو ایک فعل بھی ہو ۔الفاظ ناقابلِ ترمیم ہوں یعنی جوں کے توں برتے جائیں جیسے ’’ہاتھوں کے طوطے اُڑجانا‘‘ہاتھ اسم یعنی ایک عضو کا نام ہے ، اُڑجانا فعل ہے اور ناقابلِ ترمیم یہ کہ ہاتھوں کے طوطے ہی اُڑیں گے تو اِسے حواس باختہ ہوجانے سے تعبیر کریں گے ۔ہاتھوں کی جگہ آنکھیں اور طوطے کی جگہ چڑیا،مینا، کوا یا کوئی اور پرندہ نہیں لائیں گے ۔۔۔

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
طوطے اڑنے سے یاد آیا کہ ہمارے یہاں بچپن میں ایک کھیل بھی کھیلا جاتا تھا، پنجابی میں کھیلتے تھے تو پنجابی میں ہی لکھ رہا ہوں۔ چڑی اڈی، کاں اڑیا، مج اڈی، وغیرہ
 
ظاہر دار بیگ بھی اُردُو فکشن کا ایک معروف کردار ہے۔اِس کے خالق شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد دہلوی ہیں۔اُنھیں کہنے والے دہلی کا روڑا کہتے ہیں ۔وہ دہلی کی ثقافت کے علم بردار تھے۔اُن کے پوتے شاہد احمد دہلوی کراچی میں دہلی تہذیب کی یادگار تھے۔ڈپٹی صاحب کی اور اور اولادیں بھی ہوں گی مگر ہم اُن کے تعارف سے محروم ہیں۔۔۔۔۔​
 
عین ممکن ہے سیدھی گنگا میں الٹی گنگا کا پانی آجائے کیوں کہ الٹی گنگا میں بہتے بہتے طبیعتیں مشکل پسند ہوگئی ہیں ، چنانچہ 24گھنٹے کی تدوین کا وقت بہت ہے الٹی گنگا کا پانی اُسے لوٹانے کے لیے۔۔۔۔۔​
 
گو بارش ہوجانے سے گرمی کی شدت میں کمی آئی ہے مگر مزیدبارشوں کے لیے فضا بننے میں سفر وہیں سے پھر شروع ہے جہاں سے بارش پر تان ٹوٹتی ہے۔۔۔۔۔
 
Top