گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہت خوب بات کہی۔ لیجیے، اسی پر شعر سنیے۔
ما را بہ غمزہ کشت و قضا را بہانہ ساخت
خود سوی ما ندید و حیا را بہانہ ساخت
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
شاید اسے بھی گل کی طرح شعر سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہو گی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
رشتے بھی کیسے نازک سے ہو کر رہ گئے آج کے زمانے میں۔ جس کے منہ کی بات اپنے ہونٹوں سے بندہ ادا نہ کرے، وہی جھٹ سے ناراض۔ پر سانوں کی تے تہانوں کی۔
 
Top