بات یہ ہے کہ کل کو باقی مساجد میں سے بھی رام کی مورتیاں برآمد ہونا شروع ہو سکتی ہیں مثلا دہلی کی جامع مسجد وغیرہ وغیرہ۔ پھر لمبےکیس اور ثبوت کے صاحب یہاں پہلے مندر ہوتا تھا کوئی ہزار برس پہلے اور مسلمان فاتحین نے ڈھا دیا۔ کم سے کم بابری مسجد سے تو یہ مثال قائم ہوجائے گی اور اسی کیس کا حوالہ دے کر خاکم بدہن مسجدوں کے اندر ہی مندر قائم ہونے لگ جائیں گے۔
دیکھئے محسن بھائی۔ ایک چیز ہوتی ہے استثنائی واقعہ۔
اور بابری مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کو اسی قبیل سے سمجھئے۔
مسجد کی تعمیر جب 1853ء میں ہوئی تھی ، اس وقت نواب واجد علی شاہ کا اقتدار تھا۔ اور انہی کے اقتدار میں مسجد کے اسی مسئلہ پر سب سے پہلا تشدد ہوا تھا جس کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔
اور یہ چیز بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
1855ء تک ہندو اور مسلمان اسی عمارت کے اندر عبادت کرتے رہے۔ جبکہ 1857ء کے غدر کے بعد ہندوؤں کو مسجد کے داخلی آنگن میں قدم رکھنے سے روک دیا گیا اور وہ آنگن سے باپر بنائے گئے چبوترے پر چڑھاوے دیتے رہے۔
سن 1883ء میں اس متذکرہ چبوترہ پر مندر بنانے کی کوشش کی گئی جسے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے جنوری 1885ء میں روک دیا۔
سن 1934ء میں مسجد کے اس مسئلہ پر فرقہ وارانہ فساد ہوا جس میں مسجد کے گرد کی دیواریں اور اس کا ایک گنبد توڑ دیا گیا تھا۔ اس وقت کی برطانوی حکومت نے پھر سے دیوار بنائی اور گنبد کی تعمیر کرا دی تھی۔
سن 1949ء میں انتہا پسند ہندوؤں نے رات کے وقت مسجد میں مورتیاں رکھ دیں اور پھر اس کے بعد دونوں فرقوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
سن 1989ء میں عدالت نے اس مسجد کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اسی وقت سے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ اس مقدمہ کی سماعت کر رہی تھی۔
1949ء سے آج تک کوئی 61 سال گزر چلے اور خود ہم نے بھی کوئی تین ساڑھے تین دہائیاں صحافتی ماحول میں رہتے ہوئے ہند کے سیاسی ، سماجی ، مذہبی اتار چڑھاؤ کو دیکھتے اور برتتے ہوئے گزار دئے ۔۔۔۔ لیکن اتنے عرصہ دراز میں دوبارہ کسی اور مسجد میں مورتیاں یا مورتی رکھنے والے واقعہ یا خبر سے جب واقف نہیں ہوئے تو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ :
بابری مسجد کا سانحہ تاریخِ ہند کا ایک سیاہ باب سہی مگر بلاشبہ ایک استثنائی واقعہ ہے !
اس استثنائی واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ قیاس کرنا کہ اس طرح مستقبل میں مساجد کے اندر مندر قائم ہونے لگ جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ دورِ حاضر کے انڈیا میں ذرا نہیں بلکہ کافی مشکل کام ہے۔ ونیز یہ پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ نئی نسل جو کہ مادیت پرستی کی شاہراہ پر بلا روک ٹوک اور بےتحاشا دوڑ رہی ہے ، ان مذہبی معاملات سے کافی دور ہے۔
اس کا ایک ٹھوس ثبوت بھی ہے۔ بھگوا بریگیڈ (آر ایس ایس ، بی جے پی ، شیو سینا وغیرہ) کا کوئی ایسا ملکی سطح پر مشہور "جانباز" بتا دیں جو 30 سال سے کم عمر ہو۔ سب جگہ وہی بوڑھے اور ادھیڑ عمر چہرے نظر آئیں گے ۔۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسا کہ آج کل برصغیری اردو معاشرے میں (انڈیا میں بطور خاص) اردو کے کسی جلسے میں صرف بزرگ اور سن رسیدہ چہرے کرسیوں پر ڈھیر نظر آتے ہیں !!