بابری مسجد - رام جنم بھومی فیصلہ :: الہ آباد ہائی کورٹ

حیدرآبادی

محفلین
بابری مسجد - رام جنم بھومی فیصلہ :: الہ آباد ہائی کورٹ

فیصلہ کی مکمل نقول یہاں :
الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کی آفیشل ویب سائیٹ

فیصلہ کا خلاصہ :
اکثریتی فیصلہ کے مطابق متازعہ زمین تین حصوں میں تقسیم کی جائے گی۔
تین حصہ دار یہ رہیں گے :
  1. سنی وقف بورڈ
  2. نرموہی اکھاڑا
  3. "رام لالہ" پارٹی
 

حیدرآبادی

محفلین
الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سنی وقف بورڈ سپریم کورٹ میں اپیل کرے گا !
وقف بورڈ نے کہا ہے کہ اسے ہائی کورٹ کا فیصلہ قبول نہیں ہے۔
واضح رہے کہ عدلیہ کے فیصلہ میں درج ذیل نکات بھی شامل ہیں :
* متنازعہ زمین رام کی جنم بھومی ہے
* شہید مسجد کے مرکزی مینار کے نیچے والی جگہ ، جہاں مورتیاں رکھی گئی ہیں ، وہ ہندوؤں کو دی جانی چاہئے۔
* متنازعہ جگہ جو مندر تھا ، اسے ڈھا کر مسجد تعمیر کی گئی تھی اور وہاں مسلمان عبادت نہیں کر رہے تھے۔

آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کا بیان :
ہائی کورٹ کا فیصلہ کسی کی فتح یا شکست کا اعلان نہیں ہے۔
ہم ہر فرد کو بشمول مسلمانوں کو مدعو کرتے ہیں کہ وہ مندر کی تعمیر کیلئے آگے آئیں۔ رام مندر کی تعمیر نہ تو ردعمل ہے اور نہ ہی کسی خاص قوم کے خلاف ہے۔
بھاگوت نے مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ : وہ "ماضی کو فراموش" کر دیں !
 

ساقی۔

محفلین
الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سنی وقف بورڈ سپریم کورٹ میں اپیل کرے گا !
وقف بورڈ نے کہا ہے کہ اسے ہائی کورٹ کا فیصلہ قبول نہیں ہے۔
واضح رہے کہ عدلیہ کے فیصلہ میں درج ذیل نکات بھی شامل ہیں :
* متنازعہ زمین رام کی جنم بھومی ہے
* شہید مسجد کے مرکزی مینار کے نیچے والی جگہ ، جہاں مورتیاں رکھی گئی ہیں ، وہ ہندوؤں کو دی جانی چاہئے۔
* متنازعہ جگہ جو مندر تھا ، اسے ڈھا کر مسجد تعمیر کی گئی تھی اور وہاں مسلمان عبادت نہیں کر رہے تھے۔

آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کا بیان :
ہائی کورٹ کا فیصلہ کسی کی فتح یا شکست کا اعلان نہیں ہے۔
ہم ہر فرد کو بشمول مسلمانوں کو مدعو کرتے ہیں کہ وہ مندر کی تعمیر کیلئے آگے آئیں۔ رام مندر کی تعمیر نہ تو ردعمل ہے اور نہ ہی کسی خاص قوم کے خلاف ہے۔
بھاگوت نے مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ : وہ "ماضی کو فراموش" کر دیں !

بھاگوت صاحب شاید جانتے نہیں ۔۔ فتح و شکست چھوڑ یہ تو زندگی موت کا فیصلہ ہے۔ اوپر سے کہتے ہیں مسلمان اپنا ماضی بھول جائیں ۔ ماضی بھولے تھے تو آج حال میں ہم “بے حال“ ہو چکے ہیں ۔ اور مستقبل کی خبر حال ہی بتا رہا ہے کہ کیسا ہو گا۔


ویسے یہ لکھ رکھیئے کہ بھارت میں پھر “دھوم دھڑکا“ (ٹھاہ ٹھاہ، ڈزن وغیرہ) ہونے والا ہے عدالت کے اس فیصلے سے۔ شاید بھارت“ ممبئی حادثہ“ بھول گیا ہے جو یہ فیصلہ دیا گیا ہے۔
 

حیدرآبادی

محفلین
حیدرآبادی صاحب اپ کی کیا رائے ہے اس فیصلے پر؟
یہ معاملہ ایسا تھا کہ سارے ہندوستان کی نظریں اس پر ٹکی تھیں۔ فیصلہ سے صاف نظر آتا ہے کہ ہند کے اکثریتی طبقے کے عقیدے اور جذبات کا خیال رکھا گیا ہے۔ گو کہ یہ انصاف کے مغائر ہے۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کیلئے "انصاف" نام کی چیز پائی کہاں جاتی ہے؟؟ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ممالک اور اسلامی شرعی قوانین پر عمل کرنے والے ممالک میں تک ہم نے عام مسلمان کو صحیح انصاف ملتے نہیں دیکھا !!

حقائق ، منطق ، اصول ، قانون ، دستاویزات وغیرہ کو نظرانداز کرکے جو "تقسیم" کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ اسلئے بھی غلط ہے کہ ۔۔۔
بابری مسجد کمپلکس کا پورا حدود ریوینیو محکمہ کے ریکارڈ میں "سنی وقف بورڈ" کی ملکیت ہے۔ نرموہی اکھاڑے یا رام للا پارٹی کے نام پر وہاں کوئی ملکیت ہے ہی نہیں !

بہرحال ۔۔۔۔ ابھی سپریم کورٹ باقی ہے۔
بقول مسلم پرسنل لا بورڈ کے : دستاویزی اور دیگر شواہد کی بنیاد پر بابری مسجد مقدمہ کو برحق ثابت کرنے کی انتھک کوشش کی جائے گی۔
بھاگوت صاحب شاید جانتے نہیں ۔۔ فتح و شکست چھوڑ یہ تو زندگی موت کا فیصلہ ہے۔ اوپر سے کہتے ہیں مسلمان اپنا ماضی بھول جائیں ۔ ماضی بھولے تھے تو آج حال میں ہم “بے حال“ ہو چکے ہیں ۔ اور مستقبل کی خبر حال ہی بتا رہا ہے کہ کیسا ہو گا۔


ویسے یہ لکھ رکھیئے کہ بھارت میں پھر “دھوم دھڑکا“ (ٹھاہ ٹھاہ، ڈزن وغیرہ) ہونے والا ہے عدالت کے اس فیصلے سے۔ شاید بھارت“ ممبئی حادثہ“ بھول گیا ہے جو یہ فیصلہ دیا گیا ہے۔
ساقی صاحب ! معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ہند میں رہنے والے ہند کا حال بہتر جانتے ہیں۔ قریب دو دہے قبل مسجد کی شہادت کے بعد سے ایک پوری نئی نسل وجود میں آ چکی ہے جسے نہ مندر-مسجد جھگڑے سے دلچسپی ہے اور نہ مشرقی تہذیب ، ثقافت روایات و اقدار سے۔ آج کی نسل techno-gadgets کی زبان میں گفتگو کرتی ہے۔ مغرب سے انسانی حقوق ، اخلاق و آداب ، نظم و ضبط لینے کے بجائے بےراہ روی، بےحیائی ، فحاشی اور مادہ پرستی کو برضا ورغبت قبول کر چکی ہے اور اس شاہراہ پر سرپٹ دوڑنے میں مشغول ہے۔ ثبوت دیکھنا ہو تو کوئی سا بھی انڈین چینل آن کر لیجئے (جو کہ شائد پاکستان میں ہی زیادہ دیکھے جاتے ہیں)۔
ایسی نسل کو ہم کیا ہوش دلائیں گے کہ یہ مسلم ہے وہ ہندو ہے ، یہ مسجد ہے وہ مندر ہے ، مسلمان کے یہ یہ فرائض ہیں ، مساجد کے یہ یہ حقوق ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت مشکل ہے کہ اس فیصلہ پر "ممبئی دھماکوں" جیسا ردّعمل دوبارہ آئے۔ اُس وقت کے اور آج کے ماحول میں بہت لمبا گیپ ہے ، پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے بھائی !

رہ گئی بھاگوت یا انتہا پسند ہندو تنظیموں کی ہرزہ سرائی۔ بھائی جب امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بیٹھ کر کوئی ٹیری جونز قرآن کو جلانے کی بات کر سکتا ہے تو بھگوا ذہنیت کو بھی اسی قبیل کی "کیچڑ" سے سمجھا کریں۔
اور سمجھدار لوگ کیچڑ میں پتھر نہیں اچھالا کرتے کہ اپنے ہی کپڑے خراب ہونے کا ڈر رہتا ہے !!
 

محسن حجازی

محفلین
بات یہ ہے کہ کل کو باقی مساجد میں سے بھی رام کی مورتیاں برآمد ہونا شروع ہو سکتی ہیں مثلا دہلی کی جامع مسجد وغیرہ وغیرہ۔ پھر لمبےکیس اور ثبوت کے صاحب یہاں پہلے مندر ہوتا تھا کوئی ہزار برس پہلے اور مسلمان فاتحین نے ڈھا دیا۔ کم سے کم بابری مسجد سے تو یہ مثال قائم ہوجائے گی اور اسی کیس کا حوالہ دے کر خاکم بدہن مسجدوں کے اندر ہی مندر قائم ہونے لگ جائیں گے۔
 

حیدرآبادی

محفلین
بات یہ ہے کہ کل کو باقی مساجد میں سے بھی رام کی مورتیاں برآمد ہونا شروع ہو سکتی ہیں مثلا دہلی کی جامع مسجد وغیرہ وغیرہ۔ پھر لمبےکیس اور ثبوت کے صاحب یہاں پہلے مندر ہوتا تھا کوئی ہزار برس پہلے اور مسلمان فاتحین نے ڈھا دیا۔ کم سے کم بابری مسجد سے تو یہ مثال قائم ہوجائے گی اور اسی کیس کا حوالہ دے کر خاکم بدہن مسجدوں کے اندر ہی مندر قائم ہونے لگ جائیں گے۔
دیکھئے محسن بھائی۔ ایک چیز ہوتی ہے استثنائی واقعہ۔
اور بابری مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کو اسی قبیل سے سمجھئے۔

مسجد کی تعمیر جب 1853ء میں ہوئی تھی ، اس وقت نواب واجد علی شاہ کا اقتدار تھا۔ اور انہی کے اقتدار میں مسجد کے اسی مسئلہ پر سب سے پہلا تشدد ہوا تھا جس کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔
اور یہ چیز بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
1855ء تک ہندو اور مسلمان اسی عمارت کے اندر عبادت کرتے رہے۔ جبکہ 1857ء کے غدر کے بعد ہندوؤں کو مسجد کے داخلی آنگن میں قدم رکھنے سے روک دیا گیا اور وہ آنگن سے باپر بنائے گئے چبوترے پر چڑھاوے دیتے رہے۔

سن 1883ء میں اس متذکرہ چبوترہ پر مندر بنانے کی کوشش کی گئی جسے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے جنوری 1885ء میں روک دیا۔

سن 1934ء میں مسجد کے اس مسئلہ پر فرقہ وارانہ فساد ہوا جس میں مسجد کے گرد کی دیواریں اور اس کا ایک گنبد توڑ دیا گیا تھا۔ اس وقت کی برطانوی حکومت نے پھر سے دیوار بنائی اور گنبد کی تعمیر کرا دی تھی۔

سن 1949ء میں انتہا پسند ہندوؤں نے رات کے وقت مسجد میں مورتیاں رکھ دیں اور پھر اس کے بعد دونوں فرقوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
سن 1989ء میں عدالت نے اس مسجد کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اسی وقت سے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ اس مقدمہ کی سماعت کر رہی تھی۔

1949ء سے آج تک کوئی 61 سال گزر چلے اور خود ہم نے بھی کوئی تین ساڑھے تین دہائیاں صحافتی ماحول میں رہتے ہوئے ہند کے سیاسی ، سماجی ، مذہبی اتار چڑھاؤ کو دیکھتے اور برتتے ہوئے گزار دئے ۔۔۔۔ لیکن اتنے عرصہ دراز میں دوبارہ کسی اور مسجد میں مورتیاں یا مورتی رکھنے والے واقعہ یا خبر سے جب واقف نہیں ہوئے تو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ :
بابری مسجد کا سانحہ تاریخِ ہند کا ایک سیاہ باب سہی مگر بلاشبہ ایک استثنائی واقعہ ہے !

اس استثنائی واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ قیاس کرنا کہ اس طرح مستقبل میں مساجد کے اندر مندر قائم ہونے لگ جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ دورِ حاضر کے انڈیا میں ذرا نہیں بلکہ کافی مشکل کام ہے۔ ونیز یہ پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ نئی نسل جو کہ مادیت پرستی کی شاہراہ پر بلا روک ٹوک اور بےتحاشا دوڑ رہی ہے ، ان مذہبی معاملات سے کافی دور ہے۔
اس کا ایک ٹھوس ثبوت بھی ہے۔ بھگوا بریگیڈ (آر ایس ایس ، بی جے پی ، شیو سینا وغیرہ) کا کوئی ایسا ملکی سطح پر مشہور "جانباز" بتا دیں جو 30 سال سے کم عمر ہو۔ سب جگہ وہی بوڑھے اور ادھیڑ عمر چہرے نظر آئیں گے ۔۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسا کہ آج کل برصغیری اردو معاشرے میں (انڈیا میں بطور خاص) اردو کے کسی جلسے میں صرف بزرگ اور سن رسیدہ چہرے کرسیوں پر ڈھیر نظر آتے ہیں !! :)
 

حیدرآبادی

محفلین
بھگوا بریگیڈ (آر ایس ایس ، بی جے پی ، شیو سینا وغیرہ) کا کوئی ایسا ملکی سطح پر مشہور "جانباز" بتا دیں جو 30 سال سے کم عمر ہو۔ سب جگہ وہی بوڑھے اور ادھیڑ عمر چہرے نظر آئیں گے ۔۔۔۔
یہاں بہت ممکن ہے کہ کوئی راج ٹھاکرے کی مثال پیش کرے۔
لیکن ۔۔۔۔۔۔ ان کے پس منظر پر غور کریں تو ہمیں اقتدار کے نشے کی جنگ نظر آئے گی۔ یعنی کہ وہی مادیت پرستی۔
یہ لوگ جب "پیسہ" کو ہی سب سے بڑا "مذہب" مانتے ہیں تو حقیقی مذاہب کو کہاں خاطر میں لائیں گے اور کیوں ان مذاہب کے خلاف بغض پالیں گے؟
اگر کہا جائے کہ پیسہ ہی کی خاطر یہ لوگ بین المذاہب انتشار پھیلائیں گے یا مساجد پر غاصبانہ قبضہ کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔
تو صرف ہندو کیوں ؟
یہ کام تو ہمارے مسلمان "بھیا" لوگ بھی بڑے ذوق و شوق اور رغبت سے انجام دے رہے ہیں۔ سارے ہندوستان کو چھوڑیں ، میں آپ کو صرف حیدرآباد (دکن) سے ایسی سینکڑوں مثالیں (مع ثبوت) دے سکتا ہوں جہاں مسلمانوں کی وقف املاک ، مساجد ، درگاہوں ، قبرستانوں وغیرہ پر نام نہاد مسلم سیاسی جماعتوں ، اداروں اور "با اثر شخصیات" کی جانب سے ناجائز قبضے کئے گئے ہیں اور کئے جا رہے ہیں۔
اور گمان اغلب ہے کہ ایسا پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی ہو رہا ہے۔
 

ابن جمال

محفلین
حیدرآبادی صاحب نے ذرا دامن بچاکر گفتگو کی ہے میں بھی ہندوستان سے تعلق رکھتاہوں اورشہر بنگلور مسکن ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ کس نوعیت کاتھا۔قانونی ماہرین مانتے ہیں یہ کہ پنچائت کے فیصلوں سے بھی زیادہ گیاگزرافیصلہ تھا۔اس میں رام کو جوبقول ڈاکٹر امبیڈکر صرف ایک خیالی داستان ہے ایک زندہ کردار بلکہ صاحب جائیداد ماناگیاہے عدلیہ کااس سے بڑامذاق اورکیاہوگا۔
دوسری بات یہ کہ فیصلہ میں اگرچہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی بات کی گئی لیکن جہاں اصل جھگڑا تھاوہ زمین ہندئوں کو دے دی گئی ۔اس کے بعد پورے ہندوستان میں شوروغل ہونے لگاکہ ہندوستان میں اس فیصلہ پر کہیں کوئی تشدد نہیں ہوا۔ سماج بالغ نظر ہوگیاہے اوریہ اور وہ فلاں ڈھکاں۔ہم توتب مانتے جب فیصلہ اس کے برخلاف آتا اوردیکھتے کہ سماج کتنابالغ نظرہواہے اورلوگوں میں روادی اوراہنساکتنی پروان چڑھی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ آگے کی مساجد کاکیاہوگا۔
جہاں تک میراخیال ہے کسی اورمسجد کے ساتھ شاید یہ لوگ اب ایسانہ کرسکیں کیوں کہ اب وہ دورنہیں جب کہ صرف ایک دوردرشن ہوتاتھا اوروہ صرف برسراقتدر پارٹی کے نظریات کا درشن بے چاری عوام کو کرایاکرتاتھا۔اب میڈیاآزاد اورتیز گام ہے اور ایسے کسی واقعہ کے بعد اس کی شبیہ بہت تیزی سے متاثرہوگی۔
حیدرآبادی کہتے ہیں کہ اب بھگواپارٹی کا زوال ہورہاہے یہ ایک ناقص اندازہ ہے ۔جس طرح وہ لوگ ہرمحکمہ میں اپنااثرونفوذ پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اس سے شاید ہی کوئی واقف ہو ۔آپ صرف اتنادیکھئے کہ انڈین آرمی میں انٹلی جنس کے شعبہ سے وابستہ اونچے عہدے پر فائزکرنل پروہت بھگوادھاریوں کاآلہ کار تھا اورکون کہہ سکتاہے کہ کرنل پروہت اکیلاہے۔
مسلمانوں کیلئے جوچیز ضروری ہے وہ یہ کہ صبر اورتقویٰ اختیار کریں یہی ان کے تمام مسائل کے حل کی شاہ کلید ہے قرآن نے بھی اشارہ کیاہے وان تصبرواوتتقوا لایضرکم کیدھم شیئا
 
Top